سلیمانی

سلیمانی

ایرانی صدر نے دنیا میں انسانی المیوں کا ذکر کرتے ہوئے انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی علمبرداروں پر کڑی تنقید کی۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے "ہفتہ ہلال احمر" کی مناسبت سے منعقدہ تقریب  سے خطاب کرتے ہوئے کہا: انسان اس کرہ ارض پر اپنے جیسے انسانوں کو درندہ صفت لوگوں کی بربریت کا نشانہ بنتے نہیں دیکھ سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کس قدر خوفناک ہے کہ وہ ممالک جو انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں اور تہذیب و ترقی کی بات کرتے ہیں، لیکن معصوم لوگوں کو مہلک  بموں اور میزائلوں کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر نہایت ڈھٹائی سے انسانی حقوق، امن اور آزادی کی بات کرتے ہیں۔!

صدر پزشکیان نے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے،  میں سوچتا ہوں کہ واقعی ان کے اندر کون سا جانور رہتا ہے جو بظاہر خوشنما چہروں کے ساتھ اس دنیا میں انسانیت کی بات کرتے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں؟ 

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے ممالک نے معصوم لوگوں کے دکھوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہی تنظیمیں جنہیں مظلوموں کی حمایت کرنی چاہیے تھی، آج مجرموں کا دفاع کر رہی ہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ کوئی کیسے قبول کر سکتا ہے کہ خواتین، بچوں، بوڑھوں اور معصوم لوگوں پر اتنی آسانی سے بمباری کریں اور وہاں پھنسے ہوئے لوگوں تک پانی، خوراک اور ادویات کی ترسیل پر روک لگائے!

انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا یہ مظالم دیکھ رہی ہے لیکن خاموش ہے،  اقوام متحدہ خاموشی تماشائی بنی بیٹھی ہے، وہی تنظیمیں جو انسانی حقوق کی دعویدار ہیں، لیکن یہ صیہونی درندوں کا دفاع کرتی ہیں۔!

پزشکیان نے کہا کہ آج انسانیت کو مغرب کے  اس منافقانہ طرزعمل کا سامنا ہے کہ یہ جب ڈائس کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو جمہوریت، آزادی، امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ عملی میدان میں دنیا کے وحشی جانوروں سے بھی بدتر سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نہایت بے شرمی سے دوسروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں۔!

Tuesday, 13 May 2025 03:01

بڑھتے رہیں یونہی قدم

یمنی مسلح افواج نے غزہ کے عوام کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لائی ہے اور اب اسرائیل کی فضائی ناکہ بندی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ بلاشبہ یمن نے اپنی فوجی حکمت عملی تبدیلی کرکے اسرائیلی حکومت پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک یمن نے، مزاحمت کے اہم حامی کے طور پر، اسرائیلی حکومت کے خلاف سمندری اور فضائی حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ انصاراللہ نے اکتوبر 2023ء میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے ساتھ ساتھ اسرائیلی علاقے میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ جنوری 2025ء میں غزہ پٹی میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد انہوں نے حملے روک دیئے تھے۔

اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ کے لیے تمام رسد منقطع کر دی اور 18 مارچ کو جنگ بندی کو ختم کر دیا اور غزہ کی پٹی پر حملے دوبارہ شروع کر دیئے۔ اس کے بعد حوثیوں نے بھی اسرائیلی بحری جہازوں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بحری ناکہ بندی کے بعد صنعا نے اب بین گوریون سمیت اہم ہوائی اڈوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی ناکہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ یمن میں انصار اللہ کے اہم رہنماء عبدالسلام نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ یمنی مسلح افواج کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ہوائی اڈوں بالخصوص بن گوریون ہوائی اڈے کی مکمل فضائی ناکہ بندی کا اعلان ایک بے مثال تاریخی لمحہ ہے اور یہ علاقائی تنازعہ کے ایک نئے دور کے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

بین گوریون حملہ:
یمن نے مرکزی اسرائیلی ہوائی اڈے کو نشانہ بنا کر مقبوضہ علاقوں کے اندر تزویراتی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
پروازوں کی معطلی:
یورپی ایئر لائنز جیسے Lufthansa نے مقبوضہ علاقوں کے لیے پروازیں 18 مئی تک معطل کر دی ہیں۔
صہیونی ردعمل:
یمنی حملوں کی وجہ سے پروازوں میں خلل اور عدم تحفظ نے مقبوضہ علاقوں میں احتجاج کی لہر کو ہوا دی ہے۔

