Super User
جارحين اور تسلط پسندوں کے مقابلے ميں مزاحمت پر زور
تہران کي مرکزي نماز جمعہ کے خطيب نے کہا ہے کہ جارحين اور تسلط پسندوں کے مقابلے ميں پوري قوت سے دفاع اور مزاحمت کے علاوہ اور کوئي چارہ نہيں ہے -
2012/11/29) ) - تهران کي مرکزي نماز جمعہ کے خطيب حجت الاسلام کاظم صديقي نے غزہ کي آٹھ روزہ جنگ ميں تحريک مزاحمت کي کاميابي کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ ميں فلسطيني قوم کي کاميابي نے ثابت کرديا کہ غاصب صيہوني حکومت ، طاقتور ہونے کے دعووں کے برخلاف کتني کمزور ہے -
انہوں نے تحريک مزاحمت کے ميزائلوں کے مقابلے ميں صيہوني حکومت کے آہني گنبد نامي اينٹي ميزائل سسٹم کي ناتواني کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطين کي تحريک مزاحمت کے ميزائلي حملوں نے ثابت کرديا کہ صيہوني حکومت کا اينٹي ميزائل سسٹم صيہونيوں کي حفاظت نہيں کرسکتا-
حجت الاسلام صديقي نے نے غزہ پٹي ميں صيہوني حکومت کے مقابلے ميں تحريک مزاحمت کي کاميابي کو فلسطيني قوم کي دليري و شجاعت اور توانائي کا مظہر نيز صيہوني حکومت کے لئے عبرتناک سبق قرار ديا اور کہا کہ يہ کاميابي صيہوني حکومت کے مقابلے ميں تمام مسلمانوں کي کاميابي ہے -
انہوں نے آٹھ روزہ جنگ کے دوران غزہ ميں بے گناہ فلسطينيوں کے قتل عام کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل عام نے ثابت کرديا کہ انساني حقوق کے دفاع کے دعويدار بين الاقوامي ادارے اپني ذمہ داريوں اور فرائض کي انجام دہي کے تعلق سے کتنے جھوٹے ہيں -
تہران کے خطيب جمعہ نے آٹھ روزہ جنگ ميں اسلامي جمہوريہ ايران کي جانب سے فلسطيني قوم کي بھر پور حمايت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامي جمہوريہ ايران علاقے ميں جارحين کے مقابلے ميں مزاحمت کا مرکز ہے -
انہوں نے اسي طرح شام کي قوم کے خلاف دشمنوں کي سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صيہوني حکومت کے مقابلے ميں تحريک مزاحمت کے مخالفين شام ميں سرگرم دہشتگردوں کے لئے اسلحے کي سپلائي اور ہر قسم کي مدد کرکے درحقيقت علاقے ميں تحريک مزاحمت کي حمايت کے ايک مرکز کو ختم کرنا چاہتے ہيں
حضرت ابوالفضل العباس کا مقتل امام خامنہ ای کے زبانی

میں آج چند جملے مصائب پڑھنا چاہوں گا۔ آپ تھوڑی دیر پہلے سے موجود ہیں؛ مصائب پڑھے گئے اور آپ نے بھی سن لئے۔ ان دنوں ساری مجالس و محافل میں ذکر مصائب ہے۔ آج تاسوعا کا دن ہے اور رسم یہ ہے کہ اس دن ذاکرین اور خطباء اور نوحہ خواں حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے مصائب پڑھتے ہیں۔
جس طرح کے تمام شواہد و قرائن سے ظاہر ہوتا ہے، جنگجو مردوں میں سے ـ طفل شش ماہہ اور گیارہ سالہ بچے کے سوا ـ اباالفضل العباس سب سے آخری فرد ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل جام شہادت نوش کرگئے ہیں اور یہ شہادت بھی ایک عظیم عمل ـ یعنی خیام اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے لب تشنہ باسیوں کی خاطر پانی لانے ـ کی راہ میں واقع ہوئی ہے۔
ائمہ اطہار علیہم السلام سے حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی شان میں وارد ہونے والی زيارات اور کلمات میں دو جملوں پر زيادہ تاکید ہوئی ہے: ایک یہ کہ ابوالفضل العباس کی بصیرت کہاں ہے؟ سیدالشہداء کے سارے انصار و اعوان بابصیرت تھے؛ تاہم ابوالفضل (ع) نے بصیرت کا زيادہ مظاہرہ کیا۔ آج ہی کی مانند تاسوعا کی شام کو ایک موقع میسر آیا کہ آپ ان مصائب و آلام سے نجات پائیں یعنی دشمن کی طرف سے لوگ آئے اور آپ کے لئے ایک امان نامہ ساتھ لائے اور کہا: ہم آپ کو امان دیتے ہیں؛ تو آپ نے ایسا جوانمردانہ طرز عمل اپنایا کہ دشمن اپنی تجویز پر نادم ہوکر چلا گیا۔ کہا: میں حسین (علیہ السلام) سے جدا ہوجاؤں؟ وائے ہو تم پر (خرابی ہو تم پر)، اُف ہو تم پر اور تمہارے امان نامے پر۔
آپ کی بصیرت کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ نے اپنے تین سگے بھائیوں کو ـ جو آپ کے ساتھ کربلا آئے تھے ـ ہدایت کی کہ میدان کارزار میں چلے جائیں اور وہ تینوں چلے گئے حتی کہ شہید ہوگئےآپ جانتے ہیں کہ یہ چار بھائی ایک ماں سے تھے: سب سے بڑی ابوالفضل العباس تھے اور پھر جعفر، عبداللہ اور عثمان۔ ایک انسان اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے حسین بن علی (ع) پر قربان کرے؛ اپنی داغ دیدہ ماں کی فکر بھی نہ کرے کہ کہہ دیں کہ کم از کم بھائیوں میں سے ایک چلا جائے تا کہ والدہ کو ڈھارس ہو؛ اپنے چھوٹے بچوں کی سرپرستی کی فکر میں بھی نہ ہو جو اس وقت مدینہ میں تھے؛ یہ وہی بصیرت ہی ہے
امام حسين (ع) كى سوانح عمري
اسلام كے تيسرے رہبر كى اور ان كى اولاد و اصحاب كى دشت كربلا ميں جاں بازي، فداكارى اور شہادت آپ كى زندگى كا اہم ترين واقعہ ہے_ جس نے عقل و خرد كو جھنجوڑ كر ركھ ديا، تمام واقعات كے اوپر چھاگيا_ اور ہميشہ كے لئے تاريخ كے صفحات پر زندہ جاويد و پائيدار بن گيا_ دنياميں پيش آنے والا ہر واقعہ_ چا ہے وہ كتنا ہى بڑا اور عظيم كيوں نہ ہو _ اس كو تھوڑے ہى دن گذرنے كے بعد زندگى كا مدّ و جزر فراموشى كے سپرد كرديتا ہے اور مرور زمانہ اس كے فروغ ميں كمى كرديتاہے اور اوراق تاريخ پر سوائے اس كے نام كے كچھ باقى نہيں بچتا_
ليكن بہت سے واقعات ايسے ہيں كہ زمانہ گذرجانے كے بعد بھى ان كى عظمت گھٹتى نہيں اللہ والوں كى تاريخ اور وہ انقلابات جو آسمانى پيغمبروں اور الہى عظيم رہبروں كے ذريعہ آئے ہيں، يہ تمام كے تمام واقعات چونكہ خدا سے متعلق و مربو ط ہيں اس لئے ہرگز بھلائے نہيں جاسكيں گے اور مرور زمانہ كا كوئي اثر قبول نہيں كريں گے_
حضرت حسين (ع) بن على (ع) كى تحريك اور كربلا كا خونين حادثہ و انقلاب ،انسانى معاشرہ كى ايك اہم ترين سرگذشت ہے، اس حقيقت پر تاريخ و تجربہ روشن گواہ ہيں_
عاشور كى خون آلود تاريخ كے تجزيہ ميں دوسرے مطالب سے پہلے چند مطالب توجہ كے قابل اور تاريخى لحاظ سے زبردست تحقيق كے محتاج ہيں جنہيں اختصار سے بيان كيا جارہا ہے:
1) امام حسين (ع) كے قيام كے اسباب
2) امام حسين (ع) كى تحريك و انقلاب كى ماہيت
3) امام حسين (ع) كے انقلاب كے اثرات و نتائج
