
سلیمانی
خطیب عرفہ کا مسلمانوں میں اتحاد پر زور
یوم عرفہ کی تقریب کے مقرر نے غریبوں اور مسکینوں کی مدد پر تاکید کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے سے خبردار کیا اور کہا: اس سال کے حج کا سب سے اہم یادگار تحفہ، اسلامی ملک میں اتحاد اور فتنہ پروری کی خاموشی ہونی چاہیے۔
ایکنا نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ یوم عرفہ کی تقریب کے خطیب اور سعودی عرب کے سینئر علماء کی کونسل کے رکن یوسف بن محمد بن سعید نے عرفہ کے دن مسجد نمرہ میں اپنے خطبہ میں کہا: اسلامی شریعت مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے والے مسائل کی پیروی کرنے سے منع کرتا ہے، یہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ سے ڈرنے، اس کی اطاعت کرنے، اس کی شریعت پر عمل کرنے اور اس کی حدود کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کی دعوت دیتا ہے۔
ابن سعید کے کلام کا نچوڑ امن پر انحصار، اتحاد کو فروغ دینا، تفرقہ بازی سے گریز اور عالم اسلام میں فتنہ کو خاموش کرنا تھا۔
انفرادی اخلاقی طریقوں کی اصلاح کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے کا اظہار کرتے ہوئے، آپ نے اسلامی فرقوں کے ساتھ سماجی بقائے باہمی کو فروغ دینے کو آج کی دنیا میں حج کا سب سے اہم مشن قرار دیا۔
بن سعید نے عرفہ کے دن مسجد نمرہ سے اپنے خطبہ میں قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبوی کا حوالہ دیتے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے اور خدا کی رسی کو تھامے رکھنے پر زور دیا۔
منارہ الحرمین کی ویب سائٹ پر ان خطبات کا بیک وقت 30 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
سوئیڈن میں قرآن سوزی کے اعادہ پر مسلم دنیا سراپا احتجاج
جدہ : سوئیڈن میں قرآن سوزی پر مسلم دنیا سراپا احتجاج بن گئی اور سوئڈش حکومت سے ایسے اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ نفرت انگیز اور بار بار کی گئی کارروائیوں کو کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واضح طور پر نفرت اور نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں۔ ترک وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہاکہ آزادیِ اظہار کے بہانے اسلام مخالف اقدامات کی اجازت ناقابلِ قبول ہے۔ایسے ظالمانہ کاموں سے آنکھیں موندنے کا مطلب ان میں شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے مقدس موقع پر مقدسات کی توہین ایک کھلی اشتعال انگیزی کے مترادف، غیر منصفانہ، اور ناقابل قبول عمل ہے۔ ادھر مراکش نے سویڈن سے اپنے سفیر کو غیر معینہ مدت کےلیے واپس بلا لیا جبکہ رباط میں سویڈن کے ناظم الامور کو طلب کرکے واقعہ کی شدید مذمت کی۔
سویڈن کے وزیراعظم الف کرسٹرسن نے قرآن سوزی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج قانونی لیکن مناسب نہیں تھا، پولیس پر منحصر تھا کہ وہ اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ عدالت کی اجازت کے بعد انتہا پسندوں نے عید الاضحیٰ کے پہلے روز سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن کو نذرآتش کیا۔
ایرانی حجاج کی میدان عرفات میں مشرکین سے بیزاری/ مردہ باد امریکہ و اسرائیل کی گونج
عرفات کے صحرا میں حج و زیارات کے امور میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کی موجودگی میں مشرکین سے بیزاری کے مراسم منعقد ہوئے۔
عرفات کے میدان میں ہونے والے اس پروگرام کا سب سے اہم حصہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے حج کے موقع پر جاری ہونے والا پیغام تھا۔ ولی فقیہ کے نمائندے سید عبدالفتاح نواب نے نے مشرکین سے بیزاری کے مراسم میں اس پیغام کو پڑھ کر سنایا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حج؛ حج معنویت اور اخلاق پر استوار ایک حیات بخش عالمی منشور زندگی ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حج بیت اللہ کی مناسبت سے پیغام میں کہا ہے کہ فریضہ حج انسانی رشد اور بشریت کی معنوی و اخلاقی پیشرفت کی عالمی دعوت ہے۔ حج کے عالمی سطح پر موثر واقع ہونے کے لئے امت مسلمہ کو چاہئے کہ اس عظیم فریضے کے دو اراکان یعنی وحدت اور معنویت پر مبنی حیات بخش پیغام کی صحیح شناخت حاصل کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج کرام کے نام پیغام جاری کیا جو حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ ربّ العالمین و صلّی اللہ علی الرسول الاعظم محمد المصطفی و آلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین.
