اہل خانہ کے ساتھ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحسن سلوک

Rate this item
(0 votes)

اہل خانہ کے ساتھ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحسن سلوک

اہل خانہ خاص طور پر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور بچوں کے ساتھ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک اور طرز عمل کے بارے میں مختصر طور پر بات چیت

٭٭٭٭٭

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زوجہ حضرت خدیجہ کے ساتھ وفاداری آپ کے اخلاق حسنہ کا ایک ممتاز ترین نمونہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر تک صرف خدیجۃ الکبری کے ساتھ زندگی گزاری اور جب تک وہ زندہ تھیں آپ نے کسی اور خاتون سے شادی نہیں کی۔ رسول خدا آخری عمر تک حضرت خدیجہ کی زحمتوں اور مہربانیوں کی قدردانی کرتے رہے اور ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ کوئی بھی خدیجہ نہیں ہو سکتی۔

خدیجۃ الکبری اور اپنے چچا ابوطالب کی رحلت کے بعد آنحضرت مکہ میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے مدینہ کے لوگوں کی دعوت کے بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کے باوجود کہ مدینہ میں رسالت الہی کی بھاری ذمہ داری کے علاوہ اسلامی حکومت کی سربراہی بھی کاندھوں پر تھی، آپ نے کئی خواتین سے شادی کی کہ ان میں سے صرف ایک کے علاوہ سب بیوہ تھیں۔ البتہ آپ کی شادیوں کی تفصیلات پر ایک نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام سے زیادہ آپ کی ازواج کو آپ کی ضرورت تھی۔

پیغمبر اکرم کی متعدد شادیوں کے تجزیہ و تحلیل میں پہلے ہر زمانے کے معاشرے کے رسم و رواج پر توجہ دینی چاہیے۔ جزیرۃ العرب میں مرد اس زمانے کے رسم و رواج اور ثقافت کے مطابق زیادہ شادیاں کرتے تھے اور حتی دس سے زیادہ شادیاں بھی کرتے تھے۔ بیویوں کی تعداد میں اضافے کا مطلب خاندان کے افراد کی تعداد میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں قبیلے کی طاقت میں اضاقہ تھا۔ اس بنا پر سماجی اور ثقافتی صورت حال کے پیش نظر قبائلی زندگی میں بہت کم مرد صرف ایک ہی شادی کرتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسا کہ اشارہ کیا گيا، جب تک مکہ میں تھے، صرف ایک شادی کی تھی، لیکن آپ نے مدینہ میں اور جب اسلامی حکومت کی ذمہ داری کاندھوں پر تھی، لوگوں کی ثقافت سے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کو اس جانب راغب کیا کہ وہ بے سرپرست عورتوں کے ساتھ خاص طور پر جن کے یتیم بچے ہیں، شادی کر کے ان کی نگہداشت کریں، کیونکہ شادی کرنے سے یہ عورتیں اور ان کے بچے بےسرپرستی، تنہائي اور مالی تنگ دستی سے نجات حاصل کرتے تھے۔ لیکن دوسروں کو اس کی تشویق و ترغیب دلانے کے لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے خود اس راستے پر قدم بڑھایا۔ پیغمبر اکرم نے بیوہ عورتوں سے شادی کی اور انہیں ان کے یتیم بچوں کے ہمراہ اپنے گھر لے گئے تاکہ ایک طرف تو وہ خود ان کی مشکلات ختم کرنے میں قدم اٹھائیں اور دوسری طرف اس کام کے سلسلے میں لوگوں کے لیے ایک اچھا نمونہ عمل بن سکیں۔