بنیادی ڈھانچے کو خطرہ:
اگر تنازعہ بڑھتا ہے تو یمن میں اسرائیل کا پاور گرڈ، بجلی کی سپلائی اور دیگر اہم انفراسٹرکچر اگلا ہدف ہوسکتا ہے۔
عبرانی میڈیا رپورٹ: Yedioth Ahronoth اخبار نے اطلاع دی ہے کہ پروازوں کی منسوخی کی وجہ سے ہزاروں اسرائیلی پھنسے ہوئے ہیں اور صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ یمن کی نئی حکمت عملی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مزاحمت صرف علامتی کارروائیوں سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ خیال رہے کہ فضائی ناکہ بندی اسرائیلی کابینہ میں داخلی بحران میں اضافے اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔
 
 
تحریر: سید رضا عمادی
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی سوویں سالگرہ کی مناسبت سے پیغام دیتے ہوئے حوزہ کے اہم عناصر اور اس کی کارکردگیوں کی وضاحت کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق حوزہ علمیہ قم کی جدید تاسیس کی سوویں سالگرہ کی مناسبت سے پیغام دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حوزہ کے اہم عناصر اور اس کی کارکردگیوں کی وضاحت کی اور ایک پیشرو اور ممتاز حوزہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: نوآوری، ترقی، عصری تقاضوں کے مطابق رہنا، جدید مسائل کا جواب دینا، مہذب اور انقلابی روح کے حامل ہونا، اور معاشرتی نظامات تشکیل دینے کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے۔ رہبر معظم نے تاکید کی کہ حوزہ کی سب سے بڑی ذمہ داری "روشن تبلیغ" (بلاغ مبین) ہے، جس کا بہترین نمونہ نئی اسلامی تہذیب کے بنیادی و فرعی خطوط کی وضاحت، ترویج اور معاشرتی ثقافت سازی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام کی ابتداء میں چودہویں صدی ہجری شمسی کے آغاز میں پیش آنے والے عظیم اور سنگین واقعات کے درمیان حوزہ مبارکہ قم کی تشکیل کی تاریخ اور آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کی حوزہ کی جدید بنیاد اور اس کی بقا اور ترقی میں کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا: حوزہ علمیہ قم کا ایک بڑا فخر یہ ہے کہ یہاں سے حضرت روح اللہ (امام خمینیؒ) جیسا سورج طلوع ہوا اور اس حوزے نے صرف چھ دہائیوں کے اندر اپنی روحانی طاقت اور عوامی مقبولیت کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ عوامی طاقت کے ذریعے ایک غدار، فاسد اور گناہگار بادشاہی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور صدیوں بعد اسلام کو ملک میں سیاسی حکمرانی کے مقام پر پہنچانے میں کامیاب ہوا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس نکتے پر زور دیا کہ حوزہ علمیہ محض تدریس و تعلیم کا ادارہ نہیں بلکہ علم، تربیت اور سماجی و سیاسی فعالیتوں کا ایک ہمہ گیر مجموعہ ہے۔ آپ نے ان نکات کی وضاحت کی جو حوزہ کو حقیقت میں "پیشرو اور سرآمد" بنا سکتے ہیں۔

پہلے نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حوزہ قم شیعہ علمی سرمایے کا مرکز ہے، جو ہزاروں دینی علماء کی صدیوں پر محیط فکر و تحقیق کا نتیجہ ہے۔ یہ علماء فقہ، کلام، فلسفہ، تفسیر اور حدیث جیسے علوم میں نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

رہبر انقلاب نے عصر حاضر میں انسانی زندگی میں پیدا ہونے والے پیچیدہ مسائل اور بے مثال سوالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج اسلامی نظام کے قیام کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ شارع مقدس نے انسانی زندگی کے فردی اور اجتماعی پہلوؤں پر کس زاویے سے عمومی نگاہ ڈالی ہے، اور ہر فقیہ کا فتویٰ اسی عمومی نظریے کا مظہر ہونا چاہیے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے حوزہ علمیہ کی ایک اہم ذمہ داری یہ قرار دی کہ وہ اسلامی حکمرانی اور معاشرتی نظم و نسق سے متعلق مسائل کا فقہی جواب فراہم کرے۔ آپ نے حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات، ریاست کا بین الاقوامی روابط میں کردار، نظام اقتصادی، اسلامی حکومت کے بنیادی اصول، حاکمیت کا منبع، عوام کا کردار اور نظام سلطہ کے مقابلے میں مؤقف، عدل کا مفہوم اور دیگر اساسی و حیاتی موضوعات کو ایسے مسائل قرار دیا جن پر فقہی بنیاد پر مکمل اور جامع جواب تیار ہونا ضروری ہے۔