انقلاب حسين (ع) ابن على (ع) كا اہم اور واضح سبب ايك انحرافى سلسلہ تھا جو اس وقت اسلامى حكومت كى مشينرى ميں رونما ہوچكا تھا _ اور لوگوں ميں اموى گروہ كے تسلط كى بنا پر دين سے انحراف اور اجتماعى ظلم و ستم مكمل طور پر نماياں تھا_ يزيد كے خلاف امام حسين (ع)كا قيام اس بناپر تھا كہ وہ اموى حكومت كا مظہر تھا، وہ حكومت جو ملت كے عمومى اموال كى عياشي، رشوت خورى ، با اثرا فراد كے قلوب كو اپنى طرف كھينچنے اور آزادى دلانے والى تحريكوں كو ختم كرنے ميں خرچ كرتى تھي، وہ حكومت جس نے غير عرب مسلمانوں كا جينا دشوار كر كے ان كو ختم كردينے كى ٹھان لى تھى اور جس نے عرب مسلمانوں كے شيرازہ اتفاق كو بكھير كر ان كے درميان نفاق اور كينہ كا بيج بوديا تھا _
وہ حكومت جس نے اموى خاندان كے مخالفين كو جہاں پايا وہيں قتل كرديا_ ان كے مال كو لوٹ ليا، وہ حكومت جس نے قبائلى عصبيت كى فكر كو برانگيختہ كرديا مسلمانوں كے اجتماعى وجود كيلئے خطرہ بن گئي تھى _
وہ حكومت جو كہ اسلام كے پيغام كے تحقق، قوانين و حدود اور اجتماعى عدالت كے اجراء كى بجائے ايك ايسے پليد شخص كے ہاتھ كا كھلونہ تھى جو كہ محمد(ص) كى رسالت اور ان پر وحى كے نزول كا انكار كر رہا تھا_ يزيد اپنے دادا ابوسفيان كى طرح تھا ، جس كا كہنا تھا '' اب حكومت بنى اميہ كے قبضہ ميں آگئي ہے خلافت كو گيند كى طرح گھماتے رہو اور ايك دوسرے كى طرف منتقل كرتے رہو ... ميں قسم كھا كر كہتا ہوں كہ نہ كوئي جنّت ہے نہ جہنّم'' (1) يزيد بھى ان تمام باتوں كو ايك خيال سے زيادہ نہيں سمجھتا تھا_ (2)
امام حسين (ع) نے ايسے حالات ميں انقلاب كے لئے ماحول كو سازگار پايا آپ(ع) نے خود اس وصيت ميں جو اپنے بھائي محمد حنفيہ كو كى تھي، اپنے قيام كے بارے ميں لكھا كہ '' ميرے قيام كى وجہ ہوا و ہوس اور بشرى ميلانات نہيں ہيں ، ميرا مقصد ستمگرى اور فتنہ و فساد پھيلانا نہيں ہے _ بلكہ ميرا مقصد تو اپنے جد رسول (ص) خدا كى امت كى خراب حالت كى اصلاح كرنا ہے_ ميرا مقصد امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ہے ميں چاہتا ہوں كہ اپنے جد رسول خدا كى سيرت اور اپنے باپ(ع) على كے راستہ پرچلوں ...'' (3)
اسى طرح حر بن يزيد رياحى سے ملاقات كے بعد اپنى ايك تقرير ميں آپ(ع) نے اپنے قيام كى تصريح كى اور فرمايا : '' اے لوگو پيغمبر خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جو كسى ايسے ظالم فرمان روا كو ديكھے جو حرام الہى كو حلال شمار كرتا ہوخدا سے كيے گئے عہد و پيمان كو توڑتا ہو اس كے پيغمبر كى سنت كى مخالفت كرتاہو، خدا كے بندوں پرظلم و ستم كرتا ہو ا ور ان تمام باتوں كے باوجود زبان و عمل سے اپنى مخالفت كا اظہار نہ كرے تو خدا اس كو اسى ظالم فرمان روا كے ساتھ ايك ہى جگہ جہنّم ميں ركھے گا_
اے لوگو انہوں نے ( يزيد اور اس كے ہمنواؤں نے) شيطان كى اطاعت كا طوق اپنى گردن ميں ڈال ليا ہے اور خدائے رحمن كى پيروى ترك كردى ہے فساد پھيلاركھا ہے اور قوانين الہى كو معطل كرركھا ہے، بيت المال كو انہوں نے اپنے لئے مخصوص كرليا_ حلال خدا كو حرام اور حرام الہى كو حلال سمجھ ليا ہے_ ميں اسلامى معاشرہ كى قيادت كے لئے تمام لوگوں سے زيادہ حق دار ہوں اور ان مفاسد سے جنگ اور ان خرابيوں كى اصلاح كے لئے سب سے پيش پيش ہوں ...'' (4)
امام حسين (ع) نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كيوں نہيں كيا؟
ممكن ہے كہ يہاں يہ سوال پيش آئے كہ معاويہ كے زمانہ ميں متعدد عوامل ايسے پيدا ہوگئے تھے جو قيام و انقلاب كا تقاضا كرتے تھے اور حسين(ع) ابن على (ع) ان تمام عوامل سے آگاہ تھے اور آپ نے ان خطوط ميں جو معاويہ كے جواب ميں لكھے تھے ان اسباب كو بيان بھى كيا ہے_ (5) پھر آپ (ع) نے معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرنے سے كيوں گريز كيا؟
جواب: تمام وہ عوامل و مسائل جنہوں نے امام حسن (ع) كو معاويہ سے صلح كرنے كے لئے مجبور كيا وہى عوامل امام حسين (ع) كے لئے بھى قيام سے باز رہنے كا سبب بنے_ (6) عراقى معاشرہ پر مسلط حاكم كى حقيقت كو پہچاننے ميں امام حسين (ع) اپنے بھائي حسن (ع) سے كم نہ تھے_ وہ بھى اپنے بھائي كى طرح لوگوں كى كاہلى اور اسلامى معاشرہ كى افسوسناك صورت حال ديكھ رہے تھے كو اس وقت آپ نے عراق كے لوگوںقيام كرنے كى ترغيب دلانے كے بجائے عظيم مقصد كے لئے آمادہ اور مستعد كرنے كو ترجيح دي_
عراق كے شيعوں نے ايك خط ميں امام حسين (ع)سے درخواست كى كہ وہ معاويہ كے خلاف قيام كرنے كے سلسلہ ميں ان كى قيادت كريں_ حسين ابن على (ع) نے موافقت نہيں كى اور جواب ميں لكھا:
'' ... ليكن ميرى رائے يہ ہے كہ انقلاب كا وقت نہيں ہے جب تك معاويہ زندہ ہے، اپنى جگہ بيٹھے رہو_ اپنے گھر كے دروازوں كو اپنے لئے بندركھو اور اتہام كى جگہ سے دور رہو _'' (7)
معاويہ اور يزيد كى سياست ميں فرق
معاويہ كے زمانہ ميں امام حسين (ع) كا انقلاب برپا كرنے كے لئے نہ اٹھنے اور يزيد كے زمانہ ميں اٹھ كھڑے ہونے كا اصلى سبب ان دونوں كى سياسى روش كے اختلاف ميں ڈھونڈھنا چاہيے_
دين و پيغمبر (ص) كے تضاد ميں معاويہ كى منافقانہ روش بہت واضح اور اعلانيہ تھي_ وہ اپنے كوصحابى اور كاتب وحى كہتا تھا اور خليفہ دوم كى ان پر بے پناہ توجہ اور عنايت تھي، اس كے علاوہ ان اصحاب پيغمبر(ص) كى اكثريت كو جن كى لوگ تعظيم و احترام كرتے تھے ( جيسے ابوہريرہ، عمرعاص، سمرة، مغيرہ بن شعبہ و غيرہ ...) كو حكومت و ولايت او رملك كے تمام حساس كاموں كى انجام دہى كے لئے مقرر
كيا تا كہ لوگوں كے حسن ظن كا رخ اپنى طرف موڑليں ، لوگوں كے درميان صحابہ كے فضائل اور ان كے دين كے محفوظ رہنے كى بہت سى روايتيں اور ايسى روايتيں_ كہ وہ جو بھى كريں معذور ہيں _ گھڑ لى گئيں ، نتيجہ ميں معاويہ جو كام بھى كرتا تھا اگر وہ تصحيح او ر توجيہ كے قابل ہوتا تھا تو كيا كہنا ورنہ بہت زيادہ بخششوں اور عنايتوں كے ذريعہ معترض كے منہ كو بند كرديا جاتا تھا اور جہاں يہ وسائل موثر نہيں ہوتے تھے انہيں خواہش كے پرستاروں كے ذريعہ ان كو ختم كرديا جاتا تھا_ جيسا كہ دسيوں ہزار حضرت على (ع) كے بے گناہ چاہنے والوں كے ساتھ يہى رويہ اختيار كيا گيا:
معاويہ تمام كاموں ميں حق كا رخ اپنى طرف موڑ لينا چاہتا تھا اور امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ظاہرى احترام كرتا تھا وہ بہت زيرك اور دور انديش تھا اسے يہ معلوم تھا كہ حسين ابن على (ع) كا انقلاب اور ان كا لوگوں كو قيام كے لئے دعوت دينا ميرى پورى حكومت اور اقتدار كے لئے خطرہ بن سكتا ہے_ اس لئے كہ اسلامى معاشرہ ميں حسين (ع) كى عظمت او ران كے مرتبہ سے معاويہ بخوبى واقف تھا_
