ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں حکمت عملی اور تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کی عزت و سربلندی، آبرو مندانہ خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔ وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اور سفیروں سے خطاب میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہاکہ بعض اوقات خارجہ پالیسی میں مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور مصلحت کا مطلب ہےکہ کہاں نرمی اور لچک دکھانے کی ضرورت ہے اور نرمی کا مطلب،اپنا راستہ ترک کرنا یا ذلت کو قبول کرنا ہرگز نہیں ہے اور نرمی اصولوں کے منافی عمل نہیں ہے۔ آپ نے ایک اچھی خارجہ پالیسی اور مؤثر سفارتی کاری کو ملکی کامیاب انتظامی امور کا بنیادی ستون قرار دیا اور خارجہ پالیسی سے متعلق 6 ضروری اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان ضروری اصولوں کی رعایت ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت ہے اور اگر ان اصولوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو ہمیں خارجہ پالیسی کے نظریے یا سفارت کاری کے امور پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ ولی امر مسلمین نے مختلف مسائل میں ملک کے نقطۂ نظر کی منطق کو اجراء کرنے کی صلاحیت کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی کے پہلے اصول کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے اچھی خارجہ پالیسی اور کارآمد سفارتی ادارے کو ملکی نظام چلانے میں کلیدی حیثیت کا مالک قرار دیا اور خارجہ پالیسی کے چھے اہم ضوابط بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے گوناگوں سیاسی و اقتصادی معاملات، واقعات اور رجحانات میں موثر اور سمت دینے والی موجودگی، ایران کے خلاف خطر آمیز پالیسیوں اور فیصلوں کو رفع اور کم کرنا، خطرہ پیدا کرنے والے مراکز کو کمزور کرنا، ایران کی ہمراہی کرنے والی حکومتوں اور اتحادی آرگنائزیشنز کی تقویت اور ملک کی اسٹریٹیجک گہرائی کی توسیع، علاقائی و عالمی فیصلوں اور اقدامات کی پوشیدہ پرتوں کے ادراک کی صلاحیت کامیاب خارجہ پالسیی کے ضوابط ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں متعدد ملکوں کے ساتھ جن میں بعض بہت اہم اور با اثر ممالک شامل ہیں، ایران کی مشترکہ سرحدوں کا ذکر کیا اور ہمسایہ ممالک سے روابط بڑھانے کی موجودہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک سے ایران کے تعلقات خراب کرنے کے لئے اغیار سرگرم ہیں، ان کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ انہوں نے عالمی نظام میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ہونے والی بحثوں میں یہ موضوع بار بار دہرایا جانے لگا ہے۔ آپ نے کہا کہ ورلڈ آرڈر کی تبدیلی نشیب و فراز والا ایک طولانی عمل ہے جس پر بہت سے ممکنہ واقعات کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے اور الگ الگ ممالک اس کے بارے میں الگ الگ نظریہ اور رجحان رکھتے ہیں۔

سلیمانی
ایرانی عازمین حج کا پہلا قافلہ مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور ان کا پھولوں اور گلابوں سے استقبال کیا گیا۔
مہر خبررساں ایجنسی نے ادارۂ حج کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ؛ 2023ء کے ایرانی عازمین حج کا پہلا قافلہ، آج صبح امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے مدینہ منورہ پہنچا ہے۔ ایرانی حجاج کرام کا مدینہ ایئر پورٹ پہنچنے پر پھولوں اور گلاب سے استقبال کیا گیا اور پھر ہوٹلوں میں قیام کیلئے روانہ ہوئے تو ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے نیز پھولوں، مٹھائیوں اور کھجوروں سے ان کا استقبال کیا گیا۔
