حضرت صالح عليہ السلام

Rate this item
(0 votes)

قوم ثمود اور اس كے پيغمبر جناب صالح (ع ( كى جو ''وادى القرى '' ميں رہتے تھے جو ''مدينہ'' اور '' شام'' كے درميان واقع ہے يہ قوم اس سرزمين ميں خوشحال زندگى بسر كر رہى تھى ليكن اپنى سركشى كى بناء پرصفحہ ہستى سے يوں مٹ گئي كہ آج اس كا نام و نشان تك باقى نہيں رہا_

قرآن اس سلسلے ميں فرماتا ہے : ''قوم ثمودنے خدا كے رسولوں كو جھٹلايا ''_

كيونكہ تمام انبياء كى دعوت حق ايك جيسى تھى اور اس قوم كا اپنے پيغمبر جناب صالح كى تكذيب كرنا در حقيقت تمام رسولوں كى تكذيب كے مترادف تھا_

جبكہ ان كے ہمدرد پيغمبر صالح نے ان لوگوں سے كہا آيا تقوى اختيار نہيں كرتے ہو ؟'

وہ جو كہ تمہارے بھائي كى طرح تمہارا ہادى اور راہبر تھا اس كى نظر ميں نہ برترى جتانا تھا اور نہ ہى مادى مفادات ، اسى لئے قرآن نے جناب صالح عليہ السلام كو '' اخوہم '' سے تعبير كيا ہے جناب صالح نے بھى دوسرے انبياء كى مانند اپنى دعوت كا آغاز تقوى اور فرض كے احساس سے كيا _

پھر اپنا تعارف كرواتے ہوئے فرماتے ہيں :''ميں تمہارے لئے امين پيغمبر ہوں ''

ميرا ماضى ميرے اس دعوى كى بين دليل ہے _

اسى لئے تم تقوى اختيار كرو ، خداسے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ''

كيونكہ ميرے مدنظر رضائے الہي ، تمہارى خير و خوبى اور سعادت كے سوا اور كچھ نہيں _

بنابريں '' اس دعوت كے بدلے ميں تم سے كوئي اجرت نہيں مانگتا_''

ميں تو كسى اور كے لئے كام كرتاہوں اور ميرا اجر بھى اسى كے پاس ہے '' ہاں تو ميرا اجر صرف عالمين كے پروردگار كے پاس ہے ''

يہ جناب صالح عليہ السلام كى داستان كا ابتدائي حصہ تھا جو دو جملوں ميں بيان كيا گيا ہے ايك دعوت كا پيش كرنا اور دوسرے رسالت كو بيان كرنا _

پھر دوسرے حصے ميں افراد قوم كى زندگى كے قابل تنقيد اور حساس پہلوئوں كى نشاندہى كرتے ہوئے انھيں ضمير كى عدالت كے كٹہرے ميں لاكھڑاكيا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: ''آيا تم يہ سمجھتے ہو كہ ہميشہ امن و سكون اور ناز و نعمت كى زندگى بسركرتے رہوگے ''_

كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ تمہارى يہ مادى اور غفلت كى زندگى ہميشہ كے لئے ہے اور موت ، انتقام اور سزا كا ہاتھ تمہارے گريبانوں تك نہيں پہنچے گا ؟

''كياتم گمان كرتے ہو كہ يہ باغات اور چشمے ميں اور يہ كھيت اور كھجور كے درخت جن كے پھل شيريں وشاداب اور پكے ہوئے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے باقى ر ہيں گے _''

پھر ان پختہ اور خوشحال گھروں كو پيش نظر ركھتے ہوئے كہتے ہيں: '' تم پہاڑوں كو تراش كر گھر بناتے ہو اور اس ميں عياشى كرتے ہو _''

جبكہ قوم ثمودشكم كى اسيراور نازو نعمت بھرى خوشحال زندگى سے بہرہ مند تھى _

فاسد اور اسراف كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو

حضرت صالح عليہ السلام اس تنقيد كے بعد انھيں متبنہ كرتے ہو ئے كہتے ہيں : '' حكم خدا كى مخالفت سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ، اور مسرفين كا حكم نہ مانو ، وہى جو زمين ميں فساد كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_ ''يہ دھيان ميں رہے كہ خدانے قوم ''عاد'' كے بعد تمہيں ان كا جانشين اور خليفہ قرار ديا ہے اور زمين ميں تمہيں جگہ دى ہے ''

يعنى ايك طرف تو تم كو اللہ كى نعمتوں كا خيال رہناچاہيئے، دوسرے يہ بھى ياد رہے كہ تم سے پہلے جو قوم تھى وہ اپنى سركشى اور طغيانى كے باعث عذاب الہى سے تباہ و برباد ہوچكى ہے_

پھر اس كے بعد انہيں عطا كى گئي كچھ نعمتوں كا ذكر كياگيا ہے ،ارشاد ہوتا ہے: '' تم ايك ايسى سرزمين ميں زندگى بسر كرتے ہو جس ميں ہموار ميدان بھى ہيں جن كے اوپر تم عالي شان قصر اور آرام دہ مكانات بناسكتے ہو ، نيز اس ميں پہاڑى علاقے بھى ہيں جن كے دامن ميں تم مضبوط مكانات تراش سكتے ہو جو سخت موسم ، اور سرديوں كے زمانے ميں تمہارے كام آ سكتے ہيں ''_

اس تعبير سے يہ پتہ چلتاہے كہ وہ لوگ قوم عاد سردى اور گرمى ميں اپنى سكونت كى جگہ بدل ديتے تھے فصل بہار اور گرميوں ميں وسيع اور پربركت ميدانوں ميں زراعت كرتے تھے اور پرندے اور چوپائے پالنے ميں مشغول رہا كرتے تھے اس وجہ سے وہ وہاں خوبصورت اور آرام دہ مكانات بناتے تھے جو انہوں نے پہاڑوں پر تراش كربنائے تھے اور يہ مكانات انہيں سيلابوں اور طوفانوں سے محفوظ ركھتے تھے يہاں وہ اطمينان سے سردى كے دن گزار ديتے تھے_ آخر ميں فرمايا گيا ہے :

'' خداوند كريم كى ان سب نعمتوں كو ياد كرو اور زمين ميں فساد نہ كرو اور كفران نعمت نہ كرو''_

قصص القرآن -منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

Read 2611 times