
سلیمانی
بین الافغان مذاکرات کی اہمیت
گذشتہ تین ماہ سے افغانستان میں طالبان نے تیزی سے پیشقدمی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ دوسری طرف اگرچہ امریکہ نے افغان حکومت کو بہت سے وعدے دے رکھے تھے لیکن مشکل وقت آنے پر یہ تمام وعدے بھلا کر افغانستان کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا چکا ہے۔ یوں افغانستان کا مستقبل بہت زیادہ مبہم اور پیچیدہ ہو گیا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے کل 370 صوبوں میں سے 160 سے زائد صوبوں پر طالبان کا قبضہ برقرار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے صدر اشرف غنی کا دورہ امریکہ بھی ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس میں انہوں نے امریکی حکام سے فوجی انخلاء میں تاخیر کرنے کی درخواست کی تھی۔ امریکی حکام نے ماضی میں بے شمار وعدوں کے باوجود طالبان کے مقابلے میں افغان حکومت کی کوئی مدد نہیں کی۔
امریکہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے خفیہ مذاکرات بھی انجام دیے۔ ان مذاکرات میں امریکی حکام نے نہ صرف افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ حتی انہیں اطلاع دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اسی طرح ٹھیک اس وقت جب طالبان نے اپنی پیشقدمی تیز کی ہوئی تھی اور تیزی سے مختلف صوبوں پر قابض ہوتے جا رہے تھے امریکہ نے مکمل طور پر اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلا لیں۔ لہذا یہ کہنا بجا ہو گا کہ امریکہ دوحہ مذاکرات میں طالبان کو اس بارے میں سبز جھنڈی دکھا چکا تھا۔ دیگر اہم نکتہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر ذرائع ابلاغ بھی متضاد صورتحال کا شکار ہیں۔ ایک طرف طالبان کو شدت پسند گروہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ طالبان عوام کی مرضی سے مختلف صوبوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک طالبان نے عام شہریوں خاص طور پر ہزارہ، اہل تشیع اور تاجک اقوام کے ساتھ شدت پسندانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ان کے تمام تر فوجی اقدامات حکومتی فورسز کے خلاف انجام پائے ہیں۔ لہذا افغانستان کے مستقبل سے متعلق واضح تصویر نظر نہیں آ رہی۔ البتہ طالبان کی مختلف علاقوں پر قابض ہونے کی طاقت اور متعدد علاقوں کی عوام کا طالبان سے اظہار یکجہتی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ تین سے چھ ماہ تک افغانستان میں اقتدار کی کیفیت یونہی رہے گی جیسی اس وقت پائی جاتی ہے۔ یہاں ایک اور اہم نکتہ بھی موجود ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ گذشتہ بیس برس میں اپنے فوجی قبضے کے دوران القاعدہ اور داعش سمیت کئی دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم کر کے انہیں کافی مقدار میں اسلحہ فراہم کر چکا ہے۔
اسی طرح امریکہ نے وہ فوجی سازوسامان بھی مختلف افغان گروہوں میں بانٹ دیا ہے جسے امریکی فوجی اپنے ساتھ واپس لے جانے سے عاجز تھے۔ البتہ یہ امریکی اسلحہ اور فوجی سازوسامان ہمسایہ ممالک خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے کوئی خطرہ قرار نہیں پا سکتا کیونکہ اب تک خود امریکی فوجی اس سے کہیں زیادہ جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس وہاں موجود رہے ہیں لیکن ایران کے سرحدی علاقوں کو کوئی خطرہ پیش نہیں آیا۔ اس بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے یہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان شدت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو دیا ہے جس کا مقصد خطے میں بدامنی اور عدم استحکام برقرار رکھ کر امریکی اہداف اور مفادات کا حصول یقینی بنانا ہے۔ یوں یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ امریکہ جس ملک سے باہر نکلتا ہے وہاں بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں بین الافغان مذاکرات بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ مذاکرات مفید بھی ہیں اور افغانستان کی قومی سلامتی اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح بین الافغان امن مذاکرات خطے میں قیام امن کا بھی باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ بین الافغان امن مذاکرات کی حمایت کی ہے اور ان کے انعقاد پر زور بھی دیا ہے اور ان کے انعقاد میں مدد بھی فراہم کی ہے۔ اشرف غنی کی سربراہی میں موجودہ افغان حکومت ملک میں موجود وسیع پیمانے پر انارکی اور بیرونی امداد پر حد سے زیادہ انحصار کے باعث زیادہ عرصے تک اقتدار میں باقی رہنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ دوسری طرف افغان حکومت میں موجود سابقہ جہادی عناصر بھی عوام میں محبوبیت کھو چکے ہیں۔
