Super User

Super User

متقين كی صفات

٫٫ ھدی للمتقين الذين يؤمنون بالغيب و يقيمون الصلاة و مما رزقنا ھم ينفقون ٬٬ ﴿ بقرہ / ۳﴾

اس آيت كی تفسير بيان كرتے ہوۓ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا : پرھيز گار لوگوں كی چھ صفات ہیں اور ان چھ صفات كا ايك انسان میں جمع ہونا درحقيقت انسان كے اندر تقوی كے عناصر كو تشكيل ديتا ہے اور صحيح اور حقيقی تقوی انہی چھ صفات سے عبارت ہے اور انہیں چھ صفات سے انسان راہ كمال پر گامزن ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے درس میں ہم بيان كر چكے ہیں كہ تقوی انسان كے لیے تمام مراحل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے يعنی جب آپ تقوی كے حامل ہوں گے تو پھر قرآن سے درس بھی حاصل كر سكتے ہیں اور ہدايت بھی اور جوں جوں تقوی كے مراحل بڑھیں گے قرآن فہمی میں اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا۔ اگر كوئی شخص تقوی كے اعلی مراتب پر فائز ہو تو وہ قرآن كی ظرافتوں اور عميق نكات اور گہرے معانی تك بہتر رسائی حاصل كر سكتا ہے ۔ تقوی صرف قرآن فہمی كی ابتداء میں ہی ضروری نہیں بلكہ تمام مراحل میں ضروری ہے۔ لہذا يوں نہیں ہے كہ اگر كوئی پاكيزگی كے ساتھ قرآن فہمی میں اترا تو پھر فورا بطن قرآن تك رسائی حاصل كرلے ۔ نہیں ايسا نہیں ہے بلكہ ہرہرمرحلے میں جتنا جتنا پرھيزگاری میں قدم آگے بڑھے گا اسی مقدار میں قرآن فہمی میں بھی پيشرفت حاصل ہوگی ۔ اب یہ چھ صفات تمہيد ہیں اس مرحلہ كے لیے جس سے انسان ايك متوسط حد تك متقی بن سكتا ہے اور اس كے بعد بلند مقامات كا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ان چھ صفات میں سے پہلی صفت ٫٫ الذين يؤمنون بالغيب ٬٬ ہے ۔

يعنی وہ لوگ جو غيب پر ايمان ركھتے ہیں البتہ ہم نے آيت كے ترجمہ میں كہا ہے كہ جو لوگ غيب پر يقين ركھتے ہیں ۔ قرآن مجيد میں كئی مقامات پہ غيب پر ايمان ركھنے كوغيب پر خشيت اور غيب كی طرف توجہ كی صورت میں بيان كيا گيا ہے؛مثلا قرآن میں ايك مقام پر آيا ہے ٫٫ و خشی الرحمن بالغيب ٬٬ اور اس طرح كی دوسری كئی آيات ۔ غيب يعنی وہ چيز جو انسان كے حواس سے پوشيدہ ہے ۔ تمام عالم كو دو حصوں يعنی عالم غيب اور عالم شہود میں تقسيم كيا جا سكتا ہے ۔ یہاں شہود سے مراد وہ عالم ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے ۔ البتہ اس سے مراد صرف آنكھوں كے سامنے ہونا نہیں ہے بلكہ ہر وہ چيز مراد ہے جو حواس كے ذريعہ قابل درك ہويعنی وہ اشياء جنہیں آپ محسوس كرسكتے ہیں اور آپ كے سامنے ہیں ۔ اور آپ كے لیے قابل تجربہ ہیں مثلا كہكشاں جس كا نظارہ آپ ٹيلی سكوپ كے ذريعہ كر سكتے ہیں ۔ يعنی وہ چيزیں جنہیں آپ ديكھ سكتے ہیں؛ سن سكتے ہیں اور حس كر سكتے ہیں ؛ آشكار اور ظاہر ہیں۔ انہیں عالم شہود سے تعبير كيا گيا ہے ۔ تاہم جو اشياء ماورائی حيثيت ركھتی ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ صرف موجودات انہی اشياء میں محدود نہیں ہیں جنہیں ميری اور آپ كی آنكھیں ديكھ رہی ہیں بلكہ موجودات كا دائرہ اس قدر وسيع ہے كہ انسان ان كا احساس كرنے سے عاجز ہے يعنی عالم غيب اس كائنات میں الہی رجحانات اور مادی رجحانات كی سرحد كا نام ہے ۔

مادی نظريات اور افكار ركھنے والے افراد معتقد ہیں كہ وہ اشياء جنہیں میں ديكھ رہا ہوں وہی موجود ہیں ليكن وہ چيزیں جنہیں میں نہیں ديكھ رہا وہ موجود بھی نہیں ہیں اگرچہ ممكن ہے كہ وہ اشياء جنہیں آج ہم نہیں ديكھ رہے انہیں كل ديكھ پائیں ۔ اس قسم كےمادی افكار بہت ہی تنگ نظری اور محدود فكر كا نتيجہ ہیں ۔اس لئے كہ﴿ان سے یہ سوال كيا جا سكتا ہے كہ﴾ جس چيز كو آپ نہیں ديكھ رہے ہیں آپ كے پاس كيا دليل ہے آپ اس كے موجود ہونے كی ہی نفی كردیں ؟

آپ تبھی كسی چيز كے موجود ہونے يا معدوم ہونے كا حكم كرسكتے ہیں جب واقعا آپ كے پاس كوئی دليل ہو۔ پھر آپ كا یہ كہنا درست ہو گا ۔ لہذا آپ اس وقت كسی چيز كی موجودگی كا اعلان كر سكتے ہیں جب آپ كو يقين ہو كہ وہ موجود ہے اور اسے ثابت كرسكتے ہوں اور اسی طرح جب آپ كسی چيز كے معدوم ہونے كا حكم كرتے ہیں تو آپ كے لیے یہ ثابت ہونا چاہیے كہ وہ چيز معدوم ہےجبكہ مادہ پرست شخص كے پاس اپنے اس مدعا كو ثابت كرنے كے لیے كوئی دليل نہیں ہے۔ وہ صرف یہی كہنے كا حق ركھتا ہے كہ میں عالم غيب كو نہیں ديكھ سكتا اور اس كے بارے میں مجھے كوئی خبر نہیں ہے ۔ لہذا جب آپ كو اس بارے میں خبرہی نہیں ہے تو آپ كيسے يقين كے ساتھ یہ كہہ سكتے ہیں كہ عالم غيب موجود ہی نہیں ہے؟! وہ كہتے ہیں كہ ہم عالم غيب كا مشاہدہ نہیں كر رہے اور اس كے بارے میں كوئی خبر نہیں ركھتے ہیں۔ ﴿تعجب اس بات پہ ہے كہ﴾ ايك طرف سے تو وہ خود كہہ رہے ہیں ہم عالم غيب كے بارے میں كوئی خبر نہیں ركھتےجبكہ دوسری طرف سے یہ يقين كے ساتھ كہہ بھی رہے ہیں كہ عالم غيب موجود ہی نہیں ہے ۔ اس مقام پر ان سے پہلا سوال كيا جا سكتا ہے كہ جب تم خود كہہ رہے ہو كہ میں اس كے بارے جانتا ہی نہیں ہوں تو پھر كيسے كہہ رہے ہو كہ وہ موجود ہی نہیں ہے ؟ اسی لیے قرآن میں مادہ پرست اور ملحدين كے بارے میں آيا ہے كہ " ان ھم الا يظنون " ﴿ ۲۴ جاثیہ ﴾

