سلیمانی

سلیمانی

جذبات، جذبہ کی جمع ہے۔ جذبہ ایک کیفیت  ہوتی ہے جو انسان کے دل ودماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کے شعورکی سطح کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ جذبات کسی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے۔ کیونکہ قانون کا تعلق شعور کی سطح سے ہے۔ دوسرے الفاظ میں جذبات اس کیفیت کو کہتے ہیں۔ جو انسان کے اعصابی نظام میں داخل ہوکر اس  کے خیالات ، احساسات اور رویےکو متاثر کرتی ہے۔

جذبات اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ جذباتی کیفیت جب کسی ارفع مقصد سے جڑ جائے توا یسے جذبات قابل تحسین ہوتے ہیں۔ مثلا ایمانی جذبے کےساتھ جہاد کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے۔  لیکن انہی جذبات کے پیچھے محرکات اگر درست نہ ہوں، مثلا قومی یا لسابی عصبیت جذباتی انگیخت کیلئے محرک بن جائے تو یقینا ایسے جذبات قابل مذمت ہوتے ہوں۔ کیونکہ ایسے جذبات معاشرے کیلئے نقصان دہ اور برے ہوتے ہیں۔

جذبات کی قسمیں
جذبات  دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔ منفی جذبات اور مثبت جذبات۔ دوسرے لفظوں میں انہیں تعمیری اور تخریبی جذبات بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب ہم  جذبات کی حالت میں ہوتے ہوئے اپنا  کوئی خاص رویہ ظاہر کرتے ہیں۔ تو اس کو جذباتی کیفیت کا نام دیا جاتا ہے۔ جذباتی کیفیت انسان کی برین کیمسٹری کو تبدیل کرتی ہے۔ اس سے انسانی دماغ اس سے مختلف ہارمونز کا اخراج کرتا ہے جوانسانی دماغ نارمل حالت میں خارج کرتا ہے۔ جذبات کی وجہ سےانسان کی جسمانی کیفیت بھی بدلتی ہے۔

مثلا جب  انسان کو غصہ آجاتا ہے تو اس کی برین کیمسٹری متاثر ہوتی ہے۔ اور اس کے دماغ سے مختلف قسم کے ہارمونز کا اخراج شروع ہوجاتا ہے ۔ غصے کی وجہ سے اس کی جسمانی کیفیت بھی بدل جاتی ہے۔ اور انسان  نارمل حالت سے ابنارمل حالت میں چلاجاتاہے۔

اسی طرح جب انسان کو خوف لاحق ہوجائے، تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اسٹریس یا ذہنی دباو ہو تو دماغ پر بوجھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ خوشی کی حالت میں اس کے تمام اعضاوجوارح نارمل کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ یوں جذباتی کیفیت کی جھلک انسان کے چہرے اور رویے سے ظاہر ہوتی ہے ۔ یعنی انسان کے اسٹیٹ اف مائنڈ یا ذہنی کیفیت براہ راست اس کی جسمانی حالت یا رویے پر اثرانداز ہورہی ہوتی ہے۔


 یہی جذبات بعد میں مستقل طورپر انسانی رویوں اور عادات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی جذبات کی تعداد اتنی ہی  ہے جتنی انسان کے احساسات اور ان کے تحت ظاہر ہونے والے رویے ہیں۔ تاہم ایک ریسرچ کے مطابق بنیادی طور پر سات قسم کے جذبات انسا ن میں پائے جاتے ہیں۔  باقی سب ان کی فروع یا ان سے نکلنے والی شاخیں ہیں۔

یہ جذبات مندرجہ ذیل ہیں۔ خوشی، غم، غصہ ، نفرت، حیرت وتعجب، مایوسی اور خوف۔ ان کے علاوہ بھی کئی جذبات پائے جاتے ہیں۔ مثلا فخر، غرور وتکبر، شرمندگی، پرجوش ہونا، آرام وسکون محسوس کرنا اور اطمینا ن کی کیفیت وغیرہ ۔

جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کیا ہوتی ہے؟
یہ  جدید  نفسیات کی ایک  اصطلاح ہے جو آج کی سوسائٹی میں کا فی  استعمال ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ  ہےکہ جب انسان کو اپنے جذبات پرمکمل کنٹرول حاصل ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنے جذبات کی لگام کو اپنے پاس رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ تو اس کے رویے بھی مثبت رویوں کی شکل اختیار کرلیتے  ہیں۔ اسی جذباتی کیفیت کو جذباتی ذہانت کانام دیا جاتاہے ۔ عام طورپر جذبات انسانی شعور کو ڈرایئو کررہے ہوتے ہیں۔  اسی وجہ سے ان کا نام جذبات رکھا گیا، کہ وہ انسانی شعور کواپنے اندر جذب کررہے ہوتے ہیں۔

اگر جذبات انسان کے کنٹرول میں ہوں، تو اسے  جذباتی ذہانت کا نام دیاجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ای کیولیول  بہت بلند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جذبات اپنے کنٹرول میں نہ ہوں۔ بلکہ انسان خود اپنے جذبات کے کنٹرول میں ہو توا سے جذباتیت کا نام دیا جاتاہے۔

 بچوں کی تربیت کے پانچ ایریاز
یہ حقیقت ہےکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔  ہمیں ان ننھے پودوں کا مالی کی طرح خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں ہمیں بنیادی طور پر پانچ جہتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ یعنی  ان پانچوں ایریا ز میں بیک وقت تربیتی کام کرنا چاہیے۔ وہ پانچ ایریاز مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ دینی تربیت، 2۔ جسمانی تربیت ،3۔  ذہنی تربیت، 4۔ سماجی تربیت  ، 5۔ جذباتی تربیت

یہاں ہم  صرف جذباتی تربیت  کی کچھ تفصیلات ذکر کریں گے۔


بچوں کی جذباتی تربیت
بچوں کی جذباتی تربیت سے مراد بچوں کے خیالات ، احساسات، مزاج اور رویوں کی تربیت کرنا ہے۔ بچوں کی تربیت میں یہ اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر انتہائی نظر انداز میدان بھی ہے۔ والدین اور اساتذہ عام طور پر بچوں کی جسمانی اور ذہنی تربیت پرکافی زور دیتے ہیں۔ اورکسی حد تک دینی تربیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن سماجی وجذباتی تربیت عام طور پر نظر انداز ہوجاتی ہے۔

یہاں پرایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا  ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ تعلیم اور تربیت کے درمیان فرق کو عام طور پر ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔ تعلیم ہی کو تربیت خیال کرکے تربیت کو بسااوقات کلی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد خود بخود ان کی تربیت بھی  ہوجائے گی۔

حالانکہ یہ شدید غلط فہمی ہے، تعلیم پر کام کرنے سے تربیت قطعا نہیں ہوسکتی۔ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں اور دونوں پر الگ الگ کام کرنا پڑتاہے۔ اگر ہم تعلیم اور تربیت میں فرق کو جاننا چاہیں تو تعلیم کا تعلق انسان کے فہم ، شعور اور ادراک سے ہے۔ تعلیم میں بچے کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے فہم وشعورکو بہتر کیا جاتا ہے اور بس۔

جبکہ تربیت میں بچے کے مزاج اورجذبات پر کام کیا جاتا ہے۔ یعنی تعلیم یہ ہے کہ متعلم شعوری طور پر اچھے کو اچھا سمجھے اور برے کو براسمجھے ۔ یا اچھے کو اچھا بتائے اوربرے کو برا بتائے ۔

جبکہ تربیت یہ ہے کہ اچھائی اس کوجذباتی طور پراچھی لگنے لگے۔ اور برائی سے جذبات نفرت ہو۔ صرف جاننا کافی نہیں بلکہ یہ اچھائی اس کے مزاج ومذاق کا حصہ بنے اوراسے وہ دل سے اچھی لگنے لگے۔ اسی طرح برائی اسے بری لگنے لگے اور وہ برائی سے بچنے کی ازخود کوشش کرنے لگے۔

