
سلیمانی
تل ابیب ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل میں ملوث: المیادین
المیادین ٹی وی چینل نے صہیونی میڈیا کے حوالے سے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی وزارت برائے اسٹریٹجک امور کے سابق ڈائریکٹر یوسف کپرواسر کا کہنا ہے کہ فخری زادہ ایرانی جوہری پروگرام کے قاسم سلیمانی تھے اور ایسا واقعہ صرف تل ابیب اور واشنگٹن ہی کرسکتا ہے۔
المیادین نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ میں نے اس ہفتے بہت کام کیا اور میں ان سب کے بارے میں بات نہیں کرسکتا ہوں۔
واضح رہے کہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹ کرکے لکھا ہے کہ شہید فخری زادہ کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ دہشت گردوں نے ایران کے ایک اور سینئر سائنسداں کو شہید کر دیا۔ یہ بزدلانہ اقدام جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں، ناکامی کے بعد جنگ کی کوشش کی علامت ہے۔
واضح رہے کہ جمعے کو دو پہر 2 بج کر 40 منٹ پر ایران کے سینئرایٹمی سائنسداں محسن فخری زادہ کو دارالحکومت تہران کے نزدیک آبسرد نواحی علاقے کے ایک چوراہے پر خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا
شہادت مبارک، انتقام سخت جاری رہیگا
شہادت ایسے مردان خدا کی دلی آرزو ہوتی ہے، کیا پتہ کہ شہید ہونے والا اس مقام شہادت کیلئے کتنا تڑپتا ہو۔ انقلاب کا ظہور، اس کی جدوجہد اور اس کی بقا کیلئے شہادتوں اور قربانیوں کی داستان اہل ایران کیلئے اسلام کے حقیقی چاہنے والوں کیلئے استقامت و شہامت کا باعث رہی ہیں، شہید محسن فخری زادہ کی شہادت اگرچہ معمولی نہیں، مگر انقلاب نے درس حریت کربلا سے حاصل کیا ہے۔ کربلا سے بڑھ کر کونسی قربان گاہ ہے، نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے، ہاں یہ اس راہ کے راہرو ہیں، جو اپنی اپنی باری پر اس قربان گاہ میں اپنی قیمتی ترین متاع کو پیش کرکے متمسک ہو رہے ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدان اس سے قبل بھی اسرائیلی ایجنٹوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ایرانی سکیورٹی ایجنسیز نے دشمنوں کے بہت سے منصوبے ناکام بھی بنائے ہیں اور کئی بڑی سازشوں کو وقت سے پہلے روکا ہے۔
بعض احباب سوشل میڈیا پر اور تو کچھ نہیں کرتے تنقید کے سوا، لہذا ان کے سامنے اب سکیورٹی کی ناکامی اور اتنے بڑے بندے جسے اسرائیل واضح طور پر نشانے پر رکھے ہوئے تھا، اسے اس طرح آسانی سے نشانہ بنانا سوالیہ نشان بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ شہید محسن فخری زادہ آج سے دشمن کے نشانہ پر نہیں تھے، یہ تو ہمیشہ ان کے نشانہ پر تھے۔ اتنا عرصہ آخر وہ کام کرتے رہے اور بہت سے اداروں سے وابستہ رہے، جہاں ان کا آنا جانا بھی ہوتا تھا تو آخر انہیں حفظ کیا گیا تھا۔ اس طرح کے سانحہ کا ہو جانا اگرچہ باعث حیرت ہے مگر نا ممکنات میں سے نہیں۔ چونکہ یہ کام داخلی طور پہ خریدے گئے ایجنٹوں اور غیروں کے نمک خواروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا، جبکہ ایران نے انقلاب کے بعد فقط امریکہ یا اسرائیل کیساتھ دشمنی نہیں رکھی، تمام استعماری طاقتیں اور نام نہاد اسلامی ممالک بھی روز اول سے امریکہ اور اس کے بلاک کے ساتھ ہیں، جن کا واحد ایجنڈا انقلاب کو کمزور کرنا ہے۔
اگر ہم سکیورٹی کی بات کریں تو انقلاب دشمن ممالک میں مقاومت اسلامی کے فرزندان کی کارروائیاں جنہیں منصوبہ بندی کے باعث سامنے بھی نہیں لایا جاتا، مگر دونوں فریقین کو علم ہوتا ہے کہ وہ سامنے آجائیں تو جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ان ممالک کا پول کھل جائے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکا۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا ایسے سانحات سے انقلاب جھکتا ہے یا اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرتا ہے، اپنے ارادوں اور عزم کو ظاہر کرتا ہے اور اپنے منصبوں پر عمل کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا جواب یقیناً دیا جائے گا اور کھل کر دیا جائے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ حملے کے بعد انکار کیا جائے، البتہ جیسا کہ عالمی سطح پر یہ خبریں تواتر سے آ رہی تھیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کی تیاری کر لی ہے اور مختلف بیسز پر اپنے طیاروں کو الرٹ کیا ہوا ہے، اسے بہانہ چاہیئے۔ یہ کارروائی ایران کے خلاف اس سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ ایران اتنی بڑی شخصیت کا بدلہ ضرور لے گا اور اس جواز پر اسے حملہ کا نشانہ بنا دیا جائے۔
