
سلیمانی
وَ وَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُدَ وَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَ أُوتِينَا مِنْ کُلِ شَيْءٍ إِنَ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
(نمل16) اور پھر سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا کہ لوگو مجھے پرندوں کی باتوں کا علم دیا گیا ہے اور ہر فضیلت کا ایک حصہ عطا کیا گیا ہے اور یہ خدا کا کھلا ہوا فضل و کرم ہے
حضرت زہراءعلیہا السلام کی عصمت قرآن و حدیث کی روشنی میں
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کے لئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی۔ اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود حیات طیبہ میں عقل کو حیران کر دینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر ہوئیں یہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی ہیں۔
جی ہاں ! حضرت فاطمہ علیہا السلام عالم اسلام کی خواتین کے لیے اسوہ اور نمونہ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں دوسری عورتوں کےلیے ضروری ہے کہ ان کی پاک سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔ تربیت، اخلاق اور خود سازی کے عملی میدان میں ان کی پیروی کریں۔ عبادت کے طریقے اور روش، شوہرداری، بچوں کی پرورش اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں ان کو آئیڈیل بنایا جائیں۔ان تمام کرداروں کو نبھانا چاہیے جن کو انہوں نےنبھایا ہے اور اس طرح برتاؤ کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے کیا ہے۔
راقم اس بات پر عقیدہ رکھتاہے کہ گھر اور مشترک گھریلو زندگی کسی کا اخلاق، رفتار، ایمان تقوی اور عدالت وغیرہ پرکھنے کی بہترین جگہ شمار ہوتی ہیں حضرت زہرا علیہا السلام اپنے باپ کے ساتھ اور باپ کے گھر میں بہترین امتحان دےچکی ہیں۔اور اس طرح ’’فداھا ابوھا‘‘ اور ’’امُّ ابیھا‘‘ جیسے دسیوں القابات پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک سے حاصل کر کئے اور شوہر کے گھر میں اس طرح پیش آئیں کہ امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں ’’فاطمہ علیہا السلام نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے میں ناراض ہو جاؤں اور کبھی میری نافرمانی نہیں کی بلکہ اپنے اخلاق اور نیک سلوک سے میرے غم اور پریشانیوں کو دور کیا۔
عصمت حضرت فاطمہ علیہا السلام پر قرآن پاک کی گواہی
خداوند عالم سورہ احزاب میں فرماتا ہے کہ: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (1)
بیشک خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
یہ آیہ شریفہ شہادت دیتی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں ’’الرجس‘‘ جو آیت میں آیا ہے، تمام گناہان صغیرہ اور کبیرہ کو شامل کرتا ہے جس سے اہل بیت دور ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟
اہل سنت کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہرا علیہا السلام کی ذات مبارک ہے۔ پس اسی بناء پر فاطمہ زہرا علیہا السلام قرآن مجید کی گواہی کے مطابق صاحب عصمت ہیں۔
حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر امیر المؤمنینؑ کا استدلال
جب پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت کے بعد خلیفۂ اول نے فدک کو غصب کیا تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اس کے ساتھ احتجاج اور مناظرہ کیا ۔ امیر المؤمنین علیہ السلامبھی حضرت زہرا علیہا السلام کے خطبہ اور احتجاج کے بعد مسجد گئے اور جناب ابو بکر سے سوال کیا:
حضرت علی علیہ السلام : اے ابوبکر بتاؤ ، پتہ تو چلے کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟
جناب ابو بکر: جی ہا ں قرآن کو پڑھا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: آیہ تطہیر’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (2) پڑھواور بتاؤ کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی ہے یا دوسروں کے؟
جناب ابوبکر: یہ آیت آپ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام : اگر کوئی حضرت فاطمہ علیہا السلام کے خلاف گواہی دے کہ انہوں نے خلاف شریعت کوئی عمل انجام دیا ہے تو تم اس وقت کیا کروگے؟ اس شخص کی گواہی کو قبول کروگے یا نہیں؟
جناب ابو بکر: جی ہاں، میں اس آدمی کی گواہی کو قبول کروں گا اور حضرت فاطمہ علیہا السلام پر دوسرے لوگوں کی طرح حد جاری کروں گا۔
حضرت علی علیہ السلام : اس صورت میں تم خدا کے ہاں کافر قرار پاوگے۔
حناب ابوبکر: کیوں؟
حضرت علی علیہ السلام : کیونکہ اس فرض کی بناء پر تم نے خدا کی گواہی کو جوخدا نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی طہارت پر دی ہے، رد کیا ہے اور لوگوں کی گواہی کو مقدم کیا ہے۔اسی طرح تم نے خدا اور رسول کی گوہی کو اس مورد میں نظر انداز کیا ہے اور فدک کو فاطمہ زہرا علیہا السلام سے چھین لیا ہے۔
اے ابو بکر! کیا فدک فاطمہ زہرا علیہا السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا ؟ جو چیز ان کی ملکیت میں ہے تم کیوں اور کیسے خود ان سے اس کے متعلق شاہد اور گواہ مانگتے ہو؟چونکہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ابو بکر کی گفتگو سن رہے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا: ’’صَدَّقَ وَاللّہ عَلِی ابن اَبِی طَالِب‘‘ خدا کی قسم، علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے سچ کہا ہے(3)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے آیہ تطہیر سے عصمت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر استدلال کیا اور مہاجرین اور انصار نے بھی اسے قبول کیا اور اس کی تائید کی۔
حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت فریقین کی روایت میں
امام باقر علیہ السلام نے اس آیہ مجیدہ ’’ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً (4)
کے بارے میں فرمایا: یہ آیت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم، علی ابن ابی طالب، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ امّ سلمہ کے گھر میں ہوا کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ، فاطمہ زہراعلیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو بلایا پھر خیبر سے لائی ہوئی چادر کو ان کے اوپر ڈال دیا اور خود بھی اس کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا: اللهم هولاء اهل بيتى و عدتنى فيهم ما وعدتنى، اللهم اذہب عنهم الرجس و طهرہم تطهيرا، فقالت و أنا معهم يا رسولاللہ قال: أبشرى يا امسلمہ فانك الى خير (5)
اے اللّہ یہ میرے اہل بیت ہیں جن کے بارے میں تو نے مجھے وعدہ دیا ہے۔ اے اللّہ ان سے ہر قسم کی رجس و پلیدی کو دور فرما اور انہیں پاک اور منزہ قرار دے، اس موقع پر حضرت امّ سلمہ نے کہا: اے رسول خدا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟
آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: اے امّ سلمہ تمہارے لئے بشارت ہو تم خیر پر ہو۔
( لیکن تم اہل بیت علیہم السلام میں سے نہیں ہو)
حضرت فاطمہ علیہا السلام کا گذشتہ انبیاءؑ سے افضل ہونا
اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اگر ان کا نور نہ ہوتا اور ان کی ہستی نہ ہوتی تو بدون شک خدا کسی بھی مخلوق کو خلق نہ کرتا۔(6)
دوسری طرف سے اہل سنت اور اہل تشیع کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجتن پاک کا نور ایک تھا اور خدا کے ہاں ایک نور شمار ہوتا ہے (7)
اگرچہ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی برتری دوسروں پر مسلّم ہے۔
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتےہیں : دنیا کی ابتداء اور انتہاء کے تمام انسانوں میں ، میں سب سے افضل ہوں اور میرے بعد علی علیہ السلام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں ہم میں جو پہلے والے ہیں وہ آخر والے کی طرح ہیں اور جو آخر والے ہیں وہ پہلے والے کی طرح ہیں (8)
اور تیسری طرف سے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی روایت میں ہم پڑھتے ہیں کہ آپ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: میرے اور علی کے بعد زمین پر سب سےافضل حسن اور حسین ہیں اور ان کی مادر گرامی فاطمہ پوری دنیا کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں۔(9)