اگر حسين (ع) ابن على (ع) معاويہ كے زمانہ ميں قيام كرتے تو اس بات كا قوى امكان تھا كہ معاويہ آپ (ع) كے انقلاب كو ناكام كرنے كے لئے ايسى روش اختيار كرتا كہ جو اسى جگہ كامياب ہوجاتى اور امام (ع) كے انقلاب كو عملى شكل دينے سے پہلے ہى زہر كے ذريعہ شہيد كرديا جاتا اور اس طرح معاويہ اپنے كو خطرہ سے بچاليتا جيسا كہ حسن (ع) ابن على (ع) ، سعد ابن وقاص اور مالك اشتر كو قتل كرنے ميں اس نے يہى رويہ اختيار كيا تھا_
ليكن يزيد كى سياسى روش اس كے باپ كى سياسى روش سے كسى طرح بھى مشابہ نہ تھى وہ ايك خود فريب اور بے پروا نوجوان تھا اس كے پاس زور زبردستى كے علاوہ كوئي منطق نہ تھى وہ عمومى افكار كو ذرہ برابر بھى اہميت نہيں ديتا تھا_
وہ اعلانيہ طور پر اسلام كى مقدس باتوں كو اپنے پيروں كے نيچے روند تا تھا اور اپنى خواہشات پورى كرنے كے لئے كسى چيز سے باز نہيں رہتا تھا، يزيد كھلے عام شراب پيتا، راتوں كو نشست اور بزم ميں بادہ خوارى ميں مشغول رہتا اور گستاخى سے كہتا تھا:
'' اگر دين احمد ميں شراب حرام ہے تو اس كو دين مسيح بن مريم ميں پيو'' (8)
يزيد مسيحيت كى تعليمات كى اساس پر پلا تھا اور وہ دل سے اس كى طرف مائل تھا_ (9)
اور دين اسلام سے اس كا كوئي ربط نہيں تھا جبكہ اسلام كى بنياد پروہ لوگوں پر حكومت كرناچاہتا تھا_ اس طرح سے جو نقصانات اسلام كو معاويہ كے زمانہ ميں پس پردہ پہنچ رہے تھے اب وہ يزيد كے ہاتھوں آشكار طور پرپہنچ رہے تھے_
اپنى حكومت كے پہلے سال اس نے حسين ابن على (ع) اور ان كے اصحاب كو شہيد كيا ان كے اہل بيت كو اسير كيا_
حكومت كے دوسرے سال اس نے پيغمبر(ص) كے شہر _مدينہ_ كے لوگوں كے مال اور ناموس كو اپنے لشكر والوں پر مباح كرديا اور اس واقعہ ميں چارہزار آدميوں كو اس نے قتل كيا_
تيسرے سال خانہ كعبہ _ مسلمانوں كے قبلہ_ پر اس نے منجنيق سے سنگ بارى كى _
ايسے سياسى اور اجتماعى حالات ميں حسين (ع) ابن على (ع) نے انقلاب كے لئے حالات كو مكمّل آمادہ پايا_ اب بنى اميہ كے مزدور، عمومى افكار كو قيام حسين(ع) ابن علي(ع) كے مقاصد كے بارے ميں بدل كر اس كو '' قدرت و تسلط كے خلاف كشمكش'' كے عنوان سے نہيں پيش كرسكتے تھے اس لئے كہ بہت سے لوگ يہ ديكھ رہے تھے كہ حكومت كى رفتار دينى ميزان اور الہى تعليمات كے خلاف ہے_
اور يہ بات خود مجوّز تھى كہ حسين (ع) ابن على (ع) اپنے سچے اصحاب كو جمع كريں اور حكومت كے خلاف قيام كريں ايسا قيام جس كا مقصد اسلام اور سيرت پيغمبر(ص) كو زندہ كرنا تھا نہ كہ خلافت اور قدرت حاصل كرنا_
انقلاب كى ماہيت
امام حسين (ع) كى تحريك ميں ايك اہم مسئلہ اس كى كيفيت و ماہيت كا تجزيہ ہے_ آيا امام حسين (ع) كا اقدام ايك انقلاب تھا يا ايك اتفاقى دھماكہ تھا؟ كچھ لوگ جو انسانى مقدس واقعات كو ہميشہ محدود اور مادى ترازو پر تولتے ہيں وہ قيام كربلا كى تفسير و تعبير اپنى نادانى اور جہالت كى بناء پر ايك حادثاتى دھماكے سے كرتے ہيں_(10) اس سلسلہ ميں كہتے ہيں كہ كبھى مادى واقعا ت ميں تدريجى تغيرات اس حد تك پہنچ جاتے ہيں كہ وہ واقعہ ديگر تغيرات كو قبول نہيںكرسكتا، انجام كار جزئي تغيرات ايك نئي چيز كو وجود ميں لاتے ہيں يہ قانون، معاشرہ اور تاريخ ميں حاكم ہے_ معاشرہ ايك حدتك ظالموں كے ظلم كو قبول كرتا ہے جب وہ اس مرحلہ ميں پہنچ جاتا ہے كہ اب اس سے قبوليت كى توانائي ختم ہوجاتى ہے تو نتيجہ ميں حكومت كرنے والے نظام كے خلاف ايك دھماكہ كى شكل ميں انقلاب آجاتا ہے _
اس بنياد پر لوگ كہتے ہيں كہ : '' اميرالمؤمنين(ع) كى شہادت كے بعد اموى مشينرى كا مسلمان ملت پر دباؤ بڑھ گيا تھا اور معاويہ كے مرنے كے بعد اس كے بيٹے يزيد نے اس دباؤ كو دوگنا كرديا تھا اس فشار كى بناپر حسين (ع) كے صبر كا پيمانہ لبريز ہوگيا اور ان كا قيام اسى دھماكہ كا پيش خيمہ تھا_
امام حسين (ع) كى تحريك كے بارے ميں ايسے فيصلے كا سوتا مادى تجزيہ كرنے والوں كے عقيدہ سے پھوٹتا ہے اور اگر وہ قيام امام حسين (ع) كى تاريخ كے متن كو ملاحظہ كرتے اور حقيقت بين اورحق كے شيدائي ہوتے تو ايسا فيصلہ نہ كرتے_
امام حسن (ع) كى شہادت كے بعد سے معاويہ كى موت تك كے امام حسين (ع) كے اقوال اوروہ خط و كتابت جو ان كے اور معاويہ كے درميان ہوئي ہے، جس ميں امام (ع) كا موقف واضح طور پر معاويہ كے خلاف تھا اور آپ معاويہ كو مورد سوال قرار ديتے اور اس كے خلاف قيام كى دھمكى ديتے تھے_
اسى طرح وہ تقريريں جو مختلف موقعوں پر امام حسين (ع) نے كى ہيں اگر ان سب كو ديكھا جائے تو يہ سارى چيزيں ہم كو اس بات كا پتہ ديتى ہيں كہ ابوعبداللہ الحسين (ع)كى وہ تحريك بہت منظم تھى جس كا نقشہ آزاد منش افراد كے سردار كھينچ رہے تھے اور امت كو اس راستہ پر اس نقشہ كے مطابق عمل كرنے كى دعوت دے رہے تھے اس كے بعد اب قيام سيد الشہداء _كو ايك ناگہانى حادثہ يا دھماكہ كيسے كہا جاسكتا ہے ... اگر يہ انقلاب ايك انجانا دھماكہ ہوتا تو اسے بہتر آدميوں ميں منحصر نہيں رہنا چاہئے تھا_ بلكہ اس كو معاشرہ كے تمام افراد كو گھير لينا چاہيے تھا امام حسين (ع) كے آگاہانہ انقلاب كو بتانے والے تاريخى قرائن كا ايك سلسلہ اب پيش كيا جارہا ہے _
يزيد كيلئے بيعت ليتے وقت امام(ع) كى تقرير
لالچ اور دھمكى كے ذريعہ معاويہ نے يزيد كى ولى عہدى كے لئے اہم شخصيتوں كے ايك گروہ كى موافقت حاصل كرلى تھى جب حسين ابن على (ع) كے سامنے بات ركھى گئي تو آپ نے اپنى ايك تقرير ميں فرمايا:
'' تم نے اپنے بيٹے كے كمال اور تجربہ كارى كے سلسلہ ميں جو تعريف كى وہ ہم نے سُني، گويا تم ايسے آدمى كے بارے ميں بات كررہے ہو جس كو ياتو تم نہيں پہچانتے ہو يا اس سلسلہ ميں فقط تم كو علم ہے_جيسا چاہيے تھا يزيد نے ويسا ہى اپنے كو پيش كيا اور اس نے اپنے باطن كو آشكار كرديا_ وہ كتوں سے كھيلنے والا كبوتر باز اور ہوس پرست شخص ہے جس نے اپنى عمر ساز و آواز اور عيش و عشرت ميں گذارى ہے_ كياہى اچھا ہوتا كہ تم اس كام سے صرف نظر كرتے اور اپنے گناہ كے بوجھ كو اور گراں بار نہ بناتے (11) ''
معاويہ كے نام امام حسين (ع) كا خط
امام حسين (ع)نے ايك مفصل خط معاويہ كو لكھا اور اس كے بڑے بڑے جرائم كويا دلايا ، جن ميں سر فہرست پرہيزگار، بزرگ اور صالح اصحاب اور شيعيان على _كا قتل تھا، فرمايا:
'' اے معاويہ تمہارا كہنا ہے كہ ميں اپنى رفتار و دين اور امت محمد(ص) كا خيال ركھوں اور اس امت ميں اختلاف و فتنہ پيدا نہ كروں_ ميں نہيں سمجھتا كہ امت كے لئے تمہارى حكومت سے بڑا كوئي اور فتنہ ہوگا_ جب ميںاپنے فريضہ كے بارے ميں سوچتا ہوں اور اپنے دين اور امت محمد(ص) پر نظر ڈالتاہوں تو اس وقت اپنا عظيم فريضہ يہ سمجھتا ہوں كہ تم سے جنگ كروں ...''