میرے خیال میں ایران کی قیادت بہت زیرک ہے، انہوں نے جنگ کو کیسے لڑنا ہے، جنگ جو جاری ہے، جب سے انقلاب آیا ہے، اسے ان حالات میں کونسا رخ دینا ہے، کونسا میدان سجانا ہے، ایران کی دور اندیش اور باحمیت قیادت بہت ہی بہتر جانتی ہے۔ لہذا یہ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ نہیں، اس میں حوصلوں اور برداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ میڈیا وار، نفسیاتی جنگ، ٹیکنیکل اور ٹیکنالوجی کی جنگ جو کسی ایک کمرے میں بیٹھ کے کمپیوٹر پر لڑی جاتی ہے، تمام آپشن ایران کیلئے موجود ہیں۔ اگرچہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ و یورپ بہت آگے ہیں، مگر ایرانی سائنٹسٹوں نے بھی انہیں کئی ایک بار حیران و ششدر کیا ہے۔ ایران کے پاس کیا کچھ ہے، اس بارے اس کا دشمن نہیں جانتا، اس کی ظاہری طاقت کا اندازہ اسے نہیں ہے، جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الہیٰ و معنوی طاقت و قوت اور خداوند کریم پر ان کا ایمان، کربلا سے وابستگی اور شوق شہادت، یہ وہ طاقت ہے جسے جانچنے کیلئے ایران کے دشمن کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ لہذا اسلام کے ان حقیقی فرزندان اور خدمت گزاران سے مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں۔
شہید محسن فخری زادہ کا تعلق شہید سلیمانی کی نسل انقلاب سے تھا، انہیں یہ مقام نا ملتا تو حیرانی ہوتی، شہادت ان کا میرٹ تھا، جیسا کہ شہید سلیمانی نے اپنے آخری شام کے وزٹ میں مقاموت کے کمانڈرز کی میٹنگ میں فرمایا کہ جب پھل پک جاتا ہے تو مالی کو چاہیئے کہ اسے اتار لے، ورنہ وہ گل سڑ کر گر جاتا ہے اور بعض کمانڈرز کو اشارہ کرکے کہا کہ ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ پک چکا ہے، یہ بھی پک چکا ہے، شہید محسن فخری زادہ بھی وہ پکا ہوا پھل تھے، جسے مالی نے گلنے سڑنے سے پہلے اتار لیا، انہیں ان کی منزل مل گئی، وہ ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔ شہید سلیمانی کی شہادت سے شروع ہونے والا انتقام سخت کا سلسلہ جاری ہے، ہمیں امید ہے کہ شہید محسن فخری زادہ کی دردناک شہادت سے اس میں مزید تیزی آئیگی، جیسا کہ انقلاب اسلامی سے وابستہ اہم عہدیداران اور دفاعی ذمہ داران کے بیانات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر اسے اسرائیل کی کارروائی کہا ہے، انقلاب کا نظام اتنا قوی ہے کہ وہ بہت جلد اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے اور دشمن کو سبق بھی سکھائیں گے۔
ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ قاتلانہ حملہ میں شہید
اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کو مسلح دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ایرانی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ مسلح دہشت گردوں نے آج سہ پہر کو ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسداں کو فائرنگ کرکے زخمی کر دیا، جس کے بعد محسن فخری زادہ کو اسپتال منتقل کیا گيا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ ایرانی وزارت دفاع نے اس بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید محسن فخری زادہ کے قتل میں ملوث غیر ملکی ایجنٹوں کو گرفتار کرکے جلد از جلد کیفر کردار تک پہنجایا جائے گا۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کا پاکستان سے باضابطہ احتجاج
پاکستان کی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے فرانس کے صدر میکرون کو نازی کہنے پر فرانسیسی وزارت خارجہ نے پاکستان سے باضابطہ احتجاج کیا ہے۔ اطلاعات کےمطابق گزشتہ روز پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ فرانسیسی صدر میکرون مسلمانوں کے ساتھ وہی برتاؤ کررہے ہیں جو جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔
پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی میں یہودیوں کے خلاف جابرانہ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس میں مسلمانوں کے بچوں کے لیے خاص شناختی نمبر جاری کیے جارہے ہیں جیسے جرمنی میں یہودیوں کے لیے زرد ستارہ اور مخصوص لباس پہننا لازم کردیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر کی اس ٹوئٹ پر فرانس کی وزارت خارجہ نے باضابطہ طور پر پاکستان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی وزیر کا صدر میکرون پر تبصرہ توہین آمیز ہے۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے پیرس میں پاکستانی سفارت خانے کو شدید احتجاج سے آگاہ کردیا ہے ۔ پاکستان کو فوری طور پر یہ بیان واپس لے کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے
امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات امریکہ کی شکست خوردہ پالیسی کا مظہر