ایسی صورتحال میں اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے دیگر ممالک کے تعاون سے ممکنہ حد تک فوجی ٹکراو اور جنگ روکنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ اس مقصد کیلئے تمام گروہوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی تگ و دو جاری ہے۔ شدت پسندی اور قتل و غارت سے بچنے کا واحد راستہ گفتگو اور مذاکرات ہیں۔ افغانستان میں نئی جنگ کا آغاز اور بدامنی کا نیا سلسلہ شروع ہونا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔ اس کا نقصان سب سے پہلے افغان عوام کو ہو گا اور اس کے بعد ہمسایہ ممالک کو اس کے منفی اثرات بھگتنے پڑیں گے۔ اس وقت افغانستان میں کوئی ایسا گروہ یا طاقت موجود نہیں جو اکیلے اپنے سو فیصد اہداف اور مفادات کی تکمیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لہذا بہترین راستہ یہی ہے کہ تمام گروہ مل کر قومی سلامتی اور عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔
تحریر: ڈاکٹر سید رضا صدر الحسینی
حضرت امام محمد تقی (ع) کی سوانح حیات اور بعض کرامات
حضرت امام محمد تقی(ع) شیعوں کے نویں امام ہیں آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت سبیکہ(س) اورآپؑ کے والد بزرگوار حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ہیں آپؑ کی کنیت ابوجعفر ثانی اور مشہور القاب جواد، ابن الرضا اور تقیؑ ہیں۔
مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت باسعادت سنہ ۱۹۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
مورخین نے آپ (ع) کی تاریخ ولادت شب جمعہ 19 رمضان المبارک کی شب، بیان کی ہے اور بعض دوسروں نے لکھا ہے کہ امام (ع) پندرہ رمضان المبارک کو پیدا ہوئے. تا ہم شیخ طوسی کتاب "المصباح" میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم ولادت 10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری ہے۔ (بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14)
بابرکت مولود:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ یہ کہتے تھے کہ حضرت علی بن موسیٰ رضا (ع) کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی حضرت امام رضاؑ نے فرمایا: ’’ هذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه‘‘(یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ بابرکت مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا)۔ (کلینی، الکافی، ج1 ص321)
ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابویحیٰ صنعانی کہتے ہیں:’’ إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه ‘‘ ( ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا)۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔ کلینی رازی، الكافي ج1 ص321)
ازدواج اور اولاد:
امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور آپ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں۔( قمی، منتہی الامال، ج2، ص235)
شیخ مفید علیہ الرحمہ کی روایت کے مطابق حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی اولاد کی تعداد چار ہیں جن کے نام امام علی نقیؑ، موسیٰ مبرقعؑ،فاطمہ اور امامہ ہیں۔( مفید، الارشاد، ج2، ص284)
امامت:
کم سنی میں امامت کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد سے پہلی مرتبہ اہل تشیع کو ایک نئے مسئلے کا سامنا تھا اور وہ مسئلہ کم سنی میں امام جواد علیہ السلام کی امامت کا مسئلہ تھا. کیونکہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے وقت حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سات برس کے تھے اور اسی عمر میں ہی مرتبہ امامت پر فائز ہوئے. چونکہ اس سے پہلے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا تھا لہذا امام جواد علیہ السلام نے خود ہی کئی مرتبہ اس شبہے کا ازالہ فرمایا. ابراہیم بن محمود کہتے ہیں: ’’میں خراسان میں امام رضا علیہ السلامی کی خدمت میں حاضر تھا. اسی وقت امام (ع) کے ایک صحابی نے سوال کیا: اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم کس سے رجوع کریں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے محمد سے.