جناب ماریہ قبطیہ کی سیرت

Rate this item
(1 Vote)

جناب ماریہ قبطیہ بنت شمعون قبطیہ، رسول خدا {ص} کی شریک حیات تھیں- ان کی والدہ رومی تھیں- وہ مصر کے خفن نامی ایک گاوں میں پیدا ھوئی ہیں-

پیغمبر اسلام {ص} نے سنہ ۶ھجری میں کئی بیرونی ممالک میں اپنے چند سفیر بھیجدئے اور ایک خط کے ذریعہ ان ممالک کے سربراہوں اور حکام کو اسلام کی دعوت دیدی- رسول خدا {ص} نے حاطب بن ابی بلتعہ کو مصر کے سربراہ، مقوقش کے پاس بھیجا اور اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی- رسول اللہ {ص} کے خط کا مضمون یہ تھا:" عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے- محمد بن عبداللہ کی طرف سے، مصر کے سربراہ مقوقش کے نام، حق وحقیقت کی پیروی کرنے والوں پر سلام، اما بعد، میں تمھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ھوں- اگر تم نے اسے قبول کیا تو خداوند متعال تمھیں دو برابر اجر عطا کرے گا اوراگر اسے قبول نہ کیا تو پورے قبطہ { یعنی مصر} کے گناہ تیری گردن پر ھوں گے-"

مقوقش نے خط کے مہر اور دستخط دیکھے اور اسے پڑھ لیا- اس کے بعد اس خط کو ہاتھی کے دانت کے بنے ایک برتن میں رکھا اور حاطب بن ابی بلتعد سے کہا کہ پیغمبر اسلام {ص} اور آپ {ص} کی سیرت و صفات کے بارے میں کچھ بتائیں، حاطب نے ایسا ہی کیا- مقوقش نے تھوڑا غور کرنے کے بعد کہا:" میں سوچتا تھا، کہ پیغمبر آخر الزمان {ص} شام سے ظہور کریں گے، کیونکہ وہ پیغمبروں کے ظہور کرنے کی جگہ ہے- اب معلوم ھورہا ہے کہ انھوں نے جزیرۃ العرب سے ظہور کیا ہے- قبط { مصر} ان کی اطاعت نہیں کرے گا"-

اس کے بعد کاتب سے کہا کہ یوں لکھے:" اما بعد، میں نے آپ کے خط کو پڑھا، جو کچھ اس میں لکھا تھا، اس سے آگاہ ھوا اور آپ کی دعوت سے بھی مطلع ھوا- لیکن میں خیال کرتا ھوں کہ پیغمبر آخر الزمان شام سے ظہور کریں گے- میں آپ کے قاصد کا احترام کرتا ھوں اور اس کے ہمراہ قبط {مصر} کی عظیم سرزمین سے لباس و مرکب[سواری] کے ساتھ دو کنیزیں بھیج رہا ھوں- والسلام-"

مقوقش نے خط کو حاطب کے حوالہ کیا اور معافی مانگی کہ قبط ان کا دین قبول کرنےکی دعوت کو قبول نہیں کرسکتا ہے اور اسے نصیحت کی کہ جو کچھ اس نے قبط {مصر} میں دیکھا اور سنا ہے اسے رازداری کے ساتھ چھپا کے رکھے- حاطب، پیغبر اسلام {ص} کے پاس لوٹا، جبکہ مصر کے سربراہ نے اس کے ہمراہ ماریہ و سیرین نامی دو کنیزیں، ایک غلام اور ان کے ساتھ ہزار مثقال سونا، بیس جوڑے مصری لباس، ایک خاکستری رنگ کے خچر کے علاوہ شہد، عود، مشک و عطر کی ایک مقدار بھیجی تھی-

جناب ماریہ اور سیرین { ایک روایت کے مطابق شیرین} مدینہ کی طرف جاتے ہوئے ،اپنے وطن سے دوری کی وجہ سے غمگین تھیں اور اپنی سرزمین کی یاد میں آنسو بہاتی تھیں- اور سوچتی تھیں کہ ان کے لئے دنیا آخر تک پہنچی ہے اور انھیں پھر سے کبھی خوش قسمتی حاصل نہیں ھوگی- حاطب نے ان دونوں کے غم و اندوہ کا احساس کیا- اس لئے ان کے سامنے مکہ و حجاز کے بارے میں کچھ قصے اور داستانیں بیان کیں- اس کے بعد اسلام اور پیغمبر اسلام {ص} کے بارے میں کہا- ان دونوں نے پیغمبر اسلام {ص} کی صفات اور اسلام کی اچھائی کے بارے میں سن کر خوشی کا احساس کیا اور انھیں اسلام و پیغمبر اسلام {ص} پسند آیا اس کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا اور ایک نئی زندگی کی سوچ میں ڈوب گئیں- وہ سنہ ۷ھجری کو مدینہ پہنچ گئیں- اس وقت پیغمبر اسلام {ص} تازہ حدیبیہ سے واپس لوٹے تھے-

