سلیمانی
دشمن کے اندر ایران کو میلی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہیں، جنرل وحیدی
ایرانی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے نائب سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمد وحیدی نے کہا ہے کہ دشمن ایرانی سرزمین کی طرف میلی نظر ڈالنے کی جرأت بھی نہیں رکھتے۔
بندرعباس میں بحری زون کے دورے کے موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر آج ایران کی آبی سرحدوں پر مکمل امن قائم ہے تو یہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بحری جوانوں کی شبانہ روز قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔
جنرل وحیدی نے مزید کہا کہ دشمن ایرانی جوانوں سے خوفزدہ ہیں اور اس سرزمین پر بری نظر ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی بحریہ نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کررہی ہے بلکہ دشمنوں کے عزائم کو بھی ناکام بنا رہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ دشمن اس طاقتِ ایمانی اور دفاعی قوت کے سامنے بے بس ہیں۔
فرانس، حقوق نسواں کے دعوے اور گھریلو تشدد کی ہولناک تصویر، ہر تین دن بعد ایک عورت شوہر کے ہاتھوں قتل
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فرانس میں گھریلو تشدد اور خواتین کے قتل کے واقعات نے ایک بار پھر یورپ کے اس ترقی یافتہ ملک کے سماجی ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس 107 خواتین اپنے شوہر یا سابق شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئیں، یعنی اوسطاً ہر تین دن بعد ایک عورت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ مجموعی طور پر 138 افراد گھریلو تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوئے جن میں 31 مرد بھی شامل ہیں۔
یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ فرانس میں گھریلو تشدد محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی بحران ہے۔ رپورٹ کے مطابق 90 فیصد قتل گھروں میں یا تو مشترکہ رہائش گاہ میں یا متاثرہ کے ذاتی مکان میں ہوئے۔ ان میں سے 49 وارداتوں میں چھری یا چاقو اور 34 میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا۔
تشدد کی جڑیں اور محرکات
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ 31 فیصد قتل کسی جھگڑے کے بعد ہوئے جبکہ 16 فیصد اس وقت پیش آئے جب ایک فریق نے تعلق ختم کرنے سے انکار کیا۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 47 فیصد خواتین پہلے ہی گھریلو تشدد کی شکایت پولیس کو کرچکی تھیں اور 81 فیصد نے باضابطہ مقدمات بھی درج کرائے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی زندگیاں محفوظ نہ ہوسکیں۔
حکومتی اقدامات اور ان کی ناکامی
فرانسیسی وزارت داخلہ نے اعتراف کیا کہ ہنگامی فون لائنز اور حفاظتی اقدامات شاذ و نادر ہی مؤثر ثابت ہوئے۔ صرف ایک متاثرہ خاتون کو شدید خطرے کی ہاٹ لائن کے ذریعے تحفظ ملا اور صرف دو خواتین عدالتی حفاظتی احکامات سے مستفید ہوسکیں۔ حیران کن طور پر صرف ایک مجرم عدالتی نگرانی میں ہے۔
فرانسیسی وزیرِ داخلہ لوران نونے نے اس صورتحال کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور ژاندارمری پوری طرح متحرک ہیں اور حکومت ہر محاذ پر سرگرم ہے۔ تاہم خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتی ہیں۔ ان کے مطابق حکومتی اقدامات انتہائی ناکافی ہیں اور اصل مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سول سوسائٹی اور عوامی ردعمل
خواتین کے حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ مردوں کو مناسب سزا نہ ملنے کے باعث وہ بار بار تشدد دہراتے ہیں۔ مئیل نوار نامی حقوق نسواں کے ایک کارکن نے کہا کہ بجٹ میں کٹوتیاں دراصل جرم کے مترادف ہیں اور حکومت قتل کے ان واقعات میں شریک ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ فرانس میں خواتین کے خلاف تشدد پر آواز بلند ہوئی ہو۔ نومبر 2019 میں ہزاروں افراد نے پیرس میں مارچ کیا تھا تاکہ گھریلو تشدد کے خلاف احتجاج کیا جاسکے۔ اس کے باوجود، حکومت نے اب تک کوئی ٹھوس اور مؤثر پالیسی نہیں اپنائی۔
خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ 22 نومبر کو انسداد تشدد نسواں کے عالمی دن کے موقع پر ملک گیر احتجاج میں شریک ہوں۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت اس مسئلے کو قومی ترجیح قرار نہیں دیتی اور بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
