Super User
قرآن کی نظر میں وحدت کا مفہوم
تمام اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح وصلاح بر قرار کرو ،قرآن مجید نے ایجاد وحدت کے لئے جو روش اختیار کی ہے کہ اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح قائم کرو ، اسکی تاثیر جامعہ اسلام میں مثبت ہے
واعتصموا بحبل اللّہ جمیعاًولا تفرقوا
تاریخ بشریت پر اگر غور وفکر کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ آغاز تاریخ سے ہی دو طرح کی سیاست وجود میں آئی ایک سیاست الٰہی دوسری سیاست طاغوتی ، سیاست الٰہی پایۂ توحید پر استوار تھی کہ جسکی رہبریت کی زمہ داری انبیاء و ائمہ معصومین علیہم السلام کے دوش پر تھی لیکن سیاست طاغوتی کی عمارت پایۂ شرک و تفرقہ و جدائی و اختلاف کے بل بوتے پر ٹکی ہوئی تھی ، کہ جسکی باگ ڈور طاغوتی و شیطانی ہاتھوں میں تھی .اگر حکومت اسلامی کی بقاء و حیات توحید سے انسلاک بشریت کی بنا پر ہے ، تو پھر حکومت طاغوتی و استعماری کی بقاء و حیات بشریت کے درمیان تفرقہ و جدائی سے وابستہ ہے چاہے وہ زمانہ ماضی کا ہو یا حال کا قرآ ن مجید بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے فرماتا ہے :
ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعاً یستضعف طائفة منھم یذبح ابنائھم و یستحی نسائھم انہ کان من المفسدین (قصص ٤)
بیشک فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اوراس نے اہل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنادیا ، وہ لڑکوں کو تہہ تیغ کر تا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا ، وہ یقینا مفسدین میں سے تھا .
لیکن سیاست الٰہی کے رہبروں کی سعی تھی کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور اتحاد و اتفاق کے راستے پر گامزن رکھیں لہٰذا فرمایا : الحمد للّٰہ رب العالمین ، ساری تعریف عالمین کے پروردگار کیلئے ہے یہ آیت فقط خدا کی خالقیت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہے بلکہ منشاء وحدت کو بھی بیان کر رہی ہے کہ سارے جہان کے افراد ایک خدا سے وابستہ ہیں اور ایک امت سے متصل ہیں ، کہ جسکا مبداء و محور مذہب و ملت نہیں بلکہ خدا وآخرت پر ایمان اور انجام عمل صالح ہے .
قرآن اور دعوت وحدت
قرآن کریم نے متعدد طریقوں سے مسلمانوں کو وحدت کی دعوت دی ہے ارشاد ہوتا ہے :
و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون (مومنون ٥٢)
بیشک تمہاری امت کا دین ایک دین ہے اور میں تمہار ا پروردگار ہوں لہذا مجھ سے ڈرو .
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم (الحجرات ١٠)
تمام اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، لہذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح وصلاح بر قرار کرو ،قرآن مجید نے ایجاد وحدت کے لئے جو روش اختیار کی ہے کہ اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح قائم کرو ، اسکی تاثیر جامعہ اسلام میں مثبت ہے ، قبائل عرب جو ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال میں مشغول رہا کرتے تھے اور اختلاف وافتراق انکا شعار بن چکا تھا ، ظہور اسلام کے بعد قرآن نے ان سے بھی وحدت کا کلمہ پڑھوالیا ، اور یہ وحدت کی طاقت تھی کہ جنگ بدر میں تین سو تیرہ افراد ہزار پر غالب ہو گئے ، اگر عالم اسلام اس دور میں اصلاح اخوت کو اپنا فریضہ سمجھ کر وحدت کے راستے پر گامزن ہو جائے تو نہ صرف ظلم وبربریت کے سیلاب سے اپنے کو نجات دے سکتا ہے بلکہ اس کے مقابل ایک مستحکم و پائدار چٹان کے مانند ہوگا
پیغمبر اسلام کی یہی کوشش تھی کہ مسلمان ایک قوت و طاقت کے حامل ہو جائیں ، لہذا انکے درمیان میں برادری کو برقرار کیا اور پھر علی علیہ السلام کو اپنا بھائی کہکر وحدت کے راستے کو ہموار کر دیا ،
قران ومفہوم وحدت
دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں وحدت کا کیا مفہوم ہے،آیا وحدت اتحادو اتفاق کا نام ہے، اخوت ومحبت کا نام ہے یا کوئی اور شیٔ ہے، قرآن مجید آواز دیتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا(عمران ١٥٣)تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبو طی کے ساتھ پکڑ لو اور متفرق نہ ہو ، یہ آیت صریحا لوگوں کے اتحاد کی دعوت دے رہی اور ہر طرح کے تفرقہ سے روک رہی ہے، مفسران نے حبل اللہ سے جو مراد لیا ہے وہ یہ ہے کہ ، ہر طرح کا وسیلہ اور ارتباط خدا کی ذات اقدس سے منسلک ہے ، چاہے یہ وسیلہ اسلام ہے یا قرآن ،یا پیامبر و اہلبیت علیھم السلام .اس آیت کے پہلے جملہ سے ظاہر ہو تا ہے کہ امت مسلمہ متحد ہے اور وحدت مسلمین برقرار ہے ، کیونکہ ظاہرا ساری امت اس ایک پلیٹ فارم پرجمع ہے ، اور ہر فرقہ واعتصموابحبل اللہ کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن جب دوسرے جملہ پر نظر پڑتی ہے تو مفہوم وحدت ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ امت تفرقہ کے شکنجہ میں گرفتار ہے، لہذا جب تک تفرقہ کو دور نہ کرو گے مفہوم وحدت سمجھ میں نہ آئیگا ، اور جس دن تفرقہ کو دور کرکے ریسمان الٰہی سے متمسک ہو کر جامعہ کو وحدت کا لباس پہنا دیا تو پھر اسلام کے سامنے کفر کی بڑی سے بڑی طاقت بھی گھٹنے ٹیک دے گی، کیونکہ اس وحدت میں اتنا عظم و استحکام پایا جاتا ہے کہ انسان اقلیت کے باوجودبھی دشمن کے سامنے کانھم بنیان مرصوص کا مصداق ہوتا ہے، اور فتح اسکے قدم چومتی ہے اور اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ ابتداء اسلام میں مسلمانوں کی اقلیت ہونے کے باوجود فتح کامرانی کا تاج انکے سررہا ، اس بات کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے:
واذکروااذانتم قلیل مستضعفون فی الا رض تخافون ان یتخطّفکم الناس فاواکم و ایدکم بنصرہ ورزقکم من الطیبات لعلکم تشکرون(انفال٢٦)
مسلمانوں اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم قلیل تعداد میں اور کمزور تھے تمھیں ہر وقت اس بات کا خوف تھا کہ لوگ تمھیں اچک لیجا ئینگے ، لیکن خدا نے تمھیں پناہ دی اور اپنی مدد سے تمھاری تائید کی ، اور تمھیں پاکیزہ رزق عطا کیا کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو.
وحدت ایک ایسا کلمہ ہے کہ جسکی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت و شفقت پیدا ہوتی ہے، قرآن مجید نے اصحا ب پیغمبر کے بارے میں فرمایا :
محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم(فتح٢٩)
محمد اللہ کے رسول ہیں اور انکے ساتھی کفار کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مشفق و مہربان ہیں، پس مفہوم دحدت فقط یہ نہیں کہ تمام مسلمان آپس میں دوستی و محبت کو برقرار رکھیں ، بلکہ عملی طور پر متحد ہو کر قرآن و اسلام اور اسکے اصول سے دفاع کی خاطر دشمن اسلام کے سامنے شمشیر بکف ہو جائیںقرآن و حدیث کے مطابق مفہوم وحدت بہت وسیع ہے وحدت نام ہے امت واحدہ کا ، وحدت نام ہے اخوت مسلمین کا ، وحدت نام ہے حبل اللہ کی گرفت کا ، وحدت نام ہے ولاتفرقوافی الدین کا ، وحدت نام ہے ولاتکونوامن المشرکین کا ، وحدت نام ہے فالف قلوبکم کا ، وحدت نام ہے کان من الذین آمنوا کا، وحدت نام ہے واحبب لہ ما تحب لنفسک کا وحدت نام ہے دین الٰہی سے تمسک کا ، وحدت نام ہے اصول وفروع کی حفاظت کا ، پس اگر وحدت اسلامی ، اخلاقی و قرآنی و ہمکاری کی بنیاد پر مملکت اسلامی میں مسلمانوں کے درمیان ایجاد ہو جائے تو پھر وہ ملک کبھی بھی غلامی کے طوق میں نہیں جکڑ سکتا ، اس لئے کہ لطف الٰہی ہر لحاظ سے اسکے شامل حال ہوگی ، اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کا کلیجہ وحشت وترس سے دھل اٹھے گا.
