سلیمانی

سلیمانی

لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کا دفاع کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔ اسرائیل عرصے سے غزہ اور لبنان کے باسیوں کو خون ناحق کے سمندر میں ڈبو کر دنیا میں فاتح بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل انسانی خون کا پیاسا ایسا سگ ہے، جو کبھی سیراب نہیں ہوتا۔ اس بے مہار انسانی دشمن کے ہاتھوں شھید حسن نصراللہ اور اسماعیل ھنیہ جیسی عظیم شخصیات کی قیمتی جانوں کا ضیاع امت مسلمہ، خاص طور پر جبھہ مقاومت کے لئے یقیناً ایسا نقصان ہے، جس کا ازالہ صدیاں گزرنے کے بعد ہوگا۔ ایسے میں ہر باشعور انسان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کی امنیت، وقار اور خود مختاری کا دفاع کرے۔ اس وقت غزہ اور لبنان میں رہنے والے لوگ انسانی بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ان کا دفاع اور ان کے انسانی حقوق کی بحالی کے لئے کوشش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری ان کی حالت زار پر توجہ دے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ غزہ کی سرزمین کا دفاع فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے بھی ضروری ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لبنان اور غزہ کا دفاع مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر یہ علاقے غیر محفوظ رہیں گے تو اس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر پڑے گا۔ استحکام کی عدم موجودگی کی صورت میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور دیگر مسائل جنم لیتے رہیں گے۔ لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ صرف سرزمین کی نہیں بلکہ ایک نظریئے، ثقافت اور شناخت کی جنگ ہے۔ ان کا دفاع کرکے مسلمانان عالم اپنے عقائد اور ثقافت کی بہتر حفاظت کرسکتے ہیں۔ لبنان اور غزہ کے دفاع کا عمل مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرتا ہے۔ جب ایک قوم یا علاقے کے لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو یہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی ایسا نمونہ بنتا ہے، جو انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لبنان اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہم مختلف طریقوں سے ان کی فکری و عملی حمایت اور مدد کرسکتے ہیں، مثلاً ہم حزب اللہ اور حماس کے نظریات، تاریخ اور ان کی جدوجہد کا پرچار کرنے کے لئے مقالہ جات، مضامین، بلاگ یا سوشل میڈیا پر تحریریں لکھ سکتے ہیں۔ ہم مختلف اداروں کے ذریعے غزہ اور لبنان کے عوام کے لیے غذائی اشیاء، طبی امداد اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور حماس کی حمایت کے لیے تعلیمی پروگرامز کا انعقاد کرسکتے ہیں، جن میں حزب اللہ اور حماس کی تاریخ، ثقافت اور مقاصد کے بارے میں ورکشاپس اور سیمینارز شامل ہوسکتے ہیں۔ ہم حزب اللہ اور غزہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلا سکتے ہیں۔ غرض حزب اللہ اور حماس کی مدد کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، یہ کسی ایک روش میں منحصر نہیں۔

دفاعی جہاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین، وطن اور عزت کی حفاظت کے لیے جنگ کریں۔ رہبر معظم کے مطابق یہ جہاد ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے مسلمان اپنی شناخت اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتے ہیں۔ جہاد مسلمانوں کی عزت اور خود مختاری کا ذریعہ ہے۔ جب دشمن مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہو تو ان کا خاموش رہنا کسی صورت جائز نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں اور اپنی بساط کے مطابق دفاع کریں۔ انہیں کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے۔ بلاشبہ لبنان اور غزہ کا دفاع مسلمانوں کے درمیان اتحاد مضبوط کرنے کا سبب بنے گا۔ جب شیعہ سنی مسلمان ایک ہی مقصد کے لیے مل کر دفاعی جنگ کرتے ہیں تو ان میں بھائی چارے اور محبت کی ایک نئی لہر پیدا ہوہی جاتی ہے۔ لبنان اور غزہ کا دفاعی جہاد مسلمانوں کو اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے۔

یہ ایک بہترین موقع ہے کہ مسلمانان جہاں لبنان اور غزہ کی حمایت میں ملکر آواز بلند کرکے اپنی ایمانی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بات بھی قطعی ہے کہ دفاعی جہاد سے مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب مسلمان اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہیں تو وہ پوری خود اعتمادی سے اپنی عزت اور وقار کو بحال کرسکتے ہیں۔ اگر تاریخی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ دفاعی جہاد کا مسئلہ ہمارے فقہاء کے لئے انتہائی حساس مسئلہ تھا۔ مثلاً سید محمد کاظم طباطبائی یزدی نے ایران کے جنوب میں برطانوی جارحیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مندرجہ ذیل فتویٰ جاری کیا: ان دنوں میں اٹلی جیسے یورپی ممالک نے مغرب میں طرابلس پر حملہ کیا ہے، دوسری طرف روسیوں نے ایران کے شمال پر قبضہ کیا ہے اور ایران کے جنوب میں بھی انگریزوں نے اپنی فوجیں تعینات کرکے اسلام کو تباہی کے خطرے میں ڈال دیا ہے، ایسے میں تمام عرب اور ایرانی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی ممالک سے کافروں کو بھگانے کے لیے خود کو تیار کریں۔

اپنی جان و مال کی قربانی دیتے ہوئے مغرب میں اطالوی افواج کو طرابلس سے نکالنے اور روسی اور برطانوی افواج کو ایران سے نکالنے کی راہ میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، کیونکہ یہ عمل اسلامی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے۔ ان شاء اللہ خدا کی مدد سے دونوں اسلامی ممالک صلیبیوں کے حملے سے محفوظ رہیں گے۔ دیگر فقہا جیسے محمد حسین قمشی سید مصطفیٰ کاشانی، شیخ محمد آل شیخ صاحب جواہر، سید محمد سعید حوبوبی، محمد حسین حائری مازندرانی اور سید علی تبریزی ان علماء میں سے تھے، جنہوں نے اس دور میں جارحین کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے فتویٰ جاری کیا۔ اسے مسلمانوں کا اہم فریضہ شمار کیا گیا اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کفر، ارتداد اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ ​​کرنے کا مترادف سمجھا گیا۔ ان میں شیخ الشریعہ اصفہانی کا 1330ھ میں بیان کردہ روشن بیان مثالی ہے۔اس بیان میں انہوں نے بڑے بڑے علماء،امیروں، عشائر کے مردوں، مختلف قبیلوں اور طبقوں کے لوگوں سے خطاب کیا۔