حج ابراہیمی کی صلائے عام اور اس کی عالمی دعوت نے ایک بار پھر تاریخ کی گہرائيوں سے پوری دنیا کو مخاطب کیا اور ذکر خدا کرنے والے مشتاق دلوں میں ہلچل مچا دی۔
داعی کی آواز بنی نوع انسان کی فرد فرد کے لیے ہے: "و اَذِّن فی الناس بالحجّ" (اور لوگوں میں حج کی عام منادی کر دیجیے) اور کعبہ، تمام انسانوں کا مبارک میزبان اور رہنما ہے: "انّ اوّلَ بیتٍ وُضع للنّاس للّذی ببکّۃ مبارکاً و ھدیً للعالمین" (بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا، وہی ہے جو مکے میں ہے، بڑی برکت والا اور عالمین کے لیے مرکز ہدایت ہے۔)
تمام مسلمانوں کی توجہ کے مرکز پرکار اور اصلی محور کی حیثیت کے حامل کعبہ اور عالم اسلام کے گوناگوں جغرافیا کے ایک چھوٹے سے مرقعے کی حیثیت سے حج کا پروگرام، انسانی معاشرے کے عروج اور تمام انسانوں کے امن و سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔ حج، پوری انسانیت کو معنوی عروج اور روحانی و اخلاقی ارتقاء کی اعلی ترین منزل پر پہنچا سکتا ہے اور یہ، آج کے انسان کی حیاتی ضرورت ہے۔
حج، آج اور آئندہ کل کے انسان کے اخلاقی زوال کی موجب سامراج اور صیہونیت کی تمام سازشوں کو ناکام اور بے اثر بنا سکتا ہے۔
اس عالمی تاثیر کی ضروری شرط یہ ہے کہ مسلمان قدم اول کے طور پر، حج کے حیات بخش خطاب کو پہلے خود صحیح طریقے سے سنیں اور اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئي دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔
اس خطاب کے دو بنیادی ستون، اتحاد اور معنویت ہیں۔ وحدت و روحانیت، عالم اسلام کی مادی و معنوی پیشرفت کی ضامن ہے اور یہ پوری دنیا پر ضو فشانی کر سکتی ہے۔ اتحاد کا مطلب، فکری اور عملی رابطہ ہے، یہ دلوں، افکار اور مواقف کے قریب ہونے سے عبارت ہے، اس کا مطلب علمی و تجرباتی تعاون ہے، یہ اسلامی ملکوں کے معاشی رشتے کے معنی میں ہے، مسلم حکومتوں کے باہمی اعتماد و تعاون کے معنی میں ہے، یہ مسلّمہ اور مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے معنی میں ہے، وحدت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی تیار کردہ سازش، اسلامی فرقوں یا عالم اسلام کی مختلف قوموں، نسلوں، زبانوں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل نہ لا سکے۔
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مسلم اقوام ایک دوسرے کو، دشمن کے فتنہ انگیز تعارف سے نہیں بلکہ آپسی رشتوں، بات چیت اور آمد و رفت سے پہچانیں، ایک دوسرے کے وسائل اور صلاحیتوں سے واقف ہوں اور ان سے استفادے کے لیے پروگرام تیار کریں۔
اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کے سائنسداں اور یونیورسٹیاں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائيں، اسلامی مذاہب کے علماء ایک دوسرے کو حسن ظن، رواداری اور انصاف پسندی کی نظر سے دیکھیں اور ایک دوسرے کی باتیں سنیں، ہر ملک اور ہر مذہب کے دانشور عوام کو ایک دوسرے کے مشترکات سے آشنا کریں اور انھیں باہمی زندگي اور اخوت کی ترغیب دلائيں۔
اسی طرح وحدت اس معنی میں ہے کہ اسلامی ملکوں میں سیاسی و ثقافتی رہنما پوری ہماہنگي کے ساتھ خود کو درپیش عالمی نظام کے حالات کے لیے تیار کریں، دنیا کے نئے تجربے میں، جو موقعوں اور خطروں سے بھرا ہوا ہے، امت اسلامی کے شایان شان مقام کو اپنے ہاتھوں سے اور اپنے ارادے سے یقینی بنائيں اور پہلی عالمی جنگ کے بعد مغربی حکومتوں کے ہاتھوں انجام پانے والے مغربی ایشیا کے سیاسی و علاقائي تغیرات کے تلخ تجربے کو دوہرائے جانے کی اجازت نہ دیں۔