اسلام میں تفرقہ کیوں ؟
شرق وغرب کی استعماری طاقتوں کو اگر آج کسی چیز سے خوف ہے تو وہ وحدت مسلمین کا ہے انکو معلوم ہے کہ جس دن مسلمان متحد ہو جائیںگے اس دن سے ہم مشکلوں میں گرفتار ہو جائیں گے ، لہٰذا انکی ساری طاقت اس بات پر صرف ہو رہی ہے کہ انکے درمیان تفرقہ بر قرار رہے ، انھوں نے پیسوں کے ذریعہ نہ جانے کتنے اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خرید لیا ہے ، اب انکے سامنے قرآن کی کوئی حیثیت نہیں ، اتحاد مسلمین کی کوئی بات نہیں ، ورنہ بوسنیا کی سر زمین سے یا للمسلمین کی صدا بلند نہ ہوتی ، افغانستان کے مسلمانوں کو ظلم کی چکیوں میں نہ پیساجاتا ، فلسطینیوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی ، لیکن افسوس کہ قرآن نے جس قدر وحدت کی تاکید کی ہے اتنا ہی مسلمان تفرقہ و اختلاف میں گرفتار ہے ، جبکہ قرآن نے کھل کر مسلمانوں کو تفرقہ و اختلاف کا نتیجہ بتا دیا ہے : ارشاد ہوتا ہے :
ولا تنازعو ا فتفشلوا وتذہب ریحکم واصبر وا انَّ اللہ مع الصابرین (انفال ٤٦)
تم لوگ آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جائو اور تمہاری طاقت ختم ہو جائے بلکہ مقاومت کرو کہ خدا مقاومت کرنے والوں کے ساتھ ہے لیکن اسکے باوجود بھی اسلامی ممالک اس طرح سے خاموش ہیں کہ جیسے صم بکم عمی فہم لا یرجعون کے اصل مصداق یہی ہیں .
توبہ کے منافع اور فوائد

گناھوں سے توبہ کے متعلق قرآن کریم کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام سے مروی احادیث و روایات کے پیش نظر دنیا و آخرت میں توبہ کے بھت سے منافع و فوائد ذکر ھوئے ھیں، جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ھے:
(( ۔۔۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا۔ یُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا ۔ وَیُمْدِدْکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ اٴَنْھارًا))۔
”۔۔۔اور کھا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بھت زیادہ بخشنے والا ھے۔ وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار پانی برسائے گا۔اور اموال واولاد کے ذریعہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے لئے باغات اور نھریں قرار دے گا“۔
(( ۔۔۔ تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنّاتٍ تَجْریٖ مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھارُ۔۔۔)) ۔
”توبہ کرو، عنقریب تمھارا پرودگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا اور تمھیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی“۔
توبہ سے متعلق اکثر آیات خداوندعالم کی دو صفات ”غفور“ و ”رحیم“ پر ختم ھوتی ھیں، جس کا مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم حقیقی توبہ کرنے والے پر اپنی بخشش اوررحمت کے دروازے کھول دیتاھے۔
(( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَھل الْقُرَی آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھم بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔))۔
”اور اگر بستی کے لوگ ایمان لے آتے ھیں اور تقویٰ اختیا رکر لیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “۔
”مجمع البیان“ جو ایک گرانقدر تفسیر ھے اس میں ایک بھترین روایت نقل کی گئی ھے:
” ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آکر قحط اور مہنگائی کی شکایت کرتا ھے، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار کرو، ایک دوسرے شخص نے غربت اور نداری کی شکایت کی ، اس سے (بھی) امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب کرو، اسی طرح ایک اور شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی: مولا دعا کیجئے کہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا کرے تو امام علیہ السلام نے اس سے بھی یھی فرمایا: اپنے گناھوں سے استعفار کرو۔
اس وقت آپ کے اصحاب نے عرض کیا: (فرزند رسول!) آنے والوں کی درخواستیں اور شکایات مختلف تھی، لیکن آپ نے سب کو توبہ و استغفار کرنے کاحکم فرمایا! امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے یہ چیز اپنی طرف سے نھیں کھی ھے بلکہ سورہ نوح کی آیات سے یھی نتیجہ نکلتا ھے جھاں خداوندعالم نے فرمایا ھے: (( استغفروا ربّکم۔۔۔)) (اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو) ، لہٰذا میں نے سبھی کو استغفار کے لئے کھا، تاکہ ان کی مشکلات ، توبہ و استغفار کے ذریعہ حل ھوجائیں۔
بھر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ توبہ کے منافع و فوائد اس طرح سے ھیں: گناھوں سے پاک ھوجانا، رحمت الٰھی کا نزول ، بخشش خداوندی،عذاب آخرت سے نجات، جنت میں جانے کا استحقاق، روح کی پاکیزگی، دل کی صفائی، اعضاء و جوارح کی طھارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران نعمت کا نزول، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد ، باغات او رنھروں میں برکت، قحطی ،مہنگائی اور غربت کا خاتمہ۔
(( ۔۔۔ تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَصوحاً عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَ یُدْخِلَکُمْ جَنّاتٍ تَجْری مِنْ تَحْتِھَا الاَنْھارُ۔۔۔)) ۔
”توبہ کرو، عنقریب تمھارا پرودگار تمھاری برائیوں کو مٹادے گا اور تمھیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی“۔
توبہ سے متعلق اکثر آیات خداوندعالم کی دو صفات ”غفور“ و ”رحیم“ پر ختم ھوتی ھیں، جس کا مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم حقیقی توبہ کرنے والے پر اپنی بخشش اوررحمت کے دروازے کھول دیتاھے۔
(( وَلَوْ اٴَنَّ اٴَھل الْقُرَی آمَنُواوَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھم بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔))۔
”اور اگر بستی کے لوگ ایمان لے آتے ھیں اور تقویٰ اختیا رکر لیتے تو ھم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے “۔
”مجمع البیان“ جو ایک گرانقدر تفسیر ھے اس میں ایک بھترین روایت نقل کی گئی ھے:
” ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آکر قحط اور مہنگائی کی شکایت کرتا ھے، اس وقت امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص اپنے گناھوں سے استغفار کرو، ایک دوسرے شخص نے غربت اور نداری کی شکایت کی ، اس سے (بھی) امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے گناھوں سے مغفرت طلب کرو، اسی طرح ایک اور شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کی: مولا دعا کیجئے کہ مجھے خداوندعالم اولاد عطا کرے تو امام علیہ السلام نے اس سے بھی یھی فرمایا: اپنے گناھوں سے استعفار کرو۔
اس وقت آپ کے اصحاب نے عرض کیا: (فرزند رسول!) آنے والوں کی درخواستیں اور شکایات مختلف تھی، لیکن آپ نے سب کو توبہ و استغفار کرنے کاحکم فرمایا! امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے یہ چیز اپنی طرف سے نھیں کھی ھے بلکہ سورہ نوح کی آیات سے یھی نتیجہ نکلتا ھے جھاں خداوندعالم نے فرمایا ھے: (( استغفروا ربّکم۔۔۔)) (اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو) ، لہٰذا میں نے سبھی کو استغفار کے لئے کھا، تاکہ ان کی مشکلات ، توبہ و استغفار کے ذریعہ حل ھوجائیں۔
بھر حال قرآن مجید اور احادیث سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ توبہ کے منافع و فوائد اس طرح سے ھیں: گناھوں سے پاک ھوجانا، رحمت الٰھی کا نزول ، بخشش خداوندی ،عذاب آخرت سے نجات ، جنت میں جانے کا استحقاق ، روح کی پاکیزگی ، دل کی صفائی ، اعضاء و جوارح کی طھارت، ذلت و رسوائی سے نجات، باران نعمت کا نزول ، مال و دولت اور اولاد کے ذریعہ امداد ، باغات اور نھروں میں برکت ، قحطی ، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ۔
