
سلیمانی
امام موسی کاظم کے زمان امامت پر مختصر نظر
ے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ھوچکا ھوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ھاتھ باندہ دیئے تھے اور شھر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ھونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پھلے اس کے ذھن میں تصور پیدا ھوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں قائم ھے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نھیں ملا .
شہادت
سب سے آخر میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سندی بن شاھک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بھت ھی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت کوانگور میں زھر دیا گیا- 25رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں حضرت کی شھادت ھوئی۔ بعد شھادت آپ کے جسد مبارک کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نھیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توھین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ھو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باھر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشھور ھے، دفن کیا
مؤلف: تبیان ڈاٹ نیٹ
امام موسی کاظم علیہ السلام کی حیات طیبہ کا مختصر جائزہ
آپ کا اسمِ گرامی موسیٰ اور لقب کاظم ہے ۔ آپکی والدۂ گرامی اپنے زمانے کی با عظمت خاتون جناب حمیدہ خاتون تھیں آپکے والدِ گرامی امام جعفر صادق تھے آپ کی ولادت ۱۲۸ھ میں مدینہ کے نزدیک ابواء نامی قریہ میں ہوئی آپ نے مختلف حکاّم دنیاکے دور میں زندگی بسر کی آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہایت مصائب اور شدید مشکلات اور خفقان کا دور تھاہرآنے والے بادشاہ کیامام پرسخت نظر تھی لیکن یہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورمیں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدایت عطافرماتے رہے ، اتنے نامناسب حالات میں آپ نے اس دانشگاہ کی جوآپ کے پدر بزرگوارکی قائم کردہ تھی پاسداری اور حفاظت فرمائی آپ کا مقصد امت کی ہدایت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کی آپ نے قدم قدم پر ترویج کی اور حکومت وقت توبہرحال امامت کی محتاج ہے ۔
چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ مہدی جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدینہ آیا اور امام مو سیٰ کاظم سے مسٔلۂ تحریم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص میں خیال کرتا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کی رسوائی کی جائے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وارث باب مدینتہ العلم ہیں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کی قران سے دلیل دیجیے ٔ امام نے فرمایا ’’خداوند سورۂ اعراف میں فرماتا ہے اے حبیب !کہہ دو کہ میرے خدا نے کارِ بد چہ ظاہر چہ مخفی و اثم و ستم بنا حق حرام قرار دیا ہے اور یہا ں اثم سے مراد شراب ہے ‘‘ امام یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں خدا وند نیز سورۂ بقر میں فرماتا ہے اے میرے حبیب !لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دو کہ یہ دونوں بہت عظیم گناہ ہے اسی وجہ سے شراب قرآن میں صریحاً حرام قرار دی گئی ہے مہدی، امام کے اس عالما نہ جواب سے بہت متأثر ہوا اور بے اختیارکہنے لگا ایسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئی نہیں دے سکتا یہی سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کی حکومت تھی اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے ۔ہارون کے حالات میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام ۔وہ یہ چاہتا تھا کہ میرے اس عمل سے لوگ یہ پہچان لیں کہ خلیفہ سرور کائنات کا چچازاد بھائی ہے ۔اسی ہنگام امام کاظم قبر پیغمبر کے نزدیک آئے اورفرمایا’’اے اﷲکے رسول! آپ پرسلام‘‘اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘ ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا۔فوراً امام کی طرف رخ کر کے کہتا ہے ’’آپ فرزند رسول ہونے کادعوہ کیسے کرسکتے ہیں ؟جب کہ آپ علی مرتضیٰ کے فرزندہیں ۔امام نے فرمایاتونے قرآن کریم میں سورۂ انعام کی آیت نہیں پڑ ھی جس میں خدا فرماتا ہے ’’قبیلۂ ابراہیم سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، اورالیاس یہ سب کے سب ہمارے نیک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کی ہدایت کی اس آیت میں اللہ نے حضرت عیسیٰ کو گزشتہ انبیاء کا فرزند قرار دیا ہے ۔حالانکہ عیسیٰ بغیرباپ کے پیدا ہوئے تھے ۔حضرت مریم کی طرف سے پیامبران سابق کی طرف نسبت دی ہے اس آیۂ کریمہ کی روسے بیٹی کابیٹا فرزندشمار ہوتا ہے ۔ اس دلیل کے تحت میں اپنی ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبی ہوں ۔