يعنی وہ گمان كے ساتھ بات كرتے ہیں ٫٫ ان ھم الا يخرصون ٬٬ ﴿ يونس ۶۶ / ﴾ وہ ايك دوسرے سے محض باتیں كرتے ہیں ۔

اديان الہی اور الہی تفكركا﴿مادی تفكر سے﴾ یہی نقطہ امتيازہے كہ وہ اشياء جنہیں وہ ديكھ رہا ہے اور لمس كر رہا ہے ان كے علاوہ بھی كوئی عالم موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے كہ وہ عالم غيب كس طرح انسان كے لیے ثابت ہو سكتا ہے ؟جواب یہ ہے كہ صرف عقلی دليل كے ذريعہ۔ یہی وہ اصلی نكتہ ہے كہ عقل كے ذريعہ وجود خدا كو ثابت كيا جا سكتا ہے ۔ عقل پيغام خدا، درس خدا اور ہدايت خدا ہے۔ عقل ہی ہمارے لیے وحی كو ثابت كرتی ہے؛ عقل ہی قيامت كے وجود اور ان كئی اشياء كو ثابت كرتی ہے جو عالم غيب سے متعلق ہیں ۔

پس ان میں سے بعض امور كو عقل خود ثابت كرتی ہے اور بعض كو وہ اشياء جو برھان عقلی كے ذريعہ ثابت ہوتی ہیں ، ثابت كرتی ہیں ۔ يعنی جب آپ نے ثابت كر ليا كہ خدا ہے اور توحيد كو ثابت كر ليا ، مبداء كو ثابت كر ليا تو پھر نبوت كو بھی ثابت كر لیں گے ۔ اس كے بعد كہ آپ نے وجود نبی كو دليل عقلی كے ذريعہ ثابت كر ليا تو پھر وہ عالم غيب جس سے نبی خبر ديتا ہے وہ بھی ثابت ہو جاۓ گا جيسے فرشتے ، جنت و دوزخ اور وہ اشيا جن پر ہم سب ايمان ركھتے ہیں۔ ان میں سے بعض جيسے جنت و دوزخ اور قيامت كا وجود انہیں دليل عقل كے ذريعہ ثابت كيا جا سكتا ہے ليكن كئی ايسی چيزیں ہیں جن پر عقلی دليل موجود نہیں ہے انہیں حق كا نمائندہ يعنی وحی الہی كو دريافت كرنے والا نبی ہمارے لیے بيان كرتا ہے۔ اور جب وہ ہمارے لیے بيان كرتا ہے تو ہم اس پر ايمان و يقين ركھتے ہیں اور جانتے ہیں كہ وہ سچ كہتا ہے۔ اس لیے كہ اس پيغمبر كا وجود عقلی دليل سے ثابت ہو چكا ہے۔ پس تقوی كی پہلی شرط غيب پر ايمان لانا اور محدوديت سے اپنے وجود كو خارج كرنا يعنی كائنات كو اسی انسانی محسوسات كے دائرے تك محدود نہ سمجھنا ہے ۔ پس یہ غيب پر ايمان ہی مادی تفكر اور الہی تفكر كے درميان بہترين فرق ہے جس سے انسانی افكار اور انسانی اعمال پر بہت زيادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں يعنی وہ انسان جو غيب پر ايمان ركھتا ہے وہ ايك طرح كی زندگی بسر كرتا ہے اور جو لوگ غيب پر ايمان نہیں ركھتے ان كی زندگی ايك اور نوعيت كی ہوتی ہے كيونكہ ايمان انسان كو آزاد نہیں چھوڑتا بلكہ اس كی زندگی ، اس كی فكر اوراس كے اعمال پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے جو كہ ايك مادی انسان اور مادی افكار كے حامل شخص سے سر زد نہیں ہو سكتے ۔ ہم نے ان میں سے بعض خصوصيات كا ذكر كر ديا ہے مثلا غيب پر ايمان ركھنے والا شخص با مقصد زندگی كرتا ہے جبكہ جو لوگ غيب پر ايمان نہیں ركھتے وہ زندگی میں كسی حقيقی مقصد كو قبول كرنے كے لیے تيار نہیں ہوتے ۔

ممكن ہے آپ كہیں كہ كئی ايسے مادی افكار كے حامل افراد ہیں جن كے پاس حقيقی مقاصد بھی ہیں۔ میں عرض كروں گا كہ ان مقاصد كو وہاں ديكھنا چاہیے جہاں احساسات ، عادات اور ضروريات غالب نہ ہوں كيونكہ جہاں پر جذبات ، عادات اور ضروريات موجود نہ ہوں وہاں پر مادہ پرست انسان كی زندگی اور اس كی جدو جہد متوقف ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ ضرورت كے پيش نظر مجبور ہیں كہ سعی و كوشش كریں چونكہ مادہ پرست لوگ بھی اپنی ضروريات پورا كرنے كے لیے جدو جہد كرتے ہیں۔ ان میں سے بعض خاص قسم كے جذبات ركھتے ہیں جيسے قوم پرستی كے جذبات۔ یہی قوم پرستی اسے مجبور كرتی ہے كہ وہ اس كے لیے جدوجہد كرے ، كوشش كرے حتی كہ اسی راستے میں اپنی جان قربان كر دے ليكن یہ جذبات عقل و منطق كے تابع نہیں ہیں ۔

اگر ايك ايسے مادی شخص كو جو جذبات میں غرق ہوكر وطن كی راہ میں خود كو فدا كر ديتا ہے،كوئی پكڑ كر عليحدگی میں لے جا ئے اور یہ پوچھے كہ تم كيوں جان قربان كر رہے ہو؟اگرتم مر جاٶ تو كيا ہو جا ۓ گا ؟ كيا تمہارے مرنے سے وطن زندہ ہو جاۓ گا ؟ جب تم خود ہی نہیں رہو گے تو یہ وطن ہو يا نہ ہو تمہارے لیے اس كا كيا فائدہ ہے ؟ تم اس لیے مر رہے ہو تاكہ دوسرے زندگی كر سكیں ؟!

اگرچہ مادہ پرست اس كا اقرار نہیں كرتے ليكن اگر انہیں یہ كہا جاۓ تو وہ جواب میں بلند مقاصد اور اپنے وجدان وغيرہ جيسے عناوين بيان كرتے ہیں ليكن انہی كے اعترافات كو بعض مقامات پر مشاہدہ كيا جا سكتا ہے جيسے ٫٫ روجہ مارٹين ڈاؤگر ٬٬ كی كتاب میں جسے اس فرانسيسی رائٹر نے ناول كی صورت میں لكھا ہے اور اس كا نام ٫٫ ٹيوو خاندان ٬٬ ہے، اس میں ہم نے پڑھا كہ یہ شخص انيسویں صدی اور بيسویں صدی كے اوائل كا اومانيسٹ تھا۔ وہ اور دوسرے اومانيسٹوں كا یہ نظریہ تھا كہ انسان اور انسانيت سے عشق و محبت انسانی وجدان كو اس كے مذھبی رجحانات اور مذھبی جذابيت سے بے نياز كر ديتا ہے۔ یہ لوگ ماركس ازم سے پہلے بہت كتابیں لكھا كرتے تھے اور یہ ٫٫ رجہ مارٹين ٬٬ انہی افراد میں سے ہے جو اپنی كتاب میں اس قصہ كو بہترين انداز میں پيش كرتا ہے ۔ وہ اس میں داستان كے ہيرو كی زبانی یہ بيان كرتا ہے كہ جب ايك لا علاج مرض میں مبتلا ہو گيا تو اس نے سوچا كہ ميری جدو جہد كا كيا فائدہ ہے ۔ پھر اپنی داستان لكھتے ہوے اپنے اومانيسٹی تفكر كو بطور كامل بيان كرتا ہے جس سے یہ سمجھا جا سكتا ہے كہ وہ یہ كہہ رہا ہے كہ زندگی گزارنے كا مقصد صرف یہی ہے كہ تو لطف اندوز ہو سكے ۔ ايك مادہ پرست انسان كا اس سے زيادہ مقصد ہو بھی كيا سكتا ہے كہ وہ اپنا پورا مقصد لذت دنيوی كو ہی سمجھتا ہے ۔

