سلیمانی
مشترکہ تعاون کو مضبوط اور معاہدوں پر عملدرامد کی رفتار تیز کی جائے گی، ایران اور پاکستان کی قیادت پرعزم
ترکمانستان میں امن اور اعتماد کانفرنس کے موقع پر صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر دونوں فریقوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات کی آخری صورتحال کا جائزہ لیا اور موجودہ باہمی معاہدوں پر عملدرامد کی رفتار تیز کرنے پر زور دیا۔
صدر مسعود پزشکیان اور پاکستان کے وزیر اعظم نے ایران اور پاکستان کی وسیع گنجائشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تہران اور اسلام آباد نقل و حمل اور راہداری منصوبوں، سرحدی تنصیبات میں فروغ اور صدر ایران کے دورہ اسلام آباد میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرامد کے لیے پرعزم ہیں۔
دونوں فریقوں نے معاشی، تجارتی اور مواصلاتی تعلقات میں اضافے نیز مشترکہ کاوشوں پر بھی زور دیا۔
صدر پزشکیان نے ایران اور پاکستان کے تاریخی، ثقافتی اور سرحدی مشترکات کو توانائی، تجارت، باہمی سلامتی، سرحدی مارکیٹوں میں فروغ اور عوامی رابطے کی بنیاد قرار دیا جس کے ذریعے پورے علاقے میں استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
"انا اعطینٰک الکوثر” بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
کلامِ الٰہی اور تفاسیر میں شان حضرت زہراء (ع)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سردار انبیاء و رحمۃ للعالمین کی دختر، سید الاوصیاء امام علی ؑ کی زوجہ اور امام حسن و امام حسین علیہما السّلام کی مادر گرامی ہیں۔ آپ اصحابِ کساء، پنجتن پاک میں سے اور معصومہ ہیں۔ زہراء، بتول، سیدۃ النساء، عذراء، محدثہ، معظمہ اور ام ابیہ وغیرہ آپ کے مشہور القابات ہیں۔
حضرت فاطمہ(س) واحد خاتون اسلام ہیں جو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ تھیں اس کے علاوہ سورہ کوثر ، آیت تطہیر،آیت مودت، آیت اطعام اورحدیث بضعۃ آپؑ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرمؑ نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے۔اسی کے ضمن میں ہم قرآن کی بعض آیات کے زریعے آپ کی شان بیان کریں گئے۔
قرآن کی آیات کی روشنی میں :
آیت تطہیر
"انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت لیطھرکم تطھیرا” ( احزاب :33)
"اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔”
یہاں اہل بیت سے مراد امام علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اور امام حسن وحسین علیھما السلام ہیں۔ اس حدیث کو شیعہ اور اہلسنت دونوں نے نقل کیا ہے۔ مثال کےطور ایک حدیث میں جناب ام سلمہ ؒ بیان فرماتی ہیں۔
یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا اور ان پر چادر ڈال دی پھر فرمایا:
اللھم ھولاء اھل بیتی
اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
آپ ہی کی ایک روایت ہےکہ جناب ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!
انک علی خیر،انک من ازواج النبی.
تم خیر پر ہو اور تم ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہو۔
اس کے علاوہ ابو سعید خدری کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت کےساتھ فرمایا
ھذہ الایۃ فی خمسۃ فی و فی علی وحسن و حسین و فاطمہ۔
یہ آیت پنجتن کی شان میں ہے، یعنی میرے ، علی اور حسن و حسین و فاطمہ سلام اللہ علیھم کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(الکوثر فی تفسیر القرآن ، سورہ احزا ب: ۳۳)
آیت مباہلہ:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ“ “(آل عمران،)61
"آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
شیعہ اور اہلسنت مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجران کےنصاری کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کو اقنوم ثلاثہ میں سے ایک مانتے ہوئے انکو معبود کے درجے تک لے جاتے تھے اورعیسیٰؑ کےبارے میں قرآن کریم کی توصیف سے متفق نہیں تھے جس میں انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی قرار دیا گیا تھا۔ جب پیغمبر اکرم(ص) کی گفتگو اور دلائل عیسائیوں پر مؤثر ثابت نہ ہوئے تو آپؐ نے ان کو مباہلے کی دعوت دی۔
محدثین، مفسرین،مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور(ص) نے مباہلے کے موقع پر حسنین ، فاطمہ اور علی علیھم السلام کو ساتھ لیا۔
سیرت نگاروں اور مورخین میں سے کسی نے بھی اس بات میں اختلاف نہیں کیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن ، حسین ، فاطمہ اور علی علیھم السلام کا ہاتھ پکڑ کر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی۔(الکوثر فی تفسیر القرآن ، آل عمران: ۶۱)
آیت مودت
"قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى” (سورہ شوریٰ ۲۳)
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے صاحبان قرابت کی محبت کے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت مدینہ اور اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے بعدانصار نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلامی نظام کے انتظام کے لیے کہا کہ ” اپنے نئے معاشرے کی تشکیل کے لئے اگر آپ کو مالی اور معاشی ضرورت ہے تو ہماری پوری دولت اور تمام وسائل آپ کے اختیار میں ہیں، جس طرح آپ خرچ کریں اور ہمارے اموال میں جس طرح بھی تصرف کریں، ہمارے لئے اعزاز و افتخار کا باعث ہوگا تو فرشتہ وحی آیت مودت لے کر نازل ہوا۔
سعید بن جبیر سے روایت ہےکہ جب آیت مودت نازل ہوئی تو ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ! آپ کے وہ قریبی کون سے ہیں؟ کہ جن کی مودت ہم پر واجب ہے تو آپ (ص) نے ارشاد فرمایا اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے ہیں۔ (تفسیر نمونہ، سورہ شوریٰ:۲۳)
سورۂ کوثر
"انا اعطینٰک الکوثر” ( کوثر:1)
بے شک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
مفسرین نے لفظ کوثر کی تفسیر میں بہت سارے مطالب بیان کئے ہیں۔ اس سلسلے میں لفظ کوثر کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ شیعہ علماء "کوثر” کے مصداق کو حضرت فاطمہؑ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس سورت میں ان اشخاص کا تذکرہ ہے جو پیغمبر اکرمؐ کو بے اولاد اور ابتر سمجھتے تھے حالنکہ آنحضرت ؐ کی اولاد آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہؑ کی نسل سے آگے بڑھی جنہوں نے امامت جیسے عظیم عہدے کو سنبھال کر دین اسلام کی آبیاری کی جس کی بنا پر آج اسلام کا یہ تنومند درخت پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔(تفسیر نمونہ، سورہ کوثر)
آیت قربیٰ
واٰت ذاالقربیٰ حقہ.