معنویت، دینی اخلاق کے ارتقاء کے معنی میں ہے۔ دین کی نفی کے ساتھ اخلاق کی فسوں کاری کا انجام، جس کی عرصے تک مغرب کے فکری ذرائع کی جانب سے ترویج کی جاتی رہی، مغرب میں اخلاقیات کا تیز رفتار زوال ہے جس کا دنیا میں سبھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ معنویت اور اخلاق کو، حج کے مناسک سے، احرام میں سادگي سے، خیالی امتیازات کی نفی سے، "و اطعموا البائس الفقیر" (اور تنگ دست محتاج کو کھانا کھلاؤ) (کی تعلیم) سے، "لارَفَث و لافسوق و لاجدال" (حج کے دوران کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی اور کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو) (کی ہدایت) سے، توحید کے محور کے گرد پر امید طواف سے، شیطان کو کنکریاں مارنے سے اور مشرکین سے اعلان برائت سے سیکھنا چاہیے۔
حج کا فریضہ انجام دینے والے بھائيو اور بہنو! حج کے موقع کو اس بے نظیر فریضے کے رموز کے بارے میں گہرائي سے غور و فکر کرنے کے لیے استعمال کیجئے اور اپنی پوری عمر کے لیے توشہ تیار کر لیجیے۔ اتحاد اور معنویت کو ماضی سے کہیں زیادہ اس وقت سامراج اور صیہونیت کی دشمنی اور خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور سامراجی تسلط کی دوسری طاقتیں، مسلمانوں کے اتحاد اور مسلم اقوام، ممالک اور حکومتوں کے آپسی افہام و تفہیم اور ان اقوام کی نوجوان نسل کے جذبہ دینداری کی سخت مخالف ہیں اور ہر ممکن طریقے سے ان چیزوں پر حملے کر رہی ہیں۔ اس خباثت آمیز امریکی و صیہونی سازش کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہم سب کی اور تمام اقوام اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
خداوند علیم و قدیر سے مدد طلب کیجیے، اپنے اندر مشرکین سے اظہار برائت کے جذبے کو مضبوط بنائیے اور خود کو اپنی زندگي کے ماحول میں اسے پھیلانے اور مزید گہرائي عطا کرنے کا ذمہ دار سمجھیے۔
سبھی کے لیے خداوند عالم سے توفیق اور آپ ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کے لیے 'مقبول و مشکور حج' کی دعا کرتا ہوں اور سبھی کے لیے حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی مستجاب دعا طلب کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
6 ذی الحجہ 1444 ہجری قمری
4 تیر 1402 مطابق 25 جون 2023
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحراف سے بچایا
مہر نیوز ایجنسی، گروہ عقیدہ و دین؛ سات ذی الحجہ کو آسمان امامت کے پانچویں ستارے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ کا لقب باقر ہے جس کے معنی ہیں علوم کا پردہ چاک کرنے والا۔ آپ بنی ہاشم میں سب سے زیادہ علم وزھد اور تقوی کے مالک تھے جس کی دوست و دشمن سب گواہی دیتے تھے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے زمانے کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور علوم وحیانی کی ترویج میں سرگرم رہے۔ آپ نے علم کو بند گلی سے نکال کر شکوفائی عطا کی اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے لئے بنیاد فراہم کی۔ اس دور کے جید علماء جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض اصحاب اور اہل سنت علماء بھی شام تھے، نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے مہر نیوز نے آپ کی سیاسی اور علمی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لئے حوزہ اور یونیورسٹی کے نامور استاد حجت الاسلام عبدالکریم پاک نیا سے گفتگو کی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاد حجت الاسلام پاک نیا نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے دور امامت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا دور ان ادوار میں شمار ہوتا ہے جب اسلامی تمدن اور فرھنگ کو شدید انحرافی خطرات لاحق تھے۔ بنی امیہ نے دینی تعلیمات میں تحریف اور انحراف ایجاد کرنے خطرناک منصوبے شروع کئے تھے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کی خاطر خاندان نبوت کو وحشیانہ طریقے سے کربلا میں قتل کیا گیا۔ مدینہ والوں نے احتجاج کیا تو بے رحمی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ عدالت خواہی کے لئے قیام کرنے والے علوی سادات کو تہہ تیغ کیا گیا۔ سخت ترین اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ بنی امیہ اسلام کے فکری اور علمی آثار کو نابود کرنے کے درپے تھے۔ مال و دولت کے ذریعے بعض لوگوں کو حدیث گھڑنے کے لئے تیار کیا گیا۔