جذبات اور عقل کا تعلق
جذبات ہمارے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو  بہت متاثر کرتے ہیں۔ ہم اپنے شعوروعقل سے اس وقت تک درست کام نہیں لے سکتے۔ جب تک کہ ہم جذباتی طور پرمتوازن نہ ہوں۔ اسی طرح بچوں کے جذبات  کی بات کی جائے، تو جب تک بچے جذباتی طور پر متوازن نہ ہوں۔ اس وقت تک تعلیم یا زندگی کے کسی بھی  میدان میں ان سے  اچھی کارکردگی کی  توقع رکھنا مشکل  ہے۔ جذبا ت وہ توانائی ہوتے ہیں جو ارادوں کےعمل میں ڈھلتے وقت ہماری مدد کرتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیم وتعلم کا میدان ہو یا  زندگی گزارنے کا کوئی بھی میدان ہو۔


کئی بچے تعلیمی میدان میں بڑی اچھی کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے گریڈز اور رزلٹ بڑے اچھے ہوتے ہیں ۔ لیکن بعد میں  گھریلو، خاندانی اورمعاشرتی زندگی میں وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔  اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی کہ وہ  جذباتی عدم توازن کا شکارہوتے ہیں ۔ لہذ ا بچوں کو کامیاب مستقبل دینے کے لئے ضروری ہے۔ کہ ان کی جذباتی تربیت کا خوب اہتمام کیا جائے۔

 

 ایران میں اہل سنت مسلمانوں کی کل تعداد آٹھ فی صد ہے اور ان کی اکثریت صوبۂ سیستان و بلوچستان، صوبۂ کردستان، صوبۂ مغربی آذر بائیجان، صوبۂ خراسان رضوی، صوبۂ شمالی خراسان، صوبۂ جنوبی خراسان، صوبۂ بوشہر، صوبۂ فارس کے جنوب میں اور صوبۂ گلستان کے مشرق میں رہائش پذیر ہے۔

ایران میں اہلِ سنت کے مذہبی مقامات پر ایک نظر

اس کے علاؤہ ان کی ایک قلیل تعداد صوبہ گیلان اور بعض دوسرے صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ملک کے مشرقی صوبہ سیستان و بلوچستان میں ہمارے اکثر سنی بھائی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

صوبۂ سیستان و بلوچیستان کے زاہدان، چابہار، ایرانشہر،خاش، سراوان، سرباز اور کنارک نامی شہروں میں اکثر اہل سنت رہتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے اہل سنت کی آبادی والا دوسرے نمبر کا حامل صوبہ، ایران کے مغرب میں عراق کی سرحد سے ملحق صوبہ کردستان ہے – اس صوبہ میں رہنے والے اکثر اہل سنت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں - اس صوبہ کے سنندج، سردشت، مریوان، بانہ اور نقدہ نامی شہروں میں ہمارے اکثر سنی بھائی رہتے ہیں۔ ایران کی مغربی سرحد پر عراق اور ترکی سے ملحق مغربی آذر بائیجان کے صوبہ کے شہر مہاباد اور اشنویہ میں بھی بعض اہل سنت بھائی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایران کے ترکمن اہل سنت ایران کے شمال مشرقی صوبہ گلستان کے بندر ترکمن نامی شہر میں رہتے ہیں۔ اس صوبہ میں اکثر اہل سنت ترکمان ہیں۔

آئین کی دفعہ 12 کے مطابق اہل سنت کے دینی مدارس کی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکومت ہر سنی دینی طالب علم کو مندرجہ ذیل خدمات فراہم کرتی ہے:

بیمہ عمر(life insurance)، بیمہ تکملہ،بینک کی سہولیت، ازدواج کا قرضہ، (حج) عمرہ کاکوٹہ، شادی شدہ طلاب کے لئے مالی امداد، دینی مدارس کو کمپیوٹر فراہم کرنا، اور دینی مدارس میں کتابخانہ قائم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت اہل سنت کے 30000 سے زائد طالب علم مذکورہ سہولیات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔

اہل سنت کے دینی مدارس کے تمام معلّمین اور اساتذہ، طبقہ بندی کے مطابق یونیورسٹی کے استادوں کے مانند ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل سنت کے عمر رسیدہ علماء اور فوت شدہ علماء کو بھی "مرکز خدمات حوزہ ہای علمیہ اہل سنت" کی طرف سے وظیفہ ملتا ہے۔ اہل سنت کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام طالب علم اجباری فوجی تربیت سے مستثنیٰ ہیں اور فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کوباضابطہ قانونی اسناد دی جاتی ہیں – اس کے علاوہ سند یافتہ اہل سنت دینی طالب علموں کومختلف اداروں میں اسی سند کی بناء پرنو کریاں بھی ملتی ہیں اور یہ امر اہل سنت طلاب میں روز بروز اضافہ کا سبب بنا ہے۔ اس طرح بعض افراد جو سہولیات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں نہیں تھے آج دینی تعلیم حاصل کرنے کو مروجہ اور یونیورسٹی کی تعلیم پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل سنت گھرانے اپنی اولاد کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ یونیورسٹی کے بجائے دینی مدارس میں بھیجنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

قارئین کی معلومات میں اضافہ کے لئے یہاں پر2019 کی رپورٹ کے مطابق ایران میں اہل سنت حضرات کے مدارس اور مساجد پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

الف: مدارس

صوبۂ سیستان و بلو چستان کے دینی مدارس

صوبہ سیستان و بلو چیستان ایک ایسا صوبہ ہے، جس میں اہل سنت کے سب سے زیادہ دینی مدارس ہیں۔ صوبہ سیستان و بلو چیستان میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے دینی مدارس کی تعداد بہت کم تھی اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے اکثر شائقین ہندوستان اور پاکستان ہجرت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس صوبہ کے محدود دینی مدارس کی کیفیت بھی مختلف محدود یتوں اور اہل سنت کے قبل علماء کی کمی کی وجہ سے پست تھی۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ اس صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس میں روز افزوں ترقی کی وجہ سے دینی تعلیم کے شائقین اس مقصد سے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے سےبے نیاز ہوئے اور اسی صوبہ کے مختلف شہروں میں متعد د مدارس قائم ہوگئے۔ اس وقت اس صوبہ کے دینی مدارس (و مکاتب) اور حوزہ علمیہ کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔ ان دینی مدارس کی کیفیت میں ترقی اس امر کا سبب بنا ہے کہ آج بہت سے اہل سنت دینی طالب علم دوسرے ممالک، من جملہ افغا نستان اور پاکستان کے صوبہ بلو چستان سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایران کے صوبہ بلوچستان آتے ہیں۔

اس صوبہ میں اہل سنت دینی طلاب کی تعداد تقریبا 7000 افراد پر مشتمل ہے، جبکہ انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں طلاب کی تعداد 300 افراد سے زیادہ نہیں تھی۔

اس وقت صوبہ سیستان و بلوچیستان کے دینی مدارس میں اہل سنت کو عالی ترین سطح پر دینی تعلیم دی جاتی ہے۔

سیستان و بلوچیستان کے صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس کے علاوہ متعدد ثقافتی مراکز بھی سر گرم عمل ہیں، جو برادران اہل سنت کے لئے گونا گوں وسائل سے آراستہ ریڈنگ روم اور کتابخانوں کے لئے بے مثال خدمات انجام دیتے ہیں۔