ایرانی حجاج کرام مدینہ منورہ میں قیام کے دوران، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور بقیع میں آئمہ معصومین علیہم السلام کی قبور کی زیارت کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے شہر کے روحانی فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال، 87 ہزار 550 ایرانی حجاج قافلوں کی صورت میں سرزمین وحی جائیں گے۔
انڈونیشیاء مشرقی ایشیاء کے ساتھ تجارتی معاملات میں دوسرے نمبر پر ہے
مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں کاوه دلیری نے ایرانی صدر کے جکارتہ کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے انڈونیشیاء کے ساتھ ایران کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی صورتحال پر تبصرہ کیا اور کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ایران انڈونیشیا کے درمیان سیاسی اور دیگر مختلف شعبوں میں تعلقات کی صورتحال بہتر ہے، لیکن دونوں ممالک میں صلاحیتیں موجود ہونے کے باوجود، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں پیشرفت نہیں ہوئی ہے، البتہ انڈونیشیاء مشرقی ایشیاء کے ساتھ تجارتی معاملات میں دوسرے نمبر پر ہے، لیکن مزید ان معاملات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انڈونیشیاء آنے والے سالوں میں ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک ہو سکتا ہے، مزید کہا کہ انڈونیشیاء کی آبادی 270 ملین ہے اور دنیا کا چوتھا اور مسلم ممالک میں سب سے زیادہ آبادی والا اسلامی ملک ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کے پاس تجارتی مواقع موجود ہیں اور ایران اس ملک کے تجارتی معاملات میں شریک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انڈونیشیاء معاشی حوالے سے دنیا کے مضبوط ممالک میں سے ایک شمار ہوتا ہے اور اس وقت دنیا کی 16ویں بڑی معیشت ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، کورونا وائرس کے دوران بھی انڈونیشیاء کی معیشت ترقی کی طرف گامزن تھی اور بتایا جاتا ہے کہ انڈونیشیاء آئندہ 10 سالوں میں دنیا کی 5 بڑی معیشتوں میں شامل ہو سکتا ہے، لہٰذا انڈونیشیاء کو ایران کے اہم شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر متعارف کیا جا سکتا ہے۔
دلیری نے انڈونیشیاء میں ایران کے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشیاء نے 2022ء میں مختلف ممالک سے تقریباً 230 بلین ڈالر کی درآمدات کیں جبکہ ایران نے تقریباً 800 ملین ڈالر کی درآمدات کیں۔ دوسری طرف دنیا سے ہماری درآمدات 59 بلین ڈالر تھیں جس میں انڈونیشیاء کا حصہ 100 ملین ڈالر تھا، لہٰذا انڈونیشیاء کا ایران کے ساتھ تجارتی معاملات میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے اور اسے مضبوط کیا جانا چاہیئے۔
مشرقی ایشیاء کے ٹریڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے مزید کہا کہ دوسری طرف، انڈونیشیاء کی مختلف ممالک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات اور پروڈکٹ گروپوں میں بھی ایران کا کوئی اہم رول نہیں ہے، جبکہ ایران کے اندر انڈونیشیاء کو درکار پروڈکٹس کافی مقدار میں موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مثال کے طور پر انڈونیشیاء کے دارالحکومت کی جکارتہ سے نوسنتارا منتقلی میں ایران کو تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات، خام مال، تعمیراتی مصنوعات، بجلی اور سڑک کی تعمیر کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرنے کیلئے دسیوں ارب ڈالر کا تجارتی موقع فراہم ہو سکتا ہے۔
دلیری نے آخر میں ایرانی صدر کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے دورے کے دوران کسٹم، لاجسٹکس، کلیئرنگ، انجینئرنگ تکنیکی خدمات اور سب سے اہم ترجیحی تجارتی معاہدے کے شعبوں میں کئی دستاویزات پر دستخط ہوئے، جو کہ خوش آئند بات ہے۔
