سلیمانی

سلیمانی

 
ایران کے دارالحکومت تہران میں ترکی، روس اور تہران کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔ سیاسی ماہرین اس اجلاس کو کئی لحاظ سے خطے کیلئے انتہائی اہم اور اسٹریٹجک قرار دے رہے ہیں۔ ایران، ترکی اور روس گذشتہ ایک عرصے سے خطے میں امن و امان کے قیام کیلئے باہمی تعاون کرتے آ رہے ہیں۔ یہ تعاون آستانہ مذاکرات کے نام سے انجام پانے والے مذاکراتی سلسلے کی روشنی میں انجام پا رہا ہے۔ اس وقت خطے کے اہم ترین ایشوز میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے شدت پسندانہ اقدامات اور شام میں موجود سکیورٹی بحران شامل ہیں۔ تہران میں منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے مختلف ممکنہ اہداف و مقاصد بیان کئے جا رہے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
 
1)۔ بیرونی مداخلت کے مقابلے میں علاقائی تعاون
حال ہی میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے مقبوضہ فلسطین اور سعودی عرب سمیت مشرق وسطی خطے کا دورہ کیا ہے۔ اس دوران ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی توجہ ایک بار پھر مشرق وسطی یا مغربی ایشیا خطے پر مرکوز کرنا شروع ہو گیا ہے۔ جو بائیڈن یہ تصور کر رہے تھے کہ وہ اپنے اس دورے کے ذریعے خطے کے سکیورٹی نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ایک نئی لہر ایجاد کریں گے۔ انہوں نے غاصب صہیونی رژیم اور عرب ممالک میں قربتیں بڑھانے کی کوشش بھی کی جبکہ دوسری طرف انرجی کے سستے ذخائر حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں رہے۔ اس تناظر میں تہران میں منعقد ہونے والا حالیہ سربراہی اجلاس خودمختار خارجہ پالیسی اور علاقائی سطح پر باہمی تعاون کی بہترین مثال پیش کرے گا۔
 
2)۔ شام سے متعلق ترکی کی پالیسیاں
خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ترکی اور شام کے درمیان بہت اچھے اور دوستانہ تعلقات استوار تھے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ چند عشروں سے شدید سیاسی اور جغرافیائی تنازعات بھی پائے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے تعلقات دوستانہ ہی رہے۔ اسی تناظر میں بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ترکی اور شام کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے چند اہم اقدامات انجام پائے جن میں سے ایک انقرہ اور دمشق کے درمیان آدانا معاہدہ طے پانا تھا۔ کچھ عرصے بعد رجب طیب اردگان نے ترکی کے پہلے وزیراعظم کے طور پر شام کا دورہ کیا۔ ان کے علاوہ ترکی کے وزیر خارجہ داود احمد اوگلو نے بھی دسیوں بار دمشق کا دورہ کیا۔ یاد رہے داود احمد اوگلو ترکی اور شام کے درمیان دوستانہ تعلقات کے ماسٹر مائنڈ جانے جاتے تھے۔
 
شام میں سکیورٹی بحران جنم لینے کے بعد ترکی اور شام کے درمیان تعلقات کی نوعیب میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔ رجب طیب اردگان اور ان کی ٹیم نے شام سے متعلق انتہائی خطرناک پالیسیاں اختیار کر لیں۔ ترک حکومت نے وسطی ایشیا، یورپ اور امریکہ سے آنے والے تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام میں داخلے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی اور یوں دنیا بھر سے شام کیلئے جانے والے داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کیلئے ترکی بہترین روٹ میں تبدیل ہو گیا۔ ترک حکومت سلفی تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد سے شام میں ایک وابستہ حکومت برسراقتدار لانے کی خواہاں تھی۔ اس مقصد کیلئے انقرہ نے بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا۔ لیکن آخرکار داعش کے خاتمے کے بعد یہ منصوبہ ناکامی کا شکار ہو گیا۔ اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ترکی شام سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا۔
 