اس وقت امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی اور امام علیہ السلام نے ممکنہ شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میرے محمد (محمد تقی الجواد) کی موجودہ عمر سے بھی کم عمری میں نبی بنا کر بھیجا اور ان کو ایک نئی شریعت قائم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی جبکہ میں اپنے بیٹے کو اسلام کی مستحکم شدہ شریعت کی برپائی اور حفاظت کے لئے متعارف کررہا ہوں. (بحارالانوار، ج 50، ص 34، ح 20.)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی (ع) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
کلیم بن عمران کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: اللہ تعالی سے التجا کریں کہ آپ کو اولاد نرینہ عطا فرمائے. امام علیہ السلام نے فرمایا: میری قسمت میں ایک ہی بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا.جب امام جواد علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: خداوند متعال نے مجھے ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی طرح دریاؤں کو شکافتہ کرنے والا ہے اور حضرت عیسی بن مریم کی طرح ہے جس کی ماں مقدس ہے اور پاک و طاہر متولد ہوا ہے۔ میرا یہ فرزند ناحق مارا جائے گا اور آسمان والے اس پر گریہ و بکاء کریں گے اور اللہ تعالی اس کے دشمن پر غضبناک ہوگا اور بہت تھوڑا عرصہ بعد اس کو دردناک عذاب سے دوچار فرمائے گا. (بحار الانوار، ج 50، ص 15، ح 19)
کرامات:
صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کا تذکرہ مختلف کتب سے کرتا ہوں ۔
۱ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہو کرعرض کیا کہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہوا تومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔
۲ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اورحماد بن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم الشان سیلاب آ گیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کوبھی بہا کر لے گیا (شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔
فرامین:
۱۔ ’’ مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبير‘‘ ( جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا)۔
۲۔ ’’مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ‘‘(جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا)۔
۳۔’’إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ‘‘(بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے)۔
شہادت:
عباسی خلیفہ معتصم نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ سے بغداد بلوایا؛ امام علیہ السلام ۲۸ محرم الحرام سنہ ۲۲۰ کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذیقعدہ کے مہینے اسی شہر میں شہید ہوگئے ، البتہ بعض ماخذ میں ہے کہ آپ ؑ نے پانچ یا چھ ذی الحج یا بعض میں آیا ہے کہ ذیعقدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پائی۔
تہران میں ہندوستانی وزیر خارجہ کی ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات
ہندوستان کے وزیر خارجہ سبرامنیم جیشنکر تہران کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے آج ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات ، علاقائی مسائل اور عالمی امور کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کریں گے اور اس ملاقات میں وہ ہندوستان کے وزير اعظم نریندر مودی کا تہنیتی پیغام ایران کے نئے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو پیش کریں گے۔
افغانستان کے 4 سیاسی وفود کا دورہ تہران/ تہران میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز
افغانستان کے 4 سیاسی وفود تہران کے دورے پر ہیں جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی میزبانی میں مذاکرات کا آغاز ہوگيا ہے مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندہ وفود بھی موجود ہیں۔
