سبط پیغمبر امام حسن مجتبیؑ، فضائل و مناقب اور صلح (2)

Rate this item
(0 votes)
سبط پیغمبر امام حسن مجتبیؑ، فضائل و مناقب اور صلح (2)

صلح امام حسنؑ اور حقائق:
شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ 40 ھ کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبید اللہ بن عباس پیکر امام علیؑ کو دفن کرنے بعد لوگوں کے درمیان آئے اور آپ کی شہادت سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے کہا: "آپ ایک شایستہ اور بردبار جانشین ہماری درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو ان کی بیعت کریں۔" کتاب الارشاد میں آیا ہے کہ 21 رمضان جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا، جس میں اپنے والد کی شایستگی اور فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنے ذاتی کمالات نیز اہل بیت کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔ آپ کی تقریر کے بعد عبداللہ بن عباس اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے: "اپنے نبی کے بیٹے اور اپنے امام کی جانشین کی بیعت کریں۔" اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بعنوان خلیفہ بیعت کی۔ منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ بعض منابع کے مطابق قیس بن سعد بن عبادہ جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے،انہوں نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔

حسین محمد جعفری اپنی کتاب تشیع در مسیر تاریخ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے بہت سارے اصحاب جو اس وقت کوفہ میں مقیم تھے، انہوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔ جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ مکہ و مدینہ کے مسلمان بھی حسن بن علیؑ کی بیعت میں عراق والوں کے ساتھ موافق تھے اور صرف آپ کو اس مقام کیلئے سزاوار جانتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یمن اور فارس کے لوگوں نے بھی اس بیعت کی تائید کی تھی یا کم از کم اس کے مخالف نہیں تھے۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ صلح صرف امام حسن  ؑسے ہی منسوب نہیں بلکہ خود آنحضرت ؐ نے بھی بعثت کے اوّل سالوں سے آخر تک صلح کی ہیں، جب تک آپؐ مکہ میں رہے اور ظاہراً مدینہ میں داخلے کے دوسرے سال تک آپ کی روش مشرکین کے مقابل مصالحت کی ہے، مشرکین کی طرف سے جتنی بھی تکلیفیں پہنچیں، یہاں تک کہ بعض مسلمان مشرکین کی قید میں مر بھی جاتے اور مسلمان جہاد و جنگ کی اجازت چاہتے تھے، اسکے باوجود آپؐ نے انہیں جنگ کی اجازت نہیں دی بلکہ ہجرت کی اجازت دی۔

اس کے بعد پھر ہم رسول خدا ؐ کو دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی ہجرت کے بعد ایک موقع پر مشرکین اور یہود و نصاریٰ سے جنگ کرتے ہیں اور دوسرے موقع پر مشرکین مکہ سے جو کہ رسول خدا کے سب سے سخت ترین دشمن تھے، صلح حدیبیہ کی قرارداد پر دستخط کرتے ہیں اور اس کے بعد بھی مدینہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ مدینہ کے یہودیوں سے قرارداد عدم تعرض پر دستخط کرتے ہیں۔ جب ہم امام حسن ؑ کے حالات کا امام حسین ؑ کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ کسی بھی لحاظ سے قابل مقایسہ (موازنہ) نہیں اور آخری وجہ جو قیام امام حسین ؑ کا سبب بنی، وہ ظالم حکومت کے خلاف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی شرط تھی جبکہ امام حسن ؑ کے لئے ابھی یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا، امام حسن ؑ کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ لوگ آگئے تو اس کے بعد ایسا کریں گے، ویسا کریںگے جبکہ یہ بات اس سے جدا ہے کہ کسی نے ایسا کام کیا ہے اور اب ہم اس کے جواب میں قیام کے لئے سند و صحت رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ صلح امام حسن ؑ نے امام حسین ؑ کے قیام کے لئے بنیاد فراہم کی، ضروری تھا کہ امام حسن ؑ کچھ عرصہ کنارہ کشی اختیار کریں، تاکہ بنی امیہ کی اصلیت جو کہ لوگوں سے چھپی ہوئی اور مخفی تھی، آشکار ہو جائے اور بعد میں وہ قیام جس کی ضرورت ہے، انجام پاسکے اور از نظر تاریخ قیام موجھہ ہو، (یعنی قیام وجہ رکھتا ہو) اس قرارداد (صلح) کے بعد جب لوگوں نے دیکھا کہ معاویہ اس قرارداد پر کاربند نہیں تو شیعوں میں سے کچھ لوگ امام حسن ؑ کے پاس آئے اور آپ سے قیام کے بارے میں عرض کیا، آپ نے فرمایا ’’نہیں قیام معاویہ کے بعد کے لئے ہے‘‘ یعنی کم و بیش انہیں اتنی مہلت دی جائے، تاکہ وہ اس کی اصلیت و حقیقت کو خوب اچھی طرح لوگوں کو پہچنوا دیں، وہ وقت وقت قیام ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر امام حسنؑ معاویہ کے بعد تک زندہ ہوتے اور اس صورتحال سے دوچار ہوتے کہ جس سے امام حسین ؑ دوچار ہوئے تو یقیناً قیام کرتے۔

