عشق پیغمبر اعظمؐ، مرکز وحدت مسلمین کانفرنس

Rate this item
(0 votes)
عشق پیغمبر اعظمؐ، مرکز وحدت مسلمین کانفرنس

پیغمبر اعظمؐ رحمت للعالمین خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر میلاد اور وحدت امت کے عنوان سے کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک دنیا بھر میں اسی مناسبت سے ہفتہ وحدت منایا گیا۔ یاد رہے کہ ان ایام میں ہفتہ وحدت کی بنیاد اسلام کے بطل جلیل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی تھی، تاکہ مسلمان جو الگ الگ ایام میں آپؐ کا روز ولادت مناتے ہیں، وہ پورا ہفتہ وحدت کے عنوان سے منائیں، کیونکہ آپ ہی کی ذات والا صفات امت اسلامیہ کے لیے ایک حقیقی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے زیراہتمام مثل سابق گذشتہ روز اسلام آباد میں ایک عظیم الشان وحدت کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی میزبانی نہایت عمدگی سے کونسل کی رکن جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے کی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا ’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین۔‘‘

اس میں شک نہیں کہ جب تک عشق مصطفیٰ ؐسے دل نہ دھڑکے اور آپ کی محبت میں آنکھوں سے آنسو نہ برسیں تو لفظی عقیدہ حقیقی تاثیر مرتب نہیں کرسکتا اور یہ عشق ہی ہے، جو دلوں کو منقلب کرتا ہے اور آپؐ کے توسط سے بندے کو خدا سے جوڑتا ہے اور آپؐ کے عشق کے نتیجے میں انسان آپؐ کے ماننے والوں سے بھی محبت کرنے لگتا ہے۔ آپؐ کو رحمت للعالمین ماننے کے بعد انسان کا وجود تمام عالمین کے لیے خود خیر کا مرکز اور مصدر بن جاتا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے وجود کا مقصد ہی امت اسلامیہ کے اندر سے افتراق و انتشار کا خاتمہ، تکفیریت اور شدت پسندی کا استیصال اور امت اسلامیہ کے مختلف موتیوں کو ایک لڑی میں پرونا ہے۔ اس کونسل کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان میں بہت حد تک تکفیریت اور شدت پسندی کا خاتمہ ہوا ہے۔ محبت اور اخوت کی فضا عام ہوئی ہے اور اس دھرتی کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

اس کونسل کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم تھے اور ان کی رحلت کے بعد جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے اس کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب مرحوم کے سانحۂ ارتحال کے بعد عبوری طور پر علامہ سید ساجد علی نقوی جو اس وقت سینیئر نائب صدر تھے، انہیں عبوری طور پر کونسل کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ بعدازاں جناب محترم صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر کو کونسل کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا، جو جمعیت علمائے پاکستان کے بھی صدر ہیں۔ اس وقت کونسل انہی کی قیادت میں اتحاد امت کا علم لے کر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کا انعقاد انہی کوششوں کا حصہ ہے۔ قاضی صاحب مرحوم کے زمانے سے لے کر آج تک کونسل ہر سال ربیع الاول میں وحدت امت کے حوالے سے کانفرنسوں کا انعقاد کرتی چلی آئی ہے۔ مختلف مواقع پر کونسل کی مختلف رکن جماعتوں نے ان کانفرنسوں کی میزبانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ گذشتہ سال بھی مجلس وحدت مسلمین نے یہ گراں قدر خدمت اپنے ذمے لی اور اب کے برس بھی اس نے اس عظیم وظیفہ الٰہی کی انجام دہی اپنے دوش پر اٹھا لی اور یہ کہے بغیر چارا نہیں کہ اس نے نہایت شاندار طریقے سے اس خدمت کو انجام دیا۔