مادی تفكركی بنياد پر آپ كی زندگی ايك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك عبارت ہے يعنی پيدائش سے مرنے تك يا يوں كہا جاۓ كہ بچپن سے مرنے تك كيونكہ بچپن كا زمانہ تو كوئی چيز نہیں ہے ليكن بچپن كے بعد سےموت تك ايك دورانیہ ہے اور یہ دورانیہ بہت جلد گزر جاتا ہے۔ پس اس عرصے میں جتنی پرتعيش زندگی بسر كرو گے اتنی ہی زيادہ لذت حاصل كرو گے ۔ انسانی زندگی كا مقصد اس كے سوا كچھ نہیں ہے۔

اب كيا یہ فكر، انسانی زندگی كو سنوارنے اور انسان كی اعلی مقاصد تك رسائی كے لیے اچھا پروگرام پيش كر سكتی ہے ؟ ايسے عالی اہداف كی طرف انسان كی رہنمائی كر سكتی ہے؟ اور اس كٹھن راستے میں انسان كو مشكلات كا سامنا كرنے پر آمادہ كر سكتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو ايسا ہی ہے كہ میں خود كو تيزی كے ساتھ ديوار كی دوسری طرف پہنچانے كی كوشش میں اپنا سرديوارپر دے ماروں۔ لہذا میں كس لیے تيزی سے جاٶں ؟ كيوں جد و جہد كروں ؟

یہی فرق ہے ايسے شخص كی فكرمیں جو اس كائنات سے ماوراء كو بھی سمجھتا ہے اور ايسے شخص كی فكر میں جس كا ہم و غم اس چند روزہ زندگی كی لذات میں خلاصہ ہو جاتا ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے

قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے درس تفسير قرآن میں تقوی كے عنوان پر گفتگو كرتے ہوۓ فرمايا كہ تقوی كا مطلب یہ ہے كہ حركت كی حالت میں دوری اختيار كی جاۓ۔ آپ اپنے درس تفسير میں قرآن پاك كے بنيادی عناوين كو زير بحث لاتے ہیں جن میں سے پہلا عنوان تقوی ہے۔ ان دروس كے اردو ترجمہ كا بیڑا " بين الاقوامی قرآنی خبر رساں ايجنسی " نے اٹھايا ہے

تقوی :

تقوی كا لفظ ايسا ہے جسے معاشرہ میں بہت دہرايا جاتا ہے ۔ تقوی كی تہذيب كو معاشرے میں عام كرنے كی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں كہ تقوی كا اس طرح معنی كيا جاۓ جسے آپ آسانی سے سمجھ سكیں ليكن تقوی كا لفظی معنی كيا ہے وہ ايك عليحدہ بحث ہے ۔

تقوی كا مفہوم:

تقوی يعنی حركت كی حالت میں دوری اختيار كرنا ، نہ یہ كہ جمود كا شكار رہ كر پرھيز گار بننے كا خواب ديكھا جائے كيونكہ ايك دفعہ آپ بغير حركت كیے پرھيز گار بنتے ہیں مثلا آپ گھر میں بیٹھ جائیں ﴿اور كسی كے كام سے كام نہ ركھیں﴾ اس غرض سے كہ آپ پہاڑ سے نہ ٹكرا جائیں ، كسی كھائی میں نہ گر جائیں ، ڈرائيونگ يا كوہ پيمائی سے پرھيز كرتے ہیں تاكہ پرخطر راستوں سے اپنے دامن كو بچا سكیں۔ یہ ايك قسم كا اجتناب اور پرھيز ہے ليكن اسلام اس كی تلقين نہیں كرتا ۔ بلكہ اسلام كی تعليم یہ ہے كہ حوادث و واقعات كا سامنا كرتے ہوۓ پرھيز گاری سے كام لیں جيسے ايك ڈرائيور ، ڈرائيونگ كرتے ہوۓ بعض چيزوں سے اجتناب كرتا ہے اور خود كو بچاتا ہے۔ یہ وہی پرھيز گاری ہے جسے ہم نے پہلے عرض كيا ہے يعنی اپنی بابت خبردار رہنا اور احتياط كے ساتھ حركت كرنا ۔ پس یہاں كلمہ پرھيزگاری كا استعمال بالكل ٹھيك ہے ليكن جب ہم ملاحظہ كرتے ہیں تو ديكھتے ہیں كہ كثرت سے" متقين" كا ترجمہ "پرھيزگاروں" كی صورت میں بيان كيا گيا ہے حالانكہ یہ معنی ہمارے ذہنوں اپنی خاص ظرافت كے ساتھ موجود نہیں ہے۔ میں ترجيح ديتا ہوں كہ"پرہيزمندان" كہا جائے ليكن چونكہ یہ لفظ رائج نہیں ہوا ہے اس لئے اسے استعمال كرنے پر مصر نہیں ہوں۔ میں خود بھی گذشتہ سالوں میں تقوی كو پرواہ كرنے اور پرواہ ركھنے كے معنی میں سمجھتا تھا ليكن بعد میں اس طرف متوجہ ہوا كہ پرواكاران اور پروامندان دو نامانوس عبارات ہیں جبكہ كلمات كو اس طرح ہونا چاہیے كہ سننے میں سنگين محسوس نہ ہوں بلكہ رائج كلمات ہوں۔

لہذا تقوی كا معنی ہے حركت كی حالت میں دوری اختيار كرنا اور خبردار رہنا يعنی مختلف ميدانوں میں سرگرم عمل رہیں ليكن خبردار رہتے ہوۓ اور محتاط انداز میں حركت كریں يعنی ٹكراٶ ، بے راہ روی ، اپنے آپ كو اور دوسروں كو نقصان پہنچاۓ بغير اور انسانی حدود كے دائرہ میں رہتے ہوۓ حركت

كی جاۓ تاكہ گمراہی سے بچا جا سكے ۔ اس كی وجہ یہ ہےكہ راستہ بہت خطر ناك ، طويل اور تاريك ہے۔ اس تاريك دنيا كا آپ مشاہدہ كر رہے ہیں جس پر مادی طاقتوں نے گرد و غبار كی تہہ لگا ركھی ہے ۔ وہی طاقتیں اپنے ارادوں كو مسلط كرتی ہیں جس سے بہت سے لوگ گمراہ راستوں پر چل نكلتے ہیں لہذا خبردار رہنے كی ضرورت ہے۔ كتنے ہی لوگ ہیں جو آج كی دنيا میں استكباری راستوں كی حقانيت كو قبول كر چكے ہیں ۔ دنياۓ مغرب كی راہ و روش یہ ہے كہ وہ كسی ايك حقيقت كے خلاف كمر بستہ ہو كر لوگوں كو ابھارتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے كہ ديكھا جاۓ وہ ايسا كيوں كرتے ہیں ؟