ہم اہل بیت اطہار کی روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ خداوند متعال نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور ان کو بھی کمال اور فضیلت کے لحاظ سے برابر خلق نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے کچھ اولوالعزم مشہور ہیں اور وہ باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں لیکن اہل بیت اطہار کو خداوند عالمین نے اولوالعزم پیغمبروں سےبھی برتر و افضل قرار دیا ہے۔(10)
امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت میں آیا ہے کہ گذشتہ تمام انبیاء فقط اس لئے بھیجے گئے تھے تاکہ ہمارے حقوق کو پہچانیں اوردوسرے تمام مخلوقات عالم سے ہمیں افضل اور برتر جانیں۔(11)
اگر مذکورہ روایتوں کو مد نظر رکھے بغیر بھی غور و فکر کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ تمام انبیاء الہی معصوم تھے۔ اور علی علیہ السلام ، فاطمہعلیہا السلام ، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّمکے علاوہ تمام انبیاء سے افضل تھے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پنجتن پاک تمام فضائل و کمالاتِ انبیاء مِن جُملہ درجۂ عصمت میں ان پر فضیلت رکھتے ہیں۔
دوسری طرف اہل سنت کی روایتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ زہرا علیہا السلام کے لئےاس جہاں میں کوئی ہم رتبہ اور کفو نہ ملتا۔
بڑے بڑے علماء، دانشور اور محققین نے ’’حدیث کفو‘‘ سے استفادہ کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہعلیہا السلام رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے علاوہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔پس اس صورت میں بھی فاطمہعلیہا السلام کی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے تمسک کرنے کی صورت میں فاطمہ زہرا علیہا السلام ، حضرت علی علیہ السلام کے ہم رتبہ اور مساوی ہیں! پس کسی عاقل شخص کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ دو برابر اور مساوی چیزوں کے ایک دوسرے پر مقدم اور برتری کے قائل ہو جائے۔
فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر ملائکہ کی گواہی
بہت ساری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جبرئیل امین اور دوسرے تمام فرشتے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام پر نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ اور اس گفتگو کے درمیان میں اس خاتون عصمت کے فضائل اور مناقب میں کچھ ایسے مطالب کہتے تھے جس سے ان کی عصمت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم ان میں سے صرف دو مورد کی طرف اشارہ کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : قال رسول اللَّه صلى اللَّه عليه و آله: «... ابنتى فاطمه، و انها لسيده نسا العالمين فقيل: يا رسولاللَّه! اهى سيده نسا عالمها؟ فقال: ذاك لمريم بنت عمران، فاما ابنتى فاطمه فهى سيده نسا العالمين من الاولين و الاخرين و انها لتقوم فى محرايها فيسلم عليها سبعون الف ملك من الملائكه المقربين و ينادونها بمانادت به الملائكه مريم فيقولون يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين(12)
میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام دونوں جہاں کے عورتوں کی سردار ہیں۔
پوچھا گیا: اے رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں ؟
فرمایا:یہ خصوصیت مریم بنت عمران کی ہے لیکن میری بیٹی فاطمہ علیہا السلام دونوں جہاں کی اولین اور آخرین ، تمام عورتوں کی سردار ہیں اور وہ جب محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں تو ستّر ہزار مقرب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھےاللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و منزہ قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہاں کی تمام خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انما سميت فاطمه محدثه لان الملائكه كانت تهبط من السما فتناديها كما تنادى مريم بنت عمران فتقول: يا فاطمه! ان اللَّه اصطفيك و طهرك و اصطفيك على نسا العالمين. فتحدثهم و يحدثونها فقالت ذات ليله: اليست المفضله على نسا العالمين مريم بنت عمران؟ فقالوا: ان مريم كانت سيده نسا عالمها و ان اللَّه عزوجل جعلك سيده نسا، عالمك و عالمها و سيده نسا الاولين و الاخرين(13)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام کو ’’محدثہ‘‘ کہا جاتاہے کیونکہ ان کے پاس آسمان سے ملائکہ نازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے جس طرح حضرت مریم علیہا السلام سے گفتگو کرتے تھے اور ملائکہ حضرت فاطمہ علیہا السلام سے مخاطب ہو کر کہتے تھے کہ اے فاطمہ علیہا السلام ! بیشک اللّہ تعالی نے تمہیں منتخب کیا ہے اور پاک و صاف قرار دیا ہے اور تمہیں دونوں جہانوں کی عورتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ حضرت فاطمہعلیہا السلام بھی ان سے گفتگو کرتی تھی اور ان کی گفتگو سنتی تھی۔ ایک دن حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے ملائکہ سے کہا: کیا مریم بنت عمران تمام جہاں کی عورتوں سے افضل نہیں ہے؟
ملائکہ نے جواب دیا: حضرت مریم اعلیہا السلام اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھی، لیکن آپ اول و آخر تمام عورتوں کی سردار ہیں یہاں تک کہ خود حضرت مریم علیہا السلام کے زمانے کی عورتوں کی بھی سردار ہیں۔
ان احادیث کو بطور نمونہ منتخب کیا گیا ہے جن میں فاطمہ زہرا علیہا السلام کو جہاں عالَم کی تمام عورتوں کی سردار، خداوند عالَم کی منتخب اور ملائکہ و جبرئیل امین کی ہمنشین و ہم صحبت ہونا بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی احادیث کو دیکھنے کے بعد کیا کسی کے لئے ممکن ہے کہ وہ عصمت زہرا علیہا السلام کے بارے میں تردید کرئے؟
حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر اشکال اور اس کا جواب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے والی آیات اور بعد والی آیات، رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور ان سے مخاطب ہیں۔ پس سیاق و سباق کی دلالت کی بناء پر، کہا جا سکتا ہے کہ آیہ مذکورہ بھی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ مخاطب ہیں اس بناء پر اگر یہ آیت عصمت پر دلالت کرتی ہے تو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ ازواج رسول بھی معصوم تھیں حالانکہ نہ کسی نے ان کو معصوم سمجھا ہے اور نہ ایسا کہا جا سکتا ہے پس نتیجتا ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ آیت سرے سے ہی عصمت پر دلالت نہیں کرتی ہے نہ روجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں اور نہ ہی اہل بیت کی عصمت پر۔
جواب: سید عبد الحسین شرف الدین نے اس مذکورہ اشکال کو نقل کیا ہے اور چند طریقوں سے اس اشکال کا جواب دیا ہے
اول: احتمال مذکورہ نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے کیونکہ ساری روایتوں میں جن کی تعداد تواتر کی حد تک ہے ، آیا ہے کہ آیہ تطہیر صرف، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، فاطمہ زہرا علیہا السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور انہی ہستیوں سے مختص ہے یہاں تک کہ امّ سلمہ اس چادر میں داخل ہونا چاہی تو رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے سختی سے منع فرمایا۔
دوم: دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر آیہ تطہیر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجات کے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ضروری تھا کہ ضمیر جمع مونث کی صورت میں ہوتی اور آیت یوں ہوتی: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ‘‘ نہ جمع مذکر کی صورت میں۔پس یہ آیت اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
سوم: تیسری دلیل یہ ہے کہ فصیح عربی بولنے والوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ اپنی گفتگو کے درمیان جملۂ معترضہ لاتے ہیں اس بناء پر کوئی مانع نہیں ہے کہ اللّہ تعالی آیت تطہیر کو ان آیتوں کے درمیان قرار دےجو زوجات رسول صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تاکہ اس کی اہمیت کو واضح کرے۔ اور اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اہل بیت پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم معصوم ہیں لہذا کئی اس سے تعرض نہیں کرسکتا، چاہے وہ زوجات پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کیوں نہ ہو۔
