امام خمینی اور مکتب استقامت و مقاومت

Rate this item
(0 votes)
امام خمینی اور مکتب استقامت و مقاومت

امام خمینی رح کی 34 ویں برسی کے موقع پر بڑے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بانی انقلاب اسلامی نے اسلام کی کئی تعلیمات کو اس کے حقیقی فلسفہ کے ساتھ پیش کرکے ان کا دوبارہ احیا کیا ہے۔ آپ جہاں ایک فقیہ تھے، وہاں ایک عارف بھی تھے۔ آپ جہاں ایک فلسفی تھے، وہاں دوسری طرف اخلاق کے ایک بااثر معلم بھی تھے۔ آپ ایک جانب علم کلام کے استاد اور دوسری طرف قرآن پاک کے بے بدل مفسر بھی تھے۔ آپ کی شخصیت کے حوالے سے صفات کو اگر دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے اسلام کو اپنے حقیقی اور جوہری معانی کے ساتھ درک کیا۔ امام حمینی کے راستے پر چلنے والوں کے لئے آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، آپ نے انقلاب کے مختلف مراحل میں جہاد و فداکاری کا راستہ اختیار کیا۔

آج اگر ہم امام خمینی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں استقامت و مقاومت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ سمجھوتوں اور کمپرومائیز کا امام خمینی کی سیرت سے دور کا بھی کوئی راسطہ نہیں تھا۔ سلمان رشدی کا مسئلہ ہو یا اسلام کے خلاف کسی قسم کا اقدام ہو، آپ نے کبھی مصلحتوں سے کام نہیں لیا۔ آپ استقامت و مزاحمت میں اقوام کی بقا قرار دیتے تھے۔ آپ نے مقاومت اور استقامت کے جس مکتب کی بنیاد رکھی، اس نے ماضی میں شہید چمران، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور حال ہی میں شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کو پیدا کیا۔ امام خمینی کے حوالے سے ان کی شخصیت کے کئی پہلؤوں پر لکھا جاسکتا ہے، لیکن آج ہم امام خمینی اور مکتب استقامت و مقاومت پر چند جملے تحریر کرنے کی کوشش کریں گے۔

بلاشبہ امام خمینی مزاحمت و استقامت کے مکتب کے بانی ہیں۔ امام کی نظر میں مزاحمت کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان میں سے ایک جہت القدس کی قابض حکومت کے حوالے سے ہے۔ صیہونی حکومت کے بارے میں امام خمینی کا نظریہ اور اس حکومت کے خلاف قیام کی ضرورت کو امام خمینی اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے تسلسل سے بیان کرتے تھے۔ اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل صیہونی حکومت کے خلاف امام کا مبارزہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔ آپ اسرائیل کی صحیح شناخت جانتے ہوئے، اس حکومت کو ایک غیر قانونی اور غاصب حکومت قرار دیتے تھے۔ آپ اس غاصب حکومت کو مختلف ناموں اور القاب سے پکارا کرتے جیسے، بدعنوانی کا جراثیم، بدعنوانی کا مرکب، کینسر کی رسولی، کرپشن کا نمونہ، وغیرہ وغیرہ۔۔۔

امام خمینی اسرائیل کے غاصبانہ خطرے کے بارے میں بارہا خبردار کرتے۔ مثال کے طور پر انقلاب اسلامی سے پندرہ سال پہلے 1342 شمسی کے عاشورا کو آپ نے محمد رضا شاہ پہلوی اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا اور اس غاصب حکومت کو اسلام اور ایران کے دشمن کے طور پر متعارف کرایا۔ اس احتجاج کے ایک سال بعد آپ نے ایرانی قوم کی تمام پریشانیوں کی وجہ اسرائیل کو قرار دیا اور اس سرطانی رسولی کو تمام مسلمانوں کے لیے ایک سنگین خطرہ کہا۔ حضرت امام خمینی استعمار کا ہدف صرف فلسطین پر قبضہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کی رائے میں سامراج کا ہدف تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرنا اور انہیں القدس جیسی سرنوشت سے دوچار کرنا ہے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد امام خمینی نے فلسطینی مزاحمت کی نظریاتی اور عملی حمایت جاری رکھی۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ بعد امام خمینی نے اعلیٰ سطحی فلسطینی حکام کے ساتھ ملاقات میں “آج ایران، کل فلسطین” کے نعرے کو اپنی خارجہ پالیسیوں کی ترجیح قرار دیا۔ تاہم امام راحل کی مزاحمت کی حمایت کا عروج ان کے تاریخی اقدام میں تھا، جس میں آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے طور پر متعارف کرایا۔ عالمی یوم قدس کا اعلان انقلاب کی فتح کے چھ ماہ بعد کیا گیا۔ آپ نے ایک پیغام میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