پھر آخر ميں فرمايا:
'' تمہارے جرائم ميں غير قابل معافى ايك جرم يہ ہے كہ تم نے اپنے شراب خوار اور كتوں سے كھيلنے والے بيٹے كے لئے لوگوں سے بيعت لى ہے(12) _''
منى ميں امام حسين (ع) كى تقرير
معاويہ كى حكومت كے آخرى زمانہ ميں سرزمين منى پر نو سوسے زيادہ افراد كے مجمع ميں، جس ميں ، بنى ہاشم اور اصحاب رسول (ص) ميں سے بزرگ شخصيتيں شامل تھيں_ امام حسين(ع) نے
ملك پر حكومت كرنے والے نظام كے بارے ميں استدلالى بيان كے ذريعہ بحث كى اور ان سے يہ خواہش كى كہ ان كى باتوں كو دوسروں تك پہنچائيں اور اپنے شہروں ميں واپس پہنچ جانے كے بعد اپنے نظريہ سے امام(ع) كو مطلع كريں_ امام حسين (ع)نے معاويہ كو اپنى تنقيد كا نشانہ بناتے ہوئے اپنى تقرير كا آغاز كيا اور ملت اسلاميہ خصوصاً پيروان على (ع) كے بارے ميں معاويہ جن جرائم كا مرتكب ہوا تھا كو ياد دلايا 13_
عراق كى طرف روانگى سے پہلے امام حسين(ع) كى تقرير
آٹھ ذى الحجہ كو عراق روانگى سے پہلے امام حسين (ع)نے لوگوں كے ايك مجمع ميں حج نہ كرنے اور عراق كى طرف جانے كى وضاحت كى اور فرمايا:
'' ايك دلہن كے گلے كے ہار كى طرح موت انسان كى گردن سے بندھى ہوئي ہے ميں اپنے بزرگوں كا اس طرح مشتاق ہوں جس طرح حضرت يعقوب (ع) حضرت يوسف كے مشتاق تھے_ ميں يہيں سے اس جگہ كا مشاہدہ كر رہا ہوں جہاں ميں شہادت پاؤں گا اور بيابانى بھيڑيے ميرے بدن كے ٹكڑے ٹكڑے كرديں گے'' پھر فرمايا:'' جو لوگ اس راستہ ميں خون دينے اور خدا سے ملاقات كرنے كے لئے آمادہ ہيں وہ ميرے ساتھ آئيں ميں انشاء اللہ صبح سويرے روانہ ہو جاؤں گا 14_
كيا ان تمام تقريروں، كربلا ميں شب عاشور اپنے اصحاب كو رخصت كر دينے اور بيعت سے چشم پوشى كرنے كے باوجود يہ كہنا روا ہے كہ امام (ع) كے قيام كو ايك ناگہانى دھما كہ سمجھ ليا جائے؟ وہ ليڈر جو لوگوں كے غم و غصّہ اور ناراضگى سے فائدہ حاصل كرنا چاہتا ہو كيا وہ ايسى باتيں زبان پر لاسكتا ہے_
انقلاب كے اثرات و نتائج
دوسرا اہم مسئلہ يہ ہے كہ كيا حسينى (ع) انقلاب اس وقت كے معاشرہ كو كوئي فائدہ پہنچا كر ضرورى كاميابى حاصل كر سكا يا دنيا كے بہت سے شكست خوردہ انقلابات كى طرح ناگہانى طور پر شعلہ ور ہوا اور پھر بجھ كر رہ گيا؟
عاشور كے انقلاب كے اثراب كو سمجھنے كے لئے ہم فورى يقينى كاميابى يا حكومت پر قبضہ اور قدرت حاصل كر لينے كى ( منطق) سے ماوراء ہو كر ديكھيں، اس لئے كہ وہ دلائل موجود ہيں جو اس بات كا پتہ ديتے ہيں كہ ابو عبداللہ الحسين(ع) اس سرنوشت سے آگاہ تھے جس كا وہ انتظار كر رہے تھے_ اس بنا پر فورى كاميابى قيام حسينى (ع) كا مقصد نہيں تھي_ آپ جانتے تھے كہ ان حالات ميں فورى طور جنگى كاميابى ممكن نہيں ہے_
ان مطالب كے مجموعہ سے يہ پتہ چلتا ہے كہ ہم كو انقلاب حسينى (ع) سے ايسے نتائج كى توقع نہيں كرنى چاہيے جو عام طور پر سارے انقلابات سے حاصل ہوتے ہيں بلكہ ہم كو آپ كے انقلاب كے اثرات و نتائج كو مندرجہ ذيل باتوں ميں ڈھونڈنا چاہئے:
1_ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا اور زمانہ جاہليت كى بے دينى و الحاد كى اس روح كو واضح كرنا جو حكومت اموى كے، مخالف اسلام اعمال كى توجيہ كرتى تھي_
2_ ہر ايك مسلمان كے ضمير ميں گناہ كے احساس كو عام كرنا اور اس كو اپنے اوپر تنقيد كرنے كى حالت ميں تبديل كر دينا تا كہ اس كى روشنى ميں معاشرہ اور زندگى ميں ہر آدمى اپنى حيثيت كو معين كرے_
3_ اسلامى معاشرہ ميں پھيلنے والى برى باتوں كے خلاف مبارزہ اور جنگ كى روح كو اس غرض سے برانگيختہ كرنا كہ اسلامى قدروں كااعادہ اور اس كا استحكام ہوجائے_
الف _ امويوں كے جھوٹے دينى نفوذ كو ختم كرنا
اموى يہ دكھا نے كے لئے كہ وہ پيغمبر (ص) كے جانشين ہيں اور انكى حكومت، خدا كے تعيين كردہ احكام كے مطابق ہے، لوگوں كے دينى عقائد سے فائدہ حاصل كر رہے تھے اور ان كا مقصد تھا كہ ہر طرح كى ممكنہ تحريك كى پہلے ہى سے مذمت كى جائے اور دين كے نام پر اپنے لئے اس حق كے قائل ہوجائيں اور ہر طرح كے تمّرد كو چاہے وہ اپنى سمجھ سے كتنے ہى حقدار كيوں نہ ہوں، ختم كرديا جائے_
اس غرض سے وہ زبان پيغمبر (ص) سے منسوب جھوٹى حديثوں كے ذريعہ لوگوں كو دھوكہ ديتے _ اس طرح _ لوگوں كا حكومت اموى پر ايسا ايمان ہوگيا تھا كہ وہ اموى حكومت حدود دين سے چاہے جتنى بھى خارج كيوں نہ ہوجائے، لوگ پھر بھى اموى حكومت كے خلاف قيام كو حرام سمجھتے تھے_
امويوں نے اپنے كثيف اعمال پر كس حد تك دين كا پردہ ڈال ركھا تھا اس كو واضح كرنے كے لئے ہم يہاں انقلاب حسيني(ع) سے دو تاريخى نمونے نقل كر رہے ہيں:
1_ ابن زياد نے لوگوں كو مسلم كى مدد سے روكنے كے لئے جو خطبہ ديا اس ميں اس نے كہا:
'' واعتصموا بطاعة اللہ وطاعة ائمتكم '' 15
خدا اور اپنے پيشوا ( ائمہ) كى اطاعت كرو_
2_ عَمر وبن حجّاج زُبيدى _ كربلا ميں اموى سپاہ كے كمانڈروں ميں ايك كمانڈر نے جب ديكھا كہ بعض سپاہى حسين (ع) سے مل كر ان كى ركاب ميں جنگ كر رہے ہيں تو اس نے چلاكر كہا '' اے اہل كوفہ اپنے امير كى اطاعت كرو اور جماعت كے ساتھ رہو اور اس كو قتل كرنے كے سلسلہ ميں اپنے دل ميں كوئي شك نہ آنے دو جو دين سے خارج ہوگيا اور جس نے امام كى مخالفت كي16
ايسے ماحول ميں نقلى دينى نفوذ كو ختم كرنے كے لئے سب سے زيادہ اطمينان بخش راستہ يہ تھا كہ كوئي ايسا شخص اس كے خلاف قيام كرے جو تمام افراد ملت كى نظر ميں مسلّم دينى امتيازات كا حامل ہو تا كہ حكومت اموى كے كريہہ چہرہ سے دينى نقاب اتار كر پھينك دے اور اس كى گندى ماہيت كو آشكار كردے_
ايسا مجاہد فى سبيل اللہ سوائے حسين (ع) بن علي(ع) كے اور كوئي دوسرانہ تھا اس لئے كہ آپ كا دوسروں كے دلوں ميں نفوذ و محبوبيت اور خاص احترام تھا_ انقلاب حسين (ع) كے بالمقابل يزيد كے رد عمل نے اسلام اور اموى حكومت كے درميان حد فاصل كھينچ دى اور اموى حكومت كى حق كے خلاف ماہيت كو روشن كرديا_ جو مظالم بنى اميہ نے حسين (ع) ،ان كے اصحاب اور اہل بيت (ع) پرڈھا ئے تھے اس كى وجہ سے ان كے وہ سارے دينى اور مذہبى رنگ مكمل طور پر اڑگئے جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھا ركھے تھے اور اس كام نے ان كى مخالف دين ماہيت كو آشكار كرديا_
حسين ابن على (ع) نے اپنى مخصوص روش سے امويوں كى دينى پايسى كو خطرہ ميں ڈال ديا انہوں نے جنگ شروع كرنے كے لئے اصرار نہيں كيا اور امويوں كو اس بات كى فرصت دى كہ وہ ان كو اور ان كے اصحاب كو قتل كرنے سے گريز كريں ليكن ان لوگوں كو حسين (ع) اور ان كے اصحاب كا خون بہانے كے علاوہ اور كچھ منظور نہيں تھا_ اور يہى بات امويوں كى زيادہ سے زيادہ رسوائي كا باعث بني_