ایران کی دو ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے خیبر بیلسٹک میزائل کی رونمائی
ایران کے خلاف عراق کی جارحیت کی جنگ میں خرمشہر کی آزادی کی 41 ویں سالگرہ کے موقع پر، تہران نے اپنے خرمشہر بیلسٹک میزائل کی چوتھی نسل کو خیبر کے نام سے متعارف کرایا ہے۔
ایرانی وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی کی موجودگی میں جمعرات کی صبح 2,000 کلومیٹر کی رینج اور 1,500 کلوگرام وار ہیڈ کے حامل بیلسٹک میزائل کی ایک تقریب میں نقاب کشائی کی گئی۔
خیبر کی نمایاں خصوصیات میں فوری تیاری اور لانچ کا وقت شامل ہے، جو میزائل کو حکمت عملی کے ساتھ ساتھ ایک حکمت عملی کا ہتھیار بھی بناتا ہے۔
ایران اور ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کیلئے اغیار سرگرم ہیں، ولی امر مسلمین
حج کا مقصد مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں قریب کرنا اور کفر، ظلم، استکبار اور انسانی و غیر انسانی بتوں کے مقابل امت اسلامیہ کا اتحاد ہے
رہبر انقلاب اسلامی نے آیات قرآنی کی روشنی میں دلیل پیش کرتے ہوئے خانہ کعبہ کو انسانی معاشروں کی عمارت قائم رہنے کا ذریعہ قرار دیا اور حج کے دنیاوی اور اخروی فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حج نہ ہو تو مسلمہ امہ بکھر جائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حج کو عالمی وعدہ گاہ قرار دیا اور آیت قرآنی کو سند قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حج کے لئے تمام انسانوں کو دعوت دی گئی ہے۔ آپ نے کہا کہ تمام انسانون کو تاریخ کے ہر دور میں ایک خاص جگہ پر، مخصوص ایام میں جمع ہونے کی دعوت انتہائی اہم اہداف اور کثیر منفعت کا پتہ دیتی ہے جو اس دعوت الہیہ میں موجود ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مسلم امہ کا اتحاد اور استکباری شیاطین سے مقابلہ ان اہداف کا جز ہے۔ انہوں نے کہا کہ حج کے گوناگوں دنیاوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس عظیم اجتماع میں مسلمان صیہونی حکومت اور استکباری طاقتوں کی دخل اندازی کے مقابلے میں اپنی صف آرائی اور قوت کا مظاہرہ کریں اور دنیا کے ظالموں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حج کے اخروی فوائد کا ذکر کرتے ہوئے حج کے ہر عمل کو عالم غیب اور عالمی روحانیت کا ایک دریچہ قرار دیا اور حجاج کرام سے فرمایا کہ تضرع، دعا، اخلاص اور بندگی سے دلوں کو ہر اس چیز سے پاک کر لیجئے جو یاد الہی میں رکاوٹ پیدا کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کے مسائل و حالات سے آگاہی اور مسلم اقوام کی صورت حال سے واقفیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حج کے ایام دنیا کی اقوام اور مسائل سے آگاہی کا بڑا اچھا موقع ہے کہ انسان جھوٹے میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کی جھوٹی خبروں کی رو میں بہہ کر دنیا کے حقائق سے دور ہونے سے خود کو بچا سکتا ہے۔
آپ کا کہنا تھا کہ اگر ہم دنیا کے حالات سے باخبر رہیں گے تو دشمن کے اہداف اور بعض چیزوں پر اس کے اصرار کی اصلی غرض و غایت کو سمجھ سکیں گے، چنانچہ بہت سے امور میں ہمارے عہدیداران بھرپور طریقے سے بیدار تھے تو بہت سے علاقائی و عالمی معاملات میں ایران کو بہت اچھی پیشرفت حاصل ہوئی اور امریکہ تلملا کر رہ گيا، یہ حواس بجا رکھنے کا نتیجہ تھا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ متمدن ہونے کے دعویدار ممالک جو در حقیقت تہذیب سے پوری طرح بیگانہ ہیں، آج بھی سیاہ فام اور سفید فام کی نسل پرستی اور یورپی و غیر یورپی ہونے کی نسل پرستی میں مبتلا ہیں،ان کی نظر میں ان کے پالتو جانور بھی بعض انسانوں سے بدرجہا بہتر ہیں، پناہ گزینوں کے سمندر میں غرق ہونے کے پے در پے واقعات سے اس اس حقیقت کی نشان دہی ہوتی ہے۔