چہارم: چوتھی دلیل یہ ہے کہ بیشک قرآن مجید میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے اور اس آسمانی کتاب کی آیتوں میں بھی کوئی کمی و بیشی نہیں ہوئی ہے لیکن یہ بات مسلّم نہیں ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور سورے جس ترتیب سے نازل ہوئیں ہیں اسی طرح جمع اور تدوین ہوئیں ہوں، پس یہ احتمال بعید نہیں ہے کہ آیت تطہیر صرف اہل بیت کی شان میں الگ نازل ہوئی ہو لیکن تدوین اور قرآن مجید کی جمع آوری کےموقع پر اس آیت کو زوجات پیغیبر صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کے ساتھ ملایا ہو۔(15)
دلیل دوم: رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا: اے میری بیٹی! تیری ناراضگی خدا کی ناراضگی اور تیری خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے۔(16)
اس حدیث کو فریقین قبول کرتے ہیں اور اپنی اپنی کتابوںمیں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس جس پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوگی خدا بھی اس سے ناراض ہو گا۔ اور جس جس پر فاطمہ علیہا السلام راضی ہو گی خدا بھی خوشنود اور راضی ہوگا۔ اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ رضایت اور غضبِ خدا سچ اور حق ہونے کی بناء پر ہے خداوند عالم ہرگز کسی غلط اور خلاف حق پر خوش اور راضی نہیں ہوتا اگرچہ دوسرے لوگ اس کام سے راضی ہو جائیں اور اسی طرح کسی اچھے کام اور حق پر ہرگز ناراض نہیں ہوتا اگر چہ وہ کام دوسروں کےہاں باعث غضب ہو۔ان دو مطالب کا لازمہ یہ ہے کہ فاطمہ زہراعلیہا السلام ہر قسم کے گناہ اور خطا سے معصوم ہیں کیونکہ معصوم کی رضایت اور غضب شریعت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت رضائے خدا کے خلاف راضی نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے تو خدا ناراض ہوگا اور اگر فاطمہ علیہا السلام راضی اور خوش ہو تو خدا خوشنود ہو گا۔ لیکن اگر ان سے گناہ اور خطا سرزد ہونے کا امکان ہوتا تو ہرگز بطور کلی ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ فاطمہ کی ناراضگی خدا کی ناراضگی اور فاطمہ علیہا السلامکی خوشی خدا کی خوشی ہوگی۔ اس مطلب کو ہم مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں:
اگر ہم فرض کریں کہ فاطمہ علیہا السلام معصوم نہیں ہیں اور ان سے گناہ و خطا کا امکان ہے اس صورت میں امکان ہے وہ خطا یا غریزہ نفسانی کی وجہ سے خلاف حق کسی سے کوئی مطالبہ کرےا ور اس طرح ان کے درمیان نزاع ہو جائے اور طرف مقابل قبول بھی نہ کرے بلکہ اُنہیں غلطی پر قرار دے۔اس بناء پر حضرت فاطمہ علیہا السلام ناراض ہو جائے اور اپنی عدم رضایت کا اظہار بھی کر لے، کیا ایسی صورت میں کہا جا سکتا ہے کیونکہ فاطمہ علیہا السلام ناراض ہوئی ہیں پس خدا بھی ناراض ہوا ہے اگر چہ حق طرف مقابل کا ہی کیوں نہ ہوہرگز ایسی نسبت خداکی طرف نہیں دی جاسکتی۔ بس اس حدیث سےبھی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی عصمت ثابت کی جا سکتی ہے
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ فاطمہ علیہا السلام میرے جسم کا ٹکڑا ہیں جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(17)
یہ حدیث بھی اہل تشیع اور اہل تسنّن دونوں نے نقل کی ہے اور تمام مسلمان حتی عمر اور ابوبکر بھی اس حدیث کی صحت کے قائل ہیں مذکورہ حدیث کی طرح اس حدیث سے بھی حضرت فاطمہ زہراعلیہا السلام کی عصمت پر دلالت ملتی ہےکیونکہ رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم گناہ اور خطا سے معصوم ہیں لہذا یسے کام پر ناراض ہوتے ہیں جس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور اسی طرح ایسے کام سے راضی ہوتے ہیں جس سے خدا راضی ہوتاہے۔ پس اس صورت میں یہ کہا جاسکتاہے کہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کی ناراضگی رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناراضگی ہے اور رسول کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے یہ اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جب فاطمہ علیہا السلام عصمت کی منزلت پر ہو۔اور احتمال گناہ و خطا ممکن نہ ہو۔ حضرت فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا: فاطمہ علیہا السلام کو اس لئے فاطمہ نام رکھا گیا ہے کہ کوئی بدی اور شر ان کے وجود مبارک میں امکان پذیر نہیں ہے۔
حضرت زہرا علیہا السلام کی عصمت پر رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی گواہی
رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فاطمہ علیہا السلامکو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ علیہا السلام کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا اس کا دشمن، میرا اور خدا کا دشمن ہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا: فاطمہ علیہا السلام میرا ٹکڑا ہے، جو اسے تکلیف دے، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے اور خدا کو ناراض کیا۔
خلاصہ کچھ احادیث میں جو اہل سنت کی معتبر کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ خدا کی خوشی اور ناراضگی کا معیار فاطمہ علیہا السلام ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ اور سنی کی احادیث کی کتابوں میں دسیوں احادیث میں یہی مفہوم اور معنی موجود ہے ہم نے 26 ویں فصل میں ( حضرت زہراعلیہا السلام کی دشمنوں کی عاقبت) کچھ احادیث کو منابع کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
وہ احادیث جو حضرت زہرا علیہا السلام کے معصومہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں یہ کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہو تو کیسے پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ علیہا السلام کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ علیہا السلام کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی( کا معیار) قرار دیا جا سکتا ہے؟
ابن ابی الحدید اس اعتراف کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:
قوله عليه السلام: فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز و جل يدل على عصمتها، لانها، لوكانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال... (18)
فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: جس نے اسے (فاطمہ علیہا السلام ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی، یہ فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر دلیل ہے، کیوں کہ اگر فاطمہ علیہا السلام معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ علیہا السلام کا دکھ ہر حال میں پیغمبراسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کا دکھ حساب نہ ہوتا۔
بس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے فرامین فاطمہ علیہا السلام کی عصمت پر واضح دلیل ہیں جسے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوربھی مانتے ہیں مسلمان شعراء بھی کلام خدا اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نظم میں لے آئے ہیں:
وان مريم احصنت فرجها جاءت بعيسى كبدر الدجى
فقد احصنت فاطم بعدها و جاءت بسبطى نبى الهدى (19)
حضرت مریم علیہا السلام اپنی عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کو لے آئی جو سورج کی طرح چمکتا اور منور رہے۔ اور حضرت زہراعلیہا السلام نے بھی عصمت اور پاکی کے ساتھ زندگی کی اور دو انوار کو جو نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں نبی کے حوالہ کیا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلامسے پوچھا گیا کہ فاطمہ علیہا السلام کو کس نے غسل دیا؟
حضرت نے فاطمہ علیہا السلام کی عصمت کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا:
غسلها اميرالمؤمنين لانها كانت صديقة، و لم يكن ليغسلها الا صديق(20)
حضرت علی علیہ السلام نے فاطمہ علیہا السلام کو غسل دیا، کیونکہ فاطمہ علیہا السلام معصوم تھی اور معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ جیسے ہی سائل نے تعجب کیا تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح ہے کہ اس کو حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نے غسل نہیں دیا ہے۔ ہم اس فصل کے آخر میں تمام باتوں، احادیث اہل بیت، آیہ تطہیر، امیر المؤمنین علیہ السلام کی دلائل اور اہل سنت کے بزرگ دانشمندوں کے اعتراف کی روشنی میں یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام دوسرے تمام معصومین کی طرح معصوم تھی۔ اور وہ رسول خدا صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور ائمہ سے افضل ہیں۔
-----------------
منابع:
(1 و2) احزاب/ 33.
(3) ۔احتجاجات طبرسى، چاپ نجف، ج 1، ص 122- 123
(4) احزاب/ 33.