دوسرے نکتے میں، آپ نے اس بات پر زور دیا کہ حوزہ ایک برون گرا ادارہ ہے جس کی پیداوار فکر و ثقافتِ انسانی کی خدمت کے لئے ہونی چاہئے۔ آپ نے حوزے کی سب سے اہم ذمہ داری "بلاغ مبین" یعنی واضح اور روشن تبلیغ قرار دی اور فرمایا کہ اس فرض کی ادائیگی کے لئے مہذب اور کارآمد افراد کی تربیت لازمی ہے۔

رہبر انقلاب نے "بلاغ مبین" کے دائرہ کار کو توحید کے اعلیٰ معارف سے لے کر شرعی فرائض، اسلامی نظام کے بیان، اس کے ڈھانچے، طرز زندگی، ماحولیات اور انسانی حیات کے دیگر تمام پہلوؤں تک پھیلا ہوا قرار دیا۔ آپ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج حوزہ کی تبلیغی پیداوار فکری و ثقافتی میدان میں، خصوصاً نوجوانوں کے درمیان، معاشرتی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہے، اور چند سو مضامین، رسائل اور تقریریں مغالطہ آمیز سیلاب کے مقابلے میں ناکافی ہیں۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے "بلاغ مبین" کی مؤثر ادائیگی کو دو بنیادی عناصر یعنی "تعلیم" اور "تزکیہ" سے مشروط قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ طلبہ کو قوی دلائل کے ذریعے قائل کرنے کے طریقے، گفت و شنید کی مہارت، عوامی ذہنیت کو سمجھنے اور میڈیا و مجازی دنیا سے تعامل کا فن، نیز مخالفین کے ساتھ علمی و منظم انداز میں مکالمہ کرنے کے طریقے سکھانے چاہئیں، اور ان امور میں مسلسل مشق کے ذریعے انہیں میدان عمل کے لئے تیار کرنا چاہئے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ تبلیغ میں مثبت اور حملہ آورانہ انداز، دفاعی انداز سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ اس مقصد کے لئے حوزہ کو "ثقافتی مجاہد" تیار کرنے چاہئیں، جو نہ صرف ملکی نظام میں خصوصی ذمہ داریاں ادا کریں بلکہ حوزہ کے اندرونی انتظام و انصرام کو بھی مضبوط بنائیں۔

تیسرے نکتے میں، رہبر انقلاب نے حوزے کی "جہادی شناخت" کو پہچاننے، محفوظ رکھنے اور تقویت دینے پر زور دیا۔ آپ نے امام خمینیؒ کے سن ۱۳۶۷ھ ش میں روحانیت کے نام آخری پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امام نے علماء کو جہاد اور وطن و مظلومین کی حمایت میں پیشرو قرار دیا تھا، اور خبردار کیا تھا کہ تحجر اور مقدس نمائی کا خطرہ حوزے کو دین و سیاست کی جدائی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب نے واضح کیا کہ بعض غلط ذہنیتیں دینی قدسیت کو جہاد، سیاسی اور سماجی فعالیت سے متصادم سمجھتی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دینی قدسیت فکری، سیاسی اور عسکری جہاد کے میدان میں ہی نمایاں ہوتی ہے اور دین کے علمبرداروں کی قربانیوں سے مستحکم ہوتی ہے۔ لہٰذا حوزہ علمیہ کو اپنی معنوی ساکھ کی حفاظت کرتے ہوئے، عوام و معاشرے سے کبھی جدا نہیں ہونا چاہیے اور ہر قسم کے جہاد کو اپنی قطعی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔

چوتھے نکتے میں، آپ نے "حکومتی اور معاشرتی نظامات کی تشکیل و تبیین" میں حوزہ کے کردار پر زور دیا اور فرمایا: آج کے دور میں فقاہت کو محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا۔ "امت ساز فقہ" وہ ہے جو معاشرتی نظام کی تشکیل میں بھی راہنما ہو۔

آپ نے دنیا کی تازہ ترین علمی دریافتوں سے آگاہی اور یونیورسٹیوں سے علمی تعاون کو معاشرتی نظام سازی کے لئے ضروری قرار دیا۔

پانچویں نکتے میں، رہبر انقلاب نے "تمدنی نوآوری" کو بیان کیا اور فرمایا: حوزہ علمیہ کی سب سے اہم ذمہ داری "اسلامی تمدن" کی بنیاد فراہم کرنا ہے۔ ایسا تمدن جس میں علم و ٹیکنالوجی، انسانی اور قدرتی وسائل، سیاسی نظام، فوجی طاقت اور ہر انسانی قوت کو عدل عامہ، رفاہ عامہ، طبقاتی فاصلوں میں کمی، روحانی تربیت اور علم و ایمان کی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔

آپ نے موجودہ مادی اور انحرافی تمدن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے فرمایا کہ یہ باطل تمدن فطری قوانین کے مطابق نابود ہونے والا ہے، اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی نابودی میں کردار ادا کریں اور ایک برتر تمدن کی نظری و عملی بنیاد رکھیں۔ حوزہ علمیہ پر لازم ہے کہ وہ اسلامی تمدن کے اہم اور فرعی خطوط کو متعین کرے، ان کی وضاحت کرے اور انہیں معاشرت میں رائج کرے۔ یہ "بلاغ مبین" کا بہترین مصداق ہوگا۔

آخر میں، حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اجتہاد میں زمان و مکان کی رعایت اور نوتراشی کے نام پر دین کی خالصت کو نقصان پہنچنے سے بچانے پر زور دیتے ہوئے موجودہ حوزہ علمیہ قم کی صورتحال کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا: آج قم میں ہزاروں مدرسین، مصنفین، محققین اور خطباء موجود ہیں، علمی و تحقیقی رسائل شائع ہو رہے ہیں، تخصصی اور عوامی سطح پر مقالات تحریر ہو رہے ہیں، فکری و انقلابی سرگرمیوں میں طلاب و فضلاء بھرپور حصہ لے رہے ہیں، دنیا بھر کے طلبہ کی تربیت جاری ہے اور جوان فضلاء قرآن کریم اور اسلامی معارف کی گہرائیوں میں غور و فکر کر رہے ہیں۔ نیز، خواتین کے لئے حوزات علمیہ کا قیام ایک اہم اور مثبت اقدام ہے۔ یہ تمام امور اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ حوزہ علمیہ قم ایک زندہ اور متحرک مجموعہ ہے۔
https://taghribnews.com/vdch6-n-623nqxd.4lt2.html
11 ذی القعدہ کو آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔

حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے تھے۔ آپ نے اپنے والد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد امامت سنبھالی۔ امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر دنیا بھر سے مسلمان ایران میں واقع ان کے مقدس روضے کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی
حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت مدینہ منورہ میں 11 ذوالقعدہ 148 ہجری کو ہوئی۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آپ کا نام "علی" رکھا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا کے اظہار کے طور پر آپ کو "رضا" کا لقب عطا ہوا، اور آپ کی کنیت "ابوالحسن" تھی۔

آپ کی امامت کا دور 183 ہجری میں اس وقت شروع ہوا جب آپ کی عمر 35 برس تھی، اور آپ نے تقریباً 20 برس تک یہ الٰہی منصب سنبھالا۔ آپ کے دور امامت میں تین عباسی خلفاء کا زمانہ شامل ہے۔ پہلے دس برس ہارون الرشید، پھر پانچ برس امین، اور آخری پانچ برس مامون الرشید۔

جب امام رضا علیہ السلام نے امامت سنبھالی تو اس وقت سیاسی حکومت بغداد میں ہارون الرشید کے ہاتھ میں تھی۔ ہارون کی حکومت ظلم و جبر پر مبنی تھی، جس کے باعث وقت کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت کمزور ہونے لگی اور مختلف مقامات پر بغاوت ہونے لگی۔ اس موقع پر امام رضا علیہ السلام نے مدینہ میں اپنے منصب امامت کا اعلان کیا اور عوام کے دینی و سماجی مسائل کے حل میں بھرپور کردار ادا کیا۔

امام رضا علیہ السلام کی زندگی اور امامت کا دور وہ زمانہ تھا جب اہل بیت علیہم السلام کی طرف لوگوں کا رجحان اپنی بلندی پر تھا، اور ان کی عوامی حمایت میں غیر معمولی اضافہ ہورہا تھا۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایران آمد
حضرت امام رضا علیہ السلام کی امامت کا دور بیس سال پر مشتمل تھا، جس میں سے سترہ سال آپ نے مدینہ منورہ میں گزارے اور آخری تین سال ایران کے علاقے خراسان میں بسر کیے۔ ہارون الرشید کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مامون تخت خلافت پر بیٹھا۔

اس دور کے شیعہ امام رضا علیہ السلام کو اپنا الٰہی امام اور خلیفہ مانتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ عباسی خلیفہ مامون جانتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حقیقی جانشین سمجھا جاتا ہے لہذا ان سے خائف تھا۔ اسی خوف کے تحت مامون نے امام رضا علیہ السلام کو مرو بلانے کا فیصلہ کیا تاکہ ظاہری دوستی کا تاثر دے سکے اور یہ ظاہر کرے کہ اس کی حکومت کو امام علیہ السلام کی تائید حاصل ہے۔

ابتدائی طور پر امام رضا علیہ السلام نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا۔ لیکن جب مامون کی دعوت دھمکی میں بدل گئی، تو امام کو 200 ہجری میں مجبوراً خراسان کی طرف روانہ ہونا پڑا۔ امام نے یہ سفر خونریزی سے بچنے کے لیے اختیار کیا، تاکہ شیعوں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ آپ نے اس جبر سے بھرے سفر پر واضح ناراضگی کا اظہار کیا۔