آپ کا کہنا تھا کہ حج میں ہر نسل، تاریخ اور ثقافت کے افراد یکساں اور ایک رنگ میں نظر آتے ہیں جو حج کے اسرار کا جز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسجد الحرام اور مسجد النبی میں نماز جماعت میں ایرانی حجاج کرام کی شرکت اور دیگر حجاج کرام سے رابطے پر تاکید کی۔ آپ کا کہنا تھا کہ اجتماعی طور پر دعائے کمیل پڑھنا بھی بہت اچھا ہے اور مشرکین سے اعلان برائت کا پروگرام بھی حج کے بہت وسیع اور عمیق گنجائشوں والے اعمال میں ہے جسے جاری رہنا چاہئے۔
اس ملاقات کے آغاز میں امور حج و زیارت میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام سید عبد الفتاح نواب نے حج کے تعلق سے کی گئی تیاریوں پر بریفنگ دی۔
ایران کی سراج الحق کے قافلے پر خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں بلوچستان پاکستان میں امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کے قافلے پر دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔انہوں نے اپنے مذمتی میں پاکستان کی ممتاز شخصیت سینیٹر سراج الحق کو نقصان پہنچانے میں دہشت گردوں کے عزائم پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحتیابی کیلئے دعا کی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد ایران کا دورہ کرے گا
مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیا ہے کہ جمعہ کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔وزیراعظم نے اجلاس میں کابینہ ارکان کو دورہ ایران پر بریفنگ دی۔وفاقی کابینہ کے اراکین کا خیرمقدم کرتے ہوئے وزیراعظم نے اُن کو اپنے گزشتہ روز کے پاک۔ایران سرحد کے دورے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایرانی صدر کی ذاتی دلچسپی اور وزیراعظم کی ذاتی نگرانی میں ایران سے100 میگا واٹ سستی بجلی کی درآمد کا منصوبہ قلیل مدت میں مکمل ہوا جوکہ عرصہ دراز سے التواء کا شکار تھا، اس منصوبے سے جنوبی بلوچستان خصوصاً گوادر میں بجلی کی ترسیل یقینی بنائی گئی ہے، اس منصوبے سے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں ترقی اور خوشحالی آئے گی،اسی طرح”مند۔پشین بارڈر مارکیٹ“ کا بھی افتتاح کیا جس سے پاک۔ ایران سرحد کے دونوں اطراف کے رہائشیوں کے لیے کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع میسر ہوں گے اور ترقی کا نیا سفر شروع ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایرانی صدر نے پاک۔ایران تجارت کے باہمی فروغ میں بھی خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی اور شمسی توانائی کے شعبوں میں تعاون پر بھی مفید بات چیت ہوئی۔وزیراعظم نے کہا کہ وزیر خارجہ کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد ایران کا دورہ کرے گا تاکہ اِن امور پر ٹھوس پیشرفت ہو۔وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو بتایا کہ دونوں ممالک نے 900 میل طویل سرحد پر سرحد پار دہشت گردی کو روکنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا اور سیکورٹی کے نظام کو مزید بہتر کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ وزیراعظم نے ایرانی صدر کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے قبول کی۔
ایرانی صدر کی سیستانی اور بلوچ قبیلوں کے سربراہوں سے ملاقات؛ صوبۂ سیستان و بلوچستان میں مختلف قوموں کے درمیان اتحاد و وحدت قابلِ تحسین ہے، آیت اللہ رئیسی
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے جمعرات کے روز، صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اپنے آخری ایک روزہ دورے کے دوران، اس صوبے کے قبائلی سربراہوں اور دیگر شخصیات سے خصوصی ملاقات کی۔