تہران میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے ۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں امریکہ کی افغانستان میں شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک افغانستان میں موجود رہا ، جہاں اس نے تباہی اور بربادی مچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے افغان رہنماؤں کو آج سخت او ردشوار فیصلے کرنا ہوں گے۔ محمد جواد ظریف نے کہا کہ افغان رہنماؤں کو اپنے تمام مسائل اور مشکلات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہیے، جنگ و جدال کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں پائدار قیام امن کے لئے ایران ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہے۔
واضح رہے کہ افغان حکومت کے وفد کی قیادت سابق وزیر خارجہ یونس قانونی کررہے ہیں جبکہ طالبان وفد کی قیادت طالبان دفتر کے معاون عباس استانکزی کررہے ہیں۔
افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء اور امریکی اتحادیوں کیلئے عبرت کا مقام
امریکہ نے بیس سال افغانستان میں جنگ اور بدامنی پیدا کرنے کے بعد آخرکار اس ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ یعنی بگرام ہوائی اڈہ خالی کر دیا ہے۔ ان بیس سالوں میں امریکہ کے 3500 سے زیادہ فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دسیوں ہزار فوجی زخمی بھی ہو گئی۔ دوسری طرف افغانستان پر بیس سالہ فوجی چڑھائی کے دوران امریکہ نے 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات بھی برداشت کئے ہیں۔ افغانستان سے امریکہ کی فوجی پسپائی کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مطلب سرکاری طور پر فوجی شکست اور ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس ملک میں فوجی مشن کے اختتام کا اعلان ہے۔
افغانستان ایسا ملک ہے جہاں اس سے پہلے سابق سوویت یونین کے بھی دانت کھٹے ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کو افغانستان سے نکال باہر کرنے میں خود امریکہ نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ نے اس زمانے میں افغان مجاہدین نامی مسلح افراد کو فوجی ٹریننک اور مالی امداد فراہم کی تھی۔ یوں یہ کہنا بجا ہو گا کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔
2)۔ اس وقت افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔ ایک طرف پشتو بولنے والے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل "طالبان" گروہ ہے جو ملکی آبادی کا 45 فیصد حصہ تشکیل دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف دیگر ایسی قومیں پائی جاتی ہیں جو اقلیت میں ہیں اور اپنا وجود خطرے میں محسوس کر رہی ہیں۔
3)۔ موجودہ حالات میں افغانستان ایک اور بڑے خطرے سے بھی روبرو ہے جو قومی اور مذہبی بنیادوں پر اس ملک کے ٹوٹ کر کئی حصوں میں تقسیم ہو جانے پر مشتمل ہے۔ یوں افغانستان ایک ایسے شکست خوردہ اور ناکام ملک میں تبدیل ہو جائے گی جو ہمیشہ عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انتہائی خاموشی سے انجام پایا ہے۔ اس کیلئے نہ تو کسی تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی نے خوشی یا افسوس کا اظہار کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو امریکہ کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں اور بم دھماکوں کا تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ اپنی صدارت کی مدت پوری ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب صدارتی محل ترک کرتے ہیں۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ایک اور بھیانک خطرہ بھی موجود ہے جو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی جانب سے ہے۔ القاعدہ کی جانب سے اپنی نئی شکل یعنی "داعش" کے روپ میں واپسی کا بہت قوی امکان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان مختلف قسم کے بھاری اور ہلکے ہتھیاروں کے جنگل میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان آرمی کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کا آغاز گذشتہ دو ماہ سے ہو چکا ہے اور اشرف غنی سمیت دیگر سیاسی رہنما اور لیڈران امریکہ سے لے کر یورپ تک محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش شروع کر چکے ہیں۔ البتہ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب وہ طالبان کے ہاتھ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ عراقی کی طرح افغانستان کے بارے میں بھی تمام امریکی وعدے محض دھوکہ اور فریب ثابت ہوئے۔