انہوں نے حسين(ع) كے ساتھ سختى سے كام لے كر در حقيقت اسلام سے جنگ كى اور حسين (ع) ابن على (ع) نے بھى اس بات سے مناسب فائدہ اٹھايا اور ہر مناسب موقع پر اس نكتہ پر تكيہ كيا اور اپنے درخشاں موقف كو مسلمانوں كے سامنے پيش كيا_
ب _ احساس گناہ
انقلاب حسين (ع) كا دوسرا اثر خصوصاً اس كا اختتامى نقطہ تمام افراد ميں احساس گناہ كا پيدا كرنا اور ضمير كى بيدارى تھى جس كے بعد وہ آپ كى مدد كے لئے دوڑ پڑے، ليكن نہيں آئے، گنہگار ہونے كا احساس اور وجدان و عقل كى توبيخ و سرزنش، ان لوگوں كے دلوں ميں جنہوں نے مد د كا وعدہ كر كے مددنہيں كي، اسى كربلا كے عصر عاشور سے ابن زياد كے لشكر كے درميان عامل قوى تھا _ اس احساس گناہ كے دو پہلو ہيں، ايك طرف يہ احساس، گنہگار كو اپنے جرم و گناہ كے جبران پر ابھارتا ہے اور دوسرى طرف ايسے گناہ كے ارتكاب كا سبب بننے والوں كے لئے لوگوں كے دلوں ميں كينہ اور عداوت پيدا كرتا ہے_
ضمير كى بيدارى اورگناہ كا احساس ہى تھا جس نے انقلاب كے بعد بہت سى اسلامى جمعيتوں كو اپنے گناہ كا جبران كرنے كى غرض سے كوششيں كرنے پر ابھارا اور امويوں كے بارے ميں لوگوں كے دلوں ميں زيادہ سے زيادہ كينہ اور عداوت پيدا كيا_
اس وجہ سے واقعہ كربلا كے بعد امويوں كو متعدد انقلابات سے روبرو ہونا پڑ ا ان سب كا سرچشمہ ان كا اصلى سبب انقلاب حسين(ع) ، انقلابى افراد كا امويوں كى مدد سے انكار اور ان سے انتقام لينے كا جذبہ تھا_
امام حسين(ع) كے پس ماندگان كى اسيرى كے زمانہ كى تقريريں بھى اس سلسلہ ميں بہت موثر ثابت ہوئيں_
ج _ روح جہاد كى بيداري
حسين (ع) ابن على (ع) كى شہادت كے بعد جنگ و جہاد كى روح امت اسلامى ميں جاگ اٹھي_ انقلاب سے پہلے انفرادى اور اجتماعى بيماريوں كا ايك سلسلہ، اسلام كے تحفظ كى راہ ميں مسلمانوں كے انقلاب لانے سے مانع تھا_ ليكن امام حسين (ع) كے انقلاب نے، انقلاب كى تمام انفرادى و اجتماعى ركاوٹوں كو توڑ ديا اور اسلام كے پيكر ميں ايك نئي روح پھونك دي_
حسين(ع) بن على (ع) كے انقلاب كے بعد بہت سى ايسى تحريكيں معرض وجود ميں آئيں جن كو اسلامى معاشرہ كے افراد كى پشت پناہى اور حمايت حاصل تھي_ ذيل ميں ہم ان تحريكوں ميں سے چند كا ذكر كريں گے_
1_ شہادت حسينى (ع) كا پہلا براہ راست ردّ عمل پيغمبراكرم (ع) كے ايك صحابى سليمان بن صرد كى قيادت ميں انقلاب، توّابين كے نام سے شہر كوفہ ميں ظاہر ہوا_ اس تحريك ميں بزرگ شيعوں اور اميرالمؤمنين (ع) كے اصحاب ميں سے ايك گروہ نے شركت كي_
توّابين كى تحريك 61 ھ سے شروع ہوئي اور يزيد كى زندگى تك پوشيدہ طور پر لوگوں كو خون حسين (ع) كا بدلہ لينے كے لئے دعوت ديتى رہي_ ان لوگون نے يزيد كے مرنے كے بعد احتى اط اور رازدارى كو ختم كرديا اور اعلانيہ طور پر اسلحہ اور لشكر جمع كركے آمادہ كارزار ہوگئے_ انكا نعرہ '' يالثارات الحسين (ع) '' تھا ان كے قيام كا جو شيوہ تھا اس سے ان كى پاك بازى اور اخلاص كا پتہ چلتا تھا_ 17''
2_ انقلاب توابين كے بعد انقلاب مدينہ شروع ہوا_ حضرت زينب كبرى سلام اللہ عليہا مدينہ واپسى كے بعد انقلاب كى كوشش كرتى رہيں اس طرح كہ مدينہ ميں يزيد كا مقرر كردہ حاكم، مدينہ كے حالات كے خراب ہونے سے خوف زدہ ہوگيا اور جناب زينب (ع) كى كاركردگى كى رپورٹ اس نے يزيد كو بھيجي، يزيد نے جواب ميں لكھا كہ '' لوگوں كے ساتھ زينب (ع) جو رابطہ قائم كر رہى ہيں اس كو منقطع كردو 18''
اسى زمانہ ميں اہل مدينہ كى نمائندگى كرتے ہوئے ايك وفد شام پہنچا اور واپس آنے كے بعد اس نے اہل مدينہ كے مجمع ميں تقرير كى اور يزيد پر ان لوگوں نے تنقيد كى ، ان كى حقائق پر مبنى تقريروں كے بعد اہل مدينہ نے قيام كيا، يزيد كے گور نر كوان لوگوں نے مدينہ سے نكال ديا پھر يزيد كے حكم سے شام كى خون كى پياسى فوج نے شہر مدينہ پر حملہ كرديا اور نہايت سختى اور خباثت كے ساتھ اس نے قيام مدينہ كو كچل ڈالا_ اور لشكر كے سپہ سالار نے تين دن تك مدينہ كے مسلمانوں كى جان، مال اور عزت و آبرو كو اپنے سپاہيوں كے لئے مباح قرار ديا_ 19
اس كے بعد 67 ھ ميں ''مختار ابن ابى عبيدہ ثقفى نے عراق ميں انقلاب برپا كيا اور خون حسين (ع) كا انتقام ليا_
اس طرح مختلف تحريكيں اور انقلابات ايك دوسرے كے بعد رونما ہوتے رہے يہاں تك كہ بنى اميہ كے خاتمہ پر يہ سلسلہ ختم ہوا_
حوالہ جات
1 الاغاتى جلد 6/ 356_
2 مقاتل الطالبين / 120 ،البدايہ والنہايہ / 197_
3 '' ... انى لم اخرج اشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انما خرجت لطلب الاصلاح فى امة جدى صلى اللہ عليہ و آلہ و اريد ان آمر بالمعروف و انھى عن المنكر و اسير بسيرة جدى و ابى على بن ابى طالب ...''(بحار ج 44 / 329 مناقب جلد 4/ 89_
4 ''ان رسول اللہ قال من را ى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم اللہ ناكثاً لعھد اللہ مخالفاً لسنة رسول اللہ يعمل فى عباداللہ بالاثم و العدوان فلم يغير ما عليہ بفعل و لا قول _ كان حقاً على اللہ ان يدخلہ مدخلہ، اَلا وان ھؤلاء قد لزموا طاعة الشيطان و تركو طاعة الرحمن و اظہر الفساد و عطلوا الحدود و استاثروا بالفى و احلوا حرام اللہ و حرموا حلالہ، و انا ا حق من غير ...'' تاريخ طبرى ج / 403 ، كامل ابن اثير ج 4 / 48 مقتل مقوم 218 مقتل ابى مخنف_
5 امام حسين (ع) نے جو خط معاويہ كو لكھا تھا اس كے متن سے آگاہى كے لئے كتاب الامامہ و السياسة ج 1ص155 ص 157 ص 160 ملاحظہ فرمائيں_
6 امام حسن كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق ميں ہم ان اسباب كى طرف اشارہ كرچكے ہيں_
7 اخبار الطوال / 221 ، ثورة الحسين / 161 ، انساب الاشراف بلاذرى ج 3/17 ، 152_
8 فان حرمت يوماً على دينفخذھا على دين المسيح بن مريم(تتمہ المنتہى / 43)
9 سمو المعنى عبداللہ علائي / 59_
10 اس تفسير كى بنياد، ديالكتيك (جدليات) كے اصول چہارگانہ پر استوار ہے جو كميت كو اصل نام كے ساتھ كيفيت ميں تبديل كرتاہے_
11 الامامہ و السياسہ ج1 / 160، 161_
12 الامامہ والسياسہ ج 1 ص 156، انساب الاشراف ج 2 ترجمہ معاويہ ابن ابى سفيان ،بحار الانوارجلد 44/212_122
13 اصل سليم بن قيس /183_186 مطبوعہ نجف_
14 لہوف/41، بحار جلد 44/366_367، مناقب 4/29'' خطّ الموت على ولد آدم َفخَظَّ القلادة على جيد الفتاة وَ ما ا ولہَنى الى اَسلافى اشتى اقَ يَعقُوبَ الى يُوسُف، وَ خُيّرَ ليّ مصرع: اَنَا لا قيہ، كانّى باَوصالى يَتَقَطَّعُہا عَسَلانُ الفَلَوات بَينَ النَّواويس و كَربَلا من كان فينا باذلاً مہجتہ موصّلناً عَلى لقاء اللہ نفسہ فليرحَل معنا فانّى راحل مصبحاً انشاء اللہ _
15 تاريخ طبرى ج 5/368 ، بحار ج 44/348_
16 تاريخ طبرى ج 5/435، كامل ابن اثير ج 4/67_
7 1 انقلاب توابين كے واقعہ كى تفصيل طبرى نے اپنى تاريخ كى جلد 5/ 551 _ 568 پر لكھا ہے_
18 زينب كبرى تاليف جعفر النقدي/ 120، ثورة الحسين تاليف محمد مہدى شمس الدين_
