سلیمانی

سلیمانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لبنان کے نہتے عوام کے قتل عام نے جہاں ایک بار پھر صیہونی پاگل کتے کی درندگی کو سبھی کے لیے عیاں کر دیا ہے، وہیں اس سے غاصب حکومت کے حکمرانوں کی کوتاہ فکری اور احمقانہ سیاست بھی ثابت ہو گئي۔ صیہونی حکومت کو چلانے والے دہشت گرد گینگ نے غزہ میں ایک سال سے جاری اپنی مجرمانہ جنگ سے سبق حاصل نہیں کیا اور وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام، مزاحمت کے مضبوط ڈھانچے پر نہ تو اثر ڈال سکتا ہے اور نہ ہی اسے شکست دے سکتا ہے۔ اب صیہونی وہی احمقانہ پالیسی لبنان میں آزما رہے ہیں۔ صیہونی مجرموں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اس سے کہیں حقیر ہیں کہ حزب اللہ لبنان کے مضبوط ڈھانچے کو کوئي اہم نقصان پہنچا سکیں۔ خطے کی سبھی مزاحمتی فورسز حزب اللہ کے ساتھ اور اس کی پشت پر ہیں۔ اس خطے کا مستقبل مزاحمتی فورسز اور ان میں سر فہرست سرافراز حزب اللہ رقم کرے گي۔ لبنان کے عوام بھولے نہیں ہیں کہ کبھی غاصب حکومت کے فوجی بیروت تک دندناتے پھرتے تھے، یہ حزب اللہ تھی جس نے ان کے پیروں کو کاٹ دیا اور لبنان کو عزیز اور سربلند بنا دیا۔ آج بھی لبنان، اللہ کی مدد و نصرت سے جارح، خبیث اور روسیاہ دشمن کو پشیمان کر دے گا۔ سبھی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے وسائل کے ساتھ لبنان کے عوام اور سربلند حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہوں اور غاصب، ظالم اور خبیث حکومت کا مقابلہ کرنے میں اس کی مدد کریں۔

والسلام علی عباد اللہ الصالحین

سید علی خامنہ ای

28 ستمبر 2024

 رہبر ویب سائٹ کے مطابق ہفتہ دفاع مقدس کے پانچویں دن، جہاد و مزاحمت کے میدان میں سرگرم سابق فوجیوں اور کارکنوں کے ایک گروپ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
 
اس ملاقات کے آغاز میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ نئے راستوں پر آگے نکلنا اور قدم بڑھانا قابل قدر عمل ہے۔
 
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری نوجوان نسل کو آٹھ سالہ جنگ کے اسباب معلوم ہونے چاہئیں۔
 
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی کہ ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرک صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھا۔
 
انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی سے بڑی طاقتوں کی دشمنی کی وجہ ایک منفرد عوامی انقلاب کا ظہور اور دنیا پر حکومت کرنے کے بارے میں ایک نئی سوچ تھی۔
 
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ باطل نظام کے مقابلے میں ایک نیا تفکر تھا جو دنیا کے ظالموں سے برداشت نہ ہو سکا۔
 
دفاع مقدس کیوں اور اس جنگ کی رپورٹ آج کے سامعین کے لیے دو اہم موضوعات ہیں.
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ہمارے لیے خوش آئند ہے کہ ہم سامعین کے سامنے دفاع مقدس کے عنوان سے بنیادی طور پر دو مسائل پیش کریں۔ ایک 8 سالہ جنگ کی وجہ اور محرکات ہیں۔
 
ہماری نوجوان نسل جس نے جنگ اور انقلاب کے دور کو نہیں پایا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ آٹھ سال تک جاری رہنے والی اس جنگ میں کیوں داخل ہوا؟ آٹھ سال کم وقت نہیں ہے۔ ملک کے تمام وسائل اور سہولیات ملک کے دفاع میں لگائی جاتی ہیں۔ اس جنگ میں داخل ہونے کی وجہ کیا تھی؟
 
 دوسرا موضوع جسے آج کے سامعین کے لیے پیش نظر رکھا جانا چاہیے وہ ایک قسم کی جنگی رپورٹ اور اس جنگ کی حقیقی داستان کو بیان کرنا ہے۔ اس کی موجودہ مخاطب موجودہ اور مستقبل کی نوجوان نسل، یعنی آپ کے بچے ہیں۔ ن مسائل کے بارے میں سب کو سوچنا اور مطالعہ کرنا چاہیے۔
 
مسلط کردہ جنگ کے محرکات؛ جنگ کے آغاز میں سپر پاورز کا کردار
رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں کہ جنگ کیوں مسلط کی گئی؟ یہ کیوں شروع کی گئی؟ انقلاب اسلامی کی سرحدوں پر حملہ کرنے کا محرک صرف صدام اور بعث پارٹی تک محدود نہیں تھا۔ اس وقت کے ورلڈ آرڈر کے رہنماؤں کے پاس اس جنگ کو شروع کرنے کے لیے صدام سے کہیں زیادہ محرکات تھے۔ اس دن دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا خاص ہدف تھا، وہ دو طاقتیں تھیں امریکہ اور سابق سوویت یونین، حکومتیں، سیاسی نظام، تقریباً سبھی اس معاملے میں متحرک تھے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران ان سب کے لئے کے لیے ناقابل برداشت عنصر تھا۔
 
 
 انہوں نے اشارہ کیا کہ لیکن اسلامی ایران ان کے لیے ناقابل برداشت کیوں تھا؟ ہم نے اس وقت تو کسی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا تھا! آج وہ ہمیں کہتے ہیں کہ تم نے فلاں کو راکٹ دیے، فلاں کو ڈرون دیئے۔ اس وقت دشمنی کی وجہ کیا تھی جب یہ بہانے نہیں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ دنیا کے اس حساس موڑ پر ایک انوکھا عوامی انقلاب برپا ہو گیا تھا اور اس نے دنیا پر حکومت کرنے کے لیے ایک نیا انداز فکر پیش کیا تھا۔ اس وقت دنیا پر اس باطل نظام کا غلبہ تھا البتہ یہ آج بھی موجود ہے لیکن اس وقت اس باطل اور تباہ کن نظام کے خلاف کوئی آواز اور کوئی واضح موقف نہیں تھا۔ دنیا پر استکباری تسلط حاکم تھا، تسلط پسند نظام کا کیا مطلب ہے؟ تسلط پسند نظام کا مطلب یہ ہے کہ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، کچھ ممالک تسلط پسند ہیں اور کچھ ممالک ان کے تسلط اور تابع ہیں، کوئی تیسری تقسیم نہیں تھی۔
 
اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام اس باطل نظام کے خلاف کھلی پکار تھی۔
 
 
انقلاب کے آغاز میں ہی سپر پاورز کے تسلط کی مخالفت ایران پر حملے کا محرک بن گئی
 
 
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ اس جھوٹے تسلط پسند نظام کے مقابلے میں ایک نیا نظام تھا۔ جسے دنیا کے ظالم حکمران اور سامراجی ممالک برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نظام، یہ سوچ دنیا میں ترقی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے درست سمجھا تھا کہ اسلامی انقلاب نے ترقی کی، اس فکر نے دنیا میں ترقی کی اور قوموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ آج کچھ لوگ اپنے اندر سے اسلامی جمہوریہ پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ دنیا کے لئے بری ہے اور دنیا سے ناراض ہے۔ یہ سوچ حقیقت کے برعکس ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کے ساتھ سیاسی ، اقتصادی رابطہ اور بات چیت نہیں ہے، تو یہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔
 