ایران میں اہلِ سنت کے مذہبی مقامات پر ایک نظر

صوبۂ کردستان کے دینی مدارس

صوبہ کردستان کے شہر مریوان، بانہ،سرد آباد، سنندج،سقز اور دیواندرہ میں اس وقت اہل سنت کے 26 دینی مدارس(حوزہ علمیہ)فعال ہیں، ان میں 1300 لڑکے اور لڑکیاں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں اس کے علاوہ اس وقت مزید دس دینی مدارس زیر تعمیر ہیں۔

صوبۂ مغربی آذر بائیجان کے دینی مدارس

صوبہ مغربی آذر بائیجان میں اہل سنت کے گیارہ دینی مدارس(حوزہ علمیہ)سر گرم عمل ہیں اس کے علاوہ اس صوبہ کے ارومیہ، بو کان، مہا باد، نقدہ، پیران شہر اور اشنویہ میں بھی اہل سنت کے دینی مدارس قائم ہیں۔

صوبۂ کرمانشاہ کے دینی مدارس

اس صوبہ میں اہل سنت کے پندرہ(15) دینی مدارس فعال ہیں جن میں 200 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں اس صوبہ کے بعض شہروں میں چار سے زائد دینی مدارس موجود ہیں۔

صوبۂ گلستان کے دینی مدارس

صوبہ گلستان کے مشرق میں اہل سنت کے 120 دینی مدارس(حوزہ علمیہ)سر گرم عمل ہیں اور اس صوبہ میں اس وقت 3500 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں۔

صوبۂ خراسان رضوی کے دینی مدارس

خراسان رضوی کے صوبے میں بھی ہمارے اہل سنت بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام کے پر مہر سائے میں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔ اس صوبہ میں اس وقت 1500 سے زائد اہل سنت طلاب امن و امان کے ماحول میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بھر پور حمایت اور مدد سے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

صوبۂ خراسان جنوبی کے دینی مدارس

خراسان جنوبی نامی صوبہ میں اہل سنت بھائیوں کے 10 دینی مدارس(حوزہ علمیہ) ہیں، جن میں تقریبا 200 طلاب، دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں - صوبہ خراسان جنوبی میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے صرف دو دینی مدارس تھے اور ان دو مدارس کو بھی بہت کم سہولیات فراہم تھیں۔

صوبۂ خراسان شمالی کے دینی مدارس

صوبہ خراسان شمالی میں اہل سنت کے 30 دینی مدارس(حوزہ علمیہ)ہیں،اور دینی مدارس کی یہ تعداد انقلاب سے قبل والی تعداد سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ اس صوبہ کے مختلف شہروں میں اس وقت تقریباً 1000 طلاب، دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں اور تجربہ کار اساتذہ سے کسب فیض کر رہے ہیں۔

صوبۂ ہرمزگان کے دینی مدارس

شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے اہل سنت حضرات کی ایک بڑی تعداد ایران کے جنوب میں صوبہ ہرمزگان کے بندر عباس، قشم، میناب، جاسک، بستک، کیش اور بندر لنگہ وغیرہ نامی شہروں میں خلیج فارس کے ساحل پر رہائش پذیر ہے۔ ایران کے دوسرے صوبوں کے مانند اس صوبہ میں بھی برادران اہل سنت کے مخصوص دینی مدارس قائم ہیں۔

جبکہ انقلاب سے پہلے اس صوبہ میں اہل سنت کے مدارس کی تعداد انتہائی کم تھی، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی برکت اور نظام کے مسؤلین کی خاص توجہ اور حمایت کے نتیجہ میں اس وقت اس صوبہ میں بہت سے دینی مدارس قائم کئے گئے ہیں۔ اور ان میں طلاب روزانہ دینی تعلیم و تحقیق میں مشغول ہیں۔ اس صوبہ میں اہل سنت کے دینی مدارس کی تعداد تقریباً 40 ہے۔

صوبۂ بوشہر کے دینی مدارس

کچھ اہل سنت، صوبہ بوشہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس صوبہ میں اہل سنت کے 8 دینی مدارس قائم ہیں ان مدارس میں 1100 دینی طلاب تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں 700 طالبات ہیں۔

صوبۂ فارس کے دینی مدارس

اہل سنت بھائیوں نے رہائش کے لئے اس صوبہ کے جنوبی شہروں کو منتخب کیا ہے اس صوبہ میں اس وقت 20 دینی مدارس (حوزہ علمیہ) ہیں جن میں تقریبا ً 1000 طلاب زیر تعلیم ہیں۔

صوبۂ گیلان کے دینی مدارس

صوبہ گیلان میں بحرخزر کے ساحل پر بسے ہوئے اہل سنت بھائیوں کے 7 دینی مدارس ہیں اور ان مدارس میں مجموعی طور پر تقریباً 200 دینی طلاب زیر تعلیم ہیں۔

ب: مساجد

پورے ایران میں اہل سنت کی آبادی صرف آٹھ فی صد ہے اور اس وقت ایران میں اہل سنت کی تقریباً 13000 مسجدیں ہیں۔

تہران

ایران کے مرکزی شہر’تہران‘میں اہلسنت حضرات کی حد اقل ۹ مسجدیں سرگرم عمل ہیں۔ مسجد صادقیہ، صادقیہ کے دوسرے چوراہے کے پاس؛ مسجد تہران پارس، دلاوران روڈپر؛ مسجد شہر قدس، شہر کے پرانے ہائی وے پر؛ مسجد خلیج فارس، فتح ہائی وے پر؛ مسجد النبیؐ، دانش سوسائٹی پر؛مسجد ہفت جوب، ملاردہائی وے پر؛ مسجد وحیدیہ، شہر یار میں؛ مسجد نسیم شہر، اکبر آباد میں؛ مسجد رضی آباد، شہریار تراہے پر۔

صوبۂ سیستان و بلو چیستان

اہل سنت بھائیوں کی اکثر مسجدیں صوبہ سیستان و بلوچیستان میں فعال ہیں۔ ایران میں اہل سنت کی نشریات میں شائع شدہ تطبیقی اعداد و شمار اور صوبوں کی سازمان تبلیغات اسلامی کے توسط سے حاصل شدہ مساجد کے بارے میں اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ مسجدوں میں سے اکثر مسجدیں صوبہ سیستان و بلوچیستان میں ہیں، اور اس صوبہ میں اہل سنت کی مسجدوں کی تعداد 3700 ہے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر صوبہ کردستان ہے، جس میں 2000 مسجدیں ہیں اور تیسرے نمبر پر مغربی آذر بائیجان کا صوبہ ہے جس میں 1500 مسجدیں ہیں۔ اس کے بعد صوبہ ہرمزگان، صوبہ گلستان اور صوبہ خراسان (مجموعاً تین صوبوں) میں 746 مسجدیں ہیں اور ان کو چوتھا نمبر حاصل ہے- اس کے بعد صوبہ کرمانشاہ میں 420 مسجدیں، صوبہ بوشہر میں 135 مسجدیں اور صوبہ گیلان میں 95 مسجدیں ہیں اس طرح ان تین صوبوں کو پانچواں نمبر حاصل ہے۔ صوبہ فارس میں اہل سنت کی 290 مسجدیں ہیں اور اس کے علاوہ صوبہ کرمان اور صوبہ خوزستان میں بھی اہل سنت بھائیوں کی کئی مسجدیں فعال ہیں۔

مثال کے طور پر صوبہ سیستان و بلوچیستان کے شہرزاہدان میں انقلاب سے پہلے موجود مسجدوں کی تعداد گزشتہ 32 سال کے دوران دس گنا بڑھ چکی ہے۔ صوبہ سیستان و بلوچیستان کے مختلف شہروں میں 400 جگہوں پر اہل سنت کی نماز جمعہ قائم ہے جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے صرف گیارہ جگہوں پر نماز جمعہ قائم تھی- اس وقت صرف شہر زاہدان میں 12 جگہوں پر نماز جمعہ قائم ہے، جس میں اہل سنت ہم وطنوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے- صوبہ کے تمام اہل سنت ائمہ جمعہ، دینی مدارس کے معلمین، دینی طلاب اور اہل سنت مساجد کے خادمین،ان سب کا بیمہ (Health insurance)ہوتا ہے۔ان کو ماہانہ تنخواہ کے علاوہ عیدی بھی دی جاتی ہے۔

