سلیمانی

سلیمانی

میدانِ مشرق وسطیٰ میں ایران اور چین کیساتھ محاذ آرائی میں امریکہ کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ میں کہیں سے بھی امریکی صدر کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں ملا۔ جو بائیڈن کو سعودی عرب سے بڑی اُمیدیں تھیں، مگر شائد سعودی قیادت زمینی حقائق اور امریکہ کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے آشنا ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار امریکہ کا عربوں کو ایران سے ڈرانے کا "چورن" فروخت نہیں ہوا۔ ایک ماہ بعد جو بائیڈن کے دورہ مشرقِ وسطیٰ کی ناکامی کے چرچے ابھی تک چینی میڈیا میں ہیں۔ جو بائیڈن کے اس ناکام دورے سے ایک چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ جہاں عربوں کو ایران اور چین کی دفاعی قوت سے ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کیا کرتا تھا، اب اس بار جو بائیڈن کا یہ ڈرامہ "فلاپ" ہوگیا ہے اور اس بار پہلی مرتبہ عربوں نے امریکی مشورے پر ایران سے ڈرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ کے کچھ مطالبات ایسے تھے، جن سے اس کی مفاد پرستی بے نقاب ہوئی۔ مثال کے طور پر امریکہ تیل کے بحران سے دوچار ہے اور سعودی عرب نے امریکی مطالبے پر تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، جو امریکہ کی ناکامی ہے۔ چینی تجزیہ کار تو اسے امریکہ کی خود غرضی اور منافقت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکہ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ روکنے اور ریاض کو تیل کی پیدوار بڑھانے کیلئے آمادہ کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے اور امریکی صدر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن بہت سی امیدیں لے کر دورے پر آیا تھا، مگر اسے اس دورے نے اپنی حیثیت کا احساس دلا دیا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ کی مشرق وسطیٰ کیلئے پالیسی خطے کی بہتری کیلئے نہیں، بلکہ انتشار پھیلانے کی پالیسی ہے۔

امریکہ کی کوشش تھی کہ خطے میں چین کے مخالفین پیدا کئے جائیں، لیکن اس میں امریکہ کو اس لئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ چین کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، چین کسی ملک کی رجیم جینج کیلئے سازشوں کے جال نہیں بنتا، چین اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے جنگیں کاشت نہیں کرتا۔ چین کسی ملک سے اپنی خواہشات کے مطابق کام کرنے کا تقاضا نہیں کرتا، چین ہمیشہ دو طرفہ مفادات کے معاہدے کرتا ہے، اگر کسی ملک سے فائدہ لیتا ہے تو اس ملک کو فائدہ پہنچاتا بھی ہے۔ چین نے آج تک کسی ملک پر اقتصادی پابندی لگا کر وہاں کے عوام پر عرصہ حیات تنگ نہیں کیا۔ جب جو بائیڈن ریاض میں بیٹھ کر چین اور ایران کیخلاف لفظی گولہ باری میں مصروف تھا، عین اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے۔ دوسرے لفظوں میں سعودی عرب نے واضح پیغام دیدیا کہ جتنا احترام ہم امریکہ کو دیتے ہیں، اتنا ہی چین کو بھی دیتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی صورتحال بدل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یو اے ای بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے پچھتا رہا ہے۔ یو اے ای کے خارجہ امور کے مشیر انور قرقاش کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایران کیساتھ کشیدگی کم کرنا اور اقتصادی امور میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ یو اے ای کو احساس ہوا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرکے، یہاں اسرائیلی مراکز بنا کر انہوں نے اپنی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔ جس پر اب یو اے ای کے حکام نادم بھی ہیں اور پریشان بھی۔ یو اے ای چاہ رہا ہے کہ ایران کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ملے تو وہ اس سے استفادے کیلئے تیار ہے۔ یو اے ای ایران کیساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کرنا چاہتا ہے اور انور قرقاش نے اس انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ ایران کیخلاف خطے میں بننے والے کسی مخالف بلاک یا اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یو اے ای کی جانب سے یہ ایک اشارہ تھا کہ  اس کا جھکاو اب ایران کی طرف ہو رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کچھ سعودی عرب میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔

امریکہ اس وقت چین کے خوف کا شکار ہے، چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں اور ایران کیساتھ بیجنگ کی قربتوں نے واشنگٹن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ مغربی ماہرین امور خارجہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے کبھی روس کو یوکرائن سے لڑاتا ہے تو کبھی چین کے مدِمقابل تائیوان کو ہلہ شیری دیتا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین کو خطے میں ہی مصروف کر دے۔ مگر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی سامراجی سوچ کا سورج اب غروب ہونیوالا ہے۔ چین دفاع سمیت کئی شعبوں میں امریکہ پر غلبہ حاصل کرچکا ہے، جبکہ امریکہ کی اقتصادی پابندیاں روس اور ایران کا بھی کچھ نہیں بگاڑ پائیں، بلکہ دونوں ملک ماضی کی نسبت زیادہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔ ایران، روس اور چین امریکی سازشوں کے باوجود معاشی طور پر مستحکم ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں مہنگائی، بے روز گاری اور کساد بازاری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

امریکہ جن ملکوں کو تنہا کرنے چلا تھا، وہ آج بھی مستحکم ہیں، کویت نے چھ سال بعد ایران سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ عراق اور شام بھی ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ روس کیساتھ بھی ایران کے تعلقات مضبوط ہیں اور چین بھی اس ساری صورتحال میں اہم کھلاڑی ہے۔ یہ بلاک مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ کمزور اور تنہا ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ظلم کا سورج غروب  ہو رہا ہے۔ دنیا اب سازشوں اور سامراجیت کے چُنگل سے آزاد ہو رہی ہے۔ سویرا بہت قریب ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

 مجلس وحدت مسلمین کے مرکزہ رہنماء سید محمد رضا (آغا رضا) نے پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ آج 14 اگست ہے، یعنی یوم آزادی، اور محرم کا مہینہ بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا پیغام بھی آزادی ہے، انہوں نے ہمیں حریت کا درس دیا ہے۔ ظلم کے مقابلے میں کسی بھی صورت تسلیم نہ ہونا، آزادی کی جدوجہد جاری رکھنا اور آزادی ملنے کے بعد اس کی حفاظت کرنے کا لازوال عملی درس بھی کربلا سے اور پھر کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک بے سروسامانی اور اسیری میں سفر کرنے والوں نے ہی دیا ہے۔ ہر سال چودہ اگست ہمیں اپنے آباؤ اجداد، بزرگوں اور اسلاف کی یاد دلاتا ہے۔

جنہوں نے وطن عزیز کے حصول کیلئے بے بہا قربانیاں دیں۔ پاکستان ہمیں یوں ہی نہیں ملا، بلکہ آزادی کے بدلے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو تک کو قربان کیا۔ ہمارے آباؤ اجداد تو اس سبق کو نہیں بھولے، لیکن ہمارے دلوں سے آزادی کی قدر و منزلت وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی۔ کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت ہمارے لئے درس حریت و آزادی ہے۔ یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے۔ کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدار رکھا جائے، تاکہ جہالت و گمراہی کے پروردہ لوگ دوبارہ کربلا بپا کرکے ظلم کی داستانیں رقم کرنے کا سوچ بھی ناسکیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مریوان شہر کے امام جمعہ اور اہلسنت عالم دین نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ بدنام زمانہ اور گستاخ رسول رسلمان رشدی کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ایک مسلم نوجوان کا مرتد سلمان رشدی پر حملہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی امام خمینیؒ کا اہم اور تاریخی فتویٰ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

مریوان شہر کے امام جمعہ نے مزید کہا: قرآن اور پیغمبر اکرم (ص) کی توہین کرنے والے شخص کے خلاف اس نوجوان کا جان لیوا حملہ ان لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جو کسی بھی بہانے مسلمانوں کے عقائد کی توہین کرتے ہیں۔

ارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں اور اسی سال 11 ستمبر کو پینٹاگون کو ہونے والے شدید نقصان کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا۔ امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے عناصر کو تلاش کرنے اور ان کے طالبان حامیوں کا تختہ الٹنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، لیکن 21 سالہ حملے نے افغانستان کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ اس طرح امریکی افواج کو 15 اگست 2021 کو جنگ زدہ ملک سے انخلا کرنا پڑا۔

گزشتہ سال اگست کے اوائل میں مختلف صوبوں میں طالبان کی افواج کی تیزی سے پیش قدمی نے نہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں بلکہ امریکی اور افغان سیاستدانوں میں بھی شدید صدمہ پہنچایا۔

پھر، افغانستان کے سابق صدر محمد اشرف غنی کے متنازعہ فرار کے صرف 48 گھنٹے بعد، 13 اگست کو صوبہ ہرات کے سقوط پر بات کرنے کے لیے مختلف اعلیٰ حکام نے ان سے ملاقات کی، جب تمام اعلیٰ عہدے داروں نے اس صورت حال پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے اور وہ فوجیوں کا طالبان سے لڑنے سے انکار حیران رہ گئے۔

بعد ازاں اشرف غنی نے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ افغانستان میں امریکی سفیر زلمای خلیل زاد نے تمام افغان سیاست دانوں کو تقسیم کر دیا۔

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل (سیگار) نے گزشتہ افغان حکومت کے آخری دنوں پر ایک رپورٹ جاری کی، جس میں اس وقت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے کہا گیا کہ کسی نے بھی دارالحکومت کابل کے دفاع کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس دن صدر غنی نے اجلاس کے شرکاء پر زور دیا کہ وہ دلائل بند کریں اور طالبان کے دارالحکومت تک پہنچنے پر توجہ دیں اور انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا کہ افغان حکومت طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے مزاحمت کرے گی۔

غنی کو توقع تھی کہ کابل حکومت کو آسانی سے سونپنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگلے دو ہفتوں میں طالبان کے خلاف کھڑا ہو جائے گا، لیکن طالبان کی پیش قدمی واپس نہیں جا سکی۔

سابق افغان عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ بعض اعلیٰ حکام اب بھی یہ سوچ رہے تھے کہ طالبان کابل میں داخل نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا تک دارالحکومت میں داخلے کو روک دیا جائے لیکن طالبان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، شہر میں داخل ہوا.

ممتاز امریکی صحافی اور تجزیہ کار ڈیویڈ ایگناٹیوس نے 21 دسمبر 2021 کو واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی بدترین غلطی افغانستان سے انخلاء کا مؤثر انتظام تھا اور بائیڈن طویل ترین امریکی جنگ کو ختم کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ عمل امریکہ کے وقار کے لیے مہنگا تھا۔

نیویارک ٹائم نے 22 ستمبر 2021 کو رپورٹ کیا کہ بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن امریکی جنگیں ابھی بھی جاری ہیں۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں، بائیڈن نے الزام لگایا کہ گزشتہ 20 سالوں میں پہلی بار، امریکہ کسی جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ تاہم، حقیقت میں تقریر سے صرف ایک دن پہلے، ایک امریکی ڈرون نے شمال مغربی شام میں ایک دور دراز سڑک پر ایک کار کو نشانہ بنایا اور اس موقع سے تین ہفتے قبل، امریکی فوج نے صومالیہ میں الشباب گروپ پر حملہ کیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان میں شاید امریکی فوجی دستے موجود نہ ہوں لیکن امریکی جنگیں اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تباہی مچا رہی ہیں۔

بائیڈن نے جون میں کانگریس کو ایک خط بھیجا، جس میں ان تمام ممالک کا نام دیا گیا جہاں امریکہ کی فوج ہے یا فوجی آپریشن جاری ہے۔ خط کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 40 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ صدر نے یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکی فوج افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کے خلاف مستقبل میں آپریشن کرنے جا رہی ہے۔