اور قریب ترین رشتہ دار کو اس کا حق دیا کرو۔
"ذَا الْقُرْبَىٰ” کے بارے میں مفسرین کے درمیان یہ سوال ایجاد ہوتے ہیں کہ آیا اس سے مراد ہر رشتہ دار ہیں یا صرف پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار مراد ہیں؟ تفسیر نمونہ کے مطابق شیعہ آئمہ معصومین سے نقل شدہ احادیث کے مطابق "ذَا الْقُرْبَىٰ” سے صرف اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لیکن یہ احادیث آیت کے مصادیق کو صرف اہل بیت میں منحصر نہیں کرتیں بلکہ اہل بیت کو اس کا کامل مصداق قرار دیتی ہیں لہٰذا ہر شخص سے اپنے رشتہ داروں سے متعلق پوچھا جائے گا۔
شیعہ اور اہلسنت احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے فدک بطور ہدیہ عطا فرمایا۔ حدیث میں ہے۔
جب آیت واٰت ذاالقربیٰ حقہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو بلایا اور انہیں فدک عنایت فرمایا۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن، الاسراء :۲۶ )
آیت اطعام
وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسْكِينًۭا وَيَتِيمًۭا وَأَسِيرًاإِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءًۭ وَلَا شُكُورًا" (دھر)
یہ آیت اس مشہور واقعہ کے بعد نازل ہوئی ۔جب امام حسن اور امام حسین علیھما السلام بیمار ہوئے تو گھر میں تما م افراد نے ان کی صحتیابی کےلیے تین دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ۔ جب آپ دونوں تندرست ہوگئے تو سب گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کے وقت دروازے پر سائل نے صدا دی اے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !کوئی ہے جوبھوکے کو کھانا کھلائے۔ انہوں نےاپنا مکمل کھانا سوالی کو عطا کردیا یہی واقعہ تین دن پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی۔
بعض اہلسنت مفسرین کی نگاہ میں آیت اطعام اہل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں اہلسنت کے 34 علماء کا نام لکھا ہے جنہوں نے متواتر طور پر تائید کی ہےکہ یہ آیات اہل بیتؑ کی شان اورامام علی، فاطمہ حسن اور حسین علیھم السلام کے فضائل بیان کرتی ہیں۔ شیعہ علماء کی نگاہ میں اس سورہ کی اٹھارہ آیات مکمل سورہ انسان اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور تفسیر یا حدیث کی کتابوں میں اس واقعہ سے مربوط روایت کو علیؑ، فاطمہ ؑ اور ان کے فرزندان کے افتخارات اور اہم فضائل میں سے ایک قرار دیا ہے۔(تفسیر نمونہ، سورہ انسان 9،۸)
بے نمازی کو نماز کی طرف مائل کرنے کا سنہری نسخہ
حجتالاسلام والمسلمین علیرضا پناہیان نے اپنی ایک تقریر میں لوگوں کو نماز کی جانب راغب کرنے کے عملی طریقے بیان کرتے ہوئے کہا: "بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ بے نمازی افراد کو کیسے قائل کریں کہ وہ نماز پڑھیں؟"
اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ نماز کیوں ضروری ہے؛ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ خود نماز گزار نے نماز سے کیا فائدہ حاصل کیا ہے؟
نماز پڑھنے والا شخص اپنی نماز کا اثر اپنے کردار اور رویّے میں ظاہر کرے۔ جو سکون، لذت اور برکتیں اسے نماز سے ملی ہیں، وہ دنیا کے سامنے اپنے اخلاق اور عمل سے نمایاں کرے تاکہ دوسرے بھی نماز کے شوق میں آگے آئیں۔ اکثر بے نماز لوگ نماز پڑھنے والوں کو دیکھ کر کہتے ہیں: "تم جو نماز پڑھتے ہو، تمہاری زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟"
نماز گزار کا اخلاق، برتاؤ اور شخصیت یہ بتائے کہ نماز نے اس کی زندگی کے کس حصے کو سنوارا اور کیسے اس کی روحانی کیفیت دوسروں کے لیے باعثِ کشش بنی۔
ہمیشہ ایک سنہری اصول یاد رکھیں: "جب تک اچھے لوگ مزید بہتر نہیں بنتے، بُرے لوگ اچھے نہیں بنیں گے۔"
صہیونی حکومت سے تعلقات منافقت اور امت مسلمہ سے غداری ہے، یمنی رہنما کی الجولانی پر شدید تنقید
یمنی مقاومتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے تحریر الشام کی جانب سے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے امریکہ نوازی، منافقت اور امت مسلمہ کے مفادات سے صریح انحراف قرار دیا ہے۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کی ولادت باسعادت اور یوم مادر و یوم خواتین کے موقع پر ٹی وی خطاب میں عبدالملک الحوثی نے کہا کہ شام پر قابض تکفیری ایک ایسے ذلت آمیز اور پسپائی پر مبنی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں جو واشنگٹن کی خوشنودی اور صیہونی حکومت کے قریب جانے پر قائم ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کے باوجود تل ابیب سے قربت بڑھا رہے ہیں کہ اسرائیل مسلسل شامی سرزمین پر حملے کررہا ہے اور اس کے بعض حصوں پر قابض بھی ہے۔