عقیدہٴ ظہور کا اخلاق پر اثر
مشہور مصری مفسر "طنطاوی" نے اپنی تفسیر میں قرب ساعت" قیامت" اور ظہور مہدی کے بارے میں ابن خلدون کے نظریات نقل کرنے کے بعد ان دونوں موضوعات کو پست ہمتی، تساہلی اور اختلاف و تفرقہ کا سبب قرار دیا ہے اور علمائے اسلام کی جانب غفلت بلکہ جہالت و ضلالت کی نسبت دی ہے
اختلاف و تفرقہ کے بارے میں گذشتہ مقالہ میں وضاحت پیش کی جا چکی ہے اور یہ بتایا گیا
ہےکہ تمام اچھے عنوانات یا حقائق کا فاسد اور مفاد پرست افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہوا ہے یہاں تک کہ مذہبی و قومی اتحاد کے ذریعہ بھی اختلافات برپا کئے گئے اورتحفظ اتحاد کے نام پر بھی اختلاف پیدا ہوئے اور شرم سے سر جھکا دینے والے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
لیکن اس کے باوجود اتحاد کی اچھائی اور ضرورت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔
دوسرے اسلامی عقائد کی مانند ظہور مہدی کے عقیدہ کو بھی اسلامی فرقوں کے درمیان قدر مشترک اور اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہئے تھا، غلطی آپ کی ہے جو ایسے موضوع کا انکار کر رہے ہیں یا اس کے ذریعہ امت کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ متفق و متحد ہے اور جس کے لئے دوسرے اسلامی عقائد سے زیادہ معتبر مدارک و منابع پائے جاتے ہیں۔
رہا قرب ساعت "قیامت" کا مسئلہ پہلی بات تو یہ کہ اقتراب اور قرب قیامت پر ایمان، قرآن مجید کی صریح و محکم آیات سے ماخوذ ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ عقیدہ کسی بھی قیمت پر ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے برخلاف قوت ارادی، احساس ذمہ داری، خلوص نیت، تہذیب نفس، اور کارِ خیر اور اعمال صالح کی جانب رغبت کا باعث ہوگا۔ غلطی سے آپ نے چونکہ حقائق کی تصدیق یا تکذیب کا معیار مادی نتائج کو بنا رکھا ہے اس لئے آپ "اقترا ب ساعت" کو براہ راست ممالک کی فتح کا سبب، مختلف ایجادات اور صنعتی و مادی ترقی کی دعوت کا موجب قرار دینا چاہتے ہیں اور آپ معنویات و اخلاقیات کی تاثیر اور اسلام کے مقصد ِ نظر "مدینہ فاضلہ" اوراس کے رابطہ سے بے خبر ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ انبیاء کی دعوت اور تعلیم و تربیت کی اساس مبداء ومعاد کے ایمان پرہے۔
مسلمانوں نے مبد ا ء ومعاد اور اسی اقتراب ساعت کے ایمان کے ساتھ بڑے بڑے ممالک کو فتح کیا ہے اور دور دراز علاقوں میں اسلامی پرچم لہرایا ہے اور دنیا بھر میں انسانی آزادی کا پیغام دیا ہے۔
اسی ایمان کے ساتھ دنیا والوں کو علم و دانش، تحقیق و تفکر اور علمی و صنعتی ترقی کی دعوت دی ہے ۔مسلمان اسی ایمان کے ساتھ علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے علمبردار بنے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں بھی اسلام نے نامورعلماء پیش کےٴ۔
قیام مہدی اور قیامت کے وقت کی تعیین کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ "یہ عقائد انحراف و گمراہی کا ذریعہ ہیں اور فلاں دھوکہ باز سنی صوفی نے اس کا وقت مقرر کر دیا ہے" اس طرح آپ اپنے سنی بھائیوں سے شکوہ کر رہے ہیں۔ آپ کو شکوہ کا حق بھی ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اس دھوکہ باز صوفی کی بات تسلیم کرلے تو اس کا گناہ اہل سنت کے آپ جیسے رہبروں کی گردن پر ہے کہ آپ افکار و اذہان کو روشن نہیں کرتے مبداء و معاد سے متعلق قرآنی معارف مسلمانوں کو نہیں بتاتے۔
قرآن نے صاف و صریح طور پر اعلان کیا کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے اور ہمارا عقیدہ یہی ہے کسی کو قیامت کے وقت کا علم نہیں ہے اور اگر کوئی اس کا وقت معین کرے تو وہ جھوٹا ہے۔ عوام کی اکثریت بلکہ تمام مسلمان چاہے سنی ہوں یا شیعہ انہیں علم ہے کہ قیامت کی اطلاع کسی کو نہیں ہے۔ علماء اور خواص کو تو جانے دیجئے۔ قرآن کا اعلان ہے:
"انّ اللہ عندہ علم السّاعة" (۱(
اس کے باوجودبھی اگر نادان اس بارے میں اظہار خیال کرے تو اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی اس کی بات پر دھیان دے گا۔ ایسے عقائد ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہیں۔ بلکہ ضعف ِمسلمین کا سبب حقائق کا چھپایا جانا، حکام کی غلط سیاست اور اسلامی معاشرہ کو اسلام کے واضح راستہ سے گمراہ کرنا ہے۔
قیام ساعت اور قرب قیامت کی طرح ظہور مہدی پر ایمان بھی ضعف، پست ہمتی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کا سبب نہیں ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ چونکہ مہدی کا ظہور ہوگا لہٰذا تمام ذمہ داریاں ختم اب مسلمانوں کو کفار کے حملوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔
کسی نے نہیں کہا کہ آیہٴ کریمہ :
"واعدوا لہم مااستطعتم من قوة" (۱)
امربالمعروف و نہی عن المنکر، حق کی طرف دعوت، اسلام کے دفاع اور سیاسی و سماجی فرائض سے متعلق آیات کا نفاذنہیں ہونا چاہئے۔
کسی نے نہیں کہا کہ ظہور مہدی کا عقیدہ کاہل سست، ضعیف الارادہ اور بہانہ تلاش کرنے والوں اور اپنے گھر، وطن اور اسلامی علاقوں میں اغیار کے ظلم و ستم برداشت کرنے والوں کے لئے "عذر" ہے۔
ایک بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ تمام امور مستقبل یا ظہور مہدی تک معطل رکھو،اس کے برعکس روایات میں صبروثبات، سعی واستقامت اور شدت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور قرآنی احکام پر عمل پیرا رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
جیسے کہ پیغمبر اکرم اوراسلام کے اولین مجاہد حضرت علی اور دیگر صحابہٴ والا مقام نے ظہور مہدی کے انتظار میں گوشہ نشینی اختیار نہیں کی اورگھر میں خاموش نہیں بیٹھے رہے بلکہ کلمہ ٴ اسلام کی برتری کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے اوراس راہ میں کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج بھی مسلمانوں کی یہی ذمہ داری ہے۔
ظہور مہدی کا ایمان اور امام وقت کی موجودگی کا احساس، ذمہ داریوں سے غافل نہیں بناتا بلکہ احساس ذمہ داری میں اضافہ کرتا ہے۔
ظہور مہدی کا عقیدہ طہارت نفس، زہدوتقویٰ اور پاکیزگی کردار کا سبب ہے۔
ظہور مہدی کے ایمان کا مطلب امور کو آئندہ پر اُٹھا رکھنا، گوشہ نشینی اختیار کرنا اورآج کوکل پر ٹالنا اور کفار واغیار کے تسلط کو قبول کرنا، علمی وصنعتی ترقی نہ کرنا اور سماجی امور کی اصلاح ترک کردینا ہرگز نہیں ہے۔
ظہور مہدی کا عقیدہ رشد فکر کا باعث اور ضعف وناامیدی اور مستقبل کے تئیں مایوسی سے روکتاہے چنانچہظہور مہدی کے عقیدے سے وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو:
"انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون"(۱)
"ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"
"یریدون لیطفئوا نور اللّٰہ بافواہھم"(۲)
"یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوںسے بجھا دیں۔"
"ولاتہنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین"(۳)
"مسلمانوں! خبردار (دینی معاملات میں) سستی نہ کرو اور (مال غنیمت اور متاع دنیا فوت ہوجانے کے ) مصائب سے محزون نہ ہونا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے۔"
جیسی آیات سے حاصل ہوتے ہیں جس طرح ان آیات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان سستی کا شکار ہوجائے اور ذمہ داریوں سے گریزاں رہے اسی طرح ظہور مہدی ، آپ کے غلبہ اور عالمی حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سستی اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کو جائز سمجھ لیں۔