درحقیقت، امریکہ کے فوجی فیصلہ سازوں نے شمالی افریقہ، ایشیا اور دیگر مقامات پر داعش سے وابستہ گروہوں کے ظہور کے بہانے کچھ آپریشن جاری رکھنے کے بہانے ڈھونڈ لیے ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلاء کے ایک سال بعد، بائیڈن اب بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی صدارت کو بچانے کی راہ ہموار کر سکیں اور آئندہ کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جیت میں مدد کریں۔ لہذا، اس نے 2 اگست کو اعلان کیا کہ امریکہ نے 31 جولائی 2022 کو القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکی بیان باز ہمیشہ اپنی حکومت کی بقا کو دنیا بھر میں گرمجوشی پیدا کرنے والی پالیسیوں سے جوڑتے ہیں، اور تاریخی ناکامیوں کے تلخ تجربات ان کے نئے تنازعات کو جنم دینے کے شوق کو نہیں روک سکتے.

 

برطانوی میگزین (سان) نے کہا ہے کہ انگلینڈ میں خشک سالی کی وراننگ کے بعد، بہت سے برطانوی عوام نے وحشت میں آکر پانی خریدنے کیلئے اسٹورز کا رخ کیا جس کے نتیجے میں ایک چین اسٹور، پانی کے راشن دینے پر مجبور ہوگیا۔

اس چین اسٹور کی ایک ذیلی شاخ (Aldi) نے ایک اعلانیہ میں کہا ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے صارفین کی پانی خریدنے کی مانگ میں اضافے کے پیش نظر ہر کوئی فرد صرف پانچ پانی کے بوٹل کو خرید کرسکتا ہے۔

اس علانیہ میں اس اسٹور نے بحرانی صورتحال میں موجودہ پابندیوں کے پیش نظر، اپنے صارفین کو اس صورتحال کو سمجھنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی دعوت دی ہے۔

برطانوی عوام کی خشک سالی کی وراننگ کے بعد پانی خریدنے کی رش

اسکای نیوز کی رپورٹ کے مطابق اور برطانوی محکمہ موسیمات کے تجزیات اور اعداد و شمار کے مطابق، رواں عیسوی سال کے ابتدا سے جون تک اکثر علاقوں میں کل بارش میں 1836میں ریکارڈ کی گئی اوسط کے مقابلے میں نمایاں کمی نظر میں آئی ہے۔

ڈیلی میل ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں برطانیہ میں شدید گرمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج بروز ہفتے کو اس ملک کے عظیم حصے میں خشک سالی کی وراننگ دی گئی ہے اور اس حوالے سے گھروں کے لیے راشن اور نل کے پانی کے استعمال پر پابندی جیسے اقدامات کا نفاذ کیا جائے گا۔

اسی رپورٹ کے مطابق، اس شدید گرمی اور خشک سالی، آئندہ عیسوی سال تک جاری ہوسکتی ہے اور برطانیہ کے جنوب اور مشرق میں واقع شدید گرمی کا شکار بعض پانی تیار کرنے والی کمپنیاں، وسائل کی بچت سمیت لاگت کی بچت کے مزید اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے۔

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کے خلاف دھمکی کی زبان استعمال کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ نے امریکہ کو یہ سکھایا ہوگا کہ ایران اور ایرانیوں کے خلاف دھمکی کی زبان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
امیرعبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ انحراف کی فضول کوششیں امریکہ کو ہمارے خطے میں دہشت گردی کے جرائم میں ملوث ہونے کے ہزاروں ایرانیوں اور دیگر متاثرین کی ذمہ داری سے بچنے کی اجازت نہیں دے گی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے منگل کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں خیام سیٹلائٹ کے خلا میں بھیجنے کو، پرامن مقاصد کے لیے ایرانی سائنسدانوں کی نئی ایرو اسپیس کامیابی اور ایران کے سائنسی اعزازات کی تاریخ میں ایک اور سنہری باب قرار دیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دشمن کی جانب سے عائد پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کے باوجود ایران کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کا شاندار سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ مقامی سیٹلائٹ خیام کو منگل کی صبح دس بجکر بائیس منٹ پر قازقستان کے بایکونور خلائی اسٹیشن سے  خلا میں روانہ کیا گیا تھا جس نے طے شدہ مدار میں پہنچنے کے بعد سکنگل بھی ارسال کرنا شروع کر دئے ہیں۔