 انہوں نے مزید کہا کہ آج ہم ان مجموعوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جہاں دنیا کے نصف سے زیادہ لوگ ان مجموعوں میں رہتے ہیں، ان ممالک میں۔ ہم سفر کرتے ہیں، ہم بات چیت کرتے ہیں، ہم کاروبار کرتے ہیں۔ نہیں، یہ جو کچھ لوگوں کی طرف سے دیکھا جاتا ہے جو کہتے ہیں، "جناب، ہم سب سے بھڑ چکے ہیں"، ایسا ہرگز نہیں ہے، ہم سب سے ناراض نہیں ہیں، اگر یہی مراد ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نظام تسلط کے خلاف ہیں، تو ہاں، یہ درست ہے۔ انقلاب کے آغاز کی طرح آج بھی ہم تسلط پسندانہ نظام کے خلاف ہیں۔ ہم امریکی تسلط کے خلاف ہیں۔
 
لیکن امریکہ مغربی ممالک میں سرفہرست ہے۔ ہم ان کے اعمال کے نتائج دیکھتے ہیں، جو جنگیں ہوتی ہیں، جو مظالم ہوتے ہیں، جو امتیازی سلوک ہوتے ہیں، جو قومیں دباؤ میں ہیں، ہم ان کے خلاف ہیں۔ ہم کھل کر اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔
 
 
اس وقت ایران کی سرحدوں پر حملے کا محرک بن گیا۔ آج ایرانی قوم کی استقامت اور مختلف میدانوں میں طاقتور موجودگی کی بدولت اب وہ سرحدوں پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ دوسرے طریقے سے وہ فساد اور دشمنی میں مصروف ہیں۔
 
 
ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران اہم کارنامے انجام دینے والوں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
 
 
ملاقات کے دوران رہبر معظم نے کہا کہ دشمن کے پاس تمام مادی وسائل موجود ہیں۔ پیسہ، اسلحہ اور عالمی میڈیا دشمن کے قبضے میں ہے۔ دوسری طرف اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے پاس دشمن کی نسبت مادی وسائل کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔ کامیابی ح زب اللہ اور فلسطینی مق ا ومت کے قدم چومے گی۔
 
 
رہبر معظم نے کہا کہ ح زب اللہ اور م قا ومت کی کامیابی کی ایک دلیل دشمن کی طرف بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہے۔ اگر صہیونی حکومت غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں مقاومت کو شکست دیتی تو دشمن کو نہتے شہریوں کو شہید کرکے دنیا کے سامنے اپنا چہرہ مزید بگھاڑنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ رہائشی مکانات، اسکولوں اور ہستپالوں پر حملہ کرکے معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کو قتل کرنا شکست کا واضح ثبوت ہے۔
 
 
لبنان اور فلسطین کے آج کے واقعات ہمارے دفاع مقدس کی طرح جہاد فی سبیل اللہ ہیں
 
 
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ آج ہمارے دفاع مقدس جیسے واقعات لبنان اور فلسطین میں ہو رہے ہیں۔ لبنان اور فلسطین میں یہ واقعات مسلط کردہ جنگ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں اور یہ جہاد فی سبیل اللہ ہیں۔
 
 
انہوں نے تاکید کی کہ شریعت کا قطعی حکم یہ ہے کہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں اور اس کے اصل مالکان کے حوالے کرنے کی کوشش اور مدد کرنا ہر ایک پر واجب ہے۔ یہاں ایک الہی تحریک چل رہی ہے۔ فلسطین اور غزہ کے لوگ صحیح معنوں میں جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔ لبنان کی ح زب اللہ غزہ کی خاطر لڑ رہی ہے اور ان تلخ سانحات سے دوچار ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کر رہی ہے۔
 
 
موجودہ امریکی حکومت آئندہ انتخابات کے لئے یہ باور کرنے کے درپے ہے کہ اس نے صیہونی حکومت کو جنگ جیتنے میں مدد دی ہے۔
 
 
 رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: آج لبنان اور فلسطین کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں کافر اور شریر دشمن کے پاس سب سے زیادہ جنگی ساز و سامان موجود ہے۔ اس کے پیچھے امریکہ ہے، امریکی کہتے ہیں کہ ہم ملوث نہیں، ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں، جب کہ اس کے برعکس وہ جھوٹ بول رہے ہیں! وہ جانتے ہیں، وہ ملوث ہیں، لیکن انہیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت ہے۔
 
 
موجودہ امریکی حکومت کو آنے والے انتخابات میں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے صیہونی حکومت کی حمایت کی ہے اور وہ جنگ جیتی ہے، البتہ اسے امریکی مسلمانوں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہے، اس لیے وہ بہانہ کرتی ہے کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہیں۔
 
 
 فلسطینی مزاحمت اور ح زب اللہ فاتح ہیں
 
 
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: دشمن پیسہ، ہتھیار، سہولیات اور عالمی پروپیگنڈے کے تمام وسائل رکھتا ہے لیکن اس جنگ کے فاتح مومنین اور مجاہدین ہیں۔ جب کہ وہ دشمن کے جنگی امکانات کے مقابلے میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں رکھتے۔ تاہم فلسطینی مزاحمت اور حزب اللہ فتح یاب ہے۔ آج تک یہ فتح ح زب اللہ اور مزاحمتی قوتوں کی رہی ہے۔
 
 انہوں نے کہا کہ اگر غاصب صیہونی حکومت غزہ، مغربی کنارے یا لبنان میں مزاحمتی قوتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی تو اسے اپنا وحشی اور کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ گھر، اسکول، ہسپتال، بچے اور خواتین کے خلاف جرائم کا وحشیانہ ارتکاب کیا۔
 
 
حز ب اللہ کے مؤثر اور قیمتی عناصر کا کھو جانا بلاشبہ ایک نقصان تھا لیکن ح زب اللہ کی تنظیمی اور انسانی قوت اس سے کہیں زیادہ مستحکم ہے اور حتمی فتح انہی کی ہے۔
 
رہبر معظم انقلاب نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ چونکہ صیہونی حکومت مزاحمتی قوت پر فتح حاصل نہیں کرسکی، اس لیے مجبوراً وہ خواتین، بچوں، نہتے لوگوں اور سڑکوں، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کرکے اپنی جیت کا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ وہ اب تک ناکام رہی ہے۔ جی ہاں، انہوں نے مارا. حز ب اللہ کے کچھ موثر اور قابل قدر افراد شہید ہو گئے، یہ حزب اللہ کے لیے یقیناً ایک نقصان تھا۔ البتہ ح زب اللہ کو تباہ نہیں کرسکتے کیونکہ ح زب اللہ کی تنظیمی اور انسانی قوت اس سے کہیں زیادہ مستحکم ہے کہ ان شہادتوں سے متاثر ہو۔ بلاشبہ اس جنگ میں آخری فتح مزاحمتی محاذ اور ح زب اللہ کی ہوگی۔
 
 
 ملک کے اندر دشمن کے ثقافتی اثر و رسوخ اور طرز زندگی کو نہ اپنایا جائے
 
 
 آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ میری آج کی گفتگو کا آخری نکتہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ ہمارے سورماؤں نے، ہمارے مجاہدین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ہماری سرحدوں پر دشمن کا پرچم بلند نہ ہو۔ جوانوں اور مجاہدوں نے اپنے خاندانوں کو سوگوار چھوڑا تاکہ اس ملک کی سرحدوں پر دشمن کا پرچم بلند نہ ہو۔ لہذا ایرانی عوام اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ ملک کے اندر وہی (دشمن کا) پرچم کچھ ایجنٹوں اور فریب خوردہ لوگوں کے ذریعے بلند کیا جائے۔
 