جس طرح صدر اسلام کے مسلمانوں نے ان آیات اور پیغمبر اکرم کی بشارتوں سے مستقبل کی فتوحات اور مسلمانوں کے ہاتھوں ممالک کی فتح کے بارے میں یہ نہیں سمجھا کہ ہمیں گھر میں بیٹھ کر مستقبل کا انتظار کرنا چاہئے اور دور سے مسلمانوں کی شکست، اور کفار کے مقابل علم وصنعت اور اسباب قوت میں مسلمانوں کی پسماندگی کا نظارہ کرتے رہنا چاہئے اور اس دور کے مسلمان یہ سوچ کر
خاموش نہیں بیٹھ گئے کہ خدا حافظ وناصر ہے اس نے نصرت کا وعدہ کیا ہے اس کا نور کبھی بجھ نہیں سکتااسی طرح جو لوگ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں خصوصاً اگرانہوں نے شیعہ طرق سے نقل ہونے والی روایات پڑھی ہیں تو انھیں اوامر خدا کی اطاعت اور احکام الٰہی کی ادائیگی میں دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ آگے ہونا چاہئے اور قرآن وشریعت، حریم اسلام، عظمت مسلمین کے دفاع کے لئے زیادہ غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
اللھّم عجّل فرجہ وسہّ-ل مخرجہ واجعلنا من انصارہ واعوانہ
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔
(۱)یقینا الله ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ،سورئہ لقمان ۳۴۔
(۱) اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت کا انتظام کرو، سورئہ انفال۔ ۶۰
(۱)سورہٴ حجر آیت۹۔
(۲)سورہٴ صف آیت۸۔
())سورہٴ آل عمران آیت۱۳۹۔
صفات مومن 7
کچھ حدیثوں کے مطابق ۲۵/ ذیقعدہ روز” دحو الارض“ اور امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے طوس کی طرف سفر کی تاریخ بھی ہے۔”دحو“کے معنی پھیلانے کے ہیں۔ قرآن کی آیت < والارض بعد ذلک دحیہا [1] اسی قبیل سے ہے ۔زمین کے پھیلاؤ سے کیا مراد ہے؟ اور یہ اس علم جدید سے کس طرح سازگار ہے جس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ زمین نظام شمسی کا جز ہے اور سورج سے جدا ہوئی ہے؟
جب زمین سورج سے جدا ہوئی تھی تو آگ کا ایک دہکتا ہوا گولا تھی،بعد میں اس کی گرمی سے اس کے چاروں طرف پانی وجود میں آیا جس سے سیلابی بارش کا سلسلہ شروع ہوا اور نتیجہ میں زمین کی پوری سطح پانی میں پوشیدہ ہوگئی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پانی زمین میں سمانے لگااور زمین پر جگہ جگہ خشکی نظر آنے لگی۔ بس ” دحو الارض“ پانی کے نیچے سے زمین کے ظاہر ہونے کا د ن ہے۔ کچھ روایتوں کی بنا پر سب سے پہلے خانہ کعبہ کا حصہ ظاہر ہوا۔ آج کا جدید علم میںبھی اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہوئی ہے۔ یہ دن حقیقت میں الله کی ایک بڑی نعمت حاصل ہونے کا دن ہے اس دن الله نے زمین کو پانی کے نیچے سے ظاہر کرکے زندگی کے لئے آمادہ کیا۔
کچھ تواریخ کے مطابق اس دن امام رضا علیہ السلام نے مدینہ سے طوس کی طرف سفر شروع کیا اور یہ بھی ہم ایرانیوں کے لئے الله کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، کیوںکہ حضرت کے قدموں کی برکت سے یہ ملک آبادی،معنویت، روحانیت اور الله کی برکتوں کے سر چشموں میں تبدیل ہو گیا۔ اگر ہمارے ملک میں امام کی بارگاہ نہ ہوتی تو شیعوںکے لئے کوئی پناہ گاہ نہ تھی۔ ہر سال تقریباً ۵۰۰۰۰۰۰,۱ افراد اہل بیت علیہم السلام سے تجدید بیعت کے لئے آپ کے روضئہ مبارک پر جاتے ہیں اورآپ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں۔ آپ کی معنویت ہمارے پورے ملک پر سایہ فگن ہے اور ہم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے۔ بہرحال آج کا دن کئی وجہوں سے مبارک دن ہے۔ میں الله سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم کو اس دن کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
مقدمہ :
اس ہفتہ کی اخلاقی بحث میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی تھی ۔ اس حدیث میں مومن کامل کی ۱۰۳ صفتیں بیان کی گئی ہیں، ہم گذشتہ جلسہ تک ان میں سے ۳۱/ صفتیں بیان کرچکے ہیں اور آج کے اس جلسہ میں چار صفات اور بیان کریں گے۔
حدیث :
” ….. حلیماً اذا جہل علیہ، صبوراً علی من اساء الیہ، یبجل الکبیر ویرحم الصغیر“ [2]
ترجمہ :
مومن کامل الایمان جاہلوں کے جہل کے مقابل بردبار اور برائیوں کے مقابل بہت زیادہ صبر کرنے والا ہوتا ہے،وہ بزرگوں کے کے ساتھ احترام سے پیش آتا ہے اور اپنے سے چھوٹوں پر رحم کر تا ہے۔
حدیث کی شرح :
مومن کی بتیسویں صفت: ” حلیماً اذا جہل علیہ“ ہے۔
یعنی وہ جاہلوں کے جہل کے مقابل بردباری سے کام لیتاہے اگر کوئی اس کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتا۔
مومن کی تینتسویںصفت: ” صبوراً علی من اساء علیہ“ ہے۔
یعنی اگر کوئی مومن کے ساتھ عمداً برا سلوک کرتا ہے تو وہ اس پر صبر کتا ہے۔پہلی صفت میں اور اس صفت میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ پہلی صفت میںزبان کی برائی مراد ہے اور اس صفت میں عملی برائی مراد ہے۔اسلام میں دو چیزیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک کا نام قانون اور دوسری کا نام اخلاق ہے ، قانون یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ برائ کرے تو آپ اس کے ساتھ اسی اندازہ میں برائی کرو۔قرآن میں ارشاد ہوتاہے کہ فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدیٰ علیکم [3] یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پرکی ہے۔ یہ قانون اس لئے ہے تاکہ برے لوگ برے کام انجام نہ دیں۔لیکن اخلاق یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ برائی کے بدلہ میں برائی نہ کروبلکہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دو۔ قرآن فرماتا ہے کہ < واذا مرو باللغو مروا کراماً [4] یا <ادفع باللتی ہی احسن السیئہ [5] یعنی آپ برائی کواچھائی کے ذریعہ ختم کیجئے۔ یا< واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً [6] جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ انھیں سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔
مومن کی چوتیسویں صفت:”یبجل الکبیر“ہے ۔
یعنی مومن بزرگوں کی تعظیم کرتا ہے ۔ بزرگوں کے احترام کا مسئلہ بہت سی روایات میں بیان زیر غور آیا ہے ۔ مرحوم شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب”سفینة البحار“ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ” من وقر ذا شیبہة لشیبتہ آمنہ الله تعالیٰ من فزع یوم القیامة“ [7] جو کسی بزرگ کا احترام اس کی بزرگی کی وجہ سے کرے تو الله اسے روز قیامت کے عذاب سے محفوظ کرے گا۔ایک دوسری روایت میں ملتا ہے کہ ” ان من اجلال الله تعالیٰ اکرام ذی الشیبة المسلم“ [8] یعنی الله تعالیٰ کی تعظیم میں سے ایک یہ ہے کہ مسلم بزرگوں کا احترام کرو۔
مومن کی پیتیسویں صفت:”یرحم الصغیر“ہے
یعنی چھوٹوں پر رحم کرتا ہے۔ یعنی محبت کے ساتھ پیش آتا ہے۔
مشہور ہے کہ جب بزرگوں کے پاس جاؤ تو ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کا احترام کرو اور جب بچوں کے پاس جاؤ تو ان کا احترام اس وجہ سے کرو کہ انھوں نے کم گنا ہ انجام دیئے ہیں۔
[1] سورہٴ نازعات: آیہ/ ۳۰
[2] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ، ص/ ۳۱۱
[3] سورہٴ بقرہ: آیہ/ ۱۹۴
[4] سورہٴ فرقان: آیہ/ ۷۲
[5] سورہٴ مومنون:آیہ/ ۹۶
[6] سورہٴ فرقان:آیہ/ ۶۳
[7] سفینة البحار ، مادہ” شیب “
[8] سفینة البحار، مادہ ”شیب “
صفات مومن 6
مقدمہ:
اس اخلاقی بحث میں پیغمبر اکرم کی و ہ حدیث بیان کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے بیان فرمائی تھی۔ اس حدیث میں مومن کی ۱۰۳ صفتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے ۲۶ صفتیں بیان ہو چکی ہیں اور آج کے اس جلسہ میں مومن کے پانچ صفات اوربیان کرنے ہیں۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ لطیف الحرکات، حلو المشاہدات، کثیر العبادة، حسن الوقار، لین الجانب“۔ ۔ ۔ [1]
ترجمہ :
مومن کی حرکتیں ہمیشہ لطیف ہو تی ہیں،وہ خوش مزاج اورکثیرالعبادة ہوتاہے ،اس سے سبک حرکتیں سرزد نہیں ہوتی اور اس کی ذات میں بہت زیادہ محبت و عاطفیت پائی جاتی ہے۔