بنی امیہ کی یہ حرکات وقت کے امام سے پوشیدہ نہ تھیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تعلیمی درسگاہ کی تاسیس کی اور نظریہ پردازی کے ذریعے اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے اسلامی تہذیب و تمدن کو انحرافی راستے پر چلنے سے نجات دی۔ آپ نے جب دیکھا کہ الہی اور قرآنی علوم کی تعلیم کے لئے میدان کھلا ہے تو تمام علوم میں نئے باب کھولے۔ یہ وہی بشارت تھی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے سامنے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے آپ کے علمی مقام و منزلت کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ کو لقب اسی وجہ سے باقر رکھا گیا۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور انتہائی حساس تھا۔ بنی امیہ کی سیاسی اور فکری سوچ کے حامل لوگ معاشرے میں رونما ہوئے۔ ان کے تفسیری، حدیثی اور تاریخی رجحانات عالم اسلام کے لئے بہت خطرناک تھے۔ داعش اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروہ اسی فکر کا نتیجہ ہے۔ کسی خاص ہدف کے تحت اور کینہ کی بنیاد پر تاریخ نویسی کے باعث انحراف کا ماحول بن گیا تھا۔ بنی امیہ شیعوں کو خاک و خون میں نہلانے کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کو مکمل ختم کرنا چاہتے تھے اسی لیے فکری اور مذہبی طور پر منحرف فرقے ایجاد کررہے تھے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس دور میں بڑا جہاد کیا اور تمام منحرف فرقوں کے ساتھ خوب مقابلہ کیا۔ آپ کی علمی تحریک کی بنیاد منحرف فرقوں سے مقابلے پر استوار تھی۔ آپ نے گمراہ فرقوں سے متاثر افکار اور انحرافات کو معاشرے میں عیاں اور غلط ثابت کردیا۔ اس دور میں انبیاء کا معصوم نہ ہونا، اللہ کے لئے جسم ہونا، بیت المقدس کا کعبہ سے افضل ہونا وغیرہ ایسے اعتقادی انحرافات میں سے تھے جو عالم اسلام میں پیدا ہوئے اور امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کا مقابلہ کیا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ نے بھی یہودیوں کے شبیہ نہ بنو جیسی تعبیروں کے ذریعے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے فکری اور ثقافتی ناپسندیدہ اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں نے بھی ان انحرافات کے مقابلے میں استقامت دکھائی اور خود کو گزند پہنچانے سے دور رکھا۔ آج استعماری طاقتوں کی جانب سے اسلام پر وارد ہونے والے اعتراضات کی جڑیں ان اسرائیلیات کے اندر پائی جاتی ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی برکت سے شیعہ کتابیں ان سے پاک ہیں۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ معاشرے میں مذاکرے کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ معاشرے کے رہنما جدید طریقے پیش کرکے معاشرے کے رسم و رواج کو آگے بڑھاتے ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے زمانے جدید علوم متعارف کرائے اور غاصب حکمرانوں کے ایجاد کردہ انحرافی افکار سے اسلامی تمدن اور فرھنگ کو بچایا۔ آپ دین کا اصلی راستہ لوگوں کو دکھایا اور شبہات اور منحرف عقاید کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ دین میں حصول علم ایک اصل اور بنیادی امر ہے کیونکہ قرآن اور دین کو سمجھنا علم پر منحصر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو علم حاصل کرنے کی تشویق کرتے ہوئے واجب قرار دیا۔ قرآنی تعلیمات میں علم حاصل کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور علماء کو معاشرے میں فضیلت دی گئی ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک علمی تحریک شروع کی جس کی بنیادیں وحیانی اور نبوی علوم کے اندر پیوست ہیں۔ اگر آپ کی علمی محنتوں کو جدا کیا جائے تو اسلامی تمدن خطرات سے روبرو ہوجائے گا۔ اسلامی تمدن کو رونق اور شکوفائی عطا کرنے کے لئے اہل بیت کے علمی اثرات بہت ہی اہم اور قابل توجہ ہیں۔ شاگردوں اور ان علوم کے حافظوں اور وارثوں کی تربیت اسلامی تمدن کے تحفظ کے پہلووں میں سے ایک ہے۔