كيا یہی مقصد نہیں ہے كہ وہ چاہتے ہیں انسانوں كے افكار و نظريات كو اپنی طرف متوجہ كریں۔ قابل افسوس كی بات یہ ہے كہ كئی لوگوں كو انہوں نے اپنی طرف جذب بھی كر ليا ہے اور یہی وہ راہ حقيقت سے گمراہی ہے كيونكہ اگر ذرہ برابر غفلت كی گئی تو گمراہ ہونے كے امكانات پوری طرح مہيا ہیں لہذا اگر كوئی شخص چاہتا ہے كہ تقوی اختيار كرے تو پھر قرآن اس كی ہدايت كرتا ہے ليكن جو شخص پرھيز گار نہیں ہے اور آنكھیں بند كر كے آگے بڑھنا چاہتا ہے، كيا قرآن اس كی ہدايت كر سكتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اس لئے كہ كوئی اچھی بات كسی ايسے شخص كے لیے كار گر ثابت نہ ہو پاتی جس كا دل كسی حقيقت كو قبول كرنے كے لیے تيارہی نہ ہو۔ ايسا شخص كسی حقيقت پر يقين نہیں كر سكتا اور وہ مدہوشی كی حالت میں اپنی يا دوسرے كی خواہشات كی خاطر گامزن رہتا ہے ۔ ايسے شخص كو قرآن ہرگز ہدايت نہیں كرے گا ۔ ہاں قرآن ايك صدا ہےليكن یہ صدا ايسے لوگوں كے كانوں تك نہیں پہنچ پاتی ۔ اسی مطلب كی طرف قرآن كريم نے ان الفاظ میں اشارہ كيا ہے:

٫٫ اولئك ينادون من مكان بعيد ٬٬ ﴿ ۴۴ / فصلت ﴾

یہ ايسے لوگوں كی طرف ہی اشارہ ہے جنہیں دور سے صدا دی جاتی ہے ۔ آپ كبھی كسی ايسے شخص كی آواز كو دور سے سنتے ہیں جو اپنی طرف سے پوری شد و مد سے كوئی انتہائی اہم ترانہ گا رہا ہوتا ہے ليكن آپ كے اور اس كے درميان ايك كلو میٹر فاصلہ كی وجہ سے اس كی آواز تو آ رہی ہوتی ہے ليكن وہ كيا كہہ رہا ہے معلوم نہیں ہو سكتا كيونكہ اس كے الفاظ سنائی نہیں دے رہے ہوتے بلكہ صرف آوازآرہی ہوتی ہے۔ یہی آواز جتنے بھی اچھے انداز سے بيان كی گئی ہو اسے بالكل نہیں سمجھا جا سكتا ۔ اسی طرح ہے اگر ايك ديوار پر لكير كھينچی گئی ہو اور آپ اسے دور سے ديكھ رہے ہوں۔ ليكن جب اس كے قريب جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے كہ اس میں تو بڑی محنت سے نقش و نگاری كی گئی ہے جو دور سے دكھائی نہیں ديتی ۔ اسی بنا پر قرآن ان افراد سے كہہ رہا ہے كہ انہیں دور سے صدا دی جاتی ہے اور وہ كچھ نہیں سن پاتے لہذا انہیں چاہیے كہ وہ خبردار رہیں تاكہ ھدايت پا سكیں ۔

بعض عرب اور مغربي ملکوں کي توقعات کے برخلاف جنيوا اجلاس کے اختتام پر يہ بات واضح ہوگئي ہے کہ شام کے بارے ميں سلامتي کونسل کے مستقل ارکان کے درميان اختلافات پوري شدت کے ساتھ باقي ہيں-

اگر چہ اقوام متحدہ اور عرب ليگ کے خصوصي نمائندے کوفي عنان نے اجلاس کے اختتام پر صحافيوں سے بات چيت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اجلاس ميں شام ميں انتقال اقتدار کي اصولي بينادوں پر اتفاق رائے ہوگيا ہے ليکن موصولہ خـبروں سے پتہ چلتا ہے کہ شام ميں انتقال اقتدار کا معاملہ ہي اجلاس کے شرکا کے درميان سب سے زيادہ اختلافات کا با‏‏عث رہا ہے-

جينوا اجلاس ميں سلامتي کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے وزرائے خارجہ کے علاوہ ، يورپي يونين، عرب ليگ ، قطر، ترکي، عراق اور کويت کے نمائندے بھي شريک تھے- امريکہ، برطانيہ، فرانس اور خطے کے بعض عرب ممالک بشار اسد کو ہٹاکر شام ميں انتقال اقتدار کے عمل کو آگے بڑھانے پر زور دے رہے تھے جبکہ روس اور چين نے اسکي سختي کے ساتھ مخالفت کي-

ماسکو اور بيجنگ نے جنيوا اجلاس کے دوران شام مخالف عالمي گروپ کي جانب سے مسلح دہشتگردوں کي حمايت بند کئے جانے کي ضرورت پر کئي بار زور ديا اور شام ميں قومي آشتي کے قيام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصي ايلچي کوفي عنان کے امن فارمولے پرعملدرآمد کو ضروري قرار ديا -

شام کے حوالے سے روس اور چين کا يہ موقف ايسے وقت ميں سامنے آيا ہے جب اقوام متحدہ کے خصوصي ايلچي کوفي عنان نے بھي جنيوا اجلاس کے دوران کئي بار اپنے چھے نکاتي امن منصوبے پر عملدرآمد پر زور ديا-

انہوں نے لڑائي ميں الجھے تمام فريقوں سے اپيل کي کہ ملک ميں تشدد کا سلسلہ بند کرديں اور انکي چھے نکاتي فارمولے کي پابندي کريں-

سب سے اہم بات يہ ہے کہ کوفي عنان نے جنيوا اجلاس ميں اعلان کيا کہ شام ميں انتقال اقتدار کے ہر عمل ميں موجودہ حکومت اور مخالف گروہوں، دونوں کو شامل کيا جانا ضروري ہے-

يہ نظريہ مغربي ملکوں نيز قطر اور سعودي عرب جيسے بعض عرب ممالک کے نظريات کے بالکل برخلاف ہے جو دہشتگرد گروہوں اور حکومت شام کے مخالف ديگر سياسي دھڑوں کو مسلح کرکے، شام ميں قتل و غارت گري کا بازار گرم رکھنا چاہتے ہيں تاکہ يہ ظاہر کيا جاسکے کہ شام کے معاملے کو سياسي طريقے سے حل نہيں کيا جاسکتا-

مغرب - عرب اتحاد نے شام ميں فوجي مداخلت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے کافي عرصے پہلے ہي کوشش شروع کردي تھي تاکہ صدر بشار اسد کي حکومت کو ختم کيا جاسکے-

اب تک روس اور چين نے شام ميں ہر قسم کي فوجي مداخلت کي کھل کر مخالفت کي ہے- جنيوا اجلاس سے قبل امريکي وزير خارجہ ہيلري کلنٹن نے سن پيٹرز برگ ميں اپنے روسي ہم منصب سرگئي لاو روف کے ساتھ ملاقات کي تھي تاکہ روس کو شام کے حوالے سے مغرب کے نظريات قبول کرنے پر آمادہ کرسکيں - ليکن روس اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور مسلسل، شام ميں فوجي مداخلت کي مخالفت اور صدر بشار اسد کو ہٹائے بغير ، کوفي عنان کے امن فارمولے پر زور دے رہا ہے-

