ٹرمپ امن منصوبہ پر حماس کا جواب

Rate this item
(0 votes)
ٹرمپ امن منصوبہ پر حماس کا جواب
گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غزہ کے لئے ایک نام نہاد امن منصوبہ، جسے ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ کہا جا رہا ہے، پیش کیا تھا۔ اس منصوبہ سے متعلق وزیراعظم پاکستان نے سب سے پہلے حمایت کا اعلان کیا، لیکن یہ حمایت اس وقت بھاری پڑ گئی، جب ملک بھر میں وزیراعظم کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال بعد ازاں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس موضوع سے متعلق صفائی پیش کی اور کہا کہ وزیراعظم سفر میں تھے اور مکمل نہیں پڑھ سکے اور حمایت کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ یہ صفائی بھی کمزور اور خود وزیراعظم کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اسی طرح وزیر خارجہ نے یہ بھی بیان دیا کہ ہم آٹھ ممالک نے ٹرمپ کے ساتھ جس معاہدے پر بات کی تھی، یہ وہ معاہدہ نہیں ہے۔ یعنی یہ معاہدہ مشکوک قرار دیا گیا۔

دوسری جانب فلسطین کی حامی جماعتوں اور قوتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی فلسطین کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انہی حالات میں مورخہ 03 اکتوبر کو رات گئے حماس کی جانب سے موقف سامنے آیا، جس میں حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ پر اپنے ردعمل کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ سمیت مقامی ذرائع ابلاغ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کی حمایت کر دی ہے۔ حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ٹرمپ پلان کو حماس نے کن شرائط پر قبول کیا۔؟ حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو اپنے حق میں کیسے موڑ دیا؟ ان سوالات کو میڈیا نے فراموش کرتے ہوئے ایسی خبریں نشر کیں، جس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے امریکی صدر کے منصوبہ کے ساتھ حامی بھر لی ہے۔

حقیقت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے جواب میں حماس کا تازہ ترین بیان بیانیہ کی جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی حماس نے ٹرمپ کے منصوبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اس کو از سر نو تشکیل کیا ہے اور بال دوبارہ سے امریکی صدر کے کورٹ میں پہنچا دی ہے۔ حماس نے اپنے بنیادی اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے بین الاقوامی ثالثوں کے سامنے تعمیری نظر آتے ہوئے سفارتی طور پر چال چلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یعنی ایک طرف تو حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد نہیں کیا اور دوسری طرف اس کے بجائے، اس نے اسے اپنی شرائط پر اسی پلان کو از سر نو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ حماس نے صیہونی قیدیوں کے تبادلے کو قبول کرنے کی تیاری کا اعلان کیا ہے، لیکن صرف ٹرمپ کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق نہیں بلکہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلہ کے ساتھ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبولیت دشمنی کے مکمل خاتمے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلاء سے منسلک ہے۔

یعنی اس معاہدےمیں حماس کی مہم ترین شرط غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء سے مشروط ہے۔ جہاں تک گہرے سیاسی مسائل کا تعلق ہے، جیسے کہ غزہ یا فلسطینی ریاست کا مستقبل، حماس نے انہیں ایک وسیع تر فلسطینی قومی اتفاق رائے کے لیے موخر کیا، نہ کہ واشنگٹن یا تل ابیب کے حکم پر۔ اس سے حماس اپنی سرخ لکیروں کی حفاظت کرتے ہوئے تعاون پر مبنی نظر آئی، نہ کہ رکاوٹ ڈالنے والی۔ یعنی دشمن کا سارا پراپیگنڈا حماس نے زائل کر دیا ہے کہ حماس اپنے اقتدار کی خاطر جنگ کر رہی ہے بلکہ حماس نے ثابت کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

حماس کی جانب سے معاہدے کو از سر نو تشکیل دینے میں ایک اور اہم کام جو انجام پایا ہے، وہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے جاری طویل مدتی مہم کا خاتمہ ہے، یعنی مہینوں سے نیتن یاہو اور ٹرمپ نے اسرائیلی قیدیوں کو اپنے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور اسرائیل کی فوجی مہم کو انسانی بنیادوں پر ضروری قرار دیا۔حماس نے اس بیانیے کو الٹا کر دیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے بدلے زندہ اور مردہ تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے، حماس نے اسرائیل سے جنگ کو طول دینے کا بنیادی جواز چھین لیا۔ اگر اب بھی لڑائی جاری رہتی ہے تو اس کی ذمہ داری اسرائیل اور امریکہ پر عائد ہوتی ہے، حماس پر نہیں۔ حماس نے غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینیوں کی ایک ٹیکنوکریٹک باڈی کو منتقل کرنے پر رضامندی سے اپنی سیاسی شبیہہ کو بھی مضبوط کیا، بشرطیکہ اسے قومی اتفاق رائے اور عرب اسلامی حمایت حاصل ہو۔

یہ اقدام ان الزامات کا مقابلہ کرتا ہے کہ حماس غزہ میں اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس کے بجائے،یہ تحریک کو اپنے سیاسی کنٹرول پر فلسطینی عوام کی بقا اور اتحاد کو ترجیح دینے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ٹرمپ کا نام نہاد امن پلان دراصل ٹرمپ کو دنیا کے سامنے ایک امن پسند شخصیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہوچکی ہے۔ یعنی حماس نے فلسطینیوں کی خواہش کو مدنظر رکھا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی امن منصوبہ فلسطین کے عوام کے لئے انصاف فراہم کرنے پر مبنی ہونا چاہیئے۔ یعنی جارحیت کا مکمل خاتمہ، نقل مکانی کو روکنا اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ ہونے کی ضمانت۔ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو اب معاہدے کو مسترد کرتے ہیں، تو وہ خود کو امن کو روکنے والوں کے طور پر بے نقاب ہو جائیں گے۔

شاید حماس کے ردعمل کا سب سے اہم حصہ اس بات پر اصرار ہے کہ غزہ کے طویل مدتی مستقبل اور وسیع تر فلسطینی کاز کو امریکہ یا اسرائیل کی طرف سے حکم نہیں دیا جائے گا۔ حماس نے زور دیا کہ ان سوالات کو بین الاقوامی قانون اور اجتماعی مرضی کی بنیاد پر قومی فلسطینی فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے۔ ایسا کرنے سے حماس نے ٹرمپ کے وژن میں آنے سے گریز کیا اور اس اصول کی توثیق کی کہ فلسطینی تنہاء ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ حماس نے درحقیقت ٹرمپ کے معاہدے سے انکار کر دیا ہے، پھر بھی اس نے سفارتی اور اسٹریٹجک طریقے سے ایسا کیا۔ تحریک نے اس تجویز کے انسانی اور فوری جہتوں (جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، حکمرانی کے انتظامات) کو قبول کر لیا جبکہ اس کے سیاسی جال کو مسترد کر دیا۔

یہ تدبیر اسرائیل کے قیدیوں کے بیانیے کو بے اثر کرتی ہے اور امریکہ اور اسرائیل پر بوجھ ڈالتی ہے کہ یا تو اس کی تعمیل کریں یا امن کی راہ میں اصل رکاوٹوں کے طور پر سامنے آئیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ حماس نے ٹرمپ کے امن پلان پر عمل درآمد کو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اتوار شام چھ بجے تک اسرائیل غزہ سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کا اعلان کرتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ اعلان ہوگیا تو واقعی ایک بریک تھرو ہوگا۔ یہ یقینی طور پر حماس اور فلسطینی عوام کی کامیابی قرار پائے گا۔
 
 
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
Read 7 times