19 طبرى ج 5/482_ كامل ابن اثير ج 4/111_ 113 اور يہ واقعہ تاريخ ميں واقعہ حرّہ كے نام سے مشہور ہے_
مسجد کبود - ایران کے شہر تبریز میں
مسجد جہانشاہ ( ترکی آذربایجانی: Göy Məscid - گوی مچید)، یا مسجد کبود ( گوی مسجد ) ابو مظفر جہانشاہ بن قرایوسف کے آثار میں سے ہے جس کا تعلق قراقویونلو کے ترکمانوں سے ہے اس کی تعمیرکا سلسلہ جہان شاہ بن قرا یوسف قراقویونلو کی بیوی جان بیگم خاتون کی کوشش اور نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔
تاریخی کتب میں اس عمارت کو ( مظفریہ عمارت ) کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ابوالمظفر یعقوب بہادر خان کی خاص توجہ کا مرکز قرارپائی۔
اس دور میں تبریز میں ترقی کی کافی چہل پہل او رونق تھی۔
گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ترک عثمانی سیاحوں کاتب چلبی اور اولیا چلبی اور اسی صدی کے اواخر میں فرانسیسی سیاحوں تارونیہ اور شاردن نے اس مسجد کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔
کاتب چلبی جہان نما تاریخ میں تحریر کرتے ہیں کہ مسجد جہانشاہ کی درگاہ طاق کسری سے بہت بلند وبالا ہے یہ عمارت بڑی عالیشان ہے جس کو خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے گنبد بہت اونچے ہیں۔
یہ ایک پرکشش مسجد ہےجو اس کے اندر داخل ہوگیا پھراس کا دل اس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا ہے
فرانسیسی سیاح میڈم ڈیولافوا لکھتی ہیں:
تبریز میں زیادہ قدیم عمارتیں نہیں ہیں لیکن جو کچھ باقی بچا ہے وہ قابل توجہ ہے اور مسجد کبود اس کا بہترین نمونہ ہے جس کو جہانشاہ قراقویونلو نے پندرہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ زلزلے کی وجہ سے اس کا شاندار گنبد خراب ہوگیا ہے اور دیواروں کا بعض حصہ بھی گر گیا ہے۔
صحن کے دروازے اور مسجد کبود سے ملحقہ عمارات، دبستان جہانشاہ اور آذربائیجان میوزیم کی تعمیر 1337 میں ہوئی اور اس وقت یہ تبریز کے تاریخی اور ثقافتی مراکز میں شامل ہیں جو دیکھنے کے لائق ہیں آذربائجان کے میوزیم کا سب سے اہم حصہ مشروطیت میوزیم کا حصہ ہے۔
قدس کی آزادی کا واحد ذریعہ امام حسین(ع) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے
عراق کی اعلی مجلس اسلامی کے سربراہ سید عمّار حکیم نے کہا ہے کہ دشمنوں کے چنگل سے بیت المقدس کو آزاد کرانے کا واحد راستہ، فرزند رسولۖ حضرت امام حسین(ع) کی بتائی ہوئی راہ و روش پر عمل کرنا ہے۔
انھوں نے تاسوعائے حسینی کے موقع پر دارالحکومت بغداد میں کہا کہ غزہ کی دوسری جنگ میں غاصب صہیورنی ریاست کے مقابلے میں مظلوم فلسطینیوں کی کامیابی نے اس بات کو ثابت کردیا کہ غیور عوام، ظلم و ستم کے مقابلے میں کبھی خاموش نہیں رہتے اور جارح طاقتیں، اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
عراق کی اعلی مجلس اسلامی کے سربراہ عمّار حکیم نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر غاصب صہیورنی ریاست کے وحشیانہ حملوں کے مقابلے میں عالمی برادری اور خاص طور سے عربوں کی خاموشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔ انھوں نے اسی طرح شام کے مختلف گروہوں سے اپیل کی کہ وہ اغیار کی مداخلت سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعہ خود حل کرنے کی کوشش کریں ۔
فلسطين کي مخالفت اور اسرائيل کي حمايت
امريکہ نے ايک بار پھر اقوام ميں متحدہ ميں فلسطين کي رکنيت کي سخت مخالفت کي ہے-
ہمارے نمائندے کے مطابق اقوام متحدہ ميں امريکي نمائندہ سوزن رائس نے کہا ہے کہ انکا ملک بدستور اقوام متحدہ ميں فلسطين کا اسٹيٹس تبديل کئے جانے کا مخالف ہے-
انہوں نے حماس اور اسرائيل کے درميان جنگ بندي کا خير مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ ميں فلسطين کے اسٹيٹس کي تبديلي بقول ان کے تباہ کن نتائج کي حامل ہوگي اور اسي لئے امريکہ اس کي سختي کے ساتھ مخالفت کر رہا ہے-
امريکي عہديدار کا يہ موقف ايسے وقت ميں سامنے آيا ہے جب دنيا کے ايک سو تينتس ملکوں نے اقوام متحدہ ميں فلسطين کي رکنيت کي حمايت کا اعلان کرديا ہے-
ماہرين کا کہنا ہے کہ اسرائيل اور امريکہ کي مخالفت کے باوجود فلسطين کو يونيسکو کي رکنيت دے دي گئي ہے اور اقوام متحدہ ميں باضابطہ رکنيت ملنے کي صورت ميں يہ ملک اپنےبہت سے کھوئے ہوئے حقوق پھر سے حاصل کرنے ميں کامياب ہوجائے گا-
حزب اللہ کا واحد دشمن صیہونی حکومت
لبنان میں عاشورا کے مرکزی جلوس سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے خطاب کیا۔ انہوں نے لاکھوں عزاداروں سے خطاب میں حزب اللہ پر لگائے جانے والے الزامات کو ظالمانہ قراردیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ کا واحد دشمن صیہونی حکومت ہے اور داخلی اختلافات سے ہمیں دشمن کو خوش نہیں کرنا چاہیے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عرب اور اسلامی ملکوں کا دوست اور حامی ہے اور یہ بات عرب اور اسلامی قوموں پر روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے ایران ان کی حمایت کرنے والا اور ان کا دوست ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات غزہ پر صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت اور اس سے پہلے لبنان پر جارحیت میں ثابت ہوچکی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ میں ان لوگوں کو جو صیہونی حکومت کے بجائے ایران کو خطرہ قراردیتے ہیں خبردار کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ شعوری یا لاشعوری طورپر صیہونی حکومت کے مفادات کی راہ میں قدم اٹھارہے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران صیہونی حکومت کے خلاف استقامتی تنظیموں کی حمایت کرنا اپنا دینی اور ایمانی فرض سمجھتا ہے اور صلے میں کچھ نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا فلسطین حزب اللہ کے ایمان و ذمہ داری کا حصہ ہے اور یہ ذمہ داری فلسطین کو صیہونی چنگل سے آزاد کرانے تک باقی رہے گي۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ بعض حلقے غزہ میں استقامت کی کامیابی کو خدشہ دار کرنا چاہتے ہیں لیکن غزہ پرصیہونی حکومت کی آٹھ روزہ جارحیت میں استقامت کو اسی طرح کامیابی ملی ہے جس طرح سے دوہزار چھے میں تینتیس روزہ جنگ میں اور دوہزار آٹھ میں بائيس روزہ جنگ میں ملی تھی۔
سید حسن نصراللہ نے غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ صیہونی حکومت جب غزہ میں فلسطینی استقامت کے میزائیلوں سے لڑکھڑا جاتی ہے تو وہ اس وقت کیا کرے گي جب اس پر چاروں طرف سے ہزاروں میزائيل برسیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت حقیقی معنی میں مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔
ايران کے اسپیکر اور حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی ملاقات
ایران کی مجلس شوراۓ اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی اور حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے صہیونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمہ اور علاقے کی قوموں کے اہداف کے حصول کی واحد راہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نےآج لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ملاقات میں غزہ کے خلاف صہیونی حکومت کی 8 روزہ جنگ میں فلسطین کی تحریک مزاحمت کی حالیہ کامیابی کو سراہتے ہوۓ کہا کہ یہ کامیابی ملت فلسطین کے بلند حوصلہ ، استقامت اور فلسطینی گروہوں کی دلیرانہ جدوجہد کی مرہون منت تھی
ڈاکٹر لاریجانی نے کہا کہ غزہ کی دوسری جنگ میں فلسطینیوں کی حالیہ کامیابی کو جوجنوبی لبنان کی 33 روزہ اور غزہ کی 22 روزہ جنگ کے سلسلے کی ایک کڑی ہےاسں نے علاقے میں استقامت کی طاقت و توانائی اور صہیونی حکومت کی ناتوانی کو آشکارا کر دیا ہے ، حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایرانی حکام اور ملت ایران کو صیونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم اور مزاحمتی گروہوں کی کامیابی کی مبارکباد پیش کرتے ہۓ کہا کہ یہ غاصب صہیونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم اور مزاحمتی گروہوں کا دوسرا غیر معمولی کارنامہ ہے
اسلام آباد ميں ہندوستاني سفارتخانے کي سيکورٹي بڑھانے کا مطالبہ
ہندوستان نے پاکستان سے مطالبہ کيا ہے کہ اس کے سفارتخانے کي سيکورٹي بڑھا دي جائے-
فرانس پريس کے مطابق ہندوستان نے پاکستان سے يہ درخواست اجمل قصاب کو پھانسي کي سزا ديئے جانے پر طالبان پاکستان کي جانب سے انتقامي کاروائي کي دھمکي کے بعد کي ہے -
روئٹرز نے اسلام آباد سے رپورٹ دي ہے کہ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے جمعرات کو دھمکي دي ہے کہ اجمل قصاب کي سزائے موت کا بدلہ لينے کے لئے ہندوستان کے مختلف مراکز پر حملے کئے جائيں گے -
اس دھمکي کے بعد ہندوستان کے وزير خارجہ سلمان خورشيد نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کيا ہے کہ ہندوستاني سفارتخانے اور سفارتي عملے کي سيکورٹي بڑھادي جائے -
دو ہزار آٹھ کے ممبئي دہشتگردانہ حملوں کے دوران گرفتار کئے جانے والے واحد دہشتگرد اجمل قصاب کو، صدر ہند کي جانب سے اس کي رحم کي اپيل مسترد ہونے کے بعد، بدھ کي صبح پھانسي دے دي گئي
رہبر معظم انقلاب اسلامی کا حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اہم پیغام
![]()
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حج کے عظیم موقع پراپنے پیغام میں حج کی پر اسرار و رموز تقریب کو عالم اسلام کے اہممسائل کے بارے میں غور و فکر اور امت مسلمہ کی اصلاح کی راہوں کا جائزہلینے کے لئے بہت ہی اہم موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا: زخم خوردہ طاقتوں کی طرف سےعلاقائی انقلابات کومنحرف کرنے کی کوششیں ، مسلمانوں کی صفوں میں تفرقہ و اختلاف ڈالنے کی خائنانہ تلاش ، مغربی ممالک کا اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ، بعض اسلامی ممالک میں اندرونی جنگ کو شعلہ ورکرنے کی کوششیں اور انقلابی قوموں اور حکومتوں کو تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے خوفزدہ کرنے کی سامراجی طاقتوں کی کوششیں عالم اسلام کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کےپیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمين و صلوات الله و سلامه علي الرسول الاعظم الأمين و علي آله المطهّرين المنتجبين و صحبه الميامين.
رحمت و برکت سے سرشار حج کی بہار پہنچ گئی ہے ایک بار پھر سعادتمند افراد اس نورانی مقام پر اللہ تعالی کا فیض حاصل کرنے کے لئے پہنچ گئے ہیں یہاں کا زمان ومکان تمام حجاج کرام کو معنوی اور مادی ارتقاء کی دعوت دیتا ہے، اللہ تعالی کی فلاح و صلاح کےبارے میں عظیم دعوت پر یہاں ہر مسلمان مرد و عورت دل و زبان سے لبیک کہتا ہے یہاں سب کو اتحاد و یکجہتی ،اخوت و برادری اور پرہیزگاری کی مشق و تمرین کاموقع ملتا ہے، یہاں تعلیم و تربیت کا کیمپ ہے یہ امت مسلمہ کے تنوع، اتحاد و عظمت کی عظیم نمائشگاہ ہے یہ شیطان اور طاغوت کے ساتھ مقابلہ کی اہم جگہ ہے، خداوند حکیم وقدیرنے اس جگہ کو ایسی جگہ قراردیا ہےجہاں مؤمنین اپنے مفادات اور منافع کو مشاہدہ کرسکتے ہیں جب بھی ہم اپنی عقل و خرد کی آنکھوں کو باز کریں گے تو یہ آسمانی وعدہ ہماری انفرادی اوراجتماعی زندگي کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوجائےگا، حج کے شعائرکی خصوصیات دنیا و آخرت کے باہمی تعلق اور فرد واجتماع کےباہمی رابطہ کاشاندار مظہر ہیں، باعظمت و با شکوہ کعبہ، ایک ابدی واستوار محورپر دلوں اور جسموں کا طواف، ایک مبداء و منتہی کے درمیان منظم و مسلسل سعی و تلاش؛ تمام حاجیوں کاباہم عرفات و مشعر کےفلاح و رستگار میدانوں کی جانب اجتماعی کوچ، اوروہ حالت و طراوت جو یہاں دلوں کو نصیب ہوتی ہے سب کا اجتماعی شکل میں شیطانی علامتوں پر حملہ،اوراس پر رمز وراز تقریب میں ہدایت اور معنویت کے حصول کےلئے دنیا کے مختلف گوشوں اور مختلف رنگوں کے لوگوں کا حضور، در حقیقت اس فریضہ کی پرمعنی اور خاص خصوصیات ہیں۔
یہ ایسی تقریب ہے جو دلوں کو یاد خدا سے جلوہ گربناتی ہے اور انسان کے دل کی خلوت و تنہائی کو ایمان وتقوی کے نور سے منور کرتی ہے،اورانسان کو فردی و انفرادی حیثیت سے نکال کر امت مسلمہ کے مجموعہ کے حصہ بنادیتی ہے؛ اسے تقوی کا لباس پہناتی ہے جو اسےگناہ کےزہرآلودہ تیروں سے محفوظ رکھتاہے، انسان کے اندر شیطانوں اورطاغوتوں کا مقابلہ کرنے کا جوش و جذبہ اجاگر کرتی ہے؛ یہاں حج گزار امت اسلامی کی عظیم عظمت کے ایک نمونے کومشاہدہ کرتا ہےاوراس کی توانائی اور ظرفیت کا اسے علم ہوجاتا ہےاوروہ مستقبل کےبارے میں پر امیدہوجاتاہے؛ اس میں نقش آفرینی کےلئے آمادگی کا احساس پیدا ہوجاتاہے،نیزاگر اللہ تعالی کی توفیق اور مدد شامل حال ہو جائے تو پیغمبر اسلام (ص) کی دوبارہ بیعت اور اسلام کےساتھ دوبارہ عہد وپیمان کو مضبوط اور مستحکم کرلیتا ہے۔اوراپنی اصلاح ، امت اسلامی کی اصلاح اور کلمہ اسلام کی سر افرازی اور سربلندی کے لئے اپنا عزم پختہ و راسخ کرلیتا ہے۔
اپنی اصلاح اور امت اسلامی کی اصلاح کےدونوں فریضے معطل نہیں ہوسکتے اوراہل تدبر و تفکر کے لئے عقل و خرد وبصیرت ، دینی ذمہ داریوں اور وظائف میں گہری سوج کے ساتھ اس کی حکمت عملی کوئی دشوارکام نہیں ہے۔