افغانستان پر فوجی جارحیت کے وقت امریکی حکام کا دعوی تھا کہ وہ اس ملک کو امن و امان کا ایسا گہوارہ بنا دیں گے جہاں فلاح و بہبود اور جمہوری اقدار کی گہما گہمی ہو گی۔ ان کے بیانات سے یوں محسوس ہوتا تھا گویا افغانستان بہشت عدن میں تبدیل ہو جائے گا۔ امریکی حکام نے عراق کے بارے میں بھی ایسے ہی وعدے کئے تھے۔ اب پوری دنیا کیلئے واضح ہو چکا ہے کہ ان وعدوں کا مقصد انہیں دھوکہ اور فریب دینا تھا۔ اس وقت طالبان تیزی سے پیشقدمی کر رہے ہیں اور ملک کے اکثر صوبوں پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ طالبان سے وابستہ مسلح عناصر دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ چکے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر پورے ملک پر ان کا قبضہ حتمی دکھائی دیتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطی میں موجود تنازعات اور بدامنی کو چین کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس مقصد کیلئے سیاسی اسلام کا ہتھکنڈہ بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس نئے امریکی منصوبے کیلئے بہت جلد خلیجی ریاستوں کی جانب سے اربوں ڈالر منتقل کئے جانے کی توقع رکھنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان سرحد کے قریب مشرقی چین میں ایگور قبیلے کے مسلمان شہری اچانک امریکی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ بہرحال، افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء امریکی تاریخ کی ایک اور ذلت آمیز شکست اور اپنے اتحادیوں کے حق میں امریکہ کی ایک اور غداری ہے۔ امریکہ کے اتحادی ممالک کو اس واقعے سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے لیکن اس کی امید بہت کم ہے۔
تجزیہ نگار: عبدالباری عطوان
5،000 اسرائیلیوں کو متحدہ عرب امارات کی شہریت دینا غداری ہے، فلسطینی تحریک
حوزہ نیوز ایجنسی کی ریپورٹ کے مطابق، یمن کے المسیرا ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے جہاد اسلامی موومنٹ کے ترجمان، طارق سلمی نے کہا کہ 5 ہزار اسرائیلیوں کو متحدہ عرب امارات کی شہریت دینا قابل مذمت ہے اور یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کے ماتھے پر ایک نیا کلنک ہے۔
انہوں نے اسرائیل سے وابستہ عرب حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں کیونکہ حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں صہیونی حکومت کی شکست واضح ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں امارات لیکس نامی ایک ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے تین ماہ کے دوران متحدہ عرب امارات نے 5 ہزار اسرائیلیوں کو شہریت دی ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں ، متحدہ عرب امارات اور بحرین ، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ پیوست ہوئے تھے، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے ایک معاہدہ کر لیا تھا جس پر عالم اسلام کی طرف سے تنقید کی گئی اور فلسطینیوں نے اسے اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف سمجھا تھا۔
روز دحوالارض کے فضائل اور اعمال
روز دحوالارض 25 ذوالقعدہ کا دن ہے۔ ذیل میں اس بابرکت دن کے بعض اعمال اور فضائل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
* دحوالارض کیا ہے اور اس دن کے اعمال کیا ہیں؟
ذو القعدہ کا پچیسواں دن وہ دن ہے کہ جب زمین کو کعبہ کے نیچے بچھایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دن اور اس کی رات ان نیک دن اور راتوں میں سے ایک ہے کہ جن میں خدا اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے اور اسلامی روایات کے مطابق اس دن میں قیام و عبادت کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے۔ اور روز دحوالارض ان دنوں میں سے ایک ہے کہ سال بھر میں جس میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
"دحو" کے لغوی معنی وسعت دینے اور پھیلانے کے ہیں۔ [1] اور دحوالارض کا مطلب ہے زمین کو پھیلانا اور زمین کو وسعت دینا اور وہ چیز جسے وسعت دی جائے یا پھیلا دیا جائے اسے (دحو الشیء) کہا جاتا ہے۔ [2]
قرآن کی یہ آیت "و الارض بعد ذلک دحها"[3] بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یعنی "اور اس کے بعد زمین کو (انسانوں اور دیگر مخلوقات کے فائدے کے لئے) پھیلا دیا۔"