تہران میں سربراہی اجلاس کے انعقاد سے پہلے شام کے کرد نشین علاقے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے امید کی کرن روشن کر دی ہے۔ ترکی کی سرحد کے قریب عین العرب یا کوبانی نامی ایک کرد نشین قصبہ واقع ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے ترکی کی جانب سے اس قصبے پر ممکنہ فوجی چڑھائی کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ حال ہی میں ترکی کے ذرائع ابلاغ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کوبانی قصبے میں واقع ایک پہاڑی پر شام کا قومی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔ شام میں سکیورٹی بحران رونما ہونے کے بعد کرد نشین علاقے میں قومی پرچم لہرائے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دوسری طرف اس اقدام کے نتیجے میں ترکی کا فوجی حملہ بھی ٹل گیا ہے۔ لہذا اسے مقامی کرد انتظامیہ کی جانب سے ترکی کے فوجی حملے سے بچنے کیلئے ایک سکیورٹی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔
 
روس کے اعلی سطحی حکومتی عہدیدار اس سے پہلے کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ کرد نشین علاقوں پر ترکی کے فوجی حملوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہاں شام کا قومی پرچم نصب کر دیا جائے۔ یوں ترکی ان علاقوں پر فوجی حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ ایران اور روس شام کے اتحادی ممالک ہیں۔ شام کے کرد نشین قصبے عفرین کی انتظامیہ نے یہ بات نہیں مانی جس کے نتیجے میں اسے ترکی کی فوجی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ عین العرب یا کوبانی میں کرد انتظامیہ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کی خواہاں ہے۔ ترکی اور شام کے درمیان 900 کلومیٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد پائی جاتی ہے۔ ترکی کی جانب سے شام کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور حق خود ارادیت کا احترم ہی خطے میں پائیدار امن کا باعث بن سکتا ہے۔

تحریر: علی احمدی

اسلام ٹائمز۔  روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے وفد کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے ایران اور روس کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، مغرب کی فریبکارانہ پالیسیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل المیعاد تعاون، دونوں ملکوں کے انتہائی مفاد میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کہ عالمی تغیرات ایران اور روس کے روز افزوں باہمی تعاون کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں، تیل اور گیس کے شعبے سمیت مختلف میدانوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متعدد سمجھوتے موجود ہیں جنہیں پوری طرح سے انجام تک پہنچانا اور عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور روس کے معاشی تعاون کو خاص طور پر مغرب کی پابندیوں کے بعد نہایت ضروری اور دونوں ملکوں کے مفاد میں بتایا اور یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا کہ جنگ ایک سخت اور تشدد والی چیز ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس بات سے کسی بھی صورت میں خوش نہیں ہوتا کہ عوام الناس جنگ میں پھنسیں لیکن یوکرین کے معاملے میں اگر آپ نے پہل نہ کی ہوتی تو فریق مقابل آگے بڑھ کر جنگ شروع کردیتا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مغرب والے طاقتور اور خودمختار روس کے پوری طرح خلاف ہیں، نیٹو کو ایک خطرناک تنظیم بتایا اور کہا کہ اگر نیٹو کا راستہ نہ روکا جائے تو پھر وہ ہر حد کو پار کردیتی ہے اور اگر یوکرین میں اسے روکا نہ جاتا تو کچھ عرصے بعد وہ کریمیا کے بہانے یہی جنگ شروع کردیتی۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ البتہ آج امریکا اور مغرب، پہلے سے زیادہ کمزور پڑ چکے ہیں اور بے انتہا کوشش اور حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے باوجود، شام، عراق، لبنان اور فلسطین سمیت ہمارے علاقے میں ان کی پالیسیوں کی رینج بہت محدود ہو چکی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے مسئلے کو بہت اہم بتایا اور اس ملک پر فوجی حملے کی مخالفت اور اسے روکے جانے کی ضرورت پر مبنی اسلامی جمہوریہ کے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شام کے سلسلے میں ایک اور اہم بات، امریکیوں کا شام کے مشرقی فرات علاقے کے زرخیز اور تیل سے مالامال علاقوں پر غاصبانہ قبضہ ہے، اس مسئلے کو انہیں اس علاقے سے باہر نکال کر ختم کیا جانا چاہیئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے معاملات میں صیہونی حکومت کی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے صیہونیوں کے خلاف روس کے صدر کے حالیہ مؤقف کی قدردانی کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، آرمینیا کے ساتھ مشترکہ سرحدوں کے بند ہونے کا باعث بننے والی پالیسیوں اور پروگراموں کو قطعی برداشت نہیں کرے گا۔ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایران اور روس کے طویل المیعاد تعاون کو پوری طرح سے دونوں ملکوں کے مفاد میں بتایا اور صدر پوتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور ہمارے صدر جمہوریہ دونوں ہی عملی اقدام کرنے والے اور سنجیدگی سے کام کرنے والے افراد ہیں اس لئے اس عرصے میں دونوں ملکوں کا تعاون اپنے عروج پر پہنچ جانا چاہیئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کی فریب کاریوں کے مقابلے میں چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکی منہ زور بھی ہیں اور عیار بھی ہیں اور سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا ایک سبب، امریکی سازشوں سے دھوکا کھا جانا تھا، البتہ آپ کے دور حکومت میں روس نے اپنی خودمختاری کی حفاظت کی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح دونوں ملکوں کے تعلقات میں قومی کرنسی کو استعمال کئے جانے اور ڈالر کی جگہ دوسری کرنسیوں کے متبادل بنانے کی پالیسی کی تائيد کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کو رفتہ رفتہ عالمی تجارت سے باہر کردینا چاہیئے اور تدریجی طور پر یہ کام ممکن ہے۔