صدر بشار اسد کے اقتدار ميں رہنے کے حوالے سے روس اور امريکہ کے درميان پائے جانے والے اختلافات شام کے خلاف مغرب کے منصوبوں پر عملدرآمد ميں ايک بڑي رکاوٹ بنے ہوئے ہيں-

يہ اختلافات پورے جنيوا اجلاس پر بھي چھائے رہے اور يہ اجلاس بھي مغرب کے لئے کوئي کاميابي دلائے بغير ختم ہوگيا-

جنيوا اجلاس کو شام کے خلاف مغرب اور عرب متحدہ محاذ کي ايک اور ناکامي قرار ديا جارہا ہے خاص طور پر اس لئے بھي کہ اس اجلاس ميں کوفي عنان نے يہ بات کھل کر کہي ہے کہ صرف شام کے عوام کو اپنے ملک کے سیاسي مستقبل کے فيصلے کا حق حاصل ہے –

يہ بيان اس بات کي واضح علامت ہے کہ شام پر باہر سے تھوپا جانے والا کوئي بھي حل قابل قبول نہيں ہے-

ہندوستان کي شمال مشرقي رياست آسام ميں سيلاب اور طوفاني بارشوں نے بڑے پيمانے پر تباہي مچادي ہے

رياست آسام ميں حکام کا کہنا ہے کہ سيلاب اور طوفاني بارشوں کي وجہ سے اب تک نو لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہيں -

حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ پندرہ دنوں سے مون سون کي شديد بارشيں ہورہي ہيں - اس تباہ کن سيلاب ميں اب تک ستائيس افراد کے مرنےکي اطلاع ہے -

سيلاب سے رياست کے ستائيس ميں اکيس اضلاع زير آب آگئے ہيں

حکام نے بتايا کہ بے گھر ہونے والوں کو محفوظ اور بلند مقامات پر منتقل کرديا گيا ہے اور متاثرين کے لئے امدادي کاروائياں بھي جاري ہيں رياستي حکام کا کہنا ہے کہ انيسو اٹھانوے کے بعد سے آسام ميں آنےوالا يہ بدترين سيلاب ہے –

رياست کے کئي درياؤں کے پشتوں ميں شگاف پڑنے کي بھي اطلاعات ہيں

 

کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجي علاقے ميں زائرين کي بس ميں دہشت گردانہ دھماکے کے خلاف شہر ميں شٹرڈاؤن ہڑتال رہي -

زائرين کي بس ميں دھماکے کے خلاف ہونےوالي اس ہڑتال اور مظاہروں کے سبب شہر کے تمام کاروباري مراکز بند رہے اورشہر ميں ٹريفک بھي بہت کم تھا اس موقع پر مختلف سياسي اور مذہبي جماعتوں نے دہشت گردانہ واقعے کي مذمت کرتے ہوئے ہڑتال اور احتجاجي مظاہروں کي حمايت کا اعلان کررکھا تھا مظاہرين نے اس طرح کے واقعات پر قابونہ پانے ميں حکومت کے تئيں بھي اپنے غم وغصے کا اظہار کيا اور دہشت گردوں کو فوري طور پر گرفتار کئے جانے کا مطالبہ کيا -

شيعہ مسلم تنظيموں نے واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تين دن تک سوگ کا اعلان کيا ہے -

کوئٹہ کے سانحے پر کراچي ميں بھي احتجاجي مظاہرہ کيا گيا -

واضح رہے کہ کوئٹہ کے مضافات ميں واقع ہزارہ گنجي علاقے ميں شيعہ مسلمانوں کو تفتان لے جانے والي ايک بس کے راستے ميں بم کا دھماکہ ہوا جس ميں بيس افراد جاں بحق ہوگئے –

رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں ميں شيعہ زائر شامل ہيں - اس دہشتگردانہ حملے ميں پچيس مسافر زخمي بھي ہوئے ہيں جن ميں سے متعدد کي حالت نازک بتائي گئ ہے

 

ہندوستان جلد ہي دہلي اور ممبئي ميں اينٹي ميزائلي سسٹم نصب کرنے والا ہے

ہندوستان کے دفا‏عي ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندوستان جلد ہي پہلے مرحلے ميں دارالحکومت دہلي ميں اور اس کے بعد ممبئي ميں اينٹي ميزائلي سسٹم نصب کرے گا- ہندوستاني ذرائع کے مطابق يہ سسٹم دوہزار کلوميٹر تک ہر طرح کے ميزائيل کا پيچھا کرکے اس کو تباہ کرنے کي توانائي رکھتا ہے- رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے دفاعي تحقيقاتي ادارے نے پہلے مرحلے ميں دہلي اور ممبئي کو اس لئے منتخب کيا ہے کہ اس کے خيال ميں ان دونوں شہروں کو دوسرے شہروں کے مقابلے ميں نسبتا زيادہ خطرہ ہے-

دوسرے مرحلے ميں کولکتہ بنگالورو اور چنئي جيسے شہروں ميں بھي اينٹي ميزائيلي سسٹم نصب کئے جائيں گے- ہندوستان نے ابھي حال ہي ميں اينٹي ميزائيلي سسٹم کا کامياب تجربہ کيا تھا ہے اور توقع ہے کہ دوہزار سولہ تک وہ پانچ ہزار کلوميٹر کے فاصلے تک اس سسٹم کي رينج بڑھا دے گا -

 

پاکستان کے نئے وزير دفاع نے کہا ہے کہ امريکا کو سلالہ چيک پوسٹ پر فوجي حملے کي وجہ سے معافي مانگنا ہوگي -

پاکستان کے نئے وزير دفاع نويد قمر نے اسلام آباد ميں صحافيوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا يہ مطالبہ اپني جگہ پر پوري قوت کے ساتھ باقي ہے کہ سلالہ چيک پوسٹ پر حملے کي بناپر امريکا پاکستان سے معافي مانگے اور اس سلسلے ميں پاکستان کے موقف ميں کوئي تبديلي نہيں آئي ہے-

گذشتہ برس نومبر ميں امريکا اور نيٹو کے فوجي ہيلي کاپٹروں نے پاکستان کے اندر سلالہ فوجي چيک پوسٹر پر حملہ کرکے چوبيس پاکستاني فوجيوں کو ہلاک کرديا تھا -

پاکستان کے وزير دفاع نے کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے مذاکرات ہونےوالے ہيں اور دوطرفہ مفادات کي بنياد پر ضروري فيصلے کئے جائيں گے- انہوں نے کہا کہ علاقے ميں سلامتي کي برقراري ميں مدد دينے کے سلسلے ميں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہئے البتہ اس کے لئے ضروري ہے کہ اس کے قومي مفادات کو نقصان نہ پہنچے -

گذشتہ برس نومبرسے جب سلالہ چيک پوسٹ پر امريکا کا حملہ ہوا تھا پاکستان نے اپنے زميني راستے سے افغانستان ميں متعين نيٹو افواج کے لئے سپلائي لائن بند کررکھي ہےجس کي وجہ سے نيٹو کے ممالک کو سخت مشکلات کا سامنا ہے- اگرچہ امريکي حکومت نے بارہا پاکستان سے کہا کہ سپلائي لائن کھول دے ليکن اسلام آباد نے نيٹو سپلائي کي بحالي کو مشروط کرديا - حکومت پاکستان نے اپني پارليمان کي سفارشات کے مطابق امريکا پر واضح کرديا کہ وہ نيٹوکي سپلائي لائن اسي وقت بحال کرے گي جب امريکا سلالہ چيک پوسٹ پر حملے پر معافي مانگ لے گا اور پاکستان کے قبائلي علاقوں ميں ڈرون حملے بند کردے گا -

