عالمی یوم قدس خمینی کبیر کی یاد گار

Rate this item
(0 votes)

عالمی یوم قدس خمینی کبیر کی یاد گار

ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو ساری دنیا میں مسلمان اور آزاد ضمیر انسان یوم القدس کے زیر عنوان ملت فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ارض فلسطین پر صیہونی حکومت کے قبضے کے خاتمے پر تاکید کرتے ہیں۔ آج ساری دنیا میں یہاں تک کہ صیہونی حکومت کے سب سے بڑے حامیوں امریکہ اور برطانیہ کے بڑے برے شہروں اور دارالحکومت میں بھی مظاہرے کئےگئے جن میں لوگوں نے صیہونی حکومت کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے ملت فلسطین کےخلاف اسکے مظالم اور اسلام و مسلمین کے خلاف اسکی سازشوں کی مذمت کی۔ عالمی یوم قدس اس بزرگ ہستی کی یاد گار ہے جسے زمانہ خمینی کبیر کے نام سے جانتا ہے۔ خمینی کبیر کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے گرچہ ارض فلسطین پر صیہونیت کے قبضے کو تیس برس گذرچکے تھے اور سامراج یہ بھرپور کوشش کررہا تھا کہ اس مسئلے کو بھلادیا جائے اور اس نے اپنی اس سازش کو کامیاب بنانے کے لئے مسلمان ملکوں کومسئلہ فلسطین سے لاتعلق اور عرب ملکوں کو اپنا ذہنی غلام بنالیاتھا لیکن جیسے ہی اسلامی انقلاب کامیاب ہوتا ہے ساری دنیامیں ایک بار پھر مسئلہ فلسطین زندہ ہوجاتا ہے۔ ہر مسلمان کے قلب و ذہن میں ملت فلسطین اور مسئلہ فلسطین کی تصویر جاگ جاتی ہے، عالم اسلام کاشعور جاگ جاتا ہےکہ اس کا ایک مسئلہ، مسئلہ فلسطین بھی ہے اور امت اسلامی کا ایک حصہ جو ارض مقدس پر رہتا ہے ہرروز صیہونیوں کے ہاتھوں ظلم وستم اور بربریت کا شکار ہورہا ہے۔