انہوں نے دشمنان اسلام کے ان منصوبوں اور سازشوں کا پردہ فاش کیا، جن کو انہوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ تجارت، سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام کے نام سے مسلم معاشرے میں لانچ کیا، لیکن اس سے ان کا ہدف مسلمانوں کو فریب دے کر اپنے معاشی، ثقافتی اور سیاسی تسلط کو وسعت دینا اور مسلمانوں کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ان کا محتاج کرنا تھا۔ چنانچہ انہوں اپنے خطاب کے آخری حصے میں مسلمانوں کو یوں خبردار کیا: آج وہ دن ہے، جس میں کفر اور اسلام آمنے سامنے ہیں۔ یہ وہ دن ہے، جس میں بے کس رہنے والے اسلام کی مدد کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اس دور میں آزادی اور اسلامی سرزمینوں کے دفاع کے لئے میدان میں حاضر رہنا شیعہ فقہاء سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ سنی علماء اور مفتیوں نے بھی فتوے اور بیانات جاری کرکے مسلمانوں کو جارحین کے خلاف اپنے دفاع کی ترغیب وتشویق دلائی گئی۔

جنگ عظیم کے آغاز میں سب سے پہلے متحدہ یورپی حکومتوں نے اسلامی ملک عثمانیہ پر حملہ کیا۔ چنانچہ ایران اور عراق کے شہری مقامات جارحیت پسندوں کے حملے کے زد میں آگئے۔ اس دور میں شیعہ فقہاء اور سنی علماء نے جارحین کے خلاف جہاد اور دفاع کے فتوے جاری کرکے لوگوں کو اپنی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ مگر آج غزہ اور لبنان میں مسلمان اسرائیل کے مظالم کا شکار ہیں،دنیا بھر کی استکباری طاقتیں غزہ اور لبنان کے مسلمانوں کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے متحد ہیں، مگر ایران یمن جیسے دو تین اسلامی ملکوں کے علاوہ اسلامی ممالک غزہ اور لبنان کے مظلوم مسلمانوں کی نہ صرف حمایت اور مدد کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ سب اسرائیل کو شتر بے مہار بنا کر غزہ اور لبنان میں انسانی خون کا دریا بہانے کی اجازت دینے پر متحد و متفق نظر آتے ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
 
تحریر: محمد حسن جمالی
 

بعض گھروں میں بچوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، بچوں کے حقوق کی پامالی صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اُن کے ساتھ محبت نہ کرے، جی نہیں! غلط تر تیبت اور ان کے لیے مناسب اہتمام و انتظام سے کام نہ لینا، ان کی ضرورتوں کا خیال نہ رکھنا، لطف و محبت میں کمی اور اسی قسم کے دوسرے امور بھی ان پر ظلم کے دائرے میں آتے ہیں۔

امام خامنہ ای

 گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے طوفان الاقصی نے گذشتہ 75 سالوں کے دوران خطے میں صہیونی حکومت کی طاقت کا بھرم توڑ دیا اور اس کے ناپاک وجود کی بنیادیں ہلادیں۔ یہ واقعہ اس وقت وقوع پذیر ہوا جب صہیونی حکومت عرب خطے کی قیادت کے خواب دیکھ رہی تھی۔ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی طاقت اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوالات ایجاد کیے۔

واشنگٹن اور مغربی ممالک صہیونی حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ ان ممالک نے فلسطینیوں سے انتقام لینے کے لئے پوری کوشش کی لیکن مقاومتی تنظیموں اور فلسطینی عوام کی مقاومت صہیونی حکومت اور اس کے حامیوں کو اسٹریٹیجک شکست سے دوچار کیا۔

غزہ کے محاذ پر ناکامی کے بعد صہیونی حکومت نے لبنان کا رخ کیا تاکہ اس محاذ پر کامیابی کے ذریعے اپنی شکست کی تلافی کرسکے۔ صہیونی حکومت نے حزب اللہ پر کاری وار کا فیصلہ کیا اور پیچیدہ کاروائی کے تحت مقاومتی تنظیم کی اعلی قیادت کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا ایک ہدف لبنانی مقاومتی تنظیم کو غیر مسلح کرنا تھا تاکہ بعد میں آسانی کے ساتھ لبنان کو فتح کرلے۔

حزب اللہ کے خلاف حملوں سے ملنے والی وقتی کامیابی جلد ہی اپنا اثر کھونے لگی کیونکہ تنظیم نے مختصر وقت میں خود سنبھال لیا اور دوبارہ تنظیم اپنے پاوں پر کھڑی ہوگئی۔ حزب اللہ نے جوابی وار میں صہیونی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ بڑی تعداد میں صہیونی افسران اور اہلکاروں کو ہلاک اور زخمی کردیا اس کے نتیجے میں جنوبی لبنان صہیونی فوج کے لئے ایک دلدل بن گیا۔

26 اکتوبر کو صہیونی حکومت نے اپنی سابقہ دھمکیوں کے برعکس ایران کے خلاف محدود پیمانے پر کاروائی کی۔ ایک مہینے تک تیاریوں کے بعد امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کے بعد تل ابیب نے ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ ترک کردیا اور اپنے حملے کا دائرہ بہت مختصر کردیا تاکہ ایران کے جوابی حملے سے بچ جائے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات بھی متاثر ہونے سے بچ جائیں۔

صہیونی حکومت کی امریکہ کے ساتھ ہماہنگی کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں؛

اول: جوابی حملے کے بارے میں ایران کی سنجیدگی کی وجہ سے صہیونی حکومت کے ایٹمی منصوبے یا اقتصادی اور توانائی کی تنصیبات کو ہدف بنائے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ گذشتہ حملے میں ایران نے صہیونی تنصیبات پر کامیاب حملہ کرکے اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔

دوم: اعلی قیادت کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے دوبارہ خود کو سنبھال لیا اور صہیونی حکومت کے زمینی حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جس سے صہیونی فوج کو سنگین نقصان ہوا۔