حجۃ الاسلام رئیسی نے صوبۂ سیستان و بلوچستان کے اسلامی قبیلوں اور فرقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو مثالی قرار دیا اور کہا کہ آج کے دور میں جب دشمن کا ہدف تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا ہے، لہٰذا صوبے کے بزرگ اور قبیلوں کے سربراہان کو اتحاد و اتفاق کے مسئلے پر زیادہ حکمت عملی سے توجہ دینی چاہیئے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ صوبۂ سیستان اور بلوچستان کی سرحد کو غیر محفوظ بنانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے باوجود، اس بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی ترقی کے سلسلے میں کیے گئے اچھے معاہدوں بشمول 7 مشترکہ سرحدی منڈیوں کی تعمیر کے حوالے سے مجھے یقین ہے کہ سیستان و بلوچستان میں بہترین اور قابلِ بھروسہ تاجر حضرات موجود ہیں جو پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے صوبۂ سیستان و بلوچستان میں امن و امان کے استحکام کو نیز خدا کی جانب سے نعمت اور شہداء کی کوششوں اور قربانیوں کا ثمر قرار دیا اور مزید کہا کہ ہمیں کچھ مفاد پرست عناصر کو منظم سازش کے تحت جرائم کا ارتکاب کرنے سے روکنا چاہیئے تاکہ اس صوبے کی سلامتی میں خلل نہ ڈال سکیں۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ سال کے فسادات میں دشمنوں کی جانب سے ملک کی سلامتی اور امن وامان کو متاثر کرنے کے عزائم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے واقعات کے دوران کچھ عناصر ملک کی سلامتی کو درہم برہم کرنے کے خواہشمند تھے اور احتجاج کے نام پر نظم و ضبط میں خلل ڈالنا چاہتے تھے جس کی کسی بھی پرامن شہری ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
آخر میں ایرانی صدر نے سیستان اور بلوچستان کو ایران کا اہم ترین علاقہ قرار دیا اور کہا کہ یقیناً آج صوبۂ سیستان و بلوچستان کی صورتحال اسلامی انقلاب سے پہلے اور انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی سالوں سے بہت مختلف ہے اور اس صوبے میں عوامی انفراسٹرکچر بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے جا چکے ہیں۔ لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ صوبے کے لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید اس صوبے کی خوشحالی کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔
ترویج علوم میں صادق آل محمد (ع) کا کردار
خداوند متعال نے انسان کو فطرتاً علم دوست خلق کیا ہے اور یہ انسان ہمیشہ سے علم کی طرف میل و رغبت رکھتا آ رہا ہے علماء میں رفت و آمد کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا رہا ہے اور یہ رجحان نوع بشر کو دیگر تمام موجودات سے ممتاز کرتا ہے اور علم ہی کی بنیاد پر آدم کو ملائکہ پر فضیلت دی گئی اور ملائکہ نے آدم پر تعظیمی سجدہ بجالایا، رسول خدا نے اہمیت علم کے ذیل میں فرمایا: اطلبوا العلم ولو بالصين».[وسائل الشيعه، ج ۲۷، ص ۲۷.] "علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔" دین اسلام کی علم کے سلسلے میں تمامتر تاکیدات کے باوجود انسانی معاشرہ علم و دانش سے دور نظر آرہا تھا گویا اس نے جہالت کا لبادہ اوڑھ لیا ہو ،یا حکومتیں مانع ہو رہیں تھیں جیسا کہ نقل احادیث پر پابندی عائد کی گئی یا خود لوگ بغض وعداوت کی وجہ سے خلاف فطرت علم سے دور ہو رہے تھے، آفتاب علم موجود تھا لیکن لوگ علم کی شعاعیں سےمستفید نہیں ہو رہے تھے ،جھالت کو دور کرنے کے لئے اسلام کا دغدغہ تھا لیکن ایک مستقل دانشگاہ، یونیورسٹی یا درسگاہ کا وجود نہ تھا جو دین اسلام کو نابود کر نے کے لئے دشمنان اسلام کے پاس ایک غنیمت موقع تھا، ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارے ائمہ علیہم السلام موقع کے تلاش میں تھے کہ علوم کو نشر کیا جائے لہذا بنی عباس کا قیام اور بنی امیہ کے ساتھ جنگ، یہ امام صادق علیہ السلام کو ایک سنہرہ موقع دستیاب ہوا اور امام نے اس موقع کا بھرپور استفادہ کیا ایک یونیورسٹی کو تشکیل دیا جس میں ۴ ہزار سے زائد مختلف فرقوں کے افراد زیر تعلیم تھے امام کے اس کارنامے کے بعد انسانی معاشرہ کبھی پھیچے موڑ کر نہیں دیکھا ،اسلامی تہذیب و تمدن ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی اور انسانیت کامیابی کے مراحل میں جاری و ساری ہے ،آج جو دنیا ترقی کر رہی ہے یہ امام صادق علیہ السلام کی دین ہے اور پوری انسانیت ان کی مدیون منت ہے۔
اس سے پہلے کہ اس بحث کا آغاز کیا جائے ضروری ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے حالات زندگی پر اجمالی نگاہ ڈالی جائے تاکہ امام کے اقدامات بطور احسن درک ہو سکیں۔
سیاسی حالات:
امام صادق علیه السلام کا دور دیگر ائمہ علیہم السلام کے ادوار سے مختلف و منفرد تھا کیونکہ سیاسی طور پر وہ دور اموی حکومت کی کمزوری و تزلزل اور عباسیوں کی طاقت میں اضافے کا دور تھا اور ایک مدت سے ان دونوں میں کشمکش رہی اور یہ دونوں آپس میں لڑتے رہے. ہشام بن عبدالملک کے زمانے سے عباسیوں کی تبلیغی اور سیاسی مہم شروع ہوئی اور ١٢٩ ھجری میں مسلح فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوا اور آخر کار ۱۳۲ ھجری میں بنی امیہ کو ایک طرفہ شکست دے کر خود اقتدار پر قابض ہو گئے ۔ چونکہ اس دور میں بنی امیہ بہت سے سیاسی مشکلات میں دوچار تھی ،اس لئے انہیں امام اور شیعوں پر پابندی عائد کرنے اور سختی برتنے کا موقع نہیں ملا ۔عباسیوں نے بھی کیونکہ خاندان رسول کی حمایت کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا لہذا حکومت کو اور محکم اور استوار کرنے کے لئے امام پر دباؤ ڈالا نہیں گیا۔اس لئے یہ دور امام صادق علیہ السلام اور شیعوں کے لئے نسبتاً امن و آزادی کا دور تھا اور امام کی علمی سرگرمیوں کے لئے ایک بہترین موقع فراہم ہوا۔(سیرہ پیشوایان ص ٣٦٥)
ثقافتی صورتحال:
فکری اور ثقافتی لحاظ سے امام صادق علیہ السلام کا دور فکری اور ثقافتی تحریک کا دور تھا۔اس وقت اسلامی معاشرے میں علمی جوش و خروش ایجاد ہوا اور مختلف علوم جیسے: علم قرئت قرآن،علم تفسیر،علم حدیث،علم فقہ،علم کلام یا دنیاوی علوم جیسے: علم طب ،فلسفہ ،ریاضیات، علم نجوم اور علم کیمیا وغیرہ وجود میں آئے ،اس بناپر معاشرہ میں علمی تشنگی کا احساس بڑھتا گیا اور امام صادق علیہ السلام نے ایک یونیورسٹی کو تشکیل دے کر معاشرہ کو مختلف علوم سے سیراب فرمایا ۔(حمید احمدی ،تاریخ امامان شیعه ص ١٩٠)
اقدامات امام صادق علیہ السلام:
(١) امام صادق علیہ السلام موقع شناس تھے آپ اپنے دور کے تمام حالات سے با خبر تھے آپ نے دیکھا کہ نشر علوم کے لئے بہترین موقع ہے لہذا امام نے بے ثمر فعالیت سے اجتناب کیا، اس وقت کئی مقامات پر بنی امیہ کے خلاف قیام بپا کئے گئے لیکن امام ان میں شریک نہیں ہوئے اور اپنے شیعوں سے بھی سکوت اور قیام سے دوری کے لئے سفارش کرتے رہے اور اسی طرح بنی عباس نے بھی آپ کو خلافت کے لئے دعوت دی آپ نے اس سے انکار کیا جیسا کہ ابو مسلم نے امام صادق علیہ السلام سے بیعت کرنے کی تجویز پیش کی اور ایک خط میں لکھا:"آپ اگر خلافت کے لئے راغب ہیں تو آپ سے بہتر کوئی نہیں ۔امام نے جواب میں لکھا " ما اَنْتَ مِنْ رجالی وَ لا الزَّمانُ زَمانی "نہ تم میرے یاران میں سے ہو اور نہ یہ زمانہ میرا زمانہ ہے(شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، ج۱، ص ۱۵۴)۔ اس طرح امام نے غنیمت موقع کو ضایع ہونے نہیں دیا ۔
(٢) امام صادق علیہ السلام نے نشر و حفظ علوم کے لئے اور اسے نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے کتابت و تدوین کا آغاز کیا درحالی کہ امام سے پہلے مسلمانوں میں ایک مدت تک احادیث کی تدوین پر ممانعت رائج تھی.