اس ملاقات میں، جس میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے واقعات کے بارے میں کہا کہ کوئی بھی جنگ کا حامی نہیں ہے اور عام لوگوں کی جانیں جانا بڑا المیہ ہے لیکن مغرب کے رویے کے سبب ہمارے پاس ردعمل دکھانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ انہوں نے روس اور یوکرین کے اختلافات کے اسباب و علل خاص طور پر حالیہ برسوں میں امریکا اور مغرب کے اشتعال انگیز اقدامات منجملہ یوکرین میں بغاوت اور اسی طرح روس کی جانب نیٹو کی ہر طرح کی پیش قدمی سے پرہیز کے وعدوں کے باوجود نیٹو کے پھیلاؤ کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض یورپی ملکوں نے کہا کہ ہم نیٹو میں یوکرین کی رکنیت کے خلاف تھے لیکن امریکا کے دباؤ کی وجہ سے ہم نے اسے تسلیم کرلیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ملکوں میں اقتدار اعلی اور خودمختاری نہیں ہے۔ روس کے صدر نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو امریکیوں کی شرانگیزی کا ایک اور نمونہ بتایا اور روس کے خلاف مغرب کی پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندیاں مغرب کے لئے نقصان دہ ہیں اور ان کا نتیجہ تیل کی قیمت میں اضافے اور غذائی اشیاء کے بحران جیسی مشکلات کی صورت میں سامنے آيا ہے۔

ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کی جانب سے دوسرے ملکوں پر پابندی لگائے جانے اور لوٹ مار کے لئے ڈالر کو حربے کے طور پر استعمال کئے جانے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روش آخرکار امریکا کے لئے ہی نقصان دہ ثابت ہوگی، اس کرنسی کا عالمی اعتبار کم ہوگا اور دیگر ممالک متبادل کرنسیوں کی جانب قدم بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ روس اور ایران، اپنے آپسی تعلقات میں قومی کرنسی کے استعمال کے لئے نئے طریقہ ہائے کار تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے قفقاز کے علاقے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے شام کے شمالی علاقے پر فوجی حملے کی مخالفت سمیت اس ملک کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے موقف کو ایک دوسرے سے پوری طرح ہماہنگ بتایا اور کہا کہ مشرقی فرات کا علاقہ، شامی افواج کے کنٹرول میں ہونا چاہیئے۔ صدر پیوٹن نے تمام میدانوں اور منصوبوں میں دونوں ملکوں کے تعاون کو آگے کی جانب گامزن بتایا اور کہا کہ ایران اور روس، شام میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑ رہے ہیں اور فوجی میدان میں بھی ہم کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعاون اور اسی طرح چین کے ساتھ سہ فریقی تعاون اور فوجی مشقوں کو فروغ دیں۔

تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آپس میں متحد رہیں، آج کا دور نہایت حساس اور نازک دور ہے، ہم لوگ موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں۔اگر باہمی اتحاد کو فروغ نہیں دیں گے تو ہمیشہ کے لیے  اغیار کے تسلط میں گرفتار رہیں گے۔ 

 
 

اتحٓاد بین المسلمین واجب ہے

اگر مسلمان باہم متحد ہوجاتے تو بیگانے ان پر کبھی تسلط حاصل نہیں کر پاتے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اس بات کا باعث بنا کہ غیر مسلم طاقتیں ہم پر مسلط ہوجائیں۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ نے ابتداء میں جاہل افراد کے ہاتھوں سر اٹھایا اور آج بھی ہم اس کے شکار ہیں۔