پیغمبر اکرم {ص} نے مقوقش کا خط اور اس کے تحفے دیکھے، جناب ماریہ کو اپنے عقد میں قرار دیا اور سیرین کو حسان بن ثابت نامی ایک مشہور ادیب و شاعر کو بخشا کہ ان سے عبدالرحمن نامی ایک بیٹا پیدا ھوا- اس کےعلاوہ رسول خدا {ص} نے باقی تحائف کو صحابیوں کے درمیان تقسیم کیا-

پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کو یہ خبر ملی کہ، سرزمین نیل[مصر] سے ایک خاتون پیغمبر اکرم {ص} کو تحفہ کے طور پر ملی ہے اور آنحضرت {ص} نے انھیں مسجد کے قریب حارثہ بن نعمان کے گھر میں رکھا ہے-

ایک سال کا عرصہ گزر گیا، اور چونکہ ماریہ قطبیہ کو رسول خدا {ص} کی خدمت میں ایک مقام ملا تھا، اس لئے وہ کافی مسرت و شادمانی محسوس کر رہی تھیں- پیغمبر اسلام {ص} بھی اس خاتون سے کافی راضی تھے، کیونکہ وہ پیغمبر اسلام {ص} کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لاتی تھیں اور پیغمبر اسلام { ص} کے لئے ایک مخلص، جاں نثار اور پرہیزگار خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے دستورات کی مکمل طور پر اطاعت اور فرمانبرداری کرتی تھیں، کیونکہ آنحضرت {ص} ان کے لئے شوہر بھی تھے اور مالک و مولا بھی-

ماریہ اور ہاجر:

جناب ماریہ قبطیہ کو جناب ہاجر، حضرت ابراھیم {ع} اور حضرت اسماعیل {ع} کی داستان سے کافی دلچسپی تھی اور اس داستان کو کئی بار سن چکی تھیں کہ خداوند متعال نے کیسے حضرت ہاجر کی مدد فرمائی، جب وہ حجاز میں تن تنہا اور بے یار و مدد گار تھیں، خداوند متعال نے انھیں چاہ زمزم عطا کرکے، سر زمین حجاز کو ایک نئی زندگی بخشی تھی، وہ جانتی تھیں کہ جناب ہاجر کی زندگی تاریخ میں لافانی بنی ہےاور ان کا صفا و مروہ کے درمیان ہرولہ کرنا {دوڑنا} مناسک حج کے ایک حصہ میں تبدیل ھوا ہے-

جناب ماریہ قبطیہ اپنے اور ہاجر کے درمیان پائی جانی والی شباہتوں پر غور و فکر کرتی تھیں، کیونکہ دونوں کنیز تھیں، جناب ہاجر کو جناب سارہ نے حضرت ابراھیم {ع} کی خدمت میں تحفہ کے عنوان سے پیش کیا تھا اور جناب ماریہ قبطیہ کو مقوقش نے رسول خدا {ص} کی خدمت میں تحفہ کے عنوان سے بھیجا تھا- لیکن ماریہ قبطیہ اور ہاجر کے درمیان صرف یہ فرق تھا کہ جناب ہاجر، حضرت اسماعیل کی ماں تھیں اور ماریہ قبطیہ رسول خدا {ص} سے ابھی صاحب اولاد نہیں ھوئی تھیں-

ابراھیم کی پیدائش:

جناب ماریہ قبطیہ کو سنہ ۸ھجری مین ایک رات کو معلوم ھوا کہ وہ حاملہ ھوئی ہیں، وہ کافی شاد و مسرور ھوئیں اور خدا کا شکر و ثناء بجا لایا-