متن قرارداد صلح امام حسن ؑ:
اب ہم صلح کی قرار دادوں میں سے کچھ کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ وضع قرارداد کیا تھی۔ (یعنی قرارداد میں کون سی شرایط تھیں)
1۔ حکومت معاویہ کو دی جاتی ہے، اس شرط پر کہ کتاب خدا، سنت پیغمبر اور سیرۃ خلفاء پر عمل کرے گا (یہاں پر اس امر کا بیان ضروری ہے) کہ امیر المومنین کی ایک منطق تھی اور وہ کہتے تھے کہ میں اس لئے کہ میں خلیفہ بنوں، باوجود اس کے کہ خلافت میرا حق ہے، قیام نہیں کروں گا۔ یہ لوگوں کا فرض ہے، میں اس وقت قیام کروں گا، جب جس نے خلافت پر قبضہ کیا ہے، وہ کاموں کو خلاف شرع انجام دے، جیسا کہ نہج البلاغہ کے خطبہ 72میں فرماتے ہیں: "جب تک ظلم صرف مجھ پر ہے اور میرا حق مجھ سے چھینا ہے اور اس کے علاوہ سارے کاموں میں درست ہے، میں خاموش رہوں گا۔ میں اس وقت قیام کروں گا کہ جب مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار نہ رہے۔" اور امام حسن ؑ بھی دراصل اس طرح کی قرارداد کرتے ہیں کہ جب تک ظلم مجھ پر ہے اور صرف مجھے میرے حق سے محروم کیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف وہ غاصب امور مسلمین کو صحیح طرح سے چلا رہا ہے تو میں اس شرط پر حکومت سے الگ ہونے پر تیار ہوں۔

2۔ قراردادوں میں ایک قرارداد یہ تھی کہ معاویہ کے بعد حکومت امام حسن ؑ کا حق ہے اور اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو امام حسین ؑ کا حق ہے۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ صلح ایک مدت تک تھی، نہ کہ امام حسن ؑ نے کہہ دیا کہ اب اس کے بعد حکومت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہ صلح صرف معاویہ کے دور تک تھی اور معاویہ یہ حق نہیں رکھتا تھا کہ اپنے بعد کے زمانے کے لئے کسی کو اپنا جانشین مقرر کرے۔
3۔ ایک قرارداد  امیرالمومنین علی ابن ابی طالب پر کئے جانے والے تبرا کے رکوانے کی تھی، جو کہ معاویہ نے شام میں شروع کر رکھا تھا۔ اس صلح نامہ میں ایک قرارداد یہ تھی کہ معاویہ نمازوں میں امیر المومنین ؑ علی پر کی جانے والی لعنت کو بند کرے اور علی ؑ کو نیکی کے علاوہ یاد نہ کرے اور معاویہ نے اس شرط کو بھی مان لیا تھا (لیکن افسوس اس پر بھی اس نے عمل نہ کیا اور اس کے بعد بھی نوے سال تک یہ عمل قبیح جاری رہا)