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پرچم، دشمن کے ثقافتی اثر و رسوخ اور طرز زندگی اور دشمنوں کے معاندانہ فتنوں کا پرچم، ہمارے مختلف اداروں میں ملک کے اندر بلند نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے، سب کا فرض ہے۔ وزارت تعلیم و صحت میں جو نوجوانوں کی تعلیم کی جگہیں ہیں، اس حوالے سے خصوصی طور پر خیال رکھا جائے، اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن، پریس میں خیال رکھا جائے، کیونکہ سرحدوں میں ہمارے سپہ سالاروں کے ہاتھوں دشمن کو شکست ہوئی ہے لہذا اس شکست خوردہ دشمن کو ملک کے اندر فتنے کھڑے کرنے اور مخرب سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
 
 
 ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام عہدیداروں، مرد و خواتین، مختلف محکموں کے تمام کارکنان کو دشمن کی سازشوں سے پوری طرح آگاہ اور محفوظ رکھے گا۔/

 
 

اسلامک ایکشن فرنٹ کے سربراہ اور لبنانی مسلم سکالرز گیدرنگ کے وائس چیئرمین شیخ زہیر جیڈ نے ایکنا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی کاز کی حمایت کے لیے مسلمانوں کے درمیان مشترکات کو مضبوط بنانے کے لئے تمام اختلافات اور ان چیلنجوں پر قابو پانا جن کا آج امت کو سامنا ہے ضروری ہے۔  خاص طور پر فلسطین اور لبنان کے حالیہ واقعات اور مظلوم فلسطینی قوم کی سربراہی میں اس اسلامی قوم کے خلاف دنیا کے عظیم ممالک اور جنگلی مغرب کی طرف سے کی جانے والی جارحیت کے مقابل۔
 
شیخ زہیر جید نے زور دے کر کہا: ہمیں تمام اختلافات کو ایک طرف رکھنا چاہیے کیونکہ یہ فطری اختلافات جو 1400 سال پہلے سے موجود ہیں اسلام کی حقیقت میں کچھ بھی نہیں بدلتے، اور سنی اپنی سنی حیثیت اور شیعہ اپنی شیعہ حیثیت پر قائم ہیں۔ لیکن ہم اس حقیقت کو بدل سکتے ہیں جو استعمار نے ہم پر مسلط کی ہے، اور وہ بغاوت ہے۔
 
لبنانی مسلم علماء کے اجتماع کے وائس چیئرمین نے مزید کہا: ہم اسلامی امت میں موجودہ بغاوت کو ختم کر سکتے ہیں اور اپنی مشترکات پر بھروسہ کر کے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔. کیونکہ ہم سب نماز پڑھتے ہیں، ہم ہر روز روزہ رکھتے ہیں، ہماری مقدس کتاب قرآن ہے، ہمارے پاس ایک خدا اور ایک کعبہ ہے. اس مکمل منظر میں جو ہم نے اتحاد کانفرنس میں دیکھا، ہم نے دیکھا کہ شیعہ اور سنی بغیر تقسیم کے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ہم نے محسوس نہیں کیا کہ ہمارے درمیان کوئی فرق ہے۔ ہماری قوم کو اس طرح جینا چاہیے اور فلسطین کی مدد کے لیے یہی حقیقی اتحاد ہے۔

اسلامی امت کے اتحاد کی راہ میں حائل موجودہ رکاوٹوں سے نمٹنے کے لیے عملی حل کے بارے میں انھوں نے کہا: عملی نقطہ نظر سے ہمیں اس کے مطابق کام کرنا چاہیے جو اسلامی جمہوریہ ایران نے اب سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں۔  اختلافات کو ختم کرنے اور ہمارے درمیان تعاون قائم کرنے کے لیے ایک کراسنگ پل ہونا چاہیے۔

اسلامی دنیا کے مسائل سے نمٹنے میں پیغمبر اسلام (ص) کی سیاسی زندگی کے بارے میں، انہوں نے کہا: پیغمبر اسلام (ص) کی زندگی میں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے جو کہتا ہے «لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ، لیکن باطنی طور پر وہ کافر ہیں۔ اور یہاں تک کہ ان کے سامنے کھانا بھی ڈال دیتا ہے۔ یعنی وہ منافقوں کو قتل نہیں کرتا اور انہیں معاشرے سے خارج نہیں کرتا کیونکہ لفظ « لا الہ الا اللہ» انہیں محفوظ رکھتا ہے۔. اس لیے پیغمبر (ص) مسلمانوں کے اتحاد کی سب سے بڑی مثال ہیں۔/
 

 

 
Saturday, 28 September 2024 03:11

اِرادوں كی جنگ

كافی عرصہ سے جنگی میدانوں كی ماہیت تبدیل ہوچكی ہے، قدیم زمانے میں جنگ كی جیت كسی بھی ملک یا زمین پر قبضہ كرنے سے ہوتی تھی، لیكن اب جنگ میں جیت كا پہلا قدم فہم، عقل، فكر و سوچ اور دلوں كو تبدیل كرنا ہے۔ اس كی بہترین مثال امریكہ كا 2003ء میں عراق پر حملہ كرنا ہے، جس میں امریكہ عراق كی سرزمین پر قبضہ كرنے سے پہلے تقریباً ایک سال تک میڈیا كے ذریعے سے عراق پر حملہ آور ہوا، ارادے سُست كیے اور اس كے بعد چند دنوں میں عراق كو اپنے قبضے میں لے لیا اور اُس پر حاكم ہوگیا۔ اس طرح كی فراوان مثالیں آپ كو تاریخ میں ملیں گی۔ ارادوں  كی جنگ كا محكم ارتباط  شناختی جنگ كے ساتھ ہے، شناختی جنگ سے مراد  ایسی جنگ ہے کہ جس جنگ میں میدان ِجنگ معاشره كے پڑھے لكھے لوگ اور عام انسانوں كی سوچ و فكر ہے، اس معنی میں كہ عوام اور پڑھے لكھے طبقہ كی فكری صلاحیت كو تبدیل كیا جاتا ہے۔

پہلے ان كے اعتقادات پر حملہ كیا جاتا ہے اور پھر ان كے رہن سہن كو تبدیل كیا جاتا ہے۔ یہ جنگ، نفسیاتی جنگ سے كئی گنا پچیده و خطرناک ہے، اس جنگ كا بنیادی نتیجہ مضاعف انسانی ہے، یعنی فیزیكلی جنگ میں جب ایک سپاہی مارا جاتا ہے تو فقط ایک نفر كم ہوتا ہے، جبکہ شناختی جنگ میں جب ایک انسان اپنے عقائد میں مردد ہوتا ہے تو ایک نفر كم ہونے كے ساتھ ساتھ دشمن كی صف میں ایک بندے کا اضافہ بھی ہوتا ہے، اس صورت میں كسی بھی دین و ملک كا اصلی سرمایہ (عوام)  مورد حملہ واقع ہوتا ہے اور اپنے ملک و اعتقادات كے متعلق بدبین ہو جاتا ہے، اگر یہ جنگ طول پكڑ لے تو عوامی طبقہ كے اندر ایک شگاف پیدا ہو جاتا ہے، جو بلآخر بحران كی شكل اختیار كرلیتا ہے۔