بہت سے ممالک میں ائمہ جمعہ پر پابندی ہوتی ہے کہ جمعہ کے خطبوں میں حکومت کی طرف سے معین شدہ مطالب کو پڑھیں، لیکن ایران میں جمعہ کے خطبوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

صوبۂ کردستان

ایران کے مغرب میں صوبہ کردستان ملک کا دوسرا صوبہ ہے جہاں پر اہل سنت سکونت پذیر ہیں - اس صوبہ کے مختلف شہروں میں 2000سے زائد مساجد فعال ہیں جن میں اہل سنت آزادی کے ساتھ اپنی دینی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے اس صوبہ میں سفر کی برکتوں میں سے ایک،کردستان کے اہل سنت علماء کی درخواست پر اہل سنت کے شرعی افق کے مطابق اذان دینا ہے، جس کا صوبہ کردستان کے عوام نے استقبال کیا۔

صوبۂ مغربی آذر بائیجان

ایران کا ایک اور صوبہ جس میں اہل سنت برادران زندگی بسر کرتے ہیں، صوبہ مغربی آذر بائیجان ہے یہ صوبہ ایران کے مغرب میں واقع ہے- اس صوبہ میں اہل سنت کی 1500 مسجدیں ہیں۔

صوبۂ کرمانشاہ

اس صوبہ میں صدر اسلام سے 1979 عیسوی یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اہل سنت کی صرف 95 مسجدیں تھیں لیکن اسلامی انقلاب کی برکت سے اب ان مسجدوں کی تعداد 491 تک بڑھ گئی ہے اور اس طرح ان کی تعداد چار گنا سے زیادہ ہوگئی ہے۔

صوبہ کرمانشاہ میں،جوانرود، روانسر، پاوہ اور باباجانی نامی شہروں میں اہل سنت حضرات رہائش پذیر ہیں اور اس صوبہ میں ان کی 120 نماز جمعہ قائم ہوتی ہیں۔

صوبۂ ہرمزگان

اہل سنت کی ایک تعداد، خلیج فارس کے ساحل پر صوبہ ہرمزگان میں رہائش پذیر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس صوبہ میں تقریباً1200 مسجدیں ہیں جن میں اہل سنت حضرات نماز ادا کرتے ہیں۔

صوبۂ گلستان

صوبہ گلستان میں اہل سنت کی 1500 مسجد یں ہیں اور ان میں نماز جماعت کے علاوہ روزانہ مذہبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

صوبۂ بوشہر

اس صوبہ میں انقلاب سے پہلے اہل سنت کے صرف تین نماز جمعہ کے مراکز تھے لیکن اب ان کی تعداد 34 تک پہنچ چکی ہے۔

اس صوبہ میں 57 دائمی اور عارضی ائمہ جمعہ ہیں، حکومت کی طرف سیان سب ائمہ جمعہ کا با ضابطہ بیمہ کیا گیا ہے اور ان کی مالی مدد کی جاتی ہے اور انھیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔

آخر میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام اماکن میں، مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کو مذہبی ودینی تقریبات اور پروگراموں کو منعقد کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

تحریر: انجم جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| 

حضرت معصومہ (س) حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ہمنام ہیں اور اس ہمنام ہونے میں کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آپ نے علم اور عمل کے میدان میں اپنے تمام حریفوں اور رقیبوں پر سبقت حاصل کر لی تھی اور دوسرا یہ کہ آپ شیعوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے روکیں گی اور جیسا کہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا لقب معصومہ تھا کہ جس کی گواہی خود آیہ تطہیر دیتی ہے آپ کو بھی ایک امام معصوم ( امام علی رضا علیہ السّلام ) نے معصومہ کے لقب سے نوازا ہے۔

 

 

اس مقالے میں مقالہ نگار نے بطور اختصار 10 شباہتیں جو جناب فاطمہ معصومہ اور ان کی جدہ ماجدہ جناب فاطمۃ الزہراء میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں ان کو بیان کریں گے:

١ :ولادت سے پہلے ہی خوشخبری اور نام گزاری

جیسا کہ جناب فاطمہ زہرا کی ولادت سے پہلے رسول خدا کو نعوذ باللہ ابتر کے طعنے دیے جاتے تھے جس سے آپ کا دل غمگین ہو جایا کرتا تھا اس لیے خدا نے قرآن میں خیر کثیر یعنی کوثر کا ذکر کر کے اپنے حبیب کو جناب فاطمہ زہرا کی ولادت کی خبر دی اور جبرائیل کے ذریعے سے خدا کی طرف سے آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا ٹھیک اسی طرح سے جناب فاطمہ معصومہ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی ولادت کی خبر تمام شیعیان کو دی جاتی ہے اور آپ کا نام بھی ولادت سے پہلے ہی رکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ملتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں : عنقریب میری نسل سے ایک با کرامت خاتون قم میں دفن ہوں گی کہ ان کا نام فاطمہ ہے۔

٢‌ :نام اور لقب میں اشتراک

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ہمنام ہے اور اس ہمنام ہونے میں کئی وجوہات پوشیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ آپ نے علم اور عمل کے میدان میں اپنے تمام حریفوں اور رقیبوں پر سبقت حاصل کر لی تھی اور دوسرا یہ کہ آپ شیعوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے روکیں گی اور جیسا کہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا لقب معصومہ تھا کہ جس کی گواہی خود آیہ تطہیر دیتی ہے آپ کو بھی ایک امام معصوم ( امام علی رضا علیہ السّلام ) نے معصومہ کے لقب سے نوازا ہے۔

٣ :مدافع ولایت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی پوری زندگی ولایت حقہ کی دفاع میں گزار دی یہاں تک کہ آپ کو اس راہ میں شہید کر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی اپنی جد ماجدہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی بھر ولایت حقہ (ولایت امام علی رضا علیہ السلام) کی ترویج کی اور کئی حدیثوں کو اپنے چاہنے والوں کے لیے نقل کیا جیسے کہ حدیث غدیر حدیث منزلت وغیرہ وغیرہ اور زیادہ تر حدیثیں جو آپ سے نقل ہوئی ہیں ولایت اور امامت حضرت علی کو ثابت کرتی ہے کہ جن کی ولایت اور امامت ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے اماموں کی بھی ولایت اور امامت ثابت ہو جاتی ہے۔

٤ :مقام علم

مقام علمیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اظہر من الشمس ہے کہ آپ علم ما‌ کان و ما یکون کی منزل پر فائز تھیں آپ ہی کے علم کے جریان سے مستفیض ہوتے ہوئے جناب معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی علم حاصل کیا اور جب معصومہ کے مقام علم کو آپ کے والد محترم جناب موسی کاظم علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا فداھا ابوھا اور یہی الفاظ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جناب فاطمہ زہرا کے لیے بھی استعمال کیے ہیں۔

٥ :مقام شفاعت

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بھی روز محشر اپنی جدہ جناب فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی طرح اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے جیسا کہ ہم زیارت نامے میں پڑھتے ہیں اشفعی لنا فی الجنہ یا امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث ہے کہ آپ فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و تُدْخَلُ بشفاعَتِها شیعَتی الْجَنَّهَ بِاَجْمَعِهِمْ