(5) نورالثقلين، ج 4، ص 270
(6) لولاك كما خلقت الافلاك و لو لا على لما خلقتك و لولا فاطمه لما خلقتكما. (عوالم، ج 11 ص 25 و 26).
(7)حضرت کہتے ہی:رسول اکرم ہمارےگھر تشریف لائے میں سو رہا تھا رسول اکرم اپنی بیٹی فاطمہ سے گفتگو کے بعد فرمایا:اے بیٹی میں اور تم حسن اور حسین اور یہ علی ایک جگہ اور ایک ہی مقام پر ہونگے۔ (فرائد السمطين، ج 2، ص 28 ش 367)
(8) بحار، ج 26، ص 316، ح 79: انا سيد الاولين و الاخرين و انت يا على! سيدالخلائق بعدى، اولنا كاخرنا و آخرنا كاولنا.
(9) بحار 26، ص 272 و، ح 14: الحسن و الحسين خير اهلالارض بعدى و بعد ابيها و امهما افضل نسا اهلالارض.
(10) بحارالانوار، ج 26، ص 199، ح 11، عن الصادق (ع): ان اللَّه فضل انلى العزم من الرسل بالعلم على الانبيا و ورثنا علمهم و فضلنا عليهم فى فضلهم...
(11) اصول كافى، ج 1، ص 437، ح 4: ما من نبى جا قط الا بمعرفه حقنا و تفضيلنا على من سوانا.
(12) عوالم، ج 11، ص 99.
(13) بحار، ج 43، ص 78، ح 65.
(14) احزاب 33
(15)ـ كتاب الكلمة الغراء فى تفضيل الزهراء تأليف سيد عبدالحسين شرفالدين ص 212.
(16)ـ قال رسولاللَّه صلّى اللَّه عليه و آله: يا فاطمة ان اللَّه يغضب لغضبك و يرضى لرضاك- ينابيع المودة ص 203 مجمع الزوائد ج 9 ص 203.
(17)ـ قال رسولاللَّه: فاطمة بعضة مني فمن اغضبها اغضبنى- صحيح بخارى ج 2 ص 302.
(18)ـ كشفالغمه ج 2 ص 89.
(19)ـ شرح نهجالبلاغة، ج 16، ص 273.
(20)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 50.
(21)ـ بحارالانوار، ج 43، ص 184- عوالم، ج 11، ص 260- جلاءالعيون، ج 1، ص 2
شہید جنرل سلیمانی و ابومہدی المہندس کی پہلی برسی میری ٹارگٹ کلنگ اسرائیل، امریکہ اور سعودی رژیم کی مشترکہ آرزو ہے، سید حسن نصراللہ

سید مقاومت نے امریکہ کے موجودہ صدر کی جانب سے آئندہ دنوں میں کسی فوجی اقدام کے انجام دیئے جانے کے امکان سے متعلق میزبان کے سوال کے جواب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جو بڑائی کے پاگل پن میں مبتلا ہے، سے کسی بھی قسم کے اقدام کا ارتکاب بعید نہیں جبکہ یہ تمام بیانات مزاحمتی محاذ کے خلاف امریکی و اسرائیلی نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے اس مدت کے دوران برپا کئے جانے والے شور شرابے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی خاص اقدام اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے باقی ماندہ ایام میں کوئی فوجی اقدام اٹھا لے البتہ.. اگر وہ اقتدار منتقل کرنا چاہتا ہو (جو بعید نظر آتا ہے)!

سید حسن نصراللہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کے رہنماؤں اور کمانڈرز کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ خواب ہے جبکہ میرے خلاف ٹارگٹ کلنگ کی کارروائی کے بارے بھی اپنے ذرائع کی جانب سے کئی مرتبہ انتباہ جاری کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے قبل یا بعد؛ میری ٹارگٹ کلنگ امریکی و اسرائیلی اہداف میں شامل تھی جبکہ صدارتی انتخابات سے پہلے سے اس حوالے سے ان کی کوششیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں کیونکہ انتخابات میں کامیابی کے لئے ٹرمپ کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ حتی سعودی عرب بھی ان فریقوں میں شامل ہے جو مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی شدید آرزو رکھتے ہیں جبکہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے ایک دورے کے دوران اس حوالے سے امریکیوں سے باقاعدہ درخواست بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب سالہا سال قبل، خصوصا یمن پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بعد سے مجھے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کا آرزومند ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شہید کمانڈرز جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ، شہید عماد مغنیہ اور شہید محسن فخری زادہ کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے برعکس اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے انجام دیا جانے والا کھلم کھلا اقدام تھا! سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا اقدام صرف امریکہ کی جانب سے ہی انجام نہیں دیا گیا بلکہ اسرائیل اور سعودی عرب بھی اس میں برابر کے شریک ہیں چاہے ان کی مشارکت اس حوالے سے واشنگٹن کو قائل کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ایک انسان دوست اور کرشماتی شخصیت کے حامل تھے جبکہ جو لوگ انہیں نہیں جانتے تھے وہ بھی ان سے انتہائی حد تک متاثر ہو جاتے تھے۔
سربراہ حزب اللہ لبنان نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی بہت یاد آتی ہے، میں کئی مواقع پر، سخت دنوں میں، مشکل اور بہت زیادہ مسائل سے روبرو ہوتے ہوئے اور خوشی و غمی کے مواقع پر اُنہیں اپنے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کی شہادت سے قبل ان کے لئے بہت پریشان رہتا تھا جبکہ اس حوالے سے میں نے انہیں بارہا خبردار بھی کیا تھا۔ انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو گہرائی تک پہچاننے اور دوسروں کو ان سے متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ شہید ابومہدی المہندس جنرل قاسم سلیمانی کے انتہائی قریبی دوستوں میں سے ایک تھے جبکہ اگر جنرل قاسم سلیمانی تنہاء شہید ہو جاتے تو ان کی شہادت کا سب سے زیادہ اثر لینے والی شخصیت یقینا شہید ابومہدی المہندس ہی ہوتے کیونکہ وہ ان کے انتہائی قریبی تھے۔ انہوں نے مزاحمتی محاذ میں شہید ابومہدی المہندس کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراقی وزارت عظمی کے لئے نامزد کئے گئے افراد میں سے ایک تھے تاہم انہوں نے میدانی جدوجہد کو حکومت پر ترجیح دی۔
سید مقاومت نے قدس شریف کی آزادی کے لئے انجام دیئے جانے والے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اقدامات کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کی کھل کر حمایت کی اور غاصب صیہونی دشمن کے مقابلے میں تمام فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو باہم متحد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے شہید قاسم سلیمانی کے کردار کا اہم پہلو؛ فلسطینی مزاحمتی گروپس کو اسلحہ پہنچانا اور انہیں میزائل و راکٹس کی تیاری کے لئے ضروری ٹیکنالوجی فراہم کرنا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان کو روسی اینٹی ٹینک میزائل "کورنٹ" (9M133 Kornet) کی فراہمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شامی وزارت دفاع نے اپنے خرچ پر یہ میزائل روس سے خریدے جبکہ غاصب صیہونیوں کے ساتھ جنگ کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے توسط سے حزب اللہ لبنان نے ان میزائلوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی غزہ کے مزاحمتی محاذ کو بھی یہی میزائل دلوانے کے خواہاں تھے جبکہ انہوں نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو مسلح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
سردار قاسم سلیمانی، اسلامی تعلیمات کا ایک اور معجزہ(1)