یمنی رہنما نے صیہونی حکومت کی جارحانہ فطرت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل عالمی طاقتوں کی ضمانت سے طے پانے والے بین الاقوامی معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی کرچکا ہے، جس کی واضح مثالیں آج غزہ اور لبنان میں جاری قتل و غارت گری کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ یہ اقدامات اسرائیل کی مجرمانہ ذہنیت اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
عبدالملک الحوثی نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ ظالم اور استکباری قوتوں پر انحصار کے بجائے اپنے حقیقی مشن کی جانب لوٹے، جس میں عدل کا قیام، مظلوموں کا دفاع اور طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانا شامل ہے۔ امت کو اپنی فکری اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط بناتے ہوئے عزت، وقار اور عالمی کردار کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
یمنی رہنما نے صیہونی مظالم کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں ہزاروں مسلمان خواتین، جن میں حاملہ عورتیں، کم سن بچیاں، نوجوان اور معمر خواتین شامل ہیں، صیہونی جارحیت کا نشانہ بن چکی ہیں۔
انہوں نے اس صورتحال کو انسانی اقدار اور عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان قرار دیا۔
بکھرتا سوڈان سونے کی ہوس اور ہتھیاروں کی فروخت، سوڈان میں امارات کی خونزیری
گزشتہ دو برسوں سے متعدد میڈیا رپورٹس، تحقیقی دستاویزات اور فریقین کے بیانات سے اس امکان کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ امارات نے تیزرفتار (Rapid Support Forces ) فورسز کو مالی یا لاجسٹک مدد فراہم کی ہے، اگرچہ ابوظبی بارہا ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔ تسنیم نیوز کے مطابق، سوڈان کی جنگ جو اب اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے، دنیا کے پیچیدہ ترین اور سب سے نظرانداز شدہ انسانی بحرانوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ 2023 کے اپریل سے شروع ہونے والی اس لڑائی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور دارالحکومت خرطوم سمیت کئی بڑے شہر عملاً تباہ ہو چکے ہیں۔ اس بحران کو مزید پیچیدہ بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ بیرونی ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات پر جنگ کو شدید تر کرنے یا طول دینے کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں، اگرچہ امارات ان کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
جنگ کیسے شروع ہوئی؟:
موجودہ لڑائی کی وجہ سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور تیزرفتار فورسز (RSF) کے کمانڈر محمد حمدان دقلو (حمیدتی) کے درمیان پرانی رقابت ہے۔ یہ دونوں عسکری ڈھانچے 2019 کی بغاوت کے بعد طاقتور ہوئے، اور بالآخر ان کے اختلافات ایک وسیع شہری جنگ میں بدل گئے۔ سعودی عرب اور مصر سوڈانی فوج کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ امارات کو RSF کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ آج خرطوم، ام درمان اور الفاشر جیسے شہر جنگ کے میدان بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 1 سے 1.2 کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جس سے یہ بحران حالیہ برسوں کی سب سے بڑی انسانی تباہی بن گیا ہے۔
امارات کا نام کیوں بار بار آ رہا ہے؟:
1. سونے کے ذخائر پر کنٹرول: آر ایس ایف اور اماراتی تجارتی نیٹ ورکس کے درمیان گہرے معاشی روابط موجود رہے ہیں۔ حمیدتی کی فورسز برسوں تک سوڈان کی سونے کی کانوں، خصوصاً جبل عامر پر قابض رہی ہیں۔ اس سونے کا بڑا حصہ امارات کے ذریعے عالمی منڈی میں فروخت ہوتا تھا۔ اسی معاشی مفاد کی بنیاد پر بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ امارات کی ممکنہ حمایت کا مقصد سوڈان کے سونے تک مسلسل رسائی کو یقینی بنانا ہے۔
2۔ اسلحے کی ترسیل اور تجارت: سوڈان کی حکومت نے 2025 میں امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ آر ایس ایف کو اماراتی ہوائی راستوں سے اسلحہ ملتا ہے۔ اگرچہ کسی سرکاری سطح پر اسلحہ فراہم کرنے کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا، لیکن مشکوک کارگو پروازوں اور چینی ساختہ آلات کی بعض معلومات نے شبہات کو تقویت دی ہے کہ امارات پس پردہ لاجسٹک نیٹ ورک سے مدد فراہم کر سکتا ہے۔