4۔ بیت المال کوفہ کہ جس کی آمدنی پانچ ملین درہم ہے، مستثنیٰ ہوگا اور حکومت کو نہیں دیا جائے گا اور معاویہ ہر سال دو ملین درہم امام حسن ؑ کے لئے بھیجے گا، تاکہ شیعہ حکومت معاویہ کے محتاج نہ ہوں اور بخشش و ہدیوں میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر امتیاز دے اور ایک ملین درہم (دس لاکھ درہم) امیر المومنین ؑ کے ساتھیوں جو کہ جنگ جمل و صفین میں شہید ہوگئے ہیں، ان کے خاندانوں میں تقسیم کرے۔
5۔ خدا کی زمین پر ہر جگہ چاہے شام ہو یا عراق، یمن ہو یا حجاز لوگ امن و امان سے رہیں اور سیاہ پوست اور سرخ پوست سب امن و امان سے رہیں اور معاویہ ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرے، مخصوص وہ کینہ ہے، جو معاویہ ان سے جنگ صفین میں معاویہ کے خلاف لڑنے کی وجہ سے رکھتا تھا اور نہ عراق کے لوگوں سے اور نہ علی ؑ کے اصحاب سے، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں، پچھلے زمانے کی غلطیوں کا مواخذہ کرے گا اور جو کچھ اصحاب علی ؑ کے پاس ہے، وہ ان سے نہ لے گا اور اہل بیت رسول ؐ اور حسن ؐ و حسین ؐ کی جانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کرے گا۔

یہ تھیں قراردادِ صلح کی شرایط کہ جن شرایط پر امام حسن ؑ نے معاویہ سے صلح کی اور معاویہ نے ان تمام شرایط کو بہت زیادہ قسموں کے ساتھ قبول کیا تھا کہ میں خدا اور پیغمبر کو ضامن بنا کر کہتا ہوں کہ ان پر عمل کروں گا اور اگر عمل نہ کروں تو یہ ہو۔۔ وہ ہو۔۔ پس ان تمام حالات و واقعات اور شرایط سے ظاہر (واضح) ہوتا ہے کہ امام حسن ؑ جن حالات میں زندگی گزار رہے تھے، ان حالات کا تقاضا یہی تھا کہ صلح کی جائے اور یہ کہ صلح امام حسن ؑ کا قیام امام حسین  ؑ سے مقایسہ کرنا درست نہیں، کیونکہ دونوں کے زمانے کے حالات بہت مختلف تھے اور دونوں کا اپنے اپنے وقت کے حساب سے فیصلہ بالکل درست اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا بلکہ اگر امام حسن ؑ کے بجائے امام حسین ؑ معاویہ کے دور میں ہوتے تو وہ بھی صلح نامہ پر دستخط کرتے اور اسی طرح اگر امام حسین ؑ کی جگہ امام حسن ؑ ہوتے تو وہ یزید کیخلاف ضرور قیام کرتے۔

منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگے۔ امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ صلح حدیبیہ کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو حضرت خضر اور حضرت موسیٰ کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا، جہاں حضرت موسیٰ ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔ متعدد تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح کے مندرجات پر عمل نہیں کیا اور حجر بن عدی سمیت بہت سارے شیعوں کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ صلح کے بعد کوفہ چلا گیا اور لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: "میری طرف سے رکھے گئے تمام شرائط کو واپس لیتا ہوں اور جو وعدہ دیا تھا، ان سب کی خلاف ورزی کرونگا۔" اسی طرح اس نے مزید کہا: "میں نے تم لوگوں سے نماز، روزہ اور حج کی انجام دہی کی خاطر جنگ نہیں کی، بلکہ تم لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے میں نے جنگ کی ہے۔" آئمہ طاہرین کی حیات مبارکہ کو پڑھ کر ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے آئمہ نے مظلوموں کو مقتدر قوتوں سے ان کا حق دلوانے کیلئے عظیم جدوجہد کی اور اس راہ میں قربانیوں سے دریغ نہیں کیا، مشکلات جھیلیں اور مسائل کا شکار رہے اور وقت کے حاکموں سے ٹکرانے سے گریز نہیں کیا۔ یقیناً ان کا اسوہ و سیرت ہمارے لیئے نمونہ عمل ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Read 254 times