اپنی اصلاح ، شیطانی وسوسوں کا مقابلہ کرنے اور گناہ سے دوری اختیار کرنے کے ذریعہ حاصل ہوجاتی ہے،اورامت کی اصلاح، دشمن کی شناخت، اس کے منصوبوں کی پہچان، اس کی عداوتوں اور منصوبوں کو غیر مؤثر و ناکام بنانے کی جد وجہد وتلاش اور مسلمان قوموں کے باہمی اتحاد و یکجہتی کے ذریعہ حاصل ہوجاتی ہے۔
موجودہ دور میں عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ شمالی افریقہ اور عرب خطے میں رونما
ہونے والے انقلابی تغیرات ہیں جس کا امت اسلامیہ کی تقدیر و سرنوشت سے گہرا تعلق ہے، جو اب تک کئی
بدعنوان، امریکہ کی فرمانبردار اور صیہونزم کی مددگار حکومتوں کے زوال ، سقوط اور اسی قسم کی دیگر
حکومتوں کے تزلزل کا باعث بنے ہیں۔ اگر مسلمانوں نے اس عظیم موقع کو گنوا دیا اور اسے امت اسلامیہ کی
اصلاح کی راہ میں استعمال نہ کیا تو انھیں بہت بڑا نقصان اور خسارہ اٹھانا پڑےگا۔
اس وقت جارح و تسلط پسند سامراج ان عظیم اسلامی تحریکوں کو منحرف کر نے کے لئے پوری طرح حرکت میں آ گیا ہے۔
ان عظیم قیاموں میں مسلمان مرد و زن، امریکہ ایسے نواز ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں جو اپنی قوموں کی تحقیر و تذلیل پر کمر بستہ تھےاور جرائم پیشہ صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز کررہےتھے مسلمانوں نے موت و زندگی کی اس عظیم لڑائی میں اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی نعروں کو اپنا سفینہ نجات قراردیاہے اور ببانگ دہل اس کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انھوں نے مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع اور غاصب حکومت کے خلاف جہاد کو اپنے مطالبات میں سر فہرست قرار دیا ہے۔ مسلم اقوام کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے امت اسلامیہ کے اتحاد کی دلی خواہش کا اعلان کیا ہے۔
یہ ان ملکوں میں عوامی تحریکوں کے بنیادی ستون ہیں جہاں حالیہ دو برسوں میں عوام نے آزادی و اصلاح پسندی کا پرچم لہرایا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انقلاب کے میدانوں میں قدم رکھا ہے۔ یہی چیزیں عظیم امت اسلامیہ کی اصلاح کی بنیادوں کو مضبوطی و مستحکم کر سکتی ہیں۔ ان اساسی اصولوں پر ثابت قدمی ان ملکوں میں عوامی انقلابات کی فتح کی لازمی شرط ہے۔
دشمن انہیں بنیادوں کو متزلزل کر دینے کے در پے ہے۔ امریکہ، نیٹو اور صیہونزم کے بدعنوان مہرے کچھ لوگوں کی غفلت و سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم نوجوانوں کی طوفانی تحریک کو منحرف کرنے، انہیں اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے دست و گریباں کر دینے اور سامراج مخالف اور صیہونیت مخالف جہاد کو عالم اسلام کی گلیوں اور سڑکوں پر اندھی دہشت گردی میں تبدیل کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تا کہ مسلمانوں کا خون ایک دوسرے کے ہاتھوں سے زمین پر جاری ہو، دشمنان اسلام اپنی مسدود راہوں کو کھول سکیں اور اسلام اور مجاہدین اسلام کو بدنام کریں اور ان کی چہرے کو مسخ کریں۔
اسلام اور اسلامی نعروں کے خاتمے کے سلسلے میں مایوس ہو جانے کے بعد انہوں نے اب مسلم فرقوں کے درمیان فتنہ ڈالنے کا رخ کیا ہے اور شیعہ خطرے اور سنی خطرے کی سازشی باتیں کرکے امت اسلامیہ کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹیں ایجاد کر رہے ہیں۔
وہ علاقے میں اپنے زرخرید عناصر کی مدد سے شام میں بحران پیدا کررہےہیں تا کہ قوموں کی توجہ اپنے ممالک کے حیاتی مسائل اور گھات میں بیٹھے خطرات سے ہٹا کر اس خونریز مسئلے پر مرکوز کر دیں جسے انہوں نے خود عمدا پیدا کیا ہے۔ شام میں خانہ جنگی اور مسلمان نوجوانوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل عام وہ مجرمانہ عمل ہے جو امریکہ، صیہونزم اور ان کی فرمانبردار حکومتوں کے ہاتھوں شروع ہوا ہے اور اس آگ کو مسلسل شعلہ ور کیا جارہا ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ مصر، تیونس او لیبیا کے ڈکٹیٹروں کی حامی سامراجی حکومتیں اب شام کے عوام کی جمہوریت پسندی کی حامی بن گئی ہیں؟ شام کا قضیہ در حقیقت شامی حکومت سے انتقام لئے جانے کا قضیہ ہے جس نے تین دہائیوں تک اکیلے ہی غاصب صیہونیوں کا مقابلہ اور فلسطین و لبنان کی مزاحمتی تنظیموں کا دفاع کیا ہے۔
ہم شام کے عوام کے طرفدار اور اس ملک میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت اور اشتعال انگیزی کے خلاف ہیں۔ اس ملک میں کوئی بھی اصلاحی اقدام خود وہاں کے عوام کے ہاتھوں اور خالص ملی و قومی طریقوں سے انجام پانا چاہیے۔ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے کہ عالمی تسلط پسند طاقتیں اپنی تابع فرمان علاقائی حکومتوں کی مدد سے کسی ملک میں بحران کھڑا کر دیں اور پھر اس ملک میں بحران کے نام پر خود کو ہر مجرمانہ کارروائی کا مجازتصور کرلیں، اگر علاقے کی حکومتوں نے اس پر توجہ نہ دی تو انہیں بھی اس استکباری مکر و فریب میں اپنی نوبت آنے کا منتظر رہنا چاہیے۔
عزیزبھائیو اور بہنو! موسم حج، دنیائے اسلام کے حیاتی مسائل پر غور و فکر کا بہترین موقعہ ہے۔ علاقے کے انقلابات کا مستقبل اور ان انقلابات سے زخم کھانے والی طاقتوں کی ان انقلابوں کو منحرف کر دینے کی کوششیں، انہی مسائل میں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان نفاق پیدا کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں انقلابی ملکوں کو بدگمانی میں مبتلا کر دینے کی خائنانہ سازشیں، مسئلہ فلسطین، مجاہدین کو تنہا اور فلسطین کے جہاد کی شمع کو خاموش کر دینے کی کوششیں، مغربی حکومتوں کی اسلام دشمنی پر مبنی تبلیغاتی مہم، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکوتی بارگاہ میں گستاخانہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کی ان کی جانب سے حمایت، بعض مسلم ممالک میں خانہ جنگی اور انھیں تقسیم کردینے کے مقدمات، انقلابی قوموں اور حکومتوں پر مغربی تسلط پسند طاقتوں سے مقابلہ کا خوف بٹھانا اور اس توہم کی ترویج کہ ان کے مستقبل کا انحصار انہی جارح طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے پر ہے، اسی قسم کے دوسرے اہم ترین اور حیاتی مسائل بھی ہیں جن کے بارے میں حج کے اس موقعہ پر آپ حجاج کرام کی ہمفکری اور ہمدلی کے زیر سایہ تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
بیشک نصرت و ہدایت خداوندی، جانفشانی کرنے والے مومنین کو امن و سلامتی کی راہ سے آشنا بنا دےگی۔ «و الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا ..»
والسلام عليكم و رحمة و بركاته
سيّد علي خامنهاي
30 / مهر /1391 ، مطابق پنجم ذي الحجه ۱۴۳۳




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
