
سلیمانی
مسئلہ کشمیر و فلسطین، امتِ مسلمہ کا اتحاد ضروری ہے
گذشتہ دنوں سوپور میں ساٹھ سالہ بزرگ بشیر احمد کو قابض بھارتی افواج نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ بشیر احمد خان کی خون میں لت پت لاش پہ بیٹھے اس کے تین سالہ معصوم نواسے عیاد کی مسلمان حکمرانوں کی بزدلی پہ ماتم کناں تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بچے کی معصومیت بھری اس تصویر نے ہر آنکھ کو اشکبار اور ہر دل کو لرزا دیا۔ یہ اس طرح کی پہلی تصویر نہیں ہے جو منظرِ عام پہ آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی تصاویر یمن، شام اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے سامنے آتی رہی ہیں۔ سال 2015ء میں ترکی کے ساحل سمندر پہ اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پہ شائع ہوئی تو اس نے پوری دنیائے انسانیت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک آنکھ سے محروم دو ماہ کے معصوم بچے کی تصویر نے ہر آنکھ نم کر دی، یمن سے بھی آئے روز غذائی قلت سے دوچار بچوں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصاویر سامنے آتی ہیں، مگر افسوس یہ تمام تصاویر انسانی حقوق کے نام نہاد ذمے داروں کے خواب آلود ضمیر نہ جگا سکیں۔
سوپور میں پیش آنے والا یہ دردناک واقعہ بھارتی ظلم و بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں جاری ان مظالم پر مکمل اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے کشمیری مسلمان بھائی گذشتہ برس سے شدید اذیت سے دوچار ہیں۔ اس دوران مسلم کش مودی سرکار نے متنازعہ شہریت قانون نافذ کرکے مسلمانوں کے ساتھ اظہار نفرت کیا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب مودی سرکار صیہونی پالیسی پہ عمل پیرا ہو کر وادی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کا گھناونا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اب کوئی راز نہیں ہیں، مودی نے گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور برسرِ اقتدار آتے ہی اس دوستی کو مزید مضبوط کرتے ہوئے مسلم دشمنی کے لئے کمر کس لی۔
بلا شبہ بھارت اور اسرائیل میں ایک قدر مشترک ہے، دونوں اسلام و مسلم دشمنی میں ایک جیسی پالیسیوں پہ عمل پیرا ہیں۔ اس وقت کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ درست اسی طرح جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کا علیحدہ تشخص ختم کرنے لئے یہودیوں کی آباد کاری کی گئی۔ اسی طرح کشمیر میں بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 1917ء میں جب صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، اس وقت پورے فلسطین میں یہودی آبادی 10 فیصد یا اس سے بھی کم تھی، لیکن پھر ایک گھناونی سازش کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا۔ دوسری طرف آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے فلسطینیوں کا قتل عام شروع کیا گیا۔ ان سے ان کی املاک چھین لی گئیں، اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ یوں آج فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت کی صورت میں موجود ہیں۔
کشمیر میں بھی بالکل اسی طرح مودی سرکار نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اور اب 25 ہزار ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے کر اس علاقے کا رہائشی بنایا جا رہا ہے، جس کے بعد انہیں ووٹ کا حق بھی حاصل ہوگا اور وہ اس علاقے میں ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ اس بھارتی اقدام کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے بعد غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ مقبوضہ وادی کا اسلامی تشخص برقرار نہ رہے۔ اس طرح جب اس علاقے کے اصلی وارث کشمیری مسلمان اقلیت میں آجائیں گے اور غیر مسلم آبادی بڑھا دی جائے گی تو وہاں کا اسلامی تشخص بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت بھارت استصواب رائے پہ رضامندی ظاہر کرے گا، کیونکہ اب کشمیر کا الحاق بھارت سے ہونے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔
بلاشبہ اس وقت کشمیر اور فلسطین مسلم امہ کے سینے پہ دو رستے ہوئے زخم ہیں۔ انہیں ظالم سامراج سے بچانا انتہائی ضروری ہے، لیکن امت مسلمہ کے نگہبان کہاں ہیں۔ ننھے عیاد جیسے کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے مسلمان حکمرانوں اور خصوصاً او آئی سی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ کشمیر ایشو پہ بہترین سفارت کاری کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم حکمرانوں پہ واضح کیا ہے کہ کس طرح مظلوم کشمیریوں پہ زندگی کے ایام تنگ کئے جا رہے ہیں، لیکن کیا صرف اتنا ہی کافی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کہاں ہیں اور مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