اس کے بعدامام فرماتے ہیں کہ اے ہارون!یہ بتاکہ اگر اسی وقت پیغمبردنیا میں آجائیں اور اپنے لئے تیری بیٹی کا سوال فرمائیں تو تو اپنی بیٹی پیغمبرکی زوجیت میں دے گایا نہیں ؟ہارون برجستہ جواب دیتا ہے نہ صرف یہ کہ میں اپنی بیٹی کوپیامبر کی زوجیت میں دونگا بلکہ اس کارنامے پرتمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا امام فرماتے ہیں کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کریگا لیکن پیامبر ہماری بیٹی کے بارے میں یہ سوال نہیں کر سکتے اسلئے کہ ہماری بیٹیاں پیامبر کی بیٹیاں ہیں اور باپ پر بیٹی حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہایت پشیمان ہوا ۔امام موسیٰ کاظم نے علم امامت کی بنیاد پر بڑ ے بڑ ے مغروراورمتکبربادشا ہوں سے اپنا علمی سکّہ منوالیا امام قد م قدم پرلوگوں کی ہدایت کے اسباب فراہم کرتے رہے ۔چنانچہ جب ہارون نے علی بن یقطین کو اپناوزیربنانا چاہا اورعلی بن یقطین نے امام موسیٰ کاظم سے مشورہ کیا تو آپ نے اجازت دیدی امام کا ہدف یہ تھا کہ اس طریقہ سے جان و مال و حقوق شیعیان محفوظ رہیں ۔امام نے علی بن یقطین سے فرمایا تو ہمارے شیعوں کی جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تیری تین چیزوں کی ضمانت لیتے ہیں کہ اگرتونے اس عہد کو پورا کیا توہم ضامن ہیں ۔تم تلوارسے ہرگز قتل نہیں کئے جاؤگے ۔ہرگزمفلس نہ ہو گے ۔ تمہیں کبھی قید نہیں کیا جائے گا۔علی بن یقطین نے ہمیشہ امام کے شیعوں کو حکومت کے شرسے بچایا اورامام کاوعدہ بھی پورا ہوا۔نہ ہارون، پسر یقطین کوقتل کرسکا۔نہ وہ تنگدست ہوا۔نہ قید ہوا۔لوگوں نے بہت چاہاکہ فرزند یقطین کو قتل کرادیاجائے لیکن ضمانتِ امامت، علی بن یقطین کے سرپرسایہ فگن تھی ۔ چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ہارون نے علی بن یقطین کو لباس فاخرہ دیا علی بن یقطین نے اس لباس کو امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں پیش کر دیامولا یہ آپ کی شایانِ شان ہے ۔امام نے اس لباس کو واپس کر دیا اے علی ابن یقطین اس لباس کو محفوظ رکھو یہ برے وقت میں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ علی ابن یقطین امام کاظم کی امامت کا معتقد ہے یہ ان کو خمس کی رقم روانہ کرتا ہے یہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علی ابن یقطین کو عنایت کیا تھا وہ بھی اس نے امام کاظم کو دے دیا ہے ۔بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علی ابن یقطین کے قتل پر آمادہ ہو گیا فورا ًعلی ابن یقطین کو طلب کیا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو میں نے تمہیں عنایت کیا تھا ؟علی ابن یقطین نے غلام کو بھیج کر لباس، ہارون کے سامنے پیش کر دیا ہارون بہت زیادہ خجالت زدہ ہو ا یہ ہے تدبیر امامت اور علم امامت۔ خدا ہم سب کو علوم ومعارفِ آل محمد سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے
- مؤلف:
- حجت الاسلام والمسلمین سید محضر علی نقوی
- ذرائع:
- بشکریہ فضائل ڈاٹ کام
حقوق ازواج اور ان کا اجر
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے عورت کے ساتھ سختی سے پیش آنے سے منع فرمایا ہے اور خولہ بنی اسود کے ایک جواب میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ سے سوال کیا گیا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں ؟ فرمایا جو خود کھائے تمہیں بھی کھلائے اور تمہیں لباس فراہم کرے اور نہ تمہارے اوپر چلائے ۔
جبکہ دوسری روایت میں فرمایا : میری امت کے اچھے مرد وہ ہیں جو اپنے اہل کی توہین نہیں کرتے ، ان سے انس رکھتے ہیں اور ان پر ظلم نہیں کرتے ۔
اسی طرح گھریلو مشاکل کے حلول کا سب سے بڑا طریقہ صبر و استقامت ہے کیونکہ بے احترامی و سزاواری سے جھگڑا مزید طول پکڑتا ہے اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس نے اپنی اہلیہ سے ایک لفظ کو برداشت کیا اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کی آگ کو دور کرے گا اور جنت واجب کرے گا۔
اور اسی طرح زوجہ کی بے اخلاقی پر صبر کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا جس نے اپنی زوجہ کی اذیت پر صبر کیا اسے اللہ تعالیٰ حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابراجر عطاء فرمائے گا ۔
آیت الله العظمیٰ سیستانی اور کیتھولک مسیحیوں کے سربراہ پوپ فرانسس کی ملاقات
تحریر: سید محمد رضوی،