کانفرنس کی صدارت ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ نے کی۔ مہمان خصوصی کانفرنس کے میزبان محترم جناب علامہ راجا ناصر عباس جعفری تھے۔ دیگر شخصیات میں جناب صاحبزادہ نورالحق قادری سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور، جناب حامد رضا سربراہ سنی اتحاد کونسل، جناب خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ سربراہ علماء مشائخ رابطہ کونسل، جناب سید ناصر شیرازی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین، جناب عبداللہ گل چیئرمین تحریک جوانان پاکستان، جناب صاحبزادہ محمد صفدر گیلانی مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان، جناب مفتی گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان، جناب عبدالرشید ترابی صدر ملی یکجہتی کونسل آزاد جموں و کشمیر، جناب ڈاکٹر طارق سلیم صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان شمالی پنجاب، جناب پروفیسر حافظ محمد صدیق عابد نائب ناظم اعلیٰ جماعت اہل حدیث پاکستان، جناب طاہر رشید تنولی مرکزی جوائنٹ سیکرٹری جمعیت علمائے پاکستان، جناب سینیٹر گل نصیب مرکزی راہنماء جمعیت علمائے اسلام (شیرانی)۔

جناب نسیم علی شاہ ہاشمی رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان، جناب علامہ احمد اقبال رضوی مرکزی راہنماء ایم ڈبلیو ایم، جناب قاضی شفیق صدر پاکستان عوامی تحریک پنجاب، جناب مفتی عبداللہ ایڈووکیٹ صوبائی نائب امیر جمعیت علمائے اسلام پاکستان، جناب مولانا عبدالمالک مجاہد نائب ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہل حدیث، مولانا سید عبدالحسین الحسینی رکن سپریم کونسل مجلس علمائے شیعہ، جناب علامہ سید حسنین عباس گردیزی مجلس علمائے شیعہ پاکستان، جناب ڈاکٹر محمد شیر سیالوی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اہل حرم پاکستان، جناب محمد نصراللہ رندھاوا امیر جماعت اسلامی اسلام آباد، جناب غلام علی خان پاکستان عوامی تحریک شمالی پنجاب، جناب سید فدا احمد شاہ صوبائی راہنما جے یو آئی ایس، جناب مولانا شفاعت اللہ راہنما جمعیت علمائے اسلام (س)، جناب پروفیسر ممتاز دانش سیرت کمیٹی اسلام آباد اور جناب مولانا محمد حسیب احمد نظیری سینکئر نائب صدر جے یو پی شمالی پنجاب وغیرہ شامل ہیں۔

کانفرنس میں علماء، طلبہ، اساتذہ، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں کے نمایاں افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مختلف جماعتوں کے نمائندگان بھی شریک بزم تھے۔ خواتین و حضرات کی بہت بڑی تعداد سے تین بڑے بڑے ہال چھلک رہے تھے۔ لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس میں شریک تھے، جو مختلف مقررین کی باتوں پر تالیوں اور نعروں کے ذریعے سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے تھے۔ نبی پاکؐ کا عشق پوری فضا پر چھایا ہوا تھا اور امت کے اتحاد کے جذبے سے ہر دل سرشار تھا۔ کانفرنس کے آخر میں مندرجہ ذیل اعلامیہ جاری کیا گیا: ’’عشق پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ، خاتم النبینﷺ امت مسلمہ میں اللہ کی رسی کی مانند مرکزیت رکھتا ہے اور اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہی امت اسلامیہ کی کشتی کی نجات کا ضامن ہے۔ عالم کفر کا رسول اکرمﷺ کی مقدس ہستی کو نشانہ بنانا دراصل اسی مرکزیت کو توڑنے کی سازش ہے، لیکن ان شاء اللہ اس اساس اور بنیاد پر مسلمین کی وحدت عالمی استعمار کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دے گی اور اغیار کے تقسیم کے ایجنڈے کو ناکام بنائے گی۔