اس میں كوئی شک نہیں ہے کہ ارادوں كی جنگ میں اصلی ترین ہتھیار میڈیا ہے اور میڈیا كی مدد سے مخاطب كے ذہن كو اس طرح سے واش كیا جاتا ہے کہ مخاطب اس واقعہ یا حادثہ كو اس نگاه سے دیكھتا ہے، جس نگاہ سے میڈیا عوام كو دكھانا چاہتا ہے۔ اگر میڈیا كی ذمہ داری ارادے سست كرنا ہو تو سست كرتا ہے اور اگر ارادہ مضبوط كرنا ہو تو مضبوط كرتا ہے، البتہ یہ ہمارے ذہن میں رہے كہ میڈیا خود جنگ نہیں بلكہ ایک جنگی ہتھیار ہے۔ اصلی جنگ، ارادں كی جنگ ہے اور میڈیا كو اپنے دشمن كے ارادے كمزور كرنے كے لیے آلہ كے طور پر استعمال كیا جاتا ہے۔ مقام معظم رہبری نے اپنے خطبات كے اندر كئی بار اس امر پر تاكید كی ہے کہ آج اُمت اسلامی ہوشیار رہے، كیونكہ آج اس كے ساتھ ارادے كی جنگ لڑی جا رہی ہے اور اُمت اسلامی كے حوصلے پست كرنے كے لیے اُن كے ارادے كمزور كئے جاتے ہیں۔

آج ہمارے لیے یہ بات روشن ہے، كیونکہ اگر ہم 57 اسلامی ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں دو قسم كے ممالک نظر آئیں گے۔ ایک وه ممالک جن كے پاس ہر چیز ہونے كے باوجود ذلیل ہیں اور كچھ ایسے ممالک ہیں، جو تمام تر سختیوں اور مشكلات كے باوجود اور وسائل كم ہونے كے باوجود دنیا میں عزت مندانہ زندگی گزار رہے ہیں، مثلاً تمام عربی ممالک، تركی، پاكستان وغیره كو اگر دیكھیں تو سب كچھ ہونے كے باوجود امریکہ اور اسرائیل كے غلام ہیں اور ان كی اجازت كے بغیر اپنے ہی ملک كے اندر  كوئی كام نہیں كرسكتے بلكہ چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ كے لیے شیطان اكبر امریكہ سے اجازت لینی ہوتی ہے، كیوں ان ممالک كے ساتھ ایسا ہوا ہے۔؟ اس وجہ سے كہ سب سے پہلے ان كو شناختی جنگ كے اندر شكست دی گئی اور ان كے اعتقادات كو ترقی كے نام پر كمزور كیا گیا، ان كو اپنا ہمفكر بنایا گیا۔

اگر ساده الفاظ میں كہا جائے تو ان كی سوچ كو غلام بنایا گیا اور ان پر ارادے كی جنگ مسلط كی گی اور ان كے ارادے سست كئے گئے اور یہ باور کرایا گیا كہ آپ كچھ نہیں كرسكتے، اگر ہم آپ كا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ لوگ بھوک سے مر جائیں گے، آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے، ان كی سوچ پہلے سے غلام تھی اور ساتھ میں ارادے بھی سست پڑ گئے اور دشمن نے بغیر حملہ کئے ان ممالک كو تسخیر كر لیا اور آج یہ ممالک جلتے ہوئے فلسطین كو دیكھ رہے ہیں، لیكن ان كے گلے خشک ہیں اور یہ اس قابل بھی نہیں ہیں كہ ایک بیان تک دے دیں۔

دوسری طرف اسلامی ممالک میں چند انگشت شمار ملک ایسے بھی ہیں، جن كے اوپر دشمن كی شناختی جنگ نے كوئی اثر نہیں كیا اور ان كی سوچ كو غلام نہیں بنا سكے اور اسی طرح دشمن كی ارادوں كی جنگ نے بھی كسی قسم كا اثر نہیں كیا اور ان كے ارادے كمزور نہیں كرسكے، جن میں سرفہرست  ایران اسلامی ہے، جس كو انقلاب اسلامی سے لیكر آج دن تک مختلف جنگوں میں مشغول ركھا گیا، جب اس حربہ نے اثر نہیں كیا تو پھر سخت ترین پابندیاں لگائی گئیں، اس كے سائنسدانوں كو ٹارگٹ كیا گیا، اس كے دانشمندوں كو ٹارگٹ كیا گیا، اس كے سیاستدان شہید كئے گے، لیكن اس قوم نے ذلت قبول نہیں كی، كیونكہ اس كے ارادے پختہ تھے، اس كے ارادے كمزور و سست نہیں پڑے۔

اسی طرح فلسطین كو دیكھیں، یمن كو دیكھیں، لبنان كو دیكھیں، سوریا و عراق كو دیكھیں، یہ وہ ممالک ہیں، جن كے پاس كچھ بھی نہیں تھا اور دشمن ان كو اپنا غلام بنانا چاہتا تھا، لیكن انہوں نے غلامی كی زنجیریں توڑ  ڈالیں، انہوں نے سختیاں قبول كیں، لیكن غلامی قبول نہیں كی۔ یمنیوں نے سعودیہ كے ساتھ سات سال جنگ لڑی، اس وقت پوری دنیا سعودیہ كے ساتھ تھی اور یمنی مجاہد تک و تنہاء تھے، ان مجاہدوں كے پاس پہننے كے لیے جوتے بھی نہیں تھے، لیكن اپنے دشمن كو ناكوں چنے چبوائے اور آخركار ذلت آمیز شكست دی۔ اس حوصلے و جذبے كے پیچھے راز یہ ہے كہ انہوں نے شناختی جنگ میں اور ارادوں كی جنگ میں پورے 100 نمبر لیے، اپنے ارادے سست نہیں ہونے دیئے، اپنے ارادے كمزور نہیں ہونے دیئے اور آج پوری دنیا میں سربلند ہیں اور رہیں گے۔ ان شاء الله۔ علامہ اقبال ؒ كے بقول
ارادے جن كے پختہ ہوں نظر جن كی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں كرتے
لہذا آج وہ قوم و ملت كامیاب ہوگی، جو ارادوں كی جنگ میں كمزور نہیں پڑے گی اور اپنے ارادے سست نہیں ہونے دے گی، جس قوم كے ارادے سست و كمزور پڑ گئے، غلامی اس كا مقدر بن جائے گی۔

تحریر: تابعدار حسین ہانی

ایران عراق جنگ تقریباً آٹھ برس تک جاری رہی اور اس جنگ کے آخر میں امام خمینی رح نے اپنے پیغام میں ایک تاریخی جملہ لکھا جو یہ تھا: ہماری جنگ فلسطین کی آزادی پر منتج ہو گی۔ آج ہم خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی جن سرگرمیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں ان کا نقطہ آغاز وہی دفاع مقدس کا فخر آمیز زمانہ ہے۔ خطے میں جاری موجودہ جنگ مقبوضہ فلسطین کے شمال اور جنوب تک پھیل چکی ہے یعنی جنگ کا میدان بیروت سے لے کر حیفا تک وسیع علاقوں پر مشتمل ہے۔ لبنان پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کی اصل وجہ صیہونی حکمرانوں کی یہ سوچ ہے کہ غزہ میں فتح کیلئے شمالی محاذ پر فتح ضروری ہے۔ لہذا وہ شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان کو شکست دے کر غزہ کے محاذ پر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں۔
 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صیہونی رژیم لبنان پر زمینی حملہ کرے گی یا نہیں؟ کسی بھی جنگ کے بارے میں یقینی طور پر پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی چونکہ جنگ مختلف اقدامات، تصورات، فیصلوں، نتائج، غیر متوقع امور اور رونما ہونے والے حادثات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہذا جنگ کے بارے میں یقینی طور پر بات نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ صیہونی حکمرانوں نے خود کو ایک حد تک لبنان پر زمینی حملے کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ اگر ہم غاصب صیہونی رژیم کی فوجی سرگرمیوں کا جائزہ لیں اور اسرائیل کے اندر سے ملنے والی معلومات کا جائزہ لیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا صیہونی حکمران زمینی حملے کا تجربہ کرنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ لہذا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں صیہونیوں کو خبردار کیا ہے۔
 