امام نے عملی طور پر مدارس کی تعمیر اور علمی محافل سجا کر علمی رجحان پر مبنی مذاکرے کی بنیاد رکھی اور اسے فروغ دیا۔ امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام کے علمی اقدامات نے ایک ثقافت سے مالامال ایک مکتب کو وجود میں لایا جو بعد میں جعفری مکتب کے نام سے مشہور ہوا، یہ مکتبہ فکر جو باقاعدگی سے تمام شعبوں میں اہل بیت کے علوم کو پیش کرتا ہے، نصف صدی سے زیادہ ان دونوں شیعہ اماموں کی مسلسل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے مزید کہا کہ اس زمانے کے سیاسی معاشرے میں اس طرح کی پالیسی اختیار کرنا جب اموی اور بعد میں عباسی خلفاء اپنی حکومت کی بقا کے لیے کسی بھی قسم کی مخالفت برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے، سیاسی اقدامات کے ساتھ ناممکن تھیں۔ امام نے اس دور میں اسلامی معارف کو بیان کیا اور دینی ثقافت کی ترویج کی۔ آپ خلافت کو اپنا اور اپنے آباء و اجداد کا حق سمجھتے تھے جس کو طاقت کے بل بوتے غصب کیا گیا تھا۔ آپ نے کھل کر حکمرانوں کی مخالفت کی اور ان کے خلاف موقف اپنایا۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے شیعوں اور اسلامی تمدن و تہذیب کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ آپ اپنے زمانے کے معتبر ترین فرد شمار ہوتے تھے جس کا سب اعتراف کرتے تھے۔ اسی لئے ایران اور دوسرے علاقوں سے سینکڑوں لوگ مدینہ آکر آپ کی علمی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اہل بیت کی اس درسگاہ میں 4000 سے زائد طلباء نے استفادہ کیا۔
حجت الاسلام پاک نیا نے کہا کہ اگر علمی بنیادیں کمزور ہوں تو سب کچھ انحرافات اور شہات کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔ اس زمانے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس نکتے پر خصوصی توجہ کی اور دین اور مذہب کی علمی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ شاگردوں کی تربیت اور علمی محافل سجا کر آپ نے بے نظیر اقدام کیا جو آج تک جاری ہے۔ آپ نے اپنے والد گرامی کے دور میں ہی معاشرے کو قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور انحرافی افکار سے بخوبی واقف تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے امامت کا فریضہ سنبھالا اور علمی خدمات انجام دیں۔
انہوں نے کہا کہ امام علی مقام نے اگلے مرحلے میں بنی امیہ کے انحرافات کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی علوم کی بنیاد رکھی۔ اگر یہ اقدام نہ کرتے تو بنی امیہ فکری اور ثقافتی انحرافات کے ذریعے دین کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیتے اور اس امت مسلمہ کو حقیقی راستے سے ہٹادیتے۔ آپ نے دانشوروں کے ساتھ علمی مذاکروں کے ذریعے دین کی بنیادوں کو سقوط سے نجات دی۔ آپ نے علم کو حقیقی پہچان اور شناخت عطا کی۔ آپ حقیقی معنوں میں علوم کے پردوں کو چاک کرنے والے تھے۔
خلقت کے اسرار سوره غاشیه کے رو سے
ایکنا نیوز- قرآن کریم کا اٹھاسی واں سورہ «غاشیه» کے نام سے ہے. قرآن کے تیسویں پارے میں موجود اس سورہ میں 26 آیات ہیں۔ سور ہ غاشیه مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے جو ترتیب نزول کے حوالے سے اٹھسٹواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے.