کشمیر اور فلسطین کے علاوہ یمن، شام و عراق سمیت اور بھی کئی ایسے ایشوز ہیں، جن کے حل کے لئے مسلمان ممالک کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اس وقت مردہ گھوڑا اور عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں جان ڈالنا انتہائی ضروری ہے یا پھر ان تمام مسائل کے حل کے لئے کوئی دوسرا راہ حل نکالنا پڑے گا۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ریاستیں اگر باہمی رنجشیں اور اختلاف بھلا کر ایکا کر لیں تو کشمیر اور فلسطین سمیت تمام ایشوز بطریقِ احسن حل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ
پھرتمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
تحریر: محمد ثقلین واحدی
امریکہ و غاصب صیہونی رژیم پر انتہائی سخت دن آنیوالے ہیں، جنرل اسمعیل قاآنی
ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے تاکید کی کہ امریکی بے جا طور پر (اس حادثے کے) ذمہ داروں کا کھوج نہ لگائیں اور دوسروں کو قصوروار بھی نہ ٹھہرائیں، کیونکہ (امریکی جنگی بحری بیڑے کو لگی) یہ آگ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی بھڑکائی ہے، جس نے اب انہیں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جنرل قاآنی نے کہا کہ امریکیوں کو کہا جانا چاہیئے کہ پیش آنے والا یہ حادثہ تمہارے اپنے جرائم کا نتیجہ ہے، جبکہ یہ حادثہ بھی خود تمہارے ہی چیلوں کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ انہوں نے امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہی ہاتھوں سے تمہیں سزا دے رہا ہے۔
ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل اسمعیل قاآنی نے امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاحال تمہارے خوشی کے دن چل رہے ہیں، جبکہ بہت جلد تمہارے اوپر سختی کے دن آنے والے ہیں، جن میں تمہیں اور غاصب صیہونی رژیم (اسرائیل) کو شدید حادثات کے ساتھ روبرو ہونا پڑے گا۔ جنرل اسمعیل قاآنی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج اب تھک کر فرسودہ اور اس کا فوجی سازوسامان لوہے کے کباڑ میں بدل چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدتوں سے امریکی بحریہ کے کمانڈرز یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ امریکی جنگی بحری بیڑے اب لوہے کے کسی ڈھیر سے بڑھ کر کچھ نہیں رہے۔ سپاہ قدس کے کمانڈر نے کہا کہ امریکہ کو اپنی ناگفتہ بہ صورتحال کو قبول کرتے ہوئے انسانیت پر مزید ظلم و ستم ڈھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیئے۔
علماء و مشائخ کا فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا اعلان
جامعہ بیت القرآن گلبرگ لاہور میں ملک کے جید علماء ومشائخ اور درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی اتحاد امت کانفرنس۔ فرقہ واریت، دہشتگردی کیخلاف متحد ہونے کا عزم، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی قبول نہیں کریں گے۔ مفتی سید عاشق حسین کی زیر نگرانی اتحاد امت کانفرنس میں پیر سید حبیب عرفانی، میاں جلیل احمد شرقپوری، مفتی عاشق حسین، پیر علی جمیل خان، سجادہ نشین دربار عالیہ سندر شریف، مرکزی صدر پی ٹی آئی مذہبی امور ونگ پیر سید حبیب عرفانی، سجادہ نشین شرقپور شریف و رکن صوبائی اسمبلی میاں جلیل احمد شرقپوری، دربار میاں میر کے سجادہ نشین پیر سید علی رضا گیلانی، کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا محمد عاصم مخدوم، زیب آستانہ عالیہ دیوان علی عظمت سید محمد، آستانہ عالیہ ڈی ایچ اے لاہور خواجہ اسرارالحق نظامی، دربار عالیہ ملتان سے خواجہ محمد اکمل اویسی، دربار عالیہ پیر فضل شاہ ولی کے سجادہ نشین پیر علی رضا، پی ٹی آئی علماء و مشائخ ونگ کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عارف چشتی اور سابق صوبائی ایڈوائزر جمیل خان نے شرکت کی۔
کانفرنس میں پیر اختر رسول قادری، پیر سید ارشد حسین گردیزی، مفتی شبیر انجم، علامہ پرویز اکبر ساقی، بابا محمد شفیق بٹ، مفتی لیاقت علی صدیقی، قاری محمد اعظم، علامہ محمد حسین گولڑوی، پیر محمد رمضان رضوی سیفی، مولانا محمد شفیق اللہ اجمل، پیر محمد امین ساجد، پیر، قاسم علی قاسمی، پیر عثمان نوری، ڈاکٹر امجد حسین چشتی، سید محمد شاہ ہمدانی و دیگر علمائے کرام و مشائخ عظام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے شریک علماء نے متفقہ طور پر عزم کیا کہ اتحاد امت کیخلاف کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ملک میں مسلکی، فرقہ وارانہ بحث نہیں چھڑنے دینگے، ملک کسی بھی قسم کی افراتفری اور فرقہ واریت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف کاروائی کرے۔ مشائخ عظام نے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف پاک فوج کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، قیام امن کیلئے اپنے ریاستی اداروں اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، پاک فوج کیخلاف کسی بھی قسم کی ہرزاہ سرائی برداشت نہیں کریں گے۔
یہ وقت مناظرہ بازی کا نہیں
مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصہ سے کورونا وائرس کی عالمگیر وباء کے بیچ ہی آن لائن اور آف لائن مناظرہ بازی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے، اس نے یہاں کے ذی حس طبقوں کو انتہائی مضطرب کر دیا ہے اور گذشتہ چند روز سے سوشل اور روایتی میڈیا کے توسط سے مسلسل اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ اس طرح کی تفرقہ بازی سے اجتناب کیا جائے۔ مقامی سول سوسائٹی نے بارہا علماء دین اور مذہبی جماعتوں کو معاملہ کی نزاکت سمجھتے ہوئے باہمی اخوت کو فروغ دینے کی تاکید کرتے ہوئے مسلکی اور گروہی افتراق کو پنپنے نہ دینے کی اپیل کرکے عوام سے کہا کہ وہ دین کے بنیادی عقائد پر جمع ہوکر آپسی اتحاد و اتفاق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بنیادی عقائد ایک ہیں تو پھر جھگڑوں کا کیا جواز بنتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اخوت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے، مگر جموں و کشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص مذہب و مسلک کے نام پر جس انداز میں قوم کو گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں رچائی جا رہی ہیں، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔
ماضی قریب تک مقبوضہ وادی کشمیر میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے بلکہ اسلامیان کشمیر بنیادی عقائد پر مجتمع ہوکر ملی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے، تاہم اب جو ہوا چلنے لگی ہے، اگر فوری طور پر اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی تو کل یہ ہوا ایک آندھی کی شکل اختیار کرکے ملت کا شیرازہ بکھیرنے کا کام کرے گی اور اس وقت ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مسلکی منافرت اور گروہ بندی کی تباہ کاریوں سے کوئی نا آشنا نہیں ہے۔ ایسے ہی فروعی معاملات کو لیکر کئی مسلم ممالک کو جو خمیازہ بھگتنا پڑا، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس کے باوجود بھی اگر کشمیر میں کوئی اس سمت میں جانے کی کوشش کرے تو وہ مذہب اور ملت کا بہی خواہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی عالم اسلام اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک مربوط مہم چل رہی ہے، جس کو اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اس مہم کے تحت مسلمانوں کو انتہاء پسندوں اور انسانیت دشمنوں کے طور پیش کرنے کی مکروہ کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ اسی مہم کے تحت مسلک اور پارٹیوں کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔ اس نازک ترین صورتحال میں اگر امتِ مسلمہ طبقوں میں تقسیم ہو جائے تو اس کا براہ راست فائدہ ایسی قوتوں کو ہوگا، جنہیں ملت اسلامیہ کا وجود ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا ہے۔ اتحاد میں طاقت اور وحدت ہی مسلم امہ کو موجودہ پریشان کن دور سے باہر نکال سکتی ہے۔ انتشار و افتراق کی صورتحال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیئے، کیونکہ جب قرآن ایک ہے، نبی (ص) ایک ہے، قبلہ ایک ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد مشترک ہیں تو کون سی چیز ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔ ملت میں انتشار و افتراق ہمیں بنیادی اہداف سے کوسوں دور لے جائے گا، لہٰذا قوم کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے میں ادراک سے کام لے۔
علماء کرام، جن کا کام اسلام کی اشاعت ہے، ان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں روز قیامت میں اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اصلاح معاشرہ اور اتحاد ملت کے لئے کون سی ذمہ داریاں انجام دیں۔ وعظ و تبلیغ کا فریضہ انجام دیکر ہی مبغلین اسلام، مفتیاں کرام، ائمہ مساجد، علماء دین اور مذہبی اسکالر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملت کو اُس ڈگر پر لے جائیں، جس پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخروئی مقدر بن سکے۔ ملت اسلامیہ میں پھیلی بیماریوں پر ان علماء سے جوابدہی ہوگی، لہٰذا انہیں بھی خاموش تماشائی بننے کی بجائے عملی طور پر اتحاد ملت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قائدین، سماجی جماعتوں، سول سوسائٹی اور سماج کے ہر باشعور فرد کو انفرادی طور بھی اپنے آپ کو اس سنگین مسئلہ سے لاتعلق رکھنے کی بجائے اس کا تدارک کرنے کے لئے ہاتھ بٹانا چاہیئے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ بھولیں گے اور نہ ہی معاف کرینگے، ایران
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء سمیت ٹارگٹ کلنگ کی امریکی کارروائی کو بزدلانہ اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ سید عباس موسوی نے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ہمارے خطے میں انسداد دہشتگردی کے ہیرو، جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی بزدلانہ (امریکی) کارروائی نہ صرف ایک "خودسرانہ قتل" بلکہ اقوام متحدہ کے منشور کی بھی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے لکھا کہ امریکہ اس مجرمانہ اقدام کا ذمہ دار ہے جس سے وہ اقوام متحدہ پر اپنی شدید تنقید کے ذریعے "بری" نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ ہم اس (گھناؤنے امریکی جرم) کو بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے!
