
سلیمانی
یورپ میں بڑھتی ہوئی سماجی خلیج اور اسلام کا معاشی نظریہ
سماجی عدم مساوات شاید جدید منصوبے کے تخلیق کاروں کو شرمندہ کر دے۔ یہی نتیجہ میشال روکار، دومنيك بورغ، اور فلوران اوغانيور نے اپنی مشترکہ تحریر میں اخذ کیا ہے، جو "انسانی نسل خطرے میں" کے عنوان سے 3 اپریل 2011 کو فرانسیسی اخبار لوموند میں شائع ہوئی۔" (ماخذ: الحداثة السائلة، صفحہ 35)
قرآن مجید میں ایک واضح اور صریح اشارہ ہے کہ قوموں اور معاشروں کو ایک دوسرے کے تجربات اور علم سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے." (الحجرات: 13)۔
لہذا، ہمیں ایک ایسی امت کے طور پر جو قرآن کو سامنے رکھتی ہے اور اس کے مطابق چلتی ہے، قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس میں سے ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں مغربی معاشروں میں بڑھتی ہوئی سماجی خلیج اور معاشرتی مساوات کے فقدان پر غور کرنا چاہیے، جس سے ان معاشروں کے ٹوٹنے اور سنگین بحرانوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ یہ حالات اس بات پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا موجودہ سماجی اور اقتصادی نظام واقعی سماجی انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔
حالیہ اعداد و شمار اور علمی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور متعدد یورپی ممالک میں معاشی اور سماجی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہر اقتصادیات توماس پیکیٹی اپنی مشہور کتاب "Capital in the Twenty-First Century"
میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں دولت کی تقسیم تیزی سے غیر مساوی ہو رہی ہے"، اور مزید کہتے ہیں کہ "امیر اور غریب کے درمیان خلیج خطرناک حد تک وسیع ہو رہی ہے، جو یورپی معاشروں کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے"۔ پیکیٹی اس تفاوت کی وجہ لبرل اقتصادی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں، جو آزاد منڈی اور دولت کی دوبارہ تقسیم میں ریاست کے کردار کو کم کرنے پر انحصار کرتی ہیں۔
اسی تناظر میں، اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم( (OECDکی ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ "یورپی یونین کے متعدد ممالک میں نسبتا غربت کی سطح بڑھ گئی ہے، جو سماجی تحفظ کے نظام کی کمزوری اور آمدنی کی تقسیم میں بڑھتے ہوئے تفاوت کو ظاہر کرتی ہے۔" یہ تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بعض یورپی ممالک میں جاری اقتصادی ترقی کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات پر منصفانہ طور پر ظاہر نہیں ہو رہے، جس سے امیر مزید امیر ہو رہے ہیں جبکہ غریب غربت کے دائرے میں محصور ہیں۔
((OECD، 2020۔ آمدنی کی عدم مساوات اور غربت کے اشارے، اقتصادی تفاوت کے ساتھ ساتھ، یورپ نسل اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا بھی سامنا کر رہا ہے، جو سماجی خلیج کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ محقق پال گلمارٹن اپنی European Journal of Sociology میں شائع شدہ تحقیقی مضمون میں اشارہ کرتے ہیں کہ "یورپ میں تارکین وطن اور نسلی اقلیتیں ملازمت، تعلیم، اور صحت کی خدمات میں بلند سطح کے امتیاز کا سامنا کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ غربت اور سماجی حاشیے پر زندگی گزارنے کے خطرات سے زیادہ دوچار ہیں۔" گلمارٹن وضاحت کرتے ہیں کہ ان طبقات کو ثقافتی اور لسانی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو ان کے یورپی معاشروں میں انضمام میں رکاوٹ بنتی ہیں، اور یہ تفاوت اس کو مزید گہرا اور مساوات کے فقدان کو بڑھاتی ہیں۔
مزید برآں، پیو ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ "کچھ یورپی ممالک میں تارکین وطن کے بارے میں منفی رائے میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں انہیں معاشی اور سماجی بحرانوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ (Pew Research Center2021) یورپ میں تارکین وطن کے بارے میں رویے، یہ رجحانات اس ماحول کے فقدان کو اجاگر کرتے ہیں جو ہر ایک کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بناتا ہے، خواہ ان کا نسلی یا ثقافتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ اس حوالے سے معروف ماہر اقتصادیات اور سماجیات زیجمونٹ باومان کہتے ہیں: "مثال کے طور پر، تارکین وطن اب اطالوی قومی پیداوار میں 11 فیصد کا حصہ ڈالتے ہیں، مگر انہیں نہ ووٹ کا حق حاصل ہے اور نہ ہی اطالوی انتخابات میں حصہ لینے کا۔ اس کے علاوہ، کسی کو بھی ان آنے والوں کی حقیقی تعداد کا علم نہیں ہے جو یا تو سفر کے قانونی کاغذات نہیں رکھتے یا جعلی کاغذات کے ساتھ بھرپور انداز میں قومی پیداوار اور قوم کی خوشحالی میں حصہ لے رہے ہیں۔" یہاں "دالما" ایک سوال اٹھاتے ہیں جسے کسی بھی صورت میں محض بلاغی سوال نہیں کہا جا سکتا: "یورپی یونین ایسے حالات کو کیسے برداشت کر سکتی ہے، جہاں آبادی کے ایک بڑے طبقے کو سیاسی، اقتصادی، اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جس سے ہمارے جمہوری اصولوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے؟ اور جب شہری کے فرائض بنیادی طور پر اس کے حقوق کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، تو کیا ہم واقعی توقع کرتے ہیں کہ تارکین وطن اس معاہدۂ معاشرت کی بنیادوں پر یقین رکھیں، اس کا احترام کریں، اس کا ساتھ دیں، اور اس کا دفاع کریں؟
ہمارے ملک میں سیاست دان انتخابات میں اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کے لیے تارکین وطن پر الزام عائد کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مقامی آبادی کے معیار میں ضم ہونے میں ناکام ہیں یا اس میں ہچکچاتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے سیاست دان ان معیارات کو تارکین وطن سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور مزید اقدامات کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔ اس عمل میں، وہ ان معیارات کی توہین کرتے ہیں یا انہیں بگاڑ دیتے ہیں جنہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی یلغار سے محفوظ رکھ رہے ہیں۔" (الحداثة السائلة، صفحہ 34-35)
اسی طرح ہمیں معیشت کی نجکاری کے کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ماضی کی دہائیوں میں یورپ میں ریاست کو سماجی انصاف اور مساوات فراہم کرنے کا بنیادی ستون سمجھا جاتا تھا، جہاں حکومتیں مفت تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور بے روزگاروں کے لیے امداد فراہم کرتی تھیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں، جب سے پالیسیوں کا رخ نجکاری اور عوامی اخراجات میں کمی کی طرف ہوا، یہ ماڈل کمزور ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ ہاروی اپنی کتاب "نیولیبرلزم: ایک مختصر تاریخ" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "نجکاری کی طرف تبدیلی اور معیشت میں ریاست کے کردار کو کم کرنے سے ان سماجی بنیادوں میں کمی آئی ہے جو کمزور طبقات کی حمایت کرتی تھیں۔"