صادق علیہ السلام کی اسی محنت اور کوشش کی وجہ سے آپ کے شاگردوں نے علوم اسلامی کے مختلف مسائل پر مقالات اور کتابیں مرتب کرنا شروع کیں جیسا کہ محمد بن نعمان احول " کتاب الامامۃ و کتاب الرد علی المعتزله فی امامۃ المفضول" یہ کتاب ان کے آثار میں سے ہیں.(شهرستانی، الملل و النحل، تحقیق: محمد سید گیلانی، ج۱، ص١٨٧). اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے کتابت کی اھمیت میں فرمایا: "قیدوا العلم بالکتابۃ""علم کو کتابت و تدوین کے ذریعے قید کرو"(محمد بن حسن طوسی،الامالی ،ص ٩٥)
(۳) امام صادق علیہ السلام کا اپنے زمانے میں سب سے نمایاں اقدام نشر علوم کے لئے یہ تھا کہ جس شخص کو جس علم میں شوق و ذوق تھا اسے اسی علم کا ماہر و متخصص بناتے تھے ،امام صادق علیہ السلام کے ایک مناظرہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ بات روشن ہوجائے ۔" ایک مرتبہ ایک شامی امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور امام پر سلام کیا ،امام نے جواب دیا اور فرمایا: تمھاری خواہش کیا ہے اور تم یہاں کیوں آئے ہو ؟, شامی نے کہا: میں نے سنا ہے کہ آپ تمام علوم سے واقف ہیں ،اس لئے میں مناظرہ کے لئے آیا ہوں،امام نے فرمایا: کس مورد میں ؟اس نے کہا: قرآن کے سلسلے میں ،حروف مقطعات کے بارے میں اور اعراب قرآن کے سلسلے میں ،امام نے فرمایا: اس سلسلے میں میرے شاگرد حمران ابن اعین سے مناظرہ کرو،شامی نے کہا میں آپ ہی سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں دوسروں سے نہیں ،امام نے فرمایا: حمران ابن اعین سے مناظرہ کرو اگر اس پر غالب آگئے تو گویا مجھ پر غالب آگئے ، پس شامی نے حمران سے مناظرہ شروع کر دیا اور تھک ہار کر بے بس نظر آیا ،امام نے فرمایا:اے شامی ! تم نے اسے کیسے پایا ؟ شامی نے کہا:میں نے حمران کو ماہر و مانوس پایا اور مجھے مکمل جواب ملے ،پھر شامی مرد نے کہا عربی علوم کے سلسلے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،امام نے ابان ابن تغلب کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اس سے جو چاہو وہ دریافت کرلو،وہ ابان ابن تغلب کے پاس گیا اور ان سے مناظرہ میں شکست کا سامنا کیا ،پھر امام سے عرض کیا میں علم فقہ میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،امام نے اپنے ایک اور شاگرد کا تعارف کروایا جس کا نام زرارہ تھا امام نے شامی سے فرمایا: اس سے بحث کرو ،وہ تمہیں قانع کرے گا ،زرارہ سے شکست کے بعد شامی نے امام صادق علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا اس بار آپ سے علم کلام کے سلسلے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں ،اس بار بھی امام نے اپنے ایک شاگرد مومن طاق سے فرمایا: دیکھو اس کے اشکالات کیا ہیں ،مومن طاق نے مرد شامی سے مناظرہ کیا اور اس پر غالب آگئے اور اسی طرح ہشام بن سالم کے ساتھ توحید اور خدا شناسی کے سلسلے میں اور ہشام ابن حکم سے امامت و خلافت کے سلسلے میں مناظرہ ہوا اور شامی آدمی کو شکست ہوئی۔
امام صادق علیہ السلام مسکرا رہے تھے ،اس شامی نے کہا : گویا آپ مجھے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آپ کے شیعوں میں ایسے لوگ ہیں جو مختلف علوم سے واقف و ماہر ہیں؟