اور جو حضرت علی (علیہ السلام) کی دعا میں وارد ہوا ہے کہ: اللّهم داحی المدحوات، یعنی اے زمین کو وسعت دینے والے اور بڑھانے والے۔ [۴] اس سے مراد یہ ہے کہ خدا نے زمین کو کعبہ اور اس کے مقام سے پھیلادیا اور دحوالارض کہ جو 25 ذوالقعدہ کا دن ہے، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس دن خدا نے خانہ کعبہ کو ظاہر کیا اور خدا نے زمین کو اسی مقام سے پھیلانا شروع کیا اور اسی وجہ سے اسے "دحوالارض" کہا جاتا ہے یعنی زمین کو پھیلانے اور وسعت دینے کا دن۔
احادیث و روایات اور متون اسلامی میں اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ شیخ طوسی کہتے ہیں:
دحوالارض کہ جو 25 ذوالقعدہ کے دن پر اطلاق ہوتا ہے کہ اس دن خدا نے کعبہ کے نیچے زمین کو وسعت بخشی۔ [۵] اور اس دن روزہ اور غسل مستحب ہے اور خاص طور پر روزہ رکھنا کہ جس کا ثواب ساٹھ سال کی عبادت کے ثواب کے برابر ہے۔
امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ 25 ذی القعدہ کا دن وہی دحوالارض کا دن ہے کہ جب خدا نے زمین کو خانہ کعبہ کے نیچے پھیلادیا اور اس دن حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی (علیہما السلام) متولد ہوئے۔ [6] البتہ یہ تاریخ قمری تاریخ کے مطابق ہے اور میلادی تاریخ کے منافی نہیں ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 96 کے مطابق کہ جس میں کہا گیا ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکةَ مُبَارَکا وَ هُدًی لِّلْعَالَمِینَ [۷]
یعنی وہ پہلا مکان کہ جو لوگوں کی عبادت گاہ کے لئے بنایا گیا تھا وہ خانہ کعبہ ہے۔ جہاں خلائق کے لئے برکت اور ہدایت ہے۔
روز دحوالارض کے اعمال
روزہ رکھنا:
روز دحوالارض ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ سال بھر میں جس میں روزہ رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے اور روایت میں آیا ہے کہ اس دن کا روزہ ستر سال روزہ رکھنے کے برابر ہے اور ایک دوسری روایت کے مطابق اس دن کا روزہ ستر سال کا کفارہ ہے اور جو شخص اس دن کا روزہ رکھتا ہے اور اس کی رات کو عبادت میں بسر کرتا ہے تو اس کے لئے سو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو موجودات آسمان و زمین کے درمیان ہیں وہ اس شخص کے لئے استغفار کرتے ہیں جو اس دن میں روزہ رکھتا ہے۔ اور یہ وہ دن ہے جس میں خدا کی رحمت پھیلائی جاتی ہے اور اس دن خدا کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ راز و نیاز کرنے کا بہت عظیم ثواب ہے اور اس دن روزہ رکھنے، عبادت کرنے، ذکرِ خدا اور غسل کرنے کے علاوہ مزید دو اعمال وارد ہوئے ہیں:
نماز:
شیعہ کتب میں روایت ہوئی نماز کا پڑھنا۔ اور وہ نماز دو رکعت ہے کہ جو چاشت (دن کا پہلا آدھا حصہ) کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ سورۂ حمد کے بعد پانچ بار سوره والشمس پڑھے اور سلام کے بعد پڑھے: لا حَوْلَ وَ لا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِی الْعَظِیمِ۔ پھر دعا کرے اور کہے: یا مُقِیلَ الْعَثَرَاتِ أَقِلْنِی عَثْرَتِی یا مُجِیبَ الدَّعَوَاتِ أَجِبْ دَعْوَتِی یا سَامِعَ الْأَصْوَاتِ اسْمَعْ صَوْتِی وَ ارْحَمْنِی وَ تَجَاوَزْ عَنْ سَیئَاتِی وَ مَا عِنْدِی یا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ۔
دعا:
اس دعا کی تلاوت کرنا مستحب ہے جو شیخ نے مصباح میں ذکر کی ہے:
اللَّهُمَّ دَاحِی الْکَعْبَةِ وَ فَالِقَ الْحَبَّةِ وَ صَارِفَ اللَّزْبَةِ وَ کَاشِفَ کُلِّ کُرْبَةٍ أَسْأَلُکَ فِی هَذَا الْیوْمِ مِنْ أَیامِکَ الَّتِی أَعْظَمْتَ حَقَّهَا وَ أَقْدَمْتَ سَبْقَهَا وَ جَعَلْتَهَا عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ وَدِیعَةً وَ إِلَیکَ ذَرِیعَةً وَ بِرَحْمَتِکَ الْوَسِیعَةِ أَنْ تُصَلِّی عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ الْمُنْتَجَبِ فِی الْمِیثَاقِ الْقَرِیبِ یوْمَ التَّلاقِ فَاتِقِ کُلِّ رَتْقٍ وَ دَاعٍ إِلَی کُلِّ حَقٍّ وَ عَلَی أَهْلِ بَیتِهِ الْأَطْهَارِ الْهُدَاةِ الْمَنَارِ دَعَائِمِ الْجَبَّارِ وَ وُلاةِ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ أَعْطِنَا فِی یوْمِنَا هَذَا مِنْ عَطَائِکَ الْمَخْزُونِ غَیرَ مَقْطُوعٍ وَ لا مَمْنُوعٍ [مَمْنُونٍ] تَجْمَعُ لَنَا بِهِ التَّوْبَةَ وَ حُسْنَ الْأَوْبَةِ یا خَیرَ مَدْعُوٍّ وَ أَکْرَمَ مَرْجُوٍّ یا کَفِی یا وَفِی یا مَنْ لُطْفُهُ خَفِی الْطُفْ لِی بِلُطْفِکَ وَ أَسْعِدْنِی بِعَفْوِکَ وَ أَیدْنِی بِنَصْرِکَ وَ لا تُنْسِنِی کَرِیمَ ذِکْرِکَ بِوُلاةِ أَمْرِکَ وَ حَفَظَةِ سِرِّکَ وَ احْفَظْنِی مِنْ شَوَائِبِ الدَّهْرِ إِلَی یوْمِ الْحَشْرِ وَ النَّشْرِ وَ أَشْهِدْنِی أَوْلِیاءَکَ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِی وَ حُلُولِ رَمْسِی وَ انْقِطَاعِ عَمَلِی وَ انْقِضَاءِ أَجَلِی اللَّهُمَّ وَ اذْکُرْنِی عَلَی طُولِ الْبِلَی إِذَا حَلَلْتُ بَینَ أَطْبَاقِ الثَّرَی وَ نَسِینِی النَّاسُونَ مِنَ الْوَرَی وَ أَحْلِلْنِی دَارَ الْمُقَامَةِ وَ بَوِّئْنِی مَنْزِلَ الْکَرَامَةِ وَ اجْعَلْنِی مِنْ مُرَافِقِی أَوْلِیائِکَ وَ أَهْلِ اجْتِبَائِکَ وَ اصْطِفَائِکَ وَ بَارِکْ لِی فِی لِقَائِکَ وَ ارْزُقْنِی حُسْنَ الْعَمَلِ قَبْلَ حُلُولِ الْأَجَلِ بَرِیئا مِنَ الزَّلَلِ وَ سُوءِ الْخَطَلِ اللَّهُمَّ وَ أَوْرِدْنِی حَوْضَ نَبِیکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ اسْقِنِی مِنْهُ مَشْرَبا رَوِیا سَائِغا هَنِیئا لا أَظْمَأُ بَعْدَهُ وَ لا أُحَلَّأُ وِرْدَهُ وَ لا عَنْهُ أُذَادُ وَ اجْعَلْهُ لِی خَیرَ زَادٍ وَ أَوْفَی مِیعَادٍ یوْمَ یقُومُ الْأَشْهَادُ اللَّهُمَّ وَ الْعَنْ جَبَابِرَةَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ وَ بِحُقُوقِ [لِحُقُوقِ] أَوْلِیائِکَ الْمُسْتَأْثِرِینَ اللَّهُمَّ وَ اقْصِمْ دَعَائِمَهُمْ وَ أَهْلِکْ أَشْیاعَهُمْ وَ عَامِلَهُمْ وَ عَجِّلْ مَهَالِکَهُمْ وَ اسْلُبْهُمْ مَمَالِکَهُمْ وَ ضَیقْ عَلَیهِمْ مَسَالِکَهُمْ وَ الْعَنْ مُسَاهِمَهُمْ وَ مُشَارِکَهُمْ اللَّهُمَّ وَ عَجِّلْ فَرَجَ أَوْلِیائِکَ وَ ارْدُدْ عَلَیهِمْ مَظَالِمَهُمْ وَ أَظْهِرْ بِالْحَقِّ قَائِمَهُمْ وَ اجْعَلْهُ لِدِینِکَ مُنْتَصِرا وَ بِأَمْرِکَ فِی أَعْدَائِکَ مُؤْتَمِرا اللَّهُمَّ احْفُفْهُ بِمَلائِکَةِ النَّصْرِ وَ بِمَا أَلْقَیتَ إِلَیهِ مِنَ الْأَمْرِ فِی لَیلَةِ الْقَدْرِ مُنْتَقِما لَکَ حَتَّی تَرْضَی وَ یعُودَ دِینُکَ بِهِ وَ عَلَی یدَیهِ جَدِیدا غَضّا وَ یمْحَضَ الْحَقَّ مَحْضا وَ یرْفِضَ الْبَاطِلَ رَفْضا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَیهِ وَ عَلَی جَمِیعِ آبَائِهِ وَ اجْعَلْنَا مِنْ صَحْبِهِ وَ أُسْرَتِهِ وَ ابْعَثْنَا فِی کَرَّتِهِ حَتَّی نَکُونَ فِی زَمَانِهِ مِنْ أَعْوَانِهِ اللَّهُمَّ أَدْرِکْ بِنَا قِیامَهُ وَ أَشْهِدْنَا أَیامَهُ وَ صَلِّ عَلَیهِ [عَلَی مُحَمَّدٍ] وَ ارْدُدْ إِلَینَا سَلامَهُ وَ السَّلامُ عَلَیهِ [عَلَیهِمْ] وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ۔
مزید مطالعه کے لئے رجوع کریں:
۱ـ ترجمه تفسیر المیزان، ج ۳، آیت الله محمد باقر موسوی همدانی
۲ـ صحبای حج، آیت الله جوادی آملی
۳ـ مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی
منابع تحریر:
[۱]. زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس، بیروت: مکتبة الحیاة، (بی تا)، ج۲، ص۳۰۴
[۲]. طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، نشر ثقافة اسلامی، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۴
[۳]. نازعات / ۳۰
[۴]. ابن منظور، لسان العرب، نشر ادب الحوزه، ۱۴۰۵ق، ج۱۴، ص۲۵۱ و نهج البلاغه، خطبه ۷۲
[۵]. شیخ طوسی، مبسوط، تهران، حیدری، (بی تا)، ج۱، ص۲۸۲
[۶]. عاملی، سید محمد، مدارک الاحکام، قم، مهر، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۲۶۵
[۷]. آل عمران / ۹۶
شام کے صدر بشار اسد کی ایران کے نو منتخب صدرجناب رئیسی کو مبارکباد
کہ شام کے صدر بشار اسد نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نومنتخب صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی اور انھیں ایران کا آٹھواں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی۔
شام کے صدر بشار اسد نے کہا کہ میں ایران کے منتخب صدر کی کامیابی اور کامرانی کے لئے دعا کرتا ہوں اور دعا ہے کہ ایران ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہے۔
سانا کے مطابق دونوں ممالک کے صدور نے باہمی تعاون کو جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے علاقائي اور عالمی امور کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔
امریکی حمایت کی وجہ سے اسرائيل تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے/ مسئلہ فلسطین حق کا معیار
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے منعقد ہونے والی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی تسلط کی وجہ سے اسرائيل تمام وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں دشمن کے ساتھ عسکری مقابلے کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے مقابلے کو بھی اہم اور مؤثرقراردیا۔