یہ پسپائی حکومتوں کی سماجی خلیج کو حل کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرتی ہے، کیونکہ بنیادی خدمات جیسے صحت اور تعلیم ان لوگوں کے لیے بہتر دستیاب ہوتی ہیں جو مالی استطاعت رکھتے ہیں، جس سے سماجی تفاوت مزید بڑھتا ہے۔ اس تناظر میں، محقق جون راولی اپنی (Journal of Social Policy) میں شائع شدہ مقالے میں لکھتے ہیں کہ: ریاست کی سماجی ذمہ داری میں کمی اور نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار سے امیر اور غریب کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ عوامی خدمات کم مؤثر اور زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔" آج ہم دیکھتے ہیں کہ عدم مساوات اور مواقع کی عدم برابری کی وجہ سے امیر اور غریب کے بچوں کو ایک جیسے تعلیمی معیار تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ امیر گھرانوں کے بچے بہتر ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو غریب بچوں کے لیے ممکن نہیں، جس سے سماجی تفاوت گہرا ہوتا ہے اور اس کے خطرناک اثرات تیزی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں، جو بالآخر معاشرتی بکھراؤ تک پہنچ سکتے ہیں۔
حل کیا ہے ؟
مغرب میں عدم مساوات کے اثرات پیش کرنے کے بعد، جو کہ خالص مادی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، جو عوام کے مفاد کا خیال نہیں رکھتی ہیں، بلکہ طاقتور کو بااختیار بنانے اور کمزور کو کچلنے کی نچلی سوچوں اور فلسفوں پر مبنی ہیں، اس کا حل اسلامی تصورات کی طرف لوٹنے میں ہے، جو اقتصادی اور سماجی پالیسیوں کے لیے اخلاقی اصول فراہم کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ریاست کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد کے درمیان مساوات کو یقینی بنایا جا سکے، جیسے کہ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے (الحشر: 7)
(لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ)
(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔ (الحشر: 8)
(وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)
اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں (الحشر: 9)
(وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ)
اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ (الحشر: 10)
یہ آیات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے سماجی اور اقتصادی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کے لیے مساوات اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ آیات انفال کے مال کے بارے میں ہیں، جو مسلمانوں نے بغیر لڑائی کے حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان غنائم کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد امام کی دسترس میں رکھا، یعنی ان کا معاملہ حکومتی ریاست کے حوالے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کے جمع ہونے کو روکا جا سکے، جو وسیع پیمانے پر مالیاتی گردش میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (کَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ)، یعنی یہ یقینی بنایا جائے کہ دولت صرف امیروں تک محدود نہ رہے۔ اس لیے اس کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں رکھا گیا، یعنی ریاست کے سربراہ کے پاس، تاکہ وہ اسے فقراء، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کریں، یعنی معاشرے کے کمزور اور ناتواں طبقات پر۔
شیخ ناصر مکارم شیرازی کہتے ہیں: " اس آیت میں جو مفہوم بیان کیا گیا ہے، وہ اسلامی معیشت کا ایک بنیادی اصول واضح کرتا ہے، یعنی اسلامی معیشت میں اس بات کی اہمیت ہے کہ دولت کسی مخصوص طبقے یا گروہ کے ہاتھ میں متجمع نہ ہو، بلکہ یہ ایک دوسرے کے درمیان گردش کرتی رہے، جبکہ ذاتی ملکیت کا پورا احترام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک واضح پروگرام تیار کرنا ضروری ہے جو قوم کے بڑے طبقے میں دولت کی گردش کو یقینی بنائے۔
یہ قدرتی بات ہے کہ ہم اس سے یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنی مرضی سے قوانین اور ضوابط بنائیں اور ایک طبقے سے دولت لے کر دوسرے کو دیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسلامی قوانین کو مالی حصول کے میدان میں نافذ کیا جائے، اور دیگر مالیاتی قوانین جیسے خمس، زکات، خراج اور انفال کی صحیح طور پر پابندی کی جائے۔ اس طرح ہم مطلوبہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں، یعنی ایک طرف سے ذاتی محنت کا احترام اور دوسری طرف سماجی مفادات کی حفاظت، اور معاشرے کو دو طبقات (ایک دولت مند اقلیت اور ایک کمزور اکثریت) میں تقسیم ہونے سے روکنا۔" (الأمثل، ج18، ص184)
یہ وہ فریم ورک ہے جس کے تحت اقتصادی نظاموں کو کام کرنا چاہیے۔ جوزف سٹیگلٹز، جو کہ اقتصادیات کے میدان میں نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں، اپنے کتاب "ثمن اللامساواة" میں اشارہ کرتے ہیں کہ "سماجی انصاف صرف مؤثر انداز میں دوبارہ تقسیم کی پالیسیوں کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جو کمزور طبقات کی حمایت اور انہیں بااختیار بنانے کے غرض سے بنائی گئی ہوں ۔" سٹیگلٹز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترقی پسند ٹیکسوں کو بڑھانے اور سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج کو کم کیا جا سکے۔
آخر میں، یہ واضح ہے کہ مغرب میں سماجی عدم مساوات ایسی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو نجکاری کی طرف مائل ہیں اور ریاست کے کردار کو دولت کی دوبارہ تقسیم میں کم کر رہی ہیں، ساتھ ہی نسلی اور لسانی امتیاز اور سماجی پالیسیوں کی کمزوری بھی اس کا حصہ ہے۔ مستقبل کو زیادہ منصفانہ بنانے کے لیے، ان ممالک کو زیادہ جامع اور انصاف پسند پالیسیوں کو اپنانے پر کام کرنا چاہیے جو سب کے لیے، کسی قسم کے اقتصادی تفریق یا نسلی پس منظر کو دیکھے بغیر، یکساں مواقع فراہم کریں۔ صرف سماجی امداد اور بیروزگاری کی الاؤنسز کی فراہمی کافی نہیں ہے، کیونکہ یہ دیرپا حل نہیں ہیں۔ اصل حل وسائل پیدا کرنے اور خاص طور پر سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے میں ہے۔
بادشاہت نہیں چاہیئے!
امام خامنہ ای نے تعلیم اور کھیل کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ایرانی نوجوانوں سے ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ سے ایک تاریخی سوال پوچھا ہے "آپ کیا کر رہے ہیں۔؟!"
