عالم اسلام کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت

Rate this item
(0 votes)
عالم اسلام کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت

اتحاد اور وحدت کا موضوع ایک ایسا حساس اور اہم ترین موضوع ہے کہ موجودہ دور میں جس پر جتنی زیادہ لب کشائی اور تحریر کیا جائے تو کم ہے۔ اتحاد حقیقت میں کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ بنی نوع انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ سے اتحاد کا عنصر موجود رہا ہے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ جب بھی عالم اسلام یا مسلمانوں کے مابین اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو کچھ مقامات سے ایسی آوازیں بلند کی جاتی ہیں کہ جن کا مقصد اس اتحاد کی ضرورت کو کمزور یا غیر ضروری شمار کرنا ہوتا ہے۔ یعنی بعض مخالف قوتیں جن میں امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی حکومتیں شامل ہیں، ہمیشہ سے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو سبوتاژ کرنے اور اس امر میں مانع ہونے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ سے اس موضوع پر مختلف حیلے بہانوں سے حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ یعنی مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مغربی دنیا کی تمام ظالم و سفاک حکومتیں جو کفر کے نظام پر قائم ہیں، سب کی سب آپس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔

مثال کے طور پر جب بھی مسلم معاشروں میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مسلم دنیا کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مغربی دنیا کی حکومتیں مسلمانوں کے اتحاد کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہوئے اپنے ذرائع ابلاغ پر مسلم دنیا کے اتحاد کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کر دیتی ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کی جانب سے فلسطین کے لئے اتحاد ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے، جو ہمیشہ کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔اسی طرح اگر مزید دقت کے ساتھ تحقیق کی جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اتحاد کبھی بھی مسلم دنیا کے لئے ایک سیاسی حکمت عملی یا وسیلہ نہیں رہا بلکہ اتحاد ہمارے ایمان اور اعتقاد کا ایک فراموش شدہ حصہ ہے، جسے مسلم دنیا کو تلاش کرنا ہے۔

اگر مسلم معاشروں کے اتحاد کی مثالیں تلاش کریں تو ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ ہمیشہ ہر مسلک کے علماء کا آپس میں باہمی ربط قائم رہا ہے اور یہی حقیقت میں اتحاد کی عملی شکل ہے۔ تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء نے ہمیشہ اتحاد کو اعتقاد کے طور پر آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ بات سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اسلامی معاشروں میں اختلاف دراصل اسلامی تعلیمات اور عقل و فطرت کے خلاف ہے، جبکہ اتحاد اور وحدت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اور عقل و فطرت ہیں۔ اتحاد کی حقیقت کو مزید سمجھنے کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیائے کفر جو کہ عالم اسلام سے ہر محاذ پر نبردآزما ہے۔دنیائے کفر کا سب کچھ باطل پر محیط ہے۔ لیکن یہ عالم کفر ایک نقطہ پر متفق ہیں اور وہ نقطہ کیا ہے؟ وہ نقطہ یہ ہے کہ عالم اسلام کو نقصان پہنچایا جائے، عالم اسلام کو تفریق کرکے ان پر حکومت قائم رکھی جائے۔

جیسا کہ حال ہی میں ہم دنیا کے مختلف گوش و کنار میں یہ سب حقیقت میں ملاحظہ اور تجربہ بھی کر رہے ہیں، یہی عالم کفر کا مقصد ہے۔ یہی عالم کفر باطل پر ہونے کے باجود آپس میں متحد ہے۔ یعنی اتحاد کے ساتھ ہے، کیونکہ انہوں نے اتحاد اور وحدت کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔ دوسری طرف عالم اسلام ہے کہ جو سو فیصد حق پر ہے، لیکن متحد نہیں ہے۔ یعنی عالم اسلام نے حق پر ہونے کے باجود بھی اتحاد کو اہمیت نہیں دی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عالم کفر نے فلسطین پر تسلط قائم کر لیا، افغانستان میں قتل عام کیا، عراق میں انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں، کشمیر خون رو رہا ہے، یمن میں آگ و خون کی بارش کی گئی، نیجیریا، لیبیا، شام، لبنان، مصر اور نہ جانے کتنے ہی ایسے علاقے ہیں کہ جہاں عالم کفر نے باطل پر متحد ہونے کے نتیجہ میں عالم اسلام کو مسلسل نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

اس کے برعکس جہاں جہاں بھی عالم اسلام نے اتحاد کی حقیقت کو درک کیا اور متحد ہو کر مسائل کا سامنا کیا، وہاں کی صورتحال تبدیل ہوگئی۔ فلسطین ہمارے سامنے ایک جیتی جاگتی مثال ہے کہ جس کی خاطر دنیائے اسلام باہمی متحد ہے اور کم سے کم مزاحمت سے تعلق رکھنے والے گروہوں کی بے مثال وحدت نے آج غاصب اسرائیل کو شکست کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسی لئے ہم بارہا کہتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت کوئی سیاسی مفادات حاصل کرنے کی حکمت عملی نہیں ہے، بلکہ حق کے راستے پر چلنے اور عالم کفر کے مقابلہ پر نبردآزما رہنے کی حقیقت کا نام ہی اتحاد اور وحدت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اتحاد ایک بنیادی کنجی ہے، جسے ہمارے اسلامی معاشروں میں ترجیح حاصل ہونی چاہیئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اپنے معاشروں میں اتحاد کو فروغ دینا چاہیئے۔ اپنی آئندہ نسلوں کو بتانا چاہیئے کہ اتحاد ہمارے اعتقاد کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کی خاطر جدوجہد کریں اور اس کو قائم کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 
 
 
Read 261 times