   شیعہ اور سنی تفرقہ سے گریز کریں

اسلام میں شیعہ اور سنی کے درمیان کبھی بھی تفرقہ وجود نہیں رکھتا، شیعہ اور سنی کے درمیان ہرگز تفرقہ نہیں ہونا چاہیے۔ باہمی وحدت کو محفوظ رکھیں، ائمہ اطہار نے ہمیں یگانگت اور باہمی میل جول کی سفارش کی ہے، جو شخص( شیعہ سنی) اتحاد کو ٹھیس پہنچانا چاہتا ہے وہ یا تو (اسلام اور عالمی تقاضوں سے) جاہل ہے یا پھر فتنہ پرور ہے۔

دشمنان اسلام کے پروپیگنڈے میں نہ آئیں

ہمارے سنی بھائیوں کو دشمنان اسلام کے پروپیگنڈوں کا اثر نہیں لینا چاہیے، ہم آپس میں بھائی ہیں۔ شیعہ اور سنی کے مابین اختلاف صدر اسلام سے چلا آرہا ہے، اس زمانے میں اموی اور بالخصوص عباسی خلفاء تفرقہ پھیلانے کے درپے تھے، محفلیں ( مناظرہ کے نام پر) سجا کر متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے تھے۔

اس مذموم عمل نے شیعہ اور سنی کو اپنے عقیدے کی برتری اور باہمی رقابت پر ابھارا۔ہمارے ائمہ اطہار ع کی کوشش رہی کہ شیعہ، اہل سنت کے ساتھ نماز پڑھیں، تشییع جنازہ کریں( معاشرتی میل جول رکھیں)۔ 

استعمار اور شیعہ سنی تفرقہ

وقت گزرنے کے ساتھ عالمی طاقتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر شیعہ سنی کو آپس میں لڑا دیا، ان طاقتوں نے شیعہ سنی عوام کے جذبات کو سامنے رکھ کر اپنے منصوبون کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے دوہرا فائدہ اٹھایا ہے، تفرقہ کے ذریعے مادی مفادات سمیٹے ہیں جو کہ واضح ہے۔ اسکتبار نے مسلم اختلافات کو ہوا دے کر روحانی بھی اٹھایا ہے، وہ یہ کہ تفرقہ پھیلا کر مسلمانوں کو کے درمیان نفرتوں کی خلیج حائل کردی ہے اور مسلمانوں کے بیچ جدائی ڈال کر انتشار سے دوچار کر دیا ہے۔

بیرونی حکومتیں مسلمانوں کے اختلافی مسائل کو نشریاتی اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں منتشر کر کے منافرت پھیلاتی ہیں، یہ بیرونی طاقتیں ہی ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ اس طرز کے گھناونے کھیل کھیلتی ہیں

ترجمہ و اقتباس از کتاب: صحیفه‌ امام خمینی رح ، ج‏6، ص84 و 95۔ 

 

۱۔جہاں تک ممکن ہو آپ اپنے بچوں کے ساتھ نہایت آرام وسکوں کے ساتھ گفتگو کریں اور گفتگو کرتے وقت اچھے الفاظ کو استعمال کیا جائے ۔

۲۔ آپ اپنے بچوں کے سامنے اپنی محبت کااظہار کریں اور ان سے پیار ومحبت کریں ، انہیں آغوش میں لیں ، ان کا بوسہ لیں اور ہمیشہ محبت آمیز نگاہوں سے انہیں دیکھیں ۔

۳۔بچوں کے اعمال کو مد نظر رکھئے اور انہیں سمجھائئے کہ ہمارا یہ عمل اس وجہ سے نہیں کہ ہم تم لوگوں پہ اعتماد نہیں رکھتے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کریں۔ آئندہ کے بارے میں اپنے بچوں سے گفتگو کیجئے ، مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے انہیں آمادہ کیجئے ۔

۴۔بچوں کو مسواک کرنے کی جانب مائل کیجئے ۔

۵۔بچوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے انہیں وقت دیجئے تاکہ انہیں یہ محسوس ہوجائے کہ آپ انہیں بہت چاہتے ہیں۔

۶۔اپنے بچوں کے سامنے کتابوں کا مطالعہ کیجئے تاکہ ان کے اندر کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہو اور اس طریقے وہ علمی درجات پہ فائز ہوں۔

