سردار قاسم سلیمانی، اسلامی تعلیمات کا ایک اور معجزہ(2)

Rate this item
(0 votes)
سردار قاسم سلیمانی، اسلامی تعلیمات کا ایک اور معجزہ(2)

شہید قاسم سلیمانی کو ایک تجربہ حاصل ہوا جسے انھوں نے عالم گیر کر دیا، وہ تجربہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کا تھا۔ وہ 11 مارچ 1957ء کو ایران کے شہر کرمان ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ کرمان میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے آب رسانی کے ادارے میں ملازمت اختیار کرلی۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ فروری 1979ء میں جب وہ ابھی 22 برس کے ہونے کو تھے کہ امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا۔ یہ انقلاب بیسویں صدی کی آخری چوتھائی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ مغربی ایشیاء اور خاص طور پر مڈل ایسٹ میں امریکہ کے سب سے اہم اتحادی شاہ ایران کا تختہ الٹ گیا تھا اور دینی بنیاد پر دینی قیادت میں ایک پرجوش عوامی انقلاب رونما ہوچکا تھا۔ اس واقعے نے علاقے کی رجعت پسند اور استعماری سرپرستی میں قائم حکومتوں کو لرزہ براندام کر دیا۔ یہ انقلاب دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ورلڈ آرڈر کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ اسے فوری طور پر ختم کرنے یا منحرف کرنے کے لیے تمام تر تدابیر پر غور و خوض کیا گیا اور  ایک ایک کرکے انھیں بروئے کار لایا گیا۔ داخلی اور خارجی سطح پر سازشوں کا تانا بانا بنا جا چکا تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ عراق میں حکمران صدام کی حکومت کو کیل کانٹے سے لیس کیا جائے اور تھپکی دے کر ایران پر بھرپور فوجی حملہ کروا دیا جائے۔

ادھر انقلاب نیا نیا تھا۔ ایران کی فوج شاہی دور کی قائم کردہ تھی۔ اس کی قیادت شاہ ایران کی وفادار تھی۔ انقلاب کی کامیابی سے صرف شاہ کو شکست نہ ہوئی تھی، یہ فوج بھی شکست کھا چکی تھی۔ اس کے کئی ایک جرنیل اور بڑے بڑے افسر ایرانی عوام کے قتل عام کے مجرم قرار پا چکے تھے۔ فوج کی صفوں میں ابھی تشویش، اضطراب اور سراسیمگی کا عالم تھا۔ امام خمینی کی چشم بصیرت نے عوامی انقلابی رضاکار فورس کی ضرورت محسوس کرلی تھی۔ وہ عوام کی مدد سے کامیاب ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ عوام ہی اس انقلاب کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ انھوں نے جوانوں کے جذبوں کو ہر شعبے میں ظہور کرنے کا موقع دیا۔ دفاعی شعبے میں انھوں نے ’’سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن یہ بھی متشکل ہو رہی تھی۔ تربیت کا ابھی آغاز تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہتھیار تو یہ جوان چلانا سیکھ رہے تھے لیکن بڑی دفاعی مشینری، توپیں، ٹینک وغیرہ تو سب کچھ فوج کے پاس ہی تھا اور وہی اسے چلانے کی اہلیت رکھتی تھی لیکن اس کی نفسیاتی کیفیت ہم لکھ چکے ہیں۔

ایسے میں ابھی انقلاب کی کامیابی کو تقریباً ڈیڑھ برس ہی ہوا تھا کہ عراق کی صدام حکومت نے ایران پر بھرپور فوجی یلغار کر دی۔ انقلابی قیادت ابھی داخلی مسائل سے نمٹ رہی تھی۔ عراق ایران سرحد پر عراق کی منظم اور جدید اسلحہ سے لیس فوج نے چڑھائی کر دی۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہر بمباری کی زد میں تھے۔ عراقی فضائیہ بھی جنگ میں پوری طرح شریک تھی۔ اس یلغار کا ایرانیوں نے کیسے مقابلہ کیا اور کس طرح آٹھ برس میں ایرانی سینہ سپر رہے اور اپنے ملک اور انقلاب کا دفاع کرتے رہے۔ ملک کے اندر بھی ایک کے بعد دوسرا سانحہ رونما ہو رہا تھا۔ ایک دھماکے میں منتخب پارلیمنٹ کے بہتر اراکین کو شہید کر دیا گیا۔ اسی دوران میں ایک دھماکے میں ایرانی صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم ڈاکٹر جواد باہنر بھی شہید ہوگئے۔ سرحدوں اور شہروں میں یہ جنگ سپاہ پاسداران اور اس سے منسلک عوامی رضا کار فورس جسے بسیج ملی کہا جاتا ہے، نے مل کر لڑی۔