1۔ گذشتہ دنوں امریکہ کی 50 ریاستوں اور ملک کے 2,700 شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شدید نعرے بازی کی اور ایک مخصوص نعرہ لگایا "ہمیں بادشاہ نہیں چاہیئے۔" امریکی شہریوں کی ملینوں کی تعداد میں مضبوط موجودگی امریکہ میں جمہوریت کے خاتمے، زوال اور انحطاط کی حقیقی تصویر تھی۔ جدیدیت کے فلسفی، جنہوں نے دو صدیوں تک مغربی جمہوریت کو ترویج دینے کے لیے محنت کی ہے، اپنی قبروں میں کانپ رہے ہونگے کہ مغرب کی عظیم ترین جمہوریت کے دل سے ایک فاشسٹ بادشاہ کا سر کیسے ابھرا ہے۔ نصف صدی قبل جب ایرانی عوام سڑکوں پر نکلے اور "شاہ مردہ باد" کا نعرہ لگایا تو اس بوسیدہ امریکی جمہوریت کے لیڈروں نے ایران کے شاہ کو عوام کو گولی مارنے کا مشورہ دیا۔ لیکن امریکی اس زمین پر سب سے خوش قسمت لوگ ہیں، کیونکہ ان کے بادشاہ نے انہیں گولی نہیں ماری۔ پوری دنیا انتظار کر رہی تھی کہ اس "قومی نفرت" پر امریکی بادشاہ کا ردعمل کیا ہوگا۔؟
عالمی خبر رساں اداروں نے ٹرمپ کے ردعمل کی اطلاع کچھ یوں دی ہے۔ ٹروتھ سوشل پر لوگوں کے مشتعل مظاہروں کے جواب میں، اس نے مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ایک فلم ریلیز کی، جس میں ٹرمپ کو شاہی تاج پہنے "کنگ ٹرمپ" کے ڈیزائن والے فائٹر جیٹ پر سوار اور امریکہ کی سڑکوں پر لاکھوں مظاہرین کے سروں پر رفع حاجت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ خود کو امریکہ کا صدر نہیں سمجھتے اور مظاہرین کی باتوں کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہے، صدر نہیں! اور لوگوں کے سروں پر رفع حاجت کرکے وہ امریکہ کے اندر اور باہر امریکی جمہوریت کی بدبو پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے اس پیغام کے ساتھ امریکی عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم مارے جانے کے بھی لائق نہیں ہو۔ تم نے مجھے ووٹ دے کر اس "گندگی" کو پالا ہے۔
2۔ مغرب کے سیاسی فلسفی جو ابھی زندہ ہیں، انہوں نے بادشاہ یا بادشاہت کی آڑ میں جمہوریت کی کوئی نئی شکل نہیں دی۔ انہوں نے دنیا کے دوسرے حصوں میں اپنے تقلید کرنے والوں کے کام کی وضاحت نہیں کی ہے۔ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے، جو ایران میں امریکی جمہوریت کے گیت گاتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ لیں کہ امریکی بادشاہ کے پاس عوام کی تنقید یا احتجاج کے جواب میں سوائے ان پر گندگی ڈالنے کے اور کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ جو شخص اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے، وہ دوسرے ممالک میں اپنے حامیوں کے ساتھ کیا کرے گا۔
3۔ امریکی عوام اب کیا کہہ رہے ہیں؟ لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکی قرضہ ساڑھے 37 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے اور ٹرمپ روزانہ اس قرض میں پچیس ارب ڈالر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق 55 فیصد لوگ ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ 62 فیصد لوگ اسے مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں سمجھتے۔ اسی تعداد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکی ٹیکس مقبوضہ فلسطین میں جنگی جرائم اور غزہ اور مغربی کنارے میں بچوں اور خواتین کے وحشیانہ قتل پر خرچ کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ٹرمپ یوکرین کی جنگ، ایران پر حملہ، وینزویلا میں لوگوں کے ساتھ بدسلوکی، چینی پانیوں میں جنگ بندی اور دیگر امور پر امریکی سرمایہ لٹا رہے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کھیلوں کے چیمپیئنوں کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ کو خطاب کرتے ہوئے ان بڑی ریلیوں میں امریکی عوام کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر آپ اتنے ہی اہل ہیں تو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے ان لاکھوں لوگوں کو پرسکون کریں اور انہیں ان کے گھروں کو واپس بھیجیں۔
4۔ مغربی ماہرین اور یورپی حکمت عملی کے ماہرین کہتے ہیں: امریکہ 21ویں صدی میں ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی کا شکار ہے اور تاریخی زوال اور انحطاط کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکی بادشاہوں نے اپنی جنگی پالیسیوں سے عالمی نظام، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کو درہم برہم کر دیا ہے اور کوئی نیا نظم نہیں بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشروں کے بالکل نچلے حصے میں ایک سنگین بغاوت نظر آتی ہے اور امریکی پالیسیوں کی مخالفت پانچ براعظموں میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں روس اور چین 120 ناوابستہ ممالک کے ساتھ مل کر تاریخ کے دائیں جانب ایرانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ اور تین شریر یورپی ممالک کی پالیسیوں کو "نہیں" کہہ رہے ہیں۔ اس حقیقت کا مطلب ہے، ایک نئے نظام کا ظہور اور مغربی اتھارٹی اور امریکی نظام کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے! نیا عالمی نظام کسی بھی علاقے میں بادشاہ اور بادشاہت کو تسلیم نہیں کرتا۔
تحریر: محمد کاظم انبارلوی
غنا اور موسیقی کی حقیقت:ظاہری لذت اور روحانی خطرات
یہ حقیقت ہے کہ غنا اور موسیقی کا رجحان آج کل ہمارے معاشروں میں بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے اسے عصرِ حاضر کی ثقافت کا ایک لازمی حصہ بنا دیا ہے اور اس نے مختلف طبقات اور معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔زمانہ ماضی میں گانا صرف خاص مواقع اور مخصوص مقامات تک ہی محدود تھا۔ عام طور پر تفریح اور عیش و عشرت کی محفلوں ہی اسے انجام دیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں یہ ہر جگہ اور ہر وقت میسر آچکا ہے۔انٹرنیٹ، جدید موبائل فون، ٹیلی ویژن نیٹ ورکس، ریکارڈنگ ڈیوائسز، اور اسپیکرز جیسے آلات نے گانے اور موسیقی کو ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر لمحہ موجود کر دیا ہے۔ اب یہ گھروں سے لے کر ٹرانسپورٹ، بازاروں، دکانوں اور حتیٰ کہ عوامی مقامات تک، ہر جگہ سنائی دیتے ہیں۔
اب تو یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی ایسا دن بھی گزرے جب انسان کے کانوں تک غنا یا موسیقی کی آواز نہ پہنچے۔ایسا چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہو ہی جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید معاشرہ اس رجحان کا اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ اگر دنیا بھر میں صرف ایک دن کے لیے غنا اور موسیقی کوبند کر دیا جائے تو ہم عالمی سطح پر سماجی اور نفسیاتی بے چینی اور انتشار کو ملاحظہ کریں گے۔