گذشتہ کچھ عرصے میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے نتن یاہو اور ان کی انتہا پسند کابینہ نے ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کا ارادہ ترک کیا۔ اس کے بجائے اپنی دفاعی طاقت کو حزب اللہ اور حماس کے ساتھ شمالی اور سرحدوں پر جنگ میں استعمال کرنا شروع کیا بنابراین آئندہ چند مہینوں کے دوران صہیونی حکومت اور مقاومتی تنظیموں کے درمیان جنگ میں شدت آسکتی ہے مخصوصا اگر ٹرمپ انتخابات میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے امکانات زیادہ ہیں۔

وعدہ صادق آپریشن اور صہیونی حملوں کو کامیابی کے ساتھ روکنے کے بعد ایران کا کردار مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ نے بھی اپنی طاقت کو دوبارہ بحال کیا ہے۔

امریکہ کی تمام تر حمایت کے باوجود صہیونی حکومت کئی محاذوں پر جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے اسی لئے اپنے دشمنوں اور دوستوں کو گمراہ کرنے کے لئے نفسیاتی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ صہیونی حکومت اب بھی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خود کو خطے کی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ سال 7 اکتوبر کے واقعات میں صہیونی حکومت کی زمین بوس ہونے والی خیالی طاقت دوبارہ بحال نہیں ہوسکی ہے۔ لبنان، فلسطین، عراق اور یمن کی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ وسیع نبرد کے بعد صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت میں شدید کمی آئی ہے۔ حالیہ جنگ کی مدت بڑھنے کے ساتھ صہیونی حکومت کے زخم مزید گہرے ہوں گے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شکستوں کا سلسلہ برقرار رہے تو صہیونی حکومت کی افسانوی طاقت مزید کم ہوگی اور دوستوں کی نگاہ میں اس کی اہمیت ختم ہوجائے گی۔ دوسری جانب دائیں بازو کی جماعتوں اور اپوزیشن کو نتن یاہو کے خلاف مہم چلانے کے مواقع میں اضافہ ہوگا۔

اگر یہی شکستوں اور بحران کا یہ سلسلہ جاری رہا تو صہیونیوں کی معکوس ہجرت میں مزید تیزی آئے گی۔ لیبرل، دولت مند اور دانشور طبقہ بدامن اور جنگ زدہ اسرائیل میں رہنا نہیں چاہتا ہے۔ ایران اور مقاومتی تنظیموں کے حملوں میں صہیونی حکومت کی دفاعی طاقت کا پول کھل گیا ہے لہذا صہیونی آبادکار آبائی ممالک واپس جاکر اپنا مستقبل محفوظ بنائیں گے۔

ارنا نے پیر کی رات اسلام آباد سے اپنے نامہ نگار کے حوالے سے  رپورٹ دی ہے کہ اسلام آباد کے نورخان فضائی اڈے پر ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کا پاکستان کے علاقائی امور کے وزیر نسیم وڑائج اور ایران کے سفیر نے استقبال کیا۔  

 وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اپنے دورہ اسلام آباد میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار سے ملاقات کریں گے۔

اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی صدارت میں ایران اور پاکستان کے وفود کی نشست ہوگی ۔

 وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات اور گفتگو کریں گے۔

اسلامی جمہوریہ کے کیلنڈر میں تیرہ آبان یا 3 نومبر "عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن" کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دن اور یہ عنوان ایرانیوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک بڑے اعزاز اور بافضیلت ایام میں سے ایک رہے گا۔ جو قوم دنیا میں استکبار دشمنی کی خصوصیت کے ساتھ پہچانی جائے، یہ اس کا منفرد اعزار نہیں تو اور کیا ہے۔؟ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں سامراح دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا حاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے کیلنڈر میں ایک دن کو "عالمی استکبار سے مقابلے کا قومی دن" قرار دیا ہے۔ استکبار و سامراج کے خلاف مقابلے کا پرچم کئی دہائیوں سے ایرانی قوم اور اس کے الہیٰ نظام کے ہاتھ میں ہے۔

سوال یہ ہے کہ استکبار مخالفت کو ایک قدر، ایک اعزاز اور ایک فضیلت کیوں سمجھا جاتا ہے اور تین نومبر کے دن کو استکبار مخالفت جیسے عنوان سے کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ جو شخص استکبار کے تصور کو صحیح طور پر سمجھے گا، وہ استکبار کے خلاف لڑنے کی اندرونی قدر اور اہمیت کو بھی صحیح درک کرسکے گا۔ اس سے اس کی انسانی فطرت بیدار رہے گی اور وہ اپنے ضمیر سے شرمندہ نہیں ہوگا۔ اسی عقلانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ "کاش استکبار لفظ کے حقیقی معانی کو  سمجھ کر اس کی مخالفت کی جائے۔ استکبار کا مطلب ہے خود پسندی، خود برتری اور اس برتری کو دوسروں پر لاگو کرنے کی زبردستی۔ مستکبر سے مراد وہ شخص یا ادارہ  ہے، جو اپنے اختیارات کو طاقت دھونس اور ہر ممکنہ ذرائع  سے استعمال کرکے دوسرے پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مستکبر اپنی خواہشات کے حصول کے لیے اخلاقی اور انسانی اقدار میں سے کسی کی پاسداری نہیں کرتا۔ دھونس، جبر، لوٹ مار، جرم، ظلم اور قتل و غارت گری اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔

آج امریکہ دنیا کے مستکبرین کا لیڈر ہے اور اس ملک کو بجا طور پر "عالمی استکبار" کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ مردہ باد کے نعرے کا مطلب موت استکبار کے لیے، موت ظالموں کے لیے، موت تشدد اور غنڈہ گردی کے لیے، موت ان مجرموں کے لیے جو اپنی شیطانی خواہشات کے حصول کے لیے لاکھوں لوگوں کو قتل اور بے گھر کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی قوم پر دو ایٹم بم گرا کر، ویت نامی قوم کے خلاف بے شمار قتل و غارت گری کے ساتھ تباہ کن جنگ مسلط کرکے، دنیا کی کئی آزاد اور مقبول حکومتوں کے خلاف بے شمار بغاوتیں کرکے امریکہ نے اپنے آپ کو استعمار اور مستکبر ثابت کیا ہے۔ امریکی تاریخ اس طرح کے جرائم سے بھری پڑی اور اس کا ریکارڈ انتہائی سیاہ ہے۔ پچھتر برسوں سے زائد عرصے میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کی ہلاکتیں نیز افغانستان اور عراق جیسے ممالک پر حالیہ دہائیوں کے قبضے سے ثابت ہوتا ہے کہ "امریکہ کی قیادت میں عالمی استکبار" یا "بڑے شیطان" کا لقب امریکہ کے لئے انتہائی درست اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔

تاہم اسلامی جمہوریہ کے کیلنڈر میں 3 نومبر کو "عالمی استکبار سے مقابلے کا قومی دن" قرار دینے کی کچھ تاریخی وجوہات بھی ہیں۔ تیرہ آبان 1343 شمسی کے دن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی شاہ مخالفت اور شاہی بل کی شدید مخالفت کی وجہ سے ترکی جلاوطن کیا گیا تھا۔ اسی دن یعنی تیرہ آبان 1357 کے دن تہران کے یونیورسٹی طلبا کو خاک و خون میں غلطاں کیا گیا۔ مطلق العنان پہلوی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو مظاہرہ کرنے کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ تیرہ آبان 1358 بمطابق تین نومبر 1979ء کو تہران میں یونیورسٹی طلبا نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرلیا۔ امریکی سفارتخانہ اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کے خلاف جاسوسی اور سازش کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ تینوں تاریخی واقعات میں ایرانی قوم ایک طرف ہے اور امریکہ دوسری طرف۔

پہلے اور دوسرے واقعہ میں شاہ اور پہلوی حکومت نے امریکی ایما پر ایرانی طلبا اور ان کے رہبر پر ظلم کیا اور تیسرے واقع میں امریکی پالیسیوں کے ردعمل میں یونیورسٹی طلبا نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ تینوں تاریخی واقعات میں ایرانی قوم کی امریکہ کے ساتھ تصادم کی نوعیت سامرج دشمنی کی راہ میں جدوجہد کی ایک نوعیت ہے۔ قومی آزادی اور عزت کے حصول کی یہ جدوجہد اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل کی گئی۔ آج بھی ایرانی قوم اسلامی قیادت کی رہبری میں اسلام کے جھنڈے تلے اپنی بصیرت اور ایمان کی بنیاد پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں بالخصوص غزہ اور لبنان میں گذشتہ ایک سال کے دوران صیہونی حکومت کے جرائم اور امریکہ کی مکمل حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت غاصب امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لڑنا ضروری ہے اور اس عالمی استکبار اور استعمار کے خلاف "عالمی اتحاد" کی تشکیل ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

ترتیب و تنظیم: علی واحدی

صدر مسعود پزشکیان نے اپنے اس پیغام میں شہید سید حسن نصراللہ کی یاد کو تازہ کیا اور شیخ نعیم قاسم کی حزب اللہ کی قیادت سنبھالنے پر لبنان کے عوام، حکومت اور استقامتی محاذ کے تمام مجاہدوں کو مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اس حساس اور تاریخی موقع پر جس میں لبنان کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی اور اسی طرح استقامتی محاذ کے اعلی اقدار اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت تاریخی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے، شیخ نعیم قاسم جیسی درخشاں اور مجاہد شخصیت کا حزب اللہ کی قیادت کے لیے انتخاب سے جن کا شاندار کارنامہ رہا ہے، استقامتی محاذ کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور استقامت کے عظیم الشان شہیدوں کا راستہ اور بھی روشن ہوتا چلا جائے گا۔

صدر پزشکیان نے امید ظاہر کی کہ اتحاد امت اسلامیہ اور باضمیر اور حریت پسند انسانوں کی بیداری کے نتیجے میں صیہونیوں کے جرائم کا سلسلہ منقطع اور علاقے، بالخصوص غزہ اور لبنان میں قیام امن ممکن ہوسکے گا۔

صدر مملکت نے اپنے پیغام کے آخر میں شیخ نعیم قاسم کے لیے کامیابی کی دعا کی۔

صیہونی حکومت نے 7 اکتوبر 2023 کو فوجی، سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے لحاظ سے ناقابل تلافی شدید ضرب کھانے کے بعد غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف بھیانک جرائم اور ان کے نسلی تصفیے کو اپنا ایجنڈا بنا لیا۔
     

چونکہ 7 اکتوبر کے آپریشن میں صیہونیوں کی سیکورٹی اور انٹیلیجنس برتری، جس پر وہ برسوں سے فخر کرتے چلے آ رہے تھے، پوری طرح مٹی میں مل گئي اس لیے تل ابیب کے حکام نے غزہ میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کے نسلی تصفیے کے علاوہ ایک اور اسٹریٹیجی اختیار کی اور وہ مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ تھی۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد، جسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، صیہونیوں نے مزاحمتی محاذ کے کئي رہنماؤں اور کمانڈروں کو شہید کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی مزاحمتی معاشرے کے خلاف ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کی مثال نہیں ملتی تاکہ اس معاشرے کو مزاحمتی محاذ سے الگ کر سکیں۔ ان جرائم میں غزہ کے مختلف علاقوں خاص طور پر شمالی غزہ کے شدید محاصرے سے لے کر لبنان میں پیجروں کے دھماکے تک گوناگوں مجرمانہ اقدامات شامل ہیں۔

بڑی واضح سی بات ہے کہ  صیہونی حکومت اس پالیسی کے ذریعے ایک بنیادی ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ چیز کچھ دن پہلے اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے مرحوم رہنما یحییٰ سنوار کی دلیرانہ شہادت کے بعد صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یوآف گالانت کے بیان میں بھی پوری طرح عیاں ہے۔ یحییٰ سنوار کی شہادت پر، جو میدان جنگ میں اور ٹینک کے مقابلے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے، خوشی کے نشے میں چور گالانت نے بڑے متکبرانہ لہجے میں فلسطینی مزاحمت کے جانبازوں کو مخاطب کر کے کہا تھا: "اپنے ہاتھ اوپر کرو اور ہتھیار ڈال دو۔ قیدی بنائے گئے ہمارے لوگوں کو رہا کرو اور گھٹنے ٹیک دو۔"(1) حماس تحریک کے پولیت بیورو کے سربراہ کی شہادت کے بعد جنگی جرائم کے ارتکاب کا حکم دینے والے اس شخص کا لہجہ اور الفاظ، صیہونیوں کی طرف سے صرف ایک پیغام پہنچاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی موت کے بعد اس گروہ کا کام تمام ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں حماس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا، صیہونیوں کی خام خیالی اور خواب کے علاوہ کچھ نہیں ہے؟

حماس کے تنظیمی ڈھانچے کا کسی فرد پر منحصر نہ ہونا

اپنے ایک جنگي ہدف یعنی حماس سے ہتھیار رکھوانے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے قریب ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کی صیہونیوں کی کوشش ایسے عالم میں ہے کہ جب اس مزاحمتی گروہ کا ایک بڑا ہی منظم تنظیمی ڈھانچہ ہے اور یہ ڈھانچہ بنیادی طور پر افراد پر منحصر نہیں ہے کہ ان کے چلے جانے سے اس کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ وہی بات ہے جس کی جانب سیاسی مسائل کے ماہر  فؤاد خفش اشارہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: "اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی طاقت، اس کے منظم تنظیمی ڈھانچے میں نہاں ہے۔ یہ ڈھانچہ افراد پر نہیں بلکہ خود پر منحصر ہے۔" یہ سیاسی تجزیہ نگار، حماس کی راہ جاری رہنے پر یحییٰ سنوار کی شہادت کے اثرات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں: "جو ڈھانچہ کسی فرد پر ٹکا ہوا نہیں ہے وہ فطری طور پر سنوار کی شہادت کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح اپنا راستہ جاری رکھے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ تنظیمی ڈھانچہ کئي عشرے پرانا ہے اور اپنی حیات کا یہ طویل عرصہ طے کرتے کرتے وہ بہت زیادہ مستحکم ہو چکا ہے۔ پچھلی کئي دہائيوں کے دوران اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود حماس جیسے گروہ کے پوری مضبوطی سے قائم رہنے کی وجہ اس کے ڈھانچے کی مضبوطی ہے۔"(2) فؤاد خفش حماس کے بعض کمانڈروں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں: "اگر ہم تحریک حماس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی جیسے رہنماؤں کی شہادت ہمیں نظر آئے گی، اُس وقت سے لے کر اب تک حماس نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوئي ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہی ہوئي ہے۔"

چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے سائے میں مزاحمت کا مضبوط بنے رہنا

"فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کے باوجود، مزاحمت کے شعلے بدستور بھڑک رہے ہیں اور انھیں بجھایا نہیں جا سکتا۔" یہ بات سیاسی امور کے محقق سعید زیاد نے یحییٰ سنوار کے قتل کے بعد اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی صورتحال کے بارے میں کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کی موجودہ طاقت و استحکام سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کمانڈروں کے قتل سے مزاحمت کے شعلے خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔ البتہ وہ فلسطینی مزاحمت کے لڑنے کے طریقۂ کار کو بھی ایک دوسری وجہ بتاتے ہیں جو یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد بھی اس گروہ کو کوئي خاص نقصان نہ پہنچنے کی موجب ہے۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت اور خاص طور پر حماس کافی عرصے سے صیہونی دشمن کے ساتھ چھاپہ مار اور طولانی جنگ کے مرحلے میں داخل ہو گئي ہے اور کمانڈروں کی شہادت سے یہ حکمت عملی تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔(3)

"سوچ" کو قتل نہیں کیا جا سکتا

غالبا صیہونیوں کو بھی معلوم ہے کہ مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل کی اسٹریٹیجی، ذہنوں اور دلوں میں جڑ پکڑ چکی سوچ اور فکر کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود شاید ان کے پاس بوکھلاہٹ کی وجہ سے مزاحمت کے خلاف "ڈرٹی وار" کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر قتل کی پالیسی کو جاری رکھنے کے علاوہ کوئي اور چارہ نہیں ہے۔ مصر کی قومی دفاع کی کونسل کے سابق ڈپٹی سیکریٹری جنرل ابراہیم عثمان ہلال کہتے ہیں: "غاصب صیہونی، قتل، جاسوسی کی اطلاعات اکٹھا کرنے، نفسیاتی جنگ، ہوائي، توپخانے اور اسپیشل زمینی فورسز کی فائرنگ کی طاقت کے ذریعے حماس کو سوچ، جدت عمل اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ حماس کے رہنماؤں اور کمانڈروں کا قتل، اسرائيل کے لیے ایک فوجی کارنامہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب تک سوچنے، کمان سنبھالنے اور قیادت کرنے کے لیے افراد موجود ہیں، رہنماؤں اور کمانڈروں کے قتل سے، مزاحمت ختم نہیں ہوگي۔"(4)

وہ سبق جو صیہونیوں کے لیے کبھی عبرت نہیں بنے

صیہونی حکومت کے رویے اور مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں اس کے اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں نے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کی ہے۔ ماضی کے واقعات گواہ ہیں کہ صیہونی جس چیز میں اپنی فتح سمجھتے تھے، اس میں انھیں شکست اٹھانی پڑی۔ مثال کے طور پر سنہ 1982 میں جب صیہونی حکومت نے بیروت کا محاصرہ کر لیا جس کی وجہ سے پی ایل او کے مجاہدین کو لبنان سے نکل کر تیونس جانا پڑا تو اس پر صیہونیوں نے فتح کا احساس کیا لیکن یہ موہوم احساس کبھی بھی صیہونی حکومت کے لیے امن و سلامتی کا سبب نہیں بن سکا کیونکہ اس واقعے کے بعد ہی لبنان میں ایک مزاحمتی گروہ کی حیثیت سے حزب اللہ کی تشکیل ہوئي اور وہ صیہونیوں کی خوش خیالی سلب کرنے کا ایک مستقل ذریعہ بن گئی۔ دوسری مثال جنین کیمپ کے محاصرے اور انتفاضۂ دوم کے دوران سنہ 2000 میں اسے تباہ کر دینے کی ہے۔ جنین میں اس تشدد آمیز اور وحشیانہ پالیسی پر عمل درآمد کے باوجود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئي سال بعد جنین، غرب اردن میں مزاحمت کے جانبازوں کے اصل مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بنابریں حماس کے رہنماؤں کا قتل، اسرائيل کو فتح نہیں دلا سکتا جس طرح سے کہ عزالدین القسام، ابو جہاد، ابو علی مصطفیٰ، شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز الرنتیسی، صالح العاروری اور اسماعیل ہنیہ کا قتل، حماس کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت شاید فلسطینی مزاحمت کے رہنماؤں اور کمانڈروں کو قتل کر کے ایک وقتی فتح حاصل کرلے لیکن آخر میں اسے شکست اٹھانی ہی پڑے گی۔ اسی بات کی طرف لبنان کی تجزیہ نگار زینب الطحان اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: "شیخ احمد یاسین اور اسماعیل ہنیہ جیسے رہنماؤں کے قتل کے بعد بھی حماس زندہ ہے اور اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ صیہونیوں نے کمانڈروں کو قتل کر کے ٹیکٹکل طور پر ایک وقتی نتیجہ حاصل کر لیا لیکن اسٹریٹیجی کے لحاظ سے انھیں شکست ہوئي ہے۔"(5)

جب ہم مذکورہ تمام پہلوؤں کو، حماس کے رہنماؤں کے قتل کے بعد اس کی صورتحال کے سلسلے میں ایک ساتھ رکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا ہے: "حماس زندہ ہے اور زندہ رہے گي۔"(6)

 

[1] https://www.skynewsarabia.com/middle-east/1748712-%D8%BA%D8%A7%D9%84%D8%A7%D9%86%D8%AA-%D9%8A%D8%AF%D8%B9%D9%88-%D9%85%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84%D9%8A-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%84%D9%84%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%85%D9%82%D8%AA%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B1

2 https://alqaheranews.net/news/100465/%D8%A7%D9%84%D8%A8%D9%86%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AA%D9%86%D8%B8%D9%8A%D9%85%D9%8A%D8%A9-%D9%84%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%83%D9%8A%D9%81-%D8%AA%D8%AA%D8%AC%D8%A7%D9%88%D8%B2-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B1%D9%83%D8%A9-%D8%AE%D8%B3%D8%A7%D8%B1%D8%A9-%D9%82%D9%8A%D8%A7%D8%AF%D8%A7%D8%AA%D9%87%D8%A7

3 https://www.aljazeera.net/politics/2024/10/18/%D9%85%D8%A7-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%AD%D9%85%D8%A7%D8%B3-%D9%88%D8%AC%D9%86%D8%A7%D8%AD%D9%87%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B3%D9%83%D8%B1%D9%8A-%D8%A8%D8%B9%D8%AF

4 https://www.youm7.com/story/2024/10/17/%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%88%D8%A7%D8%A1-%D8%A5%D8%A8%D8%B1%D8%A7%D9%87%D9%8A%D9%85-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%BA%D8%AA%D9%8A%D8%A7%D9%84-%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%A9-%D9%84%D8%A7-%D9%8A%D8%B9%D8%AA%D8%A8%D8%B1-%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%A7-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D9%86%D8%B3%D8%A8%D8%A9/6745261

5 https://www.alahednews.com.lb/article.php?id=75217&cid=185

6 https://urdu.khamenei.ir/news/7744

 
 

، اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین کے خلاف صہیونی جارحیت کے بعد، جبکہ یورپی ممالک نے یا تو خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا اسرائیل کی اپارتھائیڈ ریاست کا ساتھ دے رہی ہیں، دنیا بھر سے اسرائیل کی اس حرکت پر مذمتی پیغاموں کا سلسلہ جاری ہے۔

دنیا بھر کے ممالک، حکومتی دہشت گردی سے عاری دنیا کے خواہاں

حکومت یمن

یمن کی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اعلی کے خلاف صہیونی اقدام کے خلاف مسلم امہ اور عرب دنیا کو متحد ہونے کی اپیل کی۔ یمن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کا یہ اقدام پورے علاقے پر جارحیت کے مترادف ہے۔

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن کی حکومت ایرانی عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی جو فلسطین اور لبنانی عوام اور ان کے حقوق کے دفاع کے لیے صہیونی حملوں کی زد میں آئے ہیں۔

مصر

مصر کی وزارت خارجہ نے اپنے باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ ہر اس اقدام کی مذمت کی جاتی ہے جس سے علاقے کی سیکورٹی اور استحکام متاثر اور جھڑپوں میں اضافہ ہو۔ مصر کی وزارت خارجہ نے علاقے اور دنیا کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنے والے ہر جھڑپ کے سلسلے میں بھی خبردار کیا۔

اردن

اردن کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونی جارحیت کو، تہران کے اقتدار اعلی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اردن کی وزارت خارجہ کے بیان میں ایران پر صہیونیوں کے جارحانہ حملے کو ایک خطرناک اقدام قرار دیا گیا ہے جس سے علاقے میں موجودہ کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔

سعودی عرب

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونی ریاست کے ناجائز حملے کی مذمت کی اور اسے ایران کے اقتدار اعلی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

قطر

قطر کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونیوں کی فوجی جارحیت کی مذمت کی اور ایک باضابطہ بیان بھی جاری کیا۔ اس بیان میں خطے میں کشیدگی بڑھنے کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی اور تمام فریقوں سے درخواست کی گئی کہ صبر و تحمل سے کام لیں۔

متحدہ عرب امارات

متحدہ عرب امارات نے خلیج فارس کے اطراف کے دیگر ممالک کی طرح ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی۔

سوئٹزرلینڈ

سوئٹزرلینڈ کی وزارت خارجہ نے ایکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری ہونے والے اپنے بیان میں ہفتے کی صبح ایران پر ہونے والی صہیونی جارحیت کی مذمت کی اور کشیدگی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

کویت

کویت کی وزارت خارجہ نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور زور دے کر کہا کہ اس حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ تل ابیب اپنی جارحانہ پالیسی اور خطے کے ملکوں کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کے ذریعے علاقے میں خلفشار پھیلانا چاہتا ہے۔

ملائیشیا

ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے ایران پر صہیونی حملے پر میں مذمتی بیان جاری کیا۔ ملائیشیا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: ہفتے کی صبح کو ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اسے بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور علاقے کے استحکام کے لئے سنجیدہ خطرہ قرار دیتے ہیں۔

عمان

عمان کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کا یہ اقدام ایران کے اقتدار اعلی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور حالات کو مزید کشیدہ کرنے اور تشدد جاری رکھنے کی کوشش ہے اور ان حرکتوں سے علاقے مین قیام امن اور سفارتکاری کی کوششیں ناکام رہ جائیں گی۔

شام

شام کی وزارت خارجہ نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت کو قابل مذمت قرار دیا اور کہا کہ صہیونیوں نے ایران اور شام کے اقتدار اعلی اور دونوں ممالک کی ارضی سالمیت اور حرمت کو پامال کیا اور بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کو کچل کر رکھ دیا۔

پاکستان

پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان میں اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی گئی اور اسے عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کے جرائم کو روکنے کے لیے عملی قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

عراق

عراق کی حکومت کے جاری کردہ بیان میں صہیونی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے شانہ بشانہ ڈٹے رہنے کا اعلان کیا گیا۔

لبنان

لبنان کی وزارت خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صہیونی جارحیت کو ناقابل قبول اور لائق مذمت قرار دیا۔

افغانستان

افغانستان کی طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے غاصب اسرائیلیوں کے حملے کی مذمت کی گئی اور اسے علاقے میں کشیدگی پھیلانے کی کوشش قرار دیا گیا۔

روس

روس کی وزارت خارجہ نے ایران کے خلاف صہیونی ریاست کے جارحانہ حملے کو ناقابل قبول قرار دیا۔ روس کے بیان میں آیا ہے کہ ایران کو اشتعال دلانے کی کوششوں کا خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح کی کوششیں علاقے کے امن و استحکام کے لیے سنجیدہ خطرہ ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا بھر کی سیاسی شخصیات نے بھی ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی ہے۔

پاکستانی قومی اسمبلی کے اسپیکر

پاکستان کی پارلیمنٹ اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے صہیونیوں کے جارحانہ رویے اور تسلط پسندی کی علامت قرار دیا جس نے علاقے کے استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی جارحیت کی مذمت کی۔ انہوں نے علاقے میں کشیدگی بڑھنے کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان امن اور سلامتی کی خاطر ایران کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

عمان کے وزیر خارجہ

عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسعیدی نے بھی صہیونیوں کی غاصبانہ پالیسی کے خلاف عالمی قدم اٹھانے پر زور دیا۔

عراق کے سید عمار حکیم

عراق کی حکمت ملی تحریک کے سربراہ سید عمار حکیم نے کہا ہے کہ عالمی برادری صہیونیوں کے جارحانہ رویے کو جو بین الاقوامی منشور اور اصولوں کے خلاف ہے، مل کر روکنے کی کوشش کرے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری پیغام میں لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین پر (غاصب) اسرائیلیوں کا حملہ، افغانستان کے ہمسایہ اور برادر ملک کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہے۔

عراقی صدارتی دفتر

عراق کے صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں صہیونیوں کے اس اقدام کو بین الاقوامی قوانین اور ملکوں کے اقتدار اعلی کی کھلی خلاف ورزی اور علاقے میں بدامنی پھیلانے کے مترادف قرار دیا گیا۔

عراقی صدر تحریک

عراق کی صدر تحریک کے سربراہ سید مقتدا صدر نے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ صہیونیوں کی یہ جارحیت اتنی کمزور تھی کہ اس کے نتیجے میں یہ ریاست اور اس کے حامی حیرت زدہ اور پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔

فلسطین کی مقاومتی کمیٹیاں

فلسطین کی مقاومتی کمیٹیوں نے باضابطہ بیان جاری کرکے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کیا۔ اس بیان میں غاصب اسرائیلیوں کے اس حملے کو صہیونی- امریکی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران کے وعدہ صادق کارروائیوں کے بعد صہیونی بری طرح پریشان، آشفتہ حال اور وحشت زدہ ہوگئے تھے اور یوں انہوں نے اس جارحیت کا ارتکاب کیا جو کہ شکست سے دوچار ہوئی اور تل ابیب کی کمزوری اور دفاعی بے بسی پردہ پہلے سے زیادہ چاک ہو گیا۔

حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس"

حماس تنظیم نے صیوہنیوں کے اس اقدام کو شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے ایران کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کو متاثر کرنے اور علاقے میں بدامنی کی آگ بھڑکانے کے مترادف قرار دیا۔

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین

عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین نے اپنے بیان میں کہا ہے: ہم ایران کے دفاع کے حق اور صہیونیوں کو سزا دینے کے حق، کی حمایت کرتے ہیں۔ صہیونی ریاست کو اپنے اہداف کے حصول میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اپنے اور علاقے کی عوام کے دفاع کے لیے ایران کی پوزیشن کو اور بھی مضبوط کردیا ہے۔

تحریک انصار اللہ یمن

یمن کی انصاراللہ تحریک نے فلسطین کی حمایت میں ایران کے ثابت قدم ہونے کو سراہا اور غاصب اسرائیلیوں کے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

مغرب کا منافقانہ رویہ

دوسری جانب سے مغربی حکومتوں کے موقف پر سوالیہ نشان اٹھتا جا رہا ہے جو ایک جانب انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی پابندی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں لیکن میدان عمل میں ظالم، جارح اور مجرم ریاستوں اور ٹولوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

برطانیہ

ان میں سے ایک برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر ہے جس نے دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی اور ایران سے اس حملے پر ردعمل ظاہر نہ کرنے کی اپیل کی جبکہ وہ اس حملے سے پہلے صہیونیوں کے جارحانہ منصوبوں پر خاموش رہا یا پہلے کی طرح ان کا ہاتھ بٹاتا رہا۔

فرانس

فرانس کی وزارت خارجہ نے صہیونیوں کی جارحیت کی مذمت کئے بغیر، تہران کی جانب صبر کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

یورپی یونین

یورپی یونین کی ترجمان برائے خارجہ امور نبیلہ مسرالی نے صہیونی جارحیت کی مذمت کیے بغیر، تمام فریقوں سے صبر و تحمل کے مظاہرے کی درخواست کی اور صہیونی جارحیت کو محض "جوابی حملہ" قرار دیا۔

جب صلیبی جنگوں میں اہل مغرب اسلام اور مسلمانوں سے روبرو ہوئے اور انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اسلامی دنیا میں علم کی ترقی سے آشنا ہوئے تو انہیں بہت حیرت ہوئی اور یہی سامنا مغربی تہذیب کی ترقی کا باعث بھی بنا۔ انہوں نے اسلام اور مشرقی دنیا سے مختلف قسم کے علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی استعماری خصلت کے باعث غیر مغربی سرزمینوں پر تسلط اور قبضہ جمانے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ مغربی دنیا نے ایک طرف اپنی پسماندگی کی وجہ کلیسا کو قرار دیا اور ہیومن ازم اور سیکولرازم کو فروغ دیا جبکہ دوسری طرف مشرقی دنیا، خاص طور پر اسلامی تہذیب سے حاصل ہونے والے علوم کو مزید ترقی دے کر غیر عرب سرزمینوں پر استعماری تسلط پیدا کرنے کے گوناگون ہتھکنڈے فراہم کیے۔ مغربی دنیا میں ہیومن سائنسز سے لے کر سائنس اور ٹیکنالوجی تک اکثر علوم کی ترقی اسی استعماری سوچ اور نگاہ سے انجام پائی ہے۔
 
مثال کے طور پر، ہیومن سائنسز کے اینتھروپولوجی اور مشرق شناسی جیسے شعبوں میں اصل مقصد غیر مغربی معاشروں کو اپنا مطیع بنانا تھا جبکہ فوجی اور میڈیا شعبوں میں میں ترقی کا مقصد بھی مختلف ممالک اور قوموں پر استعماری تسلط قائم کرنا تھا۔ پوری جرات سے کہا جا سکتا ہے اور تحقیق بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر آج مغربی تہذیب خود کو اقتصادی لحاظ سے غنی اور سیاسی لحاظ سے طاقتور تہذیب محسوس کرتی ہے تو یہ سب کچھ دیگر قوموں کا خون چوس کر اور انہیں لوٹ کر حاصل کیا گیا ہے۔ دنیا کی مظلوم قوموں کی قتل و غارت سے لے کر ان قوموں کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار تک۔ مغربی تاریخ خون ریزی اور قتل و غارت سے بھری پڑی ہے۔ صلی جنگوں میں دسیوں لاکھ مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر امریکہ میں لاکھوں سرخ پوست انسانوں کی نسل کشی اور افریقہ میں دسیوں لاکھ افراد کو غلام بنا کر ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار۔
 
حقیقت یہ ہے کہ غیر مغرب قوموں کی تاریخ کا بڑا حصہ، مغربی طاقتوں کی جانب سے ان کی قتل و غارت اور لوٹ مار، نیز مغربی طاقتوں کے استعماری تسلط کے خلاف آزادی کی تحریکوں پر مشتمل ہے۔ حتی اس بارے میں مختلف علمی حلقوں میں مغربی طاقتوں کی جانب سے دیگر اقوام پر استعماری تسلط جمانے کے لیے بروئے کار لائے گئے مختلف ہتھکنڈوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر علمی تحقیقات بھی انجام پا چکی ہیں اور فرانتز فینن اور ایڈورڈ سعید جیسے متعدد مفکرین اور محققین اس بارے میں مختلف نظریات بھی پیش کر چکے ہیں۔ ظلم و ستم اور مجرمانہ اقدامات سے سرشار تاریخ کے باوجود، مغربی طاقتیں درپیش حالات میں ہمیشہ اپنی غلط اور یکطرفہ تعبیر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ انتہائی منافقت اور فریبکاری سے اپنی اخلاقی اور ثقافتی برتری کا پرچار بھی کرتی رہتی ہیں۔
 
جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کی حمایت جیسے خوبصورت اور دل موہ لینے والے نعرے، اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور عمل کے میدان میں وہ ان نعروں کو دوسروں پر ناجائز تسلط کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر ہم مغرب کے سیاسی ڈھانچوں کا گہرائی میں جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ مغرب میں کبھی بھی حقیقی جمہوریت وجود نہیں رکھتی تھی اور یہ محض ایک دعوا ہے لیکن یہی ہتھکنڈہ دیگر اقوام کو کنٹرول کرنے میں بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کا مسئلہ بھی ایسی حکومتوں کو کمزور کرنے اور دبانے کے لیے محض ایک ہتھکنڈہ ہے جو مغربی طاقتوں کی ہمسو نہیں ہوتیں۔ آج تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ انسانی حقوق کا مسئلہ مغربی حکمرانوں کی نظر میں کوئی اہمیت اور قدروقیمت نہیں رکھتا۔ آج غزہ اور لبنان میں انسانیت سوز جرائم کی تمام حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ ہزاروں بیگناہ بچے اور خواتین بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں۔
 
ہزاروں ٹن مورچہ شکن بم عام عوام اور اسپتالوں پر گرائے جا رہے ہیں۔ غزہ کا گھیراو کر کے لاکھوں بیگناہ انسانوں کو بھوکا رکھ کر انہیں موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر ایسی رژیم حکمفرما ہے جو صبح شام دوسروں کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہے اور خون ریزی سے اس کا دل نہیں بھرتا۔ اس کے باوجود مغربی ممالک نے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں ہلکی سی پریشانی کا اظہار تک نہیں کیا بلکہ پوری طاقت اور بے باکی سے بچوں کی قاتل غاصب صہیونی رژیم کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ دنیا کی مستضعف قوموں کے ہمراہ، مغربی قوموں کا ایک حصہ بیدار ہو چکا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے میں مصروف ہے۔ لیکن اب تک مغربی تہذیب کا ڈھانچہ پوری طرح غاصب صہیونی رژیم کی فوجی، مالی، سیاسی، اخلاقی اور قانونی مدد کرنے میں مصروف ہے جس کے باعث یہ رژیم انسان سوز جرائم جاری رکھے ہوئے ہے۔
 
موجودہ مغربی تہذیب کی بنیاد بیگناہ انسانوں کے خون پر رکھی گئی ہے۔ مغربی تہذیب کی بنیاد سائنس اور ٹیکنالوجی پر نہیں بلکہ استعمار اور لوٹ مار پر استوار ہے۔ مغربی تہذیب کی نظر میں مغربی انسان اور غیر مغربی انسان میں فرق ہے اور وہ علیحدہ طبقے سے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگرچہ غاصب صہیونی رژیم کو شکست ہوئی ہے لیکن اس سے بڑی شکست مغربی تہذیب کو ہوئی ہے۔ شہید یحیی سنوار کی زندگی کے آخری لمحات کے بارے میں وائرل ہونے والی ویڈیو جسے خود صہیونیوں نے جاری کیا ہے، مغرب کی غیر انسانی تہذیب کے خلاف مظلوم قوموں کی جدوجہد کی علامت بن چکی ہے۔ ایک طرف اسلحہ سے لیس فوجی ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے انسانوں کی قتل و غارت میں مصروف ہیں جبکہ دوسری طرف نہتے انسان ہیں جو اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مغربی ایشیا کا آج کا مںظر ایمان اور کفر کی جنگ کا منظر ہے جس میں فتح ایمان کی ہو گی۔

تحریر: حمید رضا نظری