اس جنگ میں بہت سے قیمتی جوان اور افسر شہید ہوئے اور اسی دوران میں لاکھوں جوانوں نے دفاع کی تربیت بھی حاصل کی۔ انھوں نے دشمن کے مقاصد اور طریق واردات کو پہچانا۔ اس دوران میں جو لوگ اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے نمایاں ہوئے سردار قاسم سلیمانی ان میں سے گل سرسبد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مختلف محاذوں پر انھوں نے جس دلیری، ثابت قدمی، حکمت عملی اور ہوش مندی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے وہ ترقی کرتے کرتے سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ قدس فورس کا مقصد علاقے کی پسماندہ اقوام کی مدد اور حمایت قرار پایا۔ اس فورس نے اپنے تجربات استعماری طاقتوں کے شکنجے میں کسی اقوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فورس نے اپنا سب سے اہم ہدف قدس شریف کی آزادی کو قرار دیا۔ اس ہدف نے علاقے کے مسلم عوام کو یکجا کرنے اور دشمن کی شناخت کے حوالے سے متحد کر دیا۔ اسی نظریے نے ’’مقاومت‘‘ یعنی صہیونزم، استعمار اور منافقت کے مقابلے میں مزاحمت کے محاذ کو جنم دیا۔ اس طرح انقلاب اسلامی کا بنیادی نظریہ ایران کی سرحدوں سے نکل کر پورے خطے میں پھیل گیا۔ ’’مقاومت‘‘ نے استعماری مقاصد کو سمجھ کر مختلف محاذوں پر حکمت عملی ترتیب دی۔

اُدھر استعمار نے بھی مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے۔ اس کا سب سے بڑا ہتھکنڈہ اسلام کو اسلام کی تلوار سے ذبح کرنا تھا۔ وہ انقلاب اسلامی اور اسلامی مزاحمت کے خاتمے کے لیے اسلام کا نام لینے والوں کو میدان میں لے آیا۔ دشمن کے پالتو سب سے بڑے عفریت کا نام ’’داعش‘‘ تھا۔ داعش اچانک اٹھی اور اس نے ’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ کے عنوان سے عراق اور شام کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ عراق کی فوج جو دراصل امریکہ کی تربیت یافتہ تھی، وہ محاذ جنگ سے ایک منصوبہ بندی کے تحت پسپا ہوتی رہی، چونکہ داعش کے پیچھے خود امریکہ تھا اور عراقی فوج کی قیادت پر امریکی مفادات کے نمائندہ افسران موجود تھے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے لیے بڑی تربیت، منصوبہ بندی اور سرمائے کی ضرورت تھی، جو اسے طاغوتی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں نے فراہم کیا۔

داعش تو ایک عفریت کا نام ہے اور بہت سے تکفیری قاتل گروہ منظر عام پر آگئے۔ شام میں بھی مختلف شہروں اور علاقوں پر انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کرلیں، ایک بڑا شامی علاقہ داعش کے قبضے میں آگیا۔ ان گروہوں نے فرقہ واریت کو بھی اپنا ہتھیار بنائے رکھا۔ اسرائیل اس پورے منصوبے کا اہم ترین پارٹنر تھا، چونکہ ان تمام استعماری کوششوں کا ایک بڑا ہدف اسرائیل کو مضبوط کرنا اور اس کی سرحدوں کو پھیلانا تھا۔ علاقے کے رجعت پسندوں اور طاغوتی طاقتوں کے لے پالک آمروں نے بھی اس میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اس سب کے مقابلے میں سردار قاسم سلیمانی کا کردار بہت بنیادی رہا ہے۔ انھوں نے عراق میں عوامی رضاکار فورس کا نظریہ پیش کیا، عراق کی دینی قیادت نے عوام سے کہا کہ وہ اس رضاکار فورس کے لیے اپنا نام لکھوائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ لاکھ سے زیادہ افراد عراق کے دفاع کے لیے اپنا نام لکھوا چکے تھے۔ اب ان کی تربیت کا مرحلہ تھا۔ اس سب کے لیے قاسم سلیمانی اور عراق میں ان کے ساتھی تیار تھے۔

شام میں چونکہ فوج کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم قائم تھا، اس لیے وہاں مختلف حکمت عملی اختیار کی گئی۔ اس سے پہلے لبنان میں اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کا تجربہ بھی کیا جا چکا تھا۔ قاسم سلیمانی خود بھی اسرائیل کے مقابل حزب اللہ کے ساتھ محاذ پر نظر آئے۔ اسی طرح وہ کبھی صہیونیت کے مقابلے میں جرأت سے کھڑے شامی سپاہیوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ انھوں نے عراقی کردستان کی حفاظت میں بھی کردار ادا کیا اور بغداد کو داعش کی یلغار سے بچانے میں بھی عراقی سپاہیوں کی تربیت اور مدد کی۔ انھوں نے داعش سمیت تمام تکفیری اور شدت پسند گروہوں کو علاقے کے عوام کے ساتھ مل کر شکست دی تو اس میں ان کے اس تجربے کا اہم کردار رہا، جو انھوں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں ایک سپاہی سے جنرل تک کے سفر کے دوران میں حاصل کیا تھا۔

تحریر: ثاقب اکبر

Read 554 times