٦ :زیارت ماثورہ

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عظمت کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس ان کے لیے بھی امام معصوم علیہ السلام کی طرح زیارت نامہ موجود ہے۔ جب کہ غیر معصومین میں سے حضرت ابوالفضل اور حضرت علی اکبر علیہما السلام کے علاوہ کسی کے لیے زیارتنامہ روایت میں وارد نہیں ہوا ہے اور یہ زیارت نامہ آپ کے مقام اور منزلت کی تصدیق کرتا ہے باوجود اس کے کہ آپ امام معصوم نہیں ہیں لیکن آپ کی عظمت اتنی ہے کہ اپ کے لیے زیارت نامہ وارد ہوا ہے البتہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے کو مختلف طرق سے نقل کیا گیا ہے لیکن جناب معصومہ سلام اللہ علیہا کے زیارت نامے کو امام علی رضا علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے۔

٧ :کریمہ

سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ معصومہ کا روضہ پوری تاریخ میں ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے پناہ گاہ رہا ہے اور تمام لوگ، نہ صرف شیعہ بلکہ سنی بھائی بھی، خصوصی توجہ اور عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ ان کی حاجت روائی کرتی رہتی ہیں اس لیے آپ لوگوں کے درمیان کریمہ اھل بیت کے لقب سے مشہور ہیں ۔ اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے کریمہ ہونے پر پورا سورہ دہر ( سورہ انسان ) دلالت کرتا ہے۔

٨ :شہرت خاص و عام

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذاتِ اقدس کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں ہے آپ کا چرچہ زبان زدہ خاص و عام ہے ٹھیک اسی طرح حضرت معصومہ کی عمر تقریباً 28 سال تھی جب آپ نے اپنے محترم بھائی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے ارادے سے اور شیعہ تعلیمات کی ترویج کے مقصد سے ایران قدم رکھا اور اس وقت بھی آپ کی شخصیت شیعوں کے درمیان مشہور و معروف تھی۔ قم کے شیعہ حتیٰ کہ ابن خزرج اشعری بھی اس دور کی مشہور شخصیات میں سے ایک تھے جو امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی بیٹی کو ان نام سے جانتے تھے، کیونکہ محترم خاتون، دونوں زمانوں میں ہی جب آپ مدینہ میں رہتی تھیں ۔ اور جب آپ نے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا تو لوگوں کے درمیان مشہور تھیں ۔ اس بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیعوں کو آپ کی معرفت تھی اور معلوم تھا کہ کون سی عظیم شخصیت ایران میں داخل ہو رہی ہیں اور جیسا کہ آپ کی معرفت حاصل کرنے کا حکم حدیثوں میں بھی ملتا ہے۔ ( من زارھا عارفا بحقھا فلہ الجنہ)

٩ :کفو اور ھمسر

یہ نکتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا عام انسانوں میں سے کوئی بھی کفو و ھمسر نہیں تھا لہذا فقط امام معصوم حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہی آپ کے ھمسر و کفو قرار پائے۔ معصومہ سلام اللہ علیہا کا بھی اپنی محترم والدہ کی طرح غیر معصوموں میں کوئی کفو نہیں تھا۔

١٠ : ثواب زیارت قبر مطہر

علمی اور عملی کمالات کے لحاظ جناب معصومہ کی شخصیت منفرد نظر آتی ہے اور اگرچہ آپ کا مزار مقدس ظاہر ہے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک کی طرح پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس مکاشفہ کے مطابق جو بعض علماء اور اولیاء خدا پر ہوا ہےامام باقر یا امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: "جو شخص حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے مزار کی زیارت کرے گا وہ وہی ثواب حاصل کرے گا جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کی زیارت کرنے والا کا ہے۔" ( علیک بکریمہ اھل البیت )

Friday, 17 May 2024 02:53

ایک منفرد یوم تاسیس

15 مئی کو نکبہ کی 76 ویں سالگرہ منائی گئی۔ صیہونی ہر سال 14 اور 15 مئی کو  جشن مناتے ہیں، کیونکہ یہ دن اس جعلی حکومت کے قیام کی سالگرہ ہے۔ اس سال کی کہانی البتہ کافی مختلف ہے۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا آٹھواں مہینہ گزر رہا ہے۔ اس جنگ کے جاری رہنے سے صیہونی حکومت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ان صیہونی قیدیوں کی رہائی ہے، جو حماس کے پاس ہیں۔ تاہم صیہونی حکومت کو اب تک ایسا کوئی ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے، جس سے وہ کہہ سکیں کہ انہوں نے اس جنگ میں اپنے اہداف حاصل کر لئیے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ صہیونی کابینہ قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے بجائے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے، جو کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف عوامی مظاہروں کا باعث بن گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں اور غزہ سے قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ طے پانے میں ناکامی کے خلاف آباد کاروں نے کئی بار مظاہرے کیے ہیں۔ احتجاج کرنے والے آباد کاروں نے نیتن یاہو کی کابینہ کی برطرفی اور قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا۔ صہیونیوں نے نعرے لگائے اور تحریک حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط اور غزہ کی پٹی سے صہیونی قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

گذشتہ روز غزہ میں مزاحمت کاروں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی حمایت کرنے والے صیہونیوں نے صیہونی حکومت کی وزارت جنگ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک بار پھر مظاہرہ کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے وزارت جنگ کے ہیڈکوارٹر کے سامنے آگ لگا دی۔ حماس کی تباہی کے بارے میں اسرائیل کے تمام دعووں اور نعروں کے باوجود صیہونی حکومت ابھی تک حماس کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ میں مصروف ہے۔ شاونسٹ حکومت کے وزیراعظم کے طور پر، نیتن یاہو اپنے ذاتی مفادات کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

حالات کی اس پیچیدگی نے عملاً ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ اسرائیل کو اس دگرگوں صورت حال سے بچانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ آج اسرائیل کا یہ حال ہے کہ اس نے ان تمام 76 سالوں میں اس طرح کی صورتحال کا کوئی  تجربہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ نکبہ کا جشن منانے کے بجائے  نیتن یاہو  کی کابینہ کے خلاف زبردست مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ فلسطینی مسائل کے ایک سینیئر ماہر "علی عبدی" کا خیال ہے کہ اس سال یوم نکبہ ایسے عالم میں آیا ہے کہ صیہونی حکومت کو  طوفان الاقصیٰ آپریشن میں فوجی، انٹیلی جنس اور سیاسی شکست کے علاوہ فلسطینیوں کی اسلامی مزاحمتی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ صیہونی حکومت اسلامی مزاحمت سمیت ایسے بحرانوں سے دوچار ہے، جو اس حکومت کی پوری تاریخ میں منفرد ہے۔

مغربی ایشیائی مسائل کے ایک سینیئر ماہر "حسن ہانی زادہ" نے علاقے میں صیہونی حکومت کے قیام کے بعد کی آٹھ دہائیوں کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ: مقبوضہ فلسطین میں یومِ نکبہ کو 76 سال گزر چکے ہیں، تاہم اس وقت دہشت گرد حکومت کے حالات 1948ء سے بالکل مختلف ہوچکے ہیں، مغربی ایشیا میں بہت سے ڈرامائی واقعات رونما ہوچکے ہیں اور صیہونی حکومت اندرونی اور علاقائی انہدام کے چکر میں داخل ہوچکی ہے۔ صیہونی حکومت کی کمزوری اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ اس حکومت کے 80 سال پورے نہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

بہرحال اس سال کے یوم نکبت کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ جنگ سے غیر مطمئن صہیونیوں نے تل ابیب میں وزارت جنگ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے جشن کی بجائے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ جب کسی حکومت کے یوم تاسیس پر جشن کی بجائے اس حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ تیز ہو جائے تو اس ریاست کا مستقبل کیا ہوگا، اس پر تبصرہ بے معنی ہو جاتا ہے