آسمان امامت و ولایت کے درخشاں ستارے فرزند رسول اور شیعیان عالم کے چوتھے امام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت اور اہل حرم کی اسیری کی یاد میں پورے ایران میں مجالس عزا اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہے۔

آپ کی تاریخ شہادت کے سلسلے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں تاہم سبھی تواریخ محرم میں ذکر ہوئی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ۱۲ محرم، بعض کے مطابق ۱۸ محرم جبکہ بعض روایات کی بنا پر ۲۵ محرم کو آپ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ بعض روایات کے آپ کے سالِ شہادت کو ۹۴ ہجری جبکہ بعض نے ۹۵ ہجری نقل کیا ہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ستاون برس کی تھی۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے عاشورا کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کا سنگین بار اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور بعدِ کربلا خونخوار اموی حکام  کے ایجاد کردہ گھٹن کے ماحول میں بھی آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے پیغام اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام انتہائی خوش اسلوبی اور باکمال طریقے سے انجام دیا اور تحریک عاشورا کے مقصد اور اس کے بنیادی فلسفے کو دنیا کے سامنے بڑے انوکھے اور منفرد انداز میں واضح فرمایا۔

مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کے فرزند امام سجاد علیہ السلام نے واقعۂ کربلا کے بعد اپنی حیات طیبہ میں اپنے آنسو اور گریے کو تبلیغ دین کے ایک موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا اور دین اسلام کے عظیم معارف کو آفاقی دعاؤں کے پیرائے میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ کثرت عبادت اور شب زندہ داری کے باعث آپ دنیا میں زین العابدین اور سید الساجدین جیسے عظیم القاب سے معروف ہوئے۔ ایک قول میں آپ فرماتے ہیں: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جس کی اکائیاں اُس کی دہائیوں پر غالب آجائیں، آپ سے دریافت کیا گیا کہ اکائی اور دھائی سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا: اکائیاں وہ گناہ ہیں جن کے کرنے پر ایک ہی سزا مقرر ہوتی ہے مگر دہائیاں وہ نیکیاں ہیں جن کو انجام دینے پر خدا دس گنا ثواب بندے کو عطا فرماتا

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے عاشورا کے دن کی مناسبت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عاشورا کے دن نائیجریا کے عزاداروں پر مسلح چڑھائی کی مذمت کرتے ہیں۔  

تفصیلات کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں عوام اور رہبر انقلاب کو عاشورا کی مناسبت سے تعزیت و تسلیت پیش کی اور رواں سال عاشورا کے موقع پر لبنانی عوام کے وسیع پیمانے پر شرکت کرنے کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مرتبہ پھر سید الشہدا امام حسین ﴿ع﴾ کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں اور آپ سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی نداء پر لبیک کہتے ہیں؛ جس طرح گزشتہ چالیس سالوں کے دوران، تمام میدانوں میں اور تمام مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں، اب بھی کہتے ہیں لیبک یا حسین۔ 
سید حسن نصر اللہ نے زور دے کر کہا کہ موجودہ حالات میں عربیت، انسانیت اور مسلمانیت کا معیار فلسطینی ملت کی مظلومیت کے مقابلے میں ہمارا موقف ہے۔ فلسطینی ملت غزہ اور نابلس میں لڑ رہی ہے اور اپنی قوت اور توازن کو صہیونی رجیم پر مسلط  کر رہی ہے، یہ لوگ اپنی ان مجاہدتوں کے ذریعے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مقاومت کے سوا کوئی دوسرا راستہ یا انتخاب موجود نہیں ہے۔  

در ایں اثنا انہوں نے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں ایک مرتبہ پھر فلسطین کے مسئلے کے ساتھ تجدیدِ عہد کرتے ہوئے اس مجاہد اور مزاحمت کی حامل قوم کے ساتھ کھڑے رہنے کا تاکید کے ساتھ یقین دلاتے ہیں۔ 