امریکہ نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ صرف کیا اور آج وہ شکست، ناکامی اور مایوسی کی حالت میں ان افراد کے ساتھ دوستی اور مذاکرات کے لئے مجبور ہوگیا جن کے سر پر اس نے انعام مقرر کیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ وہ لوگ جو حالات سے زیادہ باخبر نہیں ہیں ممکن ہے کہ وہ اس خـبر سے یہ سمجھتے ہوں کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تلاش و کوشش کررہا ہے لیکن جو لوگ افغانستان کے مسائل سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ خـبر امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ شکست اور ناکامی کا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔
امریکہ نے 2001 میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان پر فوجی یلغار کا آغاز کیا، نہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرسکا اور نہ القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کرسکا۔
صدائے افغان خبررساں ایجنسی کے سربراہ سید عیسی حسینی مزاری نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان میں صلح کے ذریعہ انتخاباتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور نیز وہ طالبان کو امریکہ کے دشمنوں کے کیمپ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور ٹرمپ کی شکست کی صورت میں صلح کا مصرف ختم ہوجائےگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا اصلی ہدف افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پرورش کا سلسلہ جاری رکھےگا اور افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی باقی رہےگی۔
افغانستان کے فوجی اور سیاسی تجزیہ نگار محمد حسن حقیار نے مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ اور علاقائی ممالک اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی کے ذریعہ اپنے ناجائز اور معاندانہ اہداف تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکہ کی طرف سے افغانستان میں داعش کی بھر پور حمایت اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔
اس نے امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ وہ افغانتسان میں جنگ نہیں جیت سکتا اس لئے اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔
سیاسی تجزيہ نگار عبدالاحد برین مہر کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان میں داخل ہوا اور اس طرح اس کا مقصد روس، چین اور ایران جیسی طاقتوں پر قریبی نظر رکھنا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک ہدف اپنے حریفوں پر قریبی نگرانی رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ امریکہ طالبان کے ذریعہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل دے جو امریکہ کے زیر نظر امریکی اہداف کے لئے کام کرنے کی پابند ہو۔
بہر حال امریکہ کا ہدف افغانستان سے آبرومندانہ طریقہ سے فوجی انخلا ہو یا افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام ہو ان سب کے باوجود امریکی اقدام ایک کھرب ڈالر صرف کرنے کے قابل نہیں تھا۔
امام حسن عسکری(ع) کےاخلاق واوصاف
ایران شام کی سالمیت کا بھرپور دفاع کرتا رہے گا: امیر عبد اللہیان
اسلامی مشاورتی مجلس برائے بین الاقوامی امور کے اسپیکر کے معاون خصوصی نے کہا کہ ایران شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔
یہ بات امیر عبداللہیان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے برائے شامی امور "گیر۔ او۔ پدرسن" کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کی کوششوں اور شام کی علاقائی سالمیت، قومی خودمختاری اور دیرپا سلامتی کی واپسی کے لئے کسی بھی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔
انہوں نے شام کی موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ خطرناک دہشت گرد گروہ اپنے نام تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا اقوام متحدہ کو غیر جانبدارانہ طریقہ کار کو اپنانا اور دوہرے معیاروں کو ترک کرنا ہوگا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آئینی کمیٹی کے کام میں تمام فریق ذمہ دار ہیں اور انھیں جوابدہ ہونا چاہئے اور شامی حکومت کو قصور وار ٹھہرانا غیرجانبدارانہ پالیسی کے منافی ہے۔
انہوں نے شام کے خلاف عائد پابندیوں خاص طور پر طب ، طبی سامان اور خوراک پر پابندیوں کو ظالمانہ قرار دے کر اور انسانیت سوز پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
عبداللہیان نے مزید کہا کہ ایران بدستور شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے نیز شام کے بارے میں غیرجانبدارانہ فیصلے پر زور دیتا ہے۔
عمران خان رواں ہفتہ افغانستان کا دورہ کریں گے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان رواں ہفتہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ افغان وزارت خآرجہ کے مطابق گذشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلیفون گفتگو ہوئی تھی جس کی بنیاد پر پاکستان کے وزیر اعظم رواں ہفتہ افغانستان کاد ورہ کریں گے۔