عظیم الشان عشق پیغمبر اعظم کانفرنس ہادی برحق کے لائے ہوئے نظام کو ہی انسانیت اور اقوام کی بقاء کیلئے لازم اور ضروری سمجھتی ہے اور وطن عزیز پاکستان میں اسلام کے مقابل کسی بھی قانون کو رد کرتے ہوئے سودی نظام، کرپشن، محروم طبقات کی حق تلفی کو مسترد کرتے ہوئے عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر نظریاتی موقف سے انحراف پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں سے خیانت ہے۔ فلسطین کی آزادی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی مسلسل حمایت جاری رکھیں گے اور وطن عزیز کے اسلامی ممالک سے ملنے والے تمام بارڈز کو پرامن بنا کر مضبوط اور مستحکم افغانستان اور ایران کے حامی ہیں، تاکہ پاکستان کے امن کی ضمانت دی جا سکے۔ اس امر کی بنیاد پر افغانستان کے امریکی انحلا کو کامیابی قرار دیتے ہیں اور ایران، پاکستان، افغانستان کے خلاف امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہیں۔

کانفرنس دہشت گردی کے خلاف NACTA کے قوانین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے دہشت گردوں کے حلاف zero tolerance پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور وطن کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے دہشت گرد گروہوں سے مذکرات کو رد کرتے ہوئے سوات کے عوام کی بیداری کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں بیرونی ایجنڈے اور دبائو کے تحت مختلف ادوار میں متعارف کرائے گئے غیر اسلامی قوانین مثلاً گھریلو تشدد بل، ٹرانس جینڈر ایکٹ، وقف املاک وغیرہ میں شامل غیر اسلامی دفعات کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کی روشنی میں ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے فوری اصلاحات کی جائیں، تاکہ اسلامی فلاحی معاشرہ کی تکمیل کے ہدف کی طرف بڑھا جا سکے۔

کانفرنس کا اعلامیہ اس تجدید عہد کو بھی سموئے ہوئے ہے کہ ملی یکجہتی کونسل وحدت اسلامی کے اس سفر کو دوام دینے کیلئے تمام اسلامی مکاتب فکر کو ساتھ ملا کر امت واحد کی تشکیل کے لیے اپنی کوشش جاری رکھے گی اور ہر عالمی و علاقائی سازش اور فرقہ واریت کے آسیب کو کبھی پنپنے نہیں دے گی۔ اللہ کریم اس کی رضا کیلئے کی جانے والی اس خالصانہ کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ یہ کانفرنس پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکی ہرزہ سرائی کو مسترد کرتی ہے اور امریکہ کو عالمی جوہری مجرم گردانتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام جماعتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ہر قیمت پر تحفظ کرنے کا عہد کرتی ہیں۔‘‘ کانفرنس سے خطاب کرنے والے علماء اور دانشوروں کے مطالب کو اگر سمیٹ دیا جائے تو یہی اعلامیہ بنتا ہے، جو سطور بالا میں پیش کیا گیا ہے۔

’’عشق پیغمبر اعظمؐ: مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کے دوران میں مختلف مواقع پر ہال نعرہ تکبیر، نعرہ رسالتؐ اور نعرہ حیدری کے روایتی اور محبوب عوامی نعروں سے گونجتا رہا۔ علاوہ ازیں لبیک یارسول اللہ اور سیدی مرشدی یانبیؐ یانبیؐ کے ولولہ انگیز نعروں سے فضا سرشار رہی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کی جوہری طاقت کے خلاف جو واہیات کلمات کہے ہیں، ان کے خلاف بھی مقررین اور کانفرنس کے شرکاء کے جذبات بہت برانگیختہ تھے۔ چنانچہ بار بار ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ کشمیر کے مظلوموں سے اظہار یکجہتی کے لیے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کی گونج بھی سنائی دیتی رہی۔ اتحاد امت کے لیے جذبات مختلف انداز سے ظاہر ہوتے رہے اور اتحاد کے دشمنوں کے خلاف بھی نعرے لگتے رہے۔ چنانچہ شرکاء نے ’’تکفیریت مردہ باد‘‘ کا نعرہ بھی بارہا لگایا۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

Read 229 times