شرح حدیث :
مومن کی ستائیسویں صفت: ” لطیف حرکات“ ہوناہے ۔
یعنی مومن کے حرکات و سکنات بہت لطف ہوتے ہیںاور وہ الله کی مخلوق کے ساتھ محبت آمیز سلوک کرتا ہے ۔
مومن کی اٹھائیسویں صفت:” حلو المشاہد“ ہونا ہے ۔
یعنی مومن خوش مزاج ہوتا ہے اور ہمیشہ شاد رہتا ہے وہ کبھی بھی ترش رو نہیں ہوتا۔
مومن کی انتیسویں صفت: ” کثیر العبادات“ ہے ۔
یعنی مومن بہت زیادہ عبادت کرتا ہے ۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عبادت سے روزہ، نمازمراد ہے یا اس کے کوئی اور معنی ہیں؟
عبادت کی دوقسمیں ہیں :
عبادت اپنے خاص معنی میں :
یہ وہ عبادت ہے کہ اگر اس میں قصد قربت نہ کیا جائے تو باطل ہو جاتی ہے۔
عبادت اپنے عام معنی میں :
ہر وہ کام کہ جس کواگر قصد قربت کے ساتھ کیا جائے تو ثواب رکھتا ہو مگر قصد قربت اس کے صحیح ہونے کے لئے شرط نہ ہو ۔ اس صورت میں تمام کاموں کو عبادت کا لباس پہنایاجا سکتا ہے ۔ عبادت روایت میں اسی معنی میں ہو سکتی ہے ۔
مومن کی تیسویں صفت: ” حسن الوقار“ ہے ، یعنی مومن چھوٹی اور نیچی حرکتیں انجام نہیں دیتا۔ وِقار یا وَقار کامادہ وَقَ رَ ہیں جس کے معنی سنگینی کے ہیں۔
مومن کی اکتیسویں صفت: ” لین الجانب “ ہے یعنی مومن میں محبت و عاطفت پائی جاتی ہے۔
اوپر ذکر کی گئی پانچ صفتوں میں سے چار صفتیں لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے مربوط ہیں۔ لوگوں سے اچھی طرح ملنا اور ان سے نیک سلوک کرنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے مخاطبین متاثر ہوتے ہیں چاہے دینی افراد ہوں یا دنیوی۔
دشمن ہمارے ماتھے پر تند خوئی کا کلنک لگانے کے لئے کوشاں ہے لہٰذا یہ ثابت کرنا چاہئے کہ ہم جہاں” اشداء علی الکفار“ ہیں، وہیں ” رحماء بینہم“ بھی ہیں۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں ملتا ہے کہ وہ ان غیر مسلم افراد سے بھی محبت کے ساتھ ملتے تھے جو در پئے قتال نہیں تھے ۔نمونہ کے طور پر تاریخ میںملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ایک یہودی کے ہم سفر تھے۔ اور آپ نے اس سے پہلے ہی بتا دیاتھا کہ دو راہے پر پہونچ کر میں تجھ سے جدا ہو جاؤںگا۔ لیکن دو راہے پر پہونچ کر بھی جب حضرت اس کے ساتھ چلتے رہے تو اس یہودی نے کہا کہ آپ کو تو دو راہ پر مجھ سے جدا ہو جا نا تھا لیکن آپ اب بھی میرے ساتھ چل رہے ہیں شاید آپ بھل گئے ہیں اور غلط راستے پر چل رہے ہیں ، حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نہیں! میں بھولا نہیں ہوں بلکہ اپنے دین کے حکم کے مطابق ہم سفر کے حق کو ادا کرنے کے لئے تھوڑی دو رتیرے ساتھ چل رہا ہوں۔ آپ کا یہ عمل دیکھ کر اس نے تعجب کیا اور مسلمان ہو گیا۔ اسلام کے ایک سادے حکم پر عمل کرنا بہت سے لوگوں کے مسلمان بن نے کا سبب بنتا ہے۔< یدخل فی دین الله افواجاً>لیکن افسوس ہے کہ کچھ مقدس افراد بہت زیادہ خشک ہو تے ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ دشمن کو بولنے کا موقعہ دیتے ہیں جب کہ دین کی بنیاد تند خوئی پر نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ۱۱۴ سورہٴ ہیں جن میں سے ۱۱۳ سورہ ” الرحمٰن الرحیم“ سے شروع ہوتے ہیں۔ یعنی ۱۱۴/۱ میں تندی اور ۱۱۳ میں رحمت ہے۔
دنیا میں دو طریقہ کے اخلاقات پائے جاتے ہیں :
1. ریاکارانہ اخلاق( دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے
2. مخلصانہ اخلاق( جو دل کی گہرائیوں سے ہوتا ہے
پہلی قسم کا اخلاق یوروپ میں پایا جاتاہے جیسے وہ لوگ ہوائی جہاز میں اپنے مسافروں کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے ہیں کیونکہ یہ کام ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اچھا سلوک مسافرون کو متاثر کرتا ہے۔
دوسری قسم کا اخلاق مومن کی صفت ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مومن کا اخلاق بہت اچھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ آپس میں میل محبت بڑھانے کے لئے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے۔ قرآن کریم میں حکیم لقمان کے قصے میںان کی نصیحتوں کے تحت ذکر ہوا ہے کہ < ولا تصعر خدک للناس و لا تمش فی الارض مرحا [2] ” تعصر“ کا مادہ” صعر“ ہے اور یہ ایک بیماری ہے جو اونٹ میں پائی جاتی ہے ۔ اس بیماری کی وجہ سے اونٹ کی گردن دائیں یا بائیں طرف مڑ جاتی ہے ۔ آیت فرمارہی ہے کہ گردن مڑ ے بیماراونٹ کی طرح نہ رہو اور لوگوں کی طرف سے اپنے چہرے کو نہ موڑو۔ اس تعبیرسے معلوم ہوتا ہے کہ بد اخلاق افراد ایک قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ آیت کے آخرمیں بیان ہوا ہے کہ تکبرکے ساتھ نہ چلو۔
________________________________________
[1] بحار،ج/ ۶۴ ، ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ لقمان: آیہ/ ۱۸
صفات مومن 5
مقدمہ :
گذشتہ جلسوں میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی تھی اس حدیث میں مومن کے ایک سو تین صفات بیان فرمائے گئے ہیں جن میں سے بائیس صفات بیان ہو چکے ہیں اور آج اس جلسہ میں ہم چار صفات اور بیان کریں گے۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ ۔ احلی من الشہد واصلد من الصلد ،لا یکشف سراً ولا یحتک ستراً ۔ ۔ ۔ [1]
مومن شہد سے زیادہ شرین اور پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ،جو لوگ اس کو اپنے راز بتا دیتے ہیں وہ ان کو آشکار نہیں کرتااور اگر خود سے کسی کے راز کو جان لیتا ہے تو اسے بھی ظاہر نہیں کرتا۔
حدیث کی تشریح :
مومن کی تیئیسویں صفت”احلی من الشہد“ہے۔
مومن شہد سے زیادہ شرین ہوتا ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا ہے ۔ائمہ معصومین ﷼اور خاصطور پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کی نشست اور ملاقاتیںبہت شرین ہوا کرتی تھیں۔آپ اہل مزاح اور ظریف باتیں کرنے والے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انسان جتنا زیادہ مقدس ہو، اسے اتناہی زیادہ ترشرو ہو نا چاہئے ۔جبکہ واقعیت یہ ہے کہ انسان کی سماجی،سیاسی،تہذیبی ودیگر پہلوؤں میںترقی کے لئے جو چیز سب سے زیادہ موثر ہے وہ اس کا نیک سلوک ہی ہے ۔کبھی کبھی سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل کام کو بھی نیک سلوک ،محبت بھری باتوں اور خندہ پیشانی کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے ۔نیک سلوک کے ذریعہ جہاں عقدوں کو حل اور کدورت کو پاک کیا جا سکتا ہے وہیں غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرکے آپسی تنازع کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”اکثر ما تلج بہ امتی الجنة تقویٰ الله وحسن الخلق“ [2] میر امت کے زیادہ تر افراد اچھے اخلاق اور تقویٰ کے ذریعہ جنت میں جائیں گے ۔
مومن کی چوبیسویں صفت”اصلد من الصلد“ہے
یعنی مومن پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔کچھ لوگ احلیٰ من الشہد کی منزل میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خوش اخلاق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دشمن کے مقابلہ میں بھی سختی نہ برتے۔لیکن پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن شہد سے زیاد شرین تو ہوتا ہے لیکن سست نہیں ہوتا،وہ دشمن کے مقابلہ میں پہاڑ سے زیادہ سخت ہوتاہے ۔روایت میں ملتا ہے کہ مومن دوستوں کے درمیان ”رحماء بینہم “ اور دشمن کے مقابل اشداء علی الکفار ہوتا ہے ۔مومن لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے (اشد من زبر الحدیدو اشد من الجبل)چونکہ لوہے اور پہاڑ کو تراشا جا سکتاہے لیکن مومن کو تراشا نہیں جاسکتا۔جس طرح حضرت علی علیہ السلام تھے ۔لیکن ایک گروہ نے یہ بہانہ بنایاکہ کیونکہ وہ شوخ مذاج ہیں اس لئے خلیفہ نہیں بن سکتے ۔جبکہ وہ مضبوط اور سخت تھے۔جہاں پر حالات اجازت دیں انسان کو خشک اور سخت نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جو دنیامیں سختی کرتا ہے الله اس پر آخرت میں سختی کرے گا۔