تحریر: سید رضی عمادی

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، حلیمہ میلائی: گذشتہ دس سالوں میں عراقی کردستان کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے نیچروان بارزانی کا ایران کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ یہ دورہ انتہائی اہم اور حساس حالات میں انجام پارہا ہے جس کا زیادہ تر مقصد کردستان ریجن اور ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہے، خاص طور پر گزشتہ سال تہران اور اربیل کے درمیان آنے والے سیاسی اور عسکری نشیب و فراز  کے بعد، یہ دورہ سفارتی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

نیچروان بارزانی، عراقی کردوں کا ایک ڈپلومیٹک مگر اعتدال پسند چہرہ، جسے عراق، خطے اور دنیا کے تمام سیاسی حالات میں ایک خاص قبولیت حاصل ہے۔
وہ اپنے آخری دورہ تہران کے تین سال بعد، کردستان کے سربراہ کی حیثیت سے ایران کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو وسعت دینے کی اربیل کی خواہش کا واضح پیغام لے کر تہران آئے ہیں۔

گزشتہ سال کے واقعات اور اربیل میں موساد کے خفیہ ہیڈکوارٹر پر ایران کے میزائل حملے کے بعد تہران اور اربیل کے درمیان گہرے تعلقات میں تناؤ کے بعد، یہ دورہ اس اہم نکتے کو واضح کرتا ہے کہ ایران، عراق اور کردستان پڑوسی، دوست اور اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔

کردستان کے سربراہ کا اعلی سطحی وفد کے ساتھ ایران کا دورہ کئی پہلوؤں سے قابل توجہ ہے جس کا اس مختصر مضمون میں جائزہ لیا گیا ہے۔

ایران عراق سیکورٹی معاہدے پر عمل درآمد اور اس عملی نفاذ کا جائزہ

ایران اور عراق کے درمیان سیکورٹی معاہدے کے نفاذ کے اور اس پر عمل درآمد کے لیے اربیل کی کوششوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرنا کہ جس میں ایران اور کردستان  کی مشترکہ سرحدوں سے ایران مخالف گروہوں کے انخلاء اور ان کو غیر مسلح کرنا شامل ہے، یہ موضوع بارزانی کے دورہ تہران کا نہایت اہم بلکہ مرکزی ایجنڈا ہے۔

ایران پر بارزانی کا اعتماد

اگرچہ کردستان کا ایران کے خلاف سرگرم خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ کبھی بھی معمول کا رسمی تعلق نہیں رہا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ نے بعض اوقات کردستان کے حکام کو ایران کی سرحدوں کے قریب دشمن ممالک کی سیکورٹی سروسز کی خفیہ موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے۔ جس کے جواب میں کردستان  کے حکام نے ہمیشہ اعلان کیا ہے؛ وہ کبھی بھی عراق کے شمال کو اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے خطرہ نہیں بننے دیں گے۔

اس دورے میں کردستان اور ایران کے درمیان اقتصادی اور تجارتی امکانات کے ساتھ ساتھ سیکورٹی، فوجی اور سیاسی شراکت داری کا جائزہ لیا جائے گا۔

ایران اور شمالی عراق کے درمیان اہم اقتصادی تعلقات

ایران اور کردستان کی مشترکہ سرحد صرف کردستان والی سائیڈ سے 230 کلومیٹر ہے۔ جب کہ کرمانشاہ اور مغربی آذربائیجان اس کے علاوہ۔ عراق اور کردستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی لین دین سےکا بڑھتا ہوا حجم، خاص طور پر بشماق سرحد  فریقین کو اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو خصوصی اہمیت دینے کا سبب بنا ہے۔ سلیمانیہ میں ایرانی قونصل نے کہا کہ گزشتہ سال کی کشیدگی سے قبل ایران اور کردستان کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 2.5 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، اگلے سال اس میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

ثقافتی اور سماجی تعامل

ہمہ جہت ثقافتی اور سماجی تعلقات کی ترقی اور سرحدی سفارت کاری کی مضبوطی ایک اور اہم عنصر ہے جو ایران اور کردستان کے درمیان اچھے تعلقات میں نہایت موئثر ہے اور فریقین اس کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہیں۔

 اسلامی جمہوریہ ایران اور عراقی کردستان کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوطی ایران اور عراق کی دو دوست قوموں کے دشمنوں کے لیے کبھی خوشگوار نہیں رہے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت دشمنوں کی کوشش ہے کہ میڈیا پروپیگنڈوں کے ذریعے ایران اور عراق، تہران اور اربیل کے تعلقات کو مخدوش بنا دیا جائے۔ ایک خطرناک اور شیطانی پالیسی تھی  جسے اسلامی جمہوریہ کی حکمت عملی اور عراق اور کردستان کے حکام کی کوششوں نے غیر موئثر بنا دیا۔

اربیل کے لئے تہران کی حمایت

اس حقیقت کے باوجود کہ اسلامی جمہوریہ ایران پورے خطے اور عراق میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، لیکن اس نے کبھی بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ جیسا کہ یہ بات اسلامی ایران کے تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وہ عراق اور دیگر ممالک میں اپنے دوستوں کی مدد کو آیا ہے۔ مثال کے طور پر عراقی ڈکٹیٹر صدام کے ساتھ جنگ ​​اور کردستان کے قیام کی کوششوں میں اس نے کردوں کی زبردست مدد کی اور داعش کے ساتھ جنگ ​​میں بھی ایران نے بھرپور مدد کی۔ 

اسی طرح کردستان نے جب بھی اپنے سیاسی بحرانوں کے حل کے لئے ایران سے مدد مانگی ہے، تہران نے بھرپور طریقے سے کردار ادا کیا ہے۔

 مثال کے طور پر متحارب جماعتوں اور عراقی شیعہ اور سنی سیاسی دھاروں کے درمیان تناؤ کو حل کرنے  کے لئے اربیل کی مدد کی۔

 اربیل اور بغداد کے درمیان تیل کی برآمدات، بجٹ اور کردستان کے پارلیمانی انتخابات کے التوا کے معاملے پر اختلافات جیسے چیلینجز بارزانی کے اس دورے کے اہم ایجنڈے کا حصہ ہیں۔


رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایک روز قبل پیر کی صبح امور حج کے منتظمین اور خانۂ خدا کے بعض زائرین سے ملاقات کی۔اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں حج کو مادّی اور معنوی لحاظ سے کثیر جہتی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کے عزم و ارادے اور فیصلوں کے حقیقی سرچشمے کی حیثیت سے ذکر خدا درونی اور باطنی پہلو سے حج کے تمام مراحل کا سب سے نمایاں نکتہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اتحاد اور ان کے باہمی رابطے کو حج کا نمایاں اجتماعی و سماجی پہلو بتایا اور کہا کہ ایک خاص مقام اور ایک خاص وقت میں تمام لوگوں کو اکٹھا ہونے کی الہیٰ دعوت کا فلسفہ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے آشنائی، ہمفکری اور مشترکہ فیصلے کرنا ہے، تاکہ حج کے مبارک اور ٹھوس نتائج عالم اسلام اور پوری انسانیت کو حاصل ہوں اور اس وقت عالم اسلام، مشترکہ فیصلہ کرنے کے میدان میں ایک بڑے خلا سے دوچار ہے۔