ہفتے کے دن دنیا کے 1/2 ارب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اور ویٹکن کے سربراہ پوپ فرانسس نے نجف اشرف ميں عالم تشیع کے گرانقدر مرجع دینی آيت الله العظمیٰ سیستانی مدظلہ سے ملاقات کی۔ 45 منٹ دورانئے کی اس ملاقات میں دونوں مذہبی پیشواؤں نے عالم انسانیت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے دینی رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ پوپ فرانسس جو عراق کے دورے پر ہیں، پرانے نجف میں آیت الله العظمیٰ سیستانی سے ملاقات کے لئے ان کے گھر آئے تھے۔ اس ملاقات کی ایک اہمیت وہ پرامن ماحول ہے، جو شیعہ مرجعیت کی بدولت فراہم ہوا اور پوپ کے دورہ عراق کو عملی جامہ پہنایا جاسکا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد پر مبنی آیت الله العظمیٰ سیستانی کے فتوے اور آیت الله العظمیٰ خامنہ ای کے عملی اقدام کے ذریعے داعش کے دہشتگرد گروپ کا قلع قمع کیا گیا، جس نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرکے انسانیت سوز مظالم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
مرجعیت کی سرپرستی میں قائم ہونے والی عوامی رضاکار فورسز الحشد الشعبی میں شیعہ سنی مسلمانوں کے شانہ بشانہ مسیحی دستوں نے بھی اپنے ملک اور عزت و ناموس کے دفاع میں حصہ لیا تھا۔ پوپ فرانسس نے بھی اپنے دورے میں حشد الشعبی کے مسيحی رضا کاروں کی قدردانی کرتے ہوئے ان کو تحفے دیئے ہیں۔ نجف اشرف کی دینی مرجعیت اور آسمانی ادیان کے پیروؤں کے درمیان مفاہمت کی تاریخ پرانی ہے، چنانچہ 14 ويں صدی کے مرجع اعظم آیت الله العظمیٰ محسن الحکیم (رہ) نے اہل کتاب کی ذاتی طہارت پر مبنی فتویٰ جاری کیا تھا۔ مسیحی دنیا خاص طور پر عالم عرب کے مسیحیوں میں اس فتوے کے دور رس اثرات مرتب ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آیت الله العظمیٰ حکیم (رہ) کی وفات پر مسیحیوں کے وفود نے فاتحہ خوانی اور تعزیتی مجالس میں شرکت کی تھی، جو 40 دنوں تک نجف اشرف ميں جاری رہیں، ان میں ان کے اعلیٰ پائے کے اساقفہ اور پیشوا بھی شامل تھے۔
عالم مسیحیت اور عالم اسلام کے دو عظیم رہنماؤں کی حالیہ ملاقات بھی دنیا کے معروضی حالات کے تناظر میں، خاص طور پر انسانیت دشمن عناصر، ظالم طاقتوں اور تکفیری و دہشتگردانہ سوچ رکھنے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔ ملاقات کے دوران پوپ فرانسس نے عراق کے مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان یکجہتی کے قیام اور دہشتگردوں کے مقابلے میں ان کے تحفظ کے حوالے سے آیت الله سیستانی کے کردار کو سراہا۔ ملاقات میں اقوام عالم اور مختلف ادیان و مذاہب کے پیروؤں کے درمیان امن و بھائی چارے کی فضا قائم رکھنے پر زور دیا گیا۔ اسی طرح اس دور میں عالم انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجز اور ان چیلنجز پر قابو پانے کے لئے الله تعالیٰ اور اس کی طرف سے آنے والے رسولوں پر ایمان اور عظیم اخلاقی اقدار پر عمل کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔
اس تاریخی ملاقات کے حوالے سے آیت الله العظمیٰ سیستانی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سید سیستانی نے دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں پر ہونے والے ظلم و جبر، غربت و افلاس اور دینی و نظریاتی شدت پسندی، بنیادی آزادیوں سے محرومی اور اجتماعی عدالت کے فقدان پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح آپ نے مشرق وسطیٰ میں جنگ، پرتشدد کارروائیوں، اقتصادی پابندیوں اور ہجرت پر مجبوری جیسے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کے مظلوم عوام کا ذکر کیا۔ آیت الله العظمی سیستانی نے ان مسائل اور چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے دینی رہنماؤں اور روحانی پیشواؤں کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کے لئے متعلقہ اشخاص و حلقوں، خاص طور پر بڑی طاقتوں پر زور دیں گے کہ وہ عقل و منطق اور حکمت کو جنگ و جدال پر ترجیح دیں اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دیگر اقوام کی باعزت اور آزادانہ زندگی کے حقوق کو پامال کرنے اور اپنے مفادات کو توسیع دینے سے گریز کریں۔
آپ نے پرامن بقائے باہمی اور انسانی ہمدردی کے اقدار کو معاشروں میں فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: یہ سب کچھ تب ہوگا جب مختلف ادیان و مذاہب اور مکاتب فکر کے ماننے والے باہمی احترام کا رشتہ برقرار رکھیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔ بیان کے مطابق ملاقات میں سید سیستانی نے عراق کے حیثیت اور اس کی عظیم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف ادیان و مذاہب سے تعلق رکھنے والی عراقی اقوام کی خصوصیات کی جانب بھی اشارہ کیا۔ مرجع عالی قدر نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ان شاء الله عراق موجودہ مشکل حالات سے بہت جلد سرخرو ہوکر نکلے گا۔ آپ نے فرمایا کہ مرجعیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ عراق کے مسیحی بھی دیگر تمام عراقی شہریوں کی طرح امن و سلامتی اور تمام آئینی و دستوری آزادیوں کے ساتھ زندگی گزاریں۔