مومن کی پچیسویں صفت”لا یکشف سراً“ہے
یعنی مومن رازوں کو فاش نہیںکرتا۔رازوںکو فاش کرنے کے کیا معنی ہیں؟
ہر انسان کی خصوصی زندگی میں کچھ راز پائے جاتے ہیںجن کے بارے میں وہ یہ چاہتا ہے کہ یہ کھلنے نہ پائیںکیونکہ اگر وہ راز کھل جائیں گے تو اس کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگر کوئی انسان اپنے زار کو کسی دوسرے سے بیان کردے اور کہے کہ ”المجالس اماناة“یعنی یہ باتیں جو یہاں پر ہوئی ہیں آپ کے پاس امانت ہے تو یہ راز ہے۔ اور اس کو کسی دوسرے کے سامنے بیان نہیںکرنا چاہئے۔روایت میں تو یہاں تک ملتا ہے کہ اگرکوئی آپ سے بات کرتے ہوئے ادھر ادھر اس وجہ سے دیکھتا رہے کہ کوئی دوسرا نہ سن لے تو یہ راز کی مثل ہے چاہے وہ یہ نہ کہے کہ یہ راز ہے ۔مومن کاراز مومن کے خون کی طرح محترم ہے، لہٰذا کسی مومن کے راز کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔
مومن کی چھبیسویں صفت”لا یہتک ستراً“ہے
یعنی مومن رازوںکو فاش نہیںکرتا۔ہتک ستر (رازوں کو فاش کرنا )کہاں پر استعمال ہوتا ہے اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے اگر کوئی انسان اپنا راز مجھ سے نہ کہے بلکہ میں خود کسی طرح اس کے راز کے بارے میں پتہ لگا لوں تو یہ ہتک ستر ہے۔لہٰذا ایسے راز کو فاش نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ہتک ستر اور اس کا ظاہر کرنا غیبت کی ایک قسم ہے۔ آج کل ایسے رازوں کو فاش کرنا ایک معمول سا بن گیا ہے لیکن ہم کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ اگر وہ راز دوسروں کے لئے نقصاندہ نہ ہو اور خود اس کی ذات سے ہی وابستہ ہو تو اس کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے۔لیکن اگر کسی نے نظام ،سماج،ناموس،جوانوں اور لوگوںکے ایمان کے لئے خطرہ پیداکردیا ہے تو اس راز کو ظاہر کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔جس طرح غیبت ،کہ اگر مومن کے راز کی حفاظت سے اہم ہو تو بلامانع ہے، اسی طرح ہتک ستر میں بھی اہم اور مہم کا لحاظ ضروری ہے ۔الله ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
________________________________________
[1] بحارالانوار:ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰
[2] بحار الانوار:ج/ ۶۸ باب حسن الخلق ،ص/ ۳۷۵
صفات مومن 4
مقدمہ :
پچھلے جلسوں میں ہم نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ،جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے خطاب فرمائی بیان کی یہ حدیث مومن کامل کے ایک سو تین صفات کے بارے میں تھی۔اس حدیث سے سولہ صفات بیان ہو چکے ہیں اور اب چھ صفات کی طرف اور اشارہ کرنا ہے ۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بریئاًمن المحرمات،واقفاً عند الشبہات،کثیر العطاء،قلیل الاذیٰ،عوناً للغریب،واباً للیتیم ۔ ۔ ۔ ۔ [1]
ترجمہ :
مومن حرام چیزوں سے بیزار رہتا ہے ،شبہات کی منزل پر توقف کرتا ہے اور ان کا مرتکب نہیںہوتا،اس کی عطا بہت زیادہ ہوتی ہے،وہ لوگوں کو بہت کم اذیت دیتا ہے ،مسافروں کی مدد کرتا ہے اور یتیموں کے لئے باپ ہوتا ہے۔
حدیث کی شرح :
مومن کی سترہویں صفت”بریئاً من المحرمات “ ہے۔
یعنی مومن وہ ہے جو حرام سے بری اور گناہ سے بیزار ہے ۔گناہ انجام نہ دینا اور گناہ سے بیزار رہنا ان دونوں باتوں میں فرق پایا جاتا ہے ۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گناہ میں لذت تو محسوس کرتے ہیں مگر الله کی وجہ سے گناہ کو انجام نہیں دیتے ”یہ ہوا گناہ انجام نہ دینا“ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تہذیب نفس کے ذریعہ اس مقام پر پہونچ جاتے ہیں کہ ان کو گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ ہر گزگناہ سے لذت نہیں لیتے۔ بس یہی گناہ سے بیزاری ہے۔انسان کو اس مقام پر پہونچنے کے لئے (جہاں پر الله کی اطاعت سے لذت اور گناہ سے نفرت پیدا ہو جاے)بہت زیادہ زحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مومن کی اٹھارہویںصفت”واقفاً عند الشبہات“ ہے۔
یعنی مومن وہ ہے جو شبہات کے سامنے توقف کرتا ہے ۔چونکہ شبہات محرمات کا پیش خیمہ ہیں۔اس لئے جو شبہات کا مرتکب ہو جاتا ہے وہ محرمات میں پھنس جاتا ہے ۔شبہات سے بچنا چاہئے کیونکہ شبہات اس ڈھلان کی مانند ہے جو کسی درہ کے کنا رہ واقع ہو۔درواقع شبہات محرمات کا حریم (کسی چیز کے اطراف کا حصہ)ہے لہٰذا ان سے اسی طرح بچنا چاہئے جس طرح زیادہ وولٹیج والی بجلی سے ،کیونکہ اگر انسان معین فاصلہ کی حد سے آگے بڑھ جائے تو وہ اپنی طرف کھنیچ کی جلا ڈالتی ہے اسی لئے اس کے لئے حریم(اطراف کا فاصلہ)کے قائل ہیں ۔کچھ روایتوںمیں بہت اچھی تعبیر ملتی ہے جو بتاتی ہے کہ لوگوںکے حریم میں داخل نہ ہو ، تاکہ ان کے غضب کا شکار نہ بن سکو۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو منشیات کا شکار ہو گئے ہیں۔شروع میں انھوں نے تفریح میں نشہ کیا لیکن بعد میں بات یہاں تک پہونچ گئی کہ وہ اس کے بہت زیادہ عادی ہوگئے۔
مومن کی انیسویں صفت”کثیر العطا “ہے
یعنی مومن وہ ہے جو کثرت سے عطا کرتا ہے یہاں پر کثرت ،کثرت نسبی ہے یعنی (اپنے مال کے مطابق دینا)مثلاً اگر ایک بڑا سپتال بنوانے کے لئے ایک مالدار آدمی ایک لاکھ روپیہ دے تو یہ رقم اس کے مال کی نسبت کم ہے لیکن اگر ایک معمولی سا منشی ایک ہزار روپیہ دے تو سب اس کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ یہ رقم اس کے مال کی نسبت زیادہ ہے ۔جنگ تبوک کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی فوج کی تیاری کے لئے لوگوں سے مدد کی درخواست کی رسول کے اس اعلان پر لوگوں نے بہت مدد کی اسی دوران ایک کاری گر نے اسلامی فوج کی مدد کرنے کے لئے رات میں اضافی کام کیا اور اس سے جو بدل ملا وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔اس کم رقم کو دیکھ کر پاس بیٹھے منافقین نے مذاق کرنا شروع کیا فورا آیت نازل ہوئی <الذین یلمزون المطوعین من المومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جہدہم فیسخرون منہم فسخر الله منہم ولہم عذاب الیم [2] جو لوگ ان پاک دل مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق مدد کرتے ہیں،تو الله ان مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے ۔پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوعقیل اپنی کھجوران کجھوروں پر ڈال دو تاکہ تمھاری کھجوروں کی وجہ سے ان کھجوروں میں برکت ہو جائے ۔
مومن کی بیسویں صفت”قلیل الایذیٰ“ ہے
یعنی مومن کامل الایمان کی طرف سے دوسروں کو کم اذیت ہوتی ہے۔اس مسلہ کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال عرض کرتا ہوں ہماری سماجی زندگی ایسی اذیتوں سے بھری ہوئی ہے ۔نمونہ کے طور پر گھر کی تعمیر ایک ایسا مسلہ ہے جوسب کے سامنے پیش آتا ہے۔ مکان کی تعمیر کے وقت لوگ تعمیر کے سامان (جیسے اینٹیں،پتھر،ریت،سمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔ ) کو راستے میں پھیلاکر راستوں کو گھیر لیتے ہیں جس سے آنے جانے والوں کو اذیت ہوتی ہے ۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ سماجی زندگی میں جو یہ اذیتیںپائی جاتی ہیں ان کو جہاں تک ممکن ہو کم کرنا چاہئے۔بس مومن کی طرف سے لوگوں کو بہت کم اذیت ہوتی ہے ۔
مومن کی اکیسویں صفت”عوناً للغریب“ہے
یعنی مومن پردیسیوں کی مدد کرتا ہے ۔اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروںکی مددکرنابہت اچھا ہے لیکن درواقع یہ ایک بدلہ ہے یعنی آج میں اپنے پڑوسی کی مدد کررہا ہوں کل وہ میر مدد کرے گا ۔اہم بات تو یہ ہے کہ اس کی مددکی جائے جس سے بدلہ کی امید نہ ہو لہٰذاپردیسی کی مدد کرنا سب سے اچھا ہے۔
مومن کی بائیسویں صفت”اباً للیتیم “ہے
یعنی مومن یتیم کے لئے باپ ہوتا ہے ۔پیغمبر نے یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ مومن یتیموں کو کھانا کھلاتا ہے ،ان سے محبت کرتا ہے بلکہ فرمایا مومن یتیم کے لئے باپ ہوتا ہے ۔یعنی وہ تمام کام جو ایک باپ اپنے بچے کے لئے انجام دیتا ہے مومن یتیم کے لئے انجام دیتا ہے ۔
یہ تمام اخلاقی دستور سخت ماحول میں بیان ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنا اثر دکھایا ہے میں چاہتا ہوں کہ الله ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے اور ہم سب ان صفات پر توجہ دیتے ہوئے کامل الایمان بن جائیں۔
________________________________________
[1] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ توبہ:آیہ/ ۷۹
صفات مومن 3
مقدمہ :
اس سے پہلے جلسہ میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بیان کی جس میں آپ نے مومن کے ایک سو تین صفات بیان فرمائے ہیں ان میں سے دس صفات بیان ہو چکے ہیں اور اس وقت چھ صفات اور بیان کرنے ہیں۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مذکر الغافل ،معلم الجاہل،لا یوذیومن یوذیہ ولا یخوض فیما لا یعینہ ولا یشمت بمصیبة و لا یذکر احداً بغیبة ۔ ۔ ۔ ۔ “ [1]
ترجمہ :
مومن وہ انسان ہے جو غافلوں کو آگاہ کرتا ہے ،جاہلوں کو تعلیم دیتا ہے ،جو لوگ اسے اذیت پہونچاتے ہیں وہ ان کو اذیت نہیں پہونچاتا،جو چیز اس سے مربوط نہیں ہوتی اس میں دخل نہیںدیتا،اگر اس کو نقصان پہونچانے والا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو وہ اس کے دکھ سے خوش نہیں ہوتا،غیبت نہیں کرتا۔
حدیث کی شرح :
مومن کی گیارہویں صفت”مذکر الغافل“ہے
یعنی مومن غافل لوگوں کو متوجہ کرتا ہے غافل اسے کہا جاتا ہے جو کسی بات کو جانتا تو ہو مگر اس کی طرف متوجہ نہ ہو جیسے جانتا ہو کہ شراب حرام ہے مگر اس کی طرف متوجہ نہ ہو۔
مومن کی بارہویں صفت”معلم الجاہل “ہے
یعنی مومن جاہلوں کو تعلیم دیتا ہے اور جاہل نا جاننے والے کو کہا جاتاہے ۔
غافل کو متوجہ کرنے ،جاہل کو تعلیم دینے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں کیا فرق ہے؟
ان تینوں واجبوں کوکبھی بھی ایک نہیں سمجھنا چاہئے۔”غافل “اس کو کہتے ہیں جو حکم کو جانتا ہو مگر اس کی طرف متوجہ نہ ہو (موضوع کو بھول گیا ہو)مثلاًجانتا ہو کہ غیبت کرنا گناہ ہے لیکن اس سے غافل ہو کر غیبت میں مشغول ہو جائے ۔
” جاہل“اس کو کہتے ہیں جو حکم کو ہی نہ جانتا ہو اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے حکم کے بارے میں بتائیں جیسے وہ یہ ہی نہیں جانتا کہ غیبت حرام ہے۔
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر“یہ اس مقام پر ہے جہاں موضوع اور حکم کے بارے میں علم ہو یعنی نہ جاہل ہو اور نہ ہی غافل۔ان سب کا حکم کیا ہے؟
” غافل “یعنی اگر کوئی موضوع سے غافل ہو اور وہ موضوع مہم نہ ہو تو واجب نہیں ہے کہ ہم اس کو متوجہ کریںجیسے نجس چیز کا کھانا لیکن اگر موضوع مہم ہو تو متوجہ کرنا واجب ہے جیسے اگر کوئی کسی بے گناہ انسان کا خون اس کو گناہ گار سمجھتے ہوئے بہا رہار ہو تو اس مقام پر اس کو متوجہ کرنا واجب ہے۔
” جاہل“جو احکام سے جاہل ہو اس کو تعلیم دینا واجب ہے۔
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر“اگر کوئی انسان کسی حکم کے بارے میں جانتا ہوو غافل بھی نہ ہو اور پھر بھی گناہ انجام دے تو ہمیں چاہئے کہ نرم لب و لہجہ میں امر ونہی کریں۔
یہ تینوں واجب ہیں مگر تینوں کے دائروں میں فرق پایا جاتا ہے ۔عوام میں جو یہ کہنے کی رسم ہو گئی ہے کہ ”موسیٰ اپنے دین پر اور عیسیٰ اپنے دین پر“یا یہ کہ” مجھے اور تجھے ایک قبر میں نہیں دفنایاجائے گا“بے بنیاد بات ہے۔ہمیں چاہئے کہ آپس میں ایک دوسرے کو متوجہ کریںاور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرسے غافل نہ رہیں۔یہ ہمارا ہی کام ہے کسی دوسرے کا نہیں۔روایت میں ملتا ہے کہ سماج میں گناہگار انسان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کشتی میں بیٹھ کر اپنے بیٹھنے کی جگہ پر سوراخ کرے اور اب جب اس کے اس کام پر اعتراض کیا جائے تو جواب دے کہ میں تو اپنی جگہ پر سوراخ کررہا ہوںتو ایسے انسان کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ اس سوراخ کے نتیجہ ہم سب مشترک ہیں کیونکہ اگر کشتی میں سوراخ ہوگا تو ہم ڈوب جائیں گے ۔روایت میں اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر بازار میں ایک دوکان میں آگ لگ جائے اور بازار کے تمام دکاندار اس کو بجھانے کے لئے اقدام کریں تو وہ دوکاندار ان سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمھیں کیا مطلب یہ میری اپنی دکان ہے،کیونکہ اس کو فورا جواب ملے گا کہ ہماری دکانیں بھی اسی بازار میں ہیں ممکن ہے کہ آگ ہماری دکان تک بھی پہونچ جائے۔یہ دونوںمثالیںامر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فلسفہ کی صحیح تعبیر ہیں۔اور اس بات کی دلیل کہ یہ ہم سب کا فریضہ ہے یہ ہے کہ سماج میں ہم سب کی سرنوشت مشترک ہے ۔
مومن کی تیرہویں صفت”لا یوذی من یوذیہ“ہے
یعنی جو اس کو اذیت دیتے ہیں وہ ان کو اذیت نہیں پہونچاتا،دینی مفاہیم میں دو مفہوم پائے جاتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے جدا ہیں :
1. عدالت :
عدالت کے معنی یہ ہیں کہ”من اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدیٰ علیکم“یعنی تم پر جتنا ظلم کیا گیا ہے تم اس سے اسی مقدار میں تلافی کرو۔
2. فضیلت:
یہ عدل سے الگ ایک چیز ہے جو واقعیت میں معافی ہے ۔یعنی برائی کے بدلے بھلائی ،اور یہ ایک بہترین صفت ہے جس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”یعطی من حرمہ ویعفوا عن من ظلمہ یصل من قطعہ“جو اس سے کسی چیز کے دینے میں دریغ کرتا ہے اسکو عطا کرتا ہے ،جو اس پر ظلم کرتا ہے اسے معاف کرتا ہے ،جو اس سے قطع تعلق کرتا ہے اس سے رابطہ قائم کرتا ہے ۔یعنی جو مومن کامل ہے وہ عدالت کو نہیں بلکہ فضلیت کو اختیار کرتا ہے۔
مومن کی چودہویں صفت”ولا یخوض فیما لا یعنیہ“ ہے
یعنی مومن واقعی اس چیز میں دخالت نہیں کرتا جو اس سے مربوط نہ ہو”ما لا یعنیہ“ ”مالا یقصدہ“ کے معنی میں ہے یعنی وہ چیز آپ سے مربوط نہیں ہے۔ایک اہم مشکل یہ ہے کہ لوگ ان کاموں میں دخالت کرتے ہیں جو ان سے مربوط نہیں ہے حکومتی سطح پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے کچھ حکومتیں دوسرے کے معاملات میں دخالت کرتی ہیں۔
مومن کی پندرہوی صفت”ولا یشمت بمصیبة“ہے
یعنی زند گی میں اچھے اور برے سبھی طرح کے دن آتے ہیں ۔مومن کسی کو پریشانی میں گھرا دیکھ کر اس کو شماتت نہیں کرتا یعنی یہ نہیںکہتا کہ ”دیکھا الله نے تجھے کس طرح موصیبت میں پھنسایا میں پہلے ہی نہیں کہتا تھا کہ ایسا مت کر“کیونکہ باتیں جہاں انسا نی شجاعت کے خلاف ہیں وہیں زخم پر نمک چھڑکنے کے متردف بھی۔اگرچہ ممکن ہے کہ وہ مصیبت اس کے ان برے اعمال کا نتیجہ ہی ہوںجو اس نے انجام دئے ہیں لیکن پھر بھی شماتت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہر انسان کی زندگی میں سخت دن آتے ہیں کیا پتہ آپ خودہی کل مصیبت میں گرفتار ہو جائیں۔
مومن کی سولہویں صفت”ولا یذکر احداً بغیبة“ہے یعنی وہ کسی کا ذکر بھی غیبت کے ساتھ نہیں کرتا ہے ۔غیبت کی اہمیت کے بارے میں اتناہی کافی ہے کہ مرحوم شیخ مکاسب میں فرماتے ہیںکہ اگر غیبت کرنے والا توبہ نہ کرے تو دوزخ میں جانے والا پہلا نفر وہی ہوگااور اگر توبہ کرلے اور توبہ قبول ہو جائے تب بھی سب سے آخر میںجنت میں واردہوگا۔غیبت مسلمان کی آبروریزی کرتی ہے اور انسان کی آبرواس کے خون کی طرح محترم ہے او رکبھی کبھی آبرو خون سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے ۔