اس پیغام کا متن کچھ یوں ہے: “کئی سالوں سے میں نے مسلمانوں کو اسرائیل پر قبضے کے خطرے سے خبردار کیا ہے، جس نے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں پر اپنے وحشیانہ حملوں کو تیز کر دیا ہے اور فلسطینی جنگجوؤں کو تباہ کرنے کے مقصد سے، خاص طور پر جنوبی لبنان میں ان کے گھروں اور گھروں پر بمباری کی ہے۔” میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے متحد ہو جائیں اور میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کی دعوت دیتا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی اہل کفر پر فتح کی دعا کرتا ہوں۔” عالمی یوم قدس مظلوموں کے حقوق کے دفاع اور حمایت اور عالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کی سمت میں بانی انقلاب اسلامی کے اقدام کی میراث ہے۔

امام راحل کی نظر میں مزاحمت کا ایک اور اہم پہلو اسلام کے دفاع کے مقصد سے استکبار کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہ جہت انقلاب اسلامی سے پہلے امام کے خطابات اور طرز عمل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس کا ایک مظہر ایران میں کیپچولیشن بل کی مخالفت تھی۔ اس بل کے مطابق پہلوی حکومت نے ایران میں امریکی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو عدالتی استثنیٰ دے دیا تھا۔ امام کو اس بل کی مخالفت کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ ترکیہ کی طرف جلاوطنی اور پھر عراق اور فرانس میں جلاوطنی کا سلسلہ 14 سال تک جاری رہا۔

امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد استکبار کے خلاف جنگ جاری رہی۔ انقلاب سے پہلے، ایران خطے کا ایک ایسا ملک تھا، جس کے فیصلے امریکہ کرتا تھا اور مغربی ایشیاء کے علاقے میں نکسن کی حکمت عملی کے دو ستونوں میں سے ایک تھا۔ انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد، ایران امریکہ کے خلاف جنگ کا علمبردار بن گیا۔ ایران ایک ایسا کھلاڑی بن گیا، جو مغربی ایشیائی خطے میں کسی بھی امریکی مداخلت کی مخالفت اور مقابلہ کرتا تھا۔ مشہور امریکی تھیوریسٹ Zbigniew Brzezinski کہتے ہیں: “شاہ کے زوال کے ساتھ پورے خطے میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ایران کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری نے ایک ایسے خطے میں ہمارے مفادات کے لیے مستقل خطرہ پیدا کر دیا ہے، جس پر مغربی دنیا کی زندگیوں کا مکمل طور پر انحصار ہے۔”

اس کے علاوہ امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی مغربی ایشیائی خطے میں آزادی کی تحریکیں ابھریں اور پھیلیں، جن تحریکوں کی اہم خصوصیت صیہونی حکومت اور امریکہ کے خلاف جدوجہد ہے۔ امام راحل نے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی اصل شناخت پر زور دیتے ہوئے استکبار اور غاصب حکومت کے خلاف اسلامی بیداری کا احیاء کیا۔ درحقیقت امام خمینی (رہ) نے اپنی قیادت کے ذریعے استعمار مخالف نظریات اور مزاحمت کے محور کے قیام کا سنگ بنیاد رکھا، جو آج علاقہ کا سب سے بڑا بلاک ہے۔ آج اسلامی انقلاب اور مزاحمت کا بلاک صہیونی امریکی بلاک اور مغربی ایشیاء میں اس کے اتحادیوں کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی نے خطے میں غیروں اور استعمار کے خلاف جنگ میں جہاد اور عوامی مزاحمت کے علاوہ کسی بھی طریقہ کو کارآمد نہیں سمجھا اور اس بات کا یقین دلایا کہ جارحین کے خلاف سیاسی یا سفارتی طریقوں سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔

آج امام خمینی کی رحلت کے 34 سال بعد یہ نظریہ ثابت ہوا کہ مذاکرات اور سمجھوتہ سے نہ صرف اسلامی ممالک اور بالخصوص فلسطین کے مفادات کا تحفظ نہیں ہوا ہے، بلکہ قابض حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے اور تعلقات نے اس غاصب حکومت کو مزید جری کیا ہے۔ پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے، جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظریئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔ امام خمینی کے نظریہ استقامت کے بار ے میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔

مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ “فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم” دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا، لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔ مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے، جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ مانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آجاتا ہے، کوئی گڑھا آجاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آجاتی ہے۔

کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آجائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آجائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں، جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے۔؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی، جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔؟ امام کا موقف تھا کہ دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا، اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیاء میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا لازمی تھا۔

یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظریئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے، جیسا کہ بعض سیاسی رہنماء اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔ امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہو کر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ اس منطقی فکر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر باوقار اور آزاد منش قوم کا فطری ردعمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے۔

دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آجائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔ مزاحمت کی منطق کا تیسرا پہلو وہ چیز ہے، جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے، لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے، وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔

آج سعودی حکومت پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی، اس کا چوتھا پہلو اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے، لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے، لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔

پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مدنظر رکھنا چاہیئے، چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ بھی اسے مدنظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ “جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔” یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مدمقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے، جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔

جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

Read 226 times