ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

Rate this item
(14 votes)

موجودہ دور جدید میں امت مسلمہ کو بے شمار چیلنجز در پیش نظر آتے ہیں اور میری نظر میں ان تمام خطرات اور کفار کی ریشہ دوانیوں کی ذمہ دار کافی حدتک خود مسلمان برادری ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ صدیوں سے جب اسلام پھیلا تو لوگوں نے اختلافات کو مزید بڑھا کر آپس میں ہی بڑی جنگیں لڑیں اور سارا نقصان اپنے ہی لوگوں کی وجہ سے امت مسلمہ کو اٹھانا پڑا، کفار کی سازشوں کی بدولت نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسلامی ممالک نے آپس ہی میں جنگیں لڑیں اور بے شمار مالی وجانی نقصان اٹھایا۔ ان میں عراق کی کویت پر جارحیت اور افغانستان اور پاکستان کی تعلقات میں سرد مہری کا کافی عرصہ سے موجود ہونا اور اس کے علاوہ بھی بے شمار اسلامی ریاستوں کے اختلافات اور جنگ و جدل کی مثالیں موجود ہیں ، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ان مذموم کوششوں اور کفار کے ہتھکنڈوں کا منہ توڑ جواب دیا اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک کو خواہ کسی ذات ، رنگ و نسل ، لسانی و طبقاتی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں وہ ان اختلافات سے بالاتر ہوکر انکو سری سے ختم کرکے آپس میں مکمل طور پر یکجہتی و تعاون کا لازوال آغاز کریں اور زندگی کے تمام شعبوں جن میں صحت ، تعلیم، معیشت ، کرنسی، جدید سائنس و ٹیکنالوجی سمیت ہر سطح پر مکمل طور پر آپس میں مدد و معاون کو یقینی بنائیں، بلکہ میری نظر میں مسلم امّہ کو بین الاقوامی آمد و رفت اور ویزہ کی پابندیوں سے آزاد ہوکر صرف ایک عام ٹکٹ جاری کرنا چاہئے تاکہ ہر مسلمان ملک کا معزز شہری ویزہ کے بغیر صرف ایک ٹکٹ خرید کربا آسانی دنیا کے ہر اسلامی ملک میں بلا روک ٹوک جا سکے اور اپنی ذمہ داریاں فروغ اسلام کے لئے سرانجام دے سکیں اور اسکے بعد دوسرا کام یہ امت مسلمہ کو سرانجام دینا چاہئے کہ تمام اسلامی ممالک اپنی کرنسی ایک کردیں اور اسے " اسلامی کرنسی" یا کوئی اور نام دیں اس کی واضح مثال یورپ " یورو" کرنسی کو یورپ میں چلاتا ہے جو کہ ان کے ٹھوس اتحاد و تعاون کا ضامن ہے اس کے بعد جو اہم اور بڑا کام جو اتحاد مسلم ممالک اور تمام دنیائے عالم کے مسلمانوں کو کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اپنی ایک الگ مضبوط اور موثر یا متحرک بین الاقوامی تنظیم قائم کریں، جو ان تمام اسلامی ممالک کا آپس میں اتحاد و تعاون اور یکجہتی کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہے ، اب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس جو پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں منعقد ہوچکی ہے، ان کی کارکردگی کو بھی بہتر سے بہتر بناکر فیصلہ کن بنانے کی اشد ضرورت ہے ، اسلامی ممالک کو کرنسی ، وسائل ، دولت ، معدنیات ، خوراک ، توانائی و ذرائع مرسل و وسائل اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی تیاری اور ایٹمی ٹیکنالوجی میں مکمل طور پر خودکفیل ہونا چاہئے اور زندگي میں کسی بھی مسئلہ کو سلجھانے اور آپس میں امداد و تعاون اور یکجہتی اور اسلام کے فروغ کے لئے تمام " اسلامی ممالک" کو اتحاد کرنا چاہئے ۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تاب خاک کا شغر

اگر ان تمام اقدامات پر امت مسلمہ جو ایک ارب سے زائد ہے، سچّے دل سے عمل کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی رحمت سے مسلمان آنے والے وقت میں صف اوّل کی سب سے بڑی سپرپاور ثابت ہونگے اور تمام دنیا میں دین اسلام کا مکمل غلبہ ہوگا اور باطل نیست و نابود ہوجائے گا جبکہ دین اسلام ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گا ، انشاء اللہ

تحریر: اکرم سیال

ننکانہ صاحب پاکستان

Read 2675 times