اس سلسلے میں گذشتہ سالوں میں ان ادیان و مذاہب کے پیروؤں کو داعش کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے مرجعیت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا۔ خاص طور پر اس دور کا ذکر کیا گیا، جب عراق کے مخلتف صوبوں کے بڑے حصوں پر دہشتگردوں نے قبضہ کیا تھا اور ایسی مجرمانہ کارروائیاں کی گئیں، جن سے جبین انسانیت شرم سے جھگ جاتی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت الله العظمی سیستانی نے پوپ فرانسس اور کیتھولک کلیسا کے ماننے والوں اور تمام عالم بشریت کے لئے خير سگالی و سعادت کا اظہار کیا اور ملاقات کے لئے سفر کی تھکاوٹ برداشت کرتے ہوئے نجف اشرف تشریف لانے پر پوپ فرانسس کا شکریہ ادا کیا۔
غاصب صہیونی حکومت کی اشتعال انگیزیاں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
غاصب صہیونی حکومت مدتوں سے ایران کے خلاف مختلف بے بنیاد پروپیگنڈے کرتی چلی آرہی ہے، لیکن آج تک نہ اس میں کوئی سچ ثابت ہوا اور نہ ہی اسے اس سازش میں کسی قسم کی کامیابی نصیب ہوئی۔ 25 فروری کو ایک مال بردار بحری جہاز جو صہیونی حکومت کا تھا لیکن اس پر برطانوی پرچم نصب تھا، یہ مشکوک بحری جہاز عمان سی میں مخصوص ہدف کے لیے موجود تھا، تاہم دھماکے کا شکار ہوگیا۔ غاصب صہیونی حکومت اس بحری جہاز کی اصل ملکیت کو خفیہ رکھ کر اسے مخصوص اہداف و مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی، لیکن دھماکے کے بعد مجبور ہوگئی کہ حقیقت کا اعتراف کرے۔ صہیونی ٹی وی نے ایک بریکنگ نیوز میں اعلان کیا کہ "ایم وی بلیوس زی" نامی بحری جہاد اسرائیلی خفیہ تنظیم کے سربراہ یو سی کوہن کے قریبی دوست کی ملکیت ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے ایران پر اس دھماکے کا الزام تھونپ دیا۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے مجید تخت روانچی نے اس تناظر میں یو این او کے سیکرٹری جنرل کے نام خط اور سلامتی کونسل کے نام مراسلے میں ایران کے خلاف اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا ہے۔ تخت روانچی نے اس خط میں تاکید کی ہے کہ حملے کے انداز اور طریقہ کار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان مشکوک عناصر کا کام ہے، جو اشتعال انگیز اور شیطانی پالیسیوں سے اپنے ناجائز مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غاصب صہیونی حکومت اس وقت مختلف داخلی اور خارجی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے۔ لہذا اس کا قوی امکان ہے کہ وہ بحری جہاز پر حملے کا ذمہ دار ایران کا ٹھہرا کر نہ صرف مظلوم بننا چاہتی ہے بلکہ ملکی اور عالمی رائے عامہ کی توجہ منحرف کرنے کی بھی خواہاں ہے۔ غاصب صہیونی حکومت بحری جہاز کے اس دھماکے کو بہانہ بنا کر خطے میں سلامتی کا بحران پیدا کر رہی ہے، حالانکہ قرائن اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ دھماکہ موساد کی منصوبہ بندی سے انجام پایا ہے۔
غاصب صہیونی حکومت کی اس سازش کو دو زاویوں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ پہلا زاویہ تو وہی ہے جس کی طرف اقوام متحدہ میں موجود ایران کے مستقل مندوب تخت روانچی نے کہا ہے، یعنی اپنے آپ کو مظلوم بنا کر حقیقی مسائل سے رائے عامہ کی توجہ کو منحرف کرنا ہے۔ اس واقعہ کا دوسرا زاویہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت خطے میں مقاومت کے اسلامی ممالک کو مسلسل کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں اور خطے میں عدم استحکام کی خواہمشند مغربی، غبری اور عربی ممالک پر مشتمل شیطانی مثلث کو ناکامیاں مل رہی ہیں۔ شام و عراق کے بعد اب یمن میں اس شیطانی مثلث کو جس بحران کا سامنا ہے، اس نے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو سخت ترین چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ غاصب اسرائیل اور اس کے حامی بحری جہاز پر حملے یا کسی اور بہانے سے خلیج فارس کو سلامتی کے بحران سے دوچار کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ اسلامی مقاومت اب عوامی اور عوام میں وسیع اثرو نفوذ کی حامل ہو چکی ہے۔
دوسری جانب غاصب صہیونی حکومت اس وقت اپنی شناخت کے بحران سے بھی دوچار ہے۔ تین مسلسل انتخابات کے باوجود کوئی جماعت حکومت تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اسی طرح نیتن یاہو پر مالی بدعنوانی کے حوالے سے عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، جس میں اس کی سزا یقینی ہے۔ غاصب اسرائیل اپنے سیاسی نیز اپنی شناخت کے بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے ایران پر بے بنیاد الزامات لگا کر خلیج فارس میں کشیدگی پھیلانے کے درپے ہے، تاکہ اس بحرانی کیفیت سے سوئے استفادہ کرسکے۔ علاقے کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب کی روز افزاں گرتی ساکھ اور اقتصادی و سیاسی بحران خطے میں بعض نئی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ سعودی عرب کے کیرٹ یعنی گاجر کی بجائے اسٹک یعنی چھڑی سے ہانکنا چاہتی ہے۔ اس صورتحال کے خطے کے ان عرب ممالک پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، جو سعودی عرب کی پیروی میں مقاومت کے اسلامی بلاک کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔
عراق و شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے پالیسی بظاہر جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے قابل قبول نہیں، لیکن عراق میں مقامی مزاحمتی گروہ جس طرح میدان عمل میں فعال نظر آتے ہیں، وہ امریکہ کے وجود کو اتنی آسانی سے برداشت نہیں کریں گے۔ غاصب اسرائیل نے ہمیشہ خطے میں منفی ماحول کو پروان چڑھایا ہے، وہ ایران پر حملے اور امریکہ کو ایران کے مقابلے میں لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا رہتا ہے، لیکن ایران کی استقامت اور مضبوط دفاع سامراجی منصوبوں کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے۔ غاصب اسرائیل نے مال بردار بحری جہاز کے دھماکے کو ایک بار پھر کشیدگی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ایران نے اپنے شفاف موقف سے عالمی برادری کو آگاہ کر دیا ہے۔ اب اگر اسرائیل کی طرف سے کوئی اشتعال انگیز کارروائی ہوتی ہے تو ایران اس کا منہ توڑ جواب دینے میں حق بجانب ہوگا اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ ایران اپنے دفاع کے معاملے میں کوئی سجمھوتہ نہیں کرتا۔
عراق میں امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر راکٹوں سے حملہ
مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عراق میں امریکہ کی دہشت گرد فوج کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے عراقی مزاحمت کاروں نے عین الاسد میں امریکی فوجی اڈے پر 14 راکٹ داغے ہیں جن کے نتیجے میں متعدد امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق 107 میلی میٹر14 کاٹیوشا راکٹوں سے عین الاسد میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا یہ راکٹ 40 کلو میٹر تک اپنے ہدف کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ عراقی مزاحمتی گروہ کا کہنا ہے کہ عراق اور شام کی سرحد پر امریکہ کے ہوائی حملے کے جواب میں عین السد میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوج ایک بار پھر خطے میں داعش کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
امریکہ کو یمن میں اپنے سنگین جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے یمن کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ 6 سالہ جنگ میں امریکہ نےسعودی عرب کی بھر پور حمایت کی ہے اور وہ سعودی عرب کے جارح اتحاد میں شامل ہے لہذا امریکہ کو یمن کے نہتے عربوں پر ہونے والے سنگين جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یمنی عوام کے دشمنوں نے گذشتہ 6 برسوں میں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے یمن کے نہتے عربوں پر ہونے والے مظالم اور جرائم میں امریکہ اور سعودی عرب برابر کے شریک ہیں، جنھوں نے یمن کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا ، یمن کی شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کرکے سیکڑوں مساجد ، اسپتال ، گھروں اور آثار قدیمہ کو نیست و نابود کیا ۔ خطیب زادہ نے کہا کہ امریکہ کو یمن کے بارے میں دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنے سنگین جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ یمن کے بارے میں ایران کا مؤقف پہلے سے ہی واضح ہے کہ یمن کے مسائل کا حل فوجی یلغار کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ اس کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور ایران آج بھی اپنے مؤقف پر باقی ہے۔
خوشنما وعدے بہت ہوچکے، جوہری معاہدے پر عملدرآمد کروگے تو ہم بھی عمل کرینگے، آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے شہر تبریز کے عوام کی جانب سے اس وقت کی آمر شہنشاہی حکومت کے خلاف 18 فروری 1978ء (29 بہمن 1356ء) کے روز کئے جانے والے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تبریز و آذربائیجان کی عوام سے خطاب کیا ہے۔ اس موقع پر رہبر انقلاب نے تبریزی عوام کو تاریخی قیام کی سالگرہ اور ماہ مبارک رجب کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ 29 بہمن 1356ء کے روز رونما ہونے والا واقعہ ایک جہادی اقدام اور تبریزی عوام کے لئے باعث افتخار امر ہے، تاہم (ایرانی علاقے) آذربائیجان کے اعزازات صرف انہی اقدامات تک محدود نہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ملک میں ممتاز شخصیات کے وجود کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آذربائیجان کا علاقہ ممتاز شخصیات کا سرچشمہ ہے، جس نے گذشتہ 150 سال میں دنیا کو نہ صرف بے شمار عظیم فقہاء، حکماء اور سائنسدان دیئے ہیں بلکہ آذربائیجان علم و ہنر، شعر و ادب اور تبریزی ہنر کی ماہر شخصیات کا بھی اصلی مقام ہے جن کا ایک نمونہ مرحوم شہریار رحمت اللہ علیہ ہیں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہر آئے روز ملک کے خلاف ہونے والی نت نئی سازشوں کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کبھی نہیں رُکتا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس قدر تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے، البتہ ان شاء اللہ ایرانی قوم، حکام اور جوانوں کی طاقت ان سازشوں کو ناکام بنا کر رکھ دے گی۔ رہبر انقلاب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ انقلاب اسلامی کے ثمرات میں سے ہے، جس کو پہچاننا انتہائی ضروری ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے تاکید کی دشمن اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر نفسیاتی جنگ سے فائدہ اٹھاتا اور ہماری ناکامیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، البتہ ہماری ترقی کو ہرگز ظاہر نہیں ہونے دیتا اور جانتے بوجھتے اُنہیں دنیا سے چھپاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کاموں سے دشمن کا ہدف عوام کو مستقبل کے بارے بدبین کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اُسے جھوٹ بولنے سے بھی کوئی عار نہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایرانی جوہری معاہدے کی جانب اشارہ کیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے بطور کافی گفتگو کی جا چکی ہے، تاہم اب بھی بہت سی باتیں کہی اور وعدے دیئے جا رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ آج اس حوالے سے میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم نے خوشنما باتیں اور وعدے بہت سنے ہیں، جن کی بعدازاں خلاف ورزی بھی کر دی جاتی ہے، تاہم اس مرتبہ صرف عمل! انہوں نے کہا کہ جب ہم (معاہدے کے) دوسرے شرکاء کی جانب سے عمل ہوتا دیکھیں گے تو تب ہی عمل کریں گے اور اس مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران، حسب سابق صرف باتوں کے ذریعے قائل نہیں ہوگا
ایران کی امریکی اور برطانوی ویکسین پر عدم اعتماد کی وجہ سامنے آگئی
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حسین شاہ مرادی کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے امریکی اور برطانوی ویکسین کی در آمد پر پابندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی دواساز کمپنیاں عوام کی اطلاع کے بغیر ان پر غیر قانونی تجربات کرتی رہتی ہیں۔
1 : امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے 1996 میں نائجیریا کے لوگوں پرگردن توڑ بخار کی دوا کا تجربہ ان کی اطلاع کے بغیر انجام دیا ، حتی اس سلسلے میں فائزر نے نائجیریا کی حکومت سے بھی اجازت نہیں لی۔اور اس آزمائش کے دوران 11 بچے ہلاک ہوگئے جبکہ 200 بچے بینائی اور سماعت کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔
2 : ایم کے اولٹرا پروگرام جو امریکی سی آئی اے کی جانب سے ذہن کنٹرول کرنے کے منصوبہ سے معروف ہے یہ ایک مخفی منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ میں امریکہ اور کینیڈا کے شہریوں پر انکی اطلاع کے بغیر تجربات کئے گئے جو غیر قانونی تھے۔
3 : سن 1966 میں ہنری بیچر نے اپنے ایک مقالہ میں شواہد کے ساتھ انکشاف کیا کہ امریکی ریسرچ اور تحقیقات کے ادارے غیر قانونی طور پر سرطان کے زندہ سیل بیماروں کے بدن میں منتقل کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس قسم کے غیر قانونی تجربات امریکہ ميں عام طور پر رائج ہیں۔
4 : بیسویں صدی میں امریکی ماہرین نے ایک دوا ڈپوپروورا کا زیمبابوے کی خواتین پر تجربہ کیا اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ دوا آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور سن 1981 میں زیمبابوے کی حکومت نے اس دوا کو ممنوع قراردیدیا۔
5 : سن 1994 میں امریکی دوا ساز کمپنیوں نے ایڈز کی دوا " اے زیڈ ٹی " کا افریقہ کی 17000 خواتین پر تجربہ کیا اور اجازت کے بغیر اصل دوا کے بجائے پلاسیبو کھلائی گئی جس کے نتیجے میں 1000 بچے ایڈز میں مبتلا پیدا ہوئے۔
6 : برطانیہ کے قومی آرکائیو کی خفیہ اسناد کے شائع ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ سن 30 اور 40 کی دہائیوں ميں برطانوی فوج نے اپنے ہی فوجیوں پر مسٹرڈ گیس کا استعمال کیا تاکہ یہ جان لیں کہ اس کا تخریبی اثر بھارتیوں پر زیادہ ہوتا ہےیا برطانوی شہریوں پر۔ سن 1950 میں ڈونلڈ میڈسن 200 ملی گرام سارین کے ذریعہ ہلاک ہوگیا تھا اسے کہا گيا تھا کہ یہ دوا سردی سے بچانے کی دوا ہے۔
7 : سن 1946 سے 1948 تک امریکی ماہرین نے گوئٹمالا کی حکومت کے تعاون سے گوئٹمالا کے 1500 بیماروں پر تجربات کئے اور انھیں سفلیس اور سوزاک کی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔ اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق پر مجبور کرتے تھے تاکہ بیماری منتقل ہو اور امریکی دوا سازوں کے اس مجرمانہ قعل پر کئي سال بعد سابق صدر اوبامہ اور ہیلری کلنٹن نے معذرت خواہی کی تھی۔