سید حسن نصراللہ نے لبنان پر صیہونی رژیم کے ممکنہ زمینی حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ لبنان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم بھی ان کے منتظر ہیں اور انہیں خوش آمدید کہیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ یہاں کیا صورتحال ہے۔ پس لبنان پر صیہونی رژیم کے زمینی حملے کا امکان پایا جاتا ہے اور اس کی سطح بھی مختلف ہو سکتی ہے کیونکہ اس وقت اسرائیل شدید بحرانی حالات کا شکار ہے لہذا اس کی سرگرمیوں کے بارے میں درست اندازہ لگانا مشکل ہے اور ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ اس کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ صیہونی کہتے ہیں کہ ہم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ صیہونی حکمران یہ رسک لیں گے لیکن لبنان پر زمینی حملہ ان کیلئے انتہائی خوفناک نتائج کا باعث بنے گا کیونکہ حزب اللہ لبنان اس کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
 
گذشتہ چند دن سے صیہونی رژیم کو کئی شعبوں میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی پہلی شکست انٹیلی جنس کے شعبے میں ہوئی کیونکہ صیہونی حکمرانوں نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے لبنان میں ایسے 400 مقامات کی شناخت کی ہے جہاں حزب اللہ لبنان نے میزائل چھپا رکھے ہیں اور ان تمام مقامات پر فضائی حملے کر کے یہ میزائل تباہ کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے فوراً بعد حزب اللہ لبنان نے اسرائیل پر 400 راکٹ اور میزائل داغ دیے۔ لہذا اگر صیہونی حکمرانوں کا دعوی درست تھا تو یہ راکٹ اور میزائل کہاں سے آئے؟ صیہونی رژیم کی دوسری شکست فوجی میدان میں ہوئی جب اس نے لبنان کے شہری علاقوں پر شدید فضائی بمباری کی اور 2500 کے قریب عام شہریوں کو شہید اور زخمی کر دیا۔ اس کے جواب میں حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ فلسطین کے اندر 70 کلومیٹر تک صیہونی رژیم کے تمام فوجی اور انٹیلی جنس مراکز کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔
 
غاصب صیہونی رژیم کو تیسری شکست اخلاقی میدان میں ہوئی ہے۔ حزب اللہ لبنان نے اب تک جتنے حملے کئے ہیں ان میں صرف فوجی مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے جسے دنیا والے فوجی طاقت کا مظہر قرار دیتے ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم نے وسیع پیمانے پر شہری مقامات کو نشانہ بنایا ہے جو فوجی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ یوں حزب اللہ لبنان اخلاق کے میدان میں بھی فتح یاب ہوئی ہے اور غاصب صیہونی رژیم کو بڑی اخلاقی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صیہونی حکمران کہتے ہیں کہ جب تک حزب اللہ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا غزہ کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ان کی یہ بات صحیح ہے لیکن سید حسن نصراللہ نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوتی حزب اللہ لبنان اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے جاری رکھے گی۔
 
حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت غزہ میں حماس کی فوجی طاقت سے کہیں زیادہ ہے لہذا اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ شروع کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے جو اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ صیہونی حکمرانوں نے غزہ جنگ میں شکست کھا کر بوکھلاہٹ میں حزب اللہ لبنان کے خلاف نیا محاذ کھول دیا ہے لیکن وہ 2006ء میں 33 روزہ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان سے اپنی ذلت آمیز شکست کو بھول چکے تھے۔ آج صیہونی حکمران یہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان 2006ء کی نسبت 20 گنا زیادہ طاقتور ہو چکی ہے لہذا اگر وہ لبنان پر زمینی حملے کی غلطی کرتے ہیں تو درحقیقت یہ ان کی خودکشی ثابت ہو گی۔ غاصب صیہونی رژیم نے خود کو ایک گہری کھائی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اگلا قدم اس کی مکمل نابودی اور خاتمے پر منتج ہو گا۔

تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

 

 

 

 

 

 

 

یہ ایک عظیم درسگاہ اور مسجد، جو تعمیر کے لحاظ سے بہت حیراکن، اور دیکھنے میں بہت ہی دلکش، اور دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک ہے۔اسے برصغیر میں مسلمانوں کی تعمیرکردہ عمارتوں میں سب زیادہ متاثر کن بلکہ تمام عالم میں موجود عمارتوں میں سے سب سے زیادہ حیران کن اور تعجب خیز عمارت شمار کی جاتی ہے، یہ ہندوستان کے شمال میں آگرہ کے مقام پر دریائے جمنا کے ساحل پر واقع ہے۔ اسے یونیسکو نے سنہ ۱۹۸۳ عیسوی میں ورلڈ ہیریٹیج قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایک ایسی عمارت ہے کہ جسے مغلیہ، ہندی، اور فارس کے اسلامی طرز وفن تعمیر کا ایک حسین امتزاج اور شاہکار شمار کیا جاتا ہے۔ اس عمارت کو مغلیہ مسلمان بادشاہ شاہجہان نے سنہ ۱۶۳۲ عیسوی میں اپنی اہلیہ ممتاز محل (جسے بادشاہ بے حد محبت کرتا تھا) کی یاد میں تعمیر کروایا۔

پروجیکٹ کی تفصیل

 یہ پروجیکٹ اپنی ڈیزایننگ، کنسٹریکشن، اور تعمیراتی میٹریلز کے اعتبار سے بے مثال ہے، اس کی ڈیزائینگ ایک ایرانی انجینئر عیسیٰ شیرازی نے، جبکہ بعض مؤرخین کے مطابق پروفیسر احمد لاہوری نے کی۔ اور اس پر کام کا آغاز سنہ ۱۶۳۲ عیسوی میں ہوا، اور یہ سنہ ۱۶۵۳ عیسوی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس پروجیکٹ پر مغل بادشاہ نے اس وقت کی ۳۲ ملین رقم خرچ کی، جو آج کے حساب سے ۱۵۰ ارب سے زیادہ رقم بنتی ہے۔ اس کام کی تکمیل میں ۲۰۰۰۰ ہزار سے زیادہ مزدوروں اور معماروں نے کام کیا۔ اور اس پروجیکٹ کی تکمیل میں ۲۰ سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ اتنی خطیر رقم کے صرف کرنے اور ہزراوں مزدوروں اور معماروں کی آمد کی وجہ سے آگرہ میں بہت بڑی اقتصادی ترقی ہوئی تھی اور لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا تھا۔

بادشاہ شاہجاہان نے دنیا بھر کے مشہور، ماہر، تجربہ کار، عظیم معماروں، انجینئروں، کاریگروں، ارکیٹیکٹس، اور مصوروں کو اس کام لیے اکھٹا کیا۔ اور ان کام کرنے والوں کے لیے پرکشش تنخواہیں، اور مختلف پیکیجز مقرر کئے، اور اس منصوبہ کی تکمیل تک خود ہی نگرانی کرتا رہا۔

انہوں نے اس عمارت کی پختگی، خوبصورتی اور دلکشی کی خاطر دور دراز کے شہروں سےنہایت عمدہ اور بہترین عمارتی مٹیریلز اور تعمیراتی سازوسامان منگوایا، جیسے راجستھان سے سفید سنگ مرمر، اور alabaster منگوایا، جو آگرہ سے ۵۶۳ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔

اس سفید سنگ مرمر اور دیگر سامان کو ہزاروں ہاتھیوں اور بیلوں کے ذریعے لایا گیا۔ اس کی نقش ونگاری ، تزیین، سجاوٹ، اور آرائش میں سونے، چاندی سمیت چالیس دیگر قیمتی دھاتیں استعمال کی گئیں جیسے جواہرات، سرخ عقیق، جسے بغداد سے منگوایا گیا، فیروزہ تبت سے منگوایا گیا، کرسٹل ترکستان سے منگوایا گیا، اسی طرح دیگر قیمتی اور نایاب پتھر جیسے لؤلؤ ومرجان، زمرد، اور ہیرے تھے کہ جنہیں  دنیا کے مختلف حصوں سے منگوا کر استعمال کیا گیا۔ اس طرح باہر کےممالک سے منگوائی گئی قیمتی دھاتوں، لعل وجواہر اور دیگر قیمتی اور نایاب پتھروں کی قیمت کی مد میں آج کل کے حساب سے ۸۲۷ میلیین ڈالرز خرچ کئے گئے۔ 

تعمیر کی تفصیل

یہ بڑی عمارت جو دور سے دیکھنے والوں کو دو منزلوں پر مشتمل دکھائی دیتی ہے،اس کی عمارت (3025) ۲ میٹر یعنی (m55 x55 میٹر)  ایریا پر ایک Octagonal Shapeمیں بنائی گئی ہے ۔

اس کا ایک مرکزی گیٹ ہے اور تین دیگر اہم داخلی دروازے ہیں اوراس کے اوپر ایک خوبصورت اونچامینار ہے ، جس کی نہایت ہی عمدہ اور شاندار طریقے سے ڈیزائننگ کی ہوئی ہے ، جس کی اونچائی ۳۵ میٹر ہے ، جسے سنگ مرمر کے ستونوں پر قائم کیا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک کی اونچائی ۷ میٹر ہے، جسے قبہ بصلیہ کہا جاتا ہے چونکہ یہ پیاز کی شکل میں تعمیر کی گئی ہے۔  اس کے علاوہ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار بھی ہے جو ایک دوسرے سے حددرجہ مشابہ ہے۔

انیسویں صدی کے اوائل میں سونے کو  کانسی میں ڈھالا اور اس میں ہلال کی شکل بنائی گئی ہے جو ایک گلدان میں نہایت خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا ، جس پر عربی زبان کے لفظ جلالہ (خدا) کو نہایت خوبصورت انداز میں کندہ کیا  گیا تھا جو درحقیقت اس جگہ کی اسلامی شناخت کو ظاہر کرتا ہے۔

 اس مقبرہ کے اندر شہنشاہ شاہ جہاں اور اس کی اہلیہ ممتاز محل کی قبریں موجود ہیں، جنہیں سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی اور نایاب پتھروں سے مزین کیا گیا ہے۔ ان قبروں پر ان مٹ الفاظ سے یہ تحریر ہے کہ یہ بڑی قبر بادشاہ شاہجہان کی ہے اور چھوٹی قبر اس کی بیگم ممتاز محل ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی مسجد بھی موجود ہے جو نماز پڑھنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس عمارت میں چار مینار بھی موجود ہیں جنہیں مأذن کہا جاتا ہے چونکہ یہاں سے پرانے زمانوں میں آذان دی جاتی تھی۔ ہر مینار کی اونچائی ۳۷ میٹر ہے، جن میں میں سے تین میناروں کا جھکاؤ عمارت کے مخالف سمت کی طرف ہے تاکہ کسی تباہ کن زلزلے کی صورت میں عمارت پر گرنے سے بچا جاسکے، اور چوتھا مینارمستقیم کھڑا ہے کیوں کہ یہ عمارت سے نسبتا دور ہے، ان میناروں کو اسلامی مآذن کے طرز تعمیر کے انداز میں بنایا گیا ہے، جہاں سے نماز کے لیے اذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، اور یہاں پر کوئی نقاشی اور سجاوٹ نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے۔

عمارت مکمل طور پر نایاب سفید سنگ مرمر سے ڈھکی ہوئی ہے، جس پر قرآنی آیات کو سیاہ رنگ میں لکھا گیا ہے۔ عمارت کی دیواروں کی بات کی جائے تو انہیں مکمل طور جواہرات اور قیمتی پتھروں سے مرصع کیا گیا ہے، جیسے عقیق ، فیروزہ اور زہور عباد الشمس۔ سب سے زیادہ دلکش اور حسین منظر اس وقت پیش آتا ہے کہ جب عمارت میں لگے ہوئے سفید بلور اور کرسٹل کے پتھر رات کی گھٹا توپ تاریکی میں چمکتی ہوئی چاندنی کا منظر پیش کرتا ہے، جسے دیکھ کر نظارہ کرنے کے والوں کو اس عظیم عمارت کی خوبصورتی اور دلکشی کا احساس ہوتا ہے۔

باغات میں گھرا ہوا محل

تاج محل کی مسجد بہت خوبصورت اور بڑے باغات میں گھری ہوئی ہے، ان باغات کو فارسی باغات کے طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے، ان باغات کی اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں موجود حوض اور پانی کے تالابوں کو  ماربل اور سنگ مرمر سے بہت بہت ہی خوبصورت انداز میں مزین کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں مزید چار چاند لگ گئے ہیں۔ خوبصورت حوض اور تالابوں میں موجود صاف اور شفاف پانی میں جب اس عظیم عمارت کی عکس اور جھلکیاں نظر آتی ہیں تو دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں سیاحوں حیرت قابل دید ہوتی ہے۔

یہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ شاہجہان نے اس محل کے معماروں، انجینیروں، اور کاریگروں کو جو اس منصوبے کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے اس بات کا پابند کیا تھا، کہ وہ اس جیسا محل کہیں اور تعمیر نہیں کریں گے، تاکہ یہ عمارت دنیا میں منفرد رہے اور اس کی خوبصورتی اور دیدنی باقی رہے۔

تاج محل کی سیاحتی اہمیت

تاج محل کی مسجد اور مقبرہ کو ایک اہم اسلامی سیاحتی مراکز میں سے شمار کیا جاتا ہے، جسے برصغیر میں مسلمانوں کی شان وشوکت اور فن تعمیر میں اعلیٰ ذوق  کا ایک اعلیٰ  مظہر مانا جاتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکو نے  اسے عالمی ورثہ قرار دیدیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک قراردیدیا۔ اور دنیا بھر سے ۱۰۰ ملیون لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ آج بھی ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگ انڈیا آتے ہیں تاکہ اس عظیم اور شاندار عمارت کی ناقابل فراموش اور ناقابل بیان خوبصورتی اور طرز تعمیر کو دیکھیں اور لطف اندوز ہوسکیں۔ فقط سنہ ۲۰۱۵ ء میں اسے دیکھنے کے لیے ۱۱ ملیون ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے اس کا رخ کیا، بلا شبہ اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا آنا اس کی سیاحتی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہونے پر دلالت کرتا ہے، اور اقتصادی اعتبار سے ہندوستانی حکومت کو بھی بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ بعض اعداد وشمار کے مطابق اس سیاحتی مقام سے حکومت ہند کو چار سالوں میں ۷۵۰ ملیون ڈالر کی آمدنی ہوئی۔

((آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ))(سورة الحديد ـ 7)

