ولادت امام رضا علیہ السلام اور عشرہ کرامت کا حسن اختتام

Rate this item
(0 votes)
ولادت امام رضا علیہ السلام اور عشرہ کرامت کا حسن اختتام

آج ہر طرف چراغانی ہے، مسرتوں کی انجمن ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہے، ہند و پاک ہو کہ ایران و عراق یا جہان تشیع و کائنات محبان اہلبیت اطہار علیھم السلام و محاذ حریت ہر طرف محفلیں سجی ہیں اور امام رضا علیہ السلام   کے فضائل و مناقب، آپکی تعلیمات سے آشنائی کے  ساتھ  آپ سے جڑا ہر دل یہ چاہتا ہے کہ عشرہ کرامت کے اس اختتامی دن کو یادگار بنایا جا سکے۔ یاد رہے کہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی یکم ذیقعدہ (1) سے ولادت کو لیکر ۱۱ذی قعدہ ولادت امام رضا علیہ السلام  (2) سے اس عرصے کو عشرہ کرامت کا نام دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ جہاں بی بی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو کریمہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کہا جاتا ہے، وہیں امام رضا علیہ السلام کریم اہلبیت (ع) ہیں یوں تو اہلبیت اطہار علیھم السلام کا ہر فرد کریم ہے لیکن چونکہ معصومہ قم کو کریمہ اہلبیت (ع) کہا جاتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کا کرم بھی کسی پر پوشیدہ نہیں، آپ کریم اہلبیت ہیں، لہٰذا بہن کی ولادت سے لیکر بھائی کی ولادت کے اس عرصے کو عشرہ کرامت کے طور پر منایا  جاتا ہے۔ ہم اس عشرہ کرامت کی اختتامی منزل پر ہیں، لہٰذا بہتر جانا کہ اس کے اختتام پر مفہوم کرامت و کرم کو سمجھتے ہوئے ہم ان قدروں کو اپنے اندر اجاگر کرنے کی کوشش کریں، جو امام رضا علیہ السلام نے ہم تک منتقل کرنا چاہی ہیں، چنانچہ پیش نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ مفہوم کرامت کو واضح کرتے ہوئے امام رضا علیہ کی حیات طیبہ کے گلستان کرم و فضل کے چند ان خوشوں کو پیش کیا جائے، جن سے آج بھی راہ کرم و فضل کے سالک استفادہ کر رہے ہیں  اور رہتی دنیا تک یہ تعلیمات کرامت و شرف کی راہ میں مشعل راہ رہیں گے    

مفہوم کرامت:  
کرامت انسان کی ایسی خصوصیت ہے، جو انسان کی ایک  والا قدر اور اس کے  عظیم شرف کی ترجمان ہے، کرامت ہی کی بنیاد پر انسان ذاتا دوسری مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، تمام ادیان و مکاتب فکر نے الگ الگ انداز سے انسان کی ذاتی کرامت کی تشریح کی ہے اور اسے عطائے رب جانتے ہوئے کرامت کو محفوظ رکھنے اور اس کے پھلنے پھولنے کے اصولوں کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ انسانی حقوق کے سلسلہ سے قائم مطالعات کی جدید دنیا میں (Human digneity) کے نام سے انسان کے موضوع پر ایک نئے مطالعہ کا باب تک کھل گیا ہے، (3) حتٰی یہ وہ موضوع ہے جس پر شاعروں اور فلاسفہ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اس پر خاص توجہ دی ہے، (4) اور ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام خاص کر امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں جا بجا انسانی کرامت کے بارز نمونے نظر آتے ہیں، ان نمونوں کو بیان کرنے سے قبل  ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کرامت کہتے کس کو ہیں اور اسکا مفہوم کیا ہے جب ہم نے مفہوم کرامت  کو ڈھونڈا تو ملا کہ لفظ کرامت "کرم" سے ہے اور لغت میں اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں کہیں یہ "بخشش و عطا" کے معنی میں ہے اور کہیں کسی کی "ارجمندی و بزرگی" کو بیان کرتا ہے کہیں "جلالت و شان" کو ابن منظور نے اسکے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کریم ایک ایسا اسم ہے جو اس ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے اندر تمام سراہے جانے والے صفات موجود ہوں (5) گو تمام تر صفات حمیدہ کے حامل کو کریم کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ جب یہ خدا سے متصف ہو تو بخشش و عطا کے معنی میں ہوگا۔ جب انسان کے لئے استعمال ہو تو اچھے اخلاق و کرادر کے طور پر اسکے معنی بیان ہوں گے، (6) انہیں معنی کے پیش نظر علماء نے کرامت کے معنی کو ایسی صفت جس سے عقلاء راضی و خوشنود ہوں، (7) نیز پستیوں کی ضد،  (8) بلندی کردار، پاکیزگی روح اور گوہر جان کے طور پر بھی بیان کیا ہے، (9) قرآن کریم نے بھی اسی روح کی بلندی کو بیان کرنے کے لئے لفظ کرامت کا سہارا لیا  چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔"وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً": اسی لئے علماء اس آیت کے ذیل میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں اسے انسان سے مخصوص روحانی فضیلت تو کہیں ذاتی شرف کے طور پر پیش کیا ہے،(10) مفہوم کرامت کی مختصر وضاحت کے بعد یہ تو واضح ہو گیا یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو اسے پستیوں سے دور کرتی ہے اور انسان کے گوہر وجود کو بیان کرتی ہے، بعض علماء نے مفہوم کرامت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک ذاتی و وہبی کرامت جو خدا نے ہر ایک کو دی ہے، ذاتی کرامت سے مراد وہ بلندی کردار ہے جسکا ہر ایک انسان ذاتا حامل ہے مگر یہ کہ برائیوں اور رذائل کے ارتکاب کے ذریعہ اسے ختم کر دے اور پست ہو جائے، دوسرا مفہوم کرامت  اکتسابی ہے جہاں انسان اپنی ذات کی تعمیر و تطہیر اس طرح کرتا ہے کہ رذائل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور حصول کمالات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یہی کرامت کا وہ مفہوم ہے جو انسان کی قدر و منزلت کو طے کرتا ہے [11] جب انسان کا کمال اسکی قدر و منزلت کو طے کرے تو تقوی سے بڑھ کر کمال اور کیا ہوگا جس کے لئے ارشاد ہو رہا ہے إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ: ...  (الحجرات/13)۔ خدا کے نزدیک برتری کی بنیاد تقوٰی پر ہے،بیشک وہ جاننے والا اور باخبر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپکی نگاہ میں خاندانی پس منظر یا آزاد و غلام ہونا معیار نہیں تھا،  بلکہ آپکی نظر میں شرف انسانیت، کرامت انسان کی دلیل انسان کا باطن تھا، چنانچہ ابا صلت کہتے ہیں میں امام کے خراسان کے سفر میں ہمراہ تھا کہ امام علیہ السلام نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور تمام  غلاموں اور خادموں کو آواز دی کہ آجائیں  