ايک ايسے وقت جب سپلائي لائن بحال کرنے کے تعلق سے امريکا اور پاکستان ميں مذاکرات کي پاليسي ناکام ہوچکي ہے امريکا نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کي پاليسي اپنالي ہے - امريکي اخبار لاس آنجلس ٹائمز نے دوہفتے قبل اپنے شمارے ميں لکھا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے سي آئي اے کو حکم ديا ہے کہ وہ قبائلي علاقوں ميں اپنے حملے تيز کردے تاکہ وہ نيٹو سپلائي بحال کرنے پر مجبور ہو- حکومت پاکستان نے بارہا اعلان کيا ہے کہ ڈرون حملوں کا کوئي فائدہ نہيں ہے اور اس سے پاکستان کے اقتدار اعلي اور ارضي سالميت کي خلاف ورزي ہوتي ہے اس کے علاوہ ان حملوں سے دہشت گردي کے خلاف جنگ کو نقصان بھي پہنچ رہا ہے- پاکستان ميں ماہرين کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کي وجہ سے امريکا کے تئيں پاکستاني عوام کي ناراضگي اور نفرت ميں بھي روز افزوں اضافہ ہورہا ہے

مصرے کے نومنتخب صدر محمد مرسي نے آج ملک کي آئيني عدالت کے روبرو اپنے عہدے کا حلف اٹھايا ليکن اسے پہلے انہوں نے جمعے کي رات قاہرہ کے التحرير اسکوائر پر لاکھوں کے اجتماع ميں عوام کے سامنے علامتي طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھاليا تھا۔

مصرکے نومنتخب صدر نے عوام سے جو وعدہ کيا تھا اس کے مطابق جمعے کي رات قاہرہ کے التحرير اسکوائر ميں لاکھوں کي تعداد ميں موجود مصري عوام کے سامنے اپنے عہدے کا حلف ليا۔

اس موقع پر انہوں نے پورے ملک کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اور طاقت کا سرچشمہ مصري عوام ہيں۔ انہوں نے کہا کہ کوئي بھي ادارہ يا کوئي بھي طاقت عوامي طاقت سے بالاتر نہيں ہے۔محمد مرسي نے اسي طرح زور دے کر کہا کہ مصر ميں آمريت اور فرد واحد کي حکومت کا دور ختم ہوگيا ہے اور اب اس ملک ميں انصاف اور قانون کي حکمراني کا آغاز ہوچکا ہے۔

مصري عوام کے انقلاب کي کاميابي کے بعد پہلے عوامي صدر نے عوام سے وعدہ کيا کہ وہ پورے ملک ميں قانون کي حکمراني کو يقيني بنائيں گے اور مصر کو اس کا اصلي مقام دلائيں گے۔مصر کي خارجہ پاليسي کے بارے ميں بھي محمد مرسي نے کہاکہ وہ خارجہ تعلقات کي برقراري ميں کسي کا بھي دباؤ قبول نہيں کريں گے اور اس سلسلے ميں وہ کسي کي پيروي بھي نہيں کريں گے- انہوں نے کہا کہ داخلہ اور خارجہ پاليسي ميں ان کے نزديک معيار ملک کا مفاد ہوگا۔

مصر کي تاريخ ميں ايسا پہلي بار ہوا ہے کہ ايک صدر عوام کے درميان اس طرح حاضر ہوا ہو اور اس نے اپنے عہدے کا حلف عوام کے سامنے اٹھايا ہو۔عوام کے سامنے تقريب حلف برداري اگر چہ علامتي نوعيت کي تھي ليکن اس سے اس بات کو کوشش کرنے کي کوشش کي گئي کہ انہوں نے مينڈيٹ اور اعتماد عوام سے حاصل کيا ہے اور عوام نے انہيں اس کي اجازت دي ہے۔اس کےعلاوہ ان کي جانب سے فوجي کونسل کو ايک طرح کا پيغام بھي ہوسکتا ہے۔ بہرصورت محمد مرسي کا يہ اقدام ان کے لئے ايک مثبت پوائنٹ تصور ہوسکتا ہے کم ازکم اس زاويئے سے کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کرديا اور مصري عوام کے سامنے قاہرہ کے التحريراسکوائر پر جو اب مصر کے عظيم انقلاب کي علامت بن چکا ہے اپنے عہدے کا حلف اٹھايا۔

ايسا لگتا ہے کہ محمدمرسي نے ملکي مفادات کو ہر دوسري چيز پر ترجيح ديا ہے کيونکہ فوجي کونسل نے کچھ دنوں قبل اعلان کيا تھا کہ اگر مرسي نے آئيني عدالت کے روبرو اپنے عہدے کا حلف نہيں اٹھايا تو وہ اپنے عہدہ صدارت کي خلاف ورزي کريں گے۔

اس ميں شک نہيں کہ اخوان المسلمين اور خاص طور پر مصري عوام کے منتخب صدر جنھوں نے عہدہ صدارت تک پہنچنے کے لئے سخت مراحل کو طے کيا ہے مصر کي مصلحت اسي ميں سمھجھي ہے کہ وہ کم ازکم فوجي کونسل کے اس مطالبے کو مان ہي ليں جو ابھي بھي اقتدار پر قابض ہے۔ مصر کو اس وقت خطرناک صورت حال کا سامنا ہے- فوجي کونسل نے ابھي اقتدار عوام کے منتخب صدر کے حوالے نہيں کيا ہے اور ابھي ملک کے بہت سے اہم فيصلوں کا اختيار اور ويٹو پاور فوجي کونسل کے ہي پاس ہے- اس بات کو محمد مرسي بھي جانتے ہيں اسي لئے انہوں نے کوشش کي کہ اپنے مشکل راستے کا آغاز کسي درد سرکے بغير کريں۔

بعثت کے موقع پر خطاب۔ 22/08/2006

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج معاشرے کے مختلف طبقات ، قوہ مجریہ ،مقننہ ،اورعدلیہ کے سربراہوں ، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ ، فوجی اور سول حکام ،اسلامی ممالک کے سفراء سے خطاب میں فرمایا: بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کے لۓ سب سے بڑی عید ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی، دین وسیاست کو ایک سمجھنا اورعدل و انصاف و تزکیہ و تعلیم کے لۓ اسلامی حکومت قائم کرنا آج کی اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے ۔

رہبر معظم نے تزکیہ اور انسانی کمال تک پہنچنے کے لۓ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسلسل کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہونے کے بعد ہمیشہ ظاہری اور باطنی جھاد میں مشغول رہے اور اس امر سے ایک لمحہ بھی غفلت نہیں کی اور نبوی و مدنی معاشرہ تشکیل دے کر دینا میں عظیم انقلاب کے اسباب فراہم کۓ ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکسان طور پر سیاست ،تربیت اور انسانوں کی تعلیم پر توجہ فرمایا کرتے تھے اور یہ اسلام میں دین و سیاست کے ایک ہونے کی دلیل ہے ،آپ نے فرمایا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے پتہ چلتا ہےکہ اسلام میں سیاست و تدبیر اور مدن کی ذمہ داری غیر مسلم کو نہیں سونپی جاسکتی اور نہ محض اخلاق و روحانیت پراکتفا کیاجاسکتا ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام و سیاست کو الگسمجھنے والے نظریے پر تنقید کرتے ہوۓ کہا کہ بعض لوگ قرآن کی عبارت پر ایمان لے آتےہیں لیکن اس کی سیاست پر ایمان نہیں لاتے اور کچھ لوگ اسلام کا سیاست میں خلاصہکرتے ہیں اور اخلاق وروحانیت سے غافل رہتےہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں "دین و حکومت "اور "اخلاق وحکومت "کا سرچشمہ قرآن و وحی ہے ،آپ نے کہا اس نکتے کا ادراک اور اس پرعمل کرنا آج امت اسلامی کی ضرورت اور مسلمان قوموں کے تمام مسائل کا حل ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج امت اسلامی کو حقیقی معنی میں اسلامی حکومت تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان اخلاقی و معنوی کمالات حاصل کرکے علمی و سائینسی،سیاسی ،اقتصادی ،اور ثقافتی میدانوں میں ہمہ گیر ترقی کی راہیں فراہم کرسکیں اور اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے دشمنوں کےمد مقابل اپنے مفادات کادفاع کرسکیں ۔

