سورہ حج کی آیت 28 میں فرمایا گیا ہے: "لِیَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِی أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ..." یعنی: "تاکہ وہ اپنے فائدوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں۔" یہ آیت حج کے عظیم مقاصد کی وضاحت کرتی ہے، جو صرف عبادتی پہلو تک محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر پہلو بھی شامل ہیں؛ ایک طرف ذکرِ الٰہی ہے تو دوسری طرف فائدہ حاصل کرنا۔
اس آیت کے مطابق انسانوں کو خانۂ خدا کی طرف بلایا گیا ہے تاکہ وہ "اپنے منافع کے گواہ بنیں"۔ حضرت امام رضاؑ کے مطابق یہ منافع صرف حاجیوں تک محدود نہیں بلکہ تمام اہل زمین کے لیے ہیں، خواہ وہ حج پر آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔
یہ منافع مطلق طور پر بیان کیے گئے ہیں اور کسی ایک پہلو تک محدود نہیں۔ بعض مفسرین جیسے حضرت ابن عباسؓ نے ان منافع کو مادی اور تجارتی مفاد کے طور پر بیان کیا ہے، جس کی تائید سورہ بقرہ کی آیت 198 سے بھی ہوتی ہے: "لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ" یعنی: "تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔"
دوسرے مفسرین نے ان منافع کو صرف روحانی قرار دیا ہے، لیکن درحقیقت یہ فوائد دونوں پہلوؤں — دنیاوی اور اُخروی — کو شامل کرتے ہیں۔ ان میں فردی اور اجتماعی فائدے، روحانی برکتیں، مادی نتائج، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی پہلو سب شامل ہیں۔ اس بات کی بنیاد خود آیت کا مطلق اندازِ بیان ہے جو منافع کو کسی خاص حد میں مقید نہیں کرتا۔
حج کا یہ عظیم موسم ان انسانوں کے لیے بیداری کا مرکز بن سکتا ہے جو ظلم و استبداد کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سفر میں مسلمان نہ صرف وحدتِ اسلامی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرکے مختلف ممالک کے حالات اور سیاسی خبروں سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مشرکین سے برائت کا اعلان بھی حج کے سیاسی پہلو کی غمازی کرتا ہے، جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت 3 میں ارشاد ہے: "وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ" یعنی: "اور حجِ اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے کہ اللہ مشرکین سے بری ہے اور اس کا رسول بھی۔"
یہ اعلان موسمِ حج کو امتِ مسلمہ کی جامع سیاسی پالیسیوں کے اظہار کا ایک موزوں موقع بناتا ہے۔
بہر حال حج ایسی عبادت ہے جس میں روح اللہ کے ذکر سے جلا پاتی ہے، عقل عبرت سے سیکھتی ہے، جسم ریاضت سے مضبوط ہوتا ہے، اور امت اسلامی وحدت، بیداری اور دشمنشناسی سے قوت حاصل کرتی ہے۔