جب امام رضا علیہ السلام نے محسوس کیا کہ اب سفر ناگزیر ہے، تو آپ نے بار بار مسجد نبوی میں حاضری دی اور اس انداز میں زیارت کی کہ ہر شخص سمجھ گیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کی مرضی کے خلاف ہے۔ اس کے بعد امام نے اپنے تمام قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو جمع کر کے فرمایا: میرے لیے روؤ، کیونکہ میں مدینہ واپس نہیں آؤں گا۔ یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ امام مامون کی شیطانی سازش سے بخوبی آگاہ تھے، لیکن حالات کے جبر کے سبب اس دعوت کو قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔

جب امام رضا علیہ السلام بالآخر مرو پہنچے، جو اس وقت مامون کا دارالخلافہ تھا، تو مامون خود اور کچھ ممتاز عباسی عمائدین نے آپ کا استقبال کیا۔

مامون اور امام رضا علیہ السلام
ابتداء میں مامون نے امام رضا علیہ السلام کو خلافت کی پیشکش کی، لیکن امام نے اس پیشکش کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ رد کر دیا اور فرمایا: اگر خلافت تمہارا حق ہے، اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس مقام کے لیے منتخب کیا ہے، تو تمہیں یہ اختیار نہیں کہ اسے کسی اور کو سونپو۔ تم اللہ کی طرف سے عطا کردہ منصب سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ اور اگر خلافت تمہارا حق نہیں، تو تمہیں یہ اختیار بھی نہیں کہ کسی ایسی چیز کی پیشکش کرو جو تمہاری ملکیت ہی نہیں۔

مامون نے جب خلافت کی پیشکش میں ناکامی دیکھی تو اس نے امام کو ولی عہد بنانے کی تجویز دی۔ امام علیہ السلام نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا، لیکن آخر کار شدید دباؤ کے تحت امام کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ تاہم اس سے پہلے امام نے چند شرائط رکھیں جن میں یہ شامل تھا کہ وہ حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گورنر یا عہدیدار کی تقرری یا برطرفی میں حصہ لیں گے۔ یہ شرائط اس بات کا کھلا ثبوت تھیں کہ امام رضا علیہ السلام مامون کی حکومت کو شرعی یا قانونی حیثیت نہیں دیتے تھے اور کسی سرکاری ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے تھے۔

امام رضا علیہ السلام کی شہادت
جب مامون کی تمام چالیں ناکام ہو گئیں اور اس نے دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے اور لوگ ان سے شدید محبت کرنے لگے ہیں، تو اس نے امام کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا۔ مامون نے انگور یا انار کے ذریعے امام کو زہر دیا، جس کے نتیجے میں 203 ہجری میں امام رضا علیہ السلام نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

آپ کو طوس یعنی موجودہ مشہد، ایران میں دفن کیا گیا۔ امام علیہ السلام کا عظیم روضہ آج بھی وہیں موجود ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے فرزند، حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام نے اپنے والد کے جسدِ مبارک کو غسل دیا اور نماز جنازہ پڑھائی، لیکن یہ عمل خفیہ طور پر انجام دیا گیا۔ امام کا جسدِ اقدس مشہد میں آپ کے پیروکاروں اور محبّین کی موجودگی میں دفن کیا گیا، اور صدیوں سے آپ کا روضہ ایرانیوں کے لیے برکت و عظمت کا باعث ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا روضہ مبارک ایران کا سب سے بڑا، اہم اور نمایاں مذہبی مرکز ہے جو ایرانی-اسلامی طرزِ تعمیر کی بہترین مثال ہے۔ ہر سال ایران اور دنیا بھر سے لاکھوں زائرین امام کے روضے کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
امام رضا علیہ السلام کے روضہ کا احاطہ عظیم الشان عمارتوں کا مجموعہ ہے جس میں خود روضہ مبارک، صحن، ایوانات (برآمدے)، ایک عجائب گھر، ایک عظیم کتب خانہ، چار مدارس دینیہ، ایک قبرستان، رضوی یونیورسٹی برائے علوم اسلامی، زائرین کے لیے وسیع دستر خوان، وسیع نماز ہال اور کئی دیگر عمارات شامل ہیں۔

مسجد گوہرشاد تیموری دور میں تعمیر کی گئی ایک عظیم الشان جامع مسجد ہے جو اب روضہ امام رضا علیہ السلام کے احاطے میں واقع ایک مرکزی مصلا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