.jpg)
سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی شکست
گذشتہ روز عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آن لائن اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایران اور چار جمع ایک ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے جائزے پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ امریکہ نے حسب معمول اور حسب توقع اس آن لائن اجلاس میں ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں برقرار رکھنے پر تاکید کی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اکتوبر 2020ء میں ایران پر اسلحہ جاتی پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ ایران کو یہ سہولت حاصل نہ ہو اور اس پر اسلحہ جاتی پابندیاں بدستور برقرار رہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس آن لائن اجلاس میں امریکی موقف کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے اور ایران پر پابندیوں کا سلسلہ باقی رہے تو گویا عالمی ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ ڈاکٹر جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں اور ایران کیخلاف اپنائی گئی پالیسیوں کو ماننا گویا جنگل کے قانون کو تسلیم کرنا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں عالمی معاہدہ مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کا اقدام سفارتی کامیابی تھی اور اگر اس سفارتی کوشش اور اقدام کو امریکہ کے دباؤ پر مسترد کر دیا تو عالمی برادری کا سفارتی کوششوں اور سفارتی اقدامات پر اعتماد اٹھ جائیگا۔
گذشتہ روز سلامتی کونسل کے آن لائن اجلاس میں امریکہ کے علاوہ تمام اراکین نے عالمی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے پر زور دیا۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ عالمی معاہدہ کے حوالے سے تنہائی کا شکار ہے اور امریکہ نے عالمی سطح پر ایران کو سیاسی و سفارتی سطح پر تنہاء کرنے کی جو کوششیں کی ہیں، وہ بری طرح ناکام رہیں۔ گذشتہ رات کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے وزیر خارجہ اس قدر تنہاء رہ گئے کہ وہ وقت سے پہلے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔
ایرانی جوہری معاہدے بارے سلامتی کونسل کا اجلاس ایران پر پابندیاں برقرار رکھنے کی امریکی کوشش کیخلاف ہیں، امریکہ معاہدے میں واپس آجائے، چین
ایرانی جوہری پروگرام (JCPOA) کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے ویڈیو اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کے مسقل نمائندے وانگ کان نے کہا ہے کہ اس بحران کی اصلی جڑ ایرانی جوہری پروگرام سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری اور ایران پر عائد ہونے والی امریکی پابندیاں ہیں۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بتایا جا چکا ہے؛ ایران پر لگائے جانے والے الزامات اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 کے متن کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے وانگ کان نے کہا کہ ایران کے خلاف اسلحے کے پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں نے ایرانی جوہری معاہدہ (JCPOA) بچانے کے مشترکہ اقدامات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وانگ کان نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی غیرقانونی پابندیوں کو فورا اٹھا لے اور ایرانی جوہری معاہدے پر عملدرآمد شروع کر دے۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے نے کہا کہ چین ایران کے خلاف اسلحے کی پابندیوں میں توسیع پر مبنی امریکی کوششوں کے خلاف ہے جبکہ امریکہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے باعث "ٹرگر میکینزم" استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
پورا فلسطین فلسطینی عوام کا ہے
انبیاء کی سرزمین مقدس فلسطین پر بسنے والے فلسطینی عرب گذشتہ ایک سو سال یعنی جس دن سے برطانوی استعمار کے عہدیدار بالفور نے Rothschild کو ایک خط کے ذریعہ اعلان نامہ پھیجا کہ سرزمین فلسطین پر یہودیوں کے لئے ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کی جائے، اس دن سے آج تک ایک سو سالہ تاریخ میں فلسطینی عرب صہیونیوں کے ظلم و ستم کے رحم و کرم پر ہے۔ غاصب صہیونیوں نے پہلے جنگوں اور قتل و غارت کے ذریعہ فلسطین کا استحصال کیا، بعد میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے دباؤ کو فلسطین کی تنظیم پی ایل او کے ساتھ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ بہرحال ہر دو صورتحال میں اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا رہا اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ فلسطین کی اراضی پر مسلسل صہیونیوں نے قبضہ جاری رکھا۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونی آباد کاری کے ذریعے فلسطین کے مغربی کنارے کو صہیونی آبادی کے تناسب سے فلسطینی آبادی پر برتری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے علاقہ کو مغربی کنارے سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ یہاں گذشتہ بارہ برس سے غاصب اسرائیل کا مصری حکومت کے ساتھ مشترکہ محاصرہ کیا گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔
موجودہ زمانہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جو خود امریکی عوام کے لئے بھی ایک مصیبت اور عذاب سے کم نہیں ہیں، انہوں نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ پیش کرتے ہوئے پہلے فلسطین کے ابدی دارالحکومت قدس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں اسی کوشش کو یقینی بنانے کے لئے امریکی حکومت نے تل ابیب سے قدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ دراصل ان سب باتوں کا مقصد امریکی صدر یہ بتانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر اب مکمل اسرائیل کا قبضہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں امریکہ کی پیش رو انتظامیہ نے فلسطینی پی ایل او کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی ضمانت دی تھی کہ اسرائیل امن مذاکرات کی کامیابی کے لئے 1967ء کی سرحدوں تک چلا جائے گا۔ بعد ازاں یہ ہونا بھی آج تک اسی طرح سے ناممکن رہا ہے کہ جس طرح اعلان بالفور میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل قائم کیا جائے گا، لیکن غیر یہودی قوموں کو فلسطین سے نہیں نکالا جائے گا۔ حقیقت اس کے بھی برعکس ثابت ہوئی، اسرائیل قائم کر لیا گیا، لیکن فلسطینی عربوں کو فلسطین سے نکال پھینکا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء کو منظور ہونے والی بڑی قرارداد میں طے پایا کہ فلسطینی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، لیکن اس پر بھی آج تک اقوام متحدہ عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی ہے، البتہ اسرائیل کو قائم کر دیا گیا۔
اب حالیہ دنوں اسرائیل امریکی سرپرستی میں امریکی صدر کے شیطانی منصوبہ صدی کی ڈیل پر تکیہ لگائے ہوئے ہے۔ اب غرب اردن کے علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے یا الحاق کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یعنی صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے مطابق فلسطین کا مغربی کنارا اب اسرائیل کے ساتھ شامل کیا جانے کا ناپاک ارادہ کیا جا چکا ہے۔ اس حوالہ سے امریکہ اور اسرائیل مسلسل اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ جولائی 2020ء میں غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یقیناً ایک سوال ضرور ہے اور لمحہ فکریہ ان سب قوتوں اور عناصر کے لئے ہے کہ جو ماضی سے اب تک فلسطین کے مسئلہ کا حل امریکی فارمولہ کے مطابق دو ریاستی حل میں سمجھ رہے تھے۔ یعنی وہ حکومتیں اور ادارے جو فلسطین کے لئے امریکی فارمولہ کے مطابق کہا کرتے ہیں کہ 1967ء کی سرحدوں تک اسرائیل واپس ہو جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے۔ ایسے تمام عناصر اور حکومتوں کے لئے لمحہ فکر ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس طرح کے کسی منصوبہ کو مانتے ہی نہیں ہیں، بس یہ تو مسلم دنیا اور فلسطین کی نام نہاد حامیوں کو ایک لالی پاپ دیا گیا تھا، جسے آج تک ہماری مسلم حکومتیں لئے گھوم رہی ہیں۔
اسی عنوان پر فلسطین کے سابق وزیر اور تجزیہ نگار وصفی قبہا نے کہا ہے کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا سمیت ہر وہ حکومت، ادارہ اور عناصر بھی برابر کے شریک مجرم ہیں، جنہوں نے فلسطین کے لئے امریکہ کے منصوبہ یعنی دو ریاستی حل اور نام نہاد مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ اب اصل مسئلہ کی بات کرتے ہیں کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنے ساتھ ملحق کرنا چاہتا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب فلسطین باقی نہیں رہے گا۔ ایسے حالات میں مسلم دنیا کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے مفادات کی خاطر مسلم امہ کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ایسی حالت میں فلسطینیوں کے لئے سنگین مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔
ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواری ہیں، جو اس منصوبہ کی اعلانیہ اور مخفیانہ طور پر حمایت کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف فلسطینی قوم ہے، جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے اور واضح طور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ فلسطین کے ایک انچ زمین سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ فلسطینی عربوں میں صرف مسلمان اکیلے نہیں بلکہ عیسائی فلسطینی اور ایسے وہ تمام یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں کہ جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جعلی ریاست تصور کرتے ہیں۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس سمیت دیگر گروہوں نے غرب اردن کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے صہیونی منصوبہ کو شدت کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام مزاحمت کریں گے۔ فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے۔ فلسطینیوں نے اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ غرب اردن سے متعلق اسرائیلی غاصب حکومت کے فیصلہ اور اعلان پر آج تک عالمی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اسرائیلی جرائم کی داستان طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے غرب ردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔ یہ وہ اصل سازش ہے، جس کا آغاز عالمی شیطان امریکہ کی سرپرستی میں انجام دیا جا رہا ہے۔ عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگاروں کا اس تمام تر صورتحال پر کہنا ہے کہ ایک طرف جہاں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ خطے کی متعدد عرب ریاستیں بھی اسرائیل کے اس منصبوبہ کی حمایت کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں فلسطین کی حمایت میں باقی ماندہ ایک دو ممالک یا حکومتوں کے کوئی سامنے نہیں ہے۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں فلسطینی عوام کی مزاحمت ہی اس وقت ایسا مضبوط ہتھیار ہے، جو فلسطین کی سرزمین اور یہاں امت کے مقدسات کا دفاع کرسکتی ہے، وہ ہتھیار فلسطینیوں کی مزاحمت ہے۔ اسی مزاحمت نے ہی فلسطین کو باقی رکھا ہے، ورنہ امریکی و صہیونی اتحاد کئی سال پہلے ہی فلسطین کا مسئلہ نابود کرچکے ہوتے۔ فلسطینی قوم کی سماجی، سفارتی، سیاسی اور قانونی محاذوں پر فلسطین کے دفاع کے لیے کام کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمت بھی جاری رہنا ضروری امر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین فلسطینی عوام کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی باضمیر حکومتیں اور عالمی ادارے انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ حل کی کوشش کریں، جس کا مقصد فلسطین فلسطینیوں کے لئے ہو۔ غاصب دشمن کو حق نہ دیا جائے کہ وہ فلسطین پر مزید تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی
غاصب و قابض رہے۔ مسلم دنیا کا اسرائیل کی کاسہ لیسی سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
امام رضا (ع) کی ولایت عہدی کا تحلیلی تجزیہ
جیسا کہ مشہور ہے ’’سیاست میں کوئی دوست اور رشتہ دار نہیں ہوتا‘‘ کچھ ایسی ہی داستان عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دو بیٹوں مامون اور امین کی ہے، جب مامون کو اپنے بھائی امین سے خطرہ لاحق ہوا تو اپنے سگے بھائی کے خلاف تلوار کھینچ لی، ہزاروں لوگوں کے قتل عام کے بعد مامون اپنے بھائی امین پر فائق آیا اور اس کا سر قلم کرکے اقتدار کی کرسی بچا لی۔ مامون عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ ذہین، فطین اور شاطر مزاج آدمی تھا، لہذا امین کو اپنے راستے سے ہٹانے کے بعد اسے مدینہ منورہ میں علویوں کی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا، اسے خبر پہنچ چکی تھی کہ دور دور سے لوگ امام رضا (ع) کے پاس جمع ہو کر ان کے فیوضات اور برکات سے سیراب ہو رہے ہیں اور ان کی بارگاہ اقدس میں زانو تلمذ خم کرکے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، یہ بات مامون کے لیے انتہائی ناگوار اور ناقابل برداشت تھی، دوسری جانب مدینہ منورہ، مرو (خراسان) سے بہت دور تھا، وہ امام رضا (ع) کی علمی اور سیاسی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا، لہذا اس نے امام رضا (ع) کو "مرو" بلانے کا مصمم ارادہ کیا، اپنے وزیر فضل بن سہل کو بلایا اور اس سے مشورہ کرنے کے بعد امام رضا (ع) کو خراسان بلانے کے بعد ولایت عہدی کا عہدہ ان کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔[1]
عباسی خاندان کے لوگ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے جبکہ دربار اور مامون کے حلقہ احباب میں بھی اس فیصلے سے متعلق آپس میں چہ میگویاں ہو رہی تھیں۔ چنانچہ مامون کو اپنے فیصلے کے پیچھے پوشیدہ راز آشکار کرنے پڑے، ان میں سے کچھ اہم اغراض و مقاصد یہ ہیں:
1۔ خلافت عباسیہ کی تثبیت و تائید