صدر میکرون پر تنقید
حقوق نسواں کی تنظیموں نے صدر امانوئل میکرون سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کو قومی مسئلہ قرار دیں اور اس کے لیے خاطر خواہ بجٹ مختص کریں۔ لیکن صدر میکرون اپنی پالیسی کو عیوب سے مبرا قرار دیتے ہیں، جس پر سول سوسائٹی اور متاثرہ خاندانوں نے شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق فرانس جیسے ملک میں، جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیتا ہے، خواتین کے خلاف اس قدر سنگین جرائم کا تسلسل سے ہونا ریاستی ناکامی کی علامت ہے۔ ایک طرف حکومت عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے، دوسری طرف اپنے ہی ملک میں خواتین کو بنیادی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
فرانس میں ہر تین دن بعد ایک عورت کا قتل محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ریاستی ادارے اور عدالتی نظام مؤثر کردار ادا نہ کریں تو ترقی یافتہ ہونے کا دعوی کرنے والے معاشرے بھی خواتین کے تحفظ میں ناکام ہوسکتے ہیں۔ فرانس میں حقوق نسوان کی گھمبیر صورتحال پر سول سوسائٹی کی آواز بڑھ رہی ہے، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا میکرون حکومت اس بحران کو محض بیانات سے سنبھالے گی یا عملی اقدامات بھی کرے گی۔
سوڈان کے شہر فاشر میں بے گناہ شہریوں کا قتل عام، ایران کا شدید ردعمل
اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوڈان کے شہر فاشر میں شہریوں کے قتل عام پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔
انہوں نے سوڈانی وزیر خارجہ محیالدین سالم سے ٹیلیفونک گفتگو میں ایران کی جانب سے گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا۔
عراقچی نے کہا کہ دہشت گردی اور بے گناہ افراد کے خلاف تشدد خواہ کسی بھی شکل میں ہو اور دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو، قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے مغربی ممالک پر دوہرے معیار اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بعض قوتیں اپنے مفادات کے لیے دہشت گردوں کو اچھے اور برے میں تقسیم کرتی ہیں، اور ان سے گندے کام کرواتی ہیں۔
وزیر خارجہ نے اس موقع پر سوڈان کی علاقائی سالمیت اور عوامی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا اور کہا کہ ایران ہر سطح پر سوڈانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
گفتگو کے دوران سوڈانی وزیر خارجہ نے ایران کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ایران کی یکجہتی سوڈانی عوام کے لیے حوصلہ افزا ہے۔
شام کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کا سلسلہ جاری
رنا کے مطابق قنیطرہ کے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ 2 ٹینکوں، 1 بلڈوزر اور 7 فوجیوں گاڑیوں پرمشتمل صیہونی فوج کا ایک دستہ قنیطرہ کے مضافات میں واقع الصقری چیک پوسٹ پر پہنچا اور پھر السلام ہائی وے کی طرف جانے والی سڑک پر آگے بڑھ گیا۔
غاصب صیہونی حکومت کی فوج یہ دستہ شام کے صوبہ قنیطرہ کے مضافات میں ایسی حالت میں داخل ہوا ہے کہ صیہونی فوجیوں نے گزشتنہ روز الصمدانیہ نامی علاقے کے اندرایک سڑک پر لوہے کا دروازہ نصب کردیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے شام کے اس علاقے مں ایک چیک پوسٹ بنالی ہے جس پر علاقے کے لوگوں نے اعتراض کیا ہے اور اس کو شام کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
آیت اللہ علم الہدی: گھر میں خواتین کی فداکاری و خدمت، مردوں کے جہاد کے برابر ہے
ایران کے صوبہ خراسان رضوی میں نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ سید احمد علم الہدی نے اپنے دفتر میں سمنان کے ائمہ جمعہ کے ایک وفد سے ملاقات میں کہا: ہماری عزت اور سرفرازی امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت سے وابستہ ہے۔ آپ حضرات جو دین کی خدمت کی توفیق رکھتے ہیں یہ برکتیں آپ کی خانگی زندگی میں بھی شامل ہیں، خصوصاً آپ کی زوجات کی محنت اور صبر کے سبب۔ اگر وہ ساتھ نہ ہوتیں تو یہ کامیابیاں بھی نصیب نہ ہوتیں۔