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اسی طرح سمجھو(۔اختيار معرفة الرّجال : ص 275، ح 494)
اسی خد و خال سے امام نے اپنے تمام شاگردوں کو متخصص و ماہر بنایا اور نشر علوم کے لئے امام کی یہ روش کارگر ثابت ہوئی ۔
(۴) امام صادق علیہ السلام نے نشر علوم کے لئے جو علوم کا مرکز و محور ہے یعنی قرآن مجید کی واقعی تفسیر کو بیان فرمایا، جو اسرار قرآن پنہان تھے ان کو لوگوں کے فہم کے مطابق اجاگر کیا آج جتنی بھی تفاسیر روایی ہیں ان میں بیشتر روایات امام صادق علیہ السلام سے منقول ہیں یہ اقدام امام صادق علیہ السلام کا بے حد متاثر کن رہا اس لئے کہ اگر قرآن کی واقعی تفسیر نہ کی جاتی تو دیگر علوم پایدار و مستحکم نہ ہوتے لہذا امام کا یہ کارنامہ نشر علوم کے لئے ایک محور و مرکز قرار پایا۔
خدا کا نبی جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا
حضرت«عزیر» نسل هارون برادر موسی سے تعلق رکھتا ہے. وہ اسکا بھائی «عزیز» بیت المقدس میں پیدا ہوئے تھے اور بعض کے مطابق ارمیا انکی جائے پیدائش بتایا جاتا ہے۔
قوم بنیاسرائیل کے انبیاء میں شمار ہوتے ہیں. عزیر ایرانی ایمپائر هخامنشیان کے دور میں ایران میں رہتا تھا.
مذہبی تواریخ کے مطابق عزیر جوانی میں خدا کے امر سے انتقال کرجاتے ہیں اور پھر دوبارہ سو سال کے بعد زندہ ہوجاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب عزیر ایک گاوں سے گزرتا ہے جہاں صرف پرانی قبریں موجود تھیں عزیر کے دل میں خیال آیا کہ خدا ان بوسیدہ ہڈیوں کو کیسے زندہ کرے گا۔
خدا کے حکم سے اسی وقت اسکی موت واقع ہوتی ہے اور سو سال کے بعد وہ دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ ایک دن سونے کے بعد اٹھا ہے۔
بعض تفاسیر کے مطابق عزیر ایک ایسا انسان تھا جس نے بنی اسرائیل کو سو سالہ غلامی سے نجات دلاکر بابل سے فلسطین واپس لایا۔
بخت النصر جو تاریخ کے مطابق بابل کا ظالم حاکم بتایا جاتا ہے اس نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور یہودی عبادت خانوں کو مسمار کرکے تورات کو شہید کیا اور بنی اسرائیل کے کافی لوگوں کو قتل کرکے انکو غلامی میں لیا اور انکو بابل منتقل کیا۔
حضرت عزیر نے اس وقت جب ایرانی ایمپائر کورورش نے هخامنشی دور میں بابل کو فتح کیا تو اس نے کوروش سے درخواست کی کہ وہ یہودیوں کو بیت المقدس واپس جانے کی اجازت دیں۔
عزیر کو تورات دوبارہ زندہ کرنے کا پیغمبر بھی کہا جاتا ہے. تورات کو شهر بیت المقدس میں حملے کے وقت نذر آتش کیا گیا تھا، عزیر کو تورات زبانی یاد تھا اس نے دوبارہ اس کو پڑھا اور لوگوں نے اس کو تحریر کیا۔
حضرت «عزیر» کا نام قرآن میں ایک بار آیا ہے اور وہ آیت 30 سوره توبه میں ہے جہاں کہا گیا ہے کہ یہودی اسے خدا کا بیٹا جانتا تھا، اسی طرح انکی سوسالہ موت کے بعد کا قصہ نام لیے بغیر آیت
259 سوره بقره میں آیا ہے۔
عزیر نبی کے مزار بارے کئی مقامات منسوب ہیں فلسطین میں غزہ کی پٹی، عراق کے صوبہ میسان کے جنوب میں اور اسی طرح ایران میں بھی عزیر سے منسوب مزار موجود ہے۔