جدید معاشرے میں غنا اور موسیقی کے معاملے میں اکثر غیر جانبدار اور معروضی نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جاتا۔ آج کل زیادہ تر لوگ اس ثقافت کے باعث پیدا ہونے والے سماجی اور اقتصادی دباؤ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ لوگ اس کے سامنے مسلسل بے بس نظر آتے ہیں۔ غنا اور موسیقی تفریح کے بنیادی ذرائع میں شامل ہو چکے ہیں،یہ میڈیا ہو، کام کی جگہیں ہوں یا عوامی اجتماعات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ رجحان انسانی خواہشات کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیاتی جبلّتوں کو بھی بھڑکاتا ہے، کیونکہ یہ جذباتی ضروریات کو پورا کرتا اور احساسات کو متحرک کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرد کے اندر اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کی کوئی اندرونی مزاحمت باقی نہیں رہتی بلکہ اس کے برعکس، انسان کی فطرت خود بخود ان چیزوں کی طرف مائل ہوتی ہے جو اس کی خواہشات کو ابھارتی اور اسے خوشی فراہم کرتی ہیں۔
اب یہ رجحان معاشرے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کیونکہ یہ انسانی نفس کی وقتی خواہشات اور جذباتی ضروریات کو تسکین فراہم کرتا ہے۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ گانا اور موسیقی اگرچہ فوری طور پر جذبات پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر ان عقلی اور روحانی اصولوں سے متصادم ہیں جنہیں آسمانی مذاہب انسان میں راسخ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معلوم ہےکہ انسانی نفس عام طور پر عارضی لذتوں اور تفریح کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ چیزیں انسان کی زندگی کا مقصد بن جائیں یا وہ انہی کو اپنی حقیقی خوشی کا ذریعہ سمجھے۔
اس تناظر میں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ عقل اور خواہشات کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے۔ انسان کو اپنی خواہشات کے لیے کسی یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود بخود جانتا ہے کہ وہ کن چیزوں کی طرف مائل ہے اور کن جبلّتی رغبتوں کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ جس چیز کی اسے مسلسل ضرورت رہتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی اسے اعلی عقلی اقدار کی طرف متوجہ کرے وہ اقدار جو روحانی خوبصورتی اور کمال کی طرف لے جانے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ بلند اقدار محض وقتی خواہشات یا عارضی لذتوں سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ یہ وہ اعلیٰ اصول ہیں جو آسمانی مذاہب نے انسان کے لیے متعین کیے ہیں۔ انہی تعلیمات کے ذریعے انسان اپنی زندگی کے راستے کو درست کر سکتا ہے اور اپنی ذہنی و نفسیاتی صلاحیتوں کو اعلیٰ مقاصد کے حصول میں استعمال کر سکتا ہے۔اس سے وہ اپنی جسمانی، فکری اور روحانی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غنا اور موسیقی بظاہر دلکش معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ انسان کو اعلیٰ مقاصد سے غافل کر دیتے ہیں۔ یہ نہ تو عقل کو اچھے تفکر پر ابھارتے ہیں اور نہ ہی انسان کی غور و فکر اور تدبر کی صلاحیت کو مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ محض جذباتی تحریک کا ذریعہ بنتے ہیں جو سطحی احساسات کو بڑھاوا دیتے ہیں اور عارضی خواہشات کو مزید بھڑکاتے ہیں۔ جب انسان مسلسل ان چیزوں کو سنتا رہے تو اس کے اور عقل کی ان اعلیٰ اقدار کے درمیان خلا بڑھنے لگتا ہے جو اسے سکون اور زندگی کے بلند تر معانی پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو غنا اور موسیقی درحقیقت نفس کو روحانی بلندیوں سے دوری کی طرف لے جاتے ہیں اور دل کے اس تعلق کو کمزور کر دیتے ہیں جو اسے پُرسکون اور مطمئن عقل کے ساتھ جوڑتا ہے وہ عقل جو انسان کو اللہ کے ذکر سے حقیقی سکون اور اطمینان کی طرف لے جاتی ہے۔
دوسری طرف اس حوالے سے حق اور باطل کے درمیان کشمکش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ گانے اور موسیقی محض تفریحی ذرائع نہیں بلکہ یہ ایسے عوامل ہیں جو انسان کے دل میں باطل اور خواہشاتِ نفس کو بڑھاوا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس راستے سے دور ہو جاتا ہے جس کی طرف آسمانی تعلیمات انسان کی رہنمائی کرتی ہیں۔ کوئی بھی عقل مند شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ غنا اور موسیقی حق کی تائید کرتے ہیں یا انسان کو حق کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو چیز عقل کو غافل کر دے اور دل کو اللہ کے ذکر سے دور کر دے، وہ ایسی چیز ہے جس سے بچنا اور اس سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ یہ غفلت ہی وہ رکاوٹ ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصدِ حیات کو سمجھنے اور روحانیت سے دور رکھتی ہے، جن کی تکمیل کے لیے زندگی کو الٰہی ہدایت کے دائرے میں گزارنا ضروری ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے:
(أَفَمَن شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللهِ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ) (الزمر: 22)
کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو اور جسے اپنے رب کی طرف سے روشنی ملی ہو (سخت دل والوں کی طرح ہو سکتا ہے؟)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل ذکر خدا سے سخت ہو جاتے ہیں، یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔
اگرچہ یہ آیتِ کریمہ مخصوص طور پر گانے کے بارے میں نہیں بتاتی لیکن یہ ایک عمومی اصول کو واضح کرتی ہے یہ اصول دو دلوں میں فرق کو ظاہر کرتا ہے وہ دل جنہیں اللہ نے اپنے نور سے منور کیا اور ان دلوں کے درمیان جو اللہ کے ذکر سے دور ہو کر سخت ہو گئے۔ وہ دل جنہیں اللہ نے اسلام کی روشنی دی انہیں روحانی زندگی کے معانی میں غور و فکر اور تدبر میں حقیقی سکون ملتا ہے جبکہ سخت دل اس راستے سے ہٹ کر دنیاوی لذتوں اور عارضی خوشیوں میں کھو جاتے ہیں۔ چونکہ اسلام کا مقصد دلوں کو پاک کرنا اور انہیں حق کی طرف لے جانا ہے گانا دل کی سختی کو بڑھانے اور انسان کو سیدھے راستے سے دور کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں بہت سی روایات گانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں،یہ سب ایک بنیادی نکتے پر مبنی ہیں: گانا حقیقی بندگی کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ مشہور عالم، علامہ حرّ عاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعة میں ایک باب مخصوص کیا ہے جس کا عنوان ہے: "تحریم الغناء، حتیٰ في القرآن، وتعلیمه وأجرته" (یعنی غنا کی حرمت، چاہے وہ قرآن کی آیات میں ہی کیوں نہ ہواور غنا کوسیکھنا یا اس کا معاوضہ لینا بھی حرام ہے)۔ اس باب میں، زید شحّام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: (بيت الغناء لا تؤمن فيه الفجيعة، ولا تجاب فيه الدعوة، ولا يدخله الملك( "گانے والا گھر ایسا ہوتا ہے جہاں مصیبت سے امان نہیں ہوتی، جہاں دعا قبول نہیں کی جاتی اور جہاں فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔"
ان نصوص سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ غنا ان اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے جنہیں آسمانی مذاہب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ باطل کی ایک شکل ہے، جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے ذہن کو غفلت میں ڈالنے اور اس کے دل کو بگاڑنے کا کام کرتی ہے۔ ائمہ کرام نے گانے کو فریب اور نفاق سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: گانا نفاق کا دھوکہ ہے۔