انہوں نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم «جِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّل» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں کو حسنِ اخلاق، بردباری اور خلوص کے ساتھ نبھائے۔
آیت اللہ علم الہدی نے مزید کہا: یہ روایت اسماء بنت عمیس سے نقل ہوئی ہے کہ جب وہ شہداء اور مجاہدین کے اہل خانہ کے ساتھ خدمت کے جذبے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "عورتوں کا یہ صبر و خدمت اور ایثار، مردوں کے میدانِ جنگ میں جہاد کے برابر ہے"۔
انہوں نے کہا: خواتین جب مشکلات، تنگی حالات، سماجی دباؤ اور خانگی ذمہ داریوں کو صبر و وقار کے ساتھ نبھاتی ہیں، یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہیں، بے سہارا خاندانوں کی مدد کرتی ہیں اور گھر کے محاذ کو مضبوط رکھتی ہیں تو یہ سب اعلیٰ ترین درجات کے جہاد میں شمار ہوتا ہے اور آخرت میں اس کا اجر و مقام بہت عظیم ہے۔
خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات:
چین اور دیگر جوہری طاقتیں:
برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔
ماحولیاتی اثرات:
جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
اسپورٹس مقابلوں کے چیمپینز اور اولمپیاڈز میں میڈل حاصل کرنے والوں سے رہبر انقلاب کی ملاقات
پھول، جس نے ڈارون کو سوچنے پر مجبور کیا: ہر کمال میں ایمان کی جھلک ہے
اسلامی علمِ کلام کے علما اور عیسائی الہیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں پائی جانے والی خوبصورتی، نظم اور کمال خدا کے وجود کی سب سے مضبوط دلیلیں ہیں۔ یہ حقیقت بعض مشہور ملحد سائنس دانوں نے بھی تسلیم کی ہے، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ کوانٹم میکینکس پروفیسر ڈیوڈ ڈوئچ بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں موجودہ دور کے ملحدوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اسے اس کائنات اور اس کے قوانین میں پائے جانے والے حیرت انگیز نظم و ضبط پر کوئی تعجب نہیں ہوتا تو وہ دراصل حقیقت سے منہ موڑ رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سی حیرت انگیز اور ناقابل یقین مخلوقات ہیں۔" (دی گارڈین، جمعرات 8 جنوری 2009)
یہ بات ایک ایسے شخص نے کی ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ کہنا اس الجھن اور بے بسی کو ظاہر کرتاہے جو ملحدانہ سوچ کائنات کے حیرت انگیز نظم اور ہم آہنگی میں محسوس کرتی ہے۔
قرآنِ کریم نے بھی اس حقیقت کو کئی آیات میں بیان کیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: 88)
اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ (السجدة: 7)
جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔
یہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ کمال و حسن کوئی اتفاقی وصف نہیں ہےبلکہ ایک ایسا آفاقی قانون ہے جو پوری کائنات کو محیط ہے۔
کمالِ تخلیق کے شاہکاروں پر غور و فکر
جب انسان مخلوقات کی دقیق ترین معلومات پر غور کرتا ہے تو وہ تخلیق کے عظیم الشان نظام پر حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ اسی کی ایک مثال آرکیڈ کا پھول ہے۔ یہ پھول صرف اپنی دلکش خوبصورتی ہی سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حیرت انگیز طور پر مادہ مکھی کی شکل کی مشابہت بھی رکھتا ہے تاکہ نر مکھی کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ نر مکھی یہ سمجھ کر اس پر بیٹھتی ہے کہ یہ اس کی ساتھی ہے اور اسی عمل کے دوران وہ پولن (جراثیمِ نر) کو ایک پھول سے دوسرے پھول تک منتقل کر دیتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آرکیڈ کا پھول صرف شکل کی نقل نہیں کرتا بلکہ بالکل وہی خوشبو خارج کرتا ہے جو مادہ مکھی خارج کرتی ہے۔یوں یہ حیاتیاتی فریب مکمل ہوتا ہے اور پھول کا تخم ریزی کا عمل یقینی بن جاتا ہے۔ یہی وہ منظر تھا جس نے چارلس ڈارون جو نظریۂ ارتقاء کے بانی ہیں کو وفات سے ایک سال قبل یہ اعتراف کرنے پر مجبور کیا کہ یہ کیفیت اس کے ذہن کو ہلا دینے والی ہے کیونکہ اس کی کوئی توجیہ ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس تخلیق کے پیچھے ایک باقاعدہ منصوبہ اور مقصد کارفرما ہے۔