سردار قاسم سلیمانی کی شخصیت اگرچہ کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اتر چکی ہے اور انھیں بجا طور پر ’’سردار دلہا‘‘ یعنی دلوں کا سردار کہا جاتا ہے، تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ ابھی تک دنیا سردار قاسم سلیمانی کو دریافت کرنے کے مرحلے میں ہے۔ ایک عظیم عبقری اور روحانی شخصیت کے پرت رفتہ رفتہ ہی کھلتے ہیں اور پھر قرنوں پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ قاسم سلیمانی بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ شہید آیت اللہ سیدباقر الصدرؒ نے امام خمینیؒ کے بارے میں فرمایا تھا: ’’امام خمینی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علیؑ ایک شخص نہ تھے، جو تاریخ میں آئے اور چلے گئے بلکہ ایک شخصیت تھے جو آج بھی زندہ ہے۔‘‘ دنیا میں جب بھی بڑی شخصیات ظہور کرتی ہیں تو ان کے دمِ مسیحائی سے اور بھی بہت سے بڑے انسان ظاہر ہوتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے ساتھ اور ان کی تحریک کے نتیجے میں جس درجے کی بڑی شخصیات سامنے آئی ہیں، وہ عصر حاضر میں ہمارے اس دعوے کی دلیل ہیں۔ یہ سلسلہ ان کی قیادت میں آنے والے انقلاب کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔
ہم ماضی میں بھی ایسی بہت سی مثالیں پیش کرسکتے ہیں، تاہم اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے بالآخر وعدہ الٰہی کے مطابق پوری دنیا پر غالب آکر رہنا ہے، اس لیے بھی اس کی جامع تعلیمات کے نتائج مختلف صدیوں میں نکلتے رہے ہیں اور عالمی سطح کی بڑی شخصیات سامنے آتی رہی ہیں۔ آپ کے اہل بیت اطہارؑ اور عظیم المرتبت صحابہؓ کے بعد بھی اسلامی تاریخ میں نوابغ کی کمی نہیں رہی۔ البتہ جامع شخصیات کبھی کبھی سامنے آتی ہیں۔ سردار قاسم سلیمانی بہت جہت دار روشن دماغ، عمیق روح، عصری علوم سے آگاہ اور انسان دوست شخصیت ہونے کے اعتبار سے رفتہ رفتہ معرض شناخت میں آرہے ہیں۔ جہاد، استقامت، شہامت، منصوبہ بندی اور دشمن شناسی میں وہ پوری تاریخ کے کم نظیر جرنیلوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ شوق شہادت ان کے پورے وجود سے آشکار تھا، ان کی زندگی کے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ان کا دل اس شوق سے کبھی بھی خالی نہیں رہا اور اس شوق کے بغیر وہ کسی معرکے میں نہیں اترے۔
شاید ان افراد کو شمار نہیں کیا جاسکتا، جن سے انھوں نے اپنی اس تمنا کے پورا ہو جانے کے لیے ’’التماس دعا‘‘ نہ کہا ہو۔ انھوں نے کسی بڑی ہستی کی ضریح کو بوسہ دیتے ہوئے اپنی اس تمنا کے اظہار میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ آخری دنوں میں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ یہی آرزو لیے کبھی کسی بڑی شخصیت کے پاس جاتے ہیں اور دعا کی التجا کرتے ہیں اور کبھی کسی دربار پر حاضر ہو کر مقام شہادت تک پہنچنے کے لیے فریاد کناں ہوتے ہیں۔ یہ آرزو اتنی پختہ، گہری، سچی اور عظیم تو تھی کہ آپ کو جو شہادت کا درجہء رفیعہ حاصل ہوا، وہ اپنی مثال آپ بن گیا۔ دنیا کے سب سے بڑے شیطان نے آپ کے قتل کا حکم صادر کیا اور پھر اس کا اعلان بھی کیا۔ چھوٹے چھوٹے شیطانوں کا کسی مجاہد کو قتل کرنے کا فیصلہ تو ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن مجاہد کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دور حاضر کی سب سے بڑی طاغوتی قوت کا طاقتور ترین آدمی یہ اعلان کرتا ہے کہ قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم میں نے دیا تھا۔
بعید نہیں کہ وہ جو وائٹ ہائوس سے چمٹا رہنا چاہتا ہے اور اس سے باہر نہ آنے کے لیے سو سو حیلے کرتا پھرتا ہے، اس پر اسلام کے اسی بطل جلیل کی شہادت نے خوف طاری کر رکھا ہو، جس کا وہ اظہار نہیں کرپا رہا اور ابھی وائٹ ہائوس میں مزید پناہ گزین رہنا چاہتا ہے اور امریکی صدر کو حاصل اختیارات اور سکیورٹی اپنی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اگر ہم تک ایران کے روحانی پیشوا جنھیں بجا طور پر ’’مرشد دلہا‘‘ کہا جاسکتا ہے کا خطبہ پہنچ گیا ہے، جو انھوں نے ’’سردار دلہا‘‘ کی پہلی برسی کی مناسبت سے ایک پروگرام میں دیا ہے تو ہم سے پہلے یقیناً وائٹ ہائوس کے پناہ گزین تک پہنچ چکا ہوگا، جس میں انھوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ جس شخص نے سردار قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا ہے، اس سے بدلہ لیا جائے گا۔
تحریر: ثاقب اکبر
شہید قاسم سلیمانی استعارہ مزاحمت
موت فنا ہے اور شہادت بقاء، مگر یہ انسان پر ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نتیجہ فنا کی صورت حاصل کرنے کا خواہاں ہے یا بقاء کی صورت۔ ان دو صورتوں کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں، کلام سیدنا علی علیہ السلام میں یہ بات موجود ہے کہ ہر شخص اسی چیز کا سامنا کرنے والا ہے، جس سے وہ راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہے اور جہاں زندگی کا سفر کھینچ کر لے جاتا ہے، وہی حیات کی آخری منزل ہوتی ہے۔ اگر کوئی موت سے بھاگے بھی تو موت کے قریب ہوگا، کیونکہ موت اس کے سامنے ہے، بھاگا تو اس چیز سے جاتا ہے جو انسان کا تعاقب کر رہی ہو۔ مگر موت تو سامنے سے آنے والی ہے، یعنی موت سے بھاگنا اسے پا لینا ہے۔ انسان موت کے چھپے ہوئے رازوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزار لے، مگر پھر بھی مشیت الٰہی یہی رہی ہے کہ اس کی تفصیلات بے نقاب نہ ہوئیں۔
قرآن کریم میں سورہ جمعہ میں خدا فرماتا ہے "فتمنوالموت ان کنتم صادقین" (اے حبیب ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر دعویٰ ایمان میں سچے ہیں تو موت کی تمنا کریں) معلوم ہوا جو دعویٰ ایمان کی صداقت منوانا چاہے اسے موت کی تمنا کرنی چاہیئے۔ موت کی تمنا یہ نہیں کہ بستر مرگ پر اس حال میں کہ جب جینے کو جی نا چاہے، بیٹھے آخری سسکیوں کا انتظار کیا جائے بلکہ موت کی تمنا یہ ہے کہ عین جوانی ہو، ہر چیز شباب پر ہو، شہوات و لذات جیسے درندے منہ کھولے انسان کی طرف لپکنے کیلئے تیار ہوں اور انسان اس عالم میں اپنے نفس کی خار دار تاروں کو عبور کرکے اپنے حقیقی پروردگار کی راہ پر چلتا ہوا یہ جملہ دہرا رہا ہو کہ خدایا میرے لئے بستر پہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا ننگ ہے، عار ہے، شرمندگی ہے اور بے نام و نشان موت ہے جبکہ میری زندگی کا ہدف خود کو قربان کرکے ہمیشہ کیلئے زندہ رہنا ہے۔
وہ اسی جذبہ ایثار و فداکاری کی خاطر دل سے ہوا ہوس کو پرے پھینک کر موت کی تمنا میں بیابانوں اور جنگلوں میں پھرتا رہا اور صدا دیتا رہا، آو مجھ سے نبرد آزما ہو جاؤ اور اس اس راہ پر مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میری جان چلی جائے، مگر میں کائنات کے کسی انسان پہ ظلم برداشت نہیں کروں گا، کیونکہ میں مظلوموں کا وارث ہوں۔ جو اپنی جان کو امانت خدا سمجھے اور اس جان کو مظلوموں اور محروموں کے حقوق کی بالادستی کیلئے وسیلہ سمجھے، اس کے لئے موت کو گلے لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بقول علامہ (رہ)
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جس کی زندگی ایثار و فداکاری کا مجموعہ ہو اور اس کی ذات اس مقصدیت کے گرد گھومتی ہو، اس کے لئے سر کٹوانا افتخار ہے۔ جان بچانا باعث ننگ و عار ہے اور جس کی ذات کا محور و مرکز شہادت ہو، اس کو مال دنیا و جاہ طلبی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر "سردار دل ھا" قاسم سلیمانی کی مقصدیت کا ترجمان ہے:
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے ہم کو سروکار نہیں ہو سکتا
شوق شہادت میں اسلامی مقاومت کا علمبردار اپنے دشمن کو اس وقت شکست دے چکا تھا، جب اسے اس کے ناپاک عزائم میں ناکام کرکے اس کی ناک کو خاک پر رگڑ کر مشرق وسطیٰ کی فتح کا سہرا سر پہ سجایا اور دشمن کی گردن میں ذلت کا ایسا طوق ڈالا کہ وہ اس خطے سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ قدس فورس کی کمانڈ کرنے والے اس عظیم شہید نے بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ اس انداز میں لڑی کہ چشم فلک نے امریکہ اور صہیونی طاقتوں کی پسپائی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
جنرل قاسم سلیمانی پورے علاقہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک معروف، مضبوط، قوی اور بہادر کمانڈر تھے، جن کی شہادت امریکی حکومت کے لئے دنیا بھر میں ذلت اور رسوائی کا موجب بن گئی۔ امریکہ جنگ کے میدان میں اس عظیم شہید کا مقابلہ نہیں کرسکا،
لہذا اس نے اس عظيم کمانڈر کو رات کی تاریکی میں چھپ کر بزدلانہ اور مجرمانہ حملے ميں شہید کیا اور امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام سے اس کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے مزید نمایاں اور رسوا ہوگیا۔
تحریر: مرتجز حسین بلوچ
فرزند خمینی ؒ ۔۔۔ شہید قاسم سلیمانی ؒ
امریکا اقوام عالم میں ایک عرصے تک ناقابل تسخیر فوجی طاقت تھا، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تو یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا۔ جاپان کے ہیروشیما سے لے کر سوویت یونین کے ٹکڑوں تک سب میں امریکا کا ہاتھ رہا۔ ہر ملک جس پر امریکہ نے چڑھائی کی، اس کا مقدر تباہی اور بربادی ٹھہرا۔ فوجی قوت کے علاوہ معاشی میدان میں بھی امریکہ نے دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ دنیا میں جس قوم کے پاس مضبوط معیشت اور دفاع ہوں، وہ عالمی سیاست اور سفارت کے میدان میں بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکا عالمی سطح پر کچھ ایسے ہی مقام کا حامل ہے۔ اقوام عالم اقوام متحدہ میں بیٹھ کر امریکا کا منہ دیکھتے ہیں کہ مائی باپ جو موقف اختیار کریں، اسی موقف کی تائید کی جائے۔ کئی اقوام اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکی اداروں، نمائندگان اور عہدیداروں کے تلوے چاٹتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ بہادر کا جب جی چاہتا ہے، ان پر ایک نظر کرم فرماتا ہے اور مسئلہ سے متعلق ایک آدھا بیان داغ دیتا ہے، جسے سن کر مسئلہ سے دوچار قوم کے قائدین اور عوام پھولے نہیں سماتے۔ پریشانی بہرحال دوسرے کو بھی لاحق ہوتی ہے، جسے امریکا سفارتکاری کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔ یوں دونوں فریق خوش ہو جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا اقتدار مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔ گذشتہ کئی عشروں سے امریکا ہی ہے جو دنیا میں فیصلہ سازی کرتا ہے اور اس کے حواری نیز دیگر اقوام ان فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔
ایسے میں ایران میں ایک ایسا مرد قلندر اٹھا، جس نے نہ صرف امریکا کو نہ کہا بلکہ اسے ’’شیطان بزرگ‘‘ کا نام دیا اور دنیا کے مسائل کا حقیقی سبب امریکا کو قرار دیا۔ یہ بات کرنا اور اس پر قائم رہنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ روس جو سوویت یونین کا ایک حصہ تھا، اس کے لیے امریکی اجارہ داری کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا، تاہم اسے بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے نہ کہے اور اس نہ پر قائم رہے۔ یہ امام خمینی ؒ کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ اپنے بیان پر نہ فقط قائم رہے بلکہ اس بیان کے سبب امریکہ کی جانب سے آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اپنے فرزند کی شہادت سے لے کر ملت ایران کے لاکھوں فرزندوں کی شہادت، معاشی پابندیوں، سفارتی بائیکاٹ، اقتصادی، تعلیمی، پیداواری تعطل کو برداشت کیا لیکن اپنے موقف سے سر مو انحراف نہ کیا۔ امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد ملت ایران نے امام راحل ؒ کے نقش قدم کو حرز جاں بنایا اور امام کی قائم کردہ حکومتی پالیسیوں کو دوام بخشا، جس میں یقیناً ایران کی موجودہ قیادت کی بصیرت اور اخلاص کا ایک بڑا کردار ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے سامنے کوئی ایسا قابل ذکر دشمن نہ تھا، جو امریکی طاقت اور تسلط کو چیلنج کرے، ہاں اسلام ایک مکتب کے طور پر اس کی آنکھ میں ضرور کھٹکا۔ اسلام بحیثیت مکتب مغرب کی نگاہ میں روز اول سے چبھتا ہے، لیکن عالم اسلام کی موجودہ صورتحال مغرب کے لیے کوئی ایسا خطرہ نہیں کہ جس سے وہ پریشان ہوں۔ خلافت عثمانیہ عالم اسلام کی ایک طاقت تھی جسے مغرب نے ایک صدی قبل ختم کر دیا۔ نئی ریاستوں کی تشکیل کے باوجود مغرب مسلمان معاشروں کو زیر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں ثقافتی نیز تعلیمی میدان میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس کے باوجود اسلام اور اس کی تعلیمات میں یہ طاقت ہے کہ اس کے بطن سے ایسے بطل جلیل پیدا ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت مغرب کی بساط کو یکسر پلٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مغرب اچھی طرح سے جانتا ہے کہ 1400 سال قبل دنیا میں ابھرنے والی واحد سپر پاور کے پاس آج بھی وہ نسخہ کیمیاء موجود ہے، جو عالمی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اسی نسخہ کیمیاء کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مغربی ممالک ہمارے ملکوں میں مصروف عمل ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے جن مسلمان مجاہدین کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا تھا، اسے خوف پیدا ہوا یا اس کے ذہن میں منصوبہ آیا کہ یہی جتھے خود امریکہ کے لیے بھی وبال جان بن سکتے ہیں، لہذا وہ اپنے ہی استعمال کیے ہوئے مجاہدین کے پیچھے پڑ گیا۔ مرحوم جنرل حمید گل (ر) اکثر کہا کرتے تھے ’’افغانستان بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے‘‘ ان کے اس جملے کو اگر زیادہ جامع بنایا جائے تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’شدت پسندی بہانہ ہے اسلام اصل نشانہ ہے۔‘‘ امریکہ نے القاعدہ کا نام لے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، افغانستان کے بعد اس نے عراق کا رخ کیا، عراق کا حاکم صدام حسین بھی امریکہ کا استعمال شدہ مہرہ تھا، جسے ایران کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔ صدام کا جرم وہی کیمیائی ہتھیار تھے جو خود مغربی ممالک نے عراق کو ایران کے خلاف لڑی جانے والی 8 سالہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے دئیے تھے۔ عراق میں حکومت کا تحتہ الٹنے کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں نے لیبیا اور شام کا رخ کیا۔