اس سفر میں دوطرفہ تعلقات ، دہشت گردی کی روک تھام اور افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تبادلہ خیال کیا جائےگا ۔ ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں امریکی سرپرستی میں ہونے والے معاہدے کے باوجود افغانستان میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔
گلگت بلتستان میں انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری
گلگت بلتستان میں شدید سردی کے باوجود انتخابات میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق گلگلت اور بلتستان کے اکثر علاقوں میں آج شدید سردی ہے، بارش اور بالائی علاقوں میں برف باری ہوئی ہے، نظامِ زندگی متاثر ہے تاہم موسم خراب ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں ووٹرز ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ اسٹیشنز پہنچ رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں برفباری اور موسم شدید سرد ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹرز کا رش ہے جبکہ شدید سردی کے باوجود خواتین بھی بڑی تعداد میں صبح سویرے ہی ووٹ ڈالنے پہنچ گئیں۔
غذر کی بالائی تحصیل پھنڈر میں بھی برفباری ہوئی ہے جس کے باعث متعدد علاقوں کی رابطہ سڑکیں متاثر ہیں، نقطۂ انجماد سے نیچے درجۂ حرارت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے باسی ووٹ ڈالنے کے لیے پرعزم ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے سلسلے میں 23 نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل جاری ہے، پولنگ کا عمل بغیر وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہے گا۔
شام 5 بجے کے بعد جو ووٹرز پولنگ اسٹیشنز میں ہوں گے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔
گلگت بلتستان کے 3 ڈویژن 10 اضلاع پر مشتمل ہیں، گلگت ڈویژن میں گلگت، ہنزہ، نگر اور غذر کے اضلاع شامل ہیں، بلتستان ڈویژن اسکردو، گانچھے، شگر اور کھرمنگ کے اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ دیامر استور ڈویژن میں 2 اضلاع دیامر اور استور شامل ہیں۔
گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 7 لاکھ 45 ہزار 361 ہے، جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5 ہزار 63 ہےجبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہے۔
یہاں ایک لاکھ 26 ہزار 997 ووٹرز پہلی بار اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 1 ہزار 260 ہے جن میں سے مردوں کے پولنگ اسٹیشنز 503 ہیں، خواتین کے پولنگ اسٹیشنر 395 ہیں، جبکہ مشترکہ پولنگ اسٹیشنر 362 ہیں۔
ان 1 ہزار 260 پولنگ اسٹیشنز میں سے 297 پولنگ اسٹیشنز کو حساس، جبکہ 280 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن کے دوران سیکیورٹی کے لیے 13 ہزار 481 اہلکار تعینات کیئے گئے ہیں جن میں پولیس، رینجرز اور جی بی اسکاوئٹس شامل ہیں جبکہ دیگر صوبوں کی 5 ہزار 700 اہلکاروں پر مشتمل اضافی پولیس نفری بھی الیکشن ڈیوٹی کے لیے تعینات کی گئی ہے۔سینٹرل پولیس آفس گلگت میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔
امریکہ کا میجر جنرل سلیمانی پر مجرمانہ حملہ عراقی حاکمیت کی کھلی خلاف ورزی تھا
عراق کے ایک حقوقداں طارق حرب نے اعلان کیا ہے کہ بغداد ایئر پورٹ پر شہید میجر جنرل سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا بزدلانہ اور مجرمانہ حملہ عراقی حاکمیت اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی تھا۔
طارق حرب نے کہا کہ قومی حاکمیت کی حفاظت کے لئے ہر ملک کا بنیادی آئين اس کا سب سے اعلی قانونی مرجع ہوتا ہے اور اس قانون کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ، ملکوں کی حاکمیت کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔
اس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا منشور دنیا کے لئے بنیادی آئین کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی خلاف ورزی عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔ طارق حرب نے کہا کہ بغداد ايئر پورٹ پر شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس پر امریکہ کا مجرمانہ حملہ اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ طارق حرب نے کہا کہ امریکہ کے مجرمانہ اور ظالمانہ حملے کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ اس سے قبل عراقی پارلیمنٹ کے سکیورٹی اور دفاعی امور کے رکن ابناس المکصوصی نے عراقی وزير اعظم مصطفی الکاظمی سے کہا تھا کہ وہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس کے بارے میں تحقیقات عراقی پارلیمنٹ میں پیش کریں۔