دوسری جانب، اگر ہم انسانی جسم پر غور کریں تو اس میں بھی اتنی ہی حیرت انگیز باریک بینیاں پائی جاتی ہیں جتنی باریکیاں نباتات کی دنیا میں ہیں۔ مثال کے طور پر ہرمونِ نمو (Growth Hormone) کو لیجیے، جو خون میں نہایت معمولی مقدار میں جو تقریباً5 نینوگرام کے تناسب سے خارج ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی معمولی مقدار ہے مگر صرف ایک گرام ہرمون تین ہزار انسانوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے توازن میں ذرا سا بھی فرق آ جائے تو پورے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ مثلاً اگر اس کا تناسب ایک سو ملین میں سے صرف ایک حصےکے برابر بڑھ جائے تو انسان عظمتِ جسم (Gigantism) کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگر اتنا ہی کم ہو جائے تو بونا پن (Dwarfism) کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز توازن اور درستگی اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ کوئی حکمت و تدبیر رکھنے والی ذات اس نظام کو نہایت باریکی سے سنبھالے ہوئے ہے؟
قدرت کے کمالات بہت زیادہ ہیں یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔ پوری کائنات خواہ وہ کوانٹم ذرات کی باریک دنیا ہو یا عظیم کہکشاؤں کا پھیلا ہوا نظام ہو سب ایک نہایت درست اور متوازن قانون کے تابع ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک قانون معمولی سا بھی بدل جائے تو کائنات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ یہی حقیقت مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عظمت کو اورپختہ کر دیتی ہے:
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِنْ فُطُورٍ (الملك: 3)
۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟
کمالِ تخلیق کی یہ نشانیاں کہ جن میں انسانی ہارمونز کی نازک ترتیب، قدرتی پھولوں کی حیرت انگیز کاریگری، فزکس کے قوانین کی ہم آہنگی اور ستاروں سے سجی آسمان کی خوبصورتی شامل ہیں سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ کائنات گویا ایک کھلی ہوئی کتاب ہےجسے ہر منصف مزاج انسان پڑھ سکتا ہے۔ تخلیق کا یہ کمال کسی اتفاق یا بے ترتیبی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایمان کے دروازے کھولتا ہے اور اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ سارا حسین و منظم نظام اسی خدا کی صناعت ہے جس نے ہر چیز کو کمال کے ساتھ بنایا۔
لہٰذا الحاد کا دعویٰ، چاہے اس کے ماننے والے اسے کتنے ہی خوبصورت الفاظ میں پیش کریں، آخرکار ایک ایسی حقیقت سے ٹکرا جاتا ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔وہ یہ ہے کہ اس مکمل اور منظم کائنات کے پیچھے ایک حکمت و علم والا رب موجود ہے اور صرف وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔
ایران، روس اور چین کا اقوام متحدہ کو خط تینوں بڑی طاقتوں کے اتحاد کی علامت ہے
اسپیکر محمد باقر قالیباف کا کہنا تھا کہ قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے ساتھ ہی ایران کے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کی نگرانی اور تصدیق کے حوالے سے آئي اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کا رپورٹنگ مشن بھی ختم ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، روسی فیڈریشن اور عوامی جمہوریہ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام خط ان تینوں عظیم طاقتوں کی اسٹریٹجک یکجہتی کی علامت ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسنیپ بیک مکینیزم کو فعال کرنے کے لیے تین یورپی ممالک کی کوششیں بنیادی طور پر قانونی جواز سے عاری ہیں۔
ایران کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے کہا کہ قرارداد 2231 کے پیراگراف 8 کی بنیاد پر اس قرارداد میں درج تمام پابندیاں اور تقاضے ختم ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ منسوخ شدہ قراردادوں کی بحالی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور ایران کے افزودگی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایٹمی معاملہ بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہوگیا ہے۔
ایران میں حکومت کی تبدیلی کا خواب
ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد اپنے تجزیئے میں خود سابقہ اعلیٰ اسرائیلی سیکورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور ایران میں حکومت کی تبدیلی محض خواب ہے۔ اسرائیلی فوج کے انٹیلی جنس مرکز کے سابق سربراہ برائے تحقیق و تجزیہ میجر (ریٹائرڈ) ڈینی سیترینووِچ نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل 12 روزہ جنگ میں ایران کے خلاف شکست سے دوچار ہوا۔ انہوں نے بیرونِ ملک مقیم ایرانی اپوزوزیشن اور ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں کے متعلق مکمل مایوسی کا اظہار کیا۔