مامون الرشید نے امام رضا(ع) کے خراسان بلانے کا مقصد صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، ’’میں ابو الحسن (ع) کو یہاں بلا کر ولایت عہدی کی پیشکش کروں گا، اب اگر امام رضا (ع) نے قبول کر لیا تو گویا انہوں نے خلافتِ عباسیہ کو قبول کیا ہے۔‘‘[2]
2۔ امام رضا (ع) کی سرگرمیوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
مامون چاہتے تھے کہ اس طریقے سے امام (ع) کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کنٹرول میں رکھے، کیونکہ اگر امام رضا (ع) ولایت عہدی کے منصب کو قبول کر لیتے تو آپ خلافت عباسی کے زیر سایہ ایک ولی عہد کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیتے اور آپ کی کاوشیں خلافت عباسیہ کی تشہیر و ترویج کا باعث ہوتیں، یوں اس بات کا خطرہ ٹل جاتا کہ امام رضا (ع) مامون کے راستے میں رکاوٹ بن کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرے گا۔[3]
3۔ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان و عظمت گھٹانا
مامون کا اس فیصلے سے ایک اور مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی شان اور عظمت گھٹائی جائے، کیونکہ جب امام (ع) ولایت عہدی کے منصب پر راضی ہو جاتا تو عاشقان، دلدادگان اور موالیان اہل بیت (ع) کو یہ باور کروایا جاتا کہ امام (ع) کی تمام تر سرگرمیاں دنیاوی لالچ کے حصول کے لیے تھیں، رفتہ رفتہ امام عالی مقام (ع) کا وقار اور رعب و دبدبہ ان کے چاہنے والوں کی نظروں میں ماند پڑ جاتا اور ان کے سینوں میں امام (ع) کے ساتھ جذبہ اور عشق و ولولہ ٹھنڈا ہو جاتا۔[4]
4۔ عراق اور یمن میں حکومت کیخلاف ہونیوالے قیاموں کا سدّباب
عراق اور یمن کے بیشتر شہروں میں مامون کے خلاف قیام کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں اور واضح سی بات ہے کہ ہر دنیا پرست سیاستدان کی طرح مامون بھی ان تمام تر ممکنہ خطرات کو مول لینا نہیں چاہتا تھا اور بروز ہونے سے قبل ہی فتنہ دفن کرنا چاہتا تھا، جس کے لیے مامون کی نظر میں بہتر فیصلہ یہی تھا کہ امام رضا (ع) کو خراسان بلا کر ان کی تمام تر سرگرمیاں زیرِ نظر رکھی جائیں۔[5]
5۔ خراسان کے شیعوں کے دل موہ لینا
خراسان میں آلِ علی اور اہل بیت (ع) کے شیعوں کی اکثریت تھی، مامون کی کوشش تھی کہ ولایت عہدی کی پیشکش کے ذریعے انہیں بھی اپنی جانب رغبت دلا سکے اور یہ تاثر ظاہر کرے کہ میں بھی اہل بیت (ع) کا نام لیوا اور دلداہ ہوں، یوں علویوں کے خراسان میں عباسی حکومت کے خلاف ممکنہ اقدامات کا سدباب کیا جا سکے گا۔[6]
تحلیل و تجریہ:
لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ عیاں اور آشکار ہو جاتا ہے کہ مامون کسی طرح بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، کیونکہ جب امام رضا (ع) خراسان پہنچے اور انہیں تعظیم و تکریم کے ساتھ ولایت عہدی کی پیشکس ہوئی تو امام (ع) نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور فرمایا: ’’اگر تم ہی خلافت کے لیے سزاوار ہو تو تیرے اس لباس کو اتار کر کسی دوسرے کو پہنانا جائز نہیں ہے اور خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تجھے اسے مجھے سپرد کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ امام عالی مقام کے اس جواب سے مامون کے ذہن میں چھپے پشت پردہ عزائم خاک میں مل گئے، لہذا مامون کو اپنا لہجہ تبدیل کرنا پڑا، آگ بگولہ ہو کر تھدید آمیز لہجے میں کہنے لگا: ’’اے اباالحسن! اگر آپ نے ولایت عہدی کی پیشکش ٹھکرا دی تو میں وہی سلوک کروں گا، جو خلیفہ ثانی نے اپنے بعد شوریٰ بناتے وقت کیا تھا کہ جو بھی شوریٰ کے انتخاب میں شرکت نہیں کرے گا، اسے قتل کیا جائے گا۔‘‘[7]
شہید مطہری (رہ) لکھتے ہیں: ’’ امام رضا (ع) ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن حالات کی نزاکت کے باعث انہیں با دل نخواستہ ایسا کرنا قبول کرنا پڑا، کیونکہ ولایت عہدی کا مطلب یہی یہ ہے کہ مامون اس منصب کا حقدار تھا اور اب وہ کسی کو اپنا جانشین بنا رہا ہے۔‘‘ [8] اور جیسا کہ اس بات کی طرف امام رضا (ع) نے خود اشارہ کیا ہے، فرمایا ’’جیسا کہ میرے جدّ علی ابن ابی طالب کو شوریٰ قبول کرنا پڑی تھی، میں بھی ایسے ہی ولایت عہدی قبول کر رہا ہوں‘‘ [9] بنابرایں، امام رضا (ع) نے منصب ولایت عہدی قبول کرنے کے لیے شرائط رکھیں کہ وہ عزل و نصب نہیں کریں گے اور ہر طرح کا حکم دینے سے کناہ کش رہیں گے۔ یوں آپ نے اپنے دامن کو ظلم و استبداد پر مبنی حکومتی اقدامات کی تائید سے الگ کر دیا اور ریاستی امور میں مداخلت سے کنارہ کش ہو کر اسلام کی ترویج و تشہیر میں مشغول ہوگئے، لوگ دور دور سے امام (ع) کی قدم بوسی اور زیارت کے لیے خراسان کا رخ کرنے لگے، امام (ع) کا حلقہ عشاق بڑھتا گیا، مامون کے لیے یہ حالت ناقابل برداشت تھی کہ ظاہری طور پر منصب خلافت کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود دربار میں بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں، جبکہ لوگوں کے دلوں کے اعماق پر امام (ع) کی حکومت و سلطنت ہے۔