ابراھیم، ذی الحجہ کے مہینہ میں پیدا ھوئے- ان کی دایہ " سلمی" تھیں- اس نے اپنے شوہر " ابو رافع" کو یہ خوشخبری سنائی، اور انھوں نے رسول خدا {ص} کی خدمت میں حاضر ھوکر اس نومولود کی خوشخبری آنحضرت {ص} کو دیدی- رسول خدا {ص} نے اس خوشخبری کے لئے ابورافع، کو ایک غلام انعام کے طور پر دیا اور نو مولود کا نام ابراھیم رکھا، کیونکہ آپ {ص} کے جد امجد کا نام حضرت ابراھیم {ع} تھا- جناب ابراھیم {ع} سات دن کے ھوئے تو آنحضرت {ص} نے عقیقہ کے عنوان سے ایک بھیڑ ذبح کیا اور نو مولود کے بال منڈوائے اور ان کے وزن کے برابر راہ خدا میں چاندی دیدی-

ابراھیم کے ساتھ پیغمبر اسلام {ص} انتہائی محبت فرماتے تھے، انس بن مالک کہتے ہیں:

" جب ابراھیم پیدا ھوئے، جبرئیل امین پیغمبراسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اس طرح آپ {ص} کی خدمت میں سلام کہا:" السلام علیک یا ابا ابراھیم؛" " سلام ھو آپ پر اے ابراھیم کے والد-"

پیغمبر اکرم {ص} نے حضرت ابراھیم {ع} کی ولادت کے بعد فرمایا:" کل رات میرے ہاں ایک بچہ پیدا ھوا کہ میں نے اسے اپنے باپ ابراھیم {ع} کے ہم نام قرار دیا"-

انصار کی خواتین حضرت ابراھیم {ع} کو دودھ پلانے میں رقابت کر رہی تھیں، اور اس طرح جناب ماریہ قبطیہ کے نزدیک تر ھونا چاہتی تھیں، کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کس قدر ماریہ قبطیہ کو دوست رکھتے ہیں- حضرت ابراھیم {ع} کی دایہ بننے کی سعادت " ام بردہ خولہ بنت منذر بن زید" کو حاصل ھوئی- پیغمبر اسلام {ص} خوشی اور مسرت کے عالم میں حضرت ابراھیم {ع} کے بڑے ھونے کا مشاہدہ فرما رہے تھے-

ایک دن پیغمبر اسلام {ص} کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، کہ آپ {ص} کو حضرت ابراھیم {ع} کی حالت خطرناک صورت میں خراب ھونے کی خبر ملی، فوراً گھر تشریف لائے اور اپنے لخت جگر کو ماں کی گود سے اٹھا کر اپنی آغوش میں لے لیا، آپ {ص} کے چہرہ مبارک سے غم و آلام کے آثار نمایاں تھے اور اسی حالت میں فرمایا: ا إبراهِيم لَو لا اَنَّهُ اَمْرٌ حَقٌّ وَوَعْدٌ صِدقٌ ، وَأنَّ آخِرَنا سَيَلْحَقُ بِأوَّلِنا ، لَحَزِنّا عَلَيْكَ حُزْناً هُوَ اَشَدُّ مِنْ هذا ، تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَ يَحْزَنُ الْقَلْبُ وَ لا نَقُولُ إلاّ ما يَرضي رَبَّنا وَاللهُ يا إبْراهِيم ، إنّا بِكَ لَمَحْزُونُون." " اے ابراھیم؛ اگر موت حق اور وعدہ صادق الہی نہ ھوتی اور ہم سب آخر کار اسی سے ملحق ھونے والے نہ ھوتے، تو میں تیرے بارے میں اس سے زیادہ غمگین ھوتا، میری آنکھیں پر نم ہیں اور میرا دل غم و اندوہ سے لبریز ہے، لیکن میں ہرگز زبان پر ایسا کلام جاری نہیں کروں گا جس میں خدا کی رضامندی اور خوشنودی نہ ھو- لیکن ابراھیم ؛ جان لو کہ ہم تیرے فقدان اور موت کی وجہ سے غمگین اور محزون ہیں"-

بعض لوگوں نے آنحضرت {ص} پر اعتراض کیا کہ " اے رسول خدا {ص} کیا آپ {ص} ہمیں رونے کی ممانعت نہیں فرماتے تھے؟" رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا: " نہیں، میں نے کبھی نہیں کیا ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر نہ رونا، کیونکہ رونا ترحم اور ہمدردی کی علامت ہے، اور جو دوسروں کی بہ نسبت ہمدردی نہیں رکھتا ہے اس میں مہر و محبت کا فقدان ھوتا ہے، اسے رحمت الہی حاصل نہیں ھوگی"-

بہرحال، رسول خدا {ص} نے حکم دیا کہ حضرت ابراھیم {ع} کو غسل دے کر حنوط و کفن کیا جائے- اس کے بعد ان کے جنازہ کو اٹھا کر قبرستان بقیع میں لایا گیا اور اس جگہ پر سپرد خاک کیا گیا، جو اس وقت حضرت ابراھیم {ع} کی قبر کے عنوان سے مشہور ہے-