سیترینووِچ اس وقت صہیونی تحقیقی ادارے آبا اِیبان انسٹی ٹیوٹ میں سینئر ریسرچ افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی فارسی (برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام میڈیا) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے ایران کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے اور یہ سمجھ لیا تھا کہ چند فضائی حملے ایرانی حکومت کو گرا سکتے ہیں، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اسرائیل میں کوئی حقیقت پسند نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 12 روزہ جنگ کے دوران ہم نے سمجھا کہ صرف فضائی بمباری سے ایران کی حکومت کو بدلا جا سکتا ہے، مگر نتیجہ بالکل الٹا نکلا، ایران نے اسی جنگ کو اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس سابقہ اسرائیلی انٹیلی جنس عہدیدار نے مزید کہا کہ ایران میں کوئی حقیقی اپوزیشن موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم مخالفین بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں، میں رضا پہلوی کو ایسا شخص نہیں سمجھتا جو ایران واپس جا کر حالات پر قابو پا سکے۔
صہیونی تحقیقی ادارے کا دعویٰ:
انہوں نے ایک تو یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 12 روزہ جنگ نے واضح کر دیا کہ ہم باہر سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ دوسرا ان کا کہنا ہے کہ اتنے فاصلے سے 950 ایرانی میزائل بھی اسرائیل پر گرے۔ اسی تناظر میں اسرائیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (INSS)” کی مبینہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کو متعدد محاذوں پر بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سال کی جنگوں میں 1,986 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں 919 فوجی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں غزہ محاذ پر ہوئیں، جہاں 1,724 افراد مارے گئے۔
55 اسرائیلی گرفتار یا لاپتہ ہوئے، جن میں سے 13 کی لاشیں اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ 30,135 اسرائیلی زخمی ہوئے، اور 164,500 افراد کو اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، جن میں سے 74,600 غزہ کے اطراف کے رہائشی تھے۔ غزہ سے اسرائیل کی سمت 51 ڈرون داغے گئے، اور اسرائیلی فوج نے جنگ کے دوران 3 لاکھ ریزرو فوجی بلائے۔ مجموعی طور پر 37,500 راکٹ اور میزائل اسرائیل پر فائر کیے گئے، جن میں سے 10,200 صرف غزہ سے تھے۔
مغربی کنارا اور بیت المقدس: 76 اسرائیلی ہلاک اور 565 زخمی ہوئے، جن میں 32 فوجی شامل تھے۔ اسرائیلی فوج نے 129 فضائی حملے کیے اور جنین و طولکرم کے کیمپوں کو تباہ کیا یا خالی کروایا۔ مجموعی طور پر 15,456 گرفتاریاں ہوئیں اور 10,496 آپریشنز کیے گئے، جن میں ہزاروں پتھراؤ اور آتش گیر بموں کے واقعات شامل تھے۔
ایرانی محاذ: رپورٹ کے مطابق جون 2025 کی مختصر جھڑپوں کے دوران 950 ایرانی میزائلوں کے نتیجے میں 33 اسرائیلی ہلاک اور 3,550 زخمی ہوئے۔
لبنانی محاذ: حزب اللہ کی راکٹ اور ڈرون حملوں میں 132 اسرائیلی مارے گئے، 17,300 راکٹ اور 593 ڈرون فائر کیے گئے، جبکہ 68,500 شمالی اسرائیلی باشندے بے گھر ہوئے۔
یمنی محاذ: یمن کی جانب سے داغے گئے 500 میزائل و ڈرون میں سے 70 میزائل اور کئی ڈرون اسرائیل کے اندر گرے، جن کے نتیجے میں کم از کم ایک اسرائیلی ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان حملوں سے ایلات بندرگاہ کی 80 فیصد سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے 19 حملے یمن پر کیے اور 90 اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ رپورٹ مجموعی طور پر اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیل متعدد محاذوں پر بیک وقت دباؤ کا شکار ہے، اور اندرونی طور پر بھی اس کے سیکورٹی ماہرین اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف جنگی یا نفسیاتی حکمتِ عملی ناکام ہو چکی ہے۔























































![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