ایک مؤمن کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور شبہات میں پڑنے سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے جواز تلاش کرنے کی بجائے دیانت داری کے ساتھ شریعت کے احکام کی پیروی کرنی چاہیے۔ فقہاء جب کسی شرعی مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ ایک علمی اور معروضی طریقہ کار اپناتے ہیں اور اپنے فتاویٰ کی بنیاد شرعی نصوص پر رکھتے ہیں۔ جہاں تک غنا کی بات ہے تو فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں کیونکہ اس کے خلاف واضح شرعی دلائل موجود ہیں۔ موسیقی کی حرمت کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس پر کوئی صریح اور قطعی نص موجود نہیں۔ بعض فقہاء نے اسے لہو و لعب میں شمار کرتے ہوئے حرام قرار دیاجبکہ کچھ نے اسے جائز کہا، بشرطیکہ یہ موسیقی ایسی محافل اور مجالس میں نہ سنی جائے جو لہو و طرب (عیش و عشرت) کے ماحول پر مشتمل ہوں۔ اس حوالے سے انہوں نے اس کی حدود و قیود کو متدین اور دین دار معاشرے کے عرف پر چھوڑ دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ہر مؤمن کو چاہیےوہ اللہ سے ڈرے، شبہات سے بچے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے بہانے تلاش نہ کرے۔ شریعت کے مسائل پر جب فقہاء غور و فکر کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ ایک علمی اور معروضی طریقہ کار اپناتے ہیں اور اپنے احکام کی بنیاد شرعی نصوص پر رکھتے ہیں۔ جہاں تک غنا کا تعلق ہے، تو فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں کیونکہ اس کے خلاف واضح شرعی دلائل موجود ہیں۔ البتہ موسیقی کے بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہےکیونکہ اس پر کوئی صریح اور قطعی نص نہیں ہے۔ کچھ فقہاء نے موسیقی کو لہو و لعب میں شمار کرتے ہوئے اسے حرام قرار دیاجبکہ بعض نے اسے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا کہ یہ لہو و طرب (عیش و عشرت) کی محافل میں نہ ہو۔ اس معاملے میں، انہوں نے اس کے جواز یا عدم جواز کو متدین معاشرے کے عرف پر چھوڑ دیا۔
ہر مؤمن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درست شرعی موقف اختیار کرے اور ہر اس چیز سے پرہیز کرے جو باطل کی تقویت کا سبب بنے اور اسے حق کے راستے سے دور کر دے۔
الشيخ معتصم السيد أحمد
غزہ جنگ کا نیا کمانڈر
شرم الشیخ اجلاس میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے باوجود یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں امن کا قیام ابھی دور ہے، کبھی صیہونی عہدیداروں کی جانب سے حماس کو لیکر دی جانے والی دھمکیاں، علاقہ میں غیر ملکی فوجوں کی آمد اور امریکہ کی پراسرار سرگرمیاں سنجیدہ حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ اسرائیل اور واشنگٹن کا منصوبہ کچھ اور ہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے مقبوضہ سرزمینوں میں فوجی اڈہ قائم کرکے دراصل غزہ اور اسرائیل میں ہونے والی پیشرفت کی زمینی سطح پر کمان سنبھال لی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے کریات گات میں اپنے فوجی اڈہ قائم کرنے کا مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اب شائد غیر ملکی فوجوں کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ اڈہ، جو شہر کریات گات میں واقع ہے، ٹرمپ منصوبے کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔
اس منصوبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنا اور غزہ پٹی پر امریکی سکیورٹی نظام مسلط کرنا ہے۔ اخبار یدیعوت آحارونوت کی رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت کی سکیورٹی کابینہ اس ہفتے ایک اجلاس منعقد کرے گی، جو براہِ راست امریکی نمائندوں کی نگرانی میں ہوگا۔ اسی سلسلے میں امریکہ کے نائب صدر جی ڈی ونس تل ابیب پہنچیں گے، تاکہ جَیرڈ کُشنر اور اسٹیو وِٹکاف کے ساتھ مل کر جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور منصوبے کے نفاذ کے عمل کی نگرانی کریں۔ اس عبرانی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل اب ایک "محفوظ امریکی علاقہ" بن چکا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں فیصلے واشنگٹن میں کیے جاتے ہیں اور تل ابیب محض ان احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ امریکی نمائندوں کی کریات گات فوجی اڈے پر موجودگی اور معاہدے کی تفصیلات پر ان کی نگرانی بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واشنگٹن کی مداخلت قابض حکومت کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں کتنی گہری ہوچکی ہے۔
اسرائیل کا ایک سکیورٹی وفد جس میں فوج اور انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہیں، قاہرہ روانہ ہوا ہے، تاکہ جنگ کے بعد کے مرحلے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بارے میں مذاکرات کرسکے۔ تاہم، عبرانی ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمینی حقائق کا تعین امریکہ ہی کر رہا ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ کی جانب سے انسانی امداد دوبارہ شروع کرنے کے حکم کے صرف ایک دن بعد ہی اسرائیل نے پیچھے ہٹتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سرحدی راستے کھول دے گا، اگرچہ رفح کراسنگ اب بھی بند ہے، تاکہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی صورتحال واضح ہوسکے۔ کریات گات میں امریکہ کا فوجی اڈہ 200 امریکی فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ کام شروع کرچکا ہے اور اس کا کام غیر ملکی فوجی دستوں کی غزہ میں داخلے کی نگرانی کرنا ہے۔ یہ دستے مختلف ممالک، بشمول امارات، انڈونیشیا، آذربائیجان، مصر اور ممکنہ طور پر قطر اور ترکی سے ہوں گے۔ اس اڈے کی کمان امریکی جنرل پاتریک فرانک کے سپرد ہے، جبکہ نائب کمانڈر ایک برطانوی جنرل ہوں گے۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں ہزاروں غیر ملکی فوجی غزہ میں داخل ہوں گے، جن کا مشن مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور دفاعی ڈھانچوں، بشمول سرنگوں، کو تباہ کرنا ہوگا۔ صہیونی حکومت نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں اپنے قیدیوں کی تلاش کے عمل کو تیز کرنے اور حماس کی طرف سے ان کی واپسی کی ضمانت لینے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو قیدیوں کی لاشوں کی واپسی اور مزاحمت کے مکمل غیر مسلح ہونے سے مشروط ہوگی۔ یہ پیشرفت اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ امریکہ کھلے عام غزہ کے سیاسی اور سکیورٹی مستقبل کو انجینئر کرنے اور اپنی مرضی فلسطینی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن عوامی مزاحمت اور مزاحمتی دھاروں کی بیداری کے باعث یہ منصوبہ بھی ماضی کی طرح بلاشبہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔
شرم الشیخ اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف انتہائی سیاسی پختگی پر مبنی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد حماس کی قیادت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ٹھوس حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا نیا منصوبہ نیتن یاہو کا بھی حمایت یافتہ ہے۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہم تو حماس کو ختم نہیں کرسکے، تم آو اور ہماری مدد کرو۔ اگر یوں کہا جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا، بلکہ اس کی کمانڈ اسرائیل کی بجائے واشنگٹن نے سنبھال لی ہے۔ اس صورتحال میں پورے خطہ کا امن ایک مرتبہ پھر داو پر لگ رہا ہے۔ امریکہ ہر صورت مقاومت کو براہ راست چیلنج کرنے کی کوشش میں ہے، جہاں یہ صورتحال امریکی براہ راست مداخلت کو واضح کرتی ہے، وہیں اسرائیل کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا وہ عرب و مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک جو ٹرمپ منصوبہ کو "امن منصوبہ" کو نام دے رہے تھے، کہیں ایک بار پھر اہل غزہ کیساتھ خیانت کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔؟
رپورٹ: سید عدیل عباس
بانٹنا سیکھیں
یہ شان و شوکت،
یہ مال و دولت،
یہ بنگلہ، یہ گاڑی، یہ سونا، یہ چاندی،
یہ عزت، یہ شہرت، یہ طاقت۔۔۔
یہ “میں”، یہ “میرا”، یہ “میری” — سب وہم ہے،
فریب ہے، غفلت ہے۔
یہ سب تمہارا نہیں۔۔۔
یہ امانت ہے۔۔۔۔۔۔
اور تم اس کے امین ہو۔۔۔۔۔
تم اس کے نگہبان ہو۔۔۔۔۔۔۔
اللہ نے تمہیں یہ شرف بخشا ہے کہ دوسروں کا لقمہ تمہارے رزق میں رکھا۔۔۔۔۔۔۔
یہ عزت تمہیں اس لیے دی گئی کہ تم الہیٰ سنت کو زندہ کرو۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ تمہارے پاس ہے، وہ تمہارا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تم وسیلہ ہو۔۔۔۔۔۔ ذریعہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ مقسم ہو۔۔۔۔۔۔۔
تم نے پہنچانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ روکنا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہاؤ ہے۔۔۔
یہ گردش ہے۔۔۔
دامن بچاؤ ۔۔۔۔۔۔
احتیاط کرو۔۔۔۔۔۔۔ بچ نکلو۔۔۔۔۔۔
کہیں احساسِ مالکیت غالب نہ آ جائے۔۔۔۔۔۔
یہ وہم ایک خوبصورت فریب ہے، جو سب کچھ نگل لیتا ہے۔۔۔۔۔۔
فرعون کا اپنا کیا تھا؟
اسی دھوکے نے اسے نابود کیا۔۔۔۔۔۔
قارون کی “مالکیت” کہاں گئی؟
شدّاد اور اس کی بلند و بالا عمارتیں کہاں گئیں؟
جاتے وقت سکندر کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔۔۔۔۔
مت سمجھو کہ تم مالک ہو۔۔۔۔۔۔۔
مالک تو وہی اکیلا ہے۔۔۔
جو دینا بھی جانتا ہے۔۔۔۔۔ اور لینا بھی۔۔۔۔۔۔۔
تم صرف واسطہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
امانت پہنچاؤ۔۔۔۔۔۔۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی تمہارا امتحان ہے۔۔۔۔۔۔
یہی تمہاری شرافت۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی انسانی پیمانہ۔۔۔۔۔۔۔
خود سے ہمسائے کی خبر لو،
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھوکا سو جائے۔
کبھی سفید اجلے لباس کے پیچھے چھپی خاموشی اور بے بسی کو بھی پڑھو۔۔۔۔۔۔۔
اپنوں کی خاموشی کو زبان دو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دور آزمائش کا دور ہے۔۔۔۔۔۔۔ کبھی بنا دعوت کسی کو کھانا کھلاؤ۔۔۔۔۔۔ بنا مانگے کسی کو لباس پہناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی یتیم کو پناہ دو۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی مقروض کا ہاتھ بٹاو۔۔۔۔۔۔۔ درحقیقت آزمائش مفلس کی نہیں صاحبِ ثروت کی ہے
یاد رکھو۔۔۔
جب تم بانٹتے ہو تو تم دیتے نہیں۔۔۔
درحقیقت لوٹاتے ہو۔۔۔۔۔۔
وہی لوٹا رہے ہو جو تمہیں عارضی طور پر دیا گیا۔۔۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔
رزق کے ساتھ ساتھ احساسات بھی بانٹو۔۔۔۔۔
مسکراہٹ بھی بانٹو۔۔۔۔۔۔ وقت بھی بانٹو۔۔۔۔۔۔ محبتیں بھی بانٹو۔۔۔۔۔۔
کہ شاید تمہارے بانٹنے سے کسی کی اداسی کم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی امید جاگ اٹھے۔۔۔۔۔
کسی کا دل پگھل جائے اور تمہارے حق میں دعا کرے۔۔۔۔۔۔۔۔
لہٰذا بانٹنا سیکھو۔۔۔
کہ یہی امانت کا حق۔۔۔۔
اور یہی بندگی کی معراج ہے
راہِ حق میں استقامت سب سے اہم صفت ہے / دشمن کا بنیادی ہدف ہمارے عقائد اور طرزِ زندگی کی تبدیلی ہے
یت اللہ محسن فقیہی کے دفتر میں منعقدہ درس اخلاق میں حجت الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی نے سورۂ انفال کی آیت نمبر 45 "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" کی تفسیر پیش کرتے ہوئے ایمان میں ثبات اور ذکرِ الہی سے غفلت کے اسباب کو بیان کیا۔
انہوں نے جنگِ اُحد کے پس منظر میں نازل ہونے والی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے کہا: فلاح اور رستگاری کی پہلی شرط "ثبات" ہے جو قول، عمل اور دل تینوں میدانوں میں استقامت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ صبر سے بالاتر درجہ رکھتی ہے اور قرآن و احادیث میں اسے غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر رفیعی نے تاریخ اسلام کی چند نمایاں شخصیات جیسے زبیر، حجر بن عدی، عمر بن حمق اور میثم تمار کی مثال دیتے ہوئے کہا: دینی اور ولائی موقف پر ثابت قدم رہنا ایمان کی علامت ہے۔ زیارت عاشورا میں "ثبّت لی قدم صدق" کا دو بار تکرار ہونا بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ راہِ حق میں استقامت سب سے اہم صفت ہے۔
انہوں نے ذکرِ الہی میں رکاوٹ بننے والے عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا: شیطان کا نفوذ، مال و اولاد کی مشغولیت، جس کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ..." اور لمبی آرزوئیں اور لہو و لعب جیسے فحش موسیقی اور قمار بازی انسان کو یادِ خدا سے غافل کر دیتے ہیں۔
غیر مسلح کرنے کی ناقابل حصول آرزو
قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد عبرانی ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر فلسطین میں اسلامی مزاحمت خاص طور پر حماس کے غیر مسلح ہونے پر بات کرنا شروع کر دی ہے۔ اس وقت تقریباً تمام اسرائیلی تجزیہ کاروں اور سابقہ سیکیورٹی عہدیداروں کے دریان اس تلخ حقیقت کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنا محض ایک وہم ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ وہ خبردار کر رہے ہیں کہ حماس سے متعلق زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے غزہ جنگ کے بعد کے لیے بنائے جانے والا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اس بارے میں شاباک کے سابق افسر ایلا لوتان نے کہا: "جو بھی یہ سوچتا ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دے گی وہ شدید وہم کا شکار ہے۔" اس کے بقول غزہ میں آزاد ہونے والی فلسطینی قیدیوں کے پرتپاک استقبال نے ثابت کر دیا ہے کہ حماس اب بھی طاقتور اور اثرورسوخ کی حامل ہے۔
ہتھیار، اسلامی مزاحمت کا تشخص