یہ مسجد مشہد کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے، اور اپنی دلکش فنِ تعمیر کی بدولت یہ ایران کے اہم ثقافتی، تاریخی اور مذہبی مقامات میں شمار ہوتی ہے۔

ایرانی فن آئینہ کاری اور روضہ امام رضا علیہ السلام
آئینہ کاری ایرانی فن کا ایک خوبصورت حصہ ہے اور یہ فنِ تعمیر کی تزئین و آرائش کا ایک ذیلی شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس فن کی تاریخ ایران میں صفوی دور سے شروع ہوتی ہے اور قاجار دور میں یہ فن اپنے عروج پر پہنچا۔ اسی وجہ سے امام رضا علیہ السلام کے روضے کی موجودگی نے مشہد کو آئینہ کاری کے بڑے مراکز میں شامل کردیا۔

روضہ امام رضا علیہ السلام میں کئی مقامات اور ایوانات ایسے ہیں جو رنگا رنگ اور نفیس آئینوں سے مزین ہیں، جو روضے کی زیارت کے لئے آنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdchx-n-z23nqmd.4lt2.html
غزہ میں نہتے فلسطینی عوام کے خلاف جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے بعد عالمی سطح پر صہیونی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ جیسے اتحادی ملک میں بھی عوامی سطح پر تل ابیب کے جارحانہ اقدامات کی مذمت کی جارہی ہے۔

امریکی تحقیقی ادارے نے حالیہ سروے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں عوامی سطح پر اسرائیلی حکومت کے خلاف ناپسندیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، بالخصوص 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد یہ رجحان مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔

"پی یو" ریسرچ سینٹر کی تازہ ترین رائے شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچاس فیصد سے زائد امریکی شہری اسرائیل کے حوالے سے منفی رائے رکھتے ہیں۔ صرف 45 فیصد امریکیوں کا اسرائیل سے متعلق تاثر مثبت ہے۔

یہ اعداد و شمار گزشتہ برس کے نتائج سے نمایاں طور پر مختلف ہیں۔ 2022 میں اسی ادارے کے ایک سروے میں 55 فیصد امریکیوں نے اسرائیل کے لیے مثبت رائے ظاہر کی تھی، جب کہ 42 فیصد کی رائے منفی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل سے متعلق اس بدلتی ہوئی رائے کی دو اہم وجوہات ہیں:

1. عمر رسیدہ ڈیموکریٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل سے حد سے زیادہ قریبی تعلقات پر نالاں ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ حکومت نے اسرائیل کو حد سے زیادہ مراعات دی ہیں۔

2. نوجوان ریپبلکنز، جنہوں نے اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی حملوں کو قریب سے دیکھا اور دنیا بھر میں ان مظالم کے خلاف بڑھتی ہوئی آوازوں سے متاثر ہوکر اسرائیل کے حوالے سے منفی سوچ اپنائی ہے۔

اس بارے میں مرکز برائے جمہوریت مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر سیٹ بینڈر کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کے خیالات میں یہ تبدیلی گزشتہ دو دہائیوں سے جاری تھی، تاہم حالیہ عرصے میں نوجوان ریپبلکنز کی حمایت میں بھی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے امریکی عوام کو مجبور کیا کہ وہ صہیونی حکومت کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ حالیہ سروے کے مطابق ڈیموکریٹک ووٹرز میں 69 فیصد افراد اسرائیل کو ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کہ 2022 کے مقابلے میں 16 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جوبائیڈن کے دور میں اسرائیل کے حامی سمجھے جانے والے معمر ڈیموکریٹس کی بھی رائے بدل چکی ہے۔ اب 66 فیصد معمر ڈیموکریٹس اسرائیل سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں، جو گزشتہ تین برسوں میں 22 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

دوسری جانب اگرچہ ریپبلکن جماعت میں اسرائیل کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہے، تاہم 37 فیصد ریپبلکنز بھی اب اسرائیل سے متعلق منفی سوچ رکھتے ہیں۔ یہ شرح 2022 کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی بالخصوص نوجوان ریپبلکنز کی اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔

ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ نامی ادارے میں فلسطین و اسرائیل امور کے نگراں ایڈم شپیرو کا کہنا ہے کہ اب امریکی مین اسٹریم میڈیا کی اسرائیل نواز پالیسی عوامی رائے پر ویسا اثر نہیں ڈال پا رہی جیسا ماضی میں ڈالتی تھی، کیونکہ عوام سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع سے غزہ کے حقائق تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس رجحان سے فلسطینی عوام کی حمایت میں سرگرم امریکی طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کی اسرائیلی مظالم کے خلاف کوششوں کی کامیابی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

شپیرو نے مزید کہا کہ عراق و افغانستان جنگوں کے تلخ تجربات کے بعد امریکی عوام اب اپنی فوج کو بیرونی تنازعات میں ملوث دیکھنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق وسطی میں کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔

ادھر امریکی وزارت خارجہ میں مشرق وسطی کے سابق ڈپٹی سیکرٹری ڈیوڈ میک نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کی لہر بہت تیزی سے ختم ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں پر اسرائیلی جارحیت، نیز غرب اردن اور جنوبی لبنان میں جاری مظالم نے امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت کو اسرائیل سے بدظن کر دیا ہے۔ تاہم عوامی رائے میں اس واضح تبدیلی کے باوجود امریکی حکومت کی پالیسیوں میں ابھی تک کوئی نمایاں فرق نہیں آیا۔ کانگریس کی اکثریت خصوصا ڈیموکریٹک پارٹی کے برنی سینڈرز جیسے معدود ارکان کے سوا پارٹی اراکین کی اکثریت اب بھی اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد دینے کی حامی دکھائی دیتی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcci0qe02bqmx8.c7a2.html

ایران کی دفاعی صنعتوں کا تیار کردہ نیا میزائل اپنی کاربن فائبر باڈی اور جدید گائیڈنس اور کنٹرول سسٹم کے ساتھ دفاعی ریڈاروں  سے بچ رہنے کی اعلی اسٹیلتھ صلاحیتوں کا حامل ہے۔

ایران کے وزیر دفاع کے مطابق، THAAD جیسے سیٹلائٹ گائیڈڈ اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم  بھی جدید ترین ایرانی میزائل کے وار ہیڈ کو روکنے کے قابل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی وعدہ صادق 1 اور 2 جیسے بڑے فیلڈ تجربات کا نتیجہ ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران نے گزشتہ صیہونی حکومت کے خلاف وعدہ صادق 1 اور 2 کے نام سے دو بڑے کامیاب آپریشن کیے تھے اور ایرانی میزائلوں نے مقبوضہ فلسطین کے اندر صیہونی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کا تیار کردہ مشترکہ دفاعی نظام بھی ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا تھا۔

عسکری ماہرین کا خيال  ہے کہ بیلسٹک میزائلوں کی اپ گریڈیشن کے نتیجے میں اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال میں دشمن انٹرسیپٹ کرنے کی شرح ہر 100 میزائلوں کے مقابلے میں 5 سے بھی کم ہوجائے گی۔

ادارۂ حج کے منتظمین اور حجاج کرام نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔

تہران کے حسینیہ امام خمینی (رح) میں ہونے والی ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ حج ایک ایسی عبادت ہے، بلکہ شاید واحد ایسی عبادت ہے جس کی ظاہری شکل، ساخت اور ترکیب مکمل طور پر سیاسی ہے۔

انہوں نے فرمایا کہ حج کے موقع پر لاکھوں افراد ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں حجاج کا اکٹھا ہونا بذات خود ایک سیاسی اجتماع ہے۔ لوگوں کا اس طرح اکٹھا ہونا ایک سیاسی نوعیت کا عمل ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ حج کی سیاسی حیثیت کو کم کرنے والوں کے دعوؤں کے برعکس حج کی حقیقت اور اس کی ماہیت سراسر سیاسی ہے۔ اس کا انداز، اس کی ساخت  سب سیاسی ہے۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب کے آغاز میں شہید رجائی بندرگاہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کا ذکر کیا اور جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا اور انہیں تعزیت  پیش کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس حادثے کو تلخ اور دردناک قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے لیے صبر اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔
 
انہوں نے  فرمایا کہ یہ واقعی ایک تلخ اور دل سوز حادثہ تھا جو پوری قوم خاص طور پر متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک مصیبت بن گیا۔

رہبر انقلاب نے مختلف واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اداروں کو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہوتا رہتا ہے لیکن ان میں ہونے والے نقصانات پورے کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس حادثے میں کسی ادارے کو نقصان پہنچا ہے تو ان شاء اللہ ہماری جوان، متحرک اور لائق انتظامیہ جلد اس کی تلافی کرے گی۔

رہبر انقلاب نے شہداء کے خاندانوں کے لیے صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں پر صلوات بھیجتا ہے اور ان کے دلوں کو سکون اور اطمینان عطا فرماتا ہے۔

 

تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے اور استاد کو ایک فنکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے اندر علم، غور و فکر، اور تخلیقی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ اساتذہ اپنی روحانی تاثیر کے باعث طلبہ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی رہنمائی قوموں کی تقدیر بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اکثر افراد اپنی کامیابی کا سہرا اپنے اساتذہ کے سر باندھتے ہیں اور ان کی قربانیوں اور خدمات کو یاد کرتے ہیں۔