غاشیه کا مطلب یا معنی «چھپانا یا ڈھانپنا» ہے اور یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
اس نام کی وجہ یہ ہے کہ روز قیامت میں قیامت اور حادثات تمام انسانوں کے گھیر لیں گے، یہ لفظ پہلی آیت میں استعمال ہوئی ہے۔
موضوع اصلی این سوره، روز قیامت است که مخصوص مجازات ها و عذاب های دردناک مجرمان و پاداش های مؤمنان است.
اس سورہ میں یوم قیامت کو عوام کی حالت زار پر اشارہ ہوا ہے اس دن لوگ دو گروپ میں تقسیم ہوں گے کچھ خوشحال اور کچھ شدید ناراضی کی حالت میں، ایک جنتی ہوگا اور دوسرا جہنمی۔
اس سوره میں دوسرا موضوع «توحید» اور خلقت کی باریکیوں کے حوالے سے ہے جسمیں اونٹ کی عجیب خلقت، آسمان اور پہاڑوں کے اسرار پر روشنی ڈالی گیی ہے اور انسان کو خالق کی طرف رہنمائی کی گیی ہے۔
اس سورے میں تیسرا موضوع، «مقام رسالت» اور پیغمبروں کی ذمہ داری بارے ہے. اس سورے میں رسول اسلام(ص) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو نصیحت کریں، دنیا کی خلقت اور لوگوں کی خدا کی طرف واپسی اور حساب کتاب کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
ایک اور اہم موضوع جس کے بارے میں تاکید کی گیی ہے، اونٹ ہے: «أَفَلَا ینظُرُونَ إِلَی الْإِبِلِ کیفَ خُلِقَتْ: آیا کیا اونٹ پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے کیسے خلق کیا ہے؟» (غاشیه/ 17). اونٹ ایسا جانور ہے جسمیں کافی صلاحیتیں موجود ہیں اور اس میں غور وفکر حیرت کا باعث ہے، اس کی پلکیں ریت کے طوفان کے مقابل مضبوط ہیں، اپنے کوھان میں چربی اور غذا کو زخیرہ کرتا ہے اور بھوک کے مقابل سخت دم ہے، بدن میں پانی کو زخیرہ کرسکتا ہے اور پیاس برداشت کرتا ہے اور بیابانوں میں بہ آسانی سفر کرتا ہے اس کے پاوں کو بیابان و ریگستان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کی گردن کو سواری اور سامان محفوظ رکھنے کے لیے معاون تیار کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر عربوں کی طرح کہنا چاہیے : «اونٹ بیابانوں کی کشتی ہے». مضبوط ترين، كم خرچترين، فائدہ مندترين اور آرامترين بردبار جانور ہے۔/
لاکھوں فرزندان حجاج کرام وقوف عرفہ کی ادائیگی کیلئے میدان عرفات میں جمع
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز لاکھوں عازمین حج نے پیر کو پیدل یا بسوں میں سوار ہو کر مکہ مکرمہ کے قریب منیٰ میں بڑی خیمہ بستی کے شہر میں سالانہ حج کی ادائیگی کے لیے جمع ہوئے ہیں جہاں سعودی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حج حاضری کے ریکارڈ توڑ سکتا ہے۔
زائرین کرام احرام اور سینڈل و چپل پہنے حجاج میں سے اکثر چھتری لیے ہوئے تھے جنہوں نے پیدل یا سعودی حکام کی جانب سے فراہم کردہ سیکڑوں ایئر کنڈیشنڈ بسوں کے قافلے میں سفر کیا۔
پاکستانی پیروان اہل بیت کے لیے الگ سے خیموں کا میدان لگایا گیا ہے جہاں حجاج نے گذشتہ رات آرام کے بعد آج صبح فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کیا اور پھر دعائے ندبہ کی تلاوت کی گیی۔
مختلف ممالک کے حجاج نے منگل یعنی 8ذوالحج کو پورا دن منیٰ میں سفید خیموں میں گزارا جو ہر سال دنیا کے سب سے بڑی خیمہ بستی کی میزبانی کرتا ہے، وہاں رات نماز کی ادائیگی کے بعد حجاج نے میدان عرفات کی راہ لی اور جبل رحمت پر قیام کیا جہاں سے نبی اکرمﷺ نے اپنا آخری خطبہ دیا تھا
مقامی میڈٰیا کے مطابق یہ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد تین سال میں پہلا موقع ہے کہ حج میں لوگ بلا روک ٹوک بھرپور شرکت کررہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ڈھائی ملین سے زائد افراد نے اسلام کے اس پانچویں رکن کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس کا سفر کیا ہے اور آج میدان عرفات میں خطبہ حج کی ادائیگی حجاج وقوف عرفات ادا کریں گے۔