3. جیوپولیٹیکل اہداف: گزشتہ دہائی سے امارات افریقہ اور بحیرۂ احمر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ سوڈان کے بحری راستے اور بندرگاہیں اور اس کی جغرافیائی اہمیت، امارات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ بعض ماہرین امارات، مصر اور حتیٰ کہ چین کے درمیان خاموش مقابلے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
امارات کا دھندلاتا سافٹ امیج:
اس پورے سیاق میں "اسپورٹس واشنگ" (Sportwashing) بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ یورپ کی مشہور ٹیموں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری، مثلاً شیخ منصور کی ملکیت میں مانچسٹر سٹی کلب، امارات کے جدید، محفوظ اور پرکشش چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی بلاگرز اور مشہور شخصیات سوشل میڈیا پر امارات کی دلکش تصویریں پیش کرتے ہیں، لیکن ناقدین کے مطابق یہ خوبصورت تاثر سوڈان جیسے ممالک میں امارات کے ممکنہ عسکری کردار سے متصادم ہے۔
کیا سوڈان واپسی کے راستے سے آگے نکل چکا ہے؟:
سوڈان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر علاقائی طاقتوں کی حمایت جاری رہی، اور آر ایس ایف کو سونے سے ہونے والی آمدنی میسر رہی، تو جنگ کے طول پکڑنے اور ملک کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ ممکن ہے مغربی حصّہ آر ایس ایف کے ہاتھ میں رہے اور مشرقی و شمالی علاقے فوج کے زیرِانتظام چلے جائیں، بالکل اسی طرح جیسے پہلے سوڈان جنوبی حصے سے محروم ہو چکا ہے۔
اگر عالمی اور علاقائی طاقتیں، خصوصاً امارات، سعودی عرب، مصر اور امریکا، مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو ایک سیاسی معاہدہ ممکن ہے، لیکن یہ راستہ نہایت مشکل اور طویل ہے۔ سب سے خطرناک امکان انسانی بحران کا شدید تر ہونا ہے۔ اگر امدادی راستے بند رہے اور الفاشر جیسے شہر محاصرے میں رہے، تو سوڈان یمن کے بعد دنیا کی سب سے بدترین انسانی تباہی والا ملک بن سکتا ہے، جس کی علامات پہلے ہی ظاہر ہو چکی ہیں۔
سوڈان کا بحران صرف دو فوجی لیڈروں کی جنگ نہیں، بلکہ سونے، اسلحے، علاقائی اثر و رسوخ، جیوپولیٹکس، اور میڈیا بیانیوں کا ایک مرکب ہے۔ امارات کا کردار، خواہ اسلحہ بھیجنے کے الزامات ہوں، سونے کے ذریعے معاشی نفوذ ہو، یا اسپورٹس واشنگ، اس سارے تجزیے کا مرکزی حصہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف مصر اور سعودی عرب، سوڈانی فوج کی پشت پر ہیں، جس سے جنگ مزید پیچیدہ اور طویل ہوتی جا رہی ہے۔ آخری حقیقت یہ ہے کہ سوڈان بکھر رہا ہے، اور اس بکھراؤ کی قیمت صرف عوام ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی اتفاقِ رائے اور بین الاقوامی نگرانی کے بغیر امن کا کوئی روشن امکان قریب نظر نہیں آتا۔
استغفار کا معنی و مفہوم قرآن و حديث کے رو سے
ایکنا نیوز- مادّہ "غفر" کے مشتقات قرآن میں مختلف صرفی صورتوں کے ساتھ 234 بار آئے ہیں۔ ان میں سے صرف سات مقامات پر مغفرت طلب کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو 91 مرتبہ صفت "غفور"، پانچ مرتبہ صفت "غفّار" اور ایک مرتبہ وصف "غافر" کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ خطاکاروں کے ساتھ معاملے میں مغفرت کی اتنی کثرت، اللہ کی بے پایاں شفقت اور رحمت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگرچہ مغفرت کے معنی ڈھانپنے اور چھپانے کے ہیں، لیکن اللہ کی طرف سے گناہوں کا ڈھانپ دینا، انسانی درگزر سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ اس سے کسی طور پر قابلِ قیاس بھی نہیں۔ انسان جب کسی کو معاف کرتا ہے تو صرف اس کی غلطی سے چشمپوشی کرتا ہے، لیکن گناہ کی حقیقت باقی رہتی ہے اور دل و جان پر ناپاکی اور میل کچیل کی طرح جم جاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: "رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ" (مطففین: 14) یعنی "ان کے دلوں پر ان کے اعمال نے زنگ چڑھا دیا۔
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی، گناہ کے اثرات اور اس کے نتائج کو بالکل مٹا دینے کے معنی میں ہے۔
الہٰی پردہپوشی اور غفران، مغفرت کی سب سے اعلیٰ شکل ہے جو ہمارے تصور سے بھی بڑھ کر ہے اور صرف خالقِ کائنات ہی کے شایانِ شان ہے۔ بعض حالات میں یہ پردہپوشی اس درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ گناہ بھی نیکیوں میں بدل دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں، جنہوں نے بڑے بڑے گناہ کیے اور جو دوزخ میں دوگنے عذاب کے مستحق تھے، قرآن ارشاد فرماتا ہے کہ...
: «إِلَّا مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَ كَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا» (فرقان: ۷۰).