میں نے کہا آقا میری جان آپ پر قربان انکے لئے عیلحدہ دسترخوان لگا دیتے، آپ نے فرمایا ہمارا خدا ایک ہ،م ہمارے ماں باپ ایک ہیں اور انسان کی جزا اسکے اعمال پر موقوف ہے، (12) اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ایک مقام ہو جہاں امام علیہ السلام نے اپنے خادموں اور خود کے درمیان سے ہر فرق کو مٹا کر انہیں اپنے ساتھ بٹھایا ہو بلکہ آپکا شیوہ ہی یہی تھا آپ اپنے خادموں  اور اپنے یہاں  کام کرنے والوں سے بہت مانوس تھے، چنانچہ جب بھی آپکو فراغت ملتی تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے گفتگو فرماتے، یہاں تک کہ  اصطبل میں کام کرنے والوں تک کو آپ اپنے پاس بلا بھیجتے اور سب کے لئے دسترخوان لگا کر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، (13)کرامت نفس کی اس بلندی پر آپ کی ذات تھی۔

خدمت خلق کو اپنا فریضہ سجمھتے تھے ہر ایک کے کام آتے اگر کوئی آپکو نہیں جانتا اور آپ سے اس نے کسی خدمت کے لئے بھی کہا تو آپ نے نہیں کہا کہ تم یہ کام مجھ سے لے رہے ہو جانتے نہیں میں کون ہوں؟ بلکہ تاریخ کہتی ہے کہ آپ کو نہ پہچان پانے کی وجہ سے حمام میں موجود کسی شخص نے عام آدمی خیال کر کے کیسہ ملنے کو کہا تو آپ نے اس سے بھی انکار نہیں کیا اور اسکا میل صاف کرنے تک میں عار محسوس نہیں کی اور جب اس نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ امام وقت سے کام لے رہا ہے تو اپنی جگہ سن رہ گیا اور معذرت کرنے لگا کہ مولا مجھے خبر نہیں تھی، امام علیہ السلام نے اس وقت بھی اس سے کہا کوئی بات نہیں ہے اور کوشش کی کہ اس کی شرمندگی کو دور کر سکیں، (14) یہ ہمارے امام علیہ السلام کی سیرت ہے، کیا ہم اپنے معاشرے کے نادار و غریب افراد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں جیسا کہ امام رضا علیہ السلام سب کے ساتھ فرماتے تھے؟ کیا ہم کسی کا بوجھ اس کے سر پر رکھنے کے لئے تیار ہیں؟ اٹھانے کی تو بات ہی دور ہے، کیا ہم اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ  ہمدردی و رواداری سے پیش آ سکتے ہیں، کیا ہم کسی غریب کا درد دل سن سکتے ہیں، کیا جب ہم کسی بڑی محفل میں شریک ہوتے ہیں تو ہمارے اندر یہ بات نہیں پائی جاتی کہ ہمیں اونچی جگہ ملے بڑا مقام ملے ہماری آو بھگت ہو، کیا ہم کسی پروگرام میں فقراء کے ساتھ ہم  طعم میں ہم سفرہ ہو سکتے ہیں، کیا ہم کسی انسان کا خاموشی سے کوئی کام کر سکتے ہیں اور بس اپنے اللہ سے اجر کے طالب ہو سکتے ہیں، ہمارے اندر کتنی کرامت پائی جاتی ہے ہمارے اندر کتنا ظرف پایا جاتا ہے۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

روایت میں ہے کہ ایک کریم انسان  اگر کسی کے کام آتا ہے تو ضرورت مند کے سامنے منتیں نہیں کرتا بلکہ اسکی حاجت روائی کو اپنا قرض سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ یسع بن حمزہ سے منقول ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے اور کافی مجمع تھا سب لوگ مسائل شرعیہ دریافت کر رہے تھے، حلال و حرام خدا کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور مولا سب کو جواب دے رہے تھے کہ ہماری محفل میں