ستائیس جون اسلام و قرآن کا پرچم بلند کرنے والے ایک ایسے جلیل القدر " معمار انقلاب " شہید مظلوم حضرت آیت اللہ بہشتی اور ان کے بہتر رفقاء کی شہادت کا دن ہے کہ جنہوں نے سید الشہداء امام حسین (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے بہتر ساتھیوں کے ہمراہ خون کا نذرانہ پیش کرکے سرزمین ایران پر اسلام وانقلاب کی جڑیں ہمیشہ کے لئے محکم و استوار کردی ہیں

 

شہید ڈاکٹر بہشتی

شہید ڈاکٹر بہشتی کو ان کی بے پناہ صلاحیتوں اور ناقابل فراموش خدمتوں کے سبب ایران کے مجاہد علماء اور فقہا کے درمیان ایک ممتاز مقام حاصل ہے شہید آیت اللہ بہشتی بیک وقت مجتہد، فقیہ، فلسفی، مکتب شناس، سیاستدان، سخن دان و سخن راں، صاحب قلم، مصنف و محقق۔ منتظم و مدبر، دنیا کی کئی زندہ زبانوں پر مسلط عربی، فارسی، انگریزی اور جرمنی کے قادر الکلام خطیب اور مقرر ایک ایسی جامع و کامل شخصیت کے حامل مومن و مخلص انسان تھے کہ جن پر تاریخ اسلام و انقلاب جتنا بھی افتخار کرے کم ہے ۔ ایک ایسی احسن و اکمل ذات کہ جس کے لئے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے بجا طور پر فرمایاہے :

" شہيد بہشتي اپني جگہ تنہا ايک امت تھے "

 

پيدائش اور ابتدائي تعليم

شہید محمد حسین بہشتی، سن 1928 ء میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اصفہان میں حاصل کی اور اسلامی علوم میں اپنی بے پناہ دلچسپی کے سبب ہائرسیکنڈری کے بعد حوزۂ علمیہ اصفہان میں داخلہ لے لیا اور 1946ء تک اسی حوزہ میں سطوح عالیہ کے دروس تمام کئے اور پھر شہید مطہری کی مانند اپنے چند دوستوں کے ساتھ حوزۂ علمیہ قم تشریف لائے اور جیسا کہ خود کہتے ہیں : میں نے قم آکر مدرسۂ حجتیہ میں قیام کیا اور سن 1947 ء تک مکاسب اور کفایہ کی تکمیل میں مصروف رہا۔ اس کے بعد آیت اللہ داماد اور آیت اللہ العظمی بروجردی اور امام خمینی (رح) کے درس خارج میں بھی شریک ہوا البتہ اسی کے ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ یونیورسٹی کی تعلیم بھی حاصل کروں ۔

 

اعلي تعليم

1951 ء میں اسلامی معارف میں دانشکدۂ الہیات سے بی اے اور پھر ایم اے کے بعد سن انیس سو انسٹھ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ شہید بہشتی نے اپنے مباحثین میں شہید مطہری، موسی شبیری زنجانی، موسی صدر، آیت اللہ مکارم شیرازی، ڈاکٹر مفتح آذری قمی، آیت اللہ مشکینی اور ربانی شیرازی کا ذکر کیا ہے۔

 

تعليمي سرگرمياں

انہوں نے 1954 ء میں " دبیرستان دین و دانش "" کے نام سے قم ہیں ایک ہائر سیکنڈری اسکول کی بنیاد رکھی اور حوزۂ علمیۂ قم کے طلبہ کے درمیان مروجہ علوم و زبان سیکھنے کا شوق پیدا کیا اور گرانقدر ثقافتی خدمات انجام دیں ۔ 1963 ء میں آپ نے قم میں ہی چند احباب کے ساتھ مل کر ایک بڑے اور وسیع مدرسۂ حقانی کی بنیاد رکھی اور حوزۂ علمیہ کے فاضل طالبہ کا ایک گروہ، اسلامی حکومت کے موضوع پر تحقیقات کے لئے تشکیل دیا ۔

یہی وہ ‌زمانہ ہے جب شاہی حکومت کی خفیہ مشنری " ساواک " نے آپ کو قم چھوڑدینے پر مجبور کیا اور آپ کو تہران منتقل ہونا پڑا لیکن آپ نے اپنا رابطہ حوزۂ علمیہ سے قطع نہیں کیا 1964 ء میں مدارس میں دینی تعلیمات کے لئے ایک مکمل نصاب تعلیم مرتب کیا جس کے بارے میں حوزہ اور یونیورسٹی کے ایک مسلم الثبوت استاد اور پروفیسر آقائے حقانی کا کہنا ہے کہ : یہ نصاب نہایت ہی جامع اور بڑی خوبیوں کا حامل تھا جس کے مطابق ایک طالب علم پندرہ سال میں اجتہاد کی منزلیں طے کرسکتا تھا، اور اجتہاد کے مراحل میں ایک امتحان کے علاوہ ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھنا پڑتا اور ان کی روشنی میں مسائل کے استنباط کی صلاحیت دیکھتے ہوئے اجتہاد کی سند ارکان مدرسہ کی طرف سے دی جاتی ۔

یہ نصاب پہلی مرتبہ مدرسۂ حقانی میں جاری کیا گیا اور شہید بہشتی کے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر طلبہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا ۔ در اصل شہید بہشتی چاہتے تھے کہ حوزہ علمیہ اپنی قدیم روایتی حد بندیوں سے باہر نکلے اور عصری تقاضوں کے مطابق اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کو انجام دے سکے اور حوزۂ علمیۂ قم نہ صرف ایران اور مخصوص اسلامی ملکوں کے لئے بلکہ پوری دنیا کے مسائل کا جواب دے سکے اور بین الاقوامی برادری کی سطح پر ایک موثر کردار ادا کرسکے ۔

 

تبليغ دين کے لئے کوششيں

سن 1965 ء میں آیت اللہ العظمی بروجردی علیہ الرحمہ کی فرمائش پر پانچ برسوں کے لئے شہید بہشتی کو اسلامی تبلیغی مہم کے لئے جرمنی کے شہر ہمبرگ کا سفر کرنا پڑا آپ نے وہاں یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان اسلامی انجمنیں قائم کرکے فارسی زبان کی ترویج کے ضمن میں ہی صحیح اسلامی افکار و نظریات سے مغربی دنیا کو آشنا بنانے کے لئے یونیورسٹیوں اور کلیساؤں میں جا کر خود ان کی جرمن زبان میں تقریریں کیں جو بےحد موثر ثابت ہوئیں ۔

 