بیوہ عورتوں خاص طور پر ان عورتوں کے ساتھ شادی کرنا کہ جن کے شوہر جنگ میں شہید ہو چکے تھے، یا کسی بھی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، بہت اہمیت رکھتا تھا۔ ایسے حالات میں زندگی ان کے لیے بہت مشکل ہو جاتی اور وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتیں، جیسے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ کہ جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی اور وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ وہ وہاں نہ تو کسی مسیحی سے شادی کرنا چاہتی تھیں اور نہ ہی اپنے مشرک والد کے پاس مکہ واپس لوٹنا چاہتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب آپ کی مشکل کا پتہ چلا تو آپ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو پیغام بھیجا اور اسے سے درخواست کی کہ ام حبیبہ کا عقد ان کے ساتھ کر دیا جائے، پیغمبر اسلام سے شادی کرنے کے بعد ام حبیبہ کو سہارا میسر آ گیا اور وہ اپنے مشرک رشتہ داروں کی مدد لینے سے بچ گئیں۔ پیغمبر اکرم سے شادی کے وقت ام حبیبہ کی عمر چالیس سال تھی یہاں پر اس شادی میں پیغمبر اسلام کے دینی جذبے اور حمایت کا محریک کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی باتیں غلط باتیں ثابت ہو جاتی ہیں کہ جو کہتے ہیں پیغمبر اکرم نے نفسانی خواہشات کی وجہ سے زیادہ شادیاں کی تھیں۔ کیونکہ ام حبیبہ حبشہ میں تھیں اور ان کی واپسی کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سخت ترین دشمن ابوسفیان کو جب اپنی بیٹی کے ساتھ کہ جو حبشہ میں اکیلی رہ گئی تھی، پیغمبر کی شادی کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے کہا کہ یہ شخص کبھی شسکت نہ کھائے۔

٭٭٭٭٭

اسلام نے مرحلہ وار دقیق منصوبہ بندی کر کے اسیروں کی آزادی کے لیے اقدام کیا۔ رسول خدا نے اس سلسلے میں متعدد اور مناسب طریقے اختیار کیے کہ جن میں ازدواج بھی شامل تھا۔ جویریہ اور صفیہ کنیز تھیں پیغمبر اکرم نے ان دونوں کو آزاد کیا اور پھر ان دونوں سے شادی کی۔ جویریہ ایک بیوہ عورت تھیں جو غزوہ بنی مصطلق میں عورتوں اور مردوں کے ہمراہ مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئيں۔ وہ کہ جو قبیلہ بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں، ثابت بن قیس کی کنیزی میں آ گئيں۔ جویریہ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ پیسے دے کر آزاد ہو جائیں گی۔ اس کے بعد وہ آنحضرت (ص) کی خدمت میں آئیں اور آپ سے مدد کی درخواست کی۔ پیغمبر اسلام نے ان کی آزادی کے پیسے ادا کیے اور پھر ان کو اپنے حلقۂ ازدواج میں لے لیا۔ آنحضرت کا یہ عمل آپ کے اصحاب کے لیے ایک اچھا نمونہ عمل بن گيا اور انہوں نے بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو جو تقریبا دو سو تھے، آزاد کر دیا۔ رومانیہ کے مسیحی مفکر اور دانشور کنسٹانٹین ویرگیل گیورگیو لکھتے ہیں کہ محمد نے جویریہ کے ساتھ شادی کی، آپ کے اصحاب نے اس عمل کو پسند نہیں کیا اور وہ اسے تعجب کی نظر سے دیکھتے تھے۔ لیکن اس کے اگلے روز انہوں نے آہستہ آہستہ قیدیوں کو آزاد کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پیغمبر کی زوجہ کے رشتہ دار ان کے غلام ہوں۔ جب آزاد ہونے والے قیدیوں نے مسلمانوں کے اس حسن سلوک کو دیکھا تو وہ اسلام لے آئے اور حتی انہوں نے مسلمانوں اور پیغمبر اکرم (ص) کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس طرزعمل نے نہ صرف بنی مصطلق قبیلے پر بلکہ دیگر قبائل کے سرداروں پر بھی مثبت اثر ڈالا اور ان کے دلوں کو بھی اسلام کی جانب مائل کر دیا۔ اس طرح ایک شادی سے ہزاروں دل اسلام کی جانب مائل ہو گئے۔