ایک گندمی رنگت کا شخص داخل ہوا اور اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا اور کہا کہ میں آپکا شیعہ ہوں، میں اپنے وطن سے حج کی غرض سے آیا تھا لیکن راستے میں میری رقم کھو  گئی، آپکی خدمت میں آیا ہوں کہ فی الحال آپ میری ضرورت پوری کر دیں اور میں اپنے گھر کرج گھر پہنچ کر فورا آپکی طرف سے دی جانے والی رقم کو صدقے کے طور پر نکال دونگا، امام  علیہ السلام نے اس کی گفتگو سن کر کہا "رحمک اللہ" اور امام علیہ السلام نے اس کے ساتھ شفقت کا اظہار فرمایا، اسے اپنے پاس بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد جب دو چار لوگ ہی بچے اور باقی اٹھ کر چلے گئے اور کچھ خلوت ہوئی تو  آپ نے وہاں بیٹھے لوگوں سے رخصت لے کر حجرے کا قصد کیا اور وہاں سے ایک تھیلی نکالی اور باہر  کی جانب رخ انور کر کے پوچھا وہ مرد خراسانی کہاں ہے، جو ابھی  آیا تھا وہ قریب آیا تو مولا نے اسے دو سو  درہم کی تھیلی دیتے ہوئے ہوئے کہا یہ لو یہ تمہاری رقم ہے، جسکا تم نے مطالبہ کیا تھا اور میری جانب سے صدقہ دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہاری ہی ہے، اسے اپنے ضرورت کے حساب سے خرچ کرو۔

امام علیہ السلام نے اس گفتگو کے دوران اسکے چہرے پر نظر نہیں ڈالی، کسی نے پوچھا کہ مولا آپ نے اسے دے تو دیا لیکن چھپ کر کیوں دیا اس کے چہرے کی طرف کیوں نہیں دیکھا تو آپ نے جواب دیا میں نے نہیں چاہا کہ اسکے چہرے پر اسکی شرمندگی کو دیکھوں، مجھے خدا سے خوف آیا کہ اس کے بندے کے چہرے پر خفت کو دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا ہے کہ جو اپنی نیکی کو پوشیدہ کرے اسے ۷۰ حج کا ثواب دیا جائے گا۔ امام علیہ السلام کا یہ عمل بتاتا ہے کہ کرامت و شرافت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کے کام آنے کے بعد ہرگز اسکی منت نہ رکھی جائے کہ ہم نے یہ کر دیا، ہم نے وہ کر دیا، بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ سوال  کرنے والے کی عزت نفس باقی رہے اور اسے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ عشرہ کرامت کے اس آخری دن جہاں ہم امام رضا علیہ السلام کی زیارت انکے ذکر و  فضائل و مناقب میں مشغول عبادت ہیں، وہیں  ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کریمانہ مزاج پیدا کریں اور امام رضا علیہ السلام کی سیرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السلام کرامت نفس کی کس منزل پر تھے اور ہم کہاں پر ہیں، اگر ہم اپنے آپ کو امام رضا علیہ السلام کے کردار سے نزدیک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا یہ وہ منزل ہوگی کہ عشرہ کرامت کا حسن اختتام بھی ہوگا  اور ہمارا اپنے امام علیہ السلام کے لئے حسن اتباع بھی، اگر ہم اپنے کردار کو بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو عشرہ کرامت میں جس طرح ہمارے گھروں، شہروں، امام بارگاہوں میں چراغانی ہے اسی طرح ہماری روحوں میں بھی معنویت و کرامت نفس کی چراغانی ہوگی۔ پروردگار ہم سب کو  توفیق دے کہ ہم عزت و کرامت نفس کے ساتھ راہ بندگی پر تعلیمات اہلبیت اطہار علیھم السلام کی روشنی میں مسلسل آگے بڑھتے رہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