انھوں نے قومی، ملی اور مذہبی اختلافات کو نظر انداز کیے جانے کو اتحاد کی لازمی تمہید بتایا اور کہا کہ تمام اسلامی مذاہب کے پیروکاروں اور تمام اقوام کے لوگوں کا ایک عظیم، ایک جیسا اور ایک شکل والا اجتماع، حج کے سیاسی و اجتماعی چہرے کا نمایاں جلوہ ہے۔ انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حج کا فریضہ، حضرت ابراہیم کے اسم گرامی اور ان کی تعلیمات سے جڑا ہوا ہے، دین خدا کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کو گرانقدر ابراہیمی تعلیمات میں سے ایک بتایا۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے یاد دہانی کرائی کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے برائت، حج کا ایک مستقل رکن رہا ہے، لیکن اس سال غزہ کے عظیم اور المناک واقعات کے پیش نظر، جنھوں نے مغربی تمدن کے خون آشام چہرے کو پہلے سے زیادہ نمایاں کر دیا ہے، اس سال کا حج، خاص طور پر برائت کا حج ہے۔

انھوں نے غزہ کے حالیہ واقعات کو تاریخ کے لیے ہمیشہ رہنے والی کسوٹی بتایا اور کہا کہ ایک طرف پاگل صیہونی کتے کے وحشیانہ حملے اور دوسری طرف غزہ کے عوام کی مزاحمت و مظلومیت تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی اور انسانیت کو راستہ دکھاتی رہے گی اور اس کی حیرت انگيز اور بے نظیر صدائے بازگشت غیر مسلم معاشروں اور امریکا اور کچھ دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں میں سنائی دے رہی ہے، جو ان واقعات کی تاریخ رقم کرنے اور معیار قائم کرنے کی نشانی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے حج ابراہیمی کے موقع پر غزہ کے جرائم کے سلسلے میں امت مسلمہ کی ذمہ داری کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ابراہیم علیہ السلام ان پیغمبروں میں سے ہیں، جو انتہائی نرم اور مہربان دل کے مالک ہیں، لیکن یہی نبی خدا ظالم اور جنگجوو دشمنوں کے مقابلے میں پوری شدت سے اور کھل کر بیزاری اور دشمنی کا اعلان کرتا ہے۔

انھوں نے قرآنی آيات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت کو مسلمانوں سے دشمن کا مکمل مصداق اور امریکا کو اس حکومت کا شریک جرم قرار دیا اور کہا کہ اگر امریکا کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت میں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ اس طرح کے حیوانیت والے سلوک کی طاقت اور ہمت ہوتی۔؟ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ مسلمانوں کو قتل اور بے گھر کرنے والا اور اس کا پشت پناہ دونوں ہی ظالم ہیں اور قرآن مجید کے صریحی الفاظ کے مطابق اگر کوئی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ بھی ظالم اور ستمگر اور اللہ کی لعنت کا مستحق ہوگا۔

انھوں نے عالم اسلام کے موجودہ حالات کے پیش نظر حج کے سلسلے میں ابراہیمی طرز عمل یعنی دشمنوں کے مقابل کھلم کھلا برائت و بیزاری کے اعلان کو ہمیشہ سے زیادہ ضروری بتایا اور کہا کہ اس بنیاد پر ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کو، فلسطینی قوم کی پشت پناہی کے سلسلے میں قرآنی فلسفے کو پوری دنیا تک پہنچانا چاہیئے۔ انھوں نے اسی کے ساتھ کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے دوسروں کا انتظار نہیں کیا اور آگے بھی نہیں کرے گی، لیکن اگر مسلم اقوام اور اسلامی حکومتوں کے مضبوط ہاتھ مدد اور ہمراہی کے لیے آگے بڑھیں تو فلسطینی قوم کی المناک صورتحال جاری نہیں رہے گی۔

اس ملاقات کے آغاز میں حج و زیارت کے امور میں رہبر معظم کے نمائندے اور ایرانی حجاج کرام کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے ایک تقریر میں "حج؛ قرآن‌ محوری، یکجہتی و اقتدار امت اسلامی و دفاع از فلسطین مظلوم" کو اس سال کا سلوگن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "حج ابراہیمی خود کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ بیرونی جبر سے لڑنے اور مظلوموں کے دفاع کا ایک پلیٹ فارم ہے۔" حج و زیارت کی تنظیم کے سربراہ سید عباس حسینی نے بھی اس سال 87,550 ایرانی عازمین حج کی ادائیگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 9 سال کی معطلی کے بعد  خانہ خدا کی زیارت کے خواہشمندوں کے لئے صحت کی خدمات، رہائش، غذائیت اور نقل و حمل کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
 
 
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

 چھٹے امام، جعفر ابن محمد الصادق (ع) 17 ربیع الاول 83 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ان کی امامت کی مدت 34 سال تھی۔

امام جعفر صادق (ع) پیغمبر اسلام (ص) کی بیٹی فاطمہ الزہرا (س) کے نسب سے آپ کی براہ راست اولاد ہیں اور آپ امام محمد باقر (ع) کے فرزند ہیں۔

امام صادق ع کی خصوصیات

امام صادق علیہ السلام ان معصوم ہستیوں میں سے تھے جنہیں خدا نے بندوں کی ہداہت کے لئے اخلاقی کمالات کا نمونہ بنایا۔ امام کے خاص فضائل جو مورخین نے قلمبند کیے ہیں ان میں مہمان نوازی، خیرات، رازداری کے ساتھ ضرورت مندوں کی مدد، غریب رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک، عفو و درگزر، صبر اور استقامت قابل ذکر ہیں۔

اس وقت کے خلفاء کی طرف سے امام حسن (ع) کی اولاد پر تمام مظالم کے باوجود امام صادق (ع) خاموشی سے اہل بیت کی تعلیمات کی تبلیغ کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں نے بھی آپ کے علم و فضل کو تسلیم کرتے ہوئے زانوئے ادب تہہ کیا جو آپ کو امام معصوم نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی آپ کی شان اور اعلی نسب کو جانتے تھے، تاہم آپ کے علمی کمالات کو دیکھ کر آپ کے شاگردوں میں شمار ہونے پر فخر کرنے لگے۔

سیاسی حالات

آپ کی امامت کا دور اسلامی تاریخ کے سب سے زیادہ شورش انگیز ادوار میں تھا کہ جس میں اموی سلطنت کے زوال اور عباسی خلافت کے عروج کی اندرونی جنگیں اور سیاسی ہلچل حکومت میں تیزی سے تبدیلیاں لا رہی تھیں۔

 امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش کی وجہ سے امام صادق ع کو اسلام کی درست تصویر اور رسول اللہ کی تعلیمات کو صحیح شکل میں پھیلانے کے اپنے مشن کو پرامن طریقے سے جاری رکھنے کے لیے فرصت میسر آئی۔

منصور دوانیقی (دوسرے عباسی خلیفہ) نے اپنے ناجائز مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے علماء کو ملازمتوں سے نوازا تاکہ وہ لوگوں کو  جبر کے مذہب پر یقین دلائیں۔ یعنی مسلک جبر کو وہ لوگوں کے عقیدے میں ڈھالنا چاہتے تھے اور انہیں یہ خیال دلانا چاہتے تھے کہ جو کچھ غربت و افلاس، ظلم و ستم اور زیادتیاں چل رہی ہیں، یہ سب خدا کی طرف سے ہیں اور اس کی تشکیل میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ایسے غلط اور خطرناک عقیدے کی تبلیغ کو برداشت نہیں کر سکتے تھے جو لوگوں کو اسلامی ثقافت اور عقائد کے نام پر سکھایا جارہا تھا۔

چنانچہ آپ نے نے لوگوں کو اسلام کی سچی تعلیمات کی تبلیغ کے مقصد سے پڑھانا شروع کیا۔ اسی لئے شیعہ فقہی مکتب کا نام امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب ہو فوہ جعفریہ پڑ  گیا ہے۔ 
امام صادق (ع) نے جو فقہ پڑھائی وہ پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات پر مبنی فقہ تھی۔ چونکہ الصادق (ع) اپنے زمانے میں اسلام کی حقیقی تعبیر یعنی مکتب اہل بیت ع کے علوم کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے اس لیے مکتب اہل بیت ان کے نام سے مکتب جعفریہ کے طور پر شہرت پا گیا۔

تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے چار ہزار سے زیادہ بالواسطہ اور بلاوسطہ شاگرد تھے جو آپ سے مختلف مضامین سیکھتے تھے۔ جن میں مذہبی علوم جیسے فقہ، تفسیر، اور حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم جیسے کیمیا، طب، ریاضی اور فلکیات شامل تھے۔ آپ کے شاگردوں میں مشہور کیمیا دان جابر ابن حیان کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم کی اہم شخصیات جیسے ابو حنیفہ، فقہ حنفی کے بانی شامل تھے اور فقہ مالکی کے بانی مالک ابن انس نے بھی ان کی تعریف اپنے وقت کے سب سے زیادہ علم اور متقی عالم کے طور پر کی تھی۔

امام کی شہادت

منصور دوانیقی مختلف ذرائع اور طریقوں سے اپنی خلافت کا قانونی جواز ڈھونڈنے میں ناکام ہو چکا تھا، اس نے عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی وارث اور اسلامی خلافت کے لیے موزوں شخص ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

اگرچہ منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے قریب لانے یا انہیں دھمکیاں دے کر خاموش کرانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ چنانچہ اس نے امام جعفر الصادق علیہ السلام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔

چنانچہ 25 شوال 148 ہجری کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔ آپ  مدینہ منورہ کے قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔

آج امام جعفر صادق علیہ السلام کی میراث اسلام کی روحانی، فکری اور ثقافتی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آپ کا شمار تاریخ اسلام کی ان برجستہ شخصیات میں ہوتا ہے جن کا کردار اسلامی علوم کی ترویج اور مسلم ثقافت کے فروغ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ کی تعلیمات آج بھی 1.5 بلین سے زیادہ مسلمانوں کے لئے حکمت و دانائی اور دینی رہنمائی کا ذریعہ اور گراں بہا اسلامی میراث ہیں۔

مہر نیوز 

مہر خبررساں ایجنسی نے فلسطینی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا ہے کہ سابق صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی جنگ میں بالکل کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ تل ابیب کی سڑکوں پر مظاہرین کا ہجوم بڑھ رہا ہے۔ نتن یاہو اسرائیلی عوام کے مطالبات کے برعکس جنگ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اولمرٹ نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ ہی اسرائیل کے حق میں بہترین آپشن ہے۔

انہوں نے وزیراعظم نتن یاہو کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ صہیونی یرغمالیوں کی نجات کی فکر میں نہیں ہیں بلکہ اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کا جاری رکھنے سے نتن یاہو کے اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس دو آپشن ہیں؛ فوری جنگ بندی کے ذریعے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے یا حماس کو تباہ کرنے کے نام پر بے فائدہ جنگ جاری رکھے۔

نيكى كرنے والے افراد، خدا كے محبوب ہيں  برانگيختہ كرتے ہيں كى ترغيب دلاتى ہے۔ہر حال ميں دائمى انفاق كرنا ،غصہ پر كنٹرول كرنا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگذر كرنا، محبت خدا كے حصول كے عوامل ميں سے ہيں  

 

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
‏الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (‏134)

ترجمہ: وہ پرہیزگار جو خوشحالی اور بدحالی (غرضیکہ ہر حال میں راہِ خدا میں مال) خرچ کرتے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں (کے قصور) معاف کر دیتے ہیں۔ اور اللہ بھلائی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفســــــــیر قــــرآن:

1️⃣توانگرى و تنگدستى ميں انفاق كرنا، متقيوں كى خصوصيات ميں سے ہے.
2️⃣ معاشرے كے رفاہ و آسائش اور رنج و مشكلات ميں انفاق كرنا، متقيوں كى خصوصيات ميں سے ہے.
3️⃣ غصہ پينا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگزر كرنا، اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
4️⃣ايمانى معاشرے كى ضروريات پورى كرنا، صبر اور اجتماعى معاملات ميں درگزر كرنا اہل تقوي كى خصوصيات ميں سے ہے
5️⃣ نيكى كرنے والے افراد، خدا كے محبوب ہيں برانگيختہ كرتے ہيں كى ترغيب دلاتى ہے
6️⃣ہر حال ميں دائمى انفاق كرنا ،غصہ پر كنٹرول كرنا اور لوگوں كى لغزشوں سے درگذر كرنا، محبت خدا كے حصول كے عوامل ميں سے ہيں
7️⃣معاشرہ ميں افراد كے درميان سالم باہمى روابط برقرار ركھنے كيلئے ،اسلام اہميت كا قائل ہے
8️⃣ خدا كى محبت كا حصول نيك اعمال كو بہ نحو احسن انجام دينے كا مرہون منت ہے

حوزہ نیوز ایجنسی|

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے حج و زیارت کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے بروز جمعہ حضرت آیت اللہ جوادی آملی کے گھر پر ان سے ملاقات کی۔

انہوں نے کہا: حجاج اور حج کے ذمہ داران دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رفتار و گفتار سے اتحاد کی دعوت دیں تاکہ دوسرے حجاج آپ کے قول و فعل سے اتحاد کا احساس کریں۔

انہوں نے کہا: حج اسلام کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے، قرآن جو ایک بین الاقوامی کتاب ہے تین طرح کے خطاب موجود ہیں: قومی، علاقائی اور بین الاقوامی، اور قرآن کریم﴿یا ایها الذین آمنوا﴾ یعنی مسلمانوں سے زیادہ تمام عالم انسانیت سے بات کرتا ہے ﴿نَذِیراً لِلْبَشَرِ﴾، ﴿کَافَّةً لِلنَّاسِ﴾، ﴿لِلعالَمینَ نَذیرًا﴾ ، اور قرآن نصیحت کرتا ہے کہ مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی معاشرے کو پر زیادہ سے زیادہ امن بنایا جائے اور حج اسلام کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے،لہذا اس بین الاقوامی پروگرام کو ہمیں علم کی نشر و اشاعت کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔

آیت اللہ جوادی آملی نے قافلوں میں موجود علمائے کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: فتح خیبر کا دن مسلمانوں کی نجات کا دن تھا جس سے مسلمانوں کو بے پناہ خوشی ملی،فتح خیبر کے دن ہی امیر المومنین علیہ السلام کے بھائی جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس آئے، رسول اکرم (علیہ و علی آله آلاف التّحیة و الثناء) نے فرمایا آج دو پیارے اور خوشگوار واقعات پیش آئے: پہلا یہ جناب جعفر طیار حبشہ سے واپس آگئے ہیں، اور دوسرا یہ کہ آج خبیر کو فتح کر لیا گیا ہے، اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس خبر پر زیادہ خوش ہوا جائے۔

انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:اب ذرا آپ سوچیں کہ فتح خیبر کجا؟ اور جناب جعفر طیار کا حبشہ سے واپس آنا کجا؟ کیوں رسول اکرم (ص)نے فرمایا کہ اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس خبر پر زیادہ خوش ہوا جائے؟ اس کا راز یہ ہے کہ جناب جعفر طیار ایک عالمانہ ، محققانہ، اور ثقافتی کام کر کے واپس آئے تھے، یعنی اگر ایک عالم ایک ایسا ثقافتی کا انجام دے سکتا جو فتح خیبر کے مترادف ہو، اس لیے میں حج کے قافلوں میں موجود علمائے کرام سے خطاب کرتےہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے ثقافتی کام انجام دیں جس دین اسلام کی شان و منزلت دنیا کے سامنے عیاں ہو۔