وہ اس وہم کا شکار تھے کہ جیسے انھوں نے افغانستان اور عراق میں اپنی مرضی سے اقوام عالم کو ہانکا اور ان معاشروں کو جانی و مالی نقصان پہنچا کر اپنے قبیح ارادوں کی تکمیل کی، ویسے ہی لیبیا اور شام میں بھی انھیں جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ لیبیا میں تو کرنل قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا، تاہم شام کی جنگ طول کھینچنے لگی۔ شام کا محاذ شام کی سرحدوں سے نکل کر عراق تک پھیل گیا۔ ساتھ کے ساتھ اس محاذ پر مغرب کی نقابیں الٹنی شروع ہوئیں۔ القاعدہ اور داعش کے دشمن ان کی ذیلی تنظیموں کو تربیت، اسلحہ، ٹارگٹ اور دیگر سہولیات دیتے نظر آئے۔ وہی لوگ جن کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا تھا، مختلف ناموں کے ساتھ شام میں بشار الاسد کی حکومت اور عراق میں منتخب حکومت کے خلاف برسر پیکار نظر آئے۔
دور نہ تھا کہ جلد ہی افغانستان، لیبیا کی مانند شام اور عراق بھی ایک مرتبہ پھر روند دیئے جائیں، لیکن اس محاذ پر امریکا کا سامنا فرزند خمینی شہید قاسم سلیمانی سے ہوا۔ شہید قاسم سلیمانی نے ہمسایہ ممالک میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بہت جلد درک کیا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑے۔ شام اور عراق میں جتنی جلدی شہید قاسم سلیمانی نے مقاومت کو جنم دیا، یہ مقاومتی اور فوجی دنیا کی تاریخ کے معجزات میں سے ایک ہے۔ قاسم سلیمانی نے عراق اور شام میں دشمن کی پیش قدمی کو نہ صرف روکا بلکہ اسے ہزیمت سے دوچار کیا۔ قاسم سلیمانی زندہ رہتے تو یقیناً مقاومت نے انتہائی سرعت کے ساتھ دیگر خطوں میں بھی پھیلنا تھا۔ وہ مقاومت کی ایسی کلید تھے، جس کا توڑ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہ تھا۔ یہ وہ شیر نر تھا، جس نے نہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں کو شام اور عراق کی سرزمین پر دھول چٹائی بلکہ امریکا کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو بھی زائل کر دیا۔
جنرل قاسم سلیمانی نے ثابت کیا کہ اگر مسلمان ارادہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ شہید کی شہادت اس کی فتح کا اعلان ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اپنی مادی ترقی، فوجی قوت، سفارتی برتری اور سیاسی تسلط کے باوجود اس قابل نہ تھے کہ اسلام کے اس بطل جلیل سے مقابلہ کرسکتے۔ وہ اپنے وسائل اور گھمنڈ کے ساتھ اس فرزند خمینی ؒ کے سامنے بے بس ہوگئے، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راہ نہ بچی کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے قاسم سلیمانی کی سانسوں کی لڑی توڑ دیں۔ جنرل قاسم سلیمانی نے جاتے جاتے دشمن کے چہرے سے قانون پسندی، عالمی انسانی حقوق اور سفارتی وضع داری کی نقابیں بھی نوچ ڈالیں۔ قاسم سلیمانی کا خون شہید کو تو سرخرو کر ہی گیا، ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے حواریوں کے چہروں پر ذلت کی جو سیاہی مل گیا، اس کا ادراک اہل مغرب کو بہت جلد ہونے والا ہے۔۔۔ انتقام جاری ہے۔
تحریر: سید اسد عباس
شہید قاسم سلیمانی، حریت کی علامت
انسانی زندگی میں عبدیت اور حریت کا مزاج بھی عجب ہے۔ جہاں انسان اپنے عبدی ماحول میں اطمینان محسوس کرتا ہے، وہاں حریت کے ماحول میں زندگی بسر کرنے میں نہ صرف زیادہ اطمیان محسوس کرتا ہے بلکہ فتح اور فخر و مباہات کے ساتھ خود کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عارضی اور ابدی زندگی کی کامیابی جہاں بہترین عبدیت کے مرہون ِاحسان ہوتی ہے، وہاں ان دونوں زندگیوں کی کامیابیوں کو تکمیل کی انتہا اور بام ِعروج تک پہنچانے کے لیے حریت کا مقام بھی اپنے مقام پر مستند اور مسلّم ہے۔ ایک بہترین عبد تو بہترین حُر بن سکتا ہے، مگر ہر عبد کبھی حُر نہیں بن سکتا۔ اگرچہ عبودیت اور حریت دونوں ہی معبود ِبرحق و حقیقی کی اعلیٰ نعمات ہیں لیکن خود معبود نے یہ نعمات ہر عبد میں یکجا نہیں فرمائیں۔ یہ اس کا فیصلہ ہے کہ کس انسان کو عبد ہونے کا شرف عطا فرما دے اور کس انسان کو عبد کے ساتھ حُر ہونے کی فضیلت بھی بخش دے۔
اسلامی تاریخ میں لمحہ موجود تک ہمیں بے شمار عابد بھی مل جائیں گے اور بے شمار زاہد بھی، با وصف بندے بھی مل جائیں گے اور باکردار شخصیات بھی، لیکن حریت پسندوں اور شہداء کی تعداد نسبتاً کم نظر آئے گی۔ انسان کی معراج ہی یہی ہے کہ اس کی دنیوی زندگی عبودیت اور حریت کے سائے میں بسر ہو اور اس کی موت کا وقوع شہادت کے ذریعے ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل سے لے کر ایک عام دین دار حتیٰ کہ عاصی انسان بھی خود کو ایک عبد اور حُر کی شکل میں زندہ اور ایک شہید کی صورت مرنے کی دعا اور خواہش رکھتا ہے۔ تاریخ نے ایسے لاکھوں انسانوں کا ذکر اپنے اندر سمویا ہے کہ جن کی زندگی تو عبدیت و حریت میں بسر ہوئی مگر موت کے وقت انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت کے راستے مالک ِحقیقی تک پہنچے۔
ان عرائض کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسان خوش بختی کے آخری مقام پر فائز ہوتا ہے، جو اپنی زندگی عبدیت و حریت کے سائے میں گزار کر زندگی کا اختتام شہادت پر کرے۔ انہیں محدود و مخصوص و گنے چُنے اور خوش بخت لوگوں میں شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس اور شہید محسن فخری زادہ شامل ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے پہلے عبدیت کے راستے دین اور احکام ِدین پر عمل کرنے کو اپنی عادت بنایا۔ امام خمینی اور دیگر روحانی شخصیات سے علمی و فکر و اصلاحی و روحانی استفادہ کیا، اعلیٰ و شفاف کردار کے ذریعے اپنی شخصیت تعمیر فرمائی۔ ریاضت و اوراد و وظائف اور عبادت کے ذریعے اپنی عبدیت کو مضبوط و راسخ کیا۔ سیرتِ امامِ حسین (ع) اور قیادتِ امام راحل کی روشنی اور انقلابِ اسلامی کی موجودگی سے بھرپور استفادہ لیتے ہوئے خود کو حُرّیت پسندی کا عادی و عامل بنایا۔ جب اتنے اعلیٰ مدارج اور مراحل طے کر لئے جائیں تو شہادت خود منتظر رہتی ہے کہ وہ عبد ِحُر کب میری آغوش میں آتا ہے۔؟
شہید قاسم سلیمانی نے باسٹھ سالہ مختصر زندگی میں متعدد اور مختلف اہداف پر کام کیا۔ بیش جہاتی انسان نے جہاں انقلابِ اسلامی کی داخلی حفاظت کے لیے کام کیا، وہاں انقلابِ اسلامی کو خارجی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی لاجواب حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے جہاں ایران میں موجود انقلابیوں کے حوصلے کا سامان کیا، وہاں ایران سے باہر ہر انقلابی کے لیے مشعل عمل بنے۔ شہید سلیمانی نے جہاں اپنے ملک کے حساس اثاثوں کو دشمن کی دسترس سے دور رکھا، وہاں امامینِ معصومین (ع) کے روضہ ہائے مبارک کی صورت مقاماتِ مقدّسہ کو ہر جارح کے نجس ہاتھ سے دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ جہاں ایران کی سرزمین کو امریکہ و اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ رکھا، وہاں شام و عراق کو بھی ان نجس ممالک کے وجود سے پاک کرنے میں زندگی صرف کر دی۔ جہاں اپنی دھرتی سے مجاہدینِ خلق اور جنداللہ جیسی استعماری کٹھ پتلیوں کو ناکام کیا، وہاں القاعدہ اور داعش جیسے خطرناک اور رسوائے زمانہ اسلام دشمن گروہوں کی نابودی اور رسوائی کا زبردست انتظام کیا۔