عرب معاشرہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا کی مانند سمجھتا تھا اور میراث لینے اور شادی حرام ہونے جیسے حقیقی بیٹے کے احکام منہ بولے بیٹے بارے میں بھی جاری کرتا تھا۔ لیکن خدا نے سورہ احزاب کی آيت چار میں دور جاہلیت کی اس رسم کی نفی اور فرمایا خدا نے تمہاری منہ بولی اولاد کو اولاد قرار نہیں دیا ہے یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔

اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص) خدا کے حکم سے اس بات پر مامور ہوئے کہ اس غلط اور جاہلیت کی روش کو اپنے عمل سے باطل کریں۔ آپ نے خدا کے حکم سے اور اس دور کے رسم و رواج کے برخلاف زینب بنت جحش سے شادی کی جو پیغمبر اکرم (ص) کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی مطلقہ تھیں اور اپنے عمل سے جاہلیت کی اس رسم کو باطل کیا۔ پیغمبر اکرم (ص) کے اس دلیرانہ اقدام پر منافقین اور کوتاہ فکر نے سخت اعتراض کیا۔ لیکن خداوند عالم نے اس غلط رسم کو توڑنے کی بنا پر سورہ احزاب کی آیت چالیس میں اپنے رسول کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے انہیں ٹھوس اور منطقی جواب دیا اور فرمایا کہ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلۂ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔ یہ ازدواج اور شادی ایک اور لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ ممکن تھا کہ زید بن حارثہ یا حتی اسامہ بن زید کا بیٹا پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد آنحضرت کے بیٹے اور وارث کی حیثیت سے سامنے آتا اس صورت میں خاندان پیغمبر کی وراثت و امامت کا راستہ دگرگوں ہو جاتا۔

مدینہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگي کا ایک اور پہلو آپ کی انتہائي سادہ زندگی تھی۔ آپ کی ازواج کے گھر انتہائي سادہ اور مٹی اور کھجور کی لکڑی سے بنے ہوئے تھے اور ان کے اندر بالکل سادہ سامان تھا یہ سب ایک ایسے وقت میں تھا کہ جب تقریبا پورا جزیرۃ العرب خاص طور پر فتح مکہ کے بعد پیغبمر اکرم (ص) کے زیرفرمان آ گیا، آپ اعلی اور طلائی ظروف میں کھانا کھا سکتے تھے یا بہترین عمارتیں بنوا سکتے تھے، لیکن پیغمبر اکرم نے ہمیشہ سادہ زندگي کو ترجیح دی اور گھروں کی سجاوٹ کے بجائے وہاں مہر و محبت قائم کرنے کو ترجیح دی۔

انسان دوستی کے جذبے اور بعض اوقات سیاسی وجوہات پر آپ نے شادیاں کیں لیکن اس کے باوجود دشمنان اسلام اور کم معلومات رکھنےوالے افراد نے ان شادیوں کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دینے کی کوشش کی۔ اور اس سلسلے کی ایک کڑی حال ہی میں امریکہ میں پیغمبر اسلام کے خلاف تیار کی جانے والی توہین آمیز فلم ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ پیغمبر اکرم نے خدیجۃ الکبری کے بعد جتنی شادیاں کیں وہ مدینہ میں انجام پائيں اور اس وقت آپ کی عمر ترپن سال سے زائد ہو چکی تھی اور اس عمر میں انسان جنسی مسائل کی طرف بہت کم توجہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم آخری دس سال کا عرصہ مدینہ میں گزارا۔ اس عرصے کے دوران آپ کی ذمہ داریاں اور فرائض بہت بڑھ گئے تھے اور اس عرصے کے دوران زیادہ عورتوں سے شادیاں کرنا جیسا کہ ذکر کیا گيا ہے زیادہ تر انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت اور اسلامی معاشرے کی مصلحت اور فائدے کے لیے تھا اور حتی ان ازوارج کی موجودگي کی وجہ سے آپ کی روزانہ کی عبادت اور نماز تہجد وغیرہ میں کوئي کمی نہیں آئی۔ جیسا کہ آپ کی ازواج نے بھی پروردگار کی بارگاہ میں آنحضرت کی دعاؤں اور نمازوں کے بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔

Read 4166 times