ایران میں یومِ اساتذہ ایک ایسا خاص دن ہے جس کا مقصد اساتذہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور ان کے تعلیمی میدان میں کردار کو سراہنا ہے۔ اس موقع پر مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اساتذہ کی علمی و تربیتی کاوشوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

یہ دن اسلامی انقلاب کے ممتاز نظریہ ساز اور شہید استاد مرتضیٰ مطہری کی برسی کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ ان کے یوم شہادت کو ملک میں یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آیت اللہ مرتضی مطہری کو یکم مئی 1979 کو شہید کیا گیا تھا۔

2 مئی کا دن آیت اللہ مطہری کی علمی خدمات، دینی افکار، اور ان کے قومی و انقلابی کردار کی قدردانی کے لیے مخصوص ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے فکری معماروں میں شمار ہوتے ہیں۔

آیت اللہ مطہری اپنے دور کی اہم ترین علمی و فکری شخصیات میں شامل تھے۔ اسلامی تعلیمات پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے عصری ضروریات کو سمجھتے ہوئے نوجوان نسل، بالخصوص اساتذہ اور دانشور طبقے کی فکری رہنمائی کی۔

امام خمینی کی جلاوطنی کے دوران شہید مطہری نے علماء اور دانشوروں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ تہران یونیورسٹی میں شعبۂ الٰہیات کے سربراہ بھی رہے اور اسلامی انقلابی کونسل کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی کونسل کے صدر بھی تھے۔

نوجوان نسل میں دینی شعور اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، جن میں داستانِ راستان کو خاص شہرت حاصل ہوئی اور 1965 میں یہ کتاب یونیسکو ایوارڈ کا مستحق بھی قرار پائی۔ انہوں نے زیادہ تر اسلامی موضوعات پر تقریر کی، جنہیں بعد از شہادت ان کے شاگردوں نے کتابی شکل دی۔

ان کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ عوامی حلقوں میں مقبول تھے، جب کہ مخالف گروہوں، بالخصوص فرقان گروپ کی طرف سے نشانہ بنے۔ یکم مئی 1979 کو تہران میں ایک میٹنگ سے واپسی پر انہیں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ فرقان گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

ایران میں اساتذہ کو معاشرے کے معمار تصور کیا جاتا ہے اور ان کے بغیر کسی قوم کی ترقی ممکن نہیں سمجھی جاتی۔ ایرانی عوام، نوجوان ہوں یا عمر رسیدہ، اساتذہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور اس دن انہیں تحائف یا پھول پیش کر کے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

ارنا کے مطابق وزارت خارجہ نے پابندیاں جاری رکھنے اور سخت تر کرنے پر امریکی اصرار کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔

 اس رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی کے نام امریکی صدر کے خط کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے پر امن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اورغیر ضروری اور جعلی بحران کے حل کی غرض سے  سفارتی راستے کے انتخاب  کے لئے آمادگی کا اعلان کیا اور قومی اعتماد و پشت پناہی کی بدولت حسن نیت کے ساتھ  امریکا سے بالواسطہ مذاکرات شروع کئے۔  

وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ، مذاکرات کے تین ادوار میں، جو انجام پائے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے مذکرات کاروں نے، ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی توانائی سے پر امن استفادے کے حق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے مطابق ملت ایران کے بر حق مطالبات اور موقف بیان کئے اور معقول نیز پائیدار اور منصفانہ سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کوشش کی ہے۔  

 اس بیان میں کہا گیا  ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سفارتی راستے پر چلنے کے اپنے عہد اور مذاکرات جاری رکھنے کے لئے اپنی آمادگی پر زور دیتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ دھمکی اور دباؤ پر مبنی اقدامات کو جو سب کے سب اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہیں اوران کا مقصد، ایرانی ہم وطنوں کے انسانی حقوق کو ضائع کرنا اور ان کے ملی مفادات کو نقصان پہنچانا ہے، ہرگز قبول نہیں کرے گا۔

  وزارت خارجہ کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران، غیر قانونی پابندیوں کے دوام اوراپنے تجارتی اور اقتصادی حلیفوں پر دباؤ ڈالے جانے کے اقدامات کی سخت مذمت کرتا ہے اور انہیں سفارتی راستے میں، امریکا کی سنجیدگی کی نسبت ایرانی عوام کی بدگمانی اور سوء ظن کے  حق بجانب ہونے کا ثبوت سمجھتا ہے۔

 اس بیان کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اس غیر قانونی طرز عمل کے جاری رہنے سے بین الاقوامی قوانین  پر مبنی ایران کے قانونی اور معقول موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور ناکام طرز عمل اور چالوں کو دوبارہ آزمانے کا نتیجہ ماضی کی سنگین ناکامی کی تکراری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