حجاج نے پیر کو حضرت محمدﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پورا دن اور رات منیٰ میں گزاری جسے یوم ترویہ کہا جاتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آج منگل کو میدان عرفات میں حج کے رکن اعظم کی ادائیگی کے بعد سورج غروب ہوتے ہی زائرین عرفات اور منیٰ کے درمیان واقع مزدلفہ کا رخ کریں گے اور رات کھلے آسمان تلے گزاریں گے اور حجاج اس کے بعد مزدلفہ سے کنکریاں جمع کرنے کے بعد وہ جمرات میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور حج کے آخری رکن کی ادائیگی کے لیے واپس خانہ کعبہ آ کر طواف کرتے ہیں۔
پیر کو عصر سے قبل ہی تمام خیمے حجاج سے بھر گئے تھے جن میں دو سے تین بستر ہوتے ہیں اور ان میں پانی اور خوراک بھی دستیاب ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کے خواب دیکھنے والے بہت سے لوگ منیٰ میں اس خوبصورت لمحے کے دوران جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور اس حجاز مقدس پر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے نظر آئے جہاں سے اسلام کے سفر کا آغاز ہوا تھا۔
بعض سعودی زرایع کے مطابق اس سال کا حج تاریخ کا سب سے بڑا حج ہو سکتا ہے، 2019 میں 25 لاکھ افراد کی شرکت کے بعد 2020، 2021 اور 2022 میں کووڈ کے وبائی مرض کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد اس فریضے کی ادائیگی سے محروم رہ گئے تھے۔
ایک بات ماضی میں اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے دوران کئی حادثات بھی پیش آئے جن میں عسکریت پسندوں کے حملے، خطرناک آگ کے واقعے کے ساتھ ساتھ 2015 میں مچنے والی بھگدڑ بھی شامل ہے جس میں 2300 افراد ہلاک ہو گئے تھے تاہم خوش قسمتی سے اس کے بعد سے کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔
ایکنا کے مطابق ہیلی کاپٹر اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے لیس ڈرونز کو منیٰ کی طرف ٹریفک کے بہاؤ کی نگرانی کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ سال حج میں سب سے بڑا خطرہ گرمی ہے بالخصوص زیادہ سے زیادہ عمر کی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد زائد العمر افراد کے گرمی سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے تاہم اسی چیز کے لیے منا کے خیموں میں بہترین ائیرکنڈیشنوں کا خاص اہتمام کیا گیا ہے اور گذشتہ رات وافر مقدار میں زائرین کو آئس کریم کے ساتھ تواضع کی گیی۔
ایک اوربات کہ اس سال منیٰ میں بیمار حاجیوں سے نمٹنے کے لیے چار ہسپتال اور 26 کلینک تیار ہیں اور 190 سے زیادہ ایمبولینسیں تعینات کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ آج نماز مغرب سے پہلے میدان عرفات کو چھوڑنے کا حکم ہے، حاجی میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوں گے وہاں پہنچ کر کر مغرب اور عشا کی نمازیں ایک ساتھ ادا کریں گے اور شیطان کو مارنے کے لیے کنکریاں چنیں گے۔
تمام حجاج آج رات مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کرنے کے بعد نماز فجرکی ادائیگی کے بعد منی میں اپنے خیموں میں واپس آئیں گے جہاں سے شیطان کو پہلے دن کنکریاں مارنے کے لیے جمرات کمپلیکس روانہ ہوں گے۔ آج عصر کو تمام حجاج بالخصوص پیران اہل بیت عصر کے وقت دعا عرفہ جو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے اسکی تلاوت کریں گے۔/
شہداء قومی ہیرو ہیں؛ شہداء کے لواحقین جہاد بالنفس کے واضح نمونہ ہیں، رہبرِ انقلاب اسلامی
حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج علی الصبح ایرانی شہداء کے والدین، ورثاء اور بیواؤں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس موقع پر آپ نے شہداء کو قومی اور تاریخی ہیرو قرار دیتے ہوئے ہنرمندوں پر شہداء کے لواحقین کے قرآنی، جہادی، انسانی اور اجتماعی مقام کو مختلف زاویوں سے بیان کرنے پر زور دیا۔
حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور بیواؤں کی قرآنی خدمات کو قابلِ قدر قرار دیتے ہوئے انہیں دیگر مؤمنین سے افضل اور صابر قرار دیا اور فرمایا کہ شہداء کے لواحقین پر خداوند عالم درود بھیجتا ہے۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی نے شہیدوں کو خدا کی راہ میں قربان کرنے والے والدین اور بیواؤں کے اس عمل کو خدا کی راہ میں نیکی اور انقاق قرار دیا اور مزید فرمایا کہ شہداء کے لواحقین جہاد بالنفس کے واضح نمونہ ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے نفس، محبت اور عشق کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کو میدان جہاد میں بھیجا۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی نے دفاع مقدس کے دوران مجاہدین کی ہر ممکن مدد کرنے والوں کو شہداء کے شریک قرار دیا اور فرمایا کہ دفاع مقدس کے دوران تمام مشکلوں کو برداشت کر کے اپنے عزیزوں کو جہادِ فی سبیل اللہ کیلئے روانہ کرنے والے دفاع مقدس کی فتح میں برابر کے شریک ہیں۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے شہداء کے فقدان کے حوالے سے لواحقین کے دکھ درد کو عظیم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ البتہ عزیزوں کی جدائی کا یہ دکھ درد بہت ہی سخت ہے لیکن عظمت اور عزت کا نیز ذریعہ ہے اور اس حوالے سے خداوند عالم ان صابر اور شاکر انسانوں کو عظیم درجہ عطاء فرمائے گا۔
آخر میں، رہبرِ انقلابِ اسلامی نے صحافیوں اور ہنرمندوں سے شہداء کی یاد کو مزید تازہ کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی تاکید کی اور فرمایا حالیہ برسوں شہداء سے متعلق کتابیں اور فلمیں بنائیں گئیں ہیں تاہم ان عظیم شہداء کی یاد کو مزید تازہ کرنے اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ازبک صدر کی ایرانی سپریم لیڈر سے ملاقات
ایران اور پاکستان کا میری ٹائم سیکورٹی کے شعبے میں تعاون کی یادداشت پر دستخط
اسلام آباد، ارنا – نائب پاکستانی نائب وزیر دفاع کے تہران کے سرکاری دورے کے دوران ایرانی بارڈر پولیس اور پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے درمیان تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کردیا گیا۔
پاکستانی وزارت دفاع نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ حمود الزمان خان نے ایران کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی اہمیت پر تاکید کی اور باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے اصولوں کی بنیاد پر ان تعلقات کی مسلسل توسیع پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
نائب پاکستانی نائب وزیر دفاع اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد نے پیر کے روز ایران میں سرحدی پولیس کے کمانڈر میجر جنرل احمد علی گودرزی سمیت اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کی۔
پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور ایرانی بارڈر پولیس کے درمیان بحری تعاون کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے جس کا مقصد باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، مشترکہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات اور علاقائی اقتصادی باہمی انحصار کو یقینی بنانا دونوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، پاکستانی وفد کا دورہ تہران، ایرانی بحریہ کے کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی کے کل رات اسلام آباد کے سرکاری دورے کے ساتھ مل کر ہوگا، جس کے تین روزہ دورے کے دوران وہ اپنے پاکستانی ہم منصب اور دیگر سے ملاقاتیں کریں گے۔