ارض فلسطین پر صیہونیوں کے قبصے کو پینسٹھ برس ہورہے ہیں، یعنی چھے دہائیوں سے زائد عرصہ گذر رہا ہےکہ عالم کفر و شرک کا نمائندہ اور سرمایہ داری کا خاص الخاص نمائندہ یا بالفاظ دیگر دنیائے کفر والحاد، وفسق و فجور و فحشاء کا بے تاج بادشاہ صیہونیزم ارض فلسطین پر قابض ہے اور ملت مظلوم فلسطین کو ہر طرح سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہا ہے۔ اب یہاں ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہےکہ آخر کن وجوہات کی بنا پر عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک ارض فلسطین کو آزاد کرانے میں ناکام رہے ہیں اورآج بھی ناکام ہیں اور سب زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب انہوں نے اس مسئلے کو بھلادیا ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کسی طرح سے لین دین کے ذریعے حل ہوجائے۔ اس سوال کا جواب کافی طویل اور تفصیلی ہے کیونکہ اس میں متعدد وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ سرزمین حجاز پر حکمراں خاندان کے سرغنے سعود نے بوڑھے سامراج کو یہ لکھ کردیے دیا تھا کہ فلسطین سے ہم دستبردار ہوتے ہیں اور یہ قطعہ ارض تمہیں بخشتے ہیں گویا یہ ان کی ملکیت تھی جسے وہ اپنے سامراجی آقاؤں کو بخش رہے تھے جنہوں نے انہیں ارض وحی پر مسلط ہونے میں مدد دی تھی۔ ملت فلسطین کی بدبختی اور نکبت بار زندگي میں تاریخ کے اس گوشے سے غفلت جائز نہیں ہے اسے نظر میں رکھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات جو ہمارے جواب کی بنیاد ہے یہ ہے کہ خاندان عثمانی کی بے راہ روی کے نتیجے میں اس مملکت کا شیرازہ بکھرنا، اس کے نتیجے میں عرب و عجم اختلافات، جس کے سہارے عالم کفر و الحاد نے مسلمانون کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ان کی طاقت کو صفر بنادیا اس کےعلاوہ بعض سامراجی آئيڈیالوجیوں کا ظہور بالخصوص وہابیت کا ظہور جس نے مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی تعلیمات سے محروم کرکے انتھا پسندی کے نشے میں غفلت کی وادیون میں بھٹکادیا نیز مسلمانوں کے مسلکی اختلافات نے انہيں قرآن و سنت سے ایسا دور کردیا کہ وہ کسی کام کے نہ رہے ، جب ان کے نزدیک دین و قرآن کے احکام کی آبرو نہ رہی توبھلا وہ کس طرح سے اپنے ایک حصے اور ارض فلسطین کو اہمیت دیتے۔ جیسے جیسے مسلمان دنیا میں نو ظہور مکاتب فکر کے جالوں میں پھنستا گيا اسی رفتار سے وہ دین و قرآن سے دور ہوتا گيا جس کے نتیجے میں اس پر وہ ساری افتادیں پڑنے لگيں جن سے سرور کائنات اور ان کے جانشین برحق نے خبردار کیا تھا۔ انیس سو نواسی میں اسلامی انقلاب کا کامیاب ہونا اسلام اور مسلمانوں کےلئے نشاۃ ثانیہ ثابت ہوا اور اس انقلاب نے مسلمانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑ کر جگایا۔ اسلامی انقلاب کے طفیل مسلمان بیدار ہوگيا اور اس نے کلمہ توحید اور پرچم عدل و وعدہ الھی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی لیکن جس طرح سے تمام انبیاء کرام کی تحریکوں کو طاغوتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وارث انبیاء کی اس تحریک کو بھی کرنا پڑا، یہاں پر نہ صرف سامراج بلکہ اپنے ہمساے اور نام نہاد مسلمان ممالک جن میں نہایت ہی شرمناک طریقے سے خادم الحرمین شریفین کا لقب دھارنے والے حکمران بھی شامل بھی تھے جنہوں نے اپنی تیل کی کمائي سے نہ صرف اسلامی انقلاب کی مخالفت کی بلکہ دیگر ملکوں اور قوموں کو بھی جو ان کی تیل کی دولت کی غلامی میں آچکے تھے اسلام ناب کے انقلاب کی مخالفت کرنے پرمجبور کیا۔ آل سعود اور اس کے چیلوں کی جانب سے اسلامی انقلاب کی مخالفت اور ہروہ بات جو ملت فلسطین کے حق میں اور اسکے مفادات کے حق میں تھی اس کی مخالفت فلسطین کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں ناکامی کی ایک بڑی دلیل ہے۔ آل سعود نے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرکے نیز اسکے خلاف عالمی سطح پر سازشیں رچ کر ملت فلسطین کو آزادی اور قدس شریف کی مسلمانوں کی آغوش میں واپسی سے محروم کرنے کے لئے عالم کفر وشرک و الحاد کی نیابت میں وہ سارے کام کئے ہیں جن کی انجام دہی امریکہ اور صیہونی حکومت کے لئے اربوں کے بجٹ اور عظیم فردی اور مادی سرمائے کے خرچ کرنے کا سبب بنتی۔ صنادید کفر و شرک کی خوشنودی کے لئے آل سعود نے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرکے نہ صرف لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنایا ہے بلکہ قدس شریف پر صیہونیوں کے قبضے کو مستحکم بنادیا ہے۔ کیا آج سامراج اور صیہونیت کی عید نہیں ہے کیا وہ پھولے نہیں سمارہے ہیں کہ شام میں مسلمانوں کی ساری طاقت ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے میں صرف ہورہی ہے، کیا سامراج کی اس عید کا سب سےبڑا مسبب آل سعود نہیں ہے؟ کیا اسلامی انقلاب نے ارض فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگاکر مسلمانوں کے دل کی بات نہیں کہی تھی، لیکن حرمین شریفین پرمسلط آل سعود نے اس کی مخالفت کیوں کی؟ اس وجہ سے کی کہ اگر قبلہ اول آزاد ہوجاتا تو قبلہ دوم کیونکر نہ آزاد ہوتا؟ ان دنیا پرستوں کو اپنے تخت و تاج کی فکر تھی اس لئے انہوں نے اپنی چند روزہ حکومت کے لئے قبلہ اول پر صیہونیت اور کفر و شرک کے قبضے کوترجیح دی اس کے باوجود ضیوف الرحمان اور حرمین شریفین کی خدمت گذاری کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ آل سعود اور اسکے ایجنٹوں اور اسکے آقاوں کی سازشوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہےکہ کفروشرک کی دنیا توخیر ہماری دشمن ہے ہی اسکے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے لیکن جب خود اپنے ہی کفر وشرک کے ساتھ مل کر وہ سارے کام کرنے لگيں جن میں امت اسلامی کا نقصان اور کفر وشرک کا فائدہ ہے تو اس صورت میں کیا کیا جائے گا؟ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ تمام اقدامات جو ملت فلسطین کے حق میں قوموں نے انجام دینے کا اعلان کیاتھا انہیں آل سعود نے سبوتاژ کیا ہے۔ ان اقدامات میں آج اسلامی بیداری کی تحریکیں ہیں جنہیں آل سعود منحرف کرنے اور ان پرقبضہ کرنے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہارہی ہے۔ حج کے دوران حاجیوں کو کفر وشرک کے خلاف اظہار برائت سے روکنا آل سعود ہی کا شرمناک اقدام جس کے ذریعے اس نے اپنے کرم فرماؤں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کےخلاف مسلمانوں کی صدائے احتجاج کو خاموش کردیا ورنہ قران تو یہ کہتا ہےکہ مسلمانوں کو حج کے دوران قیام کرنا چاہیے۔ آل سعود نے حج کے دوران کفروشرک کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کو روک کر صیہونی حکومت کی بقا کی ضمانت فراہم کی ہے ورنہ اگر مسلمان ہرسال حج کے موقع پر امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے رہتے تو آج امت اسلامی کب کا قدس شریف کو آزاد کراچکی ہوتی لیکن آل سعود تو ٹہری امریکہ اور صیہونیت کی خدمت گذار وہ ایسا کیوں کرنے دیتی۔ امر واقعہ یہ ہےکہ کفر وشرک کے سرغنوں نے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرنے میں آل سعود کو اپنا ایسا آلہ کار بنایا تھا جس کا ایک تیر بھی خطا نہیں ہوا اور اس نے اپنے آقاوں کی تمام آرزوں کوپورا کیا اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہےکہ جب تک آل سعود کی حکومت قائم ہے صیہونی حکومت باقی رہے گي اور اسے کسی طرح کاخطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ افسوس تو اسی بات ہے کہ سامراج مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان کا گلہ کٹوارہا ہے۔ ان تمام امور کے پیش نظر یہ سمجھ میں آتا ہےکہ منجملہ مختلف وجوہات کے امریکہ اور صیہونیت کی خوش خدمتی کے لئے آل سعود کی جانب سے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرنا بھی ایک وجہ ہے جس کی بنا پر آج ارض فلسطین اور قدس شریف بدستور صیہونیوں کے قبضے میں ہے۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس قراردے کر یہ واضح کردیا ہےکہ قدس کو آزاد کرانا ہر مسلمان کا دینی اور انسانی فریضہ ہے۔

Read 2310 times