ایران واحد ملک ہے جس نے صہیونی حکومت کو دندان شکن جواب دیا، وزیر دفاع
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر دفاع جنرل عزیز نصیرزاده نے کہا ہے کہ ایران واحد ملک ہے جس نے 12 روزہ جنگ میں صہیونی حکومت کو دندان شکن جواب دیا۔
انہوں نے کہا کہ یوم طلباء در حقیقت عالمی استکبار کے خلاف مبارزہ کا دن ہے اور آج استکبار کی سب سے واضح مثال امریکہ ہے۔ امریکہ نے عالمی حالات اور جغرافیائی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاکر جاگیر دارانہ نظام قائم کیا اور اپنی طاقت کے ذریعے دنیا کے تمام اقیانوسوں میں تسلط قائم کرنے کا دعوی کیا، جس سے استکبار کی اصل فطرت آشکار ہوئی۔
انہوں نے ایران کی دفاعی اور نظامی طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ 12 روزہ میں ایران کی مسلح افواج نے صہیونی حکومت کو شدید نقصان پہنچایا اور اسے جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کیا، جس سے ایران کی دفاعی صلاحیت اور اقتدار کا واضح مظاہرہ ہوا۔
جنرل نصیر زاده نے ایران کی تاریخ اور حریت پسندانہ فطرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور ایران کی فطرت ایک دوسرے سے متصادم ہے؛ امریکہ مستکبر اور ایران خودمختار ہے۔ تاریخ میں ایرانی قوم نے کبھی بھی سر نہیں جھکایا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
وزیر دفاع نے طلباء کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں طلباء کو چاہئے کہ وہ علمی اور فکری شناخت برقرار رکھیں، کلاس رومز، تدریسی طریقے اور نصاب کو ایسے استعمال کریں کہ نئے علمی افق کھلیں اور تحقیق و جستجو کی راہیں ہموار ہوں۔ طلباء کی حقیقی شناخت جستجو، نئے سائنسی دروازے کھولنے اور نامعلوم حقائق کو سمجھنے میں ہے۔ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں علم کی روشنی پھیلائیں اور دوسروں کو حقائق سے آگاہ کریں۔
20 برسوں میں یورپ کی تہذیبی تباہی کی امریکی پیشین گوئی
امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اپنی نئی قومی سلامتی کی دستاویز میں دعویٰ کیا ہے کہ یورپ کی تہذیب اگلے دو دہائیوں کے اندر تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس ہنگامہ خیز دستاویز میں امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کو بیان کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یورپ میں امریکہ کے بعض قدیم ترین اتحادی ممالک ناقابل کنٹرول ہجرت کے باعث آئندہ 20 سال میں سنگین اور حقیقی تہذیبی زوال کے امکان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس متنازعہ دستاویز میں یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے بے لگام ہجرت کی اجازت دے کر اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگا کر موجودہ بحران کو بڑھایا ہے۔
حکمتِ عملی کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو یہ براعظم 20 سال یا اس سے بھی کم عرصے میں ناقابلِ شناخت ہو جائے گا۔ دستاویز میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ آیا بعض یورپی ممالک کے پاس اتنی مضبوط معیشتیں اور فوجی طاقت باقی رہے گی کہ وہ امریکہ کے قابلِ اعتماد اتحادی بنے رہ سکیں۔ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی دستاویز میں یورپ کے روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اختیار کردہ مؤقف پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔ دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یورپ اعتماد کی کمی کا شکار ہے، جو سب سے زیادہ اس کے روس کے ساتھ تعلقات میں نمایاں ہوتی ہے۔
اگرچہ یورپی ممالک کے پاس روس کے مقابلے میں سخت طاقت (یعنی فوجی طاقت) میں قابلِ ذکر برتری ہے، لیکن یوکرین جنگ کے باعث وہ اب روس کو بقا کے لئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ امریکی اسٹریٹجی میں بعض یورپی حکومتوں کے یوکرین سے متعلق مؤقف پر بھی تنقید کی گئی ہے اور نامعلوم حکام پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ توقعات رکھتے ہیں، جبکہ خود اپنے ممالک میں غیر مستحکم اقلیتی حکومتیں چلا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ بعض یورپی ممالک میں عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان کی حکومتیں جمہوری عمل کو کمزور کرکے اس عوامی خواہش کو روک رہی ہیں۔
مہاجرت کا مسئلہ اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ حکمتِ عملی کے مصنفین نے نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے چند عشروں میں، نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بن جائیں۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار کے زوال سے متعلق بیانات، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اس سے قبل جرمنی میں ایک سلامتی کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی بازگشت قرار دی گئی ہے، جہاں انہوں نے یورپی رہنماؤں کو دائیں بازو کے نظریات پر سیاسی سنسرشپ کا الزام دیا تھا۔ اگرچہ اس 33 صفحات پر مشتمل قومی سلامتی کی حکمت عملی کا لہجہ سخت ہے، لیکن اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسٹریٹجک اور ثقافتی اعتبار سے یورپ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
ٹرمپ کے یورپی تہذیب کے مستقبل پر دعوے:
امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ قیادت حکومت نے جاری کی، نہ صرف یورپ کے مستقبل کے بارے میں تشویشات بیان کرتی ہے بلکہ امریکہ یورپ تعلقات کے ممکنہ تناؤ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ دستاویز میں یورپ کی تہذیب، امن، معاشی استحکام اور نیٹو جیسے اہم اتحادوں کے مستقبل پر سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مرکزی دعویٰ: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں بے قابو مہاجرت کے سبب تہذیبی اور سماجی ڈھانچہ بنیادی خطرے سے دوچار ہے۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یورپ 20 برسوں میں شناخت کے قابل نہیں رہے گا۔ یورپی یونین سمیت بین الاقوامی اداروں پر الزام ہے کہ وہ ہجرت کو منظم کرنے میں ناکام رہے۔ آزادیٔ اظہار پر پابندی کو یورپی بحران کی ایک اور وجہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ سیاسی نوعیت کا ہے اور دائیں بازو کے حلقوں میں موجود بیانیے کی توسیع ہے، جو مہاجرت کو وجود کو لاحق خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار اور سوشل پالیسیوں کے تناظر میں یہ پیش گوئی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے، تاہم یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں حقیقی بحث کا موضوع ضرور ہیں۔
۔ یورپ کی سیاسی و عسکری کمزوری پر امریکی تشویش: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کچھ یورپی ممالک کی معیشتیں اور فوجیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔ یورپ روس کے بارے میں اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔ یوکرین جنگ نے یورپ کو دفاعی لحاظ سے مزید کمزور اور خوفزدہ بنا دیا ہے۔ یہ نقطہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں یورپ دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں امریکہ پر انحصار بڑھا رہا ہے۔ یورپی یونین اندرونی اختلافات، مہنگائی اور سیاسی تقسیم سے دوچار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نیٹو میں امریکہ کے بوجھ سے بارہا ناخوشی کا اظہار کر چکی ہے۔ یہ تنقید اس وسیع تر امریکی پالیسی رجحان کا حصہ ہے جو یورپ سے زیادہ عسکری خود مختاری کی توقع رکھتی ہے۔
۔ نیٹو کا مستقبل، کیا یہ اتحاد کمزور ہوگا؟: دستاویز کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چند دہائیوں میں نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بنا سکتے ہیں۔ یہ بیان صرف آبادیاتی تشویش نہیں بلکہ نیٹو کی شناخت اور اس کے اسٹریٹجک مفادات کے بارے میں سوالات کھڑا کرتا ہے۔ امریکہ یورپی اراکین پر اخراجات بڑھانے اور دفاعی ذمہ داریاں سنبھالنے کا دباؤ بڑھا رہا ہے۔ مستقبل میں نیٹو کے اندر سیاسی ہم آہنگی کم ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں نیٹو ایک غیر مستحکم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔
۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار اور سیاسی سنسرشپ پر تنقید: دستاویز یورپ پر الزام لگاتی ہے کہ وہ دائیں بازو کی سیاسی سوچ کو سسٹمیٹک طور پر محدود کر رہا ہے۔ میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارمز میں سیاسی درستگی کے نام پر اظہار رائے کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ نکتہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے پہلے سے موجود نظریات کی بازگشت ہے۔ یورپ واقعی نفرت انگیز تقریر کے قوانین کو سخت کر رہا ہے، لیکن انہیں تہذیب کے زوال کا ثبوت قرار دینا سیاسی الزام کے دائرے میں آتا ہے نہ کہ سائنسی تجزیے میں۔
یورپ، امریکہ تعلقات پر ممکنہ اثرات:
دستاویز کا سخت لہجہ مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اس کا مثبت رخ ہے، یورپ دفاعی خودمختاری کی طرف مائل ہو سکتا ہے، امریکہ اور یورپ کے درمیان عملی تعاون میں نئے ڈھانچے تشکیل پا سکتے ہیں۔ اور منفی پہلو یہ ہے، سفارتی تناؤ میں اضافہ، نیٹو کی کمزور ہوتی داخلی ہم آہنگی، یورپی ممالک کا امریکی پالیسیوں پر عدم اعتماد۔ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی دستاویز ایک سخت سیاسی بیانیہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد یورپ پر دباؤ بڑھانا، مہاجرت مخالف ایجنڈے کو تقویت دینا، اور نیٹو میں امریکی بوجھ کم کرنے کے لیے رائے عامہ تیار کرنا ہے۔ اگرچہ یورپ کو واقعی آبادیاتی، سیاسی اور دفاعی چیلنجز درپیش ہیں، لیکن "20 سال میں یورپی تہذیب کے خاتمے" کا دعویٰ مبالغہ آمیز اور سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔
ابوشباب کی ہلاکت، مزاحمت کی ناقابل شکست مقبولیت کا ثبوت
غزہ میں اسرائیل کے ایجنٹ اور ایک دہشتگرد نیٹ ورک کے سرکردہ ملزم ابوشباب کی ہلاکت، چاہے اس کے پسِ پردہ عوامل کچھ بھی ہوں، اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جاسوسی منصوبے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ غزہ کی سماج میں حماس کی جگہ اسرائیلی ایجنٹوں کو متبادل کے طور پر لانے کا منصوبہ پہلے ہی دن سے ایک ہارا ہوا جُوا ثابت ہوا ہے۔ تسنیم کے بین الاقوامی ڈیسک کے مطابق جمعرات کو یاسر ابوشباب، جو اسرائیل کے بدنام ترین غزہ میں سرگرم دہشتگرد اور ایجنٹ کارندوں کا سرغنہ تھا، اس کی ہلاکت کی خبر کے بعد اس واقعے پر مختلف تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔
یاسر ابوشباب نسل کشی پر مبنی جنگ کے دوران غزہ میں اسرائیلی انٹیلی جنس اور قابض فوج کے ساتھ مکمل تعاون میں ملوث تھا، اور اس دوران اُس نے فلسطینی شہریوں کے خلاف بے شمار جرائم انجام دیے۔ ابوشباب کی موت اور اس کے اسباب سے متعلق متضاد آراء موجود ہیں۔ فلسطینی صحافی اور مصنف ثابت العمور نے اس بارے میں کہا ہے کہ ابوشباب کے قتل کے نتائج اور اثرات کو سمجھنے کے لیے دو بنیادی سوالات کے جواب ضروری ہیں، نمبر ایک ابوشباب کیسے مارا گیا؟ اور دوسرا سوال کہ اسے کس نے قتل کیا؟
ابوشباب کے قتل کا ممکنہ منظر نامہ:
العمور نے ابوشباب کے قتل کے بارے میں کہا ہے کہ ممکن ہے کہ ابوشباب مجاہدین کے گھات میں پھنس گیا ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ صہیونیوں نے غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے کے دوسرے مرحلے کے قریب آنے پر اسے خود قتل کیا ہو۔ اسی تناظر میں عرب تجزیہ کار ڈاکٹر ایاد القرا نے بھی کہا ہے کہ یاسر ابوشباب کا انجام، تمام ممکنہ منظرناموں کے باوجود، اس اسرائیلی منصوبے کے انہدام کا واضح ثبوت ہے جس کا مقصد غزہ میں اندرونی ایجنٹ نیٹ ورکس کا نمونہ تیار کرنا تھا۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ اس کی ہلاکت اس کی اپنی ٹیم کے اندر اثرو رسوخ اور مفادات پر ہونے والے اندرونی جھگڑے کا نتیجہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ابوشباب کا قتل، خواہ اسے کسی نے بھی انجام دیا ہو، ایسے منصوبے کے خاتمے کی علامت ہے جسے اسرائیل نے غزہ کے سماج میں قبائلی رجحانات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مزاحمت کے عوامی حمایت کے مرکز کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر تشکیل دیا تھا۔
فلسطینی سماج میں اسرائیل کا ناکام داؤ:
1۔ فلسطینی مصنف نے واضح کیا ہے کہ صہیونیوں نے یاسر ابوشباب اور اس کی ٹیم پر حد سے زیادہ انحصار کیا ہوا تھا، اور ان ایجنٹ گروہوں پر اسرائیل کا سرمایہ کاری شدہ منصوبہ پوری طرح ناکام ہوگیا۔ اسی بنیاد پر یہ بھی ممکن ہے کہ ابوشباب کا قتل ایک امریکی اسرائیلی سمجھوتے کا حصہ ہو، تاکہ اسے مزید کسی سیاسی یا سیکیورٹی کردار تک رسائی ملنے سے پہلے اس کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے، کیونکہ اس کی موجودگی میں فلسطینی اتھارٹی غزہ میں واپس نہیں آ سکتی تھی۔
2۔ العمور نے غزہ کے داخلی حالات اور قبائل کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترابین قبیلے نے فوراً ہی ابوشباب کو غدار قرار دے کر اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا اور اس کا خون مباح سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس کی موت کی خبر سامنے آتے ہی غزہ کی عوام اور قبائل نے واضح طور پر اس کا استقبال کیا اور اس کے قتل کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابوشباب کا قتل اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ یہی انجام دیگر ایجنٹوں کا بھی منتظر ہے، اور یہ کہ قابض قوتیں غزہ میں مزاحمت کی جگہ کوئی داخلی متبادل تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔
3۔ یاسر ابوشباب کے کردار کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ تمام نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں جو اسرائیلی منصوبے کی شکست کو واضح کرتی ہیں، وہ منصوبہ جس کا مقصد غزہ میں مقامی ایجنٹوں کا ایسا نیٹ ورک بنانا تھا جو ایجنٹس زمینی حقائق کو اسرائیل کے فائدے میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہو سکیں۔ یہ منصوبہ بہت جلد ناکام ہو گیا، اس منصوبے کی کوئی سماجی بنیاد موجود نہیں تھی، غزہ کی قبائل نے کسی متبادل قیادت یا ڈھانچے کے قیام کی ہر کوشش کو سختی سے مسترد کر دیا۔ مزاحمت کی ایسی پائیدار صلاحیت، جو اس قسم کے ہر اس ڈھانچے کو ختم کرنے کی قوت رکھتی ہے۔
ابوشباب کے خاتمے کے چند بنیادی پیغام:
ایاد القرا نے واضح کیا ہے کہ ابوشباب کی موت ایک معمولی واقعہ نہیں تھی، بلکہ اُس پورے منصوبے کا انہدام تھا جس پر قابض صہیونی قوتیں انحصار کر رہی تھیں، یعنی غزہ کی ساخت کو اندرونی ایجنٹوں کے ذریعے تبدیل کرنا۔ پیغام پوری طرح واضح ہے کہ غزہ تقسیم نہیں ہوگا، فلسطین کا قومی ماحول ہر قسم کی دراندازی کے مقابلے میں مضبوط ہے، اور جو بھی منصوبہ ایجنٹوں پر مبنی ہو گا، وہ یقینی طور پر ناکام ہوگا۔
عادل شدید جو ایک اور عرب سیاسی تجزیہ کار ہیں، انہوں نے اپنی جانب سے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ قابض صہیونی طاقتیں فلسطینی معاشرے، خصوصاً غزہ کی سماجی ساخت، اور داخلی مقامی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ فلسطینی معاشرہ ایک منظم سماجی نظام اور مضبوط قومی شعور رکھتا ہے، جو بیرونی قوتوں کی طرف سے مسلط کیے جانے والے کسی بھی مصنوعی مقامی ڈھانچے کو رد کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی رجیم کی جانب سے فلسطینی معاشرے کے اندر نیابتی ایجنٹ گروہوں کی تشکیل کی کوششیں ہمیشہ فلسطینی قومی حقیقت سے ٹکراؤ میں رہی ہیں۔ ایسے گروہ نہ عوامی حمایت رکھتے ہیں اور نہ سماجی مشروعیت۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عارضی اور تیزی سے بکھر جانے والے منصوبوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ عادل شدید نے زور دے کر کہا ہے کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب یہ ایجنٹ اپنے استعمال کی مدت پوری کر لیتے ہیں، صیہونی انہیں فوراً چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے ایجنٹوں پر تکیہ کرنا ابتدا ہی سے ایک ہارا ہوا جُوا ہے۔