مذکورہ بالا تجربات اور دیگر بہت سے امور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکی اور برطانوی دواساز کمپنیاں قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان کی ویکسینوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا عقل اور منطق کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ملک میں تیار کردہ دواؤں اور ویکسینوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔
باقرالعلوم (ع) کو میرا سلام کہنا
رسول گرامی اسلام کا ارشاد ہے کہ "رجب" جنت میں ایک نہر کا نام ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میں ایک دن کا روزہ رکھے گا تو وہ ضرور اس نہر سے پانی پئے گا۔ رجب، شعبان، رمضان کے مہینے بڑی فضیلت والے ہیں، ان کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ "رجب اللہ تعالی کا مہینہ ہے اور کوئی مہینہ بھی اس کے احترام اور فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس مہینہ میں کفار سے لڑائی حرام ہے، پھر فرمایا شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے، جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے گا، وہ اللہ تعالی کی بہت بڑی خوشنودی کا مستحق ہوگا اور خدا کا غضب اس سے دور رہے گا، اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند کر دیا جائے گا"۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل ہے کہ جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے گا تو جہنم کی آگ اس سے ایک سال کے راستہ کے برابر دور ہو جائے گی، اور جو تین دن کے روزے رکھے تو اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "رجب کا مہینہ میری امت کے لئے استغفار کا مہینہ ہے، پس اس مہینے میں گناہوں کی معافی مانگو کیونکہ خداوند عالم بہت بخشنے والا اور مہربان ہے، اور رجب کو اصبّ بھی کہتے ہیں کیونکہ اللہ کی رحمت اس مہینہ میں میری امت پر زیادہ ہے، اور اس ماہ کا ذکر "اَستَغفراللہَ وَاَسئَلُہُ التَّوبۃَ" ہے۔
ابن بابویہ نے معتبر سند سے سالم سے روایت کی ہے کہ میں ماہ رجب کے آخر میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، جب آپ کی نگاہ مجھ پر پڑی تو آپ نے سوال کیا، کیا اس مہینے کا روزہ رکھا ہے، میں نے کہا خدا کی قسم نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ تجھ سے اتنا ثواب فوت ہو گیا کہ جس کے اندازہ کو صرف خداوندعالم جانتا ہے، کیونکہ خدا کے نزدیک یہ ماہ بہت محترم ہے۔ میں نے عرض کی اے فرزند رسول، اگر میں اس کے باقی دنوں میں روزہ رکھ لوں تو ثواب پا لوں گا، آپ نے فرمایا، اے سالم جو اس کے آخری دن کا روزہ رکھ لے تو خداوندعالم اسے سکرات موت کی سختی اور موت کے بعد والے خوف اور قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص آخری دو دن کے روزے رکھے تو وہ پل صراط سے آسانی سے گزرے گا اور جو کوئی اس کے آخری تین دن کے روزے رکھے تو وہ روز قیامت کے بہت بڑے خوف، اور اس دن کی سختی سے محفوظ رہے گا اور جہنم سے برائت ہو گی، اور جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوتو وہ ہر دن سو مرتبہ اس تسبیح کو پڑھے تاکہ وہ اس دن کے روزہ کے ثواب کو پا لے، وہ تسبیح یہ ہے" سبحان الاِلَہَ للہِ الجلیلِ سبحانَ مَن لاَ یَنبغیِ التَّسبیح اِلّا لَہُ سُبحانَ الاَعَزِّ الاکرمِ، سبحانَ َمن لَبِسَ العِزّ وَھوَ لَہُ اَھلُ۔1
اس ماہ کی برکتوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب ہمارے پانچویں امام، امام محمد باقر علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے، ہمارے پانچويں پيشوا امام محمد باقر (ع) جمعہ كے دن پہلى رجب 57ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے۔ 2۔ آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشہورترين لقب باقر ہے۔ روايت میں نقل ہے كہ رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے انہیں اس لقب سے ملقب فرمايا تھا۔ امام محمد باقر (ع) ماں اور باپ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے، اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين امام حسين (ع) كے فرزند تھے، اور ان كى والدہ گرامى ''ام عبداللہ'' امام مجتبى (ع) كى بيٹى تھيں۔ آپ نے امام زين العابدين (ع) جيسے باپ كى پرمہر آغوش ميں پرورش پائی اور بافضيلت و باتقوا ماں كى گود میں پلے بڑھے۔ وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ '' ميرى جدّہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى (ع) ميں كوئی عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پہنچ سكی۔ 3