۷۔انہیں تلاش وکوشش کی جانب مائل کیجئے ۔

۸۔جدید سوالات ایجاد کرنے کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کیجئے ۔

۹۔ادہورے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی مدد کیجئے اور اس امر کو انہیں تعلیم دیجئے ۔

۱۰۔اگر آپ کے بچے گناہوں کی جانب مائل ہیں تو گناہوں کے نتائج ان کے سامنے بیان کیجئے اور اس امر میں ان سے محبت آمیز رفتار سے کام لیجئے ۔

۱۱۔جو کام بچہ انجام دینے پہ قادر ہے اسے انجام دینے کے لئے اس کی رہنمائی کیجئے ۔

۱۲۔اپنے بچوں کے سوالات کا جواب دیجئے اور دینی ومذہبی کتابوں کے ذریعہ دنیاوی اور اخروی زندگی سے انہیں آشنا کیجئے ۔

۱۳۔ اپنے بچوں کو شکرگزار بننے کی تعلیم دیجئے ۔

۱۴۔ اپنے بچوں کو احتمالی مشکلات سے آشنا کیجئے اور ایسی مشکلات کا راہ حل ڈھونڈنے کا طریقہ بھی سکھائیے۔

۱۵۔اپنے بچوں کو لائق وسائشتہ بچے کہہ کر پکارئیے ۔

۱۶۔اپنے بچوں کی بعض نامناسب رفتار اور حرکات کے سامنے صبر سے کام لیجئے کیونکہ ان کے سن وسال کا تقاضا یہی ہے ۔

۱۷۔بچوں کی زندگی کا خیال رکھئے اور انہیں صحیح وسالم غذا کھلانے کی کوشش کیجئے ۔

۱۸۔ موجودہ دور میں جدید تعلیمات سے اپنے بچوں کو آراستہ کیجئے اور روز مرہ کے مسائل سے انہیں آگاہ کیجئے ۔

۱۹۔ بچوں کے سونے اور جاگنے کا وقت معین کیجئے ۔

۲۰۔اسکول یا مدرسہ کے اساتذہ سے رابطہ میں رہئے اور اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں ان سے سوال کیجئے ۔

۲۱۔بچوں کی ناسائستہ ونامناسب چال وچلن سے انہیں منع کیجئے

منبع:راھنمای خانوادہ

 


source : http://www.ahl-ul-bayt.org

شیعیت نیوز: شام میں رہبر معظم کے نمائندے حجۃ الاسلام حامد صفر ہرندی نے غدیر خم کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: امام علی علیہ السلام امت اسلامیہ کے درمیان اتحاد کے محور ہیں۔

حجۃ الاسلام حامد صفر ہرندی نے آج دمشق میں IRNA کے نامہ نگار کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا: غدیر کو دیکھ کر ہر عاقل انسان کو جو بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جو خاتم النبیین ہیں، اسی وجہ سے جن کے مشن کو جاری رکھنا چاہیے، وہ امت اسلامیہ کے مستقبل کا خیال رکھنے کے پابند ہیں، اور وہ جانشین کے تقرر کی صورت میں ہے، جو خدا کے حکم سے ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح پیغمبر اکرم (ص) خود امت کے امام تھے اور الہی تقرر سے امام بنے تھے اسی طرح خداوند متعال اس امام کو اپنے بعد امت کا رہنما مقرر کرے گا۔ ایک ایسا لیڈر جو صرف ایک سیاسی رہنما نہیں ہے بلکہ وہی فرائض جو پیغمبر اکرم (ص) کے ہیں یعنی لوگوں کی تعلیم اور لوگوں کی روحوں کی سربلندی – وہی فرائض امام بھی انجام دیتے ہیں۔ .

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے کہا: خدا مختلف طریقوں سے اس فرمان کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان صورتوں میں سے ایک انتباہ کا دن ہے۔ جس دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کے پابند تھے۔ اس مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ کچھ لوگ تم پر حملہ کریں گے تو کیا تم اسے قبول کرو گے؟ اس کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ آپ ثقہ اور سچے ہیں اور ہم اسے ضرور مانیں گے۔

 

 

حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے واضح کیا کہ اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے مشن کی خبر سنائی اور فرمایا کہ سب سے پہلا شخص جو مجھ پر ایمان لائے گا وہ میرا جانشین ہوگا، حضرت علی (ع) نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔

انہوں نے کہا: ہم سب پیغمبر اکرم (ص) کے محور کے گرد جمع ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ تمام اسلامی امت حضرت علی (ع) کی قیادت کو قبول کرتی ہے۔ اب کوئی تاخیر سے قبول کرتا ہے اور کوئی ہدیہ کرکے اور اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے۔ ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امیر المومنین (ع) پیغمبر اکرم (ص) کے فوری خلیفہ اور جانشین ہیں، لیکن دوسرے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ امیر المومنین دیگر خلفاء کے بعد امت اسلامیہ کے قائد تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام تمام امت اسلامیہ کے درمیان مشترک محور ہیں۔

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے مزید کہا: تمام مسلمان امیر المومنین (ع) کو پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب میں سب سے زیادہ جاننے والے مانتے ہیں اور پیغمبر (ص) کے اصحاب میں سے کوئی بھی امیر سے زیادہ علم والا نہیں تھا۔ المومنین (ع)

انہوں نے کہا کہ حضرت علی (ع) امت اسلامی کے درمیان اتحاد کا محور ہیں اور جس طرح تمام مسلمان پیغمبر اکرم (ص) کو مانتے ہیں اسی طرح حضرت علی (ع) کو بھی مانتے ہیں۔

حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے بیان کیا: غدیر کو تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غدیر کا نمایاں کردار ایک ولی ہے جسے خدا نے گورنر کے لیے منتخب کیا ہے۔

شام میں رہبر معظم کے نمائندے نے کہا کہ امام صادق (ع) کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد شیعہ نہیں تھی، بلکہ عام طور پر سنی تھی، لیکن وہ امام صادق (ع) کے حکم کی پیروی کرتے تھے، جو حضرت کے فرزند تھے۔ علی (ع) اور ان کی نسل سے ہیں، وہ بیٹھ کر کہتے تھے کہ اگر امام صادق (ع) اور امام باقر (ع) نہ ہوتے تو لوگ ان کے حج کے مناسک کو نہ جانتے اور اس حد تک وہ حج کے مناسک ہیں۔ خدا کے دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے احیاء کرنے والے جانتے تھے۔

آخر میں، حجۃ الاسلام صفر ہرندی نے شہید لیفٹیننٹ جنرل حج قاسم سلیمانی کی اپنی یادیں شیئر کیں اور کہا: "سالوں پہلے، میں حج قاسم کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور میں نے حج کے دوران ان سے رومانوی تنہائیاں دیکھی تھیں۔”

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امام خمینی (رح) علمی لباس میں ملبوس تھے اور ان کی شادی کا خطبہ امام خمینی (رح) نے پڑھا تھا، فرمایا: میرے کپڑے پہننے کے بعد امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ عالم پر عزم رہو اور یہ ہے۔ میرے لیے ایک بڑا سبق اور روشنی ہے اور میں علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پرعزم رہنے کی پوری کوشش کروں گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل کے ساتھ  ٹیلیفونی گفتگو میں جوزف بورل  اور نائـب سربراہ انریکے  مورا  کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے اس عزم میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا کہ وہ ایک اچھا اور پائیدار و مستحکم سمجھوتے کا خواہاں ہے۔ 

حسین امیرعبداللہیان  نے اس ٹیلیفونی گفتگو میں اٹلی اور فرانس کے  وزرائے خارجہ کے ساتھ اپنے حالیہ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو اپنے بار بار کے ناکام طریقے کو ترک کر کے غیر تعمیری رویے سے دستبردار اوردباؤ کے ہتھکنڈے کو چھوڑ کر پابندیوں کو اٹھانا ہو گا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے  ایران، روس اور ترکی کے سہ فریقی تہران سربراہی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے خوراک اور توانائی کی سیکیورٹی کے بارے میں ایران کے موقف پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ انہوں نے یوکرین کے وزیر خارجہ کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ گفتگو کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ یوکرینی گندم کی برآمدات خاص اہمیت کی حامل ہے۔

اس ٹیلی فونی گفتگو میں یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بورل نے بھی مذاکرات کے عمل میں ایران کے مثبت رویے کی قدردانی کرتے ہوئے موجودہ صورت حال میں فریقین کے نظریات پر غور کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔

جوزف بورل نے حتمی سمجھوتے کے حصول کے لئے بعض باقی ماندہ مسائل کے حل کے لئے ایران کی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام فریقوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے ذریعے مذاکرات کے عمل کو تیز تر کرنے کے لئے اپنی اور اپنے نائـب انریکے مورا  کی آمادگی پر زور دیا۔ 

یاد رہے کہ امریکہ کی بائیڈن حکومت نے جو ایٹمی معاہدے میں واپسی کی کوششوں کا دعوی کرتی رہی ہے، ابتک اس سلسلے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ مذاکرات میں شریک تمام ملکوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ایران کے خلاف غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور مذاکرات جلد سے جلد اپنے انجام کو بھی پہنچانا چاہتے ہیں تاہم حتمی سمجھوتے کا حصول بعض مسائل و موضوعات میں امریکہ کے سیاسی فیصلوں پر ٹکا ہوا ہے۔

ویانا مذاکرات کا آٹھواں دور ستائیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شروع ہوا تھا جو گیارہ مارچ دو ہزار بائیس کو یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوز‌ف بورل کی تجویز پر نئے مرحلے میں داخل ہوا اور تمام فریق اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے جس کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے رہے۔

ویانا مذاکرات کا سلسلہ رکنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ بائیڈن امریکا کی  پچھلی حکومت پر اپنی تنقیدوں کے برخلاف ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ناکام پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں اور اس پالیسی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بائیڈن انتظامیہ نے پابندیوں کے مکمل خاتمے اور ایران کو ٹھوس ضمانت دینے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

 یاد رہے کہ امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہونے کا فیصلہ اور اعلان کیا اور ایران پر مختلف قسم کی سخت ترین پابندیاں نافذ کر کے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاکہ ایران کو جھکنے پر مجبور کیا جا سکے مگر اسے منھ کی کھانا پڑی اور اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی اور اس کو  بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔   اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ جوہری مسئلے میں ایران نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا اور اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور یہ امریکہ ہے جو اس معاہدے سے نکلا ہے لہذا اسے ہی پابندیوں کو ختم اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے ساتھ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹنا ہو گا اور اس کام کے لئے اس کے سیاسی فیصلے کی ضرورت ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل علی تنگسیری نے کہا ہے کہ اگر دشمن نے کوئی غلطی یا احمقانہ اقدام کیا یا اسلامی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کی کوشش تو ہم اس کو اور ان کے آلہ کاروں کو سخت سبق سکھائیں گے اور ہم اس سازش کے مرکز کو تہس نہس کر دیں گے۔

ایڈمیرل تنگسیری نے مسلمانوں کے مابین اتحاد اور بھائی چارے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کے اہم علاقے کی سلامتی کو برقرار کرنے کی ہمسایہ ممالک میں صلاحیت موجود ہے اور علاقے میں سکیورٹی کی فراہمی کیلئے غیر علاقائی ممالک کی موجودگی کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اب سے کچھ ہی دیر قبل تہران میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔

ہونے والی ملاقات کی تفصیلات تھوڑی دیکر بعد۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان آستانہ عمل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے گزشتہ شب تہران پہنچے اور آج صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے اُن کا سعدآباد کلچرل کمپلیکس میں باضابطہ استقبال کیا۔

روس، ترکی اور ایران کے صدور کی موجودگی میں سہ فریقی سربراہی اجلاس تہران میں منعقد ہوگا۔ اس اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتین، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی شرکت کریں گے۔

-آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے

﴿آیه ۳ سوره مبارکه مائده ﴾

ارنا رپورٹ کے مطابق، شامی بحران کے سیاسی حل نکالنے اور جنگ بندی کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی نشستوں کا متحارب فریقین سمیت ایران، روس اور ترکی کے نمائندوں کی شرکت سے قازقستان میں انعقاد کیا گیا اور "آستانہ امن عمل کے ضامن ممالک" کے پہلے اجلاس کا دسمبر 2017 میں ان تینوں ممالک کے صدور کی شرکت سے روسی شہر سوچی میں انعقادد کیا گیا۔

واضح رہے کہ اسی سلسلے میں ترک صدر ر"جب طیب اردوغان"، روسی صدر "ولادیمیر پیوٹین" پیر کی شام کو دورہ تہران کریں گے اور منگل کی صبح کو صدر ابراہیم رئیسی کی شرکت سے سعدآباد کے ثقافتی کمپلیکس میں ان کی استقبالیہ تقریب کا انعقاد ہوگا۔