جس دن حضرت ابراھیم {ع} نے وفات پائی، اس دن سورج کو گہن لگ گیا اور مدینہ کے لوگوں نے کہا:" سورج کو حضرت ابراھیم کی موت کی وجہ سے گھن لگ گیا ہے"- رسول خدا {ص} نے اس غلط فہمی کو دور کرنے اور اس خرافہ سے مقابلہ کرنے کے لئے منبر پر جاکر لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا:" اَيُّهَا النّاس إنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتانِ مِنْ آيات ِاللهِ لاتَخْسِفانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلا لِحَياتِهِ." " اے لوگو؛ بیشک سورج اور چاند خداوند متعال کی نشانیوں میں سے ہیں، اور خدا کے ارادہ اور حکم کے تابع ھوتے ہیں اور کسی کی موت یا حیات کے لئے ان کو گھن نہیں لگتا ہے-"

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آپ {ص} نے فرمایا: إنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لايَنْكَسِفانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلا لِحَياتِهِ فَإذا رَأيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا الله.” بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے گھن نہیں لگتا ہے، پس جب گھن کا مشاہدہ کروگے، نماز پڑھنا-"

جناب ماریہ قبطیہ بھی اس مصیبت میں کافی غمگین تھیں اور اپنے لخت جگر حضرت ابراھیم کے لئے یوں مرثیہ پڑھتی تھیں:" اے ابراھیم، تم میرے بیٹے تھے اور ابھی تمھیں دودھ پلانا بند نہیں کیا تھا، اب بہشت میں فرشتے تمھیں دودھ پلائیں گے"-

جناب ماریہ قبطیہ، پیغمبر اسلام {ص} کی محبوب شریک حیات تھیں- وہ حضرت زہراء {س} اور ان کے شوہر حضرت علی {ع} بن ابیطالب سے کافی لگاو رکھتی تھیں اور ان کا کافی احترام کرتی تھیں - رسول خدا {ص} نے بھی ان کے آرام و آسائش کے لئے ان کے گھر کو مدینہ کے اطراف میں ایک باغ میں قرار دیا تھا، جسے " مشربہ ام ابراھیم" کہا جاتا ہے-

رسول خدا {ص} کے ساتھ ماریہ قبطیہ کی زندگی:

ام المومنین جناب ماریہ قبطیہ سب سے پہلے جس گھر میں ٹھریں، وہ حارثہ بن نعمان کا گھر تھا- انھوں نے اس گھر میں ایک سال تک سکونت کی- اس کے بعد رسول خدا {ص} نے جناب ماریہ قبطیہ کی درخواست پر انھیں وہاں سے نکال کر مدینہ کے اطراف میں اپنے خرما کے ایک چھوٹے باغ میں مکان بنا کر ساکن کیا، یہ باغ آنحضرت {ص} کو غزوہ بنی نضیر میں ملا تھا- یہ جگہ اس وقت" مشربہ ام ابراھیم" کے نام سے مشہور ہے-

جناب ماریہ قبطیہ موسم گرما اور کھجور اتارنے کے موسم میں وہیں پر ساکن ھوتی تھیں اور پیغمبر اسلام {ص} انھیں ملنے کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تھے- جناب ماریہ قبطیہ کے " مشربہ ام ابراھیم" میں ساکن ھونے کے بعد، رسول خدا {ص} کے بیٹے حضرت ابراھیم ذی الحجہ کے مہینے میں وہیں پر پیدا ھوئے-

جناب ماریہ قبطیہ سے اہل بیت {ع} کی محبت:

حضرت علی {ع} اور فاطمہ زہراء {س} جناب ماریہ قبطیہ کے بارے میں خاص خیال رکھتے تھے- چنانچہ کہا گیا ہے کہ حضرت ابراھیم کی ولادت کے بعد حضرت علی {ع} بہت خوش ھوئے- حضرت علی {ع} ہمیشہ ماریہ قبطیہ کی حمایت کرتے تھے اور ذاتی طور پر ان کے مسائل کو حل کرنے میں اقدام کرتے تھے، وہ جناب ماریہ قبطیہ کا خاص احترام کرتے تھے-

اخلاقی اوصاف:

جناب ماریہ قبطیہ ایک پاک، دیندار، صالح، نیک اور شائستہ خاتون تھیں- اس کے علاوہ رسول خدا {ص} کی منظور نظر بیوی تھیں- مورخین و سیرت نگاروں نے ان کی دینداری کی ستائش کی ہے- پیغمبر اسلام {ص} نے اپنے ایک بیان میں اس خاتون کے ساتھ اپنے لگاو کا یوں اظہار فرمایا ہے:" جب مصر کو فتح کروگے، وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا کیونکہ میں ان کا داماد ھوں"-

پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد جناب ماریہ قبطیہ کی زندگی:

پیغمبر اسلام {ص} کی رحلت کے بعد جناب ابوبکر نے جناب ماریہ قبطیہ کے لئے ایک وظیفہ مقرر کیا تھا جسے خلیفہ دوم نے بھی جاری رکھا-

جناب ماریہ قبطیہ کی وفات:

ام المومنین جناب ماریہ قبطیہ، سر انجام خلیفہ دوم کے زمانہ میں ماہ محرم سنہ ۱۶ھجری میں وفات پاگئیں- جناب عمر بن خطاب نے لوگوں کو ان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی خبر دیدی، اور ان کے جنازہ پر نماز پڑھی اورانھیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-

ترتیب و پیشکش: شیلا مالکی دیزجی

-------------------------------------------

مزید تحقیق کے لئے منابع و مآخذ:

1- فروغ ابدیت ، ‌ج 2، ‌ص 800 و 801 ؛ ریاحین الشریعه، ‌ج 2، ص 349؛ اسدالغابه، ج 7، ص 253

2- لغت نامه دهخدا ، شماره مسلسل 195، ص 47

3- بحارالانوار، ج 21 ، ص 183

4- ابن عبدالبر؛ الاستیعاب ، تحقیق علی محمد البجاوی ، بیروت ، دارالجبل، طبع اول ، 1992 ،ج4 ، ص1912.

5- بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار وریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، طبع اول، 1996 ، ج1، ص449.

6- یاقوت حموی؛ معجم البلدان، بیروت، دارصادر، چاپ دوم، 1995،ج1، ص249 و ابن سعد؛

7- طبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء، بیروت، دار الکتب العلمیه، طبع اول، 1990،ج1، ص107 و زرکلی، خیرالدین؛ الأعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، طبع هشتم، 1986،ج5، ص225 و ابن هشام؛ السیرة النبویه، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفه، بی¬تا،ج1، ص191.

8- ابن قتیبه؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشه، قاهره، الهیئة المصریة العامة للکتاب، طبع دوم، 1992، ص312 و طبقات الکبری، پیشین، ص107 و انساب الاشراف، پیشین،ص449 و تاریخ طبری، پیشین، ص617.

9- ابن کثیر؛ البدایه و النهایه، بیروت، دارالفکر، 1407،ج5، ص304.

10- سید جمیلی ؛ نساء النبی ، بیروت ، دار المکتبة الهلال ، 2003، ص137 – 138.

11- انساب الاشراف ، پیشین ،ص449 و طبقات الکبری ، مذکورہ ،ج1، ص107 وج8 ، ص171.

12- تاریخ طبری، پیشین، ص617 و 71 و البدایه و النهایه، مذکورہ ،ج5، ص304 و انساب الاشراف، پیشین، ص449 و طبقات الکبری، مذکورہ ،ج1، ص108 و ابن جوزی؛ المنتظم، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء و مصطفی عبدالقادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیه، طبع اول، 1992،ج3، ص345.

13- قمی، علی بن ابراهیم؛ تفسیر قمی، قم، جزائری، طبع ، سوم، 1404،ج2، ص99-100 و شیخ مفید؛ رسالة حول خبر ماریه، تحقیق مهدی الصباحی، هزاره شیخ مفید، طبع اول، 1413، ص16.

14- العاملی، جعفر مرتضی؛ حدیث الافک، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1400، ص72 و 137.

15- البدایه و النهایه، مذکورہ ،ج7، ص74.

16- معجم البلدان، مذکورہ ،ج5، ص138

- 17 "مشرب ام ابراھیم "مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں شارع علی بن ابیطالب پر، "مستشفی الزھراء"[الزھراء ہسپتال] اور پٹرول پمپ کے بعد بائیں جانب دوسرے کوچہ کے کونے پر واقع ہے – آج کل یہ مشربہ ایک قبرستان میں تبدیل ہوا ہے اوربعض مورخین کے مطابق حضرت امام رضا[ع] کی والدہ،"نجمہ خاتون" کی قبر بھی اسی قبرستان میں واقع ہے-

Read 5763 times