شہید قاسم سلیمانی دورِ حاضر میں حُریت کی علامت اور آزادی کا نشان ہیں۔ وقت کے یزید کو نہ صرف للکارنے بلکہ ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنے کا اعزاز صرف اور صرف قاسم سلیمانی کے حصے میں آیا ہے۔ چاہے وہ ایران کا محاذ ہو یا عراق کا۔ یمن کی تحریک ہو یا بحرین کی۔ عراق کا میدان ہو یا شام کا۔ کشمیر کی تحریک ہو یا فلسطین کی، ہر مقام اور ہر مرحلے پر قاسم سلیمانی صف ِاول میں نظر آئے گا۔ سیرتِ حسین (ع) پر عامل انسان کا ایسا رعب و دبدبہ استعمار و استکبار پر طاری ہوا کہ انہوں نے راستے سے ہٹانے کے لیے سازشوں کے شدید سخت جال نہایت تیزی سے بننا شروع کیے۔ تین بار بڑے حملوں کے باوجود شہید سلیمانی اور ان کے جانثار دوست محفوظ رہے، تاکہ خدا نے جو امور ان کے ذمہ کر دیئے تھے، انہیں مکمل کیا جا سکے۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا کر اب امریکہ و اسرائیل سکھ کا سانس لیں گے اور اگلی طویل مدت تک ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے، کیونکہ ان کا سب سے بڑا دشمن اور ان کے راستے کا بڑا کانٹا نکل گیا ہے، لیکن محسن فخری زادہ کی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ دونوں استعماری طاقتیں ابھی تک بوکھلائی ہوئی ہیں، انہیں دنیا کا ہر آزادی پسند بالخصوص ایران کے ہر حریت پسند انسان میں قاسم سلیمانی نظر آتا ہے، تبھی وہ جارحیت سے باز نہیں آتے، لیکن امریکہ و اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی حریت پسند زندہ ہے، ان دونوں کے خلاف مزاحمت اور مقاومت جاری رہے گی۔ چاہے غدار مسلمانوں بالخصوص بعض عرب ممالک کی سازشیں جاری رہیں۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی رہیں۔ فلسطینیوں کے خون سے غداری کی جاتی رہے۔ قبلہ اول کا سودا کیا جاتا رہے۔ صیہونی ریاست کے استحکام کے لیے اسرائیل کی حمایت کی جاتی رہے، لیکن قاسم سلیمانی کے جانباز اور ہم فکر ہر دور میں ان دو فتنوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دنیا کے ہر انسان کو بالعموم اور ہر مسلمان کو بالخصوص قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ جنہوں نے انہیں داعش جیسے فتنوں سے نجات دلائی۔ آج اگر داعش کو لگام نہ ڈالی جاتی تو داعش کا وجود دیگر ممالک کی
طرح پاکستان میں بھی نجاست پھیلا رہا ہوتا۔
تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان
شہید قاسم سلیمانی کے قاتلوں سے انتقام لینا ہمارا حتمی فیصلہ ہے: رہبر انقلاب
بدھ کو سپاہ قدس کے شہید کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے لیے قائم کمیٹی کے ارکان اور اس شہید والا مقام کے اہل خانہ سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا، شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل اور قتل کا حکم دینے والوں کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی اور جب بھی ممکن ہوا انتقام ہر حال میں لیا جائے گا اور یہ حتمی فیصلہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شہید قاسم سلیمانی کو ایرانی عوام اور امت مسلمہ کا عظیم ہیرو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ عوامی شخصیت کے مالک تھے لہذا ان کی یاد بھی عوامی سطح پر منائی جانا چاہیے اور اس کےلئے پوری عوامی گنجائشوں اور ثقافتی کوششوں اور جدت ترازی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک تاریخی سانحہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی شہادت کے بعد ایرانی قوم اور امت مسلمہ کے ہیرو میں تبدیل ہوگئے۔
آپ نے شجاعت و استقامت، ذہانت و درایت اور ایثار و انسان دوستی کو شہید قاسم سلیمانی کی اہم خصوصیات قرار دیا اور فرمایا کہ وہ روحانیت، اخلاص اور آخرت پر یقین رکھنے والے انسان تھے اور انہوں نے کبھی بھی ریا کاری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی میں بھی عالمی سامراج کو شکست دی اور شہادت کے بعد بھی اسے شکست سے دوچار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عراق اور ایران میں شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے بے مثال اور ناقابل فراموش جلوس جنازہ اور ان دنوں شہدا کی یاد میں ہونے والے اجتماعات نے سامراجی محاذ کے سافٹ وار جرنیلوں کو حیران کر دیا اور امریکیوں کے منہ پر پہلا زور دار طمانچہ رسید کیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عین الاسد کی امریکی فوجی چھاؤنی پر میزائیل حملوں کے ذریعے رسید کیے جانے والے دوسرے طمانچے کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا کہ سخت انتقام سے مراد عالمی سامراج کی ظاہری طاقت پر غلبہ پانا ہے جس کے لیے انقلابی جوانوں اور مومن دانشوروں کے عزم کی جبکہ علاقے سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے قوموں کے عزم و اردے اور استقامتی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اغیار پر اعتماد نہ کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا قطعی مشورہ ہے کہ دشمن پر ہرگز اعتماد نہ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ ٹرمپ کے امریکہ اور اوباما کے امریکہ میں کوئی فرق نہیں ، امریکہ کی ایران دشمنی صرف ٹرمپ سے مختص نہیں جو اس کے چلے جانے سے ختم ہوجائے گی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپی ملکوں کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تین یورپی ملکوں (برطانیہ، فرانس، جرمنی) نے بھی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے انتہائی بے عملی، لیت و لعل، دوغلے پن اور منافقت کا مظاہرہ کیا ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کی مناسبت سے قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلے منعقد ہوں گے
ایران کے ادارہ اوقاف کے قرآنی امور کے سربراہ قرہ شیخلو نے پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کی مناسبت سے قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کا حضوری اور غیر حضوری دونوں طریقوں سے انعقاد کیا جائےگا۔
قرہ شیخلو نے کہا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ملک بھر میں قرآن کریم کے مقابلے آن لائن منعقد کئے گئے ، اورقرآن مجید کے 37 ویں بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد حضوری اور غیر حضوری دونوں طریقوں سے کیا جائےگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں قرآن مجید کے 43 ویں مقابلوں میں کامیاب ہونے والے قراء اور حفاظ قرآن مجید کے 37 ویں بین الاقوامی مقابلوں میں ایران کی نمائندگی کریں گے۔
آذربائیجان میں اردوغان کا متنازعہ خطاب
ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے آذربائیجان میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے ایرانی علاقے "آذربائیجان" کی جدائی سے متعلق ایک متنازعہ نظم کے پڑھے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی فریق کو ہمارے پیارے آذربائیجان کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہیں۔ محمد جواد ظریف نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ کسی نے صدر اردوغان کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی جانب سے باکو میں "غلط طریقے سے پڑھی جانے والی" نظم؛ اَرس کے شمالی علاقوں کی مادرِ وطن ایران سے جبری جدائی سے متعلق ہے! انہوں نے لکھا کہ کیا انہیں نہیں پتہ چلا کہ وہ خود آذربائیجان کی خود مختاری کے خلاف ہی بات کر رہے ہیں؟ محمد جواد ظریف نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ کسی کو ہمارے پیارے آذربائیجان کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہیں!