سلیمانی

سلیمانی

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گلگت پاکستان برمس پائن امام بارگاہ قصر زینب سلام اللہ علیہا میں، حسب سابق امسال بھی عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا۔

گلگت؛ عالمی یوم علی اصغر عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا

عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام کی مجلس سے جامعہ الخدیجہ الکبریٰ دنیور کی پرنسپل محترمہ رباب نے خطاب کیا۔

انہوں نے معاشرے میں پھیلتی دشمن کی سازش سمجھنے اور معاشرتی برائیوں پر قابو پانے کے عنوان سے سیر حاصل گفتگو کی اور علی اصغر علیہ السلام کے مصائب پیش کئے۔

عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام کا انتظام، برمس پائن کی خواتین اور مجلسِ وحدت المسلمین گلگت کی سینئر خواتین اراکین کے تعاون سے کیا گیا اور سابقین مجلس وحدت المسلمین گلگت خواہر جنت، خواہر تاج حور، خواہر ریحانہ اور خواہر جمیلہ کی کئی سالوں سے جاری کاوشوں اور انتھک محنت کے بعد، عالمی یوم علی اصغر علیہ السلام کا یہ سلسلہ پورے گلگت میں فروغ پا گیا ہے۔

گلگت؛ عالمی یوم علی اصغر عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا

اصلاح اُمّت کا جو مِشن لے کر امام حسین (علیہ السلام) مدینے سے روانہ ہوئے تھے وہ دسویں محرم سن 61 ھجری کو ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے عالمی سطح کی ایک تحریک اور ظہور امام زمانہؑ تک جاری رہنے والے ایک Movement کی شکل اختیار کرلی- عزاداری اسی Movement اور تحریک کا نام ہے- قیامت تک آنے والی نسلیں جنہیں امام کی آوازِ استغاثہ سنائی دے رہی ہے اور جو یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کی کاش ہَم کربلا میں ہوتے، وہ آج بھی امامؑ كے اِس مِشن اور تحریک کا حصّہ بن سکتے ہیں-

عزاداری کا مقصد وہی ہے جوامام حسینؑ کے مِشن کا مقصد تھا۔ یعنی اصلاحِ اُمّت۔ امامؑ کی وصیّت کی روشنی میں اصلاحِ امّت کے لئے جو طریقئہ کار ہونا چاہئے وہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ یعنی اچھائیوں کی طرف بلانا اور برایئوں سے روکنا۔ اچھایئوں اور برایئوں کا معیار طے کرنے کے لئے ہمیں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی سیرت پر نظر رکھنا ہوگا-

عزاداری ایک ایسی تحریک ہے جس نے صدیوں سے مخالف ہواؤں، ظلم و بربریت کے طوفانوں اور سازشوں کے سیلابوں کے باوجود ہمیں زندہ رکھا، ہماری پہچان کو باقی رکھا، ہمارے دین و ایمان کوسلامت رکھا اور ہمارے حوصلوں کو بلند رکھا- یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے ظاہری اور باطنی شیاطین عزاداری پر حملے کر رہے ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس تحریک کو کمزور کر دیں تاکہ ان کے لئے اصل دین کو ختم کرنا ممکن ہو سکے۔ لہٰذا یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہمیشہ شیاطین کی سازشوں سے چوکننے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ کہیں ہماری عزاداری امامؑ کے مقصد سے دور تو نہیں ہو رہی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ نماز فحش اور لغو باتوں سے دور کرتی ہے۔ اگرہم دیکھیں کہ ہمارے اندر فحش اور بےحیائی کی باتیں پنپ رہی ہیں تو ہمیں اپنی نماز کو چک کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری نماز کا طریقہ رسول اللہؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہ ہو۔ کیا ہم نماز میں وہ شرائط پورے کر رہے ہیں جو اس کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہیں؟ جیسے جیسے ہم اپنی نماز کو بہتر سے بہتر طریقے سے ادا کریں گے ویسے ویسے ہم فحش اور لغو باتوں سے دور ہوتے جائیں گے۔

یہی عزاداری کا بھی معاملہ ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ ہمارے معاشرے میں سدھار آرہا ہے۔ پہلے جتنی خرابیاں پائی جاتی تھیں اب اتنی خرابیاں نہیں رہ گئیں ہیں تو سمجھیں کہ ہم صحیح طریقے سے عزاداری کر رہے ہیں- لیکن اگر اس کے برعکس ہمیں اپنے معاشرے میں پہلے سے زیادہ خرابیاں دکھائی دیں تو ہمیں چک کرنا چاہئے کہ ہم عزاداری کرنے میں کہاں کوتاہی کر رہے ہیں۔

اس بات کو ایک مثال کے ذریعے اور واضح کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً آج کل فضا میں آلودگی اتنی زیادہ بڑہ گئی ہے کہ انسان کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ اس گھٹن کو دور کرنے کے لئے ایک شخص نے اپنے گھر میں ایئر پیوریفایر(Air Purifier) لگایا- جس کی وجہ سے گھٹن کم ہوئی اور اس نے سکون کی سانس لی- لیکن کچھ ہی مہینوں بعد دیکھا کہ پھر سے دم گھٹنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس شخص نے مشین کے جانکار کو بلایا کہ دیکھ کر بتائے کہ مشین کیوں کام نہیں کر رہی ہے۔ شائد اس کا فلٹر(Filter) صاف کرنے کی ضرورت ہو-

اسی طرح اگرہم دیکھیں کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے آلودہ ہو رہا ہے، عقائد فاسد ہو رہے ہیں، اعمال برباد ہو رہے ہیں، اخلاقی معیار گر رہا ہے، بدعتیں پھیلائی جا رہی ہیں، حرام کو حلال سمجھا جا رہا ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، ظالم حکمرانوں کی طرفداری کی جا رہی ہے اور ماحول میں گھٹن محسوس ہو رہی ہو تو ہمیں چک کرنا چاہئے کہ عزاداری کرنے میں ہم سے کہاں کمی ہو رہی ہے؟ ہماری عزاداری ماحول کو آلودگی سے پاک کیوں نہیں کر رہی ہے؟ معاشرے کوpurify کیوں نہیں کر رہی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جانے انجانے میں ہماری عزاداری کا مقصد اصلاحِ امّت کے بجائے کچھ اور ہو گیا ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے عزاداری میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم عزاداری کرنے میں رسول اللہؐ اور حضرت علیؑ کی سیرت کو بھول گئے ہوں؟

کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم اُس طرح سے عزاداری کریں جس طرح معصومینؑ جاہتے ہیں اِس کے باوجود ہمارا معاشرہ ایک مثالی اورideal معاشرہ نہ بنے-

آیئے ہم اپنی عزاداری پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کہاں پر ہم مقصد سے دور جا رہے ہیں- سب سے پہلے ہم شروع کرتے ہیں ایّامِ عزا کی تیاری سے۔ عام طور سے ہم ذی الحجہ کے مہینے سے بلکہ بعض اوقات رمضان المبارک سے محرم کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ بانیانِ مجلس ذاکرین سے بات کرنے اورامامبارگاہوں کی صاف صفائی اور رنگ روغن کروانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، ذاکرین مسوّدہ تیار کرنے میں، شعرا نئے کلام کی فکرمیں، سوزخوان و نوحہ خوان حضرات سلام و نوحوں اور مراثی کے انتخاب اور بیاضیں درست کرنے میں غرض کہ ہر عزادار اپنے اپنے حصے کے کاموں کو خلوص کے ساتھ بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان سب انتظامات میں ہم اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ ہمارا focus مقصد عزا سے ہٹ جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ عزاداری کی تیاری شروع کرنے سے پہلے ہم اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ ہماری مدد کرے کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کسی لمحے مقصدِ عزا سے ہمارا focus نہ ہٹے- پھر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے وعدہ کریں کہ ہم اس سال ایّام عزا سے خود اپنی اصلاح شروع کریں گے، اپنے گھروالوں اور اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی اپنی طاقت بھر پوری کوشش کریں گےـ امام حسینؑ سے کہیں کہ مولا ہم گناہگار ہیں لیکن ہم آپ کی آوازِ استغاثہ پر لبیک کہتے ہیں۔ مولا جس طرح آپ نے جنابِ حُر کو معاف کرکے اپنے مِشن میں شریک کر لیا ہمیں بھی اپنے اس عظیم تحریک کا حصہ بنا لیجئے- اسی طرح امامِ زمانہؑ سے وعدہ کریں کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کو رنج ہو- اُن سے التجا کریں کہ مولا! ہمیں اس لائق بنا دیجئے کہ ہم شہدائے کربلا سے امامِ وقت کی اطاعت کا سلیقہ سیکھ سکھیں اور آپ کے احکام کو حاصل کرنے کے لئے آپ کے نائبین کی طرف رجوع کرسکیں-

اب آیئے ہم چلتے ہیں اُن لوگوں کی طرف جو کسی نہ کسی انداز سے عزاداری میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ مثلاً :
1- بانیانِ مجلس: بانیانِ مجلس کا عزاداری میں بہت ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ اُن کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ذرا سی چوک کی وجہ سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے اس لئے انھیں بہت احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہےـ
(الف) عزاداری کے لئے فنڈ کا انتظام: اگر بانیِ مجلس عزاداری کے اخراجات اپنے جیب سے اٹھا رہا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ مال جائز طریقے سے حاصل کیا ہو اور اس پر خمس باقی نہ ہو۔ اور اگر چندے سے انتظام کیا جا رہا ہے تو امانتداری کا پورا خیال رہے۔ چوری کی بجلی استعمال کرنے سے پرہیز کرے۔
(ب) ذاکر کا انتخاب: ذاکر کے انتخاب میں بعض لوگوں کا معیار یہ ہوتا ہے کہ ذاکر مشہور ہو تاکہ مجمع زیادہ ہو، ذاکر ایسا ہو کہ واہ واہ اور داد و تحسین سے چھتیں اُڑجایئں- ایسی ہی مجلسوں کو کامیاب سمجھا جاتا ہے جہاں مجمع زیادہ ہو اور واہ واہ زیادہ ہو۔ جبکہ ہمیں ایسے ذاکر کا انتخاب کرنا چاہیئے جوعالمِ باعمل ہو، با اخلاق ہو، وعدہ خلافی نہ کرتا ہو، ضروریاتِ دین کے خلاف نہ بولتا ہو، مجلس میں شرکت کرنے والوں کی توہین نہ کرتا ہو، سوالات اور حوالہ پوچھے جانے پر ناراض نہ ہوتا ہو، مراجع کرام کی توہین اور اُن کے احکام کے خلاف نہ بولتا ہو، ذکرِ معصومین اور ذکر کربلا کے ذریعہ اصلاح امّت کی کوشش کرتا ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہو اور سیرتِ معصومین کو سماج میں رائج کرنے کی کوشش کرتا ہو۔
(ج) بعض اوقات تبرک تقسیم کرنے میں دکھاوے، نام و نمود اور دوسروں سے مقابلے کا خیال ذہن میں آجاتا ہے جس سے نیک عمل بھی برباد ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہمیں چاہیئے کہ کوئی بہت خاص اورعجوبی چیز بانٹنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ایسی چیز تقسیم کریں جس طرح کی چیزعام طور سے لوگ مجالس میں تقسیم کرتے ہوں۔ ہاں اہم بات یہ ہے کہ تبرک تقسیم کرنے میں عوام اور خواص میں فرق نہ کریں اور نہ کسی بچّے کو جھڑکیں۔ یہی خیال نذرِ مولا اور حسینی لنگر میں بھی رکھنا چاہیئے کہ عوام اور خواص میں فرق نہ کریں، سب ایک ساتھ ایک دسترخوان پر کھائیں۔ مجلس میں آنے والے سب حضرتِ زہرا سلام اللہ علیہا کے مہمان ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے لئے سب خاص ہیں۔ سب لائق احترام ہیں۔
(د) ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے دوسروں کو اذیت ہو۔ مثلاً ایسا ساؤنڈ باکس لگائیں جس سے صرف عزاخانے کے اندر آواز رہے۔ کسی کی دیوار پر پوسٹرلگانے سے پہلے اس کے مالک کی اجازت لیں، اگر آس پاس کوڑا پھیل گیا ہو تو مجلس کے بعد اسے صاف کروا دیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

2- سوزخوان، نوحہ خوان اور شعراء اہلبیتؑ: نظم کے ذریعہ پیغاماتِ کربلا اور افکارِ معصومینؑ کو نشرکرنا اتنا اہم کام ہے کہ معصومینؑ نے ایسے شعراء کی حوصلہ افزائی کی ہے اور انعامات سے نوازا ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری بھی بہت زیادہ۔ ہمیں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارا کوئی شعر معصومینؑ کی تعلیمات کے خلاف نہ جا رہا ہو۔ دشمنانِ دین کی سازشوں کو کامیاب بنانے میں مددگار نہ ہو رہا ہو۔ امّت کی اصلاح کے بجائے ان کے عقائد کو خراب نہ کر رہا ہو، بے عملی کی دعوت نہ دے رہا ہو۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جنھیں بیان کرنے کے لئے ایک الگ مضمون بلکہ ایک کتابچہ کی ضرورت ہے۔

3- ذاکرینِ اہلبیتؑ: جب بھی کسی حکومت کو کوئی تحریک چلانی ہوتی ہے تو وہ حکومتی سطح پر کروڑوں روپئے خرچ کرتی ہے، اشتہاروں، جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ سب کچھ تھوڑے ہی عرصے تک چلتا ہے۔ اور پھر جب فنڈ ختم ہو جاتا ہے تو لوگوں کا جوش بھی ختم ہو جاتا ہے اور پھرتحریک بھی دم توڑ دیتی ہے۔ لاکھوں سلام ہو جنابِ زینبؑ کی دور بین نگاہوں پرکہ جنھوں نے عزاداری کی بنیاد رکھی۔ لاکھوں درود ہو ائمہِ معصومینؑ پر جنھوں نے عزاداری کو معاشرے میں رائج کیا اور اسے promote کیا۔ ایک ایسا system تیار کیا کہ ظہورامامؑ زمانہ تک نہ تو کبھی فنڈ کی کمی ہو اور نہ عزاداروں کے جوش و خروش اور جذبے میں کبھی زوال آئے۔ حالات کی سختیاں ہوں، ظالم حکونتوں کی ستم آرائیاں ہوں، دہشت گردوں کی بمباریاں ہوں یا کوئی اور مصیبت، سلسلئہ عزا کبھی کمزور ہوتا ہوا نہیں دکھائی دیا بلکہ جیسے جیسے مشکلیں بڑھتی گیئں عزاداروں کا جوش اور ولولہ بھی بڑھتا گیا۔ تحریک عزا اور پائیدار ہوتی رہی۔ اس سسٹم میں بانیانِ مجلس فنڈ کا انتظام کرتے ہیں، عزاداروں کو اکٹھا کرتے ہیں، تبرک کا اہتمام کرتے ہیں، ذاکرین کی زاد راہ اور نذرانے کا بند و بست کرتے ہیں اور فرش بچھا کر منبر کو ذاکرین کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ اب معصومینؑ کی تعلیمات اور پیغاماتِ کربلا نشر کریں۔ لیکن اگر کوئی ذاکراپنی ذمہ داری کو بھول جائے اور منبر سے ایسے نظریات پیش کرے جو معصومینؑ کی تعلیمات کے خلاف ہوں تو پھر اس سے ہونے والے نقصانات کی تلافی ممکن نہیں- اگر ہم نے منبر سے کوئی غلط نظریہ پیش کردیا اور بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ہو سکتا ہے کہ توبہ و استغفار کے بعد اللہ معاف کر دے لیکن اپنی غلطی کی تلافی کے لئے ایسے سیکڑوں لوگوں کو ہم کہاں تلاش کریں گے جن کے ذہنوں میں ہماری وجہ سے غلط نظریات بیٹھ گئے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں علماء کے لباس میں بہت سے ایسے لوگ آگئے ہیں جو منبر سے اصلاح کرنے کے بجائے باطل نظریات اور فاسد عقائد پیش کر رہے ہیں- عوام کی کم علمی کا فائدہ اٹھا کراپنی لفاظیوں سے انھیں مرعوب کرلیتے ہیں۔ ان کے خلوص اور محبت کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوے انھیں معصومینؑ کے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے سنجیدہ، ذمہ دار، مخلص اور باعمل علماء معاشرے کی اصلاح کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کئے رہتے ہیں تو دوسری طرف غیر ذمہ دار نام نہاد علماء و ذاکرین ان کی کوششوں پر پانی پھیرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اصلاحِ اُمّت کا کام یقیناً بہت بڑا challenge ہے۔ اس رکاوٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ذمہ دار اور سنجیدہ علماء مل کر معاشرے کا جائزہ لیں، سماج میں جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے لائحئہ عمل تیار کریں۔ ہرسال کسی ایک برائی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایئں اوراس کے لئے ایک منظم تحریک چلائیں۔ صرف منبر سے نہیں بلکہ زمینی سطح پر اتر کے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کریں، ہرعلاقے میں باعمل ذاکرین، سنجیدہ شعراء، سمجھدار بانیانِ مجالس، انجمنوں کے بیدار اراکین کی ٹیم تیار کریں اور ان کی رہنمائی کریں اور ان کے ساتھ مل کر اس راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ یقیناً یہ کام مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ جیسے جیسے لوگوں کی نگاہوں میں حق واضح ہوتا جائے گا لوگ خود بہ خود اہل حق کو پہچاننے لگیں گے۔ ماحول خراب کرنے والوں کے چہرے سے بھی نقاب ہٹ جائے گی۔ اللہ خیرالماکرین ہے۔ وہ سازش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔

4- ماتمی انجمنیں: نوجوانی کا زمانہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان سب سے زیادہ کام کر سکتا ہے۔ اگر نوجوان باعمل اور نیک ہوں تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور اگر نوجوان بگڑ جائیں تو قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں محبتِ اہلبیتؑ کی شمع روشن ہے۔ اہلبیتؑ کے لئے اپنی جان بھی دینا پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ زمانہ گواہ ہے کہ جب بھی ہمارے نوجوان مراجع کرام اورعلماء حق کی رہنمائی میں آگے بڑھتے ہیں وہ بڑے بڑے انقلاب لے آتے ہیں۔ عزاداری میں بھی ہمارے نوجوان بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔ بس ضرورت ہے تو مراجع کرام اور علماء حق کی رہنمائی میں منظم ہونے کی۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شہرمیں سیکڑوں یا ہزاروں نوجوان علماء حق کی سر پرستی اور رہنمائی میں منظم طریقے سے دو مہینے آٹھ دن حسینیت کی تبلیغ کریں اس کے بعد بھی شہر میں کوئی شخص واقعئہِ کربلا سے نا واقف ہو؟ ہم جلوس میں خود ہی نوحے پڑھتے ہیں اور خود ہی سمجھتے ہیں۔ کیا ہمارے جلوس کے قریب سے گزرنے والوں تک حسینیت کا کوئی پیغام پہنچتا ہے؟ غیروں کی کیا بات کی جائے خود ہمارے بچّے تعلیمات کربلا سے کتنا واقف ہیں اگر پوچھا جائے توشائد افسوس ہو۔

بہت دیرہوچکی ہے مزید تاخیرمناسب نہیں ہے۔ ہمیں پلان (plan) کرنا ہوگا کہ کس طرح سے ہم کربلا کا پیغام گھر گھر پہنچائیں۔ پلیکارڈ (placard)کے ذریعے، پوسٹرس(posters) اور ہورڈنگس (hoardings)کے ذریعے، لٹریچر(literature) تقسیم کر کے، فلاحی کاموں کے ذریعے، جلوسوں میں ڈیسیپلین(discipline) اور اچھے اخلاق اور انسانیت کا مظاہرہ کر کے ہمیں حسینیت کا پیغام دوسری قوموں تک پنہچانا ہوگا۔
ایامِ عزا اپنے اندر نصرتِ امامؑ کا جذبہ بیدار کرنے کا زمانہ ہے۔ مجالس میں بیٹھ کرعلماء کا بیان غور سے سنیں۔ اگر کوئی بات نہ سمجھ میں آئے تو پوچھیں۔ مجلس کے دوران باہر کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے والوں کو ادب کے ساتھ فرش عزا پر بیٹھنے کے لئے کہیں۔ خود اپنی بھی اصلاح کریں اور اپنے بھایئوں کو بھی اچھے انداز سے نیکی کی دعوت دیں اور برائی سے روکیں۔

سوا دو مہینے عزاداری کے ذریعے ہم نے اپنی فکروں کو پاک کیا، دِلوں کی مَیل کو صاف کیا، روح کو طاہر کیا اورغفلتوں سے بیدار ہوے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ایامِ عزا کے بعد ہم سال کے باقی دنوں میں پھر سو جائیں؟ نہیں، ہمیں اپنے مولا کے لئے کام کرنا ہے تمام انجمنوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ ایامِ عزا میں بھی اور اس کے بعد بھی نیک کاموں میں ایک دوسرے تعاون کریں۔ ایامِ عزا کے بعد معاشرے کی مشکلوں کو حل کرنے کے لئے پروگرام بنائیں اوراس پرعمل کریں۔ ہرانجمن آپس میں کام تقسیم کر لے۔ مثلاً کوئی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کام کرے تو کوئی قوم کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے۔ کوئی سماجی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اٹھے تو کوئی دوا اورعلاج کی دشواریوں کو آسان بنانے کے لئے۔ غرض کہ معاشرے میں نہ جانے کتنی ایسی مشکلیں ہیں جن کے لئے ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہماری قوم کے نوجوان اٹھیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ صرف نظم و ضبط اور پلانگ (planning) کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اصلاح امّت اور مقصدِ کربلا کا ایک حصہ ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ یا اللہ تجھے امام حسین علیہ السلام کا واسطہ، ان کی مصیبتوں کا واسطہ، ان کی قربانیوں کا واسطہ کہ ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم امام مظلومؑ کے مقصد اور مشن کے لئے اس طرح سے کھڑے ہو سکیں کہ امامِ زمانہؑ ہمارا شمار اپنے ناصروں میں کر لیں۔

تہران: ڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی پر ایران میں ڈنمارک کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرلیا گیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق کوپن ہیگن میں قرآن کی بےحرمتی پر احتجاج کیلئے ڈنمارک کے سفیر کو طلب کیا گیا۔ ڈنمارک میں عراقی سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کی بےحرمتی کا واقعہ گزشتہ روز ہوا تھا۔


اتحاد اور وحدت کا موضوع ایک ایسا حساس اور اہم ترین موضوع ہے کہ موجودہ دور میں جس پر جتنی زیادہ لب کشائی اور تحریر کیا جائے تو کم ہے۔ اتحاد حقیقت میں کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ بنی نوع انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ سے اتحاد کا عنصر موجود رہا ہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ جب بھی عالم اسلام یا مسلمانوں کے مابین اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو کچھ مقامات سے ایسی آوازیں بلند کی جاتی ہیں کہ جن کا مقصد اس اتحاد کی ضرورت کو کمزور یا غیر ضروری شمار کرنا ہوتا ہے۔ یعنی بعض مخالف قوتیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی حکومتیں شامل ہیں، ہمیشہ سے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو سبوتاژ کرنے اور اس امر میں مانع ہونے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ سے اس موضوع پر مختلف حیلے بہانوں سے حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ یعنی مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مغربی دنیا کی تمام ظالم و سفاک حکومتیں جو کفر کے نظام پر قائم ہیں، سب کی سب آپس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔

مثال کے طور پر جب بھی مسلم معاشروں میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مسلم دنیا کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مغربی دنیا کی حکومتیں مسلمانوں کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہوئے اپنے ذرائع ابلاغ پر مسلم دنیا کے اتحاد کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کر دیتی ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کی جانب سے فلسطین کے لئے اتحاد ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے، جو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔اسی طرح اگر مزید دقت کے ساتھ تحقیق کی جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اتحاد کبھی بھی مسلم دنیا کے لئے ایک سیاسی حکمت عملی یا وسیلہ نہیں رہا بلکہ اتحاد ہمارے ایمان اور اعتقاد کا ایک فراموش شدہ حصہ ہے، جسے مسلم دنیا کو تلاش کرنا ہے۔

اگر مسلم معاشروں کے اتحاد کی مثالیں تلاش کریں تو ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ ہمیشہ ہر مسلک کے علماء کا آپس میں باہمی ربط قائم رہا ہے اور یہی حقیقت میں اتحاد کی عملی شکل ہے۔ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء نے ہمیشہ اتحاد کو اعتقاد کے طور پر آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اسلامی معاشروں میں اختلاف دراصل اسلامی تعلیمات اور عقل و فطرت کے خلاف ہے، جبکہ اتحاد اور وحدت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور عقل و فطرت ہیں۔ اتحاد کی حقیقت کو مزید سمجھنے کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیائے کفر جو کہ عالم اسلام سے ہر محاذ پر نبردآزما ہے۔دنیائے کفر کا سب کچھ باطل پر محیط ہے۔ لیکن یہ عالم کفر ایک نقطہ پر متفق ہیں اور وہ نقطہ کیا ہے؟ وہ نقطہ یہ ہے کہ عالم اسلام کو نقصان پہنچایا جائے، عالم اسلام کو تفریق کرکے ان پر حکومت قائم رکھی جائے۔

جیسا کہ حال ہی میں ہم دنیا کے مختلف گوش و کنار میں یہ سب حقیقت میں ملاحظہ اور تجربہ بھی کر رہے ہیں، یہی عالم کفر کا مقصد ہے۔ یہی عالم کفر باطل پر ہونے کے باجود آپس میں متحد ہے۔ یعنی اتحاد کے ساتھ ہے، کیونکہ انہوں نے اتحاد اور وحدت کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔ دوسری طرف عالم اسلام ہے کہ جو سو فیصد حق پر ہے، لیکن متحد نہیں ہے۔ یعنی عالم اسلام نے حق پر ہونے کے باجود بھی اتحاد کو اہمیت نہیں دی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عالم کفر نے فلسطین پر تسلط قائم کر لیا، افغانستان میں قتل عام کیا، عراق میں انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں، کشمیر خون رو رہا ہے، یمن میں آگ و خون کی بارش کی گئی، نیجیریا، لیبیا، شام، لبنان، مصر اور نہ جانے کتنے ہی ایسے علاقے ہیں کہ جہاں عالم کفر نے باطل پر متحد ہونے کے نتیجہ میں عالم اسلام کو مسلسل نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

اس کے برعکس جہاں جہاں بھی عالم اسلام نے اتحاد کی حقیقت کو درک کیا اور متحد ہو کر مسائل کا سامنا کیا، وہاں کی صورتحال تبدیل ہوگئی۔ فلسطین ہمارے سامنے ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ جس کی خاطر دنیائے اسلام باہمی متحد ہے اور کم سے کم مزاحمت سے تعلق رکھنے والے گروہوں کی بے مثال وحدت نے آج غاصب اسرائیل کو شکست کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسی لئے ہم بارہا کہتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت کوئی سیاسی مفادات حاصل کرنے کی حکمت عملی نہیں ہے، بلکہ حق کے راستے پر چلنے اور عالم کفر کے مقابلہ پر نبردآزما رہنے کی حقیقت کا نام ہی اتحاد اور وحدت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اتحاد ایک بنیادی کنجی ہے، جسے ہمارے اسلامی معاشروں میں ترجیح حاصل ہونی چاہیئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اپنے معاشروں میں اتحاد کو فروغ دینا چاہیئے۔ اپنی آئندہ نسلوں کو بتانا چاہیئے کہ اتحاد ہمارے اعتقاد کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کی خاطر جدوجہد کریں اور اس کو قائم کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 
 
 

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای نے سویڈن میں قرآن کریم پر حملے کی بزدلی کو ایک تلخ، سازشی اور خطرناک واقعہ قرار دیا ہے۔ سوئیڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف اپنے احتجاجی بیان میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ سوئیڈن میں قرآن مجید کی شان میں جسارت، ایک تلخ حادثہ، سازش اور خطرناک واقعہ ہے، اس طرح کی حرکت کرنے والے کیلئے سارے علماء اسلام کا اتفاق ہے کہ اس کو شدید ترین سزا ملنی چاہیئے، سوئیڈن کی حکومت کو بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ مجرم کی حمایت کرکے اس نے عالم اسلام کے خلاف جنگی مؤقف اختیار کیا ہے اور مسلم اقوام اور ان کی کئی حکومتوں کی نفرت اور دشمنی کو اپنی طرف راغب کیا ہے، اس حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مجرم کو اسلامی ممالک کے قانونی اداروں کے حوالے کرے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ پس پردہ سازش کرنے والے یہ جان لیں قرآن کی حرمت اور شان و شوکت ہر دن زیادہ سے زیادہ بڑھ رہی ہے اور اس سے نکلنے والے ہدایت کے انوار اور زیادہ نورانی ہو رہے ہیں، اس طرح کی سازشیں اور اس کو انجام دینے والے قرآن کی نورانیت کے سامنے انتہائی حقیر اور پست ہیں۔

عدلیہ میں اصلاحات پر مبنی بل کی منظوری نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقبوضہ فلسطین میں شدید عوامی احتجاج اور مظاہروں کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ ہفتہ 15 جولائی 2023ء کے دن مسلسل 28 ہفتے سے برپا ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ رپورٹس کے مطابق اس ہفتے منعقد ہونے والے مظاہروں میں لاکھوں صیہونیوں نے شرکت کی۔ مظاہرین شدت پسند حکمران کابینہ کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کے فیصلے کی مخالفت کا اعلان کر رہے تھے۔ حکومت مخالف رہنماوں نے اگلے ہفتے منگل کے دن کو "یوم قیامت" کا نام دے رکھا ہے۔ اگرچہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعوی کیا ہے کہ عدالتی اصلاحات پر مبنی بل کا مقصد عدلیہ کو کمزور کرنا نہیں لیکن مخالفین اسے قبول کرنے سے انکاری ہیں اور بدستور احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 
اگرچہ گذشتہ کچھ ہفتوں سے اس احتجاج کی شدت میں کچھ حد تک کمی واقع ہوئی تھی لیکن اب کابینہ میں اس بل کی منظوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور عوامی احتجاج اور مظاہرے ایک بار پھر شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس ہفتے بھی معمول کے مطابق ہفتہ کی رات مظاہرین سڑکوں پر آئے اور نیتن یاہو اور اس کی شدت پسند کابینہ کی جانب سے عدلیہ میں اصلاحات کی مخالفت کا اظہار کیا۔ صیہونی اخبار ہارٹز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دسیوں ہزار مظاہرین تل ابیب کی کیپلان روڈ پر جمع ہوئے اور نیتن یاہو اور اس کی پالیسیوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ پولیس کی مداخلت پر مظاہرین اور پولیس میں تصادم پیش آیا اور تشدد آمیز اقدامات دیکھنے میں آئے۔ صیہونی فوج کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف دانی ہالوتس نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔
 
دانی ہالوتس نے بنجمن نیتن یاہو کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہر گز پائلٹس کی وفاداری کو آزمانے کی کوشش نہ کرے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے پیرس چوک بند کر دیا جس کے باعث اس علاقے میں ٹریفک کی لمبی لائنیں لگ گئیں۔ مزید برآں، مقبوضہ فلسطین کی کئی اور سڑکیں بھی مظاہرین کے ہاتھوں بند کر دی گئیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس ہفتے مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ ہفتے حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔ نیوز ویب سائٹ والا شمار کے مطابق تل ابیب کی کیپلان روڈ پر مظاہرین کی تعداد 1 لاکھ 90 ہزار کے قریب تھی۔ اسی طرح دیگر شہروں اور علاقوں میں بھی تقریباً 2 لاکھ افراد نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی ہے۔
 
ان مظاہروں میں کئی سابق حکومتی عہدیدار بھی شریک تھے۔ صیہونی رژیم کے اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہماری کابینہ انتہائی نامعقول ہے۔" ایک اور حکومت مخالف رہنما پروفیسر شیکما بریسلر نے بھی تقریر کرتے ہوئے کہا: "اگر نیتن یاہو کی کابینہ اسی طرح اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے پر اصرار کرتی رہے تو اگلے ہفتے منگل کے دن تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے منعقد کریں گے۔" اس کے بقول اگلے دس دن ملک کی تاریخ میں اہم ترین دن ثابت ہوں گے۔ مظاہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگلے ہفتے منگل کا دن اسرائیل کیلئے "یوم قیامت" ثابت ہو گا۔ صیہونی اخبار ہارٹز کے مطابق حکومت مخالف عناصر اپنے مظاہروں کو ملک جام کرنے کی حد تک شدت دینا چاہتے ہیں تاکہ یوں کابینہ کو دباو میں لا کر عدلیہ میں اصلاحات کے بل کو واپس لینے پر مجبور کر سکیں۔
 
ہارٹز کے مطابق صیہونی رژیم میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے اور توقع کی جا رہی ہے آئندہ ہفتے تک صیہونی فوجیوں کی مزید تعداد اس ہڑتال میں شرکت کرے گی۔ اسی طرح کچھ بڑی ورکرز یونینز اور کمپنیوں نے بھی ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے عدلیہ میں اصلاحات پر مبنی بل پہلے مرحلے میں کابینہ میں منظور کر لیا گیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں بہت جلد صیہونی پارلیمنٹ کینسٹ میں پیش کیا جائے گا۔ مقبوضہ فلسطین میں حکومت مخالف صیہونیوں نے اگلے ہفتے پیر کے دن تک اپنی احتجاجی سرگرمیاں بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس مدت میں متنازعہ بل پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ دوسری طرف حکومت مخالف رہنما ملک گیر ہڑتال کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔ ان کے بقول آنے والے دنوں میں ملک بھر میں بڑی بڑی کمپنیوں اور اداروں کو ہڑتال میں شامل کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔
 
صیہونی حکمرانوں نے فوج میں نافرمانی اور بغاوت کے آثار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صیہونی رژیم نے حالات کنٹرول کرنے کیلئے ایک نفسیاتی ہتھکنڈہ بھی استعمال کیا ہے اور ان دنوں مسلسل حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے بارے میں ڈاکیومنٹریز نشر کی جا رہی ہیں جبکہ حزب اللہ لبنان کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔ صیہونی رژیم کے سکیورٹی سربراہان حزب اللہ لبنان کو خطرہ قرار دے کر اس کی فوجی صلاحیتوں کو بیان کر رہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر صیہونی فوج کمزور ہوئی تو حزب اللہ لبنان مقبوضہ علاقوں پر حملہ ور ہو جائے گی۔ دوسری طرف حکومت مخالف قوتوں نے اسے حکومتی پروپیگنڈہ قرار دے کر صیہونیوں کو اس پر توجہ نہ دینے کی ہدایت کی ہے

تحریر: فاطمہ محمدی

واضح ہو کہ محرم کا مہینہ اہلبیت علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کے لئے رنج و غم کا مہینہ ہے ۔امام علی رضا ـسے روایت ہے کہ جب ماہ محرم آتا تھا تو کوئی شخص والد بزرگوار امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو ہنستے ہوئے نہ پاتا تھا ،آپ پر حزن و ملال طاری رہا کرتا اور جب دسویں محرم کا دن آتا تو آہ وزاری کرتے اور فرماتے کہ آج وہ دن ہے جس میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا ۔
پہلی محرم کی رات
سید نے کتاب اقبال میں اس رات کی چند نمازیں ذکر فرمائی ہیں :
(١)سورکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ توحید پڑھے :
(٢)دورکعت نماز جس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ انعام اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ یاسین پڑھے :
(٣)دو رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد گیارہ مرتبہ سورئہ توحید پڑھے :
روایت ہوئی ہے کہ رسول خدا ۖنے فرمایا کہ جو شخص اس رات دو رکعت نماز ادا کرے اور اس کی صبح جو کہ سال کا پہلا دن ہے روزہ رکھے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو سال بھر تک اعمال خیر بجا لاتا رہا ،وہ شخص اس سال محفوظ رہے گا اور اگر اسے موت آجائے تو وہ بہشت میں داخل ہو جائے گا ،نیز سید نے محرم کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک طویل دعا بھی نقل فرمائی ہے۔
پہلی محرم کا دن
اسلامی سال کا پہلا دن ہے اس کے لئے دو عمل بیان ہوئے ہیں ۔
(١)روزہ رکھے،اس ضمن میں ریان بن شبیب نے امام علی رضا ـسے روایت کی ہے ۔ کہ جو شخص پہلی محرم کاروزہ رکھے اور خدا سے کچھ طلب کرے تو وہ اس کی دعا قبول فرمائے گا ،جیسے حضرت زکریا ـکی دعا قبول فر مائی تھی ۔
(٢)امام علی رضا ـسے روایت ہوئی ہے کہ حضرت رسول ۖپہلی محرم کے دن دو رکعت نماز ادا فرماتے اور نماز کے بعد اپنے ہاتھ سوئے آسمان بلند کر کے تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے تھے :
اَللّٰھُمَّ َنْتَ الْاِلہُ الْقَدِیمُ، وَھذِہِ سَنَة جَدِیدَة، فَسَْلُکَ فِیھَا الْعِصْمَةَ مِنَ الشَّیْطانِ
اے اللہ! تو معبود قدیمی ہے اور یہ نیا سال ہے جو اب آیا ہے پس اس سال کے دوران میں شیطان سے بچاؤ کا سوال کرتاہوں اس
وَالْقُوَّةَ عَلَی ھذِہِ النَّفْسِ الْاََمَّارَةِ بِالسُّوئِ وَالاشْتِغالَ بِما یُقَرِّبُنِی ِلَیْکَ یَا کَرِیمُ،
نفس پر غلبے کا سوال کرتا ہوں جو برائی پر آمادہ کرتا ہے اور یہ کہ مجھے ان کاموں میں لگا جو مجھے تیرے نزدیک کریں اے مہربان
یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ یَا عِمادَ مَنْ لا عِمادَ لَہُ یَا ذَخِیرَةَ مَنْ لا ذَخِیرَةَ لَہُ یَا حِرْزَ
اے جلالت اور بزرگی کے مالک اے بے سہاروں کے سہارے اے تہی دست لوگوں کے خزانے اے بے کسوں کے نگہبان
مَنْ لاَ حِرْزَ لَہُ یَا غِیاثَ مَنْ لاَ غِیاثَ لَہُ یَا سَنَدَ مَنْ لاَ سَنَدَ لَہُ یَا کَنْزَ مَنْ لاَ کَنْزَ لَہُ
اے بے بسوں کے فریاد رس اے بے حیثیتوں کی حیثیت اے بے خزانہ لوگوں کے خزانے اے بہتر آزمائش کرنے والے
یَا حَسَنَ الْبَلائِ یَا عَظِیمَ الرَّجائِ یَا عِزَّ الضُّعَفائِ یَا مُنْقِذَ الْغَرْقیٰ یَا مُنْجِیَ الْھَلْکَیٰ
اے سب سے بڑی امید اے کمزوروں کی عزت اے ڈوبتوں کو تیرانے والے اے مرتوں کو بچانے والے اے نعمت والے
یَا مُنْعِمُ یَا مُجْمِلُ یَا مُفْضِلُ یَا مُحْسِنُ َنْتَ الَّذِی سَجَدَ لَکَ سَوادُ اللَّیْلِ وَنُورُ النَّھارِ
اے جمال والے اے فضل والے اے احسان والے تو وہ ہے جس کو سجدہ کرتے ہیں رات کے اندھیرے دن کے اجالے چاند کی
وَضَوْئُ الْقَمَرِ، وَشُعاعُ الشَّمْسِ، وَدَوِیُّ الْمائِ، وَحَفِیفُ الشَّجَرِ یَا اﷲُ لاَ شَرِیکَ
چاندنیاں سورج کی کرنیں پانی کی روانیاں اور درختوں کی سرسراہٹیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں اے اللہ ہمیں لوگوں نیک گماں
لَکَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنا خَیْراً مِمَّا یَظُنُّونَ وَاغْفِرْ لَنا مَا لاَ یَعْلَمُونَ وَلاَ تُؤاخِذْنا بِما یَقُولُونَ
سے بھی زیادہ نیک بنا دے لوگ ہم کو اچھا سمجھتے ہیں ہمارے وہ گناہ بخش جن کو وہ نہیں جانتے اور جو کچھ وہ ہمارے بارے میں کہتے ہیں
حَسْبِیَ اﷲُ لاَ ِلہَ ِلاَّ ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ، وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ
اس پرہماری گرفت نہ کر اللہ کافی ہے اسکے سوا کوئی معبود نہیں میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے ہمارا ایمان
آمَنَّا بِہِ کُلّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَمَا یَذَّکَّرُ ِلاَّ ُولُوا الْاََلْبابِ، رَبَّنا لا تُزِغْ
ہے کہ سب کچھ ہمارے رب کیطرف سے ہے اور صاحبان عقل کے سوا کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا اے ہمارے رب ہمارے دلوں
قُلُوبَنا بَعْدَ ِذْ ھَدَیْتَنا وَھَبْ لَنا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً ِنَّکَ َنْتَ الْوَھَّابُ ۔
کو ٹیڑھا نہ ہونے دے جبکہ ہمیں تو نے ہدایت دی ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر بے شک تو بہت عطا کرنے والا ہے ۔
شیخ طوسی نے فرمایا کہ محرم کے پہلے نو دنوں کے روزے رکھنا مستحب ہے مگر یوم عاشورہ کو عصر تک کچھ نہ کھائے پیئے، عصر کے بعد، تھوڑی سی خاک شفا سے فاقہ شکنی کرے، سید نے پورے ماہ محرم کے روزے رکھنے کی فضیلت لکھی اور فرمایا ہے کہ اس مہینے کے روزے انسان کو ہر گناہ سے محفوظ رکھتے ہیں۔(١)
تیسری محرم کا دن
یہ وہ دن ہے جس دن حضرت یوسف ـقید خانے سے آزاد ہوئے تھے ،جو شخص اس دن کا روزہ رکھے حق تعالیٰ اس کی مشکلات آسان فرماتا ہے اور اس کے غم دور کر دیتا ہے نیز حضرت رسول ۖسے روایت ہوئی ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنے والے کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔
نویں محرم کا دن
یہ روز تاسوعا حسینی ہے ،امام جعفر صادق ـسے روایت ہے کہ نو(٩) محرم کے دن فوج یزید نے امام حسین ـاور ان کے انصار کا گھیراؤ کر کے لوگوں کو ان کے قتل پر آمادہ کیا ابن مرجانہ اور عمر بن سعد اپنے لشکر کی کثرت پر خوش تھے اور امام حسینـ کو ان کی فوج کی قلت کے باعث کمزور و ضعیف سمجھ رہے تھے ۔انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب امام حسین ـکا کوئی یار و مددگار نہیں آسکتا اور

(١) سوائے یوم عاشور کے کیونکہ اس دن کا روزہ مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک حرام ہے۔
عراق والے ان کی کچھ بھی مدد نہیں کرسکتے امام جعفر صادق ـنے یہ بھی فرمایا کہ اس غریب و ضعیف یعنی امام حسین ـ پر میرے والد بزرگوار فدا وقربان ہوں ۔

دسویں محرم کی رات
یہ شب عاشور ہے ،سید نے اس رات کی بہت سی بافضیلت نمازیں اور دعائیں نقل فرمائی ہیں ۔ان میں سے ایک سو رکعت نماز ہے ،جو اس رات پڑھی جاتی ہے اس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورئہ توحید پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ستر مرتبہ کہے :
سُبْحانَ اﷲِ، وَالحَمْدُ ﷲِ، وَلاَ ِلہَ ِلاَّ اﷲُ، وَاﷲُ َکْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ ِلاَّ باﷲِ
پاک تر ہے اللہ حمد اللہ ہی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ بزرگتر ہے اور نہیں ہے کوئی طاقت وقوت مگر وہی جو
العَلِیِّ العَظِیمِ ۔
خدائے بلند و برتر سے ملتی ہے ۔
بعض روایات میں ہے کہ العَلِیِّ العَظِیمِکے بعد استغفار بھی پڑھے :اس رات کے آخری حصے میں چار رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ آیةالکرسی۔دس مرتبہ سورئہ توحید دس مرتبہ سورئہ فلق اور دس مرتبہ سورئہ ناس کی قرائت کرے اور بعد از سلام سومرتبہ سورئہ توحید پڑھے :
آج کی رات چار رکعت نماز ادا کرے جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورئہ توحید پڑھے ،یہ وہی نماز امیرالمؤمنین ہے کہ جس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس نماز کے بعد زیادہ سے زیادہ ذکر الہی کرے حضرت رسول ۖپر صلوات بھیجے اور آپۖ کے دشمنوں پر بہت لعنت کرے ۔
اس رات بیداری کی فضیلت میں روایت وارد ہوئی ہے کہ اس رات کو جاگنے والا اس کے مثل ہے جس نے تمام ملائکہ جتنی عبادت کی ہو، اس رات میں کی گئی عبادت ستر سال کی عبادت کے برابر ہے، اگر کسی شخص کیلئے یہ ممکن ہو تو آج رات کو اسے سر زمین کربلا میں رہنا چاہیے، جہاں وہ حضرت امام حسین ـکے روضہ اقدس کی زیارت کرے اور حضرت امام حسین ـ کے قرب میں شب بیداری کرے تاکہ خدا اس کو امام حسینـ کے ساتھیوں میں شمار کرے جو اپنے خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔
دسویں محرم کادن
یہ یوم عاشور ہے جو امام حسینـ کی شہادت کا دن ہے یہ ائمہ طاہرین٪ اور ان کے پیروکاروں کیلئے مصیبت کا دن ہے اور حزن و ملال میں رہنے کادن ہے ،بہتر یہی ہے کہ امام علی ـ کے چاہنے اور ان کی اتباع کرنے والے مومن مسلمان آج کے دن دنیاوی کاموں میں مصروف نہ ہوں اور گھر کے لئے کچھ نہ کمائیں بلکہ نوحہ و ماتم اور نالہ بکاء کرتے رہیں ،امام حسین ـ کیلئے مجالس برپا کریں اور اس طرح ماتم و سینہ زنی کریں جس طرح اپنے کسی عزیز کی موت پر ماتم کیا کرتے ہوں آج کے دن امام حسینـ کی زیارت عاشور پڑھیں جو تیسرے باب میں ذکر ہوگی ،حضرت کے قاتلوں پر بہت زیادہ لعنت کریں اور ایک دوسرے کو امام حسینـ کی مصیبت پر ان الفاظ میں پرسہ دیں۔
َعْظَمَ اﷲُ ُجُورَنا بِمُصأبِنا بِالْحُسَیْنِں وَجَعَلَنا وَِیَّاکُمْ مِنَ الطَّالِبِینَ
اللہ زیادہ کرے ہمارے اجر و ثواب کو اس پر جو کچھ ہم امام حسینـ کی سوگواری میں کرتے ہیں اور ہمیں تمہیںامام حسینـ کے خون کا
بِثارِہِ مَعَ وَلِیِّہِ الْاِمامِ الْمَھْدِیِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلَامُ
بدلہ لینے والوں میں قرار دے اپنے ولی امام مہدی کے ہم رکاب ہو کر کہ جو آل محمد ٪ میں سے ہیں ۔
ضروری ہے کہ آج کے دن امام حسینـ کی مجلس اور واقعات شہادت کو پڑھیں خود روئیں اور دوسروں کو رلائیں ،روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ـکو حضرت خضر ـسے ملاقات کرنے اور ان سے تعلیم لینے کا حکم ہوا تو سب سے پہلی بات جس پر ان کے درمیان مذاکرہ مکالمہ ہوا وہ یہ ہے کہ حضرت خضر ـنے حضرت موسیٰ ـکے سامنے ان مصائب کا ذکر کیا جو آل محمد ٪ پہ آنا تھے ،اور ان دونوں بزرگواروں نے ان مصائب پر بہت گریہ و بکا کیا ۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میں مقام ذیقار میں امیرالمؤمنینـ کے حضور گیاتو آپ نے ایک کتابچہ نکالا جو آپ کا اپنا لکھا ہوا اور رسول اللہ ۖکا لکھوایا ہوا تھا، آپ نے اس کا کچھ حصہ میرے سامنے پڑھا اس میں امام حسینـ کی شہادت کا ذکر تھا اور اسی طرح یہ بھی تھا کہ شہادت کس طرح ہو گی اور کون آپ کو شہید کرے گا ،کون کون آپ کی مدد و نصرت کرے گا اور کون کون آپ کے ہمرکاب رہ کر شہید ہوگا یہ ذکر پڑھ کر امیرالمؤمنینـ نے خود بھی گریہ کیا اور مجھ کو بھی خوب رلایا ۔مؤلف کہتے ہیں اگر اس کتاب میں گنجائش ہوتی تو میں یہاں امام حسینـ کے کچھ مصائب ذکر کرتا ،لیکن موضوع کے لحاظ سے اس میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ،لہذا قارئین میری کتب مقاتل کی طرف رجوع کریں ۔خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص آج کے دن امام حسینـ کے روضہ اقدس کے نزدیک رہ کر لوگوں کو پانی پلاتا رہے تو وہ اس شخص کی مانند ہے، جس نے حضرت کے لشکر کو پانی پلایا ہو اور آپ کے ہمرکاب کربلا میں موجود رہا ہو آج کے دن ہزار مرتبہ سورئہ توحید پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، روایت میں ہے کہ خدائے تعالیٰ ایسے شخص پر نظر رحمت فرماتا ہے ،سید نے آج کے دن ایک دعا پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے ۔جو دعائے عشرات کی مثل ہے ،بلکہ بعض روایات کے مطابق وہ دعا ئے عشرات ہی ہے ۔
شیخ نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے امام جعفر صادق ـ سے روایت کی ہے کہ یوم عاشور کو چاشت کے وقت چار رکعت نماز و دعا پڑھنی چاہیے کہ جسے ہم نے اختصار کے پیش نظر ترک کر دیا ہے پس جو شخص اسے پڑھنا چاہتا ہو وہ علامہ مجلسی کی کتاب زادالمعاد میں ملاحظہ کرے۔ یہ بھی ضروری اور مناسب ہے کہ شیعہ مسلمان آج کے دن فاقہ کریں، یعنی کچھ کھائیں پئیں نہیں، مگر روزے کا قصد بھی نہ کریں عصر کے بعد ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ انسان کھاتے ہیں مثلا دودھ یا دھی و غیرہ نیز آج کے دن قمیضوں کے گریبان کھلے رکھیں اور آستینیں چڑھا کر ان لوگوں کی طرح رہیں جو مصیبت میں مبتلا ہو تے ہیں یعنی مصیبت زدہ لوگوں جیسی شکل و صورت بنائے رہیں ۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ نہ رکھے کیونکہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار ان دو دنوں کو امام حسینـ کو قتل کرنے کے باعث بڑے بابرکت وحشمت تصور کرتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے ،انہوں نے بہت سی وضعی حدیثیں حضرت رسول ۖکی طرف منسوب کر کے یہ ظاہر کیا کہ ان دو دنوں کا روزہ رکھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے حالانکہ اہلبیت٪ سے مروی کثیر حدیثوں میں ان دودنوں اور خاص کر یوم عاشور کا روزہ رکھنے کی مذمت آئی ہے ،بنی امیہ اور ان کی پیروی کرنے والے برکت کے خیال سے عاشورا کے دن سال بھر کا خرچہ جمع کر کے رکھ لیتے تھے اسی بنا پر امام رضاـ سے منقول ہے کہ جو شخص یوم عاشور اپنا دنیاوی کاروبار چھوڑے رہے تو حق تعالیٰ اس کے دنیا و آخرت سب کاموں کو انجام تک پہنچا دے گا ،جو شخص یوم عاشور کو گریہ و زاری اور رنج و غم میں گزارے تو خدائے تعالیٰ قیامت کے دن کو اس کیلئے خوشی و مسرت کا دن قرار دے گا اور اس شخص کی آنکھیں جنت میں اہلبیت٪ کے دیدار سے روشن ہوں گی ،مگر جو لوگ یوم عاشورا کو برکت والا دن تصور کریں اور اس دن اپنے گھر میں سال بھر کا خرچ لا کر رکھیں تو حق تعالیٰ ان کی فراہم کی ہوئی جنس و مال کو ان کے لئے بابرکت نہ کرے گا اور ایسے لوگ قیامت کے دن یزید بن معاویہ ،عبیداللہ بن زیاد اور عمرابن سعد جیسے ملعون جہنمیوں کے ساتھ محشور ہوں گے اس لئے یوم عاشور میں کسی انسان کو دنیا کے کاروبار میں نہیں پڑنا چاہیے اور اس کی بجائے گریہ و زاری ،نوحہ و ماتم اور رنج و غم میں مشغول رہنا چاہیے نیز اپنے اہل و عیال کو بھی آمادہ کرے کہ وہ سینہ زنی و ماتم میں اس طرح مشغول ہوں جیسے اپنے کسی رشتہ دار کی موت پر ہوا کرتے ہیں ۔آج کے دن روزے کی نیت کے بغیر کھانا پینا ترک کیئے رہیں اور عصر کے بعد تھوڑے سے پانی و غیرہ سے فاقہ شکنی کریں اور دن بھر فاقے سے نہ رہیں مگر یہ کہ اس پر کوئی روزہ واجب ہو جیسے نذر وغیرہ آج کے دن گھر میں سال بھر کیلئے غلہ و جنس جمع نہ کرے ،آج کے دن ہنسنے سے پرہیز کریں، اور کھیل کود میں ہرگز مشغول نہ ہوں اور امام حسینـ کے قاتلوں پر ان الفاظ میں ہزار مرتبہ لعنت کریں:
اَللّٰھُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَیْنِ ں
اے اللہ:امام حسین ـکے قاتلوں پر لعنت کر
مؤلف کہتے ہیں اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوم عاشور کا روزہ رکھنے کے بارے میں جو حدیثیں آئیں وہ سب جعلی اور بناوٹی ہیں اور ان کو جھوٹوں نے حضرت رسول ۖکی طرف منسوب کیا ہے :
اَللَّھُمَّ انَّ ھَذَا یُوْمَ تَبَرَکْتَ بِہ بَنُوْ اُمَیَّةِ ۔
اے اللہ ! یہ وہ دن ہے جس کو بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا ہے ۔
صاحب شفا ء الصدور نے زیارت کے مندرجہ بالا جملے کے ذیل میں ایک طویل حدیث سے اس کی تشریح فرمائی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی امیہ آج کے منحوس دن کو چند وجوہات کی بنا پر بابرکت تصور کرتے تھے ۔
(١) بنی امیہ نے آج کے دن آیندہ سال کے لئے غلہ و جنس جمع کر رکھنے کو مستحب جانا اور اس کو وسعت رزق اور خوشحالی کا سبب قراردیا ،چنانچہ اہلبیت٪ کی طرف سے ان کے اس زعم باطل کی باربار تردید اور مذمت کی گئی ہے ۔
(٢)بنی امیہ نے آج کے دن کو روز عید قرار دیا اور اس میں عید کے رسوم جاری کیے ۔جیسے اہل و عیال کے لئے عمدہ لباس و خوراک فراہم کرنا ،ایک دوسرے سے گلے ملنا اور حجامت بنوانا وغیرہ لہذا یہ امور ان کے پیروکاروں میں عام طور پر رائج ہو گئے ۔
(٣)انہوں نے آج کے دن کا روزہ رکھنے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وضع کیں اور اس دن روزہ رکھنے پر عمل پیرا ہوئے ۔
(٤)انہوں نے عاشور کے دن دعا کرنے اور اپنی حاجات طلب کرنے کو مستحب قرار دیا اس لئے اس سے متعلق بہت سے فضائل اور مناقب گھڑ لیے ،نیز آج کے دن پڑھنے کے لئے بہت سی دعائیں بنائیں اور انہیں عام کیا تاکہ لوگوں کو حقیقت واقعہ کی سمجھ نہ آئے چنانچہ وہ آج کے دن اپنے شہروں میں منبروں پر جو خطبے دیتے ،ان میں یہ بیان ہوا کرتا تھا کہ آج کے دن ہر نبی کے لئے شرف اور وسیلے میں اضافہ ہوا مثلا نمرود کی آگ بجھ گئی حضرت نوح کی کشتی کنارے لگی ،فرعون کا لشکر غرق ہوا حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کے چنگل سے نجات حاصل ہوئی یعنی یہ سب امور آج کے دن وقوع میں آئے ۔تاہم ان کا یہ کہنا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

اس بارے میں شیخ صدوق نے جبلہ مکیہ سے نقل کیا ہے کہ میں نے میثم تمار سے سنا وہ کہتے تھے: خدا کی قسم ! یہ امت اپنے نبیۖ کے فرزند کو دسویں محرم کے دن شہید کرے گی اور خدا کے دشمن اس دن کو بابرکت دن تصور کریں گے یہ سب کام ہو کر رہیں گے اور یہ باتیں اللہ کے علم میں آچکیں ہیں یہ بات مجھے اس عہد کے ذریعے سے معلوم ہے ،جو مجھ کو امیرالمؤمنینـ کی طرف سے ملا ہے جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے میثم سے عرض کی کہ وہ لوگ امام حسینـ کے روز شہادت کو کس طرح بابرکت قراردیں گے ؟تب میثم رو پڑے اور کہا لوگ ایک ایسی حدیث وضع کریں گے جس میں کہیں گے کہ آج کا دن ہی وہ دن ہے کہ جب حق تعالیٰ نے حضرت آدم ـکی توبہ قبول فرمائی۔
حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ان کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی تھی وہ کہیں گے آج کے دن ہی خدانے حضرت یونسـ کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا حالانکہ خدانے ان کو ذی القعدہ میں شکم ماہی سے نکالا تھا وہ تصور کریں گے کہ آج کے دن حضرت نوح ـ کی کشتی جودی پر رکی ،جبکہ کشتی ١٨ ذی الحجہ کو رکی تھی وہ کہیں گے کہ آج کے دن ہی حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ـکیلئے دریا کو چیرا ،حالانکہ یہ واقعہ ربیع الاول میں ہوا تھا خلاصہ یہ کہ میثم تمار کی اس روایت میں مذکورہ تصریحات وہ ہیں جو اصل میں نبوت و امامت کی علامات ہیں اور شیعہ مسلمانوں کے برسر حق ہونے کی روشن دلیل ہیں ۔ کیونکہ اس میں ان باتوں کا ذکر ہے جو ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں پس یہ تعجب کی بات ہے کہ اس واضح خبر کے باوجود ان لوگوں نے اپنے وہم وگمان کی بنا پر قراردی ہوئی جھوٹی باتوں کے مطابق دعائیں بنا لی ہیں جو بعض بے خبر اشخاص کی کتابوں میں درج ہیں کہ جن کو ان کی اصلیت کا کچھ بھی علم نہ تھا ۔

ان کتابوں کے ذریعے سے یہ دعائیں عوام کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہیں، لیکن ان دعاؤں کا پڑھنا بدعت ہونے کے علاوہ حرام بھی ہے ان بدعت و حرام دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، سُبْحانَ اﷲِ مِلئَ الْمِیزانِ، وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ، وَمَبْلَغَ
خدا کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے پاک ہے اللہ ترازو کے پورا ہونے علم کی آخری حدوں اور خوشنودی
الرِّضا، وَزِنَةَ الْعَرْشِ۔
کی رسائی اور وزن عرش کے برابر ۔
دو تین سطروں کے بعد یہ ہے کہ دس مرتبہ صلوات پڑھے پھر یہ کہے :
یَا قَابِلَ تَوْبَةِ آدَمَ یَوْمَ عاشُورائَ یَارافِعَ ِدْرِیسَ ِلَی السَّمائِ یَوْمَ عاشُورائَ یَا مُسَکِّنَ
اے روز عاشور آدم کی توبہ قبول کرنے والے اے عاشور کے دن ادریس کو آسمان پر لے جانے والے اے
سَفِینَةِ نُوحٍ عَلَی الْجُودِیِّ یَوْمَ عاشُورائَ، یَا غِیاثَ ِبْراھِیمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عاشُورائَ ۔
اے روز عاشور نوح کی کشتی کو جودی پہاڑ پر ٹکانے والے اے یوم عاشور ابراہیم کو آگ سے نجات دینے والے …
اس میں شک نہیں کہ یہ دعا مدینے کے کسی ناصبی یا مسقط کے کسی خارجی نے یا ان کے کسی ہم عقیدہ نے گھڑی ہے ،اس طرح اس نے وہ ظلم کیا ہے جو بنی امیہ کے ظلم کو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے یہ بیان کتاب شفاء الصدور کے مندرجات کا خلاصہ ہے جو یہاں ختم ہو گیا ہے ۔بہرحال یوم عاشور کے آخری وقت میں امام حسینـ کے اہل حرم انکی دختران اور اطفال کے حالات و واقعات کو نظر میں لانا چاہیے کہ اس وقت میدان کربلا میں ان پر کیا بیت رہی ہے ۔جب کہ وہ دشمنوں کے ہاتھوں قید میں ہیں اور اپنی مصیبتوں میں آہ و زاری کررہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اہلبیت٪ پر وہ دکھ اور مصیبتیں آئی ہیں جو کسی انسان کے تصور میں نہیں آسکتیں اور قلم دان کو لکھنے کا یارا نہیں ،کسی شاعر نے اس سانحہ کو کیا خوب بیان کیا ہے :
فاجِعة ِنْ َرَدْتُ َکْتُبُھا
مُجْمَلَةً ذِکْرَةً لِمُدَّکِرِ
یہ ایسی مصیبت ہے اگر اسے لکھوں
کسی یاد کرنے والے کیلئے مجمل سی یاد دھانی
جَرَتْ دُمُوعَی فَحالَ حائِلُھا
مَا بَیْنَ لَحْظِ الْجُفُونِ وَالزُّبُرِ
تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں اور
میری آنکھوں اور اوراق کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں
وَقال قَلْبی بُقْیا عَلَیَّ فَلاَ
وَاﷲِ مَا قَدْ طُبِعْتُ مِنْ حَجَرِ
میرا دل کہتا ہے رحم کر مجھ پر نہیں میں
بخدا کو ئی پتھر کہ میری تو جان نکلے جارہی
بَکَتْ لَھَا الْاََرْضُ وَالسَّمائُ
وَمَا بَیْنَھُما فی مَدامِعٍ حُمُرِ
اس پر روئے ہیں زمین و آسماں
اور جو کچھ ان کے درمیان ہے خون کے آنسو

یوم عاشور کے آخر وقت کھڑا ہو جائے اور رسول اللہ ۖ، امیرالمؤمنین، جناب فاطمہ، امام حسن اور باقی ائمہ٪ جو اولادامام حسینـ میں سے ہیں ،ان سب پر سلام بھیجے اور گریہ کی حالت میں ان کو پرسہ دے اور یہ زیارت پڑھے :
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَةِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ اﷲِ،
آپ پر سلام ہو اے آدم کے وارث جو برگزیدئہ خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے نوح کے وارث جو اللہ کے نبی ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ ِبْراھِیمَ خَلِیلِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ اﷲِ
آپ پر سلام ہو اے ابراہیم کے وارث جو اللہ کے دوست ہیں آپ پر سلام ہو اے موسیٰ کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَیسی رُوحِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ اﷲِ
آپ پر سلام ہو اے عیسٰی کے وارث جو خدا کی روح ہیں آپ پر سلام ہو اے محمدۖ کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عَلِیٍّ َمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ لِیِّ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ
آپ پر سلام ہو اے علی کے وارث جو مؤمنوں کے امیر اور ولی خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے حسن
الْحَسَنِ الشَّھِیدِ سِبْطِ رَسُولِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ
کے وارث جو شہید ہیں اللہ کے رسولۖ کے نواسے ہیں آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسول ۖکے فرزند آپ پر سلام ہو
یَابْنَ الْبَشِیرِ النَّذِیرِ وَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ نِسائِ
اے بشیر و نذیر اور وصیوں کے سردار کے فرزند آپ پر سلام ہو اے فرزند فاطمہ جو جہانوں کی عورتوں کی
الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا َبا عَبْدِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَةَ اﷲِ وَابْنَ خِیَرَتِہِ،
سردار ہیں آپ پر سلام ہو اے ابو عبداللہ آپ پر سلام ہو اے خدا کے پسند کیے ہوئے اور پسندیدہ کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ثارَ اﷲِ وَابْنَ ثارِہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ َ یُّھَا الْوِتْرُ الْمَوْتُورُ، اَلسَّلَامُ
آپ پر سلام ہو اے شہید راہ خدا اور شہید کے فرزند آپ پر سلام ہو اے وہ مقتول جس کے قاتل ہلاک ہوگئے آپ پر
عَلَیْکَ َیُّھَا الْاِمامُ الْھادِی الزَّکِیُّ وَعَلَی َرْواحٍ حَلَّتْ بِفِنائِکَ وََقامَتْ فَی جِوارِکَ
سلام ہو اے ہدایت و پاکیزگی والے امام اور سلام ان روحوں پر جوآپ کے آستاں پر سوگئیں اور آپ کی قربت میں رہ رہی ہیں
وَوَفَدَتْ مَعَ زُوَّارِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ مِنِّی مَا بَقِیتُ وَبَقِیَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ،
اور سلام ہو ان پر جو آپکے زائروں کیساتھ آئیں میرا آپ پر سلام ہو جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک رات دن کا سلسلہ قائم ہے
فَلَقَدْ عَظُمَتْ بِکَ الرَّزِیَّةُ وَجَلَّ الْمُصابُ فِی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ وَفِی َھْلِ السَّمٰوَاتِ
یقینا آپ پر بہت بڑی مصیبت گزری ہے اور اس سے بہت زیادہ سوگواری ہے مومنوں اور مسلمانوں میں آسمانوں میں رہنے والی
َجْمَعِینَ وَفِی سُکَّانِ الْاََرَضِینَ فَِنَّا لِلّٰہِ وَ ِنَّا ِلَیْہِ راجِعُونَ، وَصَلَواتُ اﷲِ
ساری مخلوق میں اور زمین میں رہنے والی خلقت میں پس اللہ ہم ہی کیلئے ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹ کر جائیں گے خدا کی رحمتیں
وَبَرَکاتُہُ وَتَحِیَّاتُہُ عَلَیْکَ وَعَلَی آبائِکَ الطَّاھِرِینَ الطَّیِّبِینَ الْمُنْتَجَبِینَ وَعَلَی ذَرارِیھِمُ
ہوں اس کی برکتیں آپ پر سلام ہو اور آپ کے آباء واجداد پر جو پاک نہاد نیک سیرت اور برگزیدہ ہیں اور ان کی اولاد پر
الْھُداةِ الْمَھْدِیِّینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ وَعَلَیْھِمْ وَعَلَی رُوحِکَ وَعَلَی َرْواحِھِمْ،
کہ جو ہدایت یافتہ پیشوا ہیں آپ پر سلام ہو اے میرے آقا اور ان سب پرسلام ہو آپ کی روح پر اور ان کی روحوں پر
وَعَلَی تُرْبَتِکَ وَعَلَی تُرْبَتِھِمْ اَللّٰھُمَّ لَقِّھِمْ رَحْمَةً وَرِضْواناً وَرَوْحاً وَرَیْحاناً اَلسَّلَامُ
اور سلام ہو آپکے مزار پر اور ان کے مزاروں پر اے اللہ !ان سے مہربانی خوشنودی مسرت اور خوش روئی کے ساتھ پیش آئے آپ
عَلَیْکَ یَا مَوْلایَ یَا َبا عَبْدِ اﷲِ یَابْنَ خاتَمِ النَّبِیِّینَ، وَیَابْنَ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ، وَیَابْنَ
پر سلام ہو اے میرے سردار اے ابوعبداللہ اے نبیوں کے خاتم کے فرزند اے اوصیاء کے سردار کے فرزند اے جہانوں
سَیِّدَةِ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا شَھِیدُ، یَابْنَ الشَّھِیدِ، یَا َخَ الشَّھِیدِ، یَا َبَا
کی عورتوں کی سردار کے فرزند آپ پر سلام ہو اے شہید اے فرزند شہید اے برادر شہید اے پدر
الشُّھَدائِ ۔ اَللّٰھُمَّ بَلِّغْہُ عَنِّی فی ھذِہِ السَّاعَةِ وَفِی ھذَا الْیَوْمِ وَفِی ھذَا الْوَقْتِ وَفِی
شہیداں اے اللہ! پہنچا ان کو میری طرف سے اس گھڑی میں آج کے دن میں اور موجودہ وقت میں اور ہرہر
کُلِّ وَقْتٍ تَحِیَّةً کَثِیرَةً وَسَلاماً، سَلامُ اﷲِ عَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکاتُہُ یَابْنَ سَیِّدِ
وقت میں بہت بہت درود اور سلام، آپ پر اللہ کا سلام ہواللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں اے جہانوں
الْعالَمِینَ وَعَلَی الْمُسْتَشْھَدِینَ مَعَکَ سَلاماً مُتَّصِلاً مَا اتَّصَلَ اللَّیْلُ وَالنَّھارُ اَلسَّلَامُ
کے سردار کے فرزند اور ان پرجو آپ کے ساتھ شہید ہوئے سلام ہو لگاتار سلام جب تک رات دن باہم ملتے ہیں
عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ
حسین ابن علی شہید پر سلام ہو علی ابن حسین شہید پر سلام ہو
عَلَی الْعَبَّاسِ بْنِ َمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ الشَّھِیدِ اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ َمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ
عباس ابن امیر المؤمنین شہید پر سلام ہوان شہیدوں پر سلام ہو جو امیرالمؤمنین کی اولاد میں سے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ،
ان شہیدوں پر سلام ہو جواولاد حسن سے ہیں ان شہیدوں پر سلام ہو جو اولاد حسین سے ہیں
اَلسَّلَامُ عَلَی الشُّھَدائِ مِنْ وُلْدِ جَعْفَرٍ وَعَقِیلٍ اَلسَّلَامُ عَلَی کُلِّ مُسْتَشْھَدٍ مَعَھُمْ مِنَ
ان شہیدوں پر سلام ہو جو جعفر اور عقیل کی اولاد سے ہیں مومنوں میں سے ان سب شہیدوں پر سلام ہو جو ان کے ساتھ
الْمُؤْمِنِینَ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَلِّغْھُمْ عَنَّی تَحِیَّةً کَثِیرَةً وَسَلاماً ۔
شہید ہوئے اے اللہ! محمدۖ و آل محمدۖ پر رحمت نازل کر اور پہنچا ان کو میری طرف سے بہت بہت درود اور سلام
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اﷲِ َحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فَی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ
آپ پر سلام ہو اے خدا کے رسولۖ خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین کے بارے میں آپ کے ساتھ بہترین تعزیت کرے آپ پر
عَلَیْکِ یَا فاطِمَةُ َحْسَنَ اﷲُ لَکِ الْعَزائَ فَی وَلَدِکِ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا َمِیرَ
سلام ہو اے فاطمہ خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین کے بارے میں آپ کے ساتھ بہترین تعزیت کرے آپ پر سلام ہو اے
الْمُؤْمِنِینَ َحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فِی وَلَدِکَ الْحُسَیْنِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا َبا مُحَمَّدٍ
امیرالمؤمنین خدائے تعالیٰ آپ کے فرزند حسین کے بارے میں آپ کے ساتھ بہترین تعزیت کرے آپ پر سلام ہو اے ابومحمد
الْحَسَنَ َحْسَنَ اﷲُ لَکَ الْعَزائَ فَی َخِیکَ الْحُسَیْنِ، یَا مَوْلایَ یَا َبا عَبْدِ اﷲِ
حسن خدائے تعالیٰ آپکے بھائی حسین کے بارے میں آپکے ساتھ بہترین تعزیت کرے اے میرے سردار اے ابوعبداللہ
َنَا ضَیْفُ اﷲِ وَضَیْفُکَ وَجارُ اﷲِ وَجارُکَ، وَ لِکُلِّ ضَیْفٍ وَجارٍ قِریً وَقِرایَ فِی
میں اللہ کا مہمان اور آپ کا مہمان ہوں اور خدا کی پناہ اور آپکی پناہ میں ہوں یہاں ہر مہمان اور پناہ گیر کی پذیرائی ہوتی ہے اور اس
ھذَا الْوَقْتِ َنْ تَسَْلَ اﷲَ سُبْحانَہُ وَتَعَالی َنْ یَرْزُقَنِی فَکَاکَ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ
وقت میری پذیرائی یہی ہے کہ آپ سوال کریں اللہ سے جو پاک تر اور عالی قدر ہے یہ کہ میری گردن کو عذاب جہنم سے آزاد کردے
ِنَّہُ سَمِیعُ الدُّعائِ قَرِیب مُجِیب ۔
بے شک وہ دعا کا سننے والا ہے نزدیک تر قبول کرنے والا ۔

پچیسویں محرم کا دن
بہت سے علما کے نزدیک ٢٥ محرم ٩٤ھ کے دن امام زین العابدینـ کی شہادت واقع ہوئی تھی، بعض علماء نے آپکی شہادت کا دن ١٢ محرم ٩٥ھ بیان کیا ہے، کہ جس سال کو سنةالفقہاء کا نام دیا گیا ہے ۔

عورت کا پردہ معاشرہ کا فطری تقاضا ہے اور بے پردگی ، بے حیائی اورآوارگی نسلوں کی تباہی و بربادی کا سبب ہے ، دین اسلام نے روز اول ہی سے بے پردگی اور عفت کے مخالف اعمال سے مخالفت کا اعلان کیا ہے، خداوند متعال نے سوره نور کی 31 ویں ایت شریفہ میں مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے پیغمبر اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں ، اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں ، علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے ،  اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں ، اپنی زینت کو اپنے باپ ، دادا، شوہر، شوہر کے باپ دادا ، اپنی اولاد ، اپنے شوہر کی اولاد ، اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد ، اپنی بہنوں کی اولاد ، اپنی عورتوں ، اپنے غلام ، کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے ، وہ بچےّ جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں تاکہ جو زینت چھپی ہوئی ہے اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے ۔

قران کی اس ایت اور اسلام کے اس حکم کے مطابق، عورت کا پورا بدن یوں ڈھکا اور چھپا رہے کہ جب وہ کسی نامحرم کے سامنے آئے تو اُس کا سراپا دیکھ کراُس کے قد وقامت کا اندازہ نہ لگا سکے ، جب عورت اپنے بدن کی نمائش کرتی ہے تو اجنبی مردوں کو نظر بازی کی دعوت دیتی ہے ، شریعت اور دینی معاشرہ ایسی عورت کو بے حیا کہتا ہے ، حیا کا تعلق ایمان سے ہے ، مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی فرمایشات کے مطابق شرم و حیا ایمان کی ایک شاخ ہے ، گویا بے حیا عورت ایمان کی نعمت سے محروم ہوجاتی ہے ۔

ماضی میں مسلم حکومتوں نے خواتین سے مخصوص بازاروں کی بنیاد رکھی تھی جس میں فروخت کرنے والی بھی خواتین ہوا کرتی تھی ، ان کے پردے اور باوقار انداز رہاش سے متاثر ہوکر غیر مسلم خواتین نے بھی اپنے پردہ کا اھتمام کیا ، وہ نقاب تو نہیں پہنتی تھی مگر ان کے بدن پورے طورے سے کپڑے میں چھپے رہتے تھے ، سر پر آنچل اور سینے پر موجود پلو ، الھی ایات میں موجود پیغام کی نشانی ہے ۔

مگر عیسائی اور یہودی قوموں کی بَنی بَنائی سازش نے اسلامی معاشرہ کی دیوار میں لرزہ پیدا کردیا ، عورتوں کا مردوں سے میل جول ، کلبز اور ہوٹلوں میں نامحرموں اور غیر مردوں سے آزادنہ میل جول ، شراب خواری اور رنگ ریلیوں نے ، انسانی معاشرہ کی دھجیاں اڑا کر رکھدیں ، جس سے کم و بیش اسلامی معاشرہ بھی متاثر ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَ لَایُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا وَ لْیَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَى جُیُوبِهِنَّ وَ لَایُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ‌ أُولِی الْإِرْ‌بَهِ مِنَ الرِّ‌جَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْهَرُ‌وا عَلَى عَوْرَ‌اتِ النِّسَاءِ وَ لَایَضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِن زِینَتِهِنَّ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِیعًا أَیُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔ قران کریم ، سوره نور ، ایت 31 ۔

 
Thursday, 13 July 2023 07:10

مباہلہ ایک نگاہ میں

 

مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے علاقہ کے دیگر حکمراں اور مذھبی راہنما کی طرح نجران کے پادری«ابوحارثہ» جو خط لکھا اور اس خط میں نجران کے رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دی ۔

خط پاکر نجران کے ایک باشندہ نے کہا کہ میں نے متعدد بار اپنے گذشتہ دینی پیشواوں سے سنا ہے کہ ایک دن منصب نبوت نسل اسحاق سے نسل اسماعیل میں منتقل ہوجائے گا ، کچھ بعید نہیں محمد کہ جو اولاد اسماعیل سے ہیں ، وہی بشارت شدہ پیغمبر ہوں ۔ اس کی بات پر توجہ کئے بغیر ایک گروہ مدینہ روانہ کیا گیا تاکہ نبوت کی دلیلیں دریافت کرسکے ۔ اس سلسلہ میں نجران کے ۶۰ افاضل اور دانشورں کا انتخاب کیا گیا جس میں دین دینی علماء بھی تھے ۔

نجران کے نمائندے جب رسول خدا(ص) کے حضور پہنچے اور اپ کی رسالت کے سلسلہ میں پوچھا  تو پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا : میں تمہیں دین توحید ، ایک خدا اور اس کے احکام کی اطاعت کی دعوت دیتا ہوں ۔

نجران کے نمائندوں نے عرض کیا کہ اگر اسلام سے مراد اپ کا ایک خدا پر ایمان لانا ہے تو ہم پہلے ہی اس پر ایمان لاچکے ہیں اور اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں ۔

رسول خدا (ص) نے ان کے جواب میں فرمایا: اسلام کی نشانیاں ہیں اور پھر تم لوگ یہ کیسے کہ رہے ہو کہ ایک خدا کی پرستش کرتے ہو جبکہ صلیب کی پوجا کرتے ہو ، سؤر کا گوشت کھانے سے پرھیز نہیں کرتے نیز حضرت عیسائی (ع) کو خدا کا بیٹا مانتے ہو ۔

نجران کے نمائندوں نے کہا: جی ہاں ! وہ خدا کے بیٹے ہیں چونکہ اپ کی مادر گرامی حضرت مریم (س) نے بغیر ہمبستری کے اپکو پیدا کیا لہذا اپ خدا کے بیٹے ہیں مگر رسول خدا (ص) نے اس چیز کو حضرت عیسی (ع) کی برتری کا سبب نہ جانا ۔

اسی لمحہ فرشتۂ وحی سورہ ال عمران کی ۵۹ ویں ایت شریفہ لیکر نازل ہوا : إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۱) ؛ اللہ کے نزدیک عیسٰی علیہ السّلام کی مثال آدم علیہ السّلام جیسی ہے کہ انہیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر کہا وجود میں اجا تو وجود میں اگئے ۔ لہذا حضرت عیسی (ع) کی بغیر باپ کے ولادت ان کے خدا ہونے یا خدا کے بیٹے ہونے کی نشانی اور دلیل نہیں ہے ۔

نجران کے عیسائی وحی الھی اور انحضرت کا برجستہ جواب سن کر مبہوت ہوگئے لہذا انہوں نے جدل کرنا شروع کردیا اور رسول خدا(ص) کو مباہلہ کی پیشکش کی ، اس وقت خدا کا فرشتہ خدا کا پیغام لیکر نازل ہوا اور رسول خدا (ص) کو مباہلہ کا حکم دیا ۔ (۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

ا: قران کریم ، سورہ ال عمران ، ایت ۵۹ ۔

۲: مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۱ ، ص ۲۸۵ ؛ و ویکی شیعہ ، داستان مباہلہ ۔

Tags: 
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور مبلغین سے ملاقات میں، دین اور دینی مقاصد کی تبلیغ کو، دینی مدارس کی سب سے اہم ذمہ داری قرار دیا۔ 
     

رہبر انقلاب اسلامی نے تبلیغ کے عصری اور موثر وسائل یعنی " لوگوں کی شناخت، اقدامی انداز اختیار کرنے کے لئے عالمی  سطح پرہونے والے پروپگنڈوں سے واقفیت اور مجاہدانہ جذبے" کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ ملک کے مستقبل کے مالک اور معمار کی حیثیت سے نوجوانوں کو تخلیقی اور نئے طریقوں کی بنیاد پر کی جانے والی  تبلیغ و ہدایت کا اصل مرکز بنایا جانا چاہیے۔ 

 رہبر انقلاب اسلامی نے ماہ محرم سے قبل ہونے والی اس ملاقات میں کہا کہ جتنی سرگرمیاں ہو رہی ہيں ملک کو تحقیقات پر مبنی تبلیغ کی اس سے کہیں زيادہ ضرورت ہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے تبلیغ اور اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: عوام میں صحیح تبلیغ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے خدا کے دین پر عمل نہیں ہو سکتا۔ 

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مغرب میں پروپیگنڈے کے وسائل میں توسیع اور پروپیگنڈوں کو عوام کے لئے قابل یقین بنانے کے طریقوں میں جدت کو عصر حاضر کے حقائق قرار دیا اور کہا کہ مغرب کے لوگ، نفسیات جیسے علوم سے فائدہ اٹھا کر سو فیصد غلط بات کو، ایک صحیح بات کی شکل میں لوگوں کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہيں۔ 

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ہم تبلیغ کے سلسلے میں روز سامنے آنے والے نئے نئے طریقوں سے غافل رہے یا ان کے بارے میں ہم نے کوتاہی سے کام لیا تو ہم ثقافتی دگرگونی کا شکار ہو جائيں گے اور مغرب کی طرح دھیرے دھیرے گناہان کبیرہ اور برائیوں کو غلط سمجھنا ختم کر دیں گے کہ جس کی تلافی آسانی سے ممکن نہيں ہوگی جیسا کہ امام خمینی (رہ) ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر ایران میں اسلام کو گزند پہنچا تو اس کے اثرات برسوں تک باقی رہیں گے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے تبلیغ دین کی بے پناہ اہمیت کو بیان کرنے کے بعد تبلیغ کے عملی طریقوں پر روشنی ڈالی۔ 

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہر طرح کی تبلیغ و ہدایت کے لئے ان لوگوں کی شناخت کو ضروری قرار دیا جن کے درمیان تبلیغ و ہدایت کرنا ہو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے نوجوانوں، بچوں اور عام لوگوں کی دن بہ دن بڑھتی معلومات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: لوگوں کی فکری سطح اور ضرورت پر توجہ کے بغیر کی جانے والی تبلیغ، بے اثر ہوگي۔

انہوں نے بچوں پر والدین کی بالواسطہ اور براہ راست باتوں اور تعلیم کا اثر ختم ہونے کی مشکل کا ذکر کیا اور اسے ایک حقیقی مسئلہ قرار دیا اور کہا: بڑے افسوس کی بات ہے کہ سائبر اسپیس اور ذرائع ابلاغ کی بھیڑ میں، تعلیم و تربیت کی روایتی و گھریلو آواز کہیں گم ہو گئي ہے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے  کہا کہ قرآن مجید میں "لسان قوم " سے مراد، لوگوں کی ذہنی سطح پر توجہ ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اگر تبلیغ کی سطح لوگوں کے اور ان کی ضرورت کے مطابق نہ ہو تو مبلغ ناکام رہے گا۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے مد مقابل محاذ کو جو خود کو لبرل ڈیموکریسی کا نام دیتا ہے، جھوٹوں کا محاذ قرار دیا اور کئي مثالیں دے کر فرمایا : ایرانی قوم کے مد مقابل جو محاذ ہے وہ حریت و آزادی کے خلاف اور سامراجی طاقتوں سے ناوابستہ ہر طرح کی جمہوریت کا دشمن ہے اور اس محاذ کے خلاف ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی جد وجہد و جنگ ، تہذیب و تمدن کی عالمگیر جنگ ہے۔ 

انہوں نے یوکرین کی  بے سہارا قوم کو مغرب کی سامراجی ذہنیت اور لوٹ مار کے جاری رہنے کا ثبوت قرار دیا اور کہا: یوکرین کے لوگ اس لئے قتل کئے جائیں کہ مغربی اسلحہ ساز کمپنیوں کے مفادات، یوکرین کی جنگ کے جاری رہنے میں ہیں! 

رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کو آج کسی بھی دوسرے وقت سے زيادہ کمزور قرار دیا اور کہا: امریکہ بھی، جسے امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے" شیطان بزرگ" کے لقب سے نوازا، آج سیاسی میدان، اقوام عالم سے اور خود امریکی قوم سے مقابلہ آرائي، نسلی امتیاز، جنسی بے راہ روی ، جرائم اور بے رحمی میں،  خباثت سے بھرے شیطان صفت لوگوں کا اڈہ ہے۔   

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود کو صرف دفاعی پوزيشن میں ہی محصور نہیں رکھنا چاہیے بلکہ عالمی حقائق پر صحیح طرح سے نظر ڈال کر اور انہیں صحیح طریقے سے بیان کرکے، دشمنوں کی بنیادوں کو نشانہ بنانا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای  کی تقریر سے قبل، اس ملاقات میں حوزہ علمیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین اعرافی نے بھی تقریر کی ۔