________________________________________
[1] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰
صفات مومن 2
مقدمہ :
گذشتہ اخلاقی بحث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی جس میں آپ حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک اس میں ایک سو تین صفات جمع نہ ہوجائیں،یہ صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں ۔پانچ صفات کل کے جلسہ میں بیان ہو چکی ہیں اور دیگر پانچ صفات کی طرف آج اشارہ کرنا ہے ۔
حدیث :
” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کریم المراجعة،اوسع الناس صدراً،اٴذلہم نفساً ،ضحکة تبسماً،واجتماعہ تعلماً ۔ ۔ [1]
ترجمہ :
اس کی مراجعت کریمانہ ہوتی ہے ،اس کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ ہوتا ہے ،وہ بہت زیادہ متواضع ہوتا ہے ،وہ اونچی آواز میں نہیں ہنستا،اور جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تو تعلیم و تعلم کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومن کی چھٹی صفت”کریم المراجعة“ ہے
یعنی وہ کریمانہ اندز میں ملتا جلتا ہے۔ اس میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :
1. جب لوگ اس سے ملنے آتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ کریمانہ سلوک کرتاہے۔یعنی وہ جن کاموں کے لے آتے ہیں اگر وہ ان پر قادر ہوتا ہے تو اسی وقت انجام دے دیتا ہے یا یہ کہ ان کو آئندہ انجام دینے کا وعد ہ کرلیتا ہے اور اگر قادر نہیں ہوتا تومعذرت کرلیتا ہے ۔قرآن کہتا ہے کہ قول معروف و مغفرة خیر من صدقة یتبعہااذی والله غنی الحلیم [2]
2. یا یہ کہ جب وہ لوگوں سے ملنے جاتا ہے تو اس کا ا نداز کریمانہ ہوتا ہے یعنی اگر کسی سے کوئی چیز چاہتا ہے تو اس کا انداز مادبانہ ہوتا ہے اور اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے اصرار کرکے سامنے والے کو شرمند ہ نہیںکرتا۔
مومن کی ساتویں صفت”اوسع الناس صدراً“ ہے
یعنی اس کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ ہوتا ہے قرآن کریم سینہ کی کشادگی کے بارے میں فرماتا ہے فمن یرید الله ا ن یہدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً [3] الله جس کی ہدایت کرنا چاہتا ہے (جس کو قابل ہدایت سمجھتا ہے ) اس کے سینے کواسلام قبول کرنے کے لئے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے (جس کو قابل ہدایت نہیں سمجھتا) اس کے سینے کو تنگ کردتیا ہے ۔
” سینہ کی کشادگی “ کے کیا معنی ہیں؟
جن لوگوں کا سینہ کشادہ ہوتا ہے وہ سب باتوں کو (ناموافق حالات ،مشکلات ،سخت حادثات ۔۔۔۔۔۔۔ )برداشت کرتے ہیں ۔برائی ان میں اثر انداز نہیں ہوتی ،وہ جلدی ناامید نہیں ہوتے ،علم ،حوادث،ومعرفت کو اپنے اندر سما لیتے ہیں۔اگر کوئی ان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کو اپنے ذہن کے ایک گوشہ میں رکھ لیتے ہیںاور اس کو اپنے پورے وجود پر حاوی نہیں ہونے دیتے ۔ لیکن جن لوگوںکے سینے تنگ ہیں اگر ان کے سامنے کوئی چھوٹی سی بھی نہ موافق بات ہو جاتی ہے تو ان کا حوصلہ اور تحمل جواب دے جاتا ہے۔
مومن کی آٹھویں صفت”اذلہم نفساً“ ہے
عربی زبان میں ”ذلت“ کے معنی فروتنی اور” ذلول “کے معنی رام ومطیع ہونے کے ہیں۔لیکن اردو میں ذلت کے معنی رسوائی کے ہیں بس یہاں پر یہ صفت فروتنی کے معنی میں ہے۔یعنی مومن میں بہت زیادہ فروتنی پائی جاتی ہے اور وہ لوگوںسے فروتنی کے ساتھ ملتا ہے سب چھوٹوں بڑوں کا احترا م کرتا ہے اور دوسروں سے اپنے احترام کی توقع نہیں رکھتا۔
مومن کی نویں صفت”ضحکہ تبسماً“ ہے۔
یعنی مومن بلند آواز میںنہیں ہنستا۔روا یات میں ملتا ہے کہ پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی بلند آواز میں نہیں ہنسے ۔بس مومن کا ہنسنا بھی مودبانہ ہوتا ہے ۔
مومن کی دسویں صفت ”اجتماعہ تعلماً“ہے۔ یعنی مومن جب لوگوںکے درمیان بیٹھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ تعلیم و تعلم میں مشغول رہے۔وہ غیبت اور بیہودہ باتوں سے (جن میں اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہوتا) پرہیز کرتا ہے۔
________________________________________
[1] بحارالانوار،ج/ ۶۴ ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ بقرة:آیہ/ ۲۶۳
[3] سورہٴ انعام:آیہ/ ۱۲۵
صفات مومن 1
حدیث :
روی ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال:یکمل الموٴمن ایمانہ حتی یحتوی علیہ مائة وثلاث خصالٍ:فعل وعمل و نیة وباطن وظاہر فقال امیر المؤمنین علیہ السلام:یا رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم ما المائة وثلاث خصال؟فقال صلی الله علیہ وآلہ وسلم:یا علی من صفات المؤمن ان یکون جوال الفکر،جوہری الذکر،کثیراً علمہ عظیماً حلمہ،جمیل المنازعة ۔۔۔۔۔۔ [1]
ترجمہ :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی ﷼ مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان الله کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “
حدیث کی شرح :
یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔
فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟
فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے
یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ کی بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں کے نتیجہ کے بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔
مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے:
بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔
مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔
یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔
مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے
یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔<فلما ذہب عن ابراہیم الروع و جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط ان ابراہیم لحلیم اواة منیب [3] ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔
مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے
یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج کی حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کرجنگ کے ایک جدید محاذ کی بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وقت ہے؟
جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ نے اپنے آپ کو حملہ کے لئے تیارکرلیا ہے اور عراق کے چاروں طرف اپنے جال کو پھیلا کر حملہ کی تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)کو ایٹم بم کے ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر، اپنے ایک فوجی افسر کو تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گروہ کو کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات کی تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب کچھ ہمارے بیدار ہو نے کے لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن <اعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس کے نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان کو یونیورسٹی سے لے کر مجلس تک اور دیگر مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س کو ”جمیل المنازعة“ کی صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کی صفت ہے۔ہمیں چاہئے ک قانون کو اپنا معیار بنائیں او روحدت کے معیاروںکو باقی رکھیں۔
اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔
________________________________________
[1] بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ ہود:آیہ/ ۸۲
[3] سورہٴ ہود:آیہ/ ۷۴ و ۷۵




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