ا۔ استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌حال او»، ص۳۰۱۔
2۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، جلد ۱ ص ۴۸۶ تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ پنجم، ۱۳۶۳ش۔
 3۔ رحیمی‌نژاد، اسماعیل و محمّد حبیب‌زاده، (1صفا387). "مجازات‌های نامتناسب؛ مجازات‌های مغایر با کرامت انسانی"۔ حقوق، دورة 2۔ ‌شمارة 115، صص 134ـ 115۔ صادقی، محمود۔ (1385)۔ کرامت انسانی؛ مبنای منع همانند سازی انسان در اسناد بین‌المللی۔ پژوهشنامة حقوق و علوم سیاسی۔ شمارة 2 و 3۔ صص 138ـ117۔
4۔ آساتوریان، فارمیک و محمّد آل‌ عصفور. (1386)۔ "کرامت انسان و محورهای اصلی  در مثنوی مولوی"۔ علوم اجتماعی و انسانی دانشگاه شیراز۔ دورة 51، شمارة 51، ص 46ـ27۔
5۔ ابن‌منظور، محمّد بن مکرم. ‌لسان‌العرب، ج 12: 75ـ74 بیروت: دار صادر. (1414ق.)۔
6۔ راغب اصفهانی، حسین بن محمّد. (1404ق.) معجم مفردات الفاظ القرآن۔ 428تهران: دفتر نشر کتاب۔
7۔ طریحی، فخرالدّین، مجمع‌البحرین..، ج 6: 152)،  تهران: مرتضوی. (1395ق.)۔
8۔ مصطفوی، حسن. ‌التّحقیق فی کلمات القرآن الکریم. ج 6: 148 تهران: وزارت ارشاد، (1416ق.)۔
9۔ جوادی آملی، عبدالله.. کرامت در قرآن. 22ـ21؛ تهران: نشر فرهنگی رجا۔ (1372)، یدالله پور، بهروز۔ (1388)۔ "معناشناسی کرامت انسان در قرآن"، پژوهش‌ نامة علوم و معارف قرآن (پیام جاویدان). دورة2۔ شمارة 2۔ صص 141ـ119)۔
10۔ جوادی آملی، عبدالله۔ (1372)۔ کرامت در قرآن۔ تهران: نشر فرهنگی رجا، جعفری، محمّدتقی۔ (1389). "حقّ کرامت انسانی"، مجلّة دانشکدة حقوق و علوم سیاسی (دانشگاه تهران). دورة 27، شمارة 27، ص 80۔ سلطانی، محمّد علی۔ (1387)۔ "کرامت از نگاه قرآن". آیینة پژوهش. دورة 102۔ شمارة 78. ص 30۔
11۔ جعفری، محمّدتقی، (1389). "حقّ کرامت انسانی". مجلّة دانشکدة حقوق و علوم سیاسی (دانشگاه تهران). دورة 27، شمارة 27، ص 80۔
 12۔ "عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَلْخٍ قَالَ: کُنْتُ‏ مَعَ‏ الرِّضَا (ع) فِی سَفَرِهِ إِلَى خُرَاسَانَ فَدَعَا یَوْماً بِمَائِدَةٍ لَهُ فَجَمَعَ عَلَیْهَا مَوَالِیَهُ مِنَ السُّودَانِ وَ غَیْرِهِمْ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ لَوْ عَزَلْتَ لِهَؤُلَاءِ مَائِدَةً فَقَالَ مَهْ إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى وَاحِدٌ وَ الْأُمَّ وَاحِدَةٌ وَ الْأَبَ وَاحِدٌ وَ الْجَزَاءَ بِالْأَعْمَالِ:  (کلینی، 1365، ج 8: 230 مجلسی، محمّد باقر۔ (1403ق.)۔ بحارالأنوار؛ الجامعة لِدُرَر أخبار الأئمة الأطهار. بیروت: دار إحیاء التّراث العرق.، ج 49: 141)،
13۔ ابن‌بابویه قمی (شیخ صدوق)، محمّد بن علی، ج‏2: 159 عیون أخبار الرّضا (ع)، قم: انتشارات جهان۔ (1378ق.). 
14۔ مجلسی، محمّدباقر، (1403ق.)، بحارالأنوار؛ الجامعة لِدُرَر أخبار الأئمة الأطهار. بیروت: دار إحیاء التّراث العربی..، 49: 99)۔
15۔ کُلینی، محمّد بن یعقوب.. اصول الکافی، تهران: دار الکُتُب الإسلامیّه۔ 1365، ج 4: 24)۔
Read 901 times