ترجمہ : تم اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔

قرآن کریم کی تعلیمات میں انفاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور کیوں نہ ہو؟ اس لئے کہ انفاق تو اجتماعی کفالت کا ضامن ہے اور ایک معاشرے کے امن و سکون کا معیار و  قانون ہے ۔ اس کے علاوہ یہ اجتماعی عدل و انصاف کے قیام کا نقطہ آغاز بھی ہے ۔ قرآن کریم نے ایک انسان کے اندر انفاق کی عادت پیدا کرنے کی غرض سے وہ تاکید کی ہے جس میں کسی کو شک کی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی ۔ قرآن کریم نے مال کو خدا کا مال اور لوگوں کو اس مال میں اللہ کے عیال قرار دیا ہے ۔ لہذا یہ لوگ اس مال سے عام فائدہ حاصل کرنے کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ اس مال کا کسی کے پاس ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کا مالک مطلق ہو ۔ اور اس کا جمع کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں آدمی اس مال میں خدا کا خلیفہ ہے اور اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اس طرح سے خرچ کرے جس میں اس کا مالک حقیقی راضی ہو ۔ کیونکہ آدمی تو اس مال میں صرف امانت دار کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا اسلام میں مال کے لحاظ سے یہ عظیم نظریہ ابھرتا ہے اور یہ کہ یہ مال انسان کی انفرادی اور اجتماعی عزت والی زندگی گزارنے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ لوگ جو جی چاہے اپنی مرضی کریں اور اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کے لئے مال کو جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ اگرچہ کہ اولی یہ ہے کہ یہ مال اس کی سعادت و بہبود میں استعمال ہو جس کو اس محنت کر کے کمایا اور جمع کیا ہے۔ وہی شخص اپنے مال کے تصرف میں حق رکھتا ہے اور شارع مقدس نے بھی اس کے مذکورہ حق کو بیان فرمایا ہے ۔ البتہ اسی نے یہ حق بھی رکھا کہ اس مال سے ہی فقراء اور محتاجوں کی نیازمندی بھی دور کی جائے گی۔ یعنی دولتمندوں اور امیروں کے مال میں ہی محتاجوں اور فقراء کا حق رکھا تاکہ وہ ان ضرورتمندوں کا بھی حق ادا کریں ۔ قرآن کریم کی آیت میں مذکور حکم اسلامی کی بہتریں تاکید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان بھی  ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لم نُبعَث لجمع المال ولكن بُعِثنا لإنفاقه."؛ ہم مال جمع کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ مال انفاق کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ اگر جمع مال کو ہی مقصد بنا لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت صرف امیروں اور دولت مندوں ہی کے ہاں ڈھیر لگ جائے جس کا  نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی گردش رک جائے گی اور ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ بنے گا تقسیم و گردش کا سلسلہ منجمد ہوجائے گا۔ جس سے معاشرہ بد حالی اور بحران کا شکار ہوجائے گا اور صرف ایک خاص گروہ کے ہاتھوں میں یہ مال جمع ہوکر رہ جائے گا جس کے نتیجے میں یہ لوگ  عوام  پر ظلم و استبداد بھی کریں گے اور مال کی ذخیرہ اندوزی بھی  کریں گے۔ جس سے معاشرہ ایک بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا۔  جمع مال و ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے رونما ہونے والے سماجی اور معاشرتی بحران جو تاریخ میں پیش آئے ہمارے مدعا کے  ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔

اصول و قاعدہ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ کی ہے اور وہی بادشاہی کا مالک ہے :

((قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ  إِنَّكَ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))(سورة آل عمران ـ 26)،

ترجمہ : کہد یجیئے کہ اے خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ۔ سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔

اسلام دولت  کو بھی اس کے مالک کی طرح اللہ کی ملکیت قرار دیتا ہے اور اسلام کی نگاہ میں دونوں کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے ۔لہذا آدمی دولت کا اعتباری اور قراردادی مالک ہے ۔اس اعتباری مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مال و ملکیت میں جس طرح کا بھی تصرف کرنا چاہے کرے۔ چاہے اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کے حقوق ضائع کیوں نہ ہوجائیں۔ غرض اس طرح کا مطلق اختیار آدمی کو نہیں دیا گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کریم نے انسان کے ایمان کو انفاق مال کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور  ایمان کی نشانی انفاق مال قرارر دیاگیا اور دوسری جانب صاحب مال و دولت کو اس مال میں خلیفہ کہا گیا  ہے۔ غرض یہ کہ مال کو شرع مقدس کی جانب سے بتائے ہوئے مقامات پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ نزدیک کا رابطہ ہے۔ اس سے مال خرچ کرنے والے کو اجر و ثواب بھی مل جاتا ہے۔ اس میں بہترین بات یہ ہے کہ قرآن کریم اس انفاق کے لئے کوئی ایک مقام معین نہیں کرتا ہے جس طرح سے خمس و زکات اور صدقہ وغیرہ کا مصرف معین ہے۔ بلکہ قرآن نے اس راستے کو عام رکھا تاکہ آدمی کسی بھی جگہ انفاق کرسکے جو شرعی لحاظ سے مباح ہوں۔ اگرچہ حصول کے لحاظ سے راستے معین کئے ہین مانند تجارت اور مال کو گردش میں رکھنا اس سے فائدہ اٹھانا وغیرہ۔ بہر کیف قرآن کریم کی آیت انفاق میں مال کو انفاق کرنا مقصود ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی اور ایک جگہ اس کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اور مال کے انفاق سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں منجملہ محتاجوں  اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں اور اچھے انداز سے ان کمزوروں کی زندگی  کا نظام چلنے لگتا ہے ۔ یوں عمومی معاشرتی کفالت کا بند وبست بھی ہوجاتا ہے ۔ علاوہ اس کے مختلف انواع و اقسام کی فضول خرچیوں  اور اسراف کا بھی سد باب ہوجاتا ہے۔

نیز یہ کہ انفاق  سے اس کے مالک کو بڑا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے ۔یہ وہ ثواب ہے جس کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مؤمنین کو جنت کا دیا ہے۔ خاص طور سے اس طرح کا انفاق معاشروں  میں ظلم و فساد کو بھی روک دیتا ہے ۔کیونکہ اس طرح کے فسادات یقینا غربت و افلاس کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کے نظام اقتصادی میں اس نظریہ پر تاکید کی جاتی  ہے " جو ملک و معاشرہ اقتصادی اعتبار سے فقیر ہے اس میں مال و دولت کا ایک جگہ جمع ہونے کے بجائے گردش میں ہونا اس ملک کی معیشت میں بہبودی کا باعث ہوتا ہے ۔" اور لوگ تلاش و کوشش میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جس سے بدیہی طور پر لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور ان کی ضروریا ت پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ان کی حالت میں بہتری آجاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ  کہ انفاق  ہر اس ملک و معاشرے کے لئے ضروری اور  کلید ی حیثیت رکھتا ہے جو اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے ۔ پس یہ جو تاکید کی جاتی ہے کہ دولت مندوں اور امیروں  کو اپنا مال انفاق کرنا چاہئیے اس سےمراد عام ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی دولت کو گردش میں رکھیں اگرچہ مارکیٹ کے ذریعے سھی جس سے معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے اور ایک معاشرے کے اندر کفالت کا ضروری مرتبہ محقق ہوجاتا ہے ۔ یوں بنیادی ترین اقتصادی اور معیشتی بہبودی قائم ہوجاتی ہے 

 ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران حریت پسند تحریکوں کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے صہیونی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ہمارے مہمان کو ہماری سرزمین پر شہید کردیا۔ صہیونی حکومت کو لبنان پر حملے کا جواب مل کر رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک طاقتور مشرق وسطی کی بات کی ہے۔ پہلے ہمیں ایک دوسرے کو ہمسایہ ماننا ہوگا جو ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ خطے میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی بدامنی کا باعث ہے۔ ہماری ترقی اور خوشحالی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ خطے کی سیکورٹی کو بیرونی طاقتوں کے حوالے کرنا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطے کے تمام ممالک کے مفادات کی حفاظت ہونا چاہیے۔ اگر ممالک کے مفادات محفوظ نہ ہوں تو پائیدار امن قائم نہیں ہوگا۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ خطے کے ممالک اپنے وسائل کو ہتھیاروں کی دوڑ لگانے میں ضائع نہ کریں۔ ہمارا خطہ جنگ، دہشت گردی، سمگلنگ، قحط سالی اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت جیسے مشکلات کا شکار ہے۔

ڈاکٹر پزشکیان نے امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے آپ کے ملک پر پابندی نہیں لگائی اور آپ کی زرعی اور بینکنگ سسٹم تک رسائی نہیں روکی اور آپ کے آرمی چیف کو قتل نہیں کیا، لیکن امریکہ نے یہ کام کیا اور ایران کے سب سے اعلی کمانڈر کو قتل کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایران دوسروں کے لیے عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم سب کے لیے امن چاہتے ہیں۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ یکطرفہ پابندیوں سے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ ایرانی قوم کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اس وقت استعمال کی گئی جب ایران نے جوہری معاہدے کے تحت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے وعدے پورے کئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جوہری معاہدے کے تمام فریقوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ میرا پیغام ان تمام حکومتوں کے لیے یہی ہے جنہوں نے ایران کے خلاف غیر تعمیری حکمت عملی اپنائی ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل کریں۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ صیہونی حکومت نے ہماری سرزمین پر ہمارے سائنسدانوں اور مہمانوں کو قتل کیا ہے۔ صہیونی حکومت داعش اور دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے لبنان پر صہیونی حکومت کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کو جارحیت کا جواب مل کر رہے گا۔ عالمی برادری کو فوری طور پر صہیونی جارحیت کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کہ فلسطینی عوام کو عمومی ریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقبل کے تعین کا حق دینا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے ہی دیرپا امن قائم کیا جا سکتا ہے۔

لبنان پر اسرائیلی حملوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 492 ہوگئی جبکہ 1645 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ لبنان کی وزرات صحت کا کہنا ہے کہ جاں بحق افراد میں 35 بچے اور 58 خواتین شامل ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بیروت پر حملے میں حزب اللّٰہ کے سینیئر کمانڈر علی کرکی محفوظ رہے ہیں۔ دوسری جانب مصر نے آج سے بیروت جانے والی تمام پروازیں منسوخ کر دیں۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ حملے اُس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک ہم اہداف حاصل نہیں کرلیتے، ہم نے حزب اللّٰہ کے خلاف حملوں کو وسیع کر دیا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ ذات باری تعالٰی نے حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور ان تمام جہانوں میں سے بھی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس نبی پاک کی امت ہیں۔اسی طرح بلاتفریق مذہب و ملت حتٰی مخلوقات عالم و تمام عالمین کیلئے حضور پاک کی ذات مبارکہ رحمت ثابت ہوئی ہے۔ رحمت اللعالمین کی آمد اور جشن صادقین کے ایام کی سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ اسی ہفتے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی ہے۔ یقین جانیں اگر ہم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل پاک کی سیرت اور احکامات پر عمل کریں تو دین و دنیا اور دونوں جہانوں میں کامیابیاں ہمارا مقدر ٹہریں گی۔ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہمارا ایمان ہے اور ان کا کلمہ پڑھنے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ اگر عملی طور پر بھی ہم اسے اپنا لیں تو ہماری مشکلات حل ہو جائیں۔ آج ہم مسلمانوں کی مشکلات کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن کا احترام اسے چوم کر اونچے طاقوں میں رکھنے کو قرار دیا اور نبی پاک کی سیرت پر عمل کرنے کی بجائے ان سے صرف جزباتی وابستگی اپنائے رکھی۔

کلام مجید کو چوم کر رکھ دینا قرآن کی عزت نہیں، بلکہ اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا اس کی صحیح معنوں میں عزت ہے۔ اسی طرح نبی پاک سے جذباتی وابستگی تو ہم سب بڑھ چڑھ کر رکھتے ہیں۔ ان کی محبت کے دعویدار بن کر ایک دوسرے پر گستاخی کے فتوے لگاتے ہیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہے۔ حالانکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق نماز نہ پڑھنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، برے کاموں سے پرہیزنہ کرنا اور اسی طرح دیگر احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کی خوشنودی اور کامیابی ان کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور اگرہم صحیح معنوں میں اس پر عمل پیرا ہوتے تو آج عالم اسلام جن مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اس سے دوچار نہ ہوتے۔

ان ایام میں جہاں بھی جائیں درود سلام نعت کی محفلیں اور مسلمانوں کے اندر جوش و خوش اور محبت دیکھ کرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ان دنوں میں کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ مشسمانوں کے اندر وحدت کا جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے اندر حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تاریخ ولادت کے حوالے سے کچھ اختلاف ضرور ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کو رسول پاک کی ولادت کی تاریخ مانتے ہیں۔ لیکن وحدت مسلمین کے داعی اور بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی ؒ نے اس فرق کو بھی ایک خوبصورت شکل میں ڈھال دیا تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکت کو اپنے اتحاد کا محور قرار دیں۔ اور 12 یا 17 کی بجائے 12 سے 17 ربیع الاول پورا ہفتہ "ھفتہ وحدت" کے طور پر منایا جائے۔ ان کی اس تجویز کا پورے عالم اسلام میں بھرپور خیرمقدم کیا گيا اور اب پورے ہفتے میں عید میلادالنبی (ص) کے سلسلے میں جشن اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکے گی۔

مسلمانوں کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں ۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے ۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ 

اس طرح مسلمان اپنا بہترین دفاع کرسکتے ہیں۔ اللہ سے تمسک، توکل اللہ اور ایمانی و روحانی طاقت جیسی نعمتوں کو اگر بروئے کار لائیں گے تو ایک ناقابل تسخیر امت ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان امور پراللہ سے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوں۔ اور رب کی عطا کردہ کامیابی اور توکل پر کامل یقین ہو۔ تو کامیابی اور بلندی یقینی ہے۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے۔ " ولینصرن اللہ من ینصرہ" (اللہ اس کی مدد کرےگا جو اللہ کی نصرت کرے گا، حج 40)۔ اور اگر آج ہم اللہ کی مدد کے وعدے یہ تمام وسائل ہونے کے باوجود دنیا میں مشکلات کا شکار ہیں تو اس میں ظاہر ہے خود ہماری کمزوریاں ہیں خامیاں ہیں۔ اگر آج خدا کے عطا کردہ وسائل پر دشمن قابض میں تو اس میں ہم مسلمانوں کی ہی کمزوری ہے۔ آج فلسطین پر مظالم ہورہے ہیں تو یہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہونے کے سبب ہیں۔ کیا یہ سب کو مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے؟۔ دشمن ہمیں مختلف فرقوں میں قوم میں نسل میں بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے مفادات حاصل کررہا ہے۔ لیکن مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مجبور و بے بس ہیں۔ اسلئے آج مسمانوں کی کامیابی کا واحد حل صرف اللہ کی رسی کو مل کر اور مظبوطی سے تھام لینے میں ہے۔اللہ پاک ہمیں اس ماہ مبارک میں اسلام کی تعلیمات اور نبی پاک کی سیرت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب عالمین۔