وطن واپسي اور سياسي سرگرمياں

1970 ء میں تہران واپس آئے اور تفسیر قرآن کا درس دینا شروع کیا اور ڈاکٹر جواد باہنر اور ڈاکٹر عقودی کے ساتھ مل کر ایران کے مدرسوں میں رائج کتابوں کی تدوین، اصلاح میں مشغول ہوگئے ۔ اس طرح اپنی مسلسل فکری اور ثقافتی انقلابی جد و جہد کے بعد 1978 ء میں علی الاعلان سیاسی میدان میں اتر پڑے اور شہید مطہری، شہید مفتح، حجۃ الاسلام ملکی اور آیت اللہ امامی کاشانی کے ساتھ مل کر ایک ملک گیر سیاسی جماعت " روحانیت مبارز تہران " کی سنگ بنیاد رکھی جس میں دوسری اہم انقلابی شخصیتیں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای، آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ ربانی املشی، آیت اللہ طبسی اور شہید ہاشمی نژاد و غیرہ بھی شامل ہوگئے ۔ اور پھر امام خمینی (رح) کے حکم سے باقاعدہ طور پر ایک انقلابی کونسل تشکیل پائی جس میں آیت اللہ بہشتی سرفہرست تھے ۔

چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور بقاء واستحکام میں شہید بہشتی کے کارنامہ کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں : حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے رفقائے کار کے درمیان شہید بہشتی نے اسلامی انقلاب کی بنیادی ترین خدمات انجام دی ہیں ۔ شہید بہشتی کی شخصیت کی جامعیت اور اسلامی علوم و فنون پر کامل تسلط کے ساتھ ہی عصر حاضر کے تمام سیاسی و نظریاتی مکاتب اور آزموں سے گہری واقفیت نیز مختلف اسلامی اور یورپی زبانوں میں تقریر و تحریر کی صلاحیت نے آپ کو دوستوں حتی بزرگوں کے درمیان بھی ممتاز کردیاتھا ۔

 

سياسي مخالفين پر آپ کا رعب

کسی بھی سیاسی فکری محفل و مجلس میں آپ کی موجودگی لوگوں کو ہر ایک سے بے نیاز کردیتی تھی ۔جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تشکیل کے لئے " مجلس خبرگان " کے جلسوں میں شہید بہشتی اپنی زبان کھولتے تھے تو اسلام و قرآن کے تمام مخالفین و معاندین کی زبانیں گنگ رہ جاتی تھیں اور ان کو اپنی کمیوں کے سبب سبکی کا احساس ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے دو طرح کے لوگ آپ کے وجود سے گبھراتے اور مخالفت و کینہ توزی سے لبریز تھے، ایک تو منافقین اور مشرق و مغرب سے وابستہ عناصر کا وہ گروہ تھا جو اسلامی انقلاب کی بنیادوں کا ہی مخالف تھا ۔ اور دوسرا حکومت و اقتدار کا بھوکا تنگ نظر علماء اور مفاد پرست دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو اپنے سیاسی مقاصد کی راب میں شہید بہشتی کو روڑا سمجھتا تھا اور سختی سے احساس کمتری کا شکار تھا ۔ چنانچہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام کی تاریخ اگر گہری نظروں سے مطالعہ کی جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ اسلامی انقلاب کے مخالف تمام گروہ، منافقین ہوں یا مشرقی سوشلسٹ اور مغربی لبرل عناصر ہر ایک کی دشمنی اور تہمتوں کا پہلا نشانہ شہید بہشتی کی ذات تھی ۔

 

سياسي مخالفين کي سازشيں

مخالفین کو معلوم تھا بہشتی تن تنہا ایک "معاشرہ " ایک ملت اور ایک امت ہیں لہذا پہلے انہوں نے ان کی شخصیت کو قتل اور بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن آیت اللہ بہشتی کو ان کی درایت، محکم گفتگو، خلوص خدا پر توکل اور نفس پر اعتماد نے دشمنوں کے مقابل پر میدان میں کامیابی عطا کی اور دشمنوں کے سامنے آپ کو قتل کردینے کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا ۔ دشمنان اسلام کی طرف سے جبکہ طرح طرح کی سازشوں کی یلغار تھی وہ دوسرا گروہ کہ جن کی نظر میں شہید بہشتی کا وجود کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا اور انہیں سیاسی میدان میں تنہا کردینے کے درپے تھا، دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگا اور خطرناک انداز میں ان لوگوں نے اس مرد مجاہد کے خلاف عوام کوفریب دینے والے پروپگنڈے شروع کردئے ۔ انقلاب کے بعد ابتدائی تین برسوں میں شہید بہشتی کو جن حالات سے مقابلہ کرنا پڑا ہے اس کی ترجمانی شہید کو، امام خمینی کی طرف سے دیا گیا " مظلوم " کا خطاب کرتا ہے جو آیت اللہ بہشتی کی شہادت کے بعد امام خمینی نے دیا تھا ۔

 

" آئين " کي تشکيل کا اہتمام

شہید بہشتی نے تمام مخالفتوں کے باوجود اسلامی انقلاب کی وہ قیمتی خدمات انجام دی ہیں کہ جنہیں اسلامی انقلاب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اوائل انقلاب ہی میں شہید بہشتی نے " آئین " کی تشکیل کا اہتمام نہ کیا ہوتا تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کا " آئین " کیا اور کیسا ہوتا ۔ ایک ایسا " آئین " وجود میں لانا کہ جس کو عالمی سطح پر مروجہ اصولوں کے برخلاف، پوری طرح مغرب کی تقلید سے آزاد رکھا جا سکے اور صرف و صرف اسلامی اصول و تعلیمات پر اس طرح استوار ہو کہ ذرہ برابر بھی شرع اسلامی سے مغائرت نہ رکھتا ہو بڑا ہی مشکل اور پیچیدہ کام تھا، خصوصا" اسلامی فقہا اور مجتہدین جامع الشرائط کی کونسل " مجلس خبرگان " میں اس کی منظوری اور ہر ایک کو اپنے محکم بیان اور استدلال سے قانع کردینا شہید بہشتی کی علمی اور فقہی منزلت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے ۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران کا آئین راہ اسلام و قرآن میں شہید ہونے والے دسیوں ہزار افراد کے خون کا عطیہ ہے لیکن مجلس خبرگان کی کوششوں نیز اس کے ناظم کی حیثیت سے شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی کے تدبر اور دور اندیشیوں کا ہی نتیجہ ہے ۔ آئین کی منظوری میں آیت اللہ بہشتی کا فیصلہ کن کردار، دشمنوں کی مخالفت بڑھ جانے کا سبب بنا، بنی صدر اور بازرگان کی عبوری حکومت نے اسی لئے مجلس خبرگان کو منحل کرنے کی بھی کوشش کی مگر ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔

 

عدليہ کي سربراہي

انقلاب کے بعد، امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک اور اہم ذمہ داری شہید بہشتی کو یہ سپرد کی کہ انہیں " عدلیہ" کا سربراہ "دیوان عالی" قرار دے دیا اور شہید نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے عدلیہ کو عزت و وقار عطا کردیا وہ کسی بھی عنوان سے آئین کی خلاف ورزی، چاہے وہ ملک کی کوئی بھی شخصیت کیوں نہ ہو، ہرگز قبول نہیں کرتے تھے شہید نے جس مقام اور جس حیثیت سے بھی انقلاب کی خدمت کی ہے پوری فرض شناسی کے ساتھ کام انجام دیا وہ کہا کرتے تھے کہ :

 

" ہم خدمت کے دلدادہ ہيں اقتدار کے پياسے نہيں ہيں"