سید حسن نصر اللہ نے امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ذرائع ابلاغ اور میڈيا کے کردار کو اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ دشمن کے خلاف عسکری محاذ کے علاوہ ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی بھر پور مقابلہ ہونا چاہیے۔ امریکہ کے تسلط کی وجہ سے اسرائیل تمام وسائل اور امکانات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ خطے میں اسرائیل کی منہ زوری اور فلسطینیوں پر ہونے والے جبر و تشدد کی اصل وجہ امریکہ کی حمایت ہے اگر امریکہ، اسرائيل کے ظالمانہ اور مجرمانہ اقدامات کی حمایت ترک کردے تو اسرائیل کا وجود خود بخود ختم ہوجائےگا۔
انھوں نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ناجائز اور غیر قانونی ہے عراق اور شام میں موجود امریکی فوجی غاصب اور دشمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم مسئلہ فلسطین کو حق کا معیار سمجھتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے ذرائع ابلاغ کو اپنا اساسی اور بنیادی کردارادا کرنا چاہیے۔
سید حسن نصر اللہ نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ، اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے اور اسے پس پشت ڈالنے کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تلاش و کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمت نے جو وعدہ کیا اسے عملی جامہ پہنایا ہے ہم نے قیدیوں کی آزادی کا وعدہ کیا جسے پورا کردیا۔ جب ہم اسرائیل کے زوال کی بات کرتے ہیں تو یہ بات حقائق پر مبنی ہوتی ہے اسرائیل کا زوال ایک ٹھوس حقیقت ہے ۔ ہم اپنے اہداف میں مبالغہ آرائی نہیں کرتے ہیں۔ سیف القدس کی جنگ نے بیت المقدس کی آزادی کو قریب کردیا ہے۔ ہم دشمن کے کمزور نقاط کو اچھی طرح جانتے ہوئے اس پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ لبنان اور علاقائی سطح پر جاری تمام بحرانوں میں امریکہ کا ہاتھ ہے ۔ امریکہ نے خطے کے امن و اماں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ امریکہ لبنان اورعلاقائي ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمت کے ذرائع ابلاغ کو خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چآہیے اور صداقت اور حقائق پر مبنی اخبار کو علاقائی اورعالمی سطح پر پہنچانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ذرائع ابلاغ کی جنگ اہم جنگ ہے اور عسکری محاذ کے ساتھ ہمیں ذرائع ابلاغ کے محاذ پر بھی گہری توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
مغربی اور سامراجی طاقتیں، مضبوط افغانستان سے کبھی خوش نہیں ہوں گی
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ حجۃ الاسلام مرتضی آقا تہرانی نے افغانستان کی پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ امیر گل شاہین کے ساتھ ملاقات میں کہا ہے کہ مغربی اور سامراجی طاقتیں، مضبوط افغانستان سے کبھی خوش نہیں ہوں گی ، انھوں نے ہمیشہ جنگ ، دہشت گردی اور اسلام ہراسی کے ذریعہ افغانستان کی غلط تصویر پیش کی ہے۔ آقا تہرانی نے ایران اور افغانستان کے مذہبی ، دینی اور لسانی مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور افغانستان دو برادر اور ہمسایہ ممالک ہیں جن کے دیرینہ ، دوستانہ ، تاریخی اور مذہبی تعلقات ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک اپنے تاریخی اور ثقافتی اشتراکات کی بنیادوں پر تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ افغانتسان کی ارضی سالمیت کی حمایت کی ہے اور افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کو امن و صلح کے خلاف قراردیا ہے۔
اس ملاقات میں امیر گل شاہین نے ایران اور افغانتسان کے گہرے اور دوستانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران افغانستان کا اہم برادر اور ہمسایہ ملک ہے اورایران نے افغان عوام کی جنگ کے دوران بھر پور مدد کی ،افغان عوام ایران کی امداد اور افغان شہریوں کو پناہ دینے کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
افغان پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے سربراہ نے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر زوردیا۔