ان منصوبوں کی ناکامی ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ غزہ سیاسی یا سماجی انجینئرنگ کی تجربہ گاہ نہیں ہے، بلکہ ایک لچک دار ماحول ہے جو اُن سب پر اپنے اصول نافذ کرتا ہے جو اس کی اجتماعی ارادہ کو نظرانداز کرنے یا اس کی داخلی وحدت کو کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ فلسطینی تجزیہ کار اور مصنف احمد الحَیْلَه کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ایجنٹ یاسر ابوشباب کے قتل کا واقعہ فلسطینیوں کے قومی شعور کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کے مطابق، اس واقعے کا اصل سبق پشت پردہ عوامل میں نہیں، بلکہ اُن پیغامات میں ہے جو یہ واقعہ فلسطینی معاشرے تک پہنچاتا ہے۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ قابض قوتیں کوئی ایسا متبادل ڈھانچہ نہ تلاش کر سکتی ہیں اور نہ بنا سکتی ہیں، جسے فلسطینی عوام قبولیت دیں۔ مزید یہ کہ ایجنٹ نیٹ ورکس کی تشکیل کی ہر کوشش، فلسطینی قومی شعور اور ان منصوبوں کے خطرات سے متعلق اُن کی بصیرت کے سامنے، بہت جلد ناکام ہو جاتی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یاسر ابوشباب کی موت پر غزہ بھر میں عوامی خوشی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ غزہ کا معاشرہ، اور مجموعی طور پر پورا فلسطینی سماج، دشمن کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کو مسترد کرتا ہے۔ اس سرزمین کے لوگ اپنی قومی قیادت اور اصولوں کے پابند ہیں۔ فلسطینی ہر اُس فریق کی سرپرستی اور اطاعت کو رد کرتے ہیں جو قابض ٹینکوں پر سوار ہو کر آئے یا اُن کے مفادات کی خدمت کرے۔ فلسطینی معاشرہ ایک مضبوط قومی مزاحمت رکھتا ہے جو جھوٹی حقیقتوں کو مسلط ہونے نہیں دیتا۔
جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور اسرائیلی سراب کا خاتمہ:
طہ عبدالعزیز، عرب دنیا کے ایک اور تجزیہ نگار اور مصنف ہیں، انہوں نے یاسر ابوشباب کی ہلاکت اور اس کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل کے ایک بڑے سیکیورٹی وہم کے خاتمے کی علامت ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نسل کشی کے آٹھویں مہینے، اور غزہ کے جنوب میں رفح پر اسرائیلی زمینی حملے کے دوران، قابض قوتیں ایک خیالی سیکیورٹی منصوبے کی طرف بڑھیں، جس کی بنیاد ڈاکوؤں، بھگوڑے قیدیوں اور دیگر ایسے افراد پر رکھی گئی جو کسی بھی صلاحیت کے حامل نہیں تھے۔
یہ لوگ، جو اپنا نام لکھنے سے آگے کچھ نہیں جانتے تھے اور جن کے دل غزہ کے سماجی ڈھانچے سے بغض و عداوت سے بھرے تھے، وہی ڈھانچہ جو ہمیشہ ان کی مجرمانہ حرکتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوتا تھا، اچانک صہیونی حکام کے ذہن میں اس قابل ٹھہرے کہ جنگ کے بعد غزہ کے ممکنہ منتظمین بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدا میں ابوشباب کا معاملہ اسرائیلی فوج کے آپریشنل افسران کے پاس تھا، پھر اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے کوشش کی کہ ابوشباب اور اس کے گروہ کو غزہ میں اپنے سستے آلہ کار کے طور پر استعمال کریں۔
اس مقصد کے لیے انہیں کچھ بنیادی سازوسامان مہیا کیا گیا اور انہیں تباہ شدہ گھروں کی تلاشی، بارودی سرنگوں کی نشاندہی اور مشتبہ علاقوں میں داخل ہونے جیسے کام سونپے گئے، تاکہ وہ دراصل اسرائیلی فوج کی انسانی ڈھال بن کر قابض فوج کے زمینی نقصان کو کم کریں۔ طہ عبدالعزیز نے کہا کہ جنوری میں جنگ بندی کے بعد، اسرائیلیوں نے انہی ایجنٹ گروہوں کو اپنی فورسز کے قریب تعینات کیا اور انہیں فائرنگ کور فراہم کیا۔ ساتھ ہی ان گروہوں کو ایک مقامی نیم سیکورٹی فورس کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اسرائیل نے جنوری کے وقفہ جنگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارچ میں دوبارہ جنگ شروع کی، تو اسی دوران یاسر ابوشباب سوشل میڈیا پر نمایاں ہونے لگا اور اسرائیلی منصوبوں میں ایک نئے مہرے کے طور پر ابھرا۔ اسی وقت فلسطینی مزاحمت نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا اور اس کی ٹیم کی سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا۔
طہ عبدالعزیز نے واضح کیا کہ عوامی شعور کی بلندی نے بھی اس صہیونی منصوبے کو ناکام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں شاباک کا وہ منصوبہ، جس کے ذریعے غزہ میں ایک متبادل اندرونی قوت پیدا کرنے کی امید کر رہی تھی، بہت تیزی سے دھڑام سے گر پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ابوشباب کی ہلاکت کی خبر سامنے آتے ہی صہیونی میڈیا نے اپنے روایتی فوجی سنسر کے تحت متضاد دعوے پیش کیے، کبھی خاندانی جھگڑا، کبھی اپنی ٹیم کے ہاتھوں قتل کی کہانیاں۔
اسی دوران عبرانی میڈیا اور اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے تسلیم کیا کہ غزہ میں اسرائیل کے سیاسی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے بدمعاش گروہوں پر بھروسہ کرنا ایک تباہ کن غلطی تھی۔ درحقیقت، ابوشباب کا خاتمہ ایک بڑے سیکیورٹی خیالی منصوبے کے ٹوٹنے کی علامت ہے، اب وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ غزہ میں حماس کے متبادل کے طور پر کسی بدمعاش گروہ کو بٹھانے کا منصوبہ ابتدا سے ہی ایک ہارا ہوا جوا تھا، حالیہ دور میں صہیونیوں کی کوشش یہ رہی کہ غزہ کے اندر ایسے گروہ تشکیل دیے جائیں جو ایجنٹ کے طور پر کام کریں اور اسرائیل کی مرضی کی زمینی حقیقت کو اس علاقے پر مسلط کرنے کے لیے ایک آلہ ثابت ہوں۔





















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