غزہ کی گذشتہ جنگوں میں حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف حالیہ جنگ کے بعد نہ صرف اپنا فوجی اور سیکورٹی ڈھانچہ محفوظ رکھا ہے بلکہ میدان جنگ میں حاصل ہونے والے تجربات، عوامی حمایت، زیر زمین سرنگوں کے پیچیدہ نیٹ ورک، مقامی سطح پر ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت اور نامنظم جنگ کی جدید حکمت عملیوں کی مدد سے نہ صرف غاصب صیہونی فوج کا مقابلہ کیا ہے بلکہ ان پر برتری بھی حاصل کی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ہے کہ حماس کی ڈیٹرنس پاور میں نہ صرف کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ دباو اور چند سالوں پر مبنی محاصرے کے باوجود بڑھی بھی ہے۔ تل ابیب نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز سنٹر (INSS) سمیت مختلف اسرائیلی فوجی ذرائع نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل حماس کی فوجی طاقت اور کمانڈ لائن کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیلی فوجی ذرائع اس حقیقت کا بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ حماس کو نہ ہی رضاکارانہ طور پر اور نہ ہی طاقت کے زور پر غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حماس کی کامیابی کا راز مذہبی سوچ اور اعتقادات میں بھی پوشیدہ ہے۔ یہ گروہ اپنے ہتھیاروں کو صرف ایک عارضی ذریعے کے طور پر نہیں دیکھتا بلکہ اسے اپنی اعتقادی اور مذہبی تشخص کا حصہ بھی جانتا ہے۔ حماس کے اعلی سطحی رہنماوں کی نظر میں غیر مسلح ہو جانے کا مطلب خود کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارنیگی اور چیٹم ہاوس جیسے متعدد مغربی تھنک ٹینکس کی رپورٹس اس بات پر زور دیتی ہیں کہ حماس کی نظر میں ان کے ہتھیار دشمن کے مقابلے میں مشروعیت اور سیاسی بقا کے ضامن ہیں۔ ان تحقیقاتی مراکز کی نظر میں کسی قسم کا بین الاقوامی سیاسی دباو یا ہتھکنڈہ حماس کو غیر مسلح نہیں کر سکتا۔
صیہونی ماہرین کی وارننگ
حماس کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنے اور غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کے سب سے بڑے مخالفین صیہونی رژیم کے قریبی مشیران ہیں۔ مثال کے طور پر تل ابیب یونیورسٹی میں فلسطین اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ مائیکل میلشتاین نے صیہونی چینل 12 سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کی کوشش مستقبل میں سب سے بڑا سیاسی مائن فیلڈ ثابت ہو گی۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ حالیہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ ابہامات اور خطرات سے بھرا پڑا ہے اور حماس نے واضح طور پر غیر مسلح ہونے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کے بقول یہ تنظیم کسی صورت بھی غیر مسلح ہونے پر تیار نہیں ہو گی اور یہ مسئلہ اسرائیل کے اندر شدید بحران اور اسرائیلی معاشرے میں شدید مایوسی پھیل جانے کا باعث بن سکتا ہے۔
میلشتاین نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ قطر اور مصر سمیت عرب ممالک ایک درمیانہ راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کی بجائے اس کی جارحانہ صلاحیتوں کو کم کرنے پر ہی اکتفا کیا جائے۔ اس کے بقول یہ حکمت عملی اس حقیقت کے حقیقت پسندانہ ادراک کا نتیجہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح ہونے پر مجبور کر دینا ناممکن ہے۔ میلشتاین نے مزید کہا کہ اسلامک جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد نخالہ نے آزاد ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے غزہ میں موجودگی برقرار رکھنے پر زور دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تناو جاری رہے گا اور مزاحمتی گروہ اسرائیل کا مقابلہ جاری رکھیں گے۔ اسی طرح صیہونی چینل 12 کے فوجی تجزیہ کار نیر دوری نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو فوجی مرحلے سے نکل کر سیاسی مرحلے میں داخل ہو جانا چاہیے کیونکہ ہر غلطی ماضی جیسی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
چھپے رستم
غزہ میں جنگ بند ہو جانے کے بعد عزالدین قسام بٹالینز کے ان مجاہدین کی قدردانی کرنے کا وقت فراہم ہو چکا ہے جنہوں نے نظروں سے اوجھل ہو کر مزاحمت کا سلسلہ باقی رکھا ہے۔ اس بارے میں "سایہ یونٹ" حماس کی ملٹری ونگ کا وہ ماہر ترین یونٹ ہے جس کے مجاہدین نے طوفان الاقصی آپریشن میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس یونٹ نے انتہائی کٹھن اور خطرناک حالات میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت کی ذمہ داری کامیابی سے انجام دی اور صیہونی رژیم سے ڈیل کرنے کے لیے ان یرغمالیوں کو حماس کے قبضے میں رکھا۔ یہ یونٹ ماہر ترین اور اعلی ترین تربیت کے حامل مجاہدین پر مشتمل ہے جنہوں نے جنگ کے دوران صیہونی رژیم پر اپنی انٹیلی جنس برتری بھی ثابت کر دیا ہے۔ اس یونٹ کی بنیاد 2006ء میں اسرائیلی فوجی گیلعاد شالیط کی گرفتاری کے بعد عمل میں آئی تھی۔
تحریر: سید رضا حسینی
ہمدردی اور تعاون قرآن کریم میں
جب افراد باہمی تعلقات اور اجتماعی روابط قائم کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں وحدت و اتحاد کی روح پھونک دی جاتی ہے، اور وہ تفرقے اور انتشار سے محفوظ رہتے ہیں۔
اگر کسی معاشرے میں تعاون اور باہمی مدد کا جذبہ غالب آجائے تو اس سے اس معاشرے کی مادی و روحانی ترقی کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں۔ تعاون اور اشتراکِ عمل ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کرتا ہے جو معاشرے کی ہمہ جہتی ترقی، عروج اور خوشحالی کا ضامن بنتا ہے۔ اسلام نے اسی لیے انفرادی کاموں کے مقابلے میں اجتماعی کاموں کو ترجیح دی ہے، کیونکہ اجتماعی کام زیادہ مضبوط، دیرپا اور مؤثر ہوتے ہیں۔ جب افراد کی توانائیاں یکجا ہوتی ہیں تو ایک عظیم قوت پیدا ہوتی ہے جو ہر مشکل کام کو آسان بنا دیتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: «مَنْ أَصْبَحَ لاَ يَهْتَمُّ بِأُمُورِ اَلْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ، وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ» "جو شخص مسلمانوں کے امور کی بہتری میں دلچسپی نہ لے، وہ ان میں سے نہیں ہے، اور جو کسی مسلمان کی مدد کے لیے پکار سن کر بھی اس کی فریاد کو لبیک نہ کہے، وہ مسلمان نہیں۔
نیکی اور سماجی بھلائی کے کاموں میں مخلصانہ اور سرگرم شرکت ہر مؤمن پر لازم ہے۔ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی مفادات یا حتیٰ کہ ایک مسلمان کے کام کی ترقی کے بارے میں غیر حساس ہو اور صرف اپنے ذاتی مفاد کا سوچے، وہ حقیقی مسلمان نہیں۔
مثال کے طور پر، انسانی معاشروں کا ایک مستقل اور تکلیف دہ مسئلہ طبقاتی تفاوت ہے — ایسا فرق جو معاشرے کے افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے: ایک طرف وہ محروم اور نادار لوگ ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش اور لباس تک سے محروم ہیں؛ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دولت و آسائش میں اس قدر غرق ہیں کہ انہیں اپنے مال و دولت کا حساب تک معلوم نہیں۔
ایک صالح اور الٰہی قدروں پر مبنی معاشرہ وہ ہے جہاں تمام افراد، اپنی استعداد اور حیثیت کے فرق کے باوجود، خدائی نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکیں، اور ان میں ہمدردی، رحم اور تعاون کا جذبہ رائج ہو۔ کیونکہ اجتماعی زندگی کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کر کے کمال اور کامیابی کی راہ آسان بنائیں۔
اسلام نے طبقاتی فرق مٹانے کے لیے وسیع پروگرام وضع کیا ہے، جیسے سود کی حرمت، اسلامی مالیاتی نظام (زکوٰۃ و خمس وغیرہ)، انفاق، وقف، قرضِ حسنہ اور مالی تعاون کی ترغیب۔ تاہم ان تمام اقدامات میں سب سے مؤثر طریقہ غرباء اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تعاون اور باہمی ہمدردی ہے۔
آئندہ نوٹس میں "تعاون" کے مفہوم، اس کی اہمیت، اور قرآن و احادیث میں اس کے نظریاتی و فکری پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔/
نوبل انعام کی آڑ میں رجیم چینج
امریکہ نے ایک طرف وینزویلا کا فوجی محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ نیٹو نے اس محاصرے میں شدت لانے کے لیے پیچیدہ ترین مشترکہ نفسیاتی آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔ امریکہ نے عالمی رائے عامہ میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی شدید نفرت سے مجبور ہو کر اور غاصب صیہونی فوج کو مزید تباہ حالی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں امن کا نعرہ بلند کیا ہے اور یوں سفارتی طریقے سے غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کو ختم کر کے وہاں پوری طرح قبضہ جمانے کے درپے ہے۔ اس طرح ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے امن کا مشترکہ ڈرامہ رچانے کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اور نوبل انعام ڈونلڈ ٹرمپ کی بجائے لاطینی امریکہ کی ایک سیاسی شخصیت کو دے دیا گیا ہے۔
یہ شخصیت وینزویلا سے تعلق رکھنے والی سیاست دان ماریا کورینا ماچادو ہے جو مغرب نواز ہے اور وینزویلا کے امریکہ نواز حلقوں میں بھی زیادہ جانی پہنچانی نہیں تھی لیکن نوبل انعام پانے کے بعد عالمی میڈیا میں صفحہ اول پر اس کا نام دیکھا جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ وینزویلا میں ٹرمپ کے مدنظر مقاصد کے حصول کی کوشش کرے گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ چند ہفتوں سے منشیات کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنے کے بہانے وینزویلا کے قریب بھاری فوجی موجودگی ایجاد کر رکھی ہے اور یوں سمندر کے ذریعے وینزویلا کا فوجی اور اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد وینزویلا میں امریکہ مخالف حکومت کو سرنگون کرنا ہے اور قانونی طریقہ کار سے برسراقتدار حکومت کو رجیم چینج کے ذریعے گرانا ہے۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے وینزویلا میں حکومت مخالف امریکہ نواز سیاست دان ماریا کورینا ماچادو کو نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ نوبل انعام کی کمیٹی کے سربراہ بورگن واتنے فریدنس نے ان کا نام اعلان کرتے ہوئے اسے "سیاسی مخالفین جو شدید باہمی اختلافات کا شکار تھے کو متحدہ کرنے والی اہم شخصیت" کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ یوں اس نوبل انعام کے ذریعے اسے وینزویلا میں امریکہ اور یورپ نواز دھڑے کے سربراہ کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت مخالف مہم چلانے کی سربراہی بھی اسے تھما دی گئی ہے۔ یہ بدامنی اور سیاسی ہلچل امریکہ کی جانب سے فوجی مداخلت کا بھی بہت اچھا بہانہ فراہم کر سکتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وینزویلا کے اپوزیشن لیڈران پہلے سے ہی حکومت پر قبضہ کرنے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں بیٹھے ہیں۔
کورینا ماچادو جو خود کو حکومت مخالف رہنما کے طور پر پیش کرتی ہے عوام سے بہت کم رابطے میں ہے اور اس سال جنوری سے اب تک انہیں کسی نے نہیں دیکھا تھا لیکن جمعہ کے روز نوبل انعام دریافت کرنے کے بعد یکدم منظرعام پر آ گئی ہے۔ گذشتہ برس بھی یورپی یونین نے اسے اور اس کے دیگر مغرب نواز ساتھی ایڈمنڈو گونزالس کو انسانی حقوق کے "ساخاروف انعام" سے نوازا تھا اور اس طرح ان کی شخصیت میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گونزالس کو جب الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو وہ حکومت کی طرف سے دباو کا بہانہ بنا کر اسپین چلا گیا اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ عام طور پر مغرب کے جاسوسی ادارے جب مختلف ممالک میں مغرب نواز حلقوں کو مغلوب ہوتا دیکھتے ہیں تو رجیم چینج کے لیے اپوزیشن لیڈران کا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وینزویلا میں بھی سی آئی اے اور پینٹاگون کی ناکامی کے بعد موساد میدان میں کود پڑی اور ایران کے انقلاب مخالف دھڑوں اور سابق شاہ کے حامیوں کو یہ مشن دیا گیا کہ وہ ماریا کورینا ماچادو کی شخصیت کا پرچار کریں۔ اس تناظر میں ماچادو کو واشنگٹن میں منعقدہ سالانہ چوتھی کانفرنس میں خصوصی دعوت بھی دی گئی تھی۔ اس نے اپنے ویڈیو پیغام میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر رضا پہلوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایران اور وینزویلا کو دنیا کے جنوبی حصے کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیا تھا اور یوں وقت سے پہلے ہی امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کا اپنا مقصد فاش کر دیا تھا۔ اس نے کہا: "وینزویلا کی آزادی کے دنیا بھر پر اثرات ظاہر ہوں گے اور وہ دیگر معاشروں جیسے ایران کے بہادر عوام کے لیے مقدمہ ثابت ہو گا۔ ہمارا مشن مشترکہ ہے اور ہم فتح یاب ہوں گے۔"
البتہ توجہ رہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا انتخاب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2021ء میں روس سے دیمتری موراتف کا انتخاب، 2022ء میں بیلاروس سے ایلس بیالیاتیسکی کا انتخاب اور 2023ء میں ایران سے نرگس محمدی کا انتخاب اور اس سے پہلے 2003ء میں ایران سے شیرین عبادی کا انتخاب یہی ثابت کرتا ہے کہ عالمی استعماری طاقتیں نوبل انعام کو اپنے سیاسی اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں جو انارکی پیدا کرنے اور کسی ملک میں مغرب کی فوجی یا سیاسی مداخلت کے لیے زمینہ فراہم کرنے کے لیے عدم استحکام پیدا کرنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نوبل انعام کی کمیٹی میں اختلاف ظاہر کرنے کا مقصد بھی دراصل اس انعام کا اعتبار اور حیثیت بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے دنیا بھر میں امریکہ اور اسرائیل کو منفور کر رکھا ہے۔
تحریر: محمد زمانی
اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد مذاکرات قبول کئے ہیں
ارنا کے مطابق عرب دنیا کے سیاسی امور کے ماہر ممتاز مبصر حسن حردان نے غزہ میں جنگ بندی سمجھوتے کے تجزیئے میں کہا ہے کہ فلسطین کے مقاومتی محاذ نے اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان، یمن اور عراق کی مدد سے پائیداری سے کام لیا اور اس نے اسرائیلی حکومت کو اس کے اسٹریٹیجک اہداف میں ناکام بنادیا۔
انھوں نے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ تل ابیب دو سال کی جنگ میں حماس کو نابود نہ کرسکا اور بالآخر اس کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے پر مجبور ہوگیا۔
حسن حردان نے جنگ بندی سمجھوتے کے پہلے مرحلے کے بارے میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں جو لبنان کے روزنامے البنا میں شائع ہوئی ہے، لکھا ہے کہ یہ مرحلہ، جنگ بندی، سبھی زندہ اسرائیلی جنگی قیدیوں کی رہائي ( اور مردہ جنگی قیدیوں کے جنازے کی تحویل) اور اس کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی آزادی، غزہ سے قابض افواج کی جزوی پسپائی اور غزہ میں امداد رسانی پر مشتمل ہے۔