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے موجودہ محاصرے کے حالات میں یمنی قوم کی کئی سالہ مقاومت اور پائیداری کو سراہتے ہوئے کہا کہ یمنی قوم ان تمام تکالیف اور درد و رنج کے باوجود جو وہ سہی رہی ہے، عالم اسلام کے اصلی مسائل کو نہیں بھولی ہے۔ ملتِ یمن کی جد و جہد اور مجاہدت امام حسین ﴿ع﴾ کی کربلا کا حقیقی تجسم اور عملی نمونہ ہے۔ 
سید حسن نصر اللہ نے عراق کے حالات کے حوالے سے کہا کہ ہم عراقیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان خطرات کے پیش نظر جو آپ کے ملک کو درپیش ہیں، اپنے اختلافات دور کریں۔ انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی محنتوں اور مجاہدتوں کو یاد دلاتے ہوئے زور دیا کہ ایران بدستور عالم اسلام کا قبلہ اور مقاومت کے محور کا قلب باقی رہے گا۔ 
انہوں نے محاصرے اور پابندیوں میں جکڑے لبنان کے سنگین حالات کا ذکر کرتے ہوئے زور دیا کہ جو ہاتھ لبنان کے سمندری ذخائر کی جانب بڑھے گا اسے اسی ہاتھ کی طرح کاٹ دیا جائے گا جو لبنان کی سرزمین کی طرف بڑھا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم آنے والے دنوں میں صہیونی رجیم کے جوابات کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ سمندری حدود کی حدبندی کے معاملے میں لبنان کے مطالبات کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہم دشمن سے کہتے ہیں کہ لبنان اور قوم اب اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے چھیڑ چھاڑ کو قبول نہیں کریں گے اور کسی بھی ممکنہ صورتحال کے لئے تیار ہیں۔  
سید حسن نصر اللہ نے غزہ کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا ہم نے غزہ کی پٹی سے مطلوب پیغام دریافت کیا اور ان کی مقاومت اور پائیداری کا مشاہدہ کیا، تاہم تمہارا ﴿صہیونی رجیم﴾ ہمارے ساتھ لبنان میں معاملہ، ایک الگ معاملہ ہے۔ آج مقاومت ہر دور سے زیادہ طاقتور ہے اور ہرگز لبنان اور اس کی ملت کے بارے میں غلطی نہ کرنا۔    
انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے مد مقابل کون کھڑا ہے، لبنان کی مقاومت ثابت کر چکی ہے کہ جو فوج ناقابل شکست کہلاتی تھی اسے شکست سے دوچار کردیتی ہے۔ 
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے زور دیا کہ ہم لبنان کے قومی اقتدار اور خودمختاری کے خلاف ہونے والی کسی بھی کوشش کے مخالف ہیں اور ہرگز یہ بات تسلیم نہیں کریں گے کہ ہمارے اوپر جو ہم چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز مسلط کی جائے۔ ہم اپنے مستقبل کو خون کی تلوار پر فتح کے اصول کی بنیاد پر امید افزا، واضح اور روشن سمجھتے ہیں۔ 
انہوں نے عاشورا کے موقع پر اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا ہم نے سنا ہے کہ صہیونی قوتیں فلسطینی رہنماوں کی ٹارگٹ کلنک کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں، اگر یہ کاروائیاں لبنان میں انجام دی گئیں تو قطعی طور پر بغیر جواب نہیں رہیں گی۔ 

سید حسن نصر اللہ نے غزہ اور نابلس میں پیش آنے والے حالیہ واقعات اور ان کے نتیجے میں دسیوں فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا فلسطین ہمارا اصلی مسئلہ ہے۔ جو لوگ عربیت کا دعوا کرتے ہیں انہوں نے مغربی کنارے، غزہ اور قدس میں بہائے گئے خون کے مقابلے میں کیا اقدامات کئے ہیں؟ وہ لوگ کہاں ہیں؟