لہذا عوام میں امام (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کم کرنے کے لیے مامون نے مختلف مذاہب و مسالک کے نامور علماء کو دربار بلانا شروع کیا، لیکن اس کا یہ حربہ بھی کارساز نہ ہوا، مناظرے پر بلائے گئے تمام فرقوں کے علماء نے امام (ع) کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب پورے خراسان میں امام (ع) کی شہرت کا بول بالا تھا اور مامون ان کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دے رہے تھے، اس کی تمام تر تجاویز اور ترکیبیں جواب دے چکی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، خشکسالی اور قحط سالی سے رنجیدہ لوگ اپنا مدعا لے کر خلیفہ وقت کے پاس آئے، اب مامون کو پاس امام (ع) کی آزمائش کا ایک اور موقع ہاتھ آیا، وہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر امام (ع) کی بارگاہ میں آیا اور کہنے لگا: ’’ اے اباالحسن! آپ امام اور اللہ تعالیٰ کی مقرب مخلوق ہیں، آپ ہی بارش کے لیے دعا کیجیے!‘‘
مامون کو پورا یقین تھا کہ بھلا اس چلچلاتی دھوپ میں کیسے بارش ہوسکتی ہے؟! اب امام (ع) بھی دعا سے انکار نہیں کرسکتے اور اگر ہاتھ اٹھا کر بارش کے لیے دعا مانگیں اور بارش نہ ہو تو لوگوں کی نظروں میں امام (ع) کی عظمت ختم جائے گی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: "سب نماز استسقاء کے لیے صحرا کی طرف نکل آؤ، امام نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے، اچانک آسمان سے بادل نمودار ہوئے اور بجلی گرجنے لگی، لوگ بارش کے تصور میں اپنے لیے سر چھپانے کی تلاس میں ادھر ادھر دوڑے۔ امام (ع) نے فرمایا: یہ بادل فلاں علاقے پر برسیں گے، دس مرتبہ بادل نمودار ہوئے اور امام عالی مقام نے بادل برسنے کی جگہ کی نشاندہی کی، اب جو بادل آئے تو امام (ع) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ بادل تمہارے لیے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔"[10]
اس واقعہ نے مامون کی کمر توڑ دی، اب مامون امام (ع) کے سامنے عاجز اور بے بس ہوچکا تھا، خراسان میں قیام کے مختصر عرصہ (صرف دو ہی برسوں) میں امام (ع) کی شہرت آسمانوں کو چھو گئی تھی، لہذا مامون کے پاس امام (ع) کو شہید کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تھا اور آخرکار ایسا ہی ہوا، 201 ہجری کو امام رضا (ع) خراسان تشریف لائے تھے اور 30 صفر 203 ہجری کو امام عالی مقام نے مامون کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔
افغانستان میں تقریبی نظریہ کے حامی اور طرفدار علماء کا بہیمانہ قتل
گذشتہ دو ہفتوں ميں افغانستان میں اہلسنت کی مساجد پردہشت گردوں کے بم دھماکوں میں ایسے علماء دین کو نشانہ بنایا گيا جو اسلامی مسالک کے درمیان تقریبی نظریہ رکھتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں کابل یونیورسٹی کے استاد اور وزیر محمد اکبر خان مسجد کے امام مولوی محمد ایاز نیازی کو اس مسجد میں ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا۔ ادھر صوبہ تخار میں بھی وہابی دہشت گردوں نے مولوی عین اللہ خلیانی کو شہید کردیا جبکہ کابل میں شدت پسندوں نے ایک اور حملے میں مولوی عزیز اللہ مفلح کو شہید کردیا ۔ افغانستان میں ممتاز مذہبی رہنماؤں کا بہیمانہ قتل ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے ۔ افغانستان میں شہید ہونے والے علماء اسلامی مسالک کے درمیان اتحاد اور تقریب کے حامی اور طرفدار تھے لہذا وہ طاقتیں جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی سے خوفزدہ ہیں ، ان کا ہاتھ افغان علماء کے قتل کے پيچھے نمایاں ہے۔
ایک طرف افغانستان میں صلح کی بات کی جارہی ہے اور دوسری طرف افغانستان کے ممتاز علماء اور تقریبی نظریہ طرفدار اور حامی علماء کا سلسلہ وار قتل اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام اور افغان دشمن طاقتیں ان علماء کو درمیان سے اٹھانا چاہتی ہیں جو اسلامی وحدت و یکجہتی کے طرفدار ہیں ۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان نے قیدیوں کے تبادلے کا آغاز کیا ہے جس کے بعد افغان انٹرا مذاکرات کے آغاز ہونے کا امکان ہوگیا ہے۔ لیکن وہ طاقتيں جو افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتیں وہ افغانتسان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے ذریعہ افغانیوں کو ایکدوسرے کے خلاف صف آراء کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا افغانستان میں دائمی حضور برقرار رہے لہذآ افغانستان حکومت کو چآہیے کہ وہ ایسے افراد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے جو افغانستان میں دشمن کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