امام محمد باقر (ع) كى عمر چار سال سے بھی كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا۔ آپ (ع) اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسين (ع) كے پاس موجود تھے۔ واقعہ كربلا كے بعد 34 برس آپ (ع) نے اپنے والد بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاری، آپ جوانى ہى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوٰى ميں مشہور تھے یہاں تک کہ آپکو مسلمانوں كی علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھا جانے لگا۔ جہاں كہيں بھى ہاشميين، علويين اور فاطميين كے فضائل اور بلندى كا ذكر ہوتا، آپ (ع) كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنہا وارث جانتے تھے۔ آپ (ع) كى شرافت اور بزرگى کا اندازہ پيغمبر (ص) کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اپنے ايک بزرگ صحابی، جابر ابن عبداللہ انصارى (رض) سے فرمائی، '' اے جابر تم زندہ رہو گے اور ميرے فرزند محمد ابن على ابن الحسين (ع) كہ جن كا نام تورات ميں ''باقر'' ہے سے ملاقات كرو گے۔ ملاقات ہونے پر ميرا سلام اسے پہنچا دينا''۔ پيغمبر (ص) رحلت فرما گئے۔ جابر (رض) نے ايک طويل عمر پائی۔
آپ ايک دن امام زين العابدين (ع) كے گھر تشريف لائے اور امام محمد باقر (ع) كو جو اس وقت چھوٹے سے تھے ديكھا، جابر نے اس بچے سے كہا، ذرا آگے آئيے امام (ع) آگے آ گئے، جابر نے كہا، ذرا مڑ جايئے امام مڑ گئے، جابر نے ان كے جسم اور چلنے كا انداز ديكھا اس كے بعد كہا، رب كعبہ كى قسم، يہ ہو بہو آئينہ پيغمبر (ص) ہيں، پھر انہوں نے امام زين العابدين (ع) سے پوچھا'' يہ بچہ كون ہے؟ آپ نے فرمايا، ميرے بعد امام ميرا بيٹا محمد باقر (ع) ہے، جابر اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ نے امام كے قدموں كا بوسہ ليا اور كہا، اے فرزند پيغمبر (ص) ميں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا كا سلام و درود قبول فرمائيں انہوں نے آپ كو سلام كہلو ايا ہے۔ شعور کی منزل دیکھئے کہ اس کم سنی کے باوجود امام محمد باقر (ع) كى آنكھيں ڈبڈبا گئيں اور آپ (ع) نے فرمايا، جب تک آسمان اور زمين باقى ہے اس وقت تک ميرا سلام و درود ہو، ميرے جد پيغمبر (ص) خدا پر اور تم پر بھى سلام ہو اے جابر، تم نے ان كا سلام مجھ تک پہنچايا۔
اخلاق و عادات كے اعتبار سے حضرت امام محمد باقر (ع)، متواضع، سخی، مہربان اور صابر تھے اور جيسا كہ جابر نے كہا تھا ہو بہو اسلام كے عظيم الشان پيغمبر (ص) كا آئينہ تھے۔ آپکی مہربانی اور عفو گذشت کا یہ عالم تھا کہ شام كا ايک شخص مدينہ ميں ٹھہرا ہوا تھا اور امام (ع) كے پاس بہت آتا رہتا تھا اور كہتا تھا كہ تم سے زيادہ روئے زمين پر اور كسى كے بارے ميں ميرے دل ميں بغض و كينہ نہيں ہے، تمہارا اور تمہارے خاندان سے زيادہ ميں كسى كا دشمن نہيں ہوں، اگر تم يہ ديكھتے ہو كہ ميں تمہارے گھر آتا جاتا ہوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايک بہترین سخنور ہو، اس كی تمامتر بےادبیوں کے باوجود باوجود امام (ع) اس كے ساتھ حسن سلوک سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے، كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ہوا اس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقر (ع) ميرى نماز جنازہ پڑھائيں، جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امام (ع) كے پاس پہنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں۔ امام نے فرمايا، وہ مرا نہيں ہے جلدى نہ كرو يہاں تک كہ ميں پہنچ جاؤں، اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ہاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تک سجدہ میں رہے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سرہانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا، اس كى پشت كو ديوار كا سہارا ديا اور شربت منگوا كر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے، ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امام (ع) كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا،''ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں''۔5
دوسرے تمام آئمہ كى طرح امام محمد باقر (ع) كا علم بھى چشمہ وحى سے فيضان حاصل كرتا تھا، آپ علم لدنی کے مالک تھے، جابر بن عبداللہ آپ كے پاس آتے اور آپ كے علم سے بہرہ ور ہوتے اور بار بار عرض كرتے تھے كہ ''اے علوم كو شگافتہ كرنے والے ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ بچپن ہى ميں علم خدا سے مالا مال ہيں۔ 6 اہلسنت كے علماء ميں سے ايک بزرگوار عبداللہ ابن عطاء مكى فرماتے تھے كہ ميں نے امام محمد باقر (ع) كے سامنے اہل علم كو جس طرح حقير اور چھوٹا پايا ہے ويسا كسى كے سامنے نہيں پایا۔ حكم بن عتيبہ لوگوں كے نزديک جن كا علمى مقام بہت بلند تھا، امام محمد باقر (ع) كے سامنے ان كى حالت يہ ہوتى تھى كہ جيسے ايک شاگرد استاد كے سامنے''۔ 7 آپ كا علمى مقام ايسا تھا كہ جابر بن يزيد جعفى ان سے روايت كرتے وقت كہتے تھے ''وصى اوصياء اور وارث علوم انبياء محمد بن على بن الحسين نے ايسا كہا ہے ...''۔ 8