Super User

Super User

کلمات قصار نهج البلاغه علي عليه السلام کا ترجمه و تشریح از: مفتی جعفر حسین

26. وقال (عليه السلام): امْشِ بِدَائِكَ مَا مَشَى بِكَ.

26. مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو.

مقصد یہ ہے کہ جب تک مرض شدت اختیار نہ کر ے اسے اہمیت نہ دینا چاہیے کیونکہ اہمیت دینے سے طبیعت احساسِ مرض سے متاثر ہوکر اس کے اضافہ کا باعث ہوجایاکر تی ہے .اس لیے چلتے پھرتے رہنا اور اپنے کو صحت مند تصور کرنا تحلیل مرض کے علاوہ طبیعت کی قوت مدافعت کو مضمحل ہونے نہیں دیتا اور اس کی قوت معنوی کو برقرار رکھتا ہے اور قوت معنوی چھوٹے موٹے مرض کو خود ہی دبا دیا کرتی ہے بشرطیکہ مرض کے وہم میں مبتلا ہوکر اسے سپر انداختہ ہونے پر مجبور نہ کردیا جائے .

27. وقال (عليه السلام): أَفْضَلُ الزُّهْدِ إِخْفَاءُ الزُّهْدِ.

27. بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے .

28. وقال (عليه السلام): إِذَا كُنْتَ فِي إِدْبَارٍ وَالْمَوْتُ فِي إِقْبَال فَمَا أسْرَعَ الْمُلْتَقَىٰ ۔

28. جب تم (دنیا کو ) پیٹھ دکھا رہے ہو اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے بڑھ رہی ہے تو پھر ملاقات میں دیر کیسی ؟

29. وقال (عليه السلام): الْحَذَرَ الْحَذَرَ! فَوَاللهِ لَقَدْ سَتَرَ، حتَّى كَأَنَّهُ قَدْ غَفَرَ.

29. ڈرو !ڈرو !اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے، کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے .

30. وسُئلَ عَنِ الاِْيمَانِ، فَقَالَ: الاِْيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ: عَلَى الصَّبْرِ، والْيَقِينِ، وَالْعَدْلِ، وَالْجَهَادِ ، فَالصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَربَعِ شُعَبٍ: عَلَى الشَّوْقِ، وَالشَّفَقِ، وَالزُّهْدِ، وَالتَّرَقُّبِ: فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلاَ عَنِ الشَّهَوَاتِ، وَمَنْ أشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْـمُحَرَّمَاتِ، وَمَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ، وَمَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ فِي الْخَيْرَاتِ. وَالْيَقِينُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَب: عَلَى تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ، وَتَأَوُّلِ الْحِكْمَةِ، وَمَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ، وَسُنَّةِ الاَْوَّلِينَ: فَمَنْ تَبَصَّرَ فِي الْفِطْنَةِ تَبَيَّنَتْ لَهُ الْحِكْمَةُ، وَمَنْ تَبَيَّنَتْ لَهُ الْحِكْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ، وَمَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَكَأَنَّمَا كَانَ فِي الاَْوَّلِينَ. وَالْعَدْلُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَب: عَلَى غائِصِ الْفَهْمِ، وَغَوْرِ الْعِلْمِ، وَزُهْرَةِ الْحُكْمِ، وَرَسَاخَةِ الْحِلْمِ: فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ، وَمَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُكْمِ، وَمَنْ حَلُمَ لَمْ يُفَرِّطْ فِي أَمْرِهِ وَعَاشَ فِي النَّاسِ حَمِيداً. وَالْجِهَادُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَب: عَلَى الاَْمْرِ بالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْي عَنِ الْمُنكَرِ، وَالصِّدْقِ فِي الْمَوَاطِنِ، وَشَنَآنِ الْفَاسِقيِنَ: فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤمِنِينَ، وَمَنْ نَهَىٰ عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الکافِرینَ و،مَنْ صَدَقَ فِي الْمَوَاطِنِ قَضَىٰ مَا عَلَيْهِ، وَمَنْ شَنِىءَ الْفَاسِقِينَ وَغَضِبَ لله غَضِبَ اللهُ لَهُ وَأَرْضَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

30. حضرت (ع) سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا .ایمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر، یقین، عدل اور جہاد . پھر عدل کی چار شاخیں ہیں .اشتیاق، خوف، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا، وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا، وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا، وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا .اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں .روشن نگاہی، حقیقت رسی، عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی اور جس کے لیے علم وعمل آشکارا ہو جائے گا، وہ عبرت سے آشنا ہوگا اور جو عبرت سے آشنا ھوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں، تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی، اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کیا، وہ علم کی گہرائیوں سے آشنا ھوا۔ اور جو علم کی گہرائیوں میں اترا، وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی .اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی۔ اورجہاد کی بھی چار شاخیں ہیں .امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تمام موقعوں پر راست گفتاری، اور بدکرداروں سے نفرت . چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا، اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی، اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا، اس نے اپنا فرض اداکردیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا.

31. و قال علیہ السلام: وَالْكُفْرُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ: عَلَى التَّعَمُّقِ، وَالتَّنَازُعِ، وَالزَّيْغِ، وَالشِّقَاقِ: فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ يُنِبْ إِلَى الْحَقِّ، وَمَنْ كَثُرَ نِزَاعُهُ بِالْجَهْلِ دَامَ عَمَاهُ عَنِ الْحَقِّ، وَمَنْ زَاغَ سَاءَتْ عِنْدَهُ الْحَسَنَةُ وَحَسُنَتْ عِنْدَهُ السَّيِّئَةُ وَسَكِرَ سُكْرَ الضَّلاَلَةِ، وَمَنْ شَاقَّ وَعُرَتْ عَلَيْهِ طُرُقُهُ وَأَعْضَلَ عَلَيْهِ أَمْرُهُ وَضَاقَ مَخْرَجُهُ. وَالشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَب عَلَى الَّتمارِي، وَالهَوْلِ، وَالتَّرَدُّدِ والاْسْتِسْلاَمِ: فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَاءَ دَيْناً لَمْ يُصْبِحْ لَيْلُهُ، وَمَنْ هَالَهُ مَا بَيْنَ يَدَيْهِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ، وَمَن تَرَدَّدَ فِي الرَّيْبِ وَطِئَتْهُ سَنَابِكُ الشَّيَاطِينِ، وَمَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةِ هَلَكَ فِيهِمَا .

و بعد هذا كلام تركنا ذكره خوف الاطالة والخروج عن الغرض المقصود في هذا الكتاب .

31۔ کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے .حد سے بڑھی ہوئی کاوش، جھگڑا لُو پن، کج روی اور اختلاف تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے، وہ حق کی طرف رجوع نہیں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑے کرتا ہے، وہ حق سے ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ لیتا ہے .وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑا رہتا ہے اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے، اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بچ نکلنے کی راہ اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے، شک کی بھی چار شاخیں ہیں، کٹھ حجتی، خوف، سرگردانی اور باطل کے آگے جبیں سائی .چنانچہ جس نے لڑائی جھگڑ ے کو اپنا شیوہ بنالیا، اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی اور جس کو سامنے کی چیزوں نے ہول میں ڈال دیا، وہ الٹے پیر پلٹ جاتا ہے اور جو شک و شبہہ میں سر گرداں رہتا ہے .اسے شیاطین اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہیں اور جس نے دنیا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسلیم خم کردیا.وہ دوجہاں میں تباہ ہوا .

قال الرضی: و بعد ھٰذا کلام ترکنا ذکرہ خوف الاطاعة والخروج عن الغرض المقصود فی ھٰذا الباب۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ ہم نے طوالت کے خوف اور اس خیال سے کہ اصل مقصد جو اس بات کا ہے فوت نہ ہو، بقیہ کلام کو چھوڑ دیا ہے .

32. وقال (عليه السلام): فَاعِلُ الْخَيْرِ خَيْرٌ مِنْهُ، وَفَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْهُ .

32. نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر، اور برائی کا مرتکب ہونے والا خود اس برائی سے بدتر ہے .

33. وقال (عليه السلام): كُنْ سَمَحاً وَلاَ تَكُنْ مُبَذِّراً، وَكُنْ مُقَدِّراً وَلاَ تَكُنْ مُقَتِّراً .

33. کرو، لیکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو، مگر بخل نہیں .

34. وقال (عليه السلام): أَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنى .

34. بہتر ین دولت مندی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے.

35. وقال (عليه السلام): مَنْ أَسْرَعَ إِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُونَ، قَالُوا فِيهِ ما لاَ يَعْلَمُونَ.

35. جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں، تو پھر وہ اس کے لیے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں .

36. وقال (عليه السلام): مَنْ أَطَالَ الاَْمَلَ أَسَاءَ الْعَمَلَ.

36. جس نے طول طویل امیدیں باندھیں، اس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے .

37. وقال (عليه السلام) وقد لقيه عند مسيره إلى الشام دهاقين الانبار، فترجلوا له واشتدّوا بين يديه، فقال: مَا هذَا الَّذِي صَنَعْتُمُوهُ؟ فقال: خُلُقٌ مِنَّا نُعَظِّمُ بِهِ أُمَرَاءَنَا، فقال: وَاللهِ مَا يَنْتَفِعُ بِهذَا أُمَرَاؤُكُمْ وَإِنَّكُمْ لَتَشُقُّونَ بِهِ عَلَى أَنْفُسِكْمْ فِي دُنْيَاكُمْ، وَتَشْقَوْنَ بِهِ فِي آخِرَتِكُمْ، وَمَا أخْسرَ الْمَشَقَّةَ وَرَاءَهَا الْعِقَابُ، وَأَرْبَحَ الدَّعَةَ مَعَهَا الاَْمَانُ مِنَ النَّارِ .

37. امیرالمومنین (ع) سے شام کی جانب روانہ ہوتے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا، تو وہ آپ کو دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں .آپ نے فرمایا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو، اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو، وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو، اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو .

38. وقال (عليه السلام): لابنه الحسن: يَا بُنَيَّ، احْفَظْ عَنِّي أَرْبَعاً وَأَرْبَعاً، لاَ يَضُرَّكَ مَا عَمِلْتَ مَعَهُنَّ: إِنَّ أَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ، وَأَكْبَرُ الْفَقْرِ الْحُمْقُ، وَأَوحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ، وَأَكْرَمَ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلُقِ.

يَا بُنَيَّ، إِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الاَْحْمَقِ فَإِنَّهُ يُريِدُ أَنْ يَنْفَعَكَ فَيَضُرَُّكَ ، وَإِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْبَخِيلِ فَإِنَّهُ يَقْعُدُ عَنْكَ أَحْوَجَ مَا تَكُونُ إِلَيْهِ ، وَإِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْفَاجِرِ فَإِنَّهُ يَبِيعُكَ بِالتَّافِهِ ، وَإِيَّاكَ وَمُصَادَقَةَ الْكَذَّابِ فَإِنَّهُ كَالسَّرَابِ: يُقَرِّبُ عَلَيْكَ الْبَعِيدَ، وَيُبَعِّدُ عَلَيْكَ الْقَرِيبَ.

38. اپنے فرزند حضرت حسن علیہ السلام سے فرمایا! مجھ سے چار, اور پھر چار باتیں یاد رکھو .ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے، وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا۔ سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے .

اے فرزند !بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا، تو نقصان پہنچائے گا .اور بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہوگی، وہ تم سے دور بھاگے گا .اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا، ورنہ وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا .

39. وقال (عليه السلام): لاَ قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ.

39. مستحبات سے قرب الہی نہیں حاصل ہوسکتا، جب کہ وہ واجبات میں سدراہ ہوں .

40. وقال (عليه السلام): لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَاءَ قَلْبِهِ، وَقَلْبُ الاَْحْمَقِ وَرَاءَ لِسَانِهِ. قال الرضی

و هذا من المعاني العجيبة الشريفة، والمراد به أنّ العاقل لا يطلق لسانه إلاّ بعد مشاورة الرَّوِيّةِ ومؤامرة الفكرة، والاحمق تسبق حذفاتُ لسانه وفلتاتُ كلامه مراجعةَ فكره ومماخضة رأيه، فكأن لسان العاقل تابع لقلبه، وكأن قلب الاحمق تابع للسانه.

40. عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے .

سید رضی کہتے ہیں کہ یہ جملہ عجیب و پاکیزہ معنی کا حامل ہے.مقصد یہ ہے کہ عقلمند اس وقت زبان کھولتا ہے جب دل میں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے .لیکن بے وقو ف بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے .اس طرح گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے .

41. وقد روي عنه (عليه السلام) هذا المعنى بلفظ آخر، وهو قوله: قَلبُ الاَْحْمَقِ فِي فِيهِ، وَلِسَانُ الْعَاقِلِ فِي قَلْبِهِ. ومعناهما واحد.

41. یہی مطلب دوسرے لفظوں میں بھی حضرت سے مروی ہے اور وہ یہ کہ «بے وقوف کا دل اس کے منہ میں ہے اور عقلمند کی زبان اس کے دل میں ہے » .بہر حال ان دونوں جملوں کا مقصد ایک ہے .

42. وقال لبعض أَصحابه في علّة اعتلها: جَعَلَ اللهُ مَا كَانَ مِنْ شَكْوَاكَ حطّاً لِسَيِّئَاتِكَ، فَإِنَّ الْمَرَضَ لاَ أَجْرَ فِيهِ، وَلكِنَّهُ يَحُطُّ السَّيِّئَاتِ، وَيَحُتُّهَا حَتَّ الاَْوْرَاقِ، وَإِنَّمَا الاَْجْرُ فِي الْقَوْلِ بِالّلسَانِ، وَالْعَمَلِ بِالاَْيْدِي وَالاَْقْدَامِ، وَإِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ يُدْخِلُ بِصِدْقِ النِّيَّةِ وَالسَّرِيرَةِ الصَّالِحَةِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عَبَادِهِ الْجَنَّةَ.

قال الرضی: و أقول: صدق(عليه السلام)، إنّ المرض لا أجر فيه:، لانه من قبيل ما يُستحَقّ عليه العوض، لان العوض يستحق على ما كان في مقابلة فعل الله تعالى بالعبد، من الالام والامراض، وما يجري مجرى ذلك،الاجر والثواب يستحقان علٰى ما كان في مقابلة فعل العبد، فبينهما فرق قد بينه(عليه السلام)، كما يقتضيه علمه الثاقب رأيه الصائب.

42. اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا .اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے .کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے .مگر وہ گناہوں کو مٹاتا، اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں. ہاں ! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے، اورخدا وند عالم اپنے بندوں میں سے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت میں داخل کرتا ہے .

سیدرضی فرماتے ہیں کہ حضرت نے سچ فرمایا کہ مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے کیونکہ مرض تو اس قسم کی چیزوں میں سے ہے جن میں عوض کا استحقاق ہوتا ہے .اس لیے کہ عوض اللہ کی طرف سے بندے کے ساتھ جو امر عمل میں آئے .جیسے دکھ، درد، بیماری وغیر ہ . اس کے مقابلہ میں اسے ملتا ہے .اور اجر و ثواب وہ ہے کہ کسی عمل پر اسے کچھ حاصل ہو .لہٰذا عوض اور ہے، اور اجر اور ہے اس فرق کو امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے علم روشن اور رائے صائب کے مطابق بیان فرما دیا ہے .

43. وقال (عليه السلام) في ذكر خباب بن الارتّ: يَرْحَمُ اللهُ خَبَّاباً، فَلَقَدْ أَسْلَمَ رَاغِباً، وَهَاجَرَ طَائِعاً، وَقَنِعَ بالْكَفَافِ، وَرَضِيَ عَنِ اللهِ وَعَاشَ مُجَاهِداً.

43 خباب ابن ارت کے بارے میں فرمایا .خدا خباب ابن ارت پر اپنی رحمت شامل حال فرمائے وہ اپنی رضا مندی سے اسلام لائے اور بخوشی ہجرت کی اور ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہے اور مجاہدانہ شان سے زندگی بسر کی .

حضرت خباب ابن ارت پیغمبر کے جلیل القدر صحابی اور مہاجرین اولین میں سے تھے .انہوں نے قریش کے ہاتھوں طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں .چلچلاتی دھوپ میں کھڑے کئے گئے آگ پر لٹائے گئے .مگر کسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کا دامن چھوڑنا گوارا نہ کیا .بدر اور دوسرے معرکوں میں رسالت مآب (ص) کے ہمرکاب رہے .صفین و نہروان میں امیرالمومنین علیہ السّلام کا ساتھ دیا.مدینہ چھوڑ کر کوفہ میں سکو نت اختیار کر لی تھی .چنانچہ یہیں پر 73 برس کی عمر میں 39 ہجری میں انتقال فرمایا .نماز جنازہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے پڑھائی اور بیرون کوفہ دفن ہوئے اور حضرت نے یہ کلماتِ ترحم ان کی قبر پر کھڑے ہو کر فرمائے .

44. وقال علیہ السلام طُوبَى لِمَنْ ذَكَرَ الْمَعَادَ، وَعَمِلَ لِلْحِسَابِ، وَقَنِعَ بِالْكَفَافِ، وَرَضِيَ عَنِ اللهِ.

44. خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا، حساب و کتاب کے لیے عمل کیا .ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا .

45. وقال (عليه السلام): لَوْ ضَرَبْتُ خَيْشُومَ الْمُؤْمِنِ بِسَيْفِي هذَا عَلىٰ أَنْ يُبْغِضَنِي مَاأَبْغَضَنِي، وَلَوْ صَبَبْتُ الدُّنْيَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ عَلَى أَنْ يُحِبَّنِي مَا أَحَبَّنِي وَذلِكَ أَنَّهُ قُضِيَ فَانْقَضَى عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الاُْمِّيِّ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّهُ قَالَ: يَا عَلِيُّ، لاَ يُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُحِبُّكَ مُنَافِقٌ .

45. اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے، تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا .اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کردوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا اس لیے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا :

اے علی (ع)! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا، اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا.

46. وقال (عليه السلام): سَيِّئَةٌ تَسُوءُكَ خَيْرٌ عِنْدَاللهِ مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ .

46. وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے.

جو شخص ارتکاب گناہ کے بعد ندامت و پشیمانی محسوس کرے اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر ے وہ گناہ کی عقوبت سے محفوظ اور توبہ کے ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور جو نیک عمل بجا لانے کے بعد دوسروں کے مقابلہ میں برتری محسوس کرتا ہے اور اپنی نیکی پر گھمنڈ کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اب اس کے لیے کوئی کھٹکا نہیں رہا وہ اپنی نیکی کو برباد کردیتا ہے اور حسن عمل کے ثواب سے محروم رہتا ہے .ظاہر ہے کہ جو توبہ سے معصیت کے داغ کو صاف کر چکا ہو وہ اس سے بہتر ہوگا جو اپنے غرور کی وجہ سے اپنے کئے کرائے کو ضائع کرچکا ہو اور توبہ کے ثواب سے بھی اس کا دامن خالی ہو .

47. وقال (عليه السلام): قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ هِمَّتِهِ، وَصِدْقُهُ عَلَى قَدْرِ مُرُوءَتِهِ، وشُجَاعَتُهُ عَلَى قَدْرِ أَنَفَتِهِ،عِفَّتُهُ عَلَى قَدْرِ غَيْرَتِهِ .

47. انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی، اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی .

48. وقال (عليه السلام): الظَّفَرُ بالْحَزْمِ، وَالْحَزْمُ بِإِجَالَةِ الرَّأْيِ، وَالرَّأْيُ بِتَحْصِينِ الاَسرَارِ .

48. کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے .

49. وقال (عليه السلام): احْذَرُوا صَوْلَةَ الْكَرِيمِ إذَا جَاعَ، واللَّئِيمِ إِذَا شَبعَ .

49. بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے رہو .

مطلب یہ ہے کہ باعزت و باوقار آدمی کبھی ذلت و توہین گوارا نہیں کرتا .اگر اس کی عزت و وقار پر حملہ ہوگا تو وہ بھو کے شیر کی طرح جھپٹے گا اور ذلت کی زنجیروں کو توڑ کر رکھ دے گا اور اگر ذلیل و کم ظرف کو اس کی حیثیت سے بڑھا دیا جائے گا تو اس کا ظرف چھلک اٹھے گا اور وہ اپنے کو بلند مرتبہ خیال کرتے ہوئے دوسروں کے وقار پر حملہ آور ہو گا .

50. وقال (عليه السلام): قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ، فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْهِ .

50. لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں، جو ان کو سدھائے گا، اس کی طرف جھکیں گے .

اس قول سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ انسانی قلوب اصل فطرت کے لحاظ سے وحشت پسند واقع ہوئے ہیں اور ان میں انس و محبت کا جذبہ ایک اکتسابی جذبہ ہے .چنانچہ جب انس و محبت کے دواعی اسباب پیدا ہوتے ہیں تو وہ مانوس ہو جاتے ہیں اور جب اس کے دواعی ختم ہوجاتے ہیں یا اس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو وحشت کی طرف عود کر جاتے ہیں اور پھر بڑی مشکل سے محبت و ائتلاف کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں .

مرنجاں د لے راکہ ایں مرغ وحشی زبامے کہ برخواست مشکل نشیند

51. وقال (عليه السلام): عَيْبُكَ مَسْتُورٌ مَا أَسْعَدَكَ جَدُّكَ .

51. جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں.

52. وقال (عليه السلام): أَوْلَى النَّاسِ بِالْعَفْوِ أَقْدَرُهُمْ عَلَى الْعُقُوبَةِ .

52. معاف کر نا سب سے زیادہ اسے زیب دیتا ہے جو سزادینے پر قادر ہو.

53. وقال (عليه السلام): السَّخَاءُ مَا كَانَ ابْتِدَاءً، فَأَمَّا مَا كَانَ عَنْ مَسْأَلَة فَحَيَاءٌ وَتَذَمُّمٌ .

53. وہ ہے جو بن مانگے ہو، اور مانگے سے دینا یا شرم ہے یا بدگوئی سے بچنا .

54. وقال (عليه السلام): لاَ غِنَى كَالْعَقْلِ، وَلاَ فَقْرَ كَالْجَهْلِ، وَلاَ مِيرَاثَ كَالاْدَبِ، وَلاَ ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ .

54 عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں .ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں .

55. وقال (عليه السلام): الصَّبْرُ صَبْرَانِ: صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَهُ، وَصَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ.

55. صبر دو طرح کا ہوتاہے ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر.

56. وقال (عليه السلام): الْغِنَى فِي الْغُرْبَةِ وَطَنٌ، وَالْفَقْرُ فِي الْوَطَنِ غُرْبَةٌ.

56. دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس میں بھی پردیس

اگر انسان صاحب دولت و ثروت ھو تو وہ جہاں کہیں ھوگا، اسے دوست و آشنا مل جائیں گے جس کی وجہ سے اسے پردیس میں مسافرت کا احساس نہ ھوگا۔ اور اگر فقیر و نادار ھو تو اسے وطن میں بھی دوست و آشنا میر نہ ھوں گے کیونکہ لوگ غریب و نادار سے دوستی قائم کرنے کے خواھشمند نہیں ھوتے اور نہ اس سے تعلقات بڑھانا پسند کرتے ھیں اس لیے وہ وطن میں بھی بے وطن ھوتا ھے اور کوئی اس کا شناسا و پرسان حال نہیں ھوتا.

آنرا کہ بر مردار جہاں نیست دسترس در زاد بودم خویش غریب است و ناشناخت

57. وقال (عليه السلام): الْقَنَاعَةُ مَالٌ لاَ يَنْفَدُ.

57. قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا.

و قال الرضی: وقد دوی ھٰذا الکلام عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علامہ رضی فرماتے ہیں کہ یہ کلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مروی ہے .

قناعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو جو میسر ہو اس پر خوش و خرم رہے اور کم ملنے پر کبیدہ خاطر و شاکی نہ ہو اور اگر تھوڑے پر مطمئن نہیں ہو گا تو رشوت، خیانت اور مکر و فریب ایسے محرمات اخلاقی کے ذریعہ اپنے دامن حرص کو بھرنے کی کوشش کرے گا .کیونکہ حرص کا تقاضا ہی یہ ہے جس طرح بن پڑے خواہشات کو پورا کیا جائے اور ان خواہشات کا سلسلہ کہیں پر رکنے نہیں پاتا، کیونکہ ایک خواہش کا پورا ہونا دوسری خواہش کی تمہید بن جایا کرتا ہے اور جوں جوں انسان کی خواہش کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے اس کی احتیاج بڑھتی ہی جاتی ہے .اس لیے کبھی بھی محتاجی و بے اطمینانی سے نجات حاصل نہیں کر سکتا اگر اس بڑھتی ہوئی خواہش کو روکا جاسکتا ہے تو وہ صرف قناعت سے کہ جو ناگزیر ضرورتوں کے علاوہ ہر ضرورت سے مستغنی بنا دیتی ہے اور وہ لازوال سرمایہ ہے جو ہمیشہ کے لیے فارغ البال کردیتا ہے .

58. وقال (عليه السلام): الْمَالُ مَادَّةُ الشَّهَوَاتِ.

58. مال نفسانی خواہشوں کا سر چشمہ ہے .

59. وقال (عليه السلام): مَنْ حَذَّرَكَ كَمَنْ بَشَّرَكَ.

59. جو (برائیوں سے )خوف دلائے وہ تمہارے لیے مژدہ سنانے والے کے مانند ہے .

60. وقال (عليه السلام): الِّلسَانُ سَبُعٌ، إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ.

60. زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے .

61. وقال (عليه السلام): الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ.

61. عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے .

62. وقال (عليه السلام): إِذَا حُيِّيْتَ بِتَحِيَّة فَحَيِّ بِأَحْسَنَ مِنْهَا، وإِذَا أُسْدِيَتْ إِلَيْكَ يَدٌ فَكَافِئْهَا بِمَا يُرْبِي عَلَيْهَا، وَالْفَضْلُ مَعَ ذلِكَ لِلْبَادِى.

62. جب تم پرسلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقہ سے جواب دو .اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو، اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کی ہوگی .

63. وقال (عليه السلام): الشَّفِيعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

63. سفارش کرنے والا امیدوار کے لیے بمنزلہ پر و بال ہوتا ہے .

64. وقال (عليه السلام): أَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْب يُسَارُ بِهِمْ وَهُمْ نِيَامٌ.

64. دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے .

65. وقال (عليه السلام): فَقْدُ الاَْحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

65. دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے .

66. وقال (عليه السلام): فَوْتُ الْحَاجَةِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا.

66. مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے .

نااہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے . اس لیے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جاسکتا ہے .مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے .چنانچہ ہر باحمیت انسان نا اہل کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصیبی کو ترجیح دے گا، اور کسی پست و دنی کے آگے دستِ سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا .

67. وقال (عليه السلام): لاَ تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ، فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْهُ.

67. تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے .

68. وقال (عليه السلام): الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ، [والشُّكْرُ زِينَةُ الغِنَىٰ ].

68. عفت فقر کا زیور ہے، اور شکر دولت مندی کی زینت ہے .

69. وقال (عليه السلام): إِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيدُ فَلاَ تُبَلْ مَا كُنْتَ.

69. اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو .

70. وقال (عليه السلام): لاَتَرَى الْجَاهِلَ إِلاَّ مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً.

70. جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے آگے بڑھا ہوا، اور یا اس سے بہت پیچھے .

71. وقال (عليه السلام): إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلاَمُ.

71. جب عقل بڑھتی ہے، تو باتیں کم ہو جاتی ہیں .

بسیار گوئی پریشان خیالی کا اور پریشان خیالی عقل کی خامی کا نتیجہ ہوتی ہے .اور جب انسان کی عقل کامل اور فہم پختہ ہوتا ہے تو اس کے ذہن اور خیالات میں توازن پیدا ہوجاتا ہے .اور عقل دوسرے قوائے بدنیہ کی طرح زبان پر بھی تسلط و اقتدار حاصل کر لیتی ہے جس کے نتیجہ میں زبان عقل کے تقاضوں سے ہٹ کر اور بے سوچے سمجھے کھلنا گوارا نہیں کرتی اور ظاہر ہے کہ سوچ بچار کے بعد جو کلام ہوگا، وہ مختصر اور زوائد سے پاک ہوگا .

مرد چوں عقلش بیفزاید بکاہد در سخن تا نیابد فرصتِ گفتار نگشاید دہن

72. وقال (عليه السلام): الدَّهرُ يُخْلِقُ الاَْبْدَانَ، وَيُجَدِّدُ الاْمَالَ، وَيُقَرِّبُ الْمَنِيَّةَ، ويُبَاعِدُ الاُْمْنِيَّةَ، مَنْ ظَفِرَ بِهِ نَصِبَ، ومَنْ فَاتَهُ تَعِبَ.

72. زمانہ جسموں کو کہنہ و اور آرزوؤں کو تر و تازہ کرتا ھے۔ موت کو قریب اور آرزوؤں کو دور کرتا ہے .جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے .وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے .

73. وقال (عليه السلام): مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلیَبدَأ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ، وَلْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ، وَمُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَمُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالاِْجْلاَلِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَمُؤَدِّبِهِمْ.

73. جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے .اورجو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کرلے، وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے .

74. وقال (عليه السلام): نَفْسُ الْمَرْءِ خُطَاهُ إِلَى أَجَلِهِ.

74. انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جارہا ہے.

یعنی جس طرح ایک قدم مٹ کر دوسرے قدم کے لیے جگہ خالی کرتا ہے اور یہ قدم فرسائی منزل کے قرب کا باعث ہوتی ہے، یونہی زندگی کی ہر سانس پہلی سانس کے لیے پیغام فنا بن کر کاروان زندگی کو موت کی طرف بڑھائے لیے جاتی ہے .گویا جس سانس کی آمد کو پیغام حیات سمجھا جاتا ہے، وہی سانس زندگی کے ایک لمحے کے فنا ہو نے کی علامت اورمنزل موت سے قرب کا باعث ہوتی ہے کیونکہ ایک سانس کی حیات دوسری سانس کے لیے موت ہے اور انہی فنا بردوش سانسوں کے مجموعے کا نام زندگی ہے

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی

زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا

75. وقال (عليه السلام): كُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ، وَكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ.

75. جوچیز شمار میں آئے اسے ختم ہونا چاہیے اور جسے آنا چاہیے، وہ آکر رہے گا .

 

76. وقال (عليه السلام): إِنَّ الاُْمُورَ إذا اشْتَبَهَتْ اُعْتُبِرَ آخِرُهَا بِأَوَّلِهَا.

76. جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے .

ایک بیج کو دیکھ کر کاشتکار یہ حکم لگا سکتا ہے کہ اس سے کو ن سا درخت پیدا ہوگا .اس کے پھل پھول اور پتے کیسے ہوں گے، اس کا پھیلاؤ اور بڑھاؤ کتنا ہو گا .اسی طرح ایک طالب علم سعی و کوشش کو دیکھ کر اس کی کامیابی پر، اور دوسرے کی آرام طلبی و غفلت کو دیکھ کر اس کی ناکامی پر حکم لگایا جاسکتا ہے، کیونکہ اوائل اواخر کے اور مقدمات، نتائج کے آئینہ دار ہوتے ہیں .لہٰذا کسی چیز کا انجام سجھائی نہ دیتا ہو تو اس کی ابتداء کو دیکھا جائے .اگر ابتداء بری ہوگی تو انتہا بھی بری ہو گی اور اگر ابتداء اچھی ہوگی تو انتہا بھی اچھی ہوگی .

سالے کہ نکوست از بہارش پیداست

77. ومن خبر ضرار بن ضَمُرَةَ الضُّبابِيِّ عند دخوله علىٰ معاوية ومسألته له عن أمير المؤمنين . قال: فأشهَدُ لقَدْ رَأَيْتُهُ في بعض مواقِفِهِ وقَد أرخى اللّيلُ سُدُولَهُ، وهو قائمٌ في محرابِهِ قابِضٌ علىٰ لِحْيتِهِ يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّليمِ ويبكي بُكاءَ الحَزينِ، ويقولُ:

يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا، إِلَيْكِ عَنِّي، أَبِي تَعَرَّضْتِ؟ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ؟ لاَ حَانَ حِينُكِ! هيْهَات! غُرِّي غَيْرِي، لاَ حاجَةَ لِي فيِكِ، قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلاَثاً لاَ رَجْعَةَ فِيهَا! فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ، وَخَطَرُكِ يَسِيرٌ، وَأَمَلُكِ حَقِيرٌ. آهِ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ، وَطُولِ الطَّرِيقِ، وَبُعْدِ السَّفَرِ، وَعَظِيمِ الْمَوْرِدِ !

77 جب ضرار ابن ضمرة ضبایی معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے امیرالمومنین (ع) کے متعلق ان سے سوال کیا، تو انہوں نے کہاکہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے بعض موقعوں پر آپ کو دیکھا جب کہ رات اپنے دامن ظلمت کو پھیلا چکی تھی .تو آپ محراب عبادت میں ایستادہ ریش مبارک کو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مار گزیدہ کی طرح تڑپ رہے تھے اورغم رسیدہ کی طرح رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے .

اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے .کیامیرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے .تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے، جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے .میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں .تیری زندگی تھوڑی، تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا، راستہ طویل سفر دور و دراز اور منزل سخت ہے .

اس روایت کا تتمہ یہ ہے کہ جب معاویہ نے ضرار کی زبان سے یہ واقعہ سنا تو اس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور کہنے لگا کہ خدا ابو الحسن پر رحم کرے وہ واقعا ًایسے ہی تھے، پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ضرار ان کی مفارقت میں تمہارے رنج و اندوہ کی کیا حالت ہے ضرار نے کہا کہ بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کاہوتا ہے کہ جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر دیا جائے .

78. ومن كلام له (عليه السلام): (للسائل الشامی) لما سأله: أَكان مسيرنا إِلى الشام بقضاء من الله وقدر؟ بعد كلام طويل هذا مختاره:

وَيْحَكَ! لَعَلَّكَ ظَنَنْتُ قَضَاءً لاَزِماً، وَقَدَراً حَاتِماً ! وَلَوْ كَانَ (ذلِكَ) كَذلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ والْعِقَابُ، وَسَقَطَ الْوَعْدُ وَالْوَعِيدُ. إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ أَمَرَ عِبَادَهُ تَخْيِيراً، وَنَهَاهُمْ تَحْذِيراً، وَكَلَّفَ يَسِيراً، وَلَمْ يُكَلِّفَ عَسِيراً، وَأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً، وَلَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً، وَلَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً، وَلَمْ يُرْسِلِ الاَْنْبِيَاءَ لَعِباً، وَلَمْ يُنْزِلِ الكِتابَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً، وَلاَ خَلَقَ السَّماوَاتِ وَالاَْرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلاً، و (ذالِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ)

78. ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ہمارا اہل شام سے لڑنے کے لیے جانا قضا و قدر سے تھا؟ تو آپ نے ایک طویل جواب دیا .جس کا ایک منتخب حصہ یہ ہے .

خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں )اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامور کیا ہے اور (عذاب سے )ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے .اس کی نافرمانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دَب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کے لیے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے .یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا تو افسوس ھے ان پر جنھوں نے کفر اختیار کیا آتش جہنم کے عذاب سے ۔

اس روایت کا تتمہ یہ ہے کہ پھر اس شخص نے کہا کہ وہ کون سی قضاء و قدر تھی جس کی وجہ سے ہمیں جانا پڑا آپ نے کہا کہ قضاکے معنی حکم باری کے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے .وقضی ربّک الا تعبدوا الا ایاہ "اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا". یہاں پر قضی بمعنی امر ہے .

79. وقال (عليه السلام): خُذِ الْحِكْمَةَ أَنَّىٰ كَانَتْ، فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَكُونُ في صَدْرِ الْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِي صَدْرِهِ حَتَّىٰ تَخْرُجَ فَتَسْكُنَ إِلَى صَوَاحِبِهَا فِي صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

79. حکمت کی بات جہاں کہیں ہو، اسے حاصل کرو، کیونکہ حکمت منافق کے سینہ میں بھی ہوتی ہے .لیکن جب تک اس (کی زبان)سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی تڑپتی رہتی ہے .

80. وقال (عليه السلام): الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، فَخُذِ الْحِكْمَةَ وَلَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.

80. حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اسے حاصل کرو، اگرچہ منافق سے لینا پڑے .

81. وقال (عليه السلام): قِيمَةُ كُلِّ امْرِىءٍ مَا يُحْسِنُهُ.

قال الرضی: وھی الكلمة التي لاتُصابُ لها قيمةٌ، ولا توزن بها حكمةٌ، ولا تُقرنُ إِليها كلمةٌ.

81. ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے، جو اس شخص میں ہے .

سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے، اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہوسکتا ہے .

انسان کی حقیقی قیمت اس کا جوہر علم و کمال ہے .وہ علم و کمال کی جس بلندی پر فائز ہوگا، اسی کے مطابق اس کی قدر و منزلت ہوگی چنانچہ جوہر شناس نگاہیں شکل و صورت، بلندی قدو قامت اور ظاہری جاہ و حشمت کو نہیں دیکھتیں بلکہ انسان کے ہنر کو دیکھتی ہیں اور اسی ہنر کے لحاظ سے اس کی قیمت ٹھہراتی ہیں .مقصد یہ ہے کہ انسان کو اکتساب فضائل و تحصیل علم و دانش میں جدوجہد کرنا چاہیے.

ز آنکہ ھر کس را بقدرِ دانش او قیمت است

82. وقال (عليه السلام): أُوصِيكُمْ بِخَمْس لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الاِْبِلِ لَكَانَتْ لِذلِكَ أَهْلاً: لاَ يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلاَّ رَبَّهُ، وَلاَ يَخَافَنَّ إِلاَّ ذَنْبَهُ، وَلاَ يَسْتَحِْيَنَّ أَحَدٌ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لاَ يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لاَ أَعْلَمُ، وَلاَ يَسْتَحْيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعَلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَهُ وَعَلَیکُم بِالصَّبْرِ، فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الاِْيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَلاَ خَيْرَ فِي جَسَدٍ لاَ رأْسَ مَعَهُ، وَلاَ في إِيمَانٍ لاَ صَبْرَ مَعَهُ.

82. تمہیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لیے اونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکاؤ, تو وہ اسی قابل ہوں گی .تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شے سے خو ف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے کہ جسے و ہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں، اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے. اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے، یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں .

ھر کرا صبر نیست ایمان نیست

83. وقال (عليه السلام) لرجل أفرط في الثناء عليه، وكان له مُتَّهماً: أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ، وَفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ.

83. ایک شخص نے آپ کی بہت زیادہ تعریف کی حالانکہ وہ آپ سے عقیدت و ارادت نہ رکھتا تھا، تو آپ نے فرمایا جو تمہاری زبان پر ہے میں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل میں ہے اس سے زیادہ ہوں.

84. وقال (عليه السلام): بَقِيَّةُ السَّيْفِ أَبْقَى عَدَداً، وَأَكْثَرُ وَلَداً.

84. تلوار سے بچے کھچے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی نسل زیادہ ہوتی ہے .

85. وقال (عليه السلام): مَنْ تَرَكَ قَوْلَ: لاَ أَدْري، أُصِيبَتْ مَقَاتِلُهُ.

85. جس کی زبان پر کبھی یہ جملہ نہ آئے کہ « میں نہیں جانتا » تو وہ چوٹ کھانے کی جگہو ں پر چوٹ کھا کر رہتا ہے .

86. وقال (عليه السلام): رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلاَمِ وَروي "مِنْ مَشْهَدِ الْغُلاَمِ".

86. بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے (ایک روایت میں یوں ہے کہ بوڑھے کی رائے مجھے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسند ہے )

87. وقال (عليه السلام): عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ وَمَعَهُ الاسْتِغْفَارُ.

87. اس شخص پر تعجب ہوتا ہے کہ جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہو جائے

88. وحكى عنه أبو جعفر محمد بن علي الباقر (عليهما السلام) أَنّه قال: كَانَ فِي الاَْرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللهِ سُبْحَانَهُ، وَقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا، فَدُونَكُمُ الاْخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ: أَمَّا الاَْمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللهُ صلى الله عليه وآله وسلم . وَأَمَّا الاَْمَانُ الْبَاقِي فَالاْسْتِغْفَارْ، قَالَ اللهُ عزّوجلّ: (وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ)

قال الرضی: وهذا من محاسن الاستخراج ولطائف الاستنباط.

88. ابو جعفر محمد ابن علی الباقر علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ امیرالمومنین (ع) نے فرمایا .

دنیا میں عذاب خدا سے دو چیزیں باعث امان تھیں ایک ان میں سے اٹھ گئی، مگر دوسری تمہارے پاس موجود ہے .لہٰذا اسے مضبوطی سے تھامے رہو .وہ امان جو اٹھالی گئی وہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم تھے اور وہ امان جو باقی ہے وہ توبہ و استغفار ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا.»اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرے گا جب تک تم ان میں موجود ہو «.اللہ ان لوگوں پر عذاب نہیں اتارے گا، جب کہ یہ لوگ توبہ و استغفار کررہے ہوں گے .

سید رضی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ یہ بہترین استخراج اور عمد ہ نکتہ آفرینی ہے .

89. وقال (عليه السلام): مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللهِ أَصْلَحَ اللهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ، وَمَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِهِ أَصْلَحُ اللهُ لَهُ أَمْرَ دُنْيَاهُ، وَمَنْ كَانَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَاعِظٌ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللهِ حَافِظٌ .

89. جس نے اپنے اور اللہ کے مابین معاملات کو ٹھیک رکھا، تو اللہ اس کے اور لوگوں کے معاملات سلجھائے رکھے گا اور جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا .تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا اور جو خود اپنے آپ کو وعظ و پند کرلے، تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی.

90. وقال (عليه السلام): الْفَقِيهُ كُلُّ الْفَقِيهِ مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ، وَلَمْ يُؤْيِسْهُمْ مِنْ رَوْحِ اللهِ، وَلَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ مَكْرِاللهِ .

90. پورا عالم و دانا وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایو س اور اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا امید نہ کرے، اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے .

91۔ وقال علیہ السلام: ان ھٰذہ القُلُوبَ تَمَلُّ کَما تمل الاَبَرانُ۔ فابتغوا لَھَا طَرَائِفَ الحِکمہ

91۔ یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ھین جس طرح بدن اکتا جاتے ھیں لھٰذا (جب ایسا ھو تو) ان کے لئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو

92. وقال (عليه السلام): أَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ، وَأَرْفَعُهُ مَا ظَهَرَ فِي الْجَوَارِحِ وَالاَْرْكَانِ .

92. وہ علم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو.

93. وقال (عليه السلام): لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بكَ مِنَ الْفِتْنَةِ، لاَِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ إِلاَّ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَة، وَلكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلاَّتِ الْفِتَنِ، فَإِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ يَقُولُ: (وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ)، وَمَعْنَى ذلِكَ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ يَخْتَبِرُهُمْ بِالاَْمْوَالِ وَالاَْوْلاَدِ لِيَتَبَيَّنَ السَّاخِط لِرِزْقِهِ وَالرَّاضِي بِقِسْمِهِ، وإِنْ كَانَ سُبْحَانَهُ أَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَلكِن لِتَظْهَرَ الاَْفْعَالُ الَّتي بِهَا يُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ وَالْعِقَابُ، لاَِنَّ بَعْضَهُمْ يُحِبُّ الذُّكُورَ وَيَكْرَهُ الانَاثَ، وَبَعْضَهُمْ يُحِبُّ تَثْمِيرَ الْمَالِ وَيَكْرَهُ انْثِلاَمَ الحَالِ .

قال الرضی: وهذا من غريب ما سمع منه في التفسير.

93. تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ "اے اللہ! میں تجھ سے فتنہ و آزمائش سے پناہ چاہتا ہوں" ۔ اس لیے کہ کوئی شخص ایسا نہیں جو فتنہ کی لپیٹ میں نہ ہو، بلکہ جو پناہ مانگے وہ گمراہ کرنے والے فتنوں سے پناہ مانگے کیونکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے "اور اس بات کو جانے رہو کہ تمہارا مال اور اولاد فتنہ ہے"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ لوگوں کومال اور اولاد کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے، کہ کون اپنی قسمت پر شاکرہے اگرچہ اللہ سبحانہ ان کو اتنا جانتا ہے کہ وہ خود بھی اپنے کو اتنا نہیں جانتے۔لیکن یہ آزمائش اس لیے ہے کہ وہ افعال سامنے آئیں جن سے ثواب و عذاب کا استحقاق پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض اولاد نرینہ کو چاہتے ہیں، اور لڑکیوں سے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں اور بعض مال بڑھانے کو پسند کرتے ہیں اور بعض شکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ان عجیب و غریب باتوں میں سے ہے جو تفسیر کے سلسلہ میں آپ سے وارد ہوئی ہیں۔

94. وسئل وعن الخير ما هو؟ فقال: لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ وَوَلَدُكَ، وَلكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ، وَأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُكَ، وَأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ، فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتّ اللهَ، وَإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللهَ. وَلاَ خَيْرَ فِي الدُّنْيَا إِلاَّ لِرَجُلَيْنِ: رَجُل أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ، وَرَجُل يُسَارِعُ فِي الْخَيْرَاتِ

94. آپ سے دریافت کیا گیا کہ نیکی کیا چیز ہے؟ توآپ (ع) نے فرمایا کہ نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے۔بلکہ خوبی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ اور حلم بڑا ہو، اور تم اپنے پروردگار کی عباد ت پر ناز کرسکو اب اگر اچھا کام کرو، تو اللہ کا شکر بجالاؤ، اور اگر کسی برائی کا ارتکاب کرو، تو توبہ و استغفار کرو . اور دنیا میں صرف دو شخصوں کے لیے بھلائی ہے۔ایک وہ جو گناہ کرے تو توبہ سے سے اس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کاموں میں تیز گام ہو۔

95۔ و قال علیہ السلام: وَلاَ يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى، وَكَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ؟

95۔ جو عمل تقوی ٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے ؟

96. وقال (عليه السلام): إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالاَْنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاؤُوا بِهِ، ثُمَّ تَلاَ (إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ثم قال: انّ وَلیَّ محمد من اطاعَ اللہ وَاِن بَعُدَت لُحَمتُہ وَاِنَّ عَدُوَّ محمد مَن عَصَی اللہ وان قَرُبَت قرابَتُہ ۔

ثُمَّ قال (عليه السلام): إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّد مَنْ أَطَاعَ اللهَ وإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُهُ، وَإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّد مَنْ عَصَى اللهَ وَإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُهُ!

96. انبیاء سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ان کی لائی ہوئی چیزوں کازیادہ علم رکھتے ہوں (پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی) ابراہیم سے زیادہ خصوصیت ان لوگوں کو تھی جو ان کے فرمانبردار تھے۔اور اب اس نبی اور ایمان لانے والوں کو خصوصیت ہے۔(پھرفرمایا)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ ان سے کوئی قرابت نہ رکھتا ہو، اور ان کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے، اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔

97. وقد سمع رجلاً من الحرورية يتهجّد ويقرأ، فقال: نَوْمٌ عَلَى يَقِين خَيْرٌ مِنْ صَلاَة فِي شَكّ.

97. ایک خارجی کے متعلق آپ (ع) نے سنا کہ وہ نماز شب پڑھتا ہے اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو آپ (ع) نے فرمایا یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

98. اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوهُ عَقْلَ رِعَايَة لاَ عَقْلَ رِوَايَةٍ، فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ، وَرُعَاتَهُ قَلِيلٌ.

98. جب کوئی حدیث سنو تو اسے عقل کے معیار پر پرکھ لو,صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو، کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اس میں غور و فکر کرنے والے کم ہیں۔

99. وقد سمع رجلاً يقول: (إنَّا لله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)

فقال علیہ السلام: إِنَّ قَوْلَنا: (إِنَّا لله) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْمُلْكِ، وقولَنَا: (وإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْهُلْكِ .

99. ایک شخص کو انا للہ و انا الیہ راجعون (ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے ) کہتے سنا تو فرمایا کہ ہمارا یہ کہنا کہ «ہم اللہ کے ہیں» اس کے مالک ہونے کا اعتراف ہے اور یہ کہنا کہ ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے" ۔ یہ اپنے لیے فنا کا اقرار ہے.

100۔ و مدحه توم في وجهه: اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي، وَأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْراً مِمَّا يَظُنُّونَ، وَاغْفِرْ لَنَا مَا لاَ يَعْلَمُونَ.

100. کچھ لوگوں نے آپ (ع) کے روبرو آپ (ع) کی مدح و ستائش کی، تو فرمایا۔اے اللہ! تومجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ اپنے نفس کومیں پہچانتا ہوں۔اے خدا جو ان لوگوں کاخیال ہے ہمیں اس سے بہتر قرار دے اور ان (لغزشوں )کو بخش دے جن کا انہیں علم نہیں.

 

101. وقال (عليه السلام): لاَ يَسْتَقِيمُ قَضَاءُ الْحَوَائِجِ إِلاَّ بِثَلاَث: بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ، وَبِاسْتِكْتَامِهَا لِتَظْهَرَ،بِتَعْجِيلِهَا لِتَهْنَؤ .

101. حاجت روائی تین چیزوں کے بغیر پائدار نہیں ہوتی۔اسے چھوٹا سمجھاجائے تاکہ وہ بڑی قرار پائے اسے چھپایا جائے تاکہ وہ خود بخود ظاہر ہو، اور اس میں جلدی کی جائے تاکہ وہ خوش گوار ہو۔

210. وقال (عليه السلام): يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لاَ يُقَرَّبُ فِيهِ إِلاَّ الْمَاحِلُ، وَلاَ يُظَرَّفُ فِيهِ إِلاَّ الْفَاجِرُ، وَلاَ يُضَعَّفُ فِيهِ إِلاَّ الْمُنْصِفُ: يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيهِ غُرْماً، وَصِلَةَ الرَّحِمُ مَنّاً، وَالْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاس فَعِنْدَ ذلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ الالنِّسََاءِ، وَإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ، وَتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ۔

210. لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو, اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا, جو فاسق و فاجر ہو اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا صدقہ کو لوگ خسارہ، اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کے لیے ہوگی۔ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہوگا.

310. ورُيَ عليه إزار خَلَقٌ مرقوع، فقيل له في ذلك، فقال:۔

يَخْشَعُ لَهُ الْقَلْبُ، وَتَذِلُّ بِهِ النَّفْسُ، وَيَقْتَدِي بِهِ الْمُؤْمِنُونَ. إِنَّ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ، وَسَبِيلاَنِ مُخْتَلِفَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وَتَوَلاَّهَا أَبْغَضَ الاْخِرَةَ وَعَادَاهَا، وَهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَمَاشٍ بَيْنَهُمَا: كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِد بَعُدَ مِنَ الاْخَرِ، وَهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ ۔

310. آپ (ع) کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیوند دار جامہ دیکھا گیا تو آپ سے اس کے بارے میں کہاگیا، آپ (ع) نے فرمایا! اس سے دل متواضع اور نفس رام ہوتا ہے اور مومن اس کی تاسی کرتے ہیں۔

. دنیا اور آخرت آپس میں دو ناساز گار دشمن اور دو جدا جدا راستے ہیں۔چنانچہ جو دنیا کو چاہے گا اور اس سے دل لگائے گا۔وہ دونوں بمنزلۂ مشرق و مغرب کے ہیں اور ان دونوں سمتوں کے درمیان چلنے والا جب بھی ایک سے قریب ہوگا تو دوسرے سے دور ہونا پڑے گا۔پھر ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسا دو سوتوں کاہوتا ہے۔

104. وعن نوف البِكاليّ، قال: رأيت أميرالمؤمنين(عليه السلام) ذات ليلة، وقد خرج من فراشه، فنظر في النجوم فقال لی: يا نوف، أراقد أنت أم رامق؟

فقلت: بل رامق قال: یا نوف

طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا، الرَّاغِبِينَ فِي الاْخِرَةِ، أُولئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الاَْرْضَ بِسَاطاً، وَتُرَابَهَا فِرَاشاً، وَمَاءَهَا طِيباً، وَالْقُرْآنَ شِعَاراً، وَالدُّعَاءَ دِثَاراً، ثُمَّ قَرَضوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ .

يَا نَوْفُ! إِنَّ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَامَ فِى مِثْلِ هذِهِ السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ فَقَالَ: إِنَّهَا سَاعَةٌ لاَ يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلاَّ اسْتُجِيبَ لَهُ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ عَشَّاراً أَوْ عَرِيفاً أَوْ شُرْطِيّاً أَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَة (وهي الطنبور) أَوْ صَاحِبَ كَوْبَة (وهي الطبل، وقد قيل أيضاً: إنّ العَرْطَبَةَ: الطبلُ، والكوبةَ الطنبور).

104. نوف (ابن فضالہ) بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین علیہ السلام کو دیکھاکہ وہ فرش خواب سے اٹھے ایک نظر ستاروں پر ڈالی اور پھر فرمایا اے نوف !سوتے ہو یا جاگ رہے ہو ؟میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین (ع) جاگ رہا ہوں۔فرمایا ! اے نوف!

خوشانصیب ان کے کہ جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا، اور ہمہ تن آخرت کی طرف متوجہ رہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو فرش، مٹی کو بستر اور پانی کو شربت خوش گوار قرار دیا۔قرآن کو سینے سے لگایا اور دعا کو سپر بنایا. پھر حضرت مسیح کی طرح دامن جھاڑ کر دنیا سے الگ ہوگئے.

اے نوف ! داؤد علیہ السلام رات کے ایسے ہی حصہ میں اٹھے اور فرمایا کہ یہ وہ گھڑی ہے کہ جس میں بندہ جو بھی دعا مانگے مستجاب ہوگی سوا اس شخص کے جو سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا، یا لوگوں کی برائیاں کرنے والا، یا ( کسی ظالم حکومت کی) پولیس میں ہو یا سارنگی یا ڈھول تاشہ بجانے والا ہو.

سید رضی کہتے ہیں کہ عرطبہ کے معنی سارنگی اورکوبہ کے معنی ڈھول کے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ عرطبہ کے معنی ڈھول اور کوبہ کے معنی طنبور کے ہیں۔

105. وقال (عليه السلام): إِنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ لَكُمْ حُدُوداً فَلاَ تَعْتَدُوهَا، وَنَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا، وَسَكَتَ لَكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ وَلَمْ يَدَعْهَا نِسْيَاناً فَلاَ تَتَكَلَّفُوهَا .

105. اللہ نے چند فرائض تم پرعائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو۔اورتمہارے حدود کار مقرر کر دیئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو.اس نے چند چیزوں سے تمہیں منع کیا ہے اس کی خلاف ورزی نہ کرو، اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا، انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا.لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو.

106. وقال (عليه السلام): لاَ يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لاِسْتِصْلاَحِ دُنْيَاهُمْ إلاَّ فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْهُ.

106. جو لوگ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے دین سے ہاتھ اٹھالیتے ہیں تو خدا اس دنیوی فائدہ سے کہیں زیادہ ان کے لیے نقصان کی صورتیں پیدا کردیتا ہے۔

107. وقال (عليه السلام): رُبَّ عَالِم قَدْ قَتَلَهُ جَهْلُه، وَعِلْمُه مَعَه لاَ يَنْفَعُه.

107. بہت سے پڑھے لکھوں کو (دین سے) بے خبری تباہ کردیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرا بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔

108. وقال (عليه السلام): لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هذَا الاِْنْسَانِ بَضْعَةٌ هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيهِ وَذلِكَ الْقَلْبُ، وَلَهُ مَوَادّ مِنَ الْحِكْمَةِ وَأَضْدَادٌ مِنْ خِلاَفِهَا، فَإِنْ سَنَحَ لَهُ الرَّجَاءُ أَذَلَّهُ الطَّمَعُ، وَإِنْ هَاجَ بِهِ الطَّمَعُ أَهْلَكَهُ الْحِرْصُ وإِنْ مَلَكَهُ الْيَأْسُ قَتَلَهُ الاَْسَفُ، وإِنْ عَرَضَ لَهُ الْغَضَبُ اشتَدَّ بِهِ الْغَيْظُ، وَإِنْ أَسْعَدَهُ الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ، وإِنْ غَالَهُ الْخَوْفُ شَغَلَهُ الْحَذَرُ، وَإِن اتَّسَعَ لَهُ الاَْمْنُ اسْتَلَبَتْهُ الْغِرَّةُ، وَإِن أَصَابَتهُ مُصِيبَةٌ فَضَحَهُ الْجَزَعُ، وَإِنْ عَضَّتْهُ الْفَاقَةُ شَغَلَهُ الْبَلاَءُ، وَإِنْ جَهَدَهُ الْجُوعُ قَعَدَ بِهِ الضَّعْفُ، وإِنْ أَفْرَطَ بِهِ الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ، فَكُلُّ تَقْصِير بِهِ مُضِرٌّ، وَكُلُّ إِفْرَاط لَهُ مُفْسِدٌ.

108. اس انسان سے بھی زیادہ عجیب وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جو اس کی ایک رگ کے ساتھ آویزاں کردیاگیا ہے اور وہ دل ہے جس میں حکمت و دانائی کے ذخیرے ہیں اور اس کے برخلاف بھی صفتیں پائی جاتی ہیں اگر اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع اسے ذلت میں مبتلا کرتی ہے اور اگر طمع ابھرتی ہے تو اسے حرص تباہ وبرباد کردیتی ہے۔اگر ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے تو حسرت و اندوہ اس کے لیے جان لیوا بن جاتے ہیں اور اگر غضب اس پر طاری ہوتا ہے تو غم و غصہ شدت اختیار کرلیتا ہے اور اگر خوش و خوشنود ہوتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتاہے اور اگر اچانک اس پر خوف طاری ہوتاہے تو فکر و اندیشہ دوسری قسم کے تصورات سے اسے روک دیتا ہے۔اگر امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے تو غفلت اس پر قبضہ کرلیتی ہے اور اگر مال و دولت حاصل کرلیتا ھے تو دولتمندی اسے سرکش بنادیتی ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو بے تابی و بے قراری اسے رسوا کر دیتی ہے۔اور اگر فقر و فاقہ کی تکلیف میں مبتلا ہو۔تو مصیبت و ابتلاء اسے جکڑلیتی ہے اور اگر بھوک اس پر غلبہ کرتی ہے۔ تو ناتوانی اسے اٹھنے نہیں دیتی اور اگر شکم پری بڑھ جاتی ہے تو یہ شکم پری اس کے لیے کرب و اذیت کا باعث ہوتی ہے ہر کوتاہی اس کے لیے نقصان رساں اور حد سے زیادتی اس کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔

109. وقال (عليه السلام): نَحْنُ الُّنمْرُقَةُ الْوُسْطَى بِهَا يَلْحَقُ التَّالِي، وَإِلَيْهَا يَرْجِعُ الْغَالِي .

109. ہم (اہلبیت )ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اس سے آکر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔

110. وقال (عليه السلام): لاَ يُقِيمُ أَمْرَ اللهِ سُبْحَانَهُ إلاَّ مَنْ لاَ يُصَانِعُ، وَلاَ يُضَارِعُ، وَلاَ يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ .

110. حکم خدا کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو (حق کے معاملہ میں) نرمی نہ بَرتے، عجز و کمزوری کا اظہار نہ کرے اور حرص و طمع کے پیچھے نہ لگ جائے۔

111. وقال (عليه السلام) وقد توفي سهل بن حُنَيْف الانصاري بالكوفة بعد مرجعه معه من صفين، وكان من أحبّ الناس إليه:

لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ . معنى ذلك: أنّ المحنة تغلظ عليه، فتسرع المصائب إليه، ولا يفعل ذلك إلاَّ بالاتقياء الابرار والمصطفين الاخيار . و ھذا مثل قولہ علیہ السلام ۔

111. سہل ابن حنیف انصار ی حضرت کو سب لوگو ں میں زیادہ عزیز تھے یہ جب آپ کے ہمراہ صفین سے پلٹ کر کوفہ پہنچے تو انتقال فرماگئے جس پر حضرت نے فرمایا:

"اگر پہاڑبھی مجھے دوست رکھے گا تووہ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا "۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ چونکہ اس کی آزمائش کڑی اور سخت ہوتی ہے۔اس لیے مصیبتیں اس کی طرف لپک کر بڑھتی ہیں اور ایسی آزمائش انہی کی ہوتی ہے جو پرہیز گار، نیکو کار، منتخب و برگزیدہ ہوتے ہیں اور ایسا ہی آپ کا دوسرا ارشاد ہے۔

112. مَنْ أَحَبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً.

وقد تُؤُوّل ذلك على معنى آخر ليس هذا موضع ذكره.

112. جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے لیے آمادہ رہناچاہیے۔

سید رضی کہتے ہیں کہ حضرت کے اس ارشاد کے ایک اور معنی بھی کئے گئے ہیں جس کے ذکر کا یہ محل نہیں ہے۔

شاید اس روایت کے دوسرے معنی یہ ہوں کہ جو ہمیں دوست رکھتا ہے اسے دنیاطلبی کے لیے تگ و دو نہ کرنا چاہیے خواہ اس کے نتیجہ میں اسے فقر و افلاس سے دو چار ہونا پڑے بلکہ قناعت اختیار کرتے ہوئے دنیا طلبی سے الگ رہنا چاہیے۔

113. وقال (عليه السلام): لاَ مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ، وَلاَ وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ، وَلاَ عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ، وَلاَ كَرَمَ كَالتَّقْوَى، وَلاَ قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلْقِ، وَلاَ مِيرَاثَ كَالاْدَبِ، وَلاَ قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ، وَلاَ تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ، وَلاَ رِبْحَ كَالثَّوَابِ، وَلاَ وَرَعَ كالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، وَلاَ زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ، ولاَ عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ، وَلاَ عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرائِضِ، وَلاَ إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ وَالصَّبْرِ، وَلاَ حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ، وَلاَ شَرَفَ كَالْعِلْمِ (وَلا عِزّ کَالحِلمِ) وَلاَ مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِن مُشَاوَرَةِ.

113. عقل سے بڑھ کر کوئی مال سود مند اور خود بینی سے بڑھ کر کوئی تنہائی وحشتناک نہیں اور تدبر سے بڑھ کر کوئی عقل کی بات نہیں اور کوئی بزرگی تقویٰ کے مثل نہیں اور خوش خلقی سے بہتر کوئی ساتھی اور ادب کے مانند کوئی میراث نہیں اور توفیق کے مانند کوئی پیشرو اور اعمال خیر سے بڑھ کر کوئی تجارت نہیں اور ثواب کا ایسا کوئی نفع نہیں اور کوئی پرہیز گاری شبہات میں توقف سے بڑھ کر نہیں اور حرام کی طرف بے رغبتی سے بڑھ کر کوئی زہد اور تفکر اور پیش بینی سے بڑھ کر کوئی علم نہیں اور ادائے فرائض کے مانند کوئی عبادت اور حیاء و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں اور فروتنی سے بڑھ کر کوئی سرفرازی اور علم کے مانند کوئی بزرگی وشرافت نہیں حلم کے مانند کوئی عزت اور مشورہ سے مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں

114. وقال (عليه السلام): إِذَا اسْتَوْلَى الصَّلاَحُ عَلَى الزَّمَانِ وَأَهْلِهِ ثُمَّ أَسَاءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُل لَمْ تَظْهَرْ مِنْهُ خزْيَة فَقَدْ ظَلَمَ! وَإِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِهِ فَأَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُل فَقَدْ غَرَّرَ!

114. جب دنیا اور اہل دنیا میں نیکی کا چلن ہو، اور پھر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے کہ جس سے رسوائی کی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی سؤِ ظن رکھے تو اس نے اس پر ظلم و زیادتی کی اور جب دنیا واہل دنیا پر شر و فساد کا غلبہ ہو اور پھر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے حسن ظن رکھے تو اس نے (خود ہی اپنے کو ) خطرے میں ڈالا.

115. وقيل له (عليه السلام): كيف تجدك يا أميرالمؤمنين؟

فقال علیہ السلام: كَيْفَ يَكُونُ (حَالُ) مَنْ يَفْنَىٰ بِبِقَائِهِ، وَيَسْقَمُ بِصِحَّتِهِ، وَيُؤْتَى مِنْ مَأْمَنِهِ ۔

115. امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ آپ (ع) کا حال کیسا ہے ؟ تو آپ (ع) نے فرمایا کہ ا س کا حال کیا ہوگا جسے زندگی موت کی طرف لیے جارہی ہو، اور جس کی صحت بیماری کا پیش خیمہ ہو اور جسے اپنی پناہ گاہ سے گرفت میں لے لیا جائے۔

116. قال (عليه السلام): كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَج بِالاِْحْسَان إلَيْهِ، وَمَغْرور بِالسَّتْرِ عَلَيْهِ، وَمَفْتُون بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيهِ! وَمَا ابْتَلَى اللهُ أَحَداً بِمِثْلِ الاِْمْلاَءِ لَهُ.

116. کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور اپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے ہیں اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں ہے۔

117. وقال (عليه السلام): هَلَكَ فِيَّ رَجُلاَنِ: مُحِبٌّ غَال وَمُبْغِضٌ قَال!

117. میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوئے۔ایک وہ چاہنے والا جو حد سے بڑھ جائے اور ایک وہ دشمنی رکھنے والا جو عداوت رکھے۔

118. وقال (عليه السلام): إضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

118. موقع کو ہاتھ سے جانے دینا رنج و اندوہ کا باعث ہوتا ہے۔

119. وقال (عليه السلام): مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا، وَالسُّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا: يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ، وَيَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ!

119. دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے، فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھینچتا ہے اور ہوشمند و دانا اس سے بچ کر رہتا ہے۔

120. سئل (عليه السلام) عن قريش:

فقال: أَمَّا بَنُو مَخْزُوم فَرَيْحَانَةُ قُرَيْش، نُحِبُّ حَدِيثَ رِجَالِهِمْ، وَالنِّكَاحَ فِي نِسَائِهِمْ. وَأَمَّا بَنُو عَبْدِ شَمس فَأَبْعَدُهَا رَأْياً، وَأَمْنَعُهَا لِمَا وَرَاءَ ظُهُورِهَا. وَأَمَّا نَحْنُ فَأَبْذَلُ لِمَا فِي أَيْدِينَا، وَأَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوسِنَا. وَهُمْ أَكْثَرُ وَأَمْكَرُ وَأَنْكَرُ، وَنَحْنُ أَفْصَحُ وَأَنْصَحُ وَأَصْبَحُ.

120. حضرت سے قریش کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ (قبیلۂ)بنی مخزوم قریش کا مہکتا ہوا پھول ہیں، ان کے مردوں سے گفتگو اور ان کی عورتوں سے شادی پسندیدہ ہے اور بنی عبد شمس دور اندیش اور پیٹھ پیچھے کی اوجھل چیزوں کی پوری روک تھام کرنے والے ہیں لیکن ہم (بنی ہاشم )توجو ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے اسے صرف کر ڈالتے ہیں، اور موت آنے پر جان دیتے ہیں۔ بڑے جوانمرد ہوتے ہیں اور یہ بنی (عبد شمس) گنتی میں زیادہ حیلہ باز اور بدصورت ہوتے ہیں اور ہم خوش گفتار خیر خواہ اور خوب صورت ہوتے ہیں۔

121. وقال (عليه السلام): شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ: عَمَل تَذْهَبُ لَذَّتُهُ وَتَبْقَى تَبِعَتُهُ، وَعَمَلٌ تَذْهَبُ مَؤُونَتُهُ وَيَبْقَى أَجْرُهُ.

121. ان دونوں قسم کے عملوں میں کتنا فرق ہے ایک وہ عمل جس کی لذت مٹ جائے لیکن اس کا وبال رہ جائے اور ایک وہ جس کی سختی ختم ہوجائے لیکن اس کا اجر وثواب باقی رہے .

122. وتبع جنازة فسمع رجلاً يَضحك، فقال (عليه السلام): كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ، وَكَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ، وَكَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الاَْمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيل إِلَيْنَا رَاجِعُونَ! نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ، ونَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ، كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بعدھُم) ثم، قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظ وَوَاعِظَةٍ، وَرُمِينَا بِكُلِّ جَائِحَة!!

122. حضرت ایک جنازہ کے پیچھے جارہے تھے کہ ایک شخص کے ہنسنے کی آواز سنی جس پر آپ نے فرمایا:

گویا اس دنیا میں موت ہمارے علاوہ دوسروں کے لیے لکھی گئی ہے اور گویا یہ حق (موت )دوسروں ہی پر لاز م ہے اور گویا جن مرنے والوں کو ہم دیکھتے ہیں، وہ مسافر ہیں جو عنقریب ہماری طرف پلٹ آئیں گے .ادھر ہم انہیں قبروں میں اتارتے ہیں ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں گویا ان کے بعد ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں .پھر یہ کہ ہم نے ہر پندو نصیحت کرنے والے کو وہ مرد ہو یا عور ت بھلا دیا ہے اور ہر آفت کا نشانہ بن گئے ہیں .

123. [وقال (عليه السلام):] طُوبَىٰ لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِهِ، وَطَابَ كَسْبُهُ، وَصَلُحَتْ سَرِيرَتُهُ، وَحَسُنَتْ خَلِيقَتُهُ،و أَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِهِ، وَأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِهِ، وَعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّهُ، وَوَسِعَتْهُ السُّنَّةُ، وَلَمْ يُنْسَبْ إِلَى الْبِدْعَةِ.

قال الرضی: ومن الناس من ينسب هذا الكلام إلى رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم و کذالک الذٰ قبلہ۔).

123. خوشا نصیب اس کے کہ جس نے اپنے مقام پر فروتنی اختیار کی جس کی کمائی پاک و پاکیزہ نیت نیک اورخصلت و عادت پسندیدہ رہی جس نے اپنی ضرورت سے بچا ہوا مال خدا کی راہ میں صرف کیا بے کار باتوں سے اپنی زبان کو روک لیا، مردم آزادی سے کنارہ کش رہا، سنت اسے ناگوار نہ ہوئی اور بدعت کی طرف منسوب نہ ہوا .

سید رضی کہتے ہیں:

کہ کچھ لو گوں نے اس کلام کو اور اس سے پہلے کلام کو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے .

124. وقال (عليه السلام): غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ، وَغْيْرَةُ الرَّجُلِ إيمَانٌ.

124. عورت کا غیرت کرنا کفر ہے، اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے .

مطلب یہ ہے کہ جب مر دکو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کر نا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہمپایہ ہے، اور چونکہ عورت کے لیے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے .

مردوعورت میں یہ تفریق اس لیے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجۂ اتم حاصل ہوسکتا ہے جب مرد کے لیے تعددازواج کی اجازت ہو، کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہوسکتی ہیں اور عور ت اس سے معذورو قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کرسکے .کیونکہ زمانۂ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے . چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگرمتعدد ازواج ہونگی تو سلسلۂ تولید جاری رہ سکتا ہے کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا . کیونکہ مرد کے لیے ایسے مواقع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلۂ تولید میں روک بن سکیں .اس لیے خدا وند عالم نے مردوں کے لیے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے، اور عورتوں کے لیے یہ صورت جائز نہیں رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں .کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہوسکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی .

حضرت نے فرمایا کہ مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کر ے گا تو اولاد بہرصورت اسی کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کو ن کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہوسکے گی .اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا .کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہوگا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہوکر رہ جائے گا .

125. وقال (عليه السلام): لاََنْسُبَنَّ الاِْسْلاَمَ نِسْبَةً لَمْ يَنسُبْهَا أَحَدٌ قَبْلِي: الاِْسْلاَمُ هُوَ التَّسْلِيمُ، وَالتَّسْلِيمُ هُوَ الْيَقِينُ، وَالْيَقِينُ هُوَ التَّصْدِيقُ، وَالتَّصْدِيقُ هُوَ الاِْقْرَارُ، وَالاِْقْرَارُ هُوَ الاَْدَاءُ، وَالاَْدَاءُ هَوَ الْعَمَلُ.

125. میں اسلام کی ایسی صحیح تعریف بیان کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے بیان نہیں کی .اسلام سر تسلیم خم کرنا ہے، اور سر تسلیم جھکانا یقین ہے، اور یقین تصدیق ہے، اور تصدیق اعتراف فرض کی بجاآوری ہے، اور فرض کی بجاآوری عمل ہے .

126. وقال (عليه السلام): عَجِبْتُ لِلْبَخِيلِ يَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِي مِنْهُ هَرَبَ، وَيَفُوتُهُ الْغِنَى الَّذِى إِيَّاهُ طَلَبَ، فَيَعِيشُ فِي الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ، وَيُحَاسَبُ فِي الاْخِرَةِ حِسَابَ الاَْغْنِيَاءِ. وَعَجِبْتُ لِلْمُتَكَبِّرِ الَّذِي كَانَ بِالامْسِ نُطْفَةً، وَيَكُونُ غَداً جِيفَةً. وَعَجِبْتُ لِمَنْ شَكَّ فِي اللهِ، وَهُوَ يَرَى خَلْقَ اللهِ. وَعَجِبْتُ لِمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ، وهُوَ يَرَى الْمَوْتَى. وَعَجِبْتُ لِمَن أَنْكَرَ النَّشْأَةَ الاُْخْرَى، وَهُوَ يَرَى النَّشْأَةَ الاُْولَى. وَعَجِبْتُ لِعَامِر دَارَ الْفَنَاءِ، وَتَارِك دَارَ الْبَقَاءِ !!!

126. مجھے تعجب ہوتا ہے بخیل پر کہ وہ جس فقرو ناداری سے بھاگنا چاہتا ہے، اس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور جس ثروت و خوش حالی کا طالب ہوتا ہے وہی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے وہ دنیا میں فقیروں کی سی زندگی بسر کرتا ہے اورآخرت میں دولت مندوں کا سا اس سے محاسبہ ہوگا، اور مجھے تعجب ہوتا ہے .متکبر و مغرور پر کہ جو کل ایک نطفہ تھا، اور کل کو مردار ہوگا .اور مجھے تعجب ہے اس پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات کو دیکھتا ہے اورپھر اس کے وجود میں شک کرتا ہے اور تعجب ہے اس پر کہ جو مرنے والوں کو دیکھتا ہے اور پھر موت کو بھولے ہوئے ہے .اور تعجب ہے اس پر کہ جو پہلی پیدائش کو دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار کرتاہے اور تعجب ہے اس پر جو سرائے فانی کو آباد کرتا ہے اور منزل جاودانی کو چھوڑ دیتا ہے .

 

127. وقال (عليه السلام): مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ، وَلاَ حَاجَةَ فِيمَنْ لَيْسَ للهِ فِي مَالِہ وَنَفسِہ نَصِيبٌ.

127. جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے، وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اللہ کا کچھ حصہ نہ ہو اللہ کو ایسے کی کوئی ضرورت نہیں .

 

128. وقال (عليه السلام): تَوَقَّوا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِهِ، وَتَلَقَّوْهُ فِي آخِرِهِ، فَإِنَّهُ يَفْعَلُ فِي الاَْبْدَانِ كَفِعْلِهِ فِي الاَْشْجَارِ، أَوَّلُهُ يُحْرِقُ وَآخِرُهُ يُورقُ.

128. شروع سردی میں سردی سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کاخیر مقدم کرو، کیونکہ سردی جسموں میں وہی کرتی ہے، جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائی میں درختوں کو جھلس دیتی ہے، اور انتہا میں سرسبز و شاداب کرتی ہے.

موسم خزاں میں سردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میں انحراف پیدا ہوجاتا ہے، اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایات پیدا ہوجاتی ھیں. وجہ یہ ہوتی ہے کہ بدن گرمی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں کہ ناگاہ سردی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے دماغ کے مسامات سکڑجاتے ہیں، اور مزاج میں برودت و یَبُوست بڑھ جاتی ہے چنانچہ گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا اسی لیے مضر ہے کہ گرم پانی سے مسامات کھل چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پانی کے اثرات کو فوراًقبول کرلیتے ہیں اور نتیجہ میں حرارت غریزی کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے بہار کی معتدل سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی، بلکہ سردی کا زور ٹوٹنے سے بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے نشوونما میں قوت آتی ہے، حرارت غریری ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے .

اسی طرح عالم نباتات پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میں برودت و یَبُوست کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی افسردہ ہو جاتی ہے، چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے اور بار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں .

 

129. وقال (عليه السلام): عِظَمُ الخالِقِ عِنْدَكَ يُصَغِّرُ الْـمَخْلُوقَ فِي عَيْنِكَ.

129. اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کردے.

 

130. وقال (عليه السلام) وقد رجع من صفين، فأَشرف على القبور بظاهر الكوفة:

يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ، وَالْـمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ، وَالْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ. يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ، يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ، يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ، يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ، وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لاَحِقٌ. أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ، وَأَمَّا الاَْزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ، وَأَمَّا الاَْمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ. هذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا، فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ؟

ثم التفت إِلى أَصحابه فقال: أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلاَمِ لاََخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى ۔

130. صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ سے باہر قبرستان پر نظر پڑی تو فرمایا:

اے وحشت افزا گھروں، اجڑے مکانوں اور اندھیری قبروں کے رہنے والو!اے خاک نشینو !اے عالم غربت کے ساکنوں اے تنہائی اور الجھن میں بسر کرنے والو !تم تیز رو ہو جو ہم سے آگے بڑھ گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پر چل کر تم سے ملنا چاہتے ہیں .اب صورت یہ ہے کہ گھروں میں دوسرے بس گئے ہیں بیویوں سے اوروں نے نکاح کر لیے ہیں اور تمہارا مال و اسباب تقسیم ہوچکا ہے یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے .اب تم کہو کہ تمہارے یہاں کی کیا خبر ہے.

(پھر حضرت (ع) اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا) اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے .تو یہ تمہیں بتائیں گے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے .

 

131. وقال (عليه السلام) وقد سمع رجلاً يذم الدنيا: أَيُّهَا الذَّامُّ للدُّنْيَا، الْمُغْتَرُّ بِغُرُرِهَا، الْـمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا! أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا، أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ؟ مَتَى اسْتَهْوَتْكَ، أَمْ مَتى غَرَّتْكَ؟ أَبِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى، أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى؟ كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّيْكَ؟ وَكَمْ مَرَّضْتَ بِيَدَيْكَ؟ تَبْغِي لَهُمُ الشِّفَاءَ، وَتَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الاَْطِبَّاءَ، (عَدَاة لَا یُغنی عَنھُم دَواؤُکَ ولا یجدی علیھِم بُکاءُک) لَمْ يَنْفَعْ أَحَدَهُمْ إِشْفَاقُكَ، وَلَمْ تُسْعَفْ بِطِلْبَتِكَ، وَلَمْ تَدْفَعْ عَنْهُ بِقُوَّتِكَ! وقَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِهِ الدُّنْيَا نَفْسَكَ، وَبِمَصْرَعِهِ مَصْرَعَكَ. إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْق لِمَنْ صَدَقَهَا، وَدَارُ عَافِيَة لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا، وَدَارُ غِنىً لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا، وَدَارُ مَوْعِظَة لِمَنْ اتَّعَظَ بِهَا، مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللهِ، وَمُصَلَّى مَلاَئِكَةِ اللهِ، وَمَهْبِطُ وَحْيِ اللهِ، وَمَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللهِ، اكْتَسَبُوا فِيهَاالرَّحْمَةَ، وَرَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ. فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وَقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا، وَنَادَتْ بِفِراقِهَا، وَنَعَتْ نَفْسَهَا وَأَهْلَهَا، فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلاَئِهَا الْبَلاَءَ، وَشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ؟! رَاحَتْ بِعَافِيَة، وَابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَة، ترغِيباً وَتَرْهِيباً، وَتَخْوِيفاً وَتَحْذِيراً، فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ، وَحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَذَكَرُوا، وَحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا، وَوَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا.

131. ایک شخص کو دنیا کی برائی کرتے ہوئے سنا تو فرمایا !اے دنیا کی برائی کرنے والے! اس کے فریب میں مبتلا ہونے والے! اور غلط سلط باتوں کے دھوکے میں آنے والے !تم اس پر گرویدہ بھی ہوتے ہو، اور پھر اس کی مذمت بھی کرتے ہو .کیا تم دنیا کو مجرم ٹھہرانے کا حق رکھتے ہو؟یا وہ تمہیں مجرم ٹھہرائے تو حق بجانب ہے ؟دنیا نے کب تمہارے ہوش وحواس سلب کئے اور کس بات سے فریب دیا ؟کیا ہلاکت و کہنگی سے تمہارے باپ دادا کے بے جان ہو کر گر نے سے یا مٹی کے نیچے تمہاری ماؤں کی خواب گاہوں سے ؟کتنی تم نے بیماروں کی دیکھ بھال کی، اور کتنی دفعہ خود تیمار داری کی اس صبح کو کہ جب نہ دوا کارگر ہوتی نظر آتی تھی، اور نہ تمہارا رونا دھونا ان کے لیے کچھ مفید تھا . تم ان کے لیے شفا کے خواہشمند تھے اور طبیبوں سے دوا دارو پوچھتے پھرتے تھے ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی تمہارا اندیشہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور تمہارا اصل مقصد حاصل نہ ہوا اوراپنی چارہ سازی سے تم موت کو اس بیمار سے نہ ہٹا سکے تو دنیا نے تو اس کے پردہ میں خود تمہارا انجام اور اس کے ہلاک ہونے سے خود تمہاری ہلاکت کا نقشہ تمہیں دکھایا دیا بلاشبہ دنیا اس شخص کے لیے جو باور کرے، سچائی کا گھر ہے اور جو اس کی ان باتوں کو سمجھے اس کے لیے امن و عافیت کی منزل ہے اور جو اس سے زادراہ حاصل کرلے، اس کے لیے دولتمندی کی منزل ہے اور جو اس سے نصیحت حاصل کرے، اس کے لیے وعظ ونصیحت کا محل ہے .وہ دوستان خدا کے لیے عبادت کی جگہ، اللہ کے فرشتوں کے لیے نماز پڑھنے کا مقام وحی الٰہی کی منزل اور اولیاء اللہ کی تجارت گاہ ہے انہوں نے اس میں فضل و رحمت کا سودا کیا اور اس میں رہتے ہوئے جنت کو فائدہ میں حاصل کیا تو اب کون ہے جو دنیا کی برائی کرے، جب کہ اس نے اپنے جدا ہونے کی اطلاع دے دی ہے اور اپنی علٰحدگی کا اعلان کردیا ھے اور اپنے بسنے والوں کی موت کی خبر دے دی ھے۔ چنانچہ اس نے اپنی ابتلاء سے ابتلائی کا پتہ دیا ہے اور اپنی مسرتوں سے آخرت کی مسرتوں کا شوق دلایا ہے، وہ رغبت دلانے اور ڈرانے خوفزدہ کرنے اور متنبہ کرنے کے لیے شام کو امن و عافیت کا اور صبح کو درد و اندوہ کا پیغام لے کر آتی ہے توجن لوگوں نے شرمسار ہوکر صبح کی وہ اس کی برائی کرنے لگے .اور دوسرے لوگ قیامت کے دن اس کی تعریف کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کی یاد دلائی تو انہو ں نے یاد رکھا اور اس نے انہیں خبر دی تو انہوں نے تصدیق کی اور اس نے انہیں پند و نصیحت کی تو انہوں نے نصیحت حاصل کی .

ہر متکلم و خطیب کی زبان منجے ہوئے موضوع ھی پر زور بیان دکھایاکرتی ہے اور اگر سے موضوع سخن بدلنا پڑے تو نہ ذہن کام کرے گا اور نہ زبان کی گویائی ساتھ دے گی، مگر جس کے ذہن میں صلاحیت تصرف اور دماغ میں قوتِ فکر ہو، وہ جس طرح چاہے کلام کو گردش دے سکتا ہے اور جس موضوع پر چاہے «قادر الکلامی» کے جو ہر دکھاسکتا ہے .چنانچہ وہ زبان جو ہمیشہ دنیا کی مذمت اور اس کی فریب کاریوں کو بے نقاب کرنے میں کھلتی تھی جب اس کی مدح میں کھلتی ہے تو وہی قدرت کلام و قوت استدلال نظر آتی ہے جو اس زبان کا طرہ امتیاز ہے اور پھر الفاظ کو توصیفی سانچہ میں ڈھالنے سے نظریہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور راہوں کے الگ الگ ہونے کے باوجود منزلۂ مقصود ایک ہی رہتی ہے .

 

132. وقال (عليه السلام): إِنَّ لله مَلَكاً يُنَادِي فِي كُلِّ يَوْم: لِدُوا لِلْمَوْتِ، وَاجْمَعُوا لِلْفَنَاءِ، وَابْنُوا لِلْخَرَابِ.

132. اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لیے اولاد پیدا کرو، برباد ہونے کے لیے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لیے عمارتیں کھڑی کرو .

 

133. وقال (عليه السلام): الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ إلى دَارُ مَقَرٍّ، وَالنَّاسُ فِيهَا رَجُلاَنِ: رَجُلٌ بَاعَ فیھَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا، وَرَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا.

133. «دنیا» اصل منزل قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے .اس میں دو قسم کے لوگ ہیں :ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خریدکرآزاد کردیا.

 

134. وقال (عليه السلام): لاَ يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاهُ فِي ثَلاَث: فِي نَكْبَتِهِ، وَغَيْبَتِهِ، وَوَفَاتِهِ.

134. دوست اس وقت تک دوست نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی تین موقعوں پر نہ کرے، مصیبت کے موقع پر اس کے پس پشت اور اس کے مرنے کے بعد .

 

135. وقال (عليه السلام): مَنْ أُعْطِيَ أَرْبعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً: مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الاِْجَابَةَ، وَمَنْ أُعْطِيَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْقَبُولَ، وَمَنْ أُعْطِيَ الاِْسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ، وَمَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ … وتصديقُ ذَلكَ في كتَابِ اللهِ، قَالَ اللهُ عزوجل في الدّعَاء: (ادْعُونِي أسْتَجِبْ لَكُمْ)، وقال في الاستغفار: (وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمّ يَسْتَغْفِرِ اللهَ يَجِدِ اللهَ غَفُوراً رَحِيماً)، وقال في الشكر: (لَئِنْ شَكَرْتُمْ لاَزِيدَنّكُمْ)، وقال في التوبة: (إنّما التّوْبَةُ عَلَى اللهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السّوءَ بِجَهَالَة ثُم يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيب فأُولَئِكَ يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ عَلِيماً حَكِيماً)

135. جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا، جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا . جسے توبہ کی توفیق ہو، وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا .اور جوشکرکرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے .چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا .اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے .جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا .اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں) اضافہ کروں گا .اور توبہ کے لیے فرمایا ہے .اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والاہے .

 

136. وقال (عليه السلام): الصَّلاَةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيّ، وَالْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيف، وَلِكُلِّ شَيْء زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْبَدَنِ الصِّيَامُ، وَجِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ.

136. نماز ہر پرہیز گار کے لیے باعث تقرب ہے اور حج ہر ضعیف و ناتواں کا جہاد ہے .ہر چیز کی زکوٰة ہوتی ہے، اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے اور عورت کا جہاد شوہر سے حسن معاشرت ہے .

 

137. وقال (عليه السلام): اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ،

137. صدقہ کے ذریعہ روزی طلب کرو

138۔ و قال علیہ السلام مَنْ أَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ.

138۔ جسے عوض کے ملنے کا یقین ہو وہ عطیہ دینے میں دریا دلی دکھاتا ہے .

139. وقال (عليه السلام): تَنْزِلُ الْمَعُونَةُ عَلَىٰ قَدْرِ الْمَؤُونَةِ.

139. جتنا خرچ ہو .اتنی ہی امداد ملتی ہے .

 

140. وقال (عليه السلام): مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ.

140. جو میانہ روی اختیار کرتاہے وہ محتاج نہیں ہوتا .

 

141. وقال (عليه السلام): قِلَّةُ الْعِيَالِ أَحَدُ الْيَسَارَيْنِ.

141. متعلقین کی کمی دو قسموں میں سے ایک قسم کی آسودگی ہے

142. وَالتَّوَدُّدُ نِصْفُ الْعَقْلِ،

142. میل محبت پیدا کر نا عقل کا نصف حصہ ہے

143. وَالْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ.

143. غم آدھا بڑھاپا ہے .

 

144. وقال (عليه السلام): يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ، وَمَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ مُصِيبَتِهِ حَبِطَ عَمَلُہ.

144. مصیبت کے اندازہ پر (اللہ کی طرف سے) صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے .جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت جاتا ہے .

 

145. وقال (عليه السلام): كَمْ مِنْ صَائِم لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلاَّ (الجوع وَ) الظَّمَأُ، وَكَمْ مِنْ قَائِم لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلاَّ السَّہرُ وَ الْعَنَاءُ، حَبَّذَا نَوْمُ الاَْكْيَاسِ وَإِفْطَارُهُمْ ۔

145. بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا .زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے.

 

146. وقال (عليه السلام): سُوسُوا إِيمَانَكُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ، وَادْفَعُوا أَمْواجَ الْبَلاَءِ بِالدُّعَاءِ.

146. صدقہ سے اپنے ایمان کی اور زکوٰة سے اپنے مال کی حفاظت کرو، اور دعا سے مصیبت و ابتلاء کی لہروں کو دور کرو .

 

147. ومن كلام له (عليه السلام) لكُمَيْل بن زياد النخعي:

قال كُمَيْل بن زياد: أخذ بيدي أميرالمؤمنين علي بن أبي طالب(عليه السلام)، فأخرجني إلى الجبّان، فلمّا أصحر تنفّس الصّعَدَاء، ثمّ قال:

يَا كُمَيْل بْن زِيَاد، إِنَّ هذهِ الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ، فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا، فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ:

النَّاسُ ثَلاَثَةٌ: فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ، وَمُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاة، وَهَمَجٌ رَعَاعٌ، أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِق، يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيح، لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ، وَلَمْ يَلْجَؤُوا إِلَى رُكْن وَثِيق.

يَا كُمَيْلُ، الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وَأَنْتَ تَحْرُسُ المَالَ، وَالْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَالْعِلْمُ يَزْكُو عَلَى الاِْنْفَاقِ، وَصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِهِ.

يَا كُمَيْل بْن زِيَاد، مَعْرِفَةُ الَعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِهِ، بِهِ يَكْسِبُ الاِْنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِهِ، وَجَمِيلَ الاُْحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَالْعِلْمُ حَاكِمٌ، وَالْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْهِ.

يَا كُمَيْل ، هَلَكَ خُزَّانُ الاَْمْوَالِ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَالْعَُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ: أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ،و أَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ. هَا إِنَّ هاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً (وَأَشَارَ إِلى صَدره) لَوْ أَصَبْتُ لَهُ حَمَلَةً! بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُون عَلَيْهِ، مُسْتَعْمِلاً آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا، وَمُسْتَظْهِراً بِنِعَمَ اللهِ عَلَى عِبادِهِ، وَبِحُجَجِهِ عَلَى أَوْلِيَائِهِ، أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ، لاَ بَصِيرَةَ لَهُ فِي أَحْنَائِهِ، يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِهِ لاَِوَّلِ عَارِض مِنْ شُبْهَة. أَلاَ لاَ ذَا وَلاَ ذَاكَ! أَوْ مَنْهُوماً بِالَّلذَّةِ، سَلِسَ الْقِيَادِ للشَّهْوَةِ، أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ وَالاِْدِّخَارِ، لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْء، أَقْرَبُ شَيْء شَبَهاً بِهِمَا الاَْنَعَامُ السَّائِمَةُ! كَذلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيهِ.

اللَّهُمَّ بَلَى! لاَ تَخْلُو الاَْرْضُ مِنْ قَائِم لله بِحُجَّة، إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً، أوْ خَائِفاً مَغْمُوراً، لِئَلاَّ تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَبَيِّنَاتُهُ.

وَكَمْ ذَا وَأَيْنَ أُولئِكَ؟ أُولئِكَ ـ وَاللَّهِ ـ الاَْقَلُّونَ عَدَداً، وَالاَْعْظَمُونَ عند اللہ قَدْراً، يَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهُ وَبَيِّنَاتِهِ، حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ، وَيَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ، هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ، وَبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ، وَاسْتَلاَنُوا مَا اسْتَوْعَرَهُ الْمُتْرَفُونَ، وَأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْهُ الْجَاهِلُونَ، وَصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَان أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْـمَحَلِّ الاَْعْلَىٰ، أُولئِكَ خُلَفَاءُ اللهِ فِي أَرْضِهِ، وَالدُّعَاةُ إِلَى دِينِهِ، آهِ آهِ شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ! انْصِرِفْ (یَاکُمیلُ) إذَا شِئْتَ.

147. کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ :

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبر ستان کی طرف لے چلے جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی .پھر فرمایا:

اے کمیل! یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ کرنے والا ہو .لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا .

دیکھو!تین قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہولیتا ہے اور ہر ہو اکے رخ پر مڑ جاتا ہے .نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیا کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی .

اے کمیل! یاد رکھو,کہ علم مال سے بہتر ہے (کیونکہ)علم تمہاری کرتا ہے اورمال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اورمال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہوجاتے ہیں .

اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے .یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم .

اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں، بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں .مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں (اس کے بعد حضرت نے اپنے سینہ اقدس کی طر ف اشارہ کیا اورفرمایا) دیکھو!یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے کا ش اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے، ہاں ملا، کوئی تو,یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جودنیا کے لیے دین کو آلۂ کار بنا نے والاہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے .یا جو ارباب حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے، بس ادھر ذرا سا شبہہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں .اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہوجاتا ہے

ہاں! مگر زمین ایسے فرد خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں، اور اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کے لحاظ سے بہت بلند .خدا وند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے .یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کردیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انہیں بودیں .علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے .وہ یقین و اعتماد کی روح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا، اپنے لیے سہل و آسان سمجھ لیا ہے اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں .وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیامیں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملائی اعلیٰ سے وابستہ ہیں یہی لوگ تو زمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں .ہائے ان کی دید کے لیے میرے شوق کی فراوانی (پھر حضرت نے کمیل سے فرمایا)اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا )اب جس وقت چاہو واپس جاؤ.

کمیل ابن زیاد نخعی رحمتہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیرالمومنین کے خواص اصحاب میں سے تھے، علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زہد و ورع میں امتیاز خاص کے حامل تھے .حضرت کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیئت کے عامل رہے 83 ھجری میں 90 برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے .

 

148. وقال (عليه السلام): الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِهِ.

148. انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہو ا ہے .

مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہوجاتا ہے . کیونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے .لہٰذا جب تک وہ خامو ش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب اس کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایاں ہوجاتا ہے .

مرد پنہاں است در زیر زبان خويشتن قیمت و قدرش ندانی تا نیايد در سخن

 

149. وقال (عليه السلام): هَلَكَ امْرُؤُ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَهُ.

149. جو شخص اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے .

 

150. وقال (عليه السلام) لرجل سأَله أَن يعظه:

لاَ تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الاْخِرَةَ بِغَيْرِ الْعَمَلِ، وَيُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الاَْمَلِ، يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ، وَيَعْمَلُ فِيهَا بَعَمَلِ الرَّاغِبِينَ، إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ، وَإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ، يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ، وَيَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيَما بَقِيَ، يَنْهَى وَلاَ يَنْتَهِي، وَيَأْمُرُ بِمَا لاَ يَأْتِي، يُحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلاَ يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ، وَيُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وَهُوَ أَحَدُهُمْ، يَكْرَهُ الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِهِ، وَيُقِيمُ عَلَىٰ مَا يَكْرَهُ الْمَوْتَ لَهُ، إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً، وَإِنْ صَحَّ أَمِنَ لاَهِياً، يُعْجَبُ بِنَفْسِهِ إِذَا عوفِيَ، وَيَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ، إِنْ أَصَابَهُ بَلاَءٌ دَعَا مُضْطَرّاً، وإِنْ نَالَهُ رَخَاءُ أَعْرَضَ مُغْتَرّاً، تَغْلِبُهُ نَفْسُهُ عَلَى مَا يَظُنُّ، وَلاَ يَغْلِبُهَا عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ، يَخَافُ عَلَى غْيَرِهِ بِأَدْنىَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَيَرْجُو لِنَفْسِهِ بِأَكْثَرَ مِنْ عَمَلِهِ، إِنْ اسْتَغْنَى بَطِرَ وَفُتِنَ، وَإِنِ افْتقَرَ قَنَطَ وَوَهَنَ، يُقَصِّرُ إِذَا عَمِلَ، وَيُبَالِغُ إِذَا سَأَلَ، إِنْ عَرَضَتْ لَهُ شَهْوَةٌ أَسْلَفَ الْمَعْصِيَةَ وَسَوَّفَ التَّوْبَةَ، وَإِنْ عَرَتْهُ مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَائِطِ الْمِلَّةِ، يَصِفُ الْعِبْرَةَ وَلاَ يَعْتَبرُ، وَيُبَالِغُ فِي الْمَوْعِظَةِ وَلاَ يَتَّعِظُ، فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ، وَمِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ، يُنَافِسُ فِيَما يَفْنَى، وَيُسَامِحُ فِيَما يَبْقَى، يَرَى الْغُنْمَ مغْرَماً، وَالْغُرْمَ مَغْنَماً، يخشَى الْمَوْتَ وَلاَ يُبَادِرُ الْفوْتَ، يَسْتَعْظِمُ مِنْ مَعْصِيَةِ غَيْرِهِ مَا يَسْتَقِلُّ أَكْثَرَ مِنْهُ مِنْ نَفْسِهِ، وَيَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِهِ مَا يَحْقِرُهُ مِنْ طَاعَةِ غَيْرِهِ، فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ، وَلِنَفْسِهِ مُدَاهِنٌ، اللَّهْوُ مَعَ الاَْغْنِيَاءِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَاءِ، يَحْكُمُ عَلَى غَيْرِهِ لِنَفْسِهِ وَلاَ يَحْكُمُ عَلَيْهَا لِغَيْرِهِ، يُرْشِدُ غَيْرَهُ يُغْوِي نَفْسَهُ، فَهُوَ يُطَاعُ وَيَعْصِي، وَيَسْتَوْفِي وَلا يُوفِي، وَيَخْشَى الْخَلْقَ فِي غَيْرِ رَبِّهِ، وَلاَ يَخْشَى رَبَّهُ فِي خَلْقِهِ.

قال الرضی: ولو لم يكن في هذا الكتاب إلاّ هذا الكلام لكفى به موعظةً ناجعةً، وحكمةً بالغةً، وبصيرةً لمبصر و، عبرةً لناظر مفكّر.

150. ایک شخص نے آپ سے پندو موعظت کی درخواست کی، تو فرمایا:

تم کوان لوگوں میں سے نہ ہونا چاہیئے کہ جو عمل کے بغیر حسن انجام کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں .اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے جو انہیں ملاہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجانہیں لاتے نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں .اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں . اور تندرست ھوتے ھیں تو مطمئن ھوکر کھیل کود میں پڑ جاتے ھیں جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تواترانے لگتے ہیں .اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے .جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں .ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبالیتے .دوسروں کے لیے ان کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں .اگر مالدار ہوجاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو ناامید ہوجاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں .جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پرآتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں .اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں، اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں، اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں .عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں .مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں .فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں وہ نفع کو نقصان اور نقصا ن کو نفع خیال کرتے ہیں .موت سے ڈرتے ہیں .مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے .دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں .اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں .لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں .دولتمندوں کے ساتھ طرب ونشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے اپنے حق میں دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں .اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگا تے ہیں وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے .وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے .

سید رضی فرماتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ اور موثر حکمت اور چشم بینا رکھنے والے کے لیے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کے لیے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا .

151. وقال (عليه السلام): لِكُلِّ امْرِىء عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ أَوْ مُرَّةٌ.

151. ہر شخص کا ایک انجام ہے۔ اب خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ۔

152. وقال (عليه السلام): لِكُلِّ مُقْبِل إِدْبَارٌ، وَمَا أَدْبَرَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ.

152. ہر آنے والے کے لیے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

153. وقال (عليه السلام): لاَ يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وَإِنْ طَالَ بِهِ الزَّمَانُ.

153. صبر کرنے والا ظفرو کامرانی سے محروم نہیں ہوتا، چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے.

154. وقال (عليه السلام): الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْم كَالدَّاخِلِ فِيهِ مَعَهُمْ، وَعَلَى كُلِّ دَاخِل فِي بَاطِل إِثْمَانِ: إِثْمُ الْعَمَلِ بِهِ، وَإِثْمُ الرِّضَىٰ بِهِ.

154. کسی جماعت کے فعل پر رضا مند ہونے والا ایسا ہے جیسے اس کے کام میں شریک ہو۔ اور غلط کام میں شریک ہو نے والے پر دو گناہ ہیں۔ ایک اس پر عمل کرنے کا اور ایک اس پر رضا مند ہونے کا۔

155. وقال (عليه السلام): اعْتَصِمُوا بِالذِّمَمِ فِي أَوْتَادِهَا.

155. عہد و پیمان کی ذمہ داریوں کو ان سے وابستہ کرو جو میخوں کے ایسے (مضبوط) ہوں۔

156. وقال (عليه السلام): عَلَيْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لاَ تُعْذَرُونَ بِجَهَالَتِهِ.

156. تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔

خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیلی و تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام (ع) اپنے اپنے دور میں تعلیمات الہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب ھے اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قراردیا جاسکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کے لیے گنجائش انکار نہیں ہوسکتی چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة

جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔

ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسمو ع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:

من جھل امامة علی علیہ السلام و انکر صحتھا و لزومھا فھو عند اصحابنا مخلد فی النار لا ینفعہ صوم و لا صلواة لان المعرفة بذالک من الاصول الکلیة ھی ارکان الدین ولکنا لا نسمی منکر امامتہ کافرا بل نسمیہ فاسقا و خارجیا و مارقا و نحو ذالک والشیعة تسمیہ کافرا فھذا ھو الغرق بیننا و بینھم وھو فی اللفظ لا فی المعنی۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۱۳۱۹۔ )

جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے.نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے بلکہ اسے فاسق، خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فر ق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے.

157. وقال (عليه السلام): قَدْ بُصّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ، وَقَدْ هُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ، وأُسْمِعْتُمْ إِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

157. اگر تم دیکھو، تو تمہیں دکھایا جاچکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جاچکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جاچکا ہے۔

158. وقال (عليه السلام): عَاتِبْ أَخَاكَ بِالاِْحْسَانِ إِلَيْهِ، وَارْدُدْ شَرَّهُ بِالاِْنْعَامِ عَلَيْهِ.

158. اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔

اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے، تواس سے دشمنی و نزاع کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی (علیہ السلام) ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپ کے قریب آکر انہیں برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوا توآپ (ع) نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ پھر تم میرے ساتھ چلو میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا، اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی، تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی کی قدر و منزلت اس کی نگاہ میں نہ تھی۔

اگر مردی احسن الی من اساء

159. وقال (عليه السلام): مَنْ وَضَعَ نَفْسَهُ مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ فَلاَ يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِهِ الظَّنَّ.

159. جوشخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو.

160. وقال (عليه السلام): مَنْ مَلَكَ استأْثَرَ۔

160. جو اقتدار حاصل کرلیتا ہے

116۔ و قال علیہ السلام: مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِهِ هَلَكَ، وَمَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا۔ 116۔ جانبدار ی کرنے ہی لگتا ہے۔ جو خود رائی سے کام لے گا، وہ تباہ و برباد ہو گا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

216۔ و قال علیہ السلام: مَنْ كَتَمَ سِرَّهُ كَانَتِ الْخِيرَةُ بِيَدِهِ.

جو اپنے راز کو چھپائے رہے گا اسے پورا قابو رہے گا۔

316. وقال (عليه السلام): الْفَقْرُ الْمَوْتُ الاَْكْبَرُ.

316. فقیری سب سے بڑی موت ہے۔

416. وقال (عليه السلام): مَنْ قَضَى حَقَّ مَنْ لاَ يَقْضِي حَقَّهُ فَقَدْ عَبَدَهُ.

416. جو ایسے کا حق ادا کرے کہ جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو، تو وہ اس کی پرستش کرتا ہے۔

165. وقال (عليه السلام): لاَ طَاعَةَ لَِمخْلُوق فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.

165. خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔

616. وقال (عليه السلام): لاَ يُعَابُ الْمَرْءُ بِتَأْخِيرِ حَقِّهِ، إِنَّمَا يُعَابُ مَنْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَهُ.

166. اگر کوئی شخص اپنے حق میں دیر کرے تو اس پر عیب نہیں لگایا جاسکتا۔ بلکہ عیب کی بات یہ ہے کہ انسان دوسرے کے حق پر چھاپا مارے۔

167. وقال (عليه السلام): الاِْعْجَابُ يَمْنَعُ مِنَ الاْزْدِيَادَ.

167. خود پسندی ترقی سے مانع ہوتی ہے.

جو شخص جویائے کمال ہوتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ابھی وہ کمال سے عاری ہے، اس سے منزل کمال پر فائز ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن جو شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ وہ تمام و کمال ترقی کے مدارج طے کرچکا ہے وہ حصول کمال کے لیے سعی و طلب کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ بزعم خود کمال کی تمام منزلیں ختم کرچکاہے اب اسے کوئی منزل نظرہی نہیں آتی کہ اس کے لیے تگ ودو کرے چنانچہ یہ خود پسند و برخود غلط انسان ہمیشہ کمال سے محروم ہی رہے گا۔ اور یہ خود پسندی اس کے لیے ترقی کی راہیں مسدود کردے گی۔

168. وقال (عليه السلام): الاَْمْرُ قَرِيبٌ وَالاْصْطِحَابُ قَلِيلٌ.

168. آخرت کا مرحلہ قریب اور (دنیا میں) باہمی رفاقت کی مدت کم ہے۔

169. وقال (عليه السلام): قَدْ أَضَاءَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ.

169. آنکھ والے کے لیے صبح روشن ہوچکی ہے۔

170. وقال (عليه السلام): تَرْكُ الذَّنْبِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ التَّوْبَةِ.

170. ترک گناہ کی منزل بعد میں توبہ مانگنے سے آسان ہے۔

اول مرتبہ میں گناہ سے باز رہنا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا گناہ سے مانوس اور اس کی لذت سے آشنا ہونے کے بعد کیونکہ انسان جس چیز کا خو گر ہوجاتا ہے اس کے بجا لانے میں طبیعت پر بار محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اسے چھوڑنے میں لوہے لگ جاتے ہیں اور جوں جوں عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔ ضمیر کی آواز کمزور پڑجاتی ہے اور توبہ میں دشواریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر دل کو ڈھارس دیتے رہنا کہ »پھر توبہ کر لیں گے «.اکثر بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ابتداء میں گناہ سے دستبردار ہونے میں دشواری محسوس ہورہی ہے تو گناہ کی مدت کو بڑھا لے جانے کے بعد توبہ دشوار تر ہوجائے گی۔

171. وقال (عليه السلام): كَمْ مِنْ أَكْلَة مَنَعَتْ أَكَلاَت!

171. بسا اوقات ایک دفعہ کا کھانا بہت دفعہ کے کھانوں سے مانع ہوجاتا ہے۔

یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی شخص ایک فائدہ کے پیچھے اس طرح کھو جائے کہ اسے دوسرے فائدوں سے ہاتھ اٹھا لینا پڑے جس طرح وہ شخص کہ جو ناموافق طبع یا ضرورت سے زیادہ کھالے تو اسے بہت سے کھانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

172. وقال (عليه السلام): النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

172. لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے نہیں جانتے۔

انسان جس علم وفن سے واقف ہوتا ہے اسے بڑی اہمیت دیتا ہے اور جس علم سے عاری ہوتاہے اسے غیر اہم قرار دے کر اس کی تنقیص و مذمت کرتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس محفل میں اس علم و فن پر گفتگو ہوتی ہے۔ اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سے وہ ایک طرح کی سبکی محسوس کرتا ہے اور یہ سبکی اس کے لیے اذیت کا باعث ہوتی ہے اور انسان جس چیز سے بھی اذیت محسوس کر ے گا اس سے طبعا ًنفرت کرے گا اور اس سے بغض رکھے گا۔ چنانچہ افلاطون سے دریافت کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ نہ جاننے والا جاننے والے سے بغض رکھتا ہے مگر جاننے والا نہ جاننے والے سے بغض و عناد نہیں رکھتا ؟اس نے کہا کہ چونکہ نہ جاننے والا اپنے اندر ایک نقص محسوس کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ جاننے والا اس کی جہالت کی بنا پر اسے حقیر و پست سمجھتا ہوگا جس سے متاثر ہوکر وہ اس سے بغض رکھتا ہے اور جاننے والا اس کی جہالت کے نقص سے بری ہوتا ہے اس لیے وہ یہ تصور نہیں کرتا کہ نہ جاننے والا اسے حقیر سمجھتا ہوگا۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں ہوتی کہ وہ اس سے بغض رکھے۔

173. وقال (عليه السلام): مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوهَ الاْرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَاَ.

173. جو شخص مختلف رایوں کا سامنا کرتا ہے وہ خطا و لغزش کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

174. وقال (عليه السلام): مَن أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لله قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ.

174. جو شخص اللہ کی خاطر سنان غضب تیز کرتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے۔

جو شخص محض اللہ کی خاطر باطل سے ٹکرانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسے خداوند عالم کی طرف سے تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور کمزوری و بے سروسامانی کے باوجود باطل قوتیں اس کے عزم میں تزلزل اور ثبات قدم میں جنبش پیدا نہیں کرسکتیں اور اگر اس کے اقدام میں ذاتی غرض شریک ہو تو اسے بڑی آسانی سے اس کے ارادہ سے باز رکھا جاسکتاہے۔ چنانچہ سید نعمت جز ائری علیہ الرحمہ نے زہر الربیع میں تحریر کیا ہے کہ ایک شخص نے کچھ لوگوں کو ایک درخت کی پرستش کرتے دیکھا تو اُس نے جذبہ دینی سے متاثر ہوکر اس درخت کو کاٹنے کا ارادہ کیا اور جب تیشہ لے کر آگے بڑھا تو شیطان نے اس کا راستہ روکا اور پوچھا کہ کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس درخت کو کاٹناچاہتا ہوں تاکہ لوگ اس مشرکانہ طریق عبادت سے باز رہیں۔ شیطان نے کہا کہ تمہیں اس سے کیا مطلب وہ جانیں اور ان کا کام، مگر وہ اپنے ارادہ پر جما رہا جب شیطان نے دیکھا کہ یہ ایسا کرہی گزرے گا، تواس نے کہا کہ اگر تم واپس چلے جاؤ تو میں تمہیں چار درہم ہر روز دیا کروں گا۔ جو تمہیں بستر کے نیچے سے مل جایا کریں گے یہ سن کر اس کی نیت ڈانواں ڈول ہونے لگی اور کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ تجربہ کرکے دیکھ لو، اگر ایسا نہ ہوا تو درخت کے کاٹنے کا موقع پھر بھی تمہیں مل سکتا ہے۔ چنانچہ وہ لالچ میں آکر پلٹ آیا اور دوسرے دن وہ درہم اسے بستر کے نیچے سے مل گئے۔ مگر دو چار روز کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب وہ پھر طیش میں آیا۔ اور تیشہ لے کر درخت کی طرف بڑھا کہ شیطان نے آگے بڑھ کر کہا کہ اب تمہارے بس میں نہیں کہ تم اسے کاٹ سکو، کیونکہ پہلی دفعہ تم صرف اللہ کی رضامند ی حاصل کرنے کے لیے نکلے تھے اور اب چند پیسوں کی خاطر نکلے ہو۔ لہٰذا تم نے ہاتھ اٹھایا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ بے نیل مرام پلٹ آیا۔

175. وقال (عليه السلام): إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيهِ، فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيهِ أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْهُ.

175. جب کسی امر سے دہشت محسوس کرو تو اس میں پھاند پڑو، اس لیے کہ کھٹکا لگا رہنا اس ضرر سے کہ جس کا خوف ہے، زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔

176. وقال (عليه السلام): آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

176. سر برآوردہ ہونے کا ذریعہ سینہ کی وسعت ہے۔

177. وقال (عليه السلام): ازْجُرِ الْمُسِيءَ بِثوَابِ الْـمُحْسِنِ.

177. بد کار کی سر زنش نیک کو اس کا بدلہ دے کر کرو۔

مقصد یہ ہے کہ اچھوں کو ان کی حسن کارکردگی کا پورا پورا صلہ دینا اور ان کے کارناموں کی بنا پر ان کی قدر افزائی کرنا بروں کو بھی اچھائی کی راہ پر لگاتا ہے۔ اور یہ چیز اخلاقی مواعظ اور تنبیہ و سرزنش سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ انسان طبعاً ان چیزوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن کے نتیجہ میں اسے فوائد حاصل ہوں اور اس کے کانوں میں مدح و تحسین کے ترانے گونجیں۔

178. وقال (عليه السلام): احْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِهِ مِنْ صَدْرِكَ.

178. دوسرے کے سینہ سے کینہ و شرکی جڑ اس طرح کاٹو کہ خود اپنے سینہ سے اسے نکال پھینکو.

اس جملہ کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم کسی کی طرف سے دل میں کینہ رکھو گے تو وہ بھی تمہاری طرف سے کینہ رکھے گا۔ لہٰذا اپنے دل کی کدورتوں کو مٹا کر اس کے دل سے بھی کدورت کو مٹا دو۔ کیونکہ دل دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ جب تمہارے آئینہ دل میں کدورت کا زنگ باقی نہ رہے گا، تو اس کے دل سے بھی کدورت جاتی رہے گی اور اسی لیے انسان دوسرے کے دل کی صفائی کااندازہ اپنے دل کی صفائی سے بآسانی کرلیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے پوچھا کہ تم مجھے کتنا چاہتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا سَل قَلبَکَ "اپنے دل سے پوچھو". یعنی جتنا تم مجھے دوست رکھتے ہو اتنا ہی میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ دوسرے کو برائی سے روکو تو پہلے خود اس برائی سے باز آؤ. اس طرح تمہاری نصیحت دوسرے پر اثر انداز ہوسکتی ہے ورنہ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔

179. وقال (عليه السلام): اللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّأْيَ.

179. ضد اور ہٹ دھرمی صحیح رائے کو دور کردیتی ہے۔

180. وقال (عليه السلام): الطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ.

180. لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

 

181. وقال (عليه السلام): ثَمَرَةُ التَّفْرِيطِ النَّدَامَةُ، وَثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلاَمَةُ.

181. کوتاہی کا نتیجہ شرمندگی اوراحتیاط و دور اندیشی کا نتیجہ سلامتی ہے.

182. وقال (عليه السلام): لاَ خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ، كَمَا أَنَّهُ لاَ خَيْرَ فِي الْقوْلِ بِالْجَهْلِ .

182. حکیمانہ بات سے خاموشی اختیار کرنے میں کوئی بھلائی نہیں جس طرح جہالت کی بات میں کوئی اچھائی نہیں۔

183. وقال (عليه السلام): مَا اخْتَلَفَتْ دَعْوَتَانِ إِلاَّ كَانَتْ إِحْدَاهُمَا ضَلاَلَةً.

183. جب دو مختلف دعوتیں ہوں گی, تو ان میں سے ایک ضرور گمراہی کی دعوت ہوگی۔

184. وقال (عليه السلام): مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ.

184. جب سے مجھے حق دکھایا گیا ہے میں نے اس میں کبھی شک نہیں کیا۔

185. وقال (عليه السلام): مَا كَذَبْتُ وَلاَ كُذِّبْتُ، وَلاَ ضَلَلْتُ وَلاَ ضُلَّ بِي.

185. نہ میں نے جھوٹ کہا ہے نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی ہے نہ میں خود گمراہ ہوا، نہ مجھے گمراہ کیا گیا۔

186. وقال (عليه السلام): لِلظَّالِمِ الْبَادِي غَداً بِكَفِّهِ عَضَّةٌ.

186. ظلم میں پہل کرنے والا کل (ندامت سے) اپنا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹتا ہوگا۔

187. وقال (عليه السلام): الرَّحِيلُ وَشِيكٌ.

187. چل چلاؤقریب ہے۔

188. وقال (عليه السلام): مَنْ أَبْدى صَفْحَتَهُ لِلْحَقِّ هَلَكَ.

188. جو حق سے منہ موڑتا ہے، تباہ ہوجاتا ہے۔

189. وقال (عليه السلام): مَنْ لَمْ يُنْجِهِ الصَّبْرُ أَهْلَكَهُ الْجَزَعُ.

189. جسے صبر رہائی نہیں دلاتا، اسے بے تابی و بے قرار ی ہلاک کر دیتی ہے۔

190. وقال (عليه السلام): وَاعَجَبَاهُ! أَتَكُونُ الْخِلاَفَةَ بِالصَّحَابَةِ وَالْقَرَابَةِ؟

قال الرضی: و روي له شعر في هذا المعنى، وهو:

فَإِنْ كُنْتَ بِالشُّورَى مَلَكْتَ أُمُورَهُمْ * فَكَيْفَ بِهذَا وَالْمُشِيرُونَ غُيَّبُ؟ وَإِنْ كنْتَ بِالْقُرْبَى حَجَجْتَ خَصِيمَهُمْ * فَغَيْرُكَ أَوْلَى بِالنَّبِيِّ وَأَقْرَبُ ۔

190. العجب کیا خلافت کا معیار بس صحابیت اور قرابت ہی ہے؟

(سید رضی کہتے ہیں) کہ اس مضمون کے اشعار بھی حضرت سے مروی ہیں جو یہ ہیں۔ اگر تم شوری کے ذریعہ لوگوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے ہو تو یہ کیسے جب کہ مشورہ دینے کے حقدار افراد غیر حاضر تھے اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے حریف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے علاوہ دوسرا نبی (ص) کا زیادہ حقدار اور ان سے زیادہ قریبی ہے۔

191. وقال (عليه السلام): إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيهِ الْمَنَايَا، وَنَهْبٌ تُبَادِرُهُ الْمَصَائِبُ، وَمَعَ كُلِّ جُرْعَة شَرَقٌ، وَفِي كُلِّ أَكْلَة غَصَصٌ، وَلاَ يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلاَّ بِفِرَاقِ أُخْرَى، وَلاَ يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِهِ إِلاَّ بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِهِ. فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ، وَأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ، فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُوا الْبَقَاءَ وَهذَا اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْء شَرَفاً إِلاَّ أَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا، وَتَفْرِيقِ مَا جَمَعا؟!

191. دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلاء کی غارت گری کی جولانگاہ ہے جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے اور جہاں بندہ ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور اس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اس کی عمر کا کم نہ ہوجائے ہم موت کے مددگار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی امید کر سکتے ہیں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ حملہ آور ہو کر جو بنایا ہے اسے گراتے اور جو یکجا کیا ہے اسے بکھیر تے ہوتے ہیں۔

192. وقال (عليه السلام): يَا ابْنَ آدَمَ مَا كَسَبْتَ فَوْقَ قُوتِكَ، فَأَنْتَ فِيهِ خَازِنٌ لِغَيْرِكَ.

192. اے فرزند آدم(ع)! تو نے اپنی غذا سے جو زیادہ کمایا ہے اس میں دوسرے کا خزانچی ہے۔

193. وقال (عليه السلام): إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وَإِقْبَالاً وَإِدْبَاراً، فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَھوتِھا واقبالِھَا فانَّ القلبَ اذا اُکرِہَ عَمِیَ۔

193. دلوں کے لیے رغبت و میلان، آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان سے اس وقت کام لو جب ان میں خواہش و میلان ہو، کیونکہ دل کو مجبور کرکے کسی کام پر لگایا جائے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

194. وكان(عليه السلام) يقول: مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الاْنْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ؟ أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْهِ فَيُقَالُ لي لَوْ عَفَوْتَ.

194. جب غصہ مجھے آئے تو کب اپنے غصہ کو اتاروں کیا اس وقت کہ جب انتقام نہ لے سکوں اور یہ کہا جائے کہ صبر کیجئے۔ یا اس وقت کہ جب انتقام پر قدرت ہو اور کہا جائے کہ بہتر ہے درگزر کیجئے۔

195. وقال (عليه السلام) وقد مرّ بقذر على مزبلة: هذا مَا بَخِلَ بِهِ الْبَاخِلُونَ. و روي في خبر آخر أَنه قال: هذَا مَا كُنْتُمْ تَتَنَافَسُونَ فِيهِ بِالاَْمْسِ ۔

195. آپ کا گزر ہوا ایک گھورے کی طرف سے جس پر غلاظتیں تھیں۔ فرمایا۔ "یہ وہ ہے جس کے ساتھ بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا". ایک اور روایت میں ہے کہ اس موقع پر آپ نے فرمایا: یہ وہ ہے جس پر تم لوگ کل ایک دوسرے پر رشک کرتے تھے۔

196. وقال (عليه السلام): لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ.

196. تمہار ا وہ مال اکارت نہیں گیا جو تمہارے لیے عبرت و نصیحت کا باعث بن جائے۔

جو شخص مال و دولت کھو کر تجربہ و نصیحت حاصل کرے اسے ضیاع مال کی فکر نہ کر نا چاہیے اور مال کے مقابلہ میں تجربہ کو گراں قدر سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ مال تو یوں بھی ضائع ہوجاتا ہے مگر تجربہ آئندہ کے خطرات سے بچالے جاتا ہے۔ چنانچہ ایک عالم سے جو مالدار ہونے کے بعد فقیر و نادار ہوچکا تھا، پوچھا گیا کہ تمہارا مال کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ میں نے اس سے تجربات خرید لیے ہیں جو میرے لیے مال سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی میں نقصان میں نہیں رہا ۔

197. وقال (عليه السلام): إِنَّ هذِهِ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الاَْبْدَانُ، فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ .

197. یہ دل بھی اسی طرح تھکتے ہیں جس طرح بدن تھکتے ہیں۔ لہٰذا (جب ایسا ہو تو )ان کے لیے لطیف حکیمانہ جملے تلاش کرو

198. وقال (عليه السلام) لما سمع قول الخوارج (لا حكم إِلاَّ للهِ) كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ.

198. جب خوارج کا قول « لاَ حُکمَ اِلاَّ اللّٰہُ » (حکم اللہ سے مخصوص ہے )سنا تو فرمایا :یہ جملہ صحیح ہے مگرجو اس سے مراد لیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔

199. وقال (عليه السلام) في صفة الْغوغاء: هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا غَلَبُوا، وَإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ يُعْرَفُوا. وقيل: بل قال علیہ السلام: هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا ضَرُّوا، وَإِذَا تَفَرَّقُوا نَفَعُوا. فقيل: قد علمنا مضرة اجتماعهم، فما منفعة افتراقهم؟ فقال: يَرْجِعُ أَصْحَابُ الْمِهَنِ إِلَى مِهَنِهِمْ، فَيَنْتَفِعُ النَّاسُ بِهِمْ، كَرُجُوعِ الْبَنَّاءِ إِلَى بِنَائِهِ، وَالنَّسَّاجِ إِلَى مَنْسَجِهِ، وَالْخَبَّازِ إِلَى مَخْبَزِهِ.

199. بازاری آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا: یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہیں۔ جب منتشر ہوں تو پہچانے نہیں جاتے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے فرمایا :کہ جب اکٹھا ہوتے ہیں تو باعث ضرر ہوتے ہیں اور جب منتشر ہوجاتے ہیں تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا کہ پیشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو لوگ ان کے ذریعہ فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے معمار اپنی (زیر تعمیر )عمار ت کی طرف جولاہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے تنور کی طرف.

200. وقال (عليه السلام) و أتي بجان ومعه غوغاءُ فقال لاَ مَرْحَباً بِوُجُوه لاَ تُرى إِلاَّ عِنْدَ كُلِّ سَوْأَة.

200. آپ کے سامنے ایک مجرم لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا توآ پ نے فرمایا :ان چہروں پر پھٹکار کہ جو ہر رسوائی کے موقع پر ہی نظر آتے ہیں۔

201. وقال (عليه السلام): إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَان مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِهِ، فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ، وَإِنَّ الاَْجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ.

201. ہر انسان کے ساتھ دو ہوتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ اس کے اور موت کے درمیان سے ہٹ جاتے ہیں اور بے شک انسان کی مقررہ عمر اس کے لیے ایک مضبوط سپر ہے.

202. وقال (عليه السلام)، وقد قال له طلحة والزبير: نبايعك على أَنّا شركاؤُكَ في هذا الاَمر. لاَ، وَلكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُّوَّةَ وَالاِْسْتَعَانَةِ، وَعَوْنَانِ عَلَى الْعَجْزِ وَالاَْوَدِ.

202.طلحہ وزبیر نے حضرت سے کہا کہ ہم اس شرط پر آپ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں آپ کے ساتھ شریک رہیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تم تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مددگار ہو گے.

203. وقال (عليه السلام): أَيُّهَا النَّاسُ، اتّقُوا اللهَ الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سمِعَ، وَإِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ، وَبَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ (مِنہُ) أَدْرَكَكُمْ، وَإِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ، وَإِنْ نَسِيتُمُوهُ ذَكَرَكُمْ.

203.اے لوگو! اللہ سے ڈرو کہ اگر تم کچھ کہو تو وہ سنتا ہے اور دل میں چھپاکر رکھو تو وہ جان لیتا ہے اس موت کی طر ف بڑھنے کا سرو سامان کرو کہ جس سے بھاگے تو وہ تمہیں پالے گی اور اگر ٹھہرے تو وہ تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر تم اسے بھول بھی جاؤ تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

204. وقال (عليه السلام): لاَ يُزَهِّدَنَّكَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لاَ يَشْكُرُهُ لَكَ، فَقَدْ يَشْكُرُكَ عَلَيْهِ مَنْ لاَ يَسْتَمْتِعُ بِشَيْء مِنْهُ، وَقَدْ تُدْرِكُ مِنْ شُكْرِ الشَّاكِرِ أَكْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْكَافِرُ، وَاللهُ يُحِبُّ الْـمُحْسِنِينَ ۔

204.کسی شخص کا تمہارے حسن سلوک پر شکر گزار نہ ہونا تمہیں نیکی اور بھلائی سے بددل نہ بنا دے اس لیے کہ بسا اوقات تمہاری اس بھلائی کی وہ قدر کرے گا، جس نے اس سے کچھ فائدہ بھی نہیں اٹھایا اور اس ناشکرے نے جتنا تمہاراحق ضائع کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ تم ایک قدردان کی قدر دانی حاصل کرلو گے اور خدا نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

205. وقال (عليه السلام): كُلُّ وِعَاء يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيهِ إِلاَّ وِعَاءَ الْعِلْمِ، فَإِنَّهُ يَتَّسِعُ.

205. ہر ظرف اس سے کہ جو اس میں رکھا جائے تنگ ہوتا جاتا ہے، مگر علم کا ظرف وسیع ہوتا جاتا ہے۔

206. وقال (عليه السلام): أَوَّلُ عِوَضِ الْحَلِيمِ مِنْ حِلْمِهِ أَنَّ النَّاسَ أَنْصَارُهُ عَلَى الْجَاهِلِ.

206. بردبار کو اپنی بردباری کا پہلا عوض یہ ملتا ہے۔ کہ لوگ جہالت دکھانے والے کے خلاف اس کے طرفدار ہوجاتے ہیں۔

207. وقال (عليه السلام): إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ، فَإِنَّهُ قَلَّ مَنْ تَشَبَّهَ بَقَوْم إِلاَّ أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ.

207. اگر تم بردبار نہیں ہو تو بظاہر بردبار بننے کی کوشش کرو، کیونکہ ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی جماعت سے شباہت اختیار کرے اور ان میں سے نہ ہو جائے۔

مطلب یہ ہے کہ اگر انسان طبعاً و برد بار ہو تو اسے برد بار بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس طرح کہ اپنی افتادِ طبیعت کے خلاف حلم و بردباری کا مظاہرہ کرے اگرچہ طبیعت کا رخ موڑنے میں کچھ زحمت محسوس ہوگی مگر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ حلم طبعی خصلت کی صورت اختیار کر لے گا اور پھر تکلف کی حاجت نہ رہے گی کیونکہ عادت رفتہ رفتہ طبیعتِ ثانیہ بن جایا کرتی ہے۔

208. وقال (عليه السلام): مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ رَبِحَ، وَمَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ، وَمَنْ خَافَ أَمِنَ، وَمَنِ اعْتَبَرَ أَبْصَرَ، ومَنْ أَبْصَرَ فَهِمَ، وَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ.

208. جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے جو ڈرتا ہے وہ (عذاب سے )محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وہ بینا ہوجاتا ہے اور جو بینا ہوتا ہے وہ بافہم ہوجاتا ہے اور جو بافہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہوجاتا ہے۔

209. وقال (عليه السلام): لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَىٰ وَلَدِهَا .

و تلا عقيبَ ذلك: (وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَىٰ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الاَْرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ) .

209. یہ دنیا منہ زوری دکھانے کے بعد پھر ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ زمین میں کمزور کردیئے گئے ہیں، ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہی کو (اس زمین کا) مالک بنائیں۔

یہ ارشاد امام منتظر کے متعلق ہے جو سلسلہ امامت کے آخری فرد ہیں۔ ان کے ظہور کے بعد تمام سلطنتیں اور حکومتیں ختم ہوجائیں گی اور »لیظھرہ علی الدین کلہ «کا مکمل نمونہ نگاہوں کے سامنے آجائے گا

 

ہر کسے را دو لتے از آسمان آید پدید دولتِ آلِ علی آخر زمان آید پدید

210. وقال (عليه السلام): اتَّقُوا اللهَ تَقِيَّةَ مَنْ شَمَّرَ تَجْرِيداً، وَجَدَّ تَشْمِيراً، وَكَمَّشَ فِي مَهَل، وَبَادَرَ عَنْ وَجَل،نَظَرَ فِي كَرَّةِ الْمَوْئِلِ، وَعَاقِبَةِ الْمَصْدَرِ، وَمَغَبَّةِ الْمَرْجِعِ.

210. اللہ سے ڈرو اس شخص کے ڈرنے کے مانند جس نے دنیا کی وابستگیوں کو چھوڑ کر دامن گردان لیا اور دامن گردان کر کوشش میں لگ گیا اور اچھائیوں کے لیے اس وقفۂ حیات میں تیز گامی کے ساتھ چلا اور خطروں کے پیش نظر اس نے نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا اور اپنی قرار گاہ اور اپنے اعمال کے نتیجہ اور انجام کار کی منزل پر نظر رکھی۔

211. وقال (عليه السلام): الْجُودُ حَارِسُ الاَْعْرَاضِ، وَالْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيهِ، وَالْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ، وَالسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ، وَالاْسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ وَقَد خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنَى بِرَأْيِهِ، وَالصَّبْرُ يُنَاضِلُ الْحِدْثَانَ، والْجَزَعُ مِنْ أَعْوَانِ الزَّمَانِ، وَأَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى، وَكَمْ مِنْ عَقْل أَسيِر تَحْتَ هَوَى أَمِير، وَمِنَ التَّوْفِيقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ، وَالْموَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ، وَلاَ تَأْمَنَنَّ مَلُولاً.

211. سخاوت عزت آبرو کی پاسبان ہے بُرد باری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کامیابی کی زکوٰةہے، جو غداری کرے اسے بھول جانا اس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پا جانا ہے جو شخص اپنی رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ صبر مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بیتابی و بیقرار ی زمانہ کے مدد گاروں میں سے ہے۔ بہتر ین دولتمندی آرزوؤں سے ہاتھ اٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بارے میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی حسن توفیق کا نتیجہ ہے دوستی و محبت اکتسابی قرابت ہے جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو اس پر اطمینا ن و اعتماد نہ کرو۔

212. وقال (عليه السلام): عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِهِ.

212. انسان کی خود پسندی اس کی عقل کے حریفوں میں سے ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس طرح حاسد محسود کی کسی خوبی و حسن کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح خود پسندی عقل کے جوہر کا ابھرنا اور اس کے خصائص کا نمایاں ہونا گوارا نہیں کرتی۔ جس سے مغرور و خود بین انسان ان عادات و خصائل سے محروم رہتا ہے، جو عقل کے نزدیک پسندیدہ ہوتے ہیں۔

213. وقال (عليه السلام): أَغْضِ عَلَى الْقَذَى وَاِلَّالَم تَرْضَ أَبَداً.

213. تکلیف سے چشم پوشی کر و۔ ورنہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔

ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے۔ اگر انسان دوسروں کی خامیوں اور کمزوریوں سے متاثر ہوکر ان سے علیحدگی اختیار کرتا جائے، تو رفتہ رفتہ وہ اپنے دوستوں کو کھودے گا، اور دنیا میں تنہا اور بے یارو مددگار ہوکر رہ جائے گا، جس سے اس کی زندگی تلخ اور الجھنیں بڑھ جائیں گی۔ ایسے موقع پر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس معاشرہ میں اسے فرشتے نہیں مل سکتے کہ جن سے اسے کبھی کوئی شکایت پیدا نہ ہو اسے انہی لوگو ں میں رہنا سہنا اور انہی لوگوں میں زندگی گزارنا ہے۔ لہٰذا جہاں تک ہوسکے ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرے اور ان کی ایذا رسانیوں سے چشم پوشی کر تا رہے۔

214. وقال (عليه السلام): مَنْ لاَنَ عُودُهُ كَثُفَتْ أَغْصَانُهُ.

214. جس (درخت) کی لکڑی نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں۔

جو شخص تند خو اور بدمزاج ہو, وہ کبھی اپنے ماحول کو خوش گوار بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کے ملنے والے بھی اس کے ہاتھوں نالاں اور اس سے بیزار رہیں گے اور جو خوش خلق اور شیریں زبان ہولوگ اس کے قرب کے خواہاں اور اس کی دوستی کے خواہشمند ہوں گے اور وقت پڑنے پر اس کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے جس سے وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنا لے جاسکتا ہے۔

 

215. وقال (عليه السلام): الْخِلاَفُ يَهْدِمُ الرَّأْيَ.

215. مخالفت صحیح رائے کو برباد کردیتی ہے۔

216. وقال (عليه السلام): مَنْ نَالَ اسْتَطَالَ.

216. جو منصب پالیتا ہے دست درازی کرنے لگتا ہے۔

217. وقال (عليه السلام): فِي تَقَلُّبِ الاَْحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ.

217. حالات کے پلٹوں ہی میں مردوں کے جوہر کھلتے ہیں۔

218. وقال (عليه السلام): حَسَدُ الصَّدِيقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ.

218. دوست کا حسد کرنا دوستی کی خامی ہے۔

219. وقال (عليه السلام): أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُولِ تَحْتَ بُرُوقِ الْمَطَامِعِ.

219. اکثر عقلوں کا ٹھوکر کھا کر گرنا طمع و حرص کی بجلیاں چمکنے پرہوتا ہے۔

جب انسان طمع و حرص میں پڑ جاتا ہے تو رشوت، چوری، خیانت، سود خواری اور اس قبیل کے دوسرے اخلاقی عیوب اس میں پیدا ہوجاتے ہیں اور عقل ان باطل خواہشوں کی جگمگاہٹ سے اس طرح خیرہ ہوجاتی ہے کہ اسے ان قبیح افعال کے عواقب و نتائج نظر ہی نہیں آتے کہ وہ اسے روکے ٹوکے اور اس خواب غفلت سے جھنجھوڑے البتہ جب دنیا سے رخت سفر باندھنے پر تیار ہوتاہے اور دیکھتا ہے کہ جو کچھ سمیٹا تھا وہ یہیں کے لیے تھا ساتھ نہیں لے جاسکتا، تو اس وقت اس کی آنکھیں کھلتی ہیں۔

 

220۔ و قال علیہ السلام: لَیسَ مِنَ العَدلِ القَضَاءُ عَلَی الثِّقَة بالظّنِّ

220۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ ظن و گمان پر اعتماد کرتے ھوئے فیصلہ کیا جائے ۔

221. وقال (عليه السلام): بِئْسَ الزَّادُ إِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ.

221.آخرت کے لیے بہت برا توشہ ہے بندگا ن خدا پر ظلم و تعدی کرنا۔

222. وقال (عليه السلام): مِنْ أَشْرَفِ أَْعمَال الْكَرِيمِ غَفْلَتُهُ عَمَّا يَعْلَمُ.

222.بلند انسان کے بہتر ین افعال میں سے یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے چشم پوشی کرے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔

223. وقال (عليه السلام): مَنْ كَسَاهُ الْحَيَاءُ ثَوْبَهُ لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَهُ.

223.جس پر حیا نے اپنا لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آسکتے۔

جو شخص حیا کے جو ہر سے آراستہ ہوتا ہے اس کے لیے حیا ایسے امور کے ارتکاب سے مانع ہوتی ہے جو معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے اس میں عیب ہوتا ہی نہیں کہ دوسرے دیکھیں اور اگر کسی امر قبیح کا اس سے ارتکاب ہو بھی جاتا ہے تو حیا کی وجہ سے علانیہ مرتکب نہیں ہوتا کہ لوگوں کی نگاہیں اس کے عیب پر پڑسکیں۔

 

224. وقال (عليه السلام): بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُونُ الْهَيْبَةُ، وَبِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصلُونَ، وَبالاِْفْضَالِ تَعْظُمُ الاَْقْدَارُ، وَبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ، وَبِاحْتَِمالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدَدُ، وَبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِىءُ، بِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيهِ تَكْثُرُ الاَْنْصَارُ عَليْهِ.

224.زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے۔ اور انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے اور خوش رفتاری سے کینہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے اور سر پھر ے آدمی کے مقابلہ میں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ میں اپنے طرفدار زیادہ ہوجاتے ہیں۔

225. وقال (عليه السلام): الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلاَمَةِ الاَْجْسَادِ ۔

225.تعجب ہے کہ حاسد جسمانی تندرستی پر حسد کرنے سے کیوں غافل ہوگئے.

حاسد دوسروں کے مال و جاہ پر تو حسد کرتا ہے۔ مگر ان کی صحت و توانائی پر حسد نہیں کرتا حالانکہ یہ نعمت تمام نعمتوں سے زیادہ گرانقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دولت و ثروت کے اثرات ظاہری طمطراق اور آرام و آسائش کے اسباب سے نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں اور صحت ایک عمومی چیز قرار پاکر نا قدری کا شکار ہوجاتی ہے اور اسے اتنا بے قدر سمجھا جاتا ہے کہ حاسد بھی اسے حسد کے قابل نہیں سمجھتے۔ چنانچہ ایک دولت مند کو دیکھتا ہے تو ا س کے مال ودولت پر اسے حسد ہوتا ہے اور ایک مزدور کو دیکھتا ھے کہ جو سر پر بوجھ اٹھائے دن بھر چلتا پھرتا ہے تو وہ اس کی نظروں میں قابل حسد نہیں ہوتا۔ گویا صحت و توانائی اس کے نزدیک حسد کے لائق چیز نہیں ہے کہ اس پر حسد کرے البتہ جب خود بیمار پڑتا ہے تواسے صحت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس موقع پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ قابل حسد یہی صحت ہے جو اب تک اس کی نظرو ں میں کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی.

مقصد یہ ہے کہ صحت کو ایک گرانقدر نعمت سمجھنا چاہیے اور اس کی حفاظت و کی طر ف متوجہ رہنا چاہیے

226. وقال (عليه السلام): الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

226. طمع کرنے والا ذلت کی زنجیروں میں گرفتار رہتا ہے۔

227. و سئل عن الاِيمان فَقَال الاِْيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وعَمَلٌ بِالاَْرْكَانِ.

227. آپ سے ایمان کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ایمان دل سے پہچاننا، زبان سے اقرار کرنا اور اعضا سے عمل کرنا ہے.

228. وقال (عليه السلام): مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللهِ سَاخِطاً، وَمَنْ أَصْبَحَ يَشَكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِهِ فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّهُ، وَمَنْ أَتى غَنِيَّاً فَتَوَاضَعَ لِغِنَاهُ ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِهِ، وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللهِ هُزُواً، وَمَنْ لَهِجَ قَلْبُهُ بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُهُ مِنْهَا بِثَلاَث: هَمٍّ لاَ يُغِبُّهُ، وَحِرْصٌ لاَ يَتْرُكُه، وَأَمَل لاَ يُدْرِكُهُ.

228. جو دنیا کے لیے اندوہناک ہو وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہے اور جو اس مصیبت پر کہ جس میں مبتلا ہے شکوہ کرے تو وہ اپنے پروردگار کا شاکی ہے اور جو کسی دولت مند کے پاس پہنچ کر اس کی دولتمندی کی وجہ سے جھکے تو اس کا دو تہائی دین جاتا رہتا ہے اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرے پھر مر کر دوزخ میں داخل ہو تو وہ ایسے ہی لوگوں میں سے ہوگا، جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور جس کا دل دنیا کی محبت میں وارفتہ ہوجائے تو اس کے دل میں دنیا کی یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ایسا غم کہ جو اس سے جدا نہیں ہوتا اور ایسی حرص کہ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ایسی امید کہ جو بر نہیں آتی۔

229. وقال (عليه السلام): كَفَىٰ بِالْقَنَاعَةِ مُلْكاً، وَبِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِيماً. وسئل (عليه السلام) عن قوله تعالى: (فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً)، فَقَالَ: هِيَ الْقَنَاعَةُ.

229. قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت اور خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی عیش و آرام نہیں ہے ۔ حضرت (ع) سے اس آیت کے متعلق دریافت کیاگیا کہ «ہم اس کو پاک و پاکیزہ زندگی دیں گے؟ »آپ نے فرمایا کہ وہ قناعت ہے۔

 

حسن خلق کو نعمت سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح نعمت باعث لذت ہوتی ہے اسی طرح انسان خوش اخلاقی و نرمی سے دوسروں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے ماحول کو خوش گوار بناسکتا ہے۔ اور اپنے لیے لذت و راحت کا سامان کر نے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور قناعت کو سرمایہ و جاگیر اس لیے قرار دیا ہے کہ جس طرح ملک و جاگیر احتیاج کو ختم کردیتی ہے اسی طرح جب انسان قناعت اختیار کرلیتا ہے اور اپنے رزق پر خوش رہتا ہے تو وہ خلق سے مستغنی اور احتیاج سے دور ہوتا ہے۔

ہرکہ قائع شد بخشک و ترشہ بحر و بر است

230. وقال (عليه السلام): شَارِكُوا الَّذِي قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْهِ الرِّزْقُ، فَإِنَّهُ أَخْلَقُ لِلْغِنَى، وَأَجْدَرُ بِإِقْبَالِ الْحَظِّ عَلَيْهِ.

230. جس کی طرف فراخِ روزی رُخ کئے ہوئے ہو اس کے ساتھ شرکت کرو، کیونکہ اس میں دولت حاصل کرنے کا زیادہ امکان اور خوش نصیبی کا زیادہ قرینہ ہے۔

231. وقال (عليه السلام) في قولہ تعالى (إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِْحْسَانِ): الْعَدْلُ الاِْنْصَافُ، وَالاِْحْسَانُ التَّفَضُّلُ.

231. خداوند عالم کے ارشاد کے مطابق کہ "اللہ تمہیں عدل و احسان کا حکم دیتا ہے"۔ فرمایا ! عدل انصاف ہے اور احسان لطف و کرم۔

232. وقال (عليه السلام): مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيلَةِ.

و معنى ذلك: أنّ ما ينفقه المرء من ماله في سبيل الخير والبر وإن كان يسيراً فإن الله تعالى يجعل الجزاء عليه عظيماً كثيراً، واليدان هاهنا عبارتان عن النعمتين، ففرّق(عليه السلام) بين نعمة العبد ونعمة الرب (تعالیٰ ذکرہ)، فجعل تلك قصيرة وهذه طويلة، لان نعم الله أبداً تُضعف على نعم المخلوق أَضعافاً كثيرة، إذ كانت نعمه اللہ أصل النعم كلها، فكل نعمة إليها تَرجِعُ ومنها تنزع.

232. جو عاجز و قاصر ہاتھ سے دیتا ہے اسے بااقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

سید رضی کہتے ہیں کہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے مال میں سے جو کچھ خیر و نیکی کی راہ میں خر چ کرتا ہے اگرچہ وہ کم ہو، مگر خداوند عالم اس کا اجر بہت زیادہ قراردیتا ہے اور اس مقام پر دو ہاتھوں سے مراد دو نعمتیں ہیں اور امیرالمومنین علیہ السلام نے بندہ کی نعمت اور پروردگار کی نعمت میں فرق بتایا ہے کہ وہ تو عجز و قصور کی حامل ہے اور وہ بااقتدار ہے۔ کیونکہ اللہ کی عطاکردہ نعمتیں مخلوق کی دی ہوئی نعمتوں سے ہمیشہ بدرجہا بڑھی چڑھی ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اللہ ہی کی نعمتیں تمام نعمتوں کا سر چشمہ ہیں۔ لہٰذا ہر نعمت انہی نعمتوں کی طرف پلٹتی ہے، اور انہی سے وجود پاتی ہے۔

233. وقال لابنه الحسن(عليهما السلام): لاَ تَدعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَة، وَإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ، فَإِنَّ الدَّاعِيَ بَاغ، وَالبَاغِيَ مَصْرُوعٌ.

233. اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے فرمایا :

کسی کو مقابلہ کے لیے خود نہ للکارو۔ ہاں اگر دوسرا للکارے تو فورا ًجواب دو۔ اس لیے کہ جنگ کی خود سے دعوت دینے والا زیادتی کرنے والا ہے، اور زیادتی کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ اگر دشمن آمادہ پیکار ہو اور جنگ میں پہل کرے تو اس موقع پر اس کی روک تھام کے لیے قدم اٹھا نا چاہیے اور از خود حملہ نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ سرا سر ظلم و تعدی ہے اور جو ظلم وتعدی کا مرتکب ہوگا، وہ اس کی پاداش میں خاک مذلت پر پچھاڑ دیا جائے گا۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السّلام ہمیشہ دشمن کے للکارنے پر میدان میں آتے اور خود سے دعوت مقابلہ نہ دیتے تھے۔ چنانچہ ابن الحدید تحریر کرتے ہیں کہ:

 

ما سمعنا انہ علیہ السلام دعا الیٰ مبارزہ قطو انما کان یدعی ھو بعینہ او یدعی من یبارز فیخرج الیہ فیقتل ۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۴۴)

ہمارے سننے میں نہیں آیاکہ حضرت نے کبھی کسی کو مقابلہ کے لیے للکا ر ا ہو بلکہ جب مخصوص طور پر آپ کو دعوت مقابلہ دی جاتی تھی یا عمومی طور پر دشمن للکارتا تھا، تو اس کے مقابلہ میں نکلتے تھے اور اسے قتل کردیتے تھے۔

234. وقال (عليه السلام): خِيَارُ خِصَالِ النِّسَاءِ شِرَارُ خِصَالِ الرِّجَالِ: الزَّهْوُ وَالْجُبْنُ وَالْبُخْلُ، فَإذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ مَزْهُوَّةً لَمْ تُمَكِّنْ مِنْ نَفْسِهَا، وَإِذَا كَانَتْ بِخِيلَةً حَفِظَتْ مَالَهَا وَمَالَ بَعْلِهَا، وَإِذَا كَانَتْ جَبَانَةً فَرِقَتْ مِنْ كُلِّ شِيْء يَعْرِضُ لَهَا.

234. عورتوں کی بہترین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیں۔ غرور، بزدلی اور کنجوسی اس لیے کہ عورت جب مغرور ہوگی، تو وہ کسی کو اپنے نفس پر قابو نہ دے گی اور کنجوس ہوگی تو اپنے اور شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اور بزدل ہوگی تو وہ ہر اس چیز سے ڈرے گی جو پیش آئے گی۔

235. وقيل له (عليه السلام): صف لنا العاقل. فقال (عليه السلام): هُوَ الِّذِي يَضَعُ الشَّيْءَ مَوَاضِعَهُ.

قيل: فصف لنا الجاهل.

قال: قَدْ فَعَلْتُ.

قال الرضی: يعني: أنّ الجاهل هو الذي لا يضع الشيء مواضعه، فكأن ترك صفته صفة له، إذ كان بخلاف وصف العاقل.

235. آپ علیہ السّلام سے عرض کیاگیا کہ عقلمند کے اوصاف بیان کیجئے۔ فرمایا! عقلمند وہ ہے جو ہر چیز کو اس کے موقع و محل پر رکھے۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ جاہل کا وصف بتایئے تو فرمایا کہ میں بیان کر چکا۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو کسی چیز کو اس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گویا حضرت کا اسے نہ بیان کر نا ہی بیان کرنا ہے۔ کیونکہ اس کے اوصاف عقلمند کے اوصاف کے برعکس ہیں۔

236. وقال (عليه السلام): وَاللهِ لَدُنْيَاكُمْ هذِهِ أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِير فِي يَدِ مَجْذُوم .

236. خدا کی قسم تمہاری یہ دنیا میرے نزدیک سور کی ان انتڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل ہے جو کسی کوڑھی کے ہاتھ میں ہوں۔

237. وقال (عليه السلام): إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ وَإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ، وَإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَْحْرَارِ.

237. ایک جماعت نے اللہ کی عبادت ثواب کی رغبت و خواہش کے پیشِ نظر کی یہ سودا کرنے والوں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے خوف کی وجہ سے اس کی عبادت کی، اور یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک جماعت نے ازروئے شکر و سپاس گزاری اس کی عبادت کی، یہ آزادوں کی عبادت ہے۔

238. وقال (عليه السلام): الْمَرْأَةُ شَرٌّ كُلُّهَا، وَشَرُّ مَا فِيهَا أَنَّهُ لاَبُدَّ مِنْهَا ۔

238. عورت سراپا برائی ہے اور سب سے بڑی برائی اس میں یہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

239. وقال (عليه السلام): مَنْ أَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوقَ، وَمَنْ أَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيقَ.

239. جو شخص سستی و کاہلی کرتاہے وہ اپنے حقوق کو ضائع وبرباد کردیتا ہے اور جو چغل خور کی بات پر اعتماد کر تا ہے، وہ دوست کو اپنے ہاتھ سے کھو دیتا ہے.

240. وقال (عليه السلام): الْحَجَرُ الْغَصِيبُ فِي الدَّارِ رَهْنٌ عَلَى خَرَابِهَا.

قال الرضی: و يروى هذا الكلام للنبي صلى الله عليه وآلہ وسلم، ولا عجب أن يشتبه الكلامان، فإنّ مستقاهما من قليب، ومفرغهما من ذنوب.

240. گھر میں ایک غصبی پتھر اس کی ضمانت ہے کہ وہ تباہ و برباد ہوکر رہے گا۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ کلام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہوا ہے اور اس میں تعجب ہی کیا کہ دونوں کے کلام ایک دوسرے کے مثل ہوں کیونکہ دونوں کا سر چشمہ تو ایک ہی ہے.

241. وقال (عليه السلام): يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ أَشدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

241. مظلوم کے ظالم پر قابو پانے کا دن اس دن سے کہیں زیادہ ہوگا جس میں ظالم مظلوم کے خلاف اپنی طاقت دکھاتا ہے۔

دنیا میں ظلم سہہ لینا آسان ہے. مگر آخرت میں اس کی سزا بھگتنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ ظلم سہنے کا عرصہ زندگی بھر کیوں نہ ہو پھر بھی محدود ہے۔ اور ظلم کی پاداش جہنم ہے، جس کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو یہ ہے کہ وہا ں زندگی ختم نہ ہو گی کہ موت دوزخ کے عذاب سے بچا لے جائے چنانچہ ایک ظالم اگر کسی کو قتل کر دیتا ہے تو قتل کے ساتھ ظلم کی حد بھی ختم ہوجائے گی، اور اب اس کی گنجائش نہ ہو گی کہ اس پر مزید ظلم کیا جاسکے مگر اس کی سزا یہ ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے کہ جہاں وہ اپنے کئے کی سزا بھگتتا رہے۔

 

پنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد در گردنِ او بماند و برما بگذشت

 

242. وقال (عليه السلام): اتَّقِ اللهَ بَعْضَ التُّقَى وَإِنْ قَلَّ، وَاجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ اللهِ سِتْراً وَإِنْ رَقَّ.

242. اللہ سے کچھ تو ڈرو، چاہے وہ کم ہی ہو، اور اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ تو پردہ رکھو، چاہے وہ باریک ہی سا ہو۔

243. وقال (عليه السلام): إِذَا ازْدَحَمَ الْجَوَابُ خَفِيَ الصَّوَابُ.

243. جب (ایک سوال کے لیے) جوابات کی بہتات ہوجائے توصحیح بات چھپ جایا کرتی ہے۔

اگر کسی سوال کے جواب میں ہر گوشہ سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ تو ہر جواب نئے سوال کا تقاضا بن کر بحث و جدل کا دروازہ کھول دے گا اور جوں جوں جوابات کی کثرت ہوگی، اصل حقیقت کی کھوج اور صحیح جواب کی سراغ رسائی مشکل ہوجائے گی۔ کیونکہ ہر شخص اپنے جواب کو صحیح تسلیم کرانے کے لیے ادھر اُدھر سے دلائل فراہم کرنے کی کوشش کرے گا جس سے سارا معاملہ الجھاؤ میں پڑجائے گا۔ اور یہ خواب کثرت تعبیر سے خواب پریشان ہو کر رہ جائے گا۔

244. وقال (عليه السلام): إِنَّ لله فِي كُلِّ نِعْمَة حَقّاً، فَمَنْ أَدَّاهُ زَادَهُ مِنْهَا، وَمَنْ قَصَّرَ مِنْهُ خَاطَرَ بِزَوَالِ نِعْمَتِهِ.

244. بے شک اللہ تعالیٰ کے لیے ہر نعمت میں ایک حق ہے تو جو اس حق کو ادا کرتا ہے، اللہ اس کے لیے نعمت کو اوربڑھاتا ہے۔ اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈالتا ہے۔

245. وقال (عليه السلام): إِذَا كَثُرَتِ الْمَقْدُرَةُ قَلَّتِ الشَّهْوَةُ.

245. جب مقدرت زیادہ ہوجاتی ہے تو خواہش کم ہوجاتی ہے۔

246. وقال (عليه السلام): احْذَرُوا نِفَارَ النِّعَمِ، فَمَا كُلُّ شَارِد بِمَرْدُودٍ.

246. نعمتوں کے زائل ہونے سے ڈرتے رہو کیونکہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز پلٹا نہیں کرتی۔

247. وقال (عليه السلام): الْكَرَمُ أَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ.

247. جذبۂ کرم رابطۂ قرابت سے زیادہ لطیف و مہر بانی کا سبب ہوتا ہے۔

248. وقال (عليه السلام): مَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّهُ.

248. جو تم سے حسن ظن رکھے، اس کے گمان کو سچاثابت کرو۔

249. وقال (عليه السلام): أَفْضَلُ الاَْعْمَالِ مَا أَكْرَهْتَ نَفْسَكَ عَلَيْهِ.

249. بہترین عمل وہ ہے جس کے بجالانے پر تمہیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے۔

250. وقال (عليه السلام): عَرَفْتُ اللهَ سُبْحَانَهُ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ، وَحَلِّ الْعُقُودِ. (وَ نقضِ الھِمَمِ)

250. میں نے اللہ سبحانہ کو پہچانا ارادوں کے ٹوٹ جانے, نیتوں کے بدل جانے، اور ہمتوں کے پست ہوجانے سے۔

ارادوں کے ٹوٹنے اور ہمتوں کے پست ہونے سے خداوند عالم کی ہستی پر اس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مثلاً ایک کام کے کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، مگر وہ ارادہ فعل سے ہمکنار ہونے سے پہلے ہی بدل جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور ارادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ارادوں کا ادلنا بدلنااور ان میں تغیر و انقلاب کا رونما ہونا اس کی دلیل ہے کہ ہمارے ارادوں پر ایک بالا دست قوت کار فرما ہے جو انہیں عدم سے وجود اور وجود سے عدم میں لانے کی قوت و طاقت رکھتی ہے، اور یہ امر انسان کے احاطۂ اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا اسے اپنے مافوق ایک طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جو ارادوں میں ردو بدل کرتی رہتی ہے۔

 

251. وقال (عليه السلام): مَرَارَةُ الدُّنْيَا حَلاَوَةُ الاْخِرَةِ، وَحَلاَوَةُ الدُّنْيَا مَرَارَةُ الاْخِرَةِ.

251. دنیا کی تلخی آخرت کی خوشگواری ہے اور دنیا کی خوشگواری آخرت کی تلخی ہے۔

252. وقال (عليه السلام): فَرَضَ اللهُ الاِْيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ، وَالصَّلاَةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ، وَالزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ، وَالصِّيَامَ ابْتِلاَءً لاِِخْلاَصِ الْخَلْقِ، وَالْحَجَّ تقویَّہً لِلدِّينِ، وَالْجِهَادَ عِزّاً لِلاْسْلاَمِ، وَالاَْمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ، وَصِلَةَ الرَّحَمِ مَنْماةً لِلْعَدَدِ، وَالْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ، وَإِقَامَةَ الْحُدُودِ إِعْظَاماً لِلْمَحَارِمِ، وَتَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِيناً لِلْعَقْلِ، وَمُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ إِيجاباً لِلْعِفَّةِ، وَتَرْكَ الزِّنَى تَحْصِيناً لِلنَّسَبِ، وَتَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِيراً لِلنَّسْلِ، وَالشَّهَادَةَ اسْتِظهَاراً عَلَى الْـمُجَاحَدَاتِ، وَتَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِيفاً لِلصِّدْقِ، وَالسَّلاَمَ أَمَاناً مِنَ الْـمَخَاوِفِ، وَالاْمَامَةَ نِظَاماً لِلاُْمَّةِ، وَالطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلاِْمَامَةِ.

252. خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے۔ اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لیے اور زکوة کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کے لیے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کے لیے اور حج کو دین کے تقویت پہنچانے کے لیے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کے لیے، اور امر بالمعروف کو اصلاحِ خلائق کے لیے اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کے لیے اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کے لیے اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کے لیے اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کے لیے اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لیے اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کے لیے اور زنا کاری سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کے لیے اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کے لیے اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کے لیے اور جھوٹ سے علحیدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کے لیے اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کے لیے اور امانتوں کی حفاظت کو امت کا نظام درست رکھنے کے لیے اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے۔

احکامِ شرع کی بعض حکمتوں اور مصلحتوں کا تذکرہ کرنے سے قبل ایمان کی غرض و غایت کا ذکر فرمایا ھے۔ کیونکہ ایمان شرعی احکام کے لیے اساس و بُنیاد کی حیثیّت رکھتا ھے اور اس کے بغیر کسی شرع و آئین کی ضرورت کا احساس ھی پیدا نہیں ھوتا۔

ایمان: ھستی خالق کے اقرار اور اُس کی یگانگت کے اِعتراف کا نام ھے اور جب انسان کے قلب و ضمیر میں یہ عقیدہ رچ بس جاتا ھے تو وُہ کسی دُوسرے کے آگے جھکنا گوارا نہیں کرتا، اور نہ کسی طاقت سے مرعُوب و متاثّر ھوتا ھے۔ بلکہ ذھنی طور پر تمام بندھنوں سے آزاد ھوکر خود کو خُدائے واحد کا حلقہ بگوش تصّور کرتا ھے اور اس طرح توحید سے وابستگی کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اس کا دامن شرک کی آلودگیوں سے آلودہ ھونے نہیں پاتا۔

نماز: عبادات میں سب سے بڑی عبادت ھے جو قیام و قعود اور رکوع و سجود پر مشتمل ھوتی ھے اور یہ اعمال غرور و نخوت کے احساسات کو ختم کرنے، کبر و انانیّت کو مٹانے اور عجز و فروتنی کے پیدا کرنے کا کامیاب ذریعہ ھیں۔ کیونکہ مُتکبرانہ افعال و حرکات سے نفس میں تکبّر و رُعونت کا جذبہ اُبھرتا ھے، اور منکسرانہ اعمال سے نفس میں تذلّل و خشوع کی کیفیت پیدا ھوتی ھے اور رفتہ رفتہ ان اعمال کی بجا آوری سے انسان متواضع و منکسر المزاج ھوجاتا ھے۔ چنانچہ وہ عرب کہ جن کے کبر و غرور کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے ھاتھ سے کوڑا گِر پڑتا تھا تو اُسے اُٹھانے کے لیے جُھکنا گوارا نہ کرتے تھے اور چلتے ھوئے جُوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا تھا تو جُھک کر اُسے دُرست کرنا عار سمجھتے تھے۔ سجدوں میں اپنے چہرے خاکِ مذلّت پر بچھانے لگے اور نماز جماعت میں دوسروں کے قدموں کی جگہ پر اپنی پیشانیاں رکھنے لگے، اور غرور و عصبیّت جاھلیّت کو چھوڑ کر اسلام کی صحیح رُوح سے آشنا ھوگئے۔

زکٰواة: یعنی ھر با استطاعت اپنے مال میں سے ایک مقررہ مقدار سال بسال ان لوگوں کو دے کہ جو وسائل حیات سے بالکل محروم یا سال بھر کے آذوقہ کا کوئی ذریعہ نہ رکھتے ھوں یہ اسلام کا ایک اھم فریضہ ھے جس سے غرض یہ ھے کہ اسلامی معاشرہ کی کوئی فرد محتاج و مفلس نہ رھے اور احتیاج و افلاس سے جو برائیاں پیدا ھوتی ھیں ان سے محفوظ رھیں اور اس کے علاوہ یہ بھی مقصد ھے کہ دولت چلتی پھرتی اور ایک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ میں مُنتقل ھوتی رھے اور چند افراد کے لیے مخصُوص ھوکر نہ رہ جائے۔

روزہ: وہ عبادت ھے جس میں ریا کا شائبہ نہیں ھوتا اور نہ حسنِ نیّت کے علاوہ کوئی اور جذبہ کار فرما ھوتا ھے۔ چنانچہ تنہائی میں جبکہ بُھوک بے چین کئے ھوئے ھو، اور پیاس تڑپارھی ھو۔ نہ کھانے کی طرف ھاتھ بڑھتا ھے، نہ پانی کی خواھش بے قابو ھونے دیتی ھے۔ حالانکہ اگر کھاپی لیا جائے تو کوئی پیٹ میں جھانک کر دیکھنے والا نہیں ھوتا۔ مگر ضمیر کا حُسن اور خلوص کا جوھر نیّت کو ڈانوا ڈول نہیں ھونے دیتا اور یہی روزہ کا سب سے بڑا فائدہ ھے کہ اس سے عمل میں اخلاص پیدا ھوتا ھے۔

حج: کا مقصد یہ ھے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام اطراف و اکنافِ عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ھوں تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاھرہ ھو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ھو۔

جہاد: کا مقصد یہ ھے کہ جو قوّتیں اسلام کی راہ میں مزاحم ھوں اُن کے خلاف امکانی طاقتوں کے ساتھ جنگ آزما ھوا جائے تاکہ اسلام کو فروغ و استحکام حاصل ھو۔ اگر چہ اس راہ میں جان کے لیے خطرات پیدا ھوتے ھیں اور قدم قدم پر مشکلیں حائل ھوتی ھیں مگر راحتِ ابدی و حیات دائمی کی نوید، ان تمام مصیبتوں کو جھیل لے جانے کی ھمّت بندھاتی رھتی ھے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: دوسروں کو صحیح راہ دکھانے اور غلط روی سے بار رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ھے۔ اگر کسی قوم میں اس فریضہ کے انجام دینے والے ناپید ھوجاتے ھیں تو پھر اس کو تباھی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ اور وہ اخلاقی و تمدّنی لحاظ سے انتہائی پستیوں میں جا گرتی ھے۔ اسی لیے اسلام نے اور فرائض کے مقابلہ میں اُسے بڑی اھمیت دی ھے اور اس سے پہلو بچالے جانے کو "ناقابلِ تلافی جُرم" قرار دیا ھے۔

صلۂ رحمی:یہ ھے کہ انسان اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے اور کم از کم باھمی سلام و کلام کا سلسلہ قطع نہ کرے تاکہ دلوں میں صفائی پیدا ھو، اور خاندان کی شیرازہ بندی ھوکر یہ بکھرے ھوئے افراد ایک دوسرے کے دست و بازو ثابت ھوں۔

قصاص: یہ ایک حق ھے جو مقتول کے وارثوں کو دیا گیا ھے کہ وہ قتل کے بدلہ میں قتل کا مُطالبہ کریں تاکہ پاداش جُرم کے خوف سے آئندہ کسی کو قتل کی جرأت نہ ھوسکے، اور وارثوں کے جوشِ انتقام میں ایک جان سے زیادہ جانوں کے ھلاک ھونے کی نوبت نہ پہنچے۔ بیشک عفو و درگذر اپنے مقام پر فضیلت رکھتا ھے۔ مگر جہاں حقوقِ بشر کی پامالی اور امن عالم کی تباھی کا سبب بن جائے، اُسے اصلاح نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس موقع پر قتل و خونریزی کے انسداد اور حیات انسانی کی بقا کا واحد ذریعہ قصاص ھی ھوگا۔ چنانچہ ارشادِ قدرت ھے۔

(ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب) "اے عقل والو! تمھارے لیے قصاص میں زندگی ھے"۔

اجرائے حدود: کا مقصد یہ ھے کہ محرمات الٰہیہ کے مرتکب ھونے والے کو جرم کی سنگینی کا احساس دلایا جائے تاکہ وہ سزا و عقوبت کے خوف سے منہیات سے اپنا دامن بچا کر رکھے۔

شراب: ذھنی انتشار، پراگندگیٔ حواس اور ذوالِ عقل کا باعث ھوتی ھے جس کے نتیجہ میں انسان وہ قبیح افعال کر گُزرتا ھے جن کی ھوش و حواس کی حالت میں اس سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ یہ صحت کو تباہ اور طبیعت کو وبائی امراض کی پذیرائی کے لیے مستعد کردیتی ھے اور بے خوابی، ضعفِ اعصاب اور نقرس وغیرہ امراض اس کا لازمی خاصہ ھیں، اور انہی مفاد و مفاسد کو دیکھتے ھوئے شریعت نے اسے حرام کیا ھے۔

سرقہ: یعنی دوسروں کے مال میں دست درازی کرنا وہ قبیح عادت ھے جو حرص اور ھوائے نفس کے غلبہ کی وجہ سے پیدا ھوتی ھے اور چونکہ مشتہیات نفس کو حدِ افراط سے ھٹاکر نقطۂ اعتدال پر لانا عفّت کہلاتا ھے اس لیے بڑھتی ھوئی خواھش اور طمع کو روک کر چوری سے اجتناب کرنا عفّت کا باعث ھوگا۔

زنا و لواطہ:کو اس لیے حرام کیا گیا ھے کہ نسب محفوظ رھے اور نسل انسانی پھلے پھُولے اور بڑھے،کیونکہ زنا سے پیدا ھونے والی اولاد، اولاد ھی نہیں قرار پاتی کہ اس سے نسب ثابت ھوتا۔ اسی لیے اُسے مستحق میراث نہیں قرار دیا جاتا اور خلافِ فطرت افعال سے نسل کے بڑھنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا۔ اس کے علاوہ ان قبیح افعال کے نتیجہ میں انسان ایسے امراض میں مبتلا ھوجاتا ھے۔ جو قطع نسل کے ساتھ زندگی کی بربادی کا سبب ھوتی ھیں۔

قانونِ شھادت:کی اس لیے ضرورت ھے کہ اگر ایک فریق دوسرے فریق کے کسی حق کا انکار کرے، تو شھادت کے ذریعہ اپنے حق کا اثبات کرکے اسے محفوظ کرسکے۔

کذب و دروغ:سے اجتناب کا حکم اس لیے ھے تاکہ اس کی ضد یعنی صداقت کی عظمت و اھمیّت نمایاں ھو اور سچائی کے مصالح و منافع کو دیکھ کر جھوٹ سے پیدا ھونے والی اخلاقی کمزوریوں سے بچا جائے۔

سلام(۱): کے معنی امن و صلح پسندی کے ھیں اور ظاھر ھے کہ صلح پسندانہ روش خطرات سے تحفّظ اور جنگ و جدال کی روک تھام کا کامیاب ذریعہ ھے۔ عموماً شارحین نے سلام کو باھمی سلام و دعا کے معنی میں لیا ھے مگر سیاق کلام اور فرائض کے ذیل میں اس کا تذکرہ اس معنی کی تائید نہیں کرتا۔ بہر حال اس معنی کی رُو سے سلام خطرات سے تحفظ کا ذریعہ اس طرح ھے کہ اسے امن و سلامتی کا شعار سمجھا جاتا ھے اور جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر سلام کرتے ھیں تو اس کے معنی یہ ھوتے ھیں کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواھی و دوستی کا اعلان کرتے ھیں جس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے مطمئن ھوجاتے ھیں۔

(۱) نہج البلاغہ کے عام نُسخوں میں لفظ سلام ھی تحریر ھے مگر ابنِ میثم نے اسے لفظ "اسلام" قرار دیتے ھوئے اس کی شرح کی ھے: اور لفظ سلام بھی روایت کیا ھے۔ ھوسکتا ھے کہ کسی نُسخہ میں لفظ "اسلام" بھی ھو۔

امانت: کا تعلّق صرف مال ھی سے نہیں بلکہ اپنے متعلقہ امور کی بجا آوری میں کوتاھی کرنا بھی امانت کے منافی ھے تو جب مسلمان اپنے فرائض و متعلّقہ امُور کا لحاظ رکھیں گے، تو اس سے نظم و نسق ملّت کا مقصد حاصل ھوگا اور جماعت کی شیرازہ بندی پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔

امامت: کے اجراء کا مقصد یہ ھے کہ امّت کی شیرازہ بندی ھو اور اسلام کے احکام تبدیل و تحریف سے محفوظ رھیں کیونکہ اگر اُمّت کا کوئی سر براہ اور دین کا کوئی محافظ نہ ھو تو نہ اُمّت کا نظم و نسق باقی رہ سکتا ھے، اور نہ احکام دوسرے کی دستبرد سے محفوظ رہ سکتے ھیں اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ھوسکتا ھے جب اُمّت پر اس کی اطاعت بھی واجب ھو۔ اس لیے کہ اگر وہ مطاع اور واجب الاطاعت نہ ھوگا، تو وہ نہ عدل و انصاف قائم کرسکتا ھے نہ ظالم سے مظلوم کا حق دلا سکتا ھے نہ قوانین شریعت کا اجراو نفاذ کرسکتا ھے، اور نہ دُنیا سے فتنہ و فساد کے ختم ھونے کی توقع کی جاسکتی ھے۔

253. وكان(عليه السلام) يقول: أَحْلِفُوا الظَّالِمَ. إِذَا أَرَدْتُمْ يَمِينَهُ. بِأَنَّهُ بَرِىءٌ مِنْ حَوْلِ اللهِ وَقُوَّتِهِ، فَإِنَّهُ إِذَا حَلَفَ بِهَا كَاذِباً عُوجِلَ الْعُقُوبَةَ، وَإِذَا حَلَفَ بِاللهِ الَّذِي لاَ إِلهَ إِلاَّ هُوَ لَمْ يُعَاجَلْ، لاَِنَّهُ قَدْ وَحَّدَ اللہ تعَالیٰ ۔

253. آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس سے اس طرح حلف اٹھواؤ کہ وہ اللہ کی قوت و توانائی سے بری ہے؟ کیونکہ جب وہ اس طرح جھوٹی قسم کھائے گا تو جلد اس کی سزا پائے گا اور جب یوں قسم کھائے کہ قسم اُس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو جلد اس کی گرفت نہ ہو گی، کیونکہ اُس نے اللہ کو وحدت و یکتائی کے ساتھ یاد کیا ہے۔

ابن میثم نے تحریر کیا ھے کہ ایک شخص نے منصُور عباسی کے پاس امام جعفر صادق علیہ السّلام پر کچھ الزامات عائد کیے جس پر منصور نے حضرت کو طلب کیا اور کہا کہ فلاں شخص نے آپ کے بارے میں مجھ سے یہ اور یہ کہا ھے، یہ کہاں تک صحیح ھے؟ حضرت (ع) نے فرمایا کہ یہ سب جُھوٹ ھے اور اس میں ذرا بھی صداقت نہیں، تم اس شخص کو میرے سامنے بُلاکر پُوچھو۔ چنانچہ اُسے بُلاکر پوچھا گیا تو اُس نے کہا، کہ میں نے جو کچھ کہا تھا صحیح اور دُرست تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم سچ کہتے ھو، تو جس طرح میں تمھیں قسم دلاؤں، تم قسم کھاؤ۔ چنانچہ حضرت (ع) نے اُسے یہی قسم دلائی کہ "میں خُدا کی قوّت و طاقت سے بری ھُوں۔" اس قسم کے کھاتے ھی اُس پر فالج گِرا اور وہ بے حس و حرکت ھوکر رہ گیا۔ اور امام علیہ السّلام عزّت و احترام کے ساتھ پلٹ آئے۔

254. وقال (عليه السلام): يَابْنَ آدَمَ، كُنْ وَصِيَّ نَفْسِكَ، فِي مَالِكَ وَاعمل فِیہِ مَا تُؤْثِرُ أَنْ يُعْمَلَ فِيهِ مِنْ بَعْدِكَ.

254. اے فرزندِ آدم! اپنے مال میں اپنا وصی خود بن اور جو تو چاہتا ہے کہ تیرے بعد تیرے مال میں سے خیر خیرات کی جائے، وہ خود انجام دے دے۔

مطلب یہ ھے کہ جو شخص یہ چاھے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کا کچھ حصّہ اُمورِ خیر میں صرف کیا جائے تو اُسے موت کا اِنتظار نہ کرنا چاھیے۔ بلکہ جیتے جی جہاں صرف کرنا چاھتا ھے، صرف کرجائے۔ اس لیے کہ ھوسکتا ھے کہ اُس کے مرنے کے بعد اس کے وارث اس کی وصیّت پر عمل نہ کریں، یا اُسے وصیّت کرنے کا موقع ھی نہ ملے

زرو نعمت اکنوں بدہ کان تو است کہ بعد از تو بیروں زفرمان تو است

255. وقال (عليه السلام): الْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ الْجُنُونِ، لاَِنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ، فَإِنْ لَمْ يَنْدَمُ فَجُنُونُهُ مُسْتَحْكِمٌ.

255. غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے کیونکہ غصہ ور بعد میں پشیمان ضرور ہوتا ہے اور اگر پشیمان نہیں ہوتا تو اُس کی دیوانگی پختہ ہے۔

625. وقال (عليه السلام): صِحَّةُ الْجَسَدِ مِنْ قِلَّةِ الْحَسَدِ.

625. حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے۔

حسد سے دل میں ایک ایسا زھریلا مواد پیدا ھوتا ھے جو حرارت عزیزی کو ختم کردیتا ھے جس کے نتیجہ میں جسم نڈھال اور روح پژ مردہ ھوکر رہ جاتی ھے اس لئے حاسد کبھی پھلتا پھولتا نہیں، بلکہ حسد کی آنچ میں پگھل پگھل کر ختم ھوجاتا ھے ۔

725. وقال (عليه السلام) لِكُمَيْل بن زياد النخعي: يَا كُمَيْلُ، مُرْ أَهْلَكَ أَنْ يَرُوحُوا في كَسْبِ الْمَكَارِمِ، وَيُدْلِجُوا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نائِمٌ، فَوَالَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الاَْصْوَاتَ مَا مِنْ أَحَد أَوْدَعَ قَلْباً سُرُوراً إِلاَّ وَخَلَقَ اللهُ لَهُ مِنْ ذلِكَ السُّرُورِ لُطْفاً، فَإِذَا نَزَلَتْ بِهِ نَائِبَةٌ جَرَى إلَيْهَا كَالْمَاءِ فِي انْحِدَارِهِ حَتَّى يَطْرُدَهَا عَنْهُ كَمَا تُطْرَدُ غَرِيبَةُ الاِْبلِ.

725. کمیل ابن زیاد نخعی سے فرمایا: اے کمیل! اپنے عزیز و اقارب کو ہدایت کرو کہ وہ اچھی خصلتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن کے وقت نکلیں اور رات کو سو جانے والے کی حاجت روائی کو چل کھڑے ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس کی قوتِ شنوائی تمام آوازوں پر حاوی ہے، جِس کسی نے بھی کسی کے دل کو خوش کیا تو اللہ اُس کے لیے اُس سرور سے ایک لطفِ خاص خلق فرمائے گا کہ جب بھی اُس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھے اور اجنبی اونٹوں کو ہنکانے کی طرح اس مصیبت کو ہنکا کر دور کر دے۔

258. وقال (عليه السلام): إِذَا أَمْلَقْتُمْ فَتَاجرُِوا اللهَ بِالصَّدَقَةِ.

258. جب تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ کے ذریعہ اللہ سے تجارت کرو۔

259. وقال (عليه السلام): الْوَفَاءُ لاَِهْلِ الْغَدْرِ غَدْرٌ عِنْدَ اللهِ، وَالْغَدْرُ بَأَهْلِ الْغَدْرِ وَفَاءٌ عِنْدَ اللهِ.

259. غداروں سے وفا کرنا اللہ کے نزدیک غداری ہے اور غداروں کے ساتھ غداری کرنا اللہ کے نزدیک عین وفا ہے۔

260. وقال (عليه السلام): كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَج بِالاِْحْسَانِ إِلَيْهِ، وَمَغْرُور بِالسَّتْرِ عَلَيْهِ، وَمَفْتُون بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيهِ،مَا ابْتَلَى اللهُ سُبْحَانَهُ أَحَداً بِمِثْلِ الاِْمْلاَءِ لَهُ.

قال الرضی: و قد مَضى هذا الكلام فيما تقدم، إلاّ أن فيه هاهنا زيادة جیدة مفيدة.

260. کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نعمتیں دے کر رفتہ رفتہ عذاب کا مستحق بنایا جاتا ہے اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کی پردہ پوشی سے دھوکا کھائے ہوئے ہیں اوراپنے بارے میں اچھے الفاظ سن کر فریب میں پڑ گئے اور مہلت دینے سے زیادہ اللہ کی جانب سے کوئی بڑی آزمائش نہیں۔

سید رضی کہتے ہیں کہ یہ کلام پہلے بھی گذر چکا ہے مگر یہاں اس میں کچھ عمدہ اور مفید اضافہ ہے۔

۱۔ فی حدیثہ علیہ السّلام: فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ ضَرَبَ یَعۡسُوۡبُ الدِّیۡنِ بِذَنَبِہ، فَیَجۡتَمِعُوۡنَ الَیۡہِ کَمَا یَجۡتَمِعُ قَزَعُ الۡخَرِیۡفِ۔

قال الرضی: الیعسوب: السیّد الۡعَظِیۡمُ المالِک لامور الناس یومئِذ والقزعُ: قطع الغیم التی لامَاء فیھا۔

(۱) جب وہ وقت آئے گا، تو دین کا یعسوب۔ ۔ اپنی جگہ پر قرار پائے گا، اور لوگ اس طرح سمٹ کر اس طرف بڑھیں گے، جس طرح موسم خریف کے قزع جمع ھوجاتے ھیں۔

سید رضی کہتے ھیں کہ یعسوب سے وہ بلند مرتبہ سردار مراد ھے جو اس دن لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ھوگا اور قزع ابرکی ان ٹکڑیوں کو کہتے ھیں جن میں پانی نہ ھو۔

یعسوب شھد کی مکھیّوں کے سربراہ کو کہتے ھیں اور "یعسوبُ الدّین" (حاکمِ دین و شریعت) سے مراد حضرت حجّت ھیں۔ اس لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ھے کہ جس طرح امیر نحل کا ظاھر و باطن پاک ھوتا ھے اور وہ نجاست سے احتراز کرتے ھوئے پھولوں اور شگوفوں سے اپنی غذا حاصل کرتا ھے۔ اسی طرح حضرت حجت بھی تمام آلودگیوں سے پاک و صاف اور ھر طرح سے طیب و طاھر ھوں گے۔ اس جملہ کے چند معنی کئے گئے ھیں۔

پہلے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت حجت فضائے عالم میں سیر و گردش کے بعد اپنے مرکز پر مقیم ھوں گے۔ کیونکہ امیر نحل دن کا بیشتر حصّہ پرواز میں گزارتا ھے اور جب اپنے جسم کا آخری حصّہ کہیں پرٹکاتا ھے تو وہ اپنی حرکت و پرواز کو ختم کردیتا ھے۔

دوسرے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت (ع) اپنے رفقاء و انصار کے ساتھ زمین میں چلیں پھریں گے اس صورت میں ضرب کے معنی چلنے پھرنے کے اور ذنب سے مراد انصار و اتباع ھوں گے۔

تیسرے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت شمشیر بکف اُٹھ کھڑے ھوں گے اس صورت میں ضرب ذنب کے معنی شھد کی مکھّی کے ڈسنے کے ھوں گے۔

چوتھے معنی یہ ھیں کہ جب حضرت "جوش و خروش کے ساتھ اعلائے کلمة اللہ کے لیے اُٹھ کھڑے ھوں گے، اس صورت میں یہ جملہ غضب و ھیجان کی کیفیت اور حملہ آوری کی ھیئت سے کنایہ ھوگا۔"

۲۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: ھٰذَا الۡخَطِیۡبُ الشَّحۡشَحُ ۔۔۔ یرید الماھر بالخطبة الماضی فیھا، وکل ماض فی کلام أو سیر فھو شحشح؛ والشحشح فی غیر ھذا الموضع البخیل الممسک۔

(۲) یہ خُطیب شحشح

سید رضی کہتے ھیں کہ شحشح کے بمعنی خطیب ماھر و شُعلہ بیان کے ھیں اور جو زبان آوری یا رفتار میں رواں ھو اسے شحشح کہا جاتا ھے اور دوسرے مقام پر اس کے معنی بخیل اور کنجوس کے ھوتے ھیں۔

خطیب ماھر سے مراد صعصعہ ابنِ صوحان عبدی ھیں جو حضرت کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ امیر المومنین کے اس ارشاد سے ان کی خطابت کی رفعت اور قوّت کلام کی بلندی کا اندازہ ھوسکتا ھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ھے۔

 

وکفیٰ صعصعة بھا فخراً ان یکون مثل علی علیہ السلام یثنی علیہ بالمھارة و فصاحة اللسان۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۵۵)

صعصعہ کے افتخار کے لیے یہ کافی ھے کہ امیر المومنین (ع) ایسے (افصح عالم) ان کی مہارتِ کلام و فصاحتِ بیان کو سراھتے ھیں۔"

۳۔ وفی حدیثہ علیہ السّلام: اِنَّ لِلۡخُصُوۡمَةِ قُحَمًا۔

یُرید بالقحم المھالک: لانھا تقحم أصحابھا فی المھالک و المتالف فی الأکثر، ومن ذٰلک "قحمة الاعراب" وھو أن تصیبھم السنة فتتعرق اموالھم فذٰلک تقحمھا فیھم۔ و قیل فیہ وَجہ آخر، وھو انھا تقحمھم بلاد الریف، أی: تحوجھم الیٰ دخول الحضر عند محول البدو۔

(۳) لڑائی جھگڑنے کا نتیجہ قُحَمۡ ھوتے ھیں۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) قحم سے تباھیاں مراد ھیں کیونکہ (اقحام کے معنی ڈھکیلنے کے ھیں اور) لڑائی جھگڑا عموماً لڑنے جھگڑنے والوں کو مہلکوں اور تباھیوں میں ڈھکیل دیتا ھے۔ اور اسی سے قحمة الاعراب (کی لفظ) ماخوذ ھے اور وہ یہ ھوتی ھے کہ باد یہ نشین عرب خشک سالیوں میں اس طرح مبتلا ھوجائیں، کہ ان کے چوپائے صرف ھڈّیوں کا ڈھانچہ ھوکر رہ جائیں۔ اور یہی اس بلا کا انھیں ڈھکیل دینا ھے۔ اور اس کی ایک اور بھی توجیہ کی گئی ھے اور وہ یہ کہ سختی و شدّت چونکہ انھیں شاداب حصّوں کی طرف ڈھکیل دیتی ھے۔ یعی صحرائی زندگی کی سختی و قحط سالی انھیں شھروں میں چلے جانے پر مجبور کردیتی ھے (اس لیے اسے قحمة کہا جاتا ھے)

۴۔ وفی حدیثہ علیہ السلام: اِذَا بَلَغَ النِّسَاءُ نَصَّ الۡحَقَآئِقِ فَالۡعَصَبَةُ اَوۡلٰی وَ یُرۡوی نَصُّ الۡحَقَاقِ ۔۔۔۔ والنص: منتھی الأشیاء ومبلغ أقصاھا کالنص فی السیر لأنہ أقصی ما تقدر علیہ الدابة و تقول نصصت الرجل عن الأمر؛ اذا استقصیت مسألتہ عنہ لتستخرج ما عندہ فیہ۔ فنص الحقاق یرید بہ الادراک لأنہ منتھی الصغر والوقت الذی یخرج منہ الصغیرُ الی حد الکبیر، وھو من أفصح الکنایات عن ھذا الأمر (و اغربھَا۔ یقول) فاذا بلغ النسآءُ ذلک فالعصبةُ اَولی بالمرأةِ من أمّھا اذا کانوا محرماً مثل الأخوة والاعمام ویتزویجُھا ان ارادوا ذٰلک وَالحقاق محاقةُ الأم للعُصبة فی المرأة وھو الجدالُ والمخصومةُ وقول کل واحد منھما للاٰخر أنا احق منک: بھذا یقال منہ: حاققتُہ حقاقا، مثل جادلتہ جدالا۔ وقد قیل: ان "نصّ الحقاق" بلوغُ العقل، وھو الادراکُ؛ لانہ علیہ السلام انما اراد منتھی الأمر الذی تجب فیہ الحقوق والأحکام، ومن رواہ نص الحقاق" فانما أراد جمع حقیقة۔

ھٰذا معنی ما ذکرہ ابو عبید (القاسم بن سلام) والذی عندی أن المرادَ بنصّ الحقاق ھھنا بلوغُ المرأةِ الی الحد الذی یجوز فیہ تزویجھا وتصرفھا فی حقوقھا تشبیھاً بالحقاق من الابل، وھی جمع حقة و حق وھو الذی استکمل ثلاث سنین و دخل فی الرابعة، و عند ذٰلک یبلغ الی الحد الذی یتمکن فیہ من رکوب ظھرہ و نصّہ فی السیر، والحقاق ایضا: جمع حقة۔ فالروایتان جمیعا ترجعان الی معنی واحد، وھٰذا اشبہ بطریقة العرب من المعنی المذکور۔

(۴) جب لڑکیاں "نص الحقائق" کو پہنچ جائیں تو اُن کے لیے دوھیالی رشتہ دار زیادہ حق رکھتے ھیں۔

سید رضی کہتے ھیں کہ نص الحقائق کی جگہ "نص الحقاق" بھی وارد ھوا ھے۔ "نص" چیزوں کی انتہا اور اُن کی آخری حد کو کہتے ھیں۔ جیسے چوپایہ کی وہ انتہائی رفتار کہ جو وہ دوڑ سکتا ھے "نص" کہلاتی ھے اور یونہی "نصصت الرجل عن الامر" اس موقع پر کہا جائے گا۔ جب کسی شخص سے پوری طرح پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے سب کچھ اُگلوا لیا ھو، تو حضرت نے "نص الحقاق" سے حدِ کمال تک پہنچنا مراد لیا ھے کہ جو بچپن کی حدِ آخر اور وہ زمانہ ھوتا ھے کہ کم سن کم سنی کے حدود سے نکل کر بڑوں کی صف میں داخل ھوتا ھے اور یہ بلوغ کے لیے نہایت فصیح اور بہت عجیب کنایہ ھے۔ حضرت یہ کہنا چاھتے ھیں کہ جب لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں تو دوھیالی رشتہ دار جب کہ وہ محرم بھی ھوں، جیسے بھائی اور چچا، وہ ان کا رشتہ کہیں کرنا چاھیں تو وہ ان کی ماں سے زیادہ رشتہ کے انتخاب کا حق رکھتے ھیں اور "حقاق" سے (لڑکی کی) ماں کا دوھیالی رشتہ داروں سے جھگڑنا مراد ھے اور ھر ایک کا اپنے کو دوسرے سے زیادہ حق دار ثابت کرنا ھے اور اسی سے "حاققتہ حقاقا" بروزن "جادلتہ جدالا" ھے۔ یعنی میں نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا، اور یہ بھی کہا گیا ھے کہ "نص الحقاق" سے مراد بلوغ، عقل اور حد رشد و کمال تک پہنچنا ھے۔ کیونکہ حضرت نے وہ زمانہ مراد لیا ھے کہ جس میں لڑکی پر حقوق و فرائض عائد ھوجاتے ھیں اور جس نے "نص الحقائق" کی روایت کی ھے اس نے حقائق کو حقیقت کی جمع لیا ھے

یہ مفاد ھے اس کا جو ابوعبیدہ قاسم ابن سلام نے کہا ھے۔ مگر میرے خیال میں اس مقام پر "نص الحقاق" سے مراد یہ ھے کہ لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں، کہ جس میں ان کے لیے عقد اور اپنے حقوق کا خود استعمال جائز ھوتا ھے۔

اس طرح سے اسے سہ سالہ اُونٹنیوں سے تشبیہ دی گئی ھے اور "حقاق" "حق" اور "حقّۃ" کی جمع ھے۔ یہ اس اُونٹنی اور اُونٹ کو کہتے ھیں جو تین سال ختم کرنے کے بعد چوتھے سال میں داخل ھو، اور اُونٹ اُس عمر میں سواری اور تیز دوڑانے کے قابل ھوجاتے ھیں اور "حقائق" بھی "حقّہ" کی جمع ھے۔ اس بنا پر دونوں روایتوں کے ایک ھی معنے ھوں گے، اور یہ معنی جو ھم نے بیان کئے ھیں، پہلے معنی سے زیادہ اسلُوب کلامِ عرب سے میل کھاتے ھیں۔

۵۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: اِنَّ الاِیۡمَانَ یَبۡدُوۡ لُمۡظَةً فی الۡقَلۡبِ کُلَّمَا ازدَادَ الاَیۡمَانُ ازۡدَادَتِ اللُّمۡظَةُ،

والّلمظةُ مثل النُکتة أو نحوھا من البیاض۔ ومنہ قیل: فرس ألمَظ اذا کان بححفلتہ شیٔ من البیأض۔

(۵) ایمان ایک "لُمظہ" کی صورت سے دل میں ظاھر ھوتا ھے۔ جُوں جُوں ایمان بڑھتا ھے۔ وہ "لمظہ" بھی بڑھتا جاتا ھے۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) "لُمظہ" سفید نُقطہ یا اُس کے مانند سفید نشان کو کہتے ھیں، اور اسی سے "فرس المظ" اُس گھوڑے کو کہا جاتا ھے جس کے نیچے کے ھونٹ پر کچھ سفیدی ھو

۶۔ وفی حدیثہ علیہ السلام:

اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا کَانَ لَہُ الدَّیۡنُ الظَّنُوۡنَ یَجِبُ عَلَیۡہِ أَنۡ یُزَکِّیَہ لما مَضَے اذَا قَبَضَہُ فَالظنون (الذی لا یعلم صاحبُہ أیقبضہ من الذی ھو علیہ أم لا (فکانہ) الذی یظنّ بہ فمرة یرجوہ ومرة لایرجوہ۔ وھذا من أفصح الکلام؛ وکذلک کل أمر تطلبہ ولا تدری علی أیّ شیٔ انت منہ فھو ظنون وعلی ذٰلک قول الا عشی:

مَا یُجۡعَلُ الۡجُدُّ الظُّنُوۡنُ الَّذِیۡ جُنِّبَ صَوۡبَ اللَّجِبِ الۡمَاطِرِ مِثۡلَ الۡفُرَاتِیِّ اِذَا مَا طَمَا یَقۡذِفُ بِالۡبُوۡصِیِّ وَالۡمَاھِرِ

والجد: البئر (العادیۃ فی الصحراء) والظنون: التی لا یعلم ھل فیھا ماء اَم لا۔

(۶) جو شخص کوئی "دین ظنون" وصول کرے تو جتنے سال اس پر گذرے ھوں گے ان کی زکٰواة دینا ضروری ھے۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) "دین ظنون" وہ قرضہ ھوتا ھے کہ قرض خواہ یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ وہ اسے وصول ھوگا۔ یا انھیں کبھی امید پیدا ھو، اور کبھی نا امیدی اور یہ بہت فصیح کلام ھے۔ یونہی ھر وہ چیز جس کی تمھیں طلب ھو اور یہ نہ جان سکو کہ تم اُسے حاصل کرو گے یا نہیں۔ وہ "ظنون" کہلاتی ھے۔ چنانچہ اعشی کا یہ قول اسی معنی کا حامل ھے جس کا مضمون یہ ھے۔

"وہ "جدظنون" جو گرج کر برسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ھو، دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جاسکتا جبکہ وہ ٹھاٹھیں مار رھا ھو۔ اور کشتی اور اچھّے تیراک کو ڈھکیل کر دُور پھینک رھا ھو۔"

"جد" اس پرانے کنوئیں کو کہتے ھیں جو کسی بیابان میں واقع ھو، اور "ظنون" وہ ھے کہ جس کے متعلق یہ خبر نہ ھو کہ اس میں پانی ھے یا نہیں۔

۷۔ وفی حدیثہ علیہ السلام: أنہ شیّع جیشاً یغزیہ فقال: اَعۡذِبُوۡا عَنِ النِّسَاءِ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ۔ ومعناہ اصدفوا عن ذکر النساء وَشغل القلب بھنّ، وامتنعوا من المقاربة لھن، لأن ذٰلک یفت فی عضدِ الحمیّة ویقدح فی معاقد العزیمة، ویکسر عن العدوّ، ویلفت عن الابعاد فی الغزو، وکلُ من امتنع من شیٔ فقد أعذب منہ۔ والعاذب والعذوب: الممتنع من الأکل والشرب۔

(۷) جب آپ نے لڑنے کے لیے لشکر روانہ کیا، تو اُسے رخصت کرتے وقت فرمایا:

جہاں تک بن پڑے عورتوں سے "عاذب" رھو۔ (سید رضی فرماتے ھیں کہ) اس کے معنی یہ ھیں کہ عورتوں کی یاد میں کھو نہ جاؤ، اور اُن سے دل لگانے اور ان سے مقاربت کرنے سے پرھیز کرو، کیونکہ یہ چیز بازوئے حمیّت میں کمزوری اور عزم کی پختگیوں میں سُستی پیدا کرنے والی ھے اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور اور جنگ میں سعی و کوشش سے روگرداں کرنے والی ھے اور جو شخص کسی چیز سے منہ پھیر لے، اس کے لیے کہا جاتا ھے کہ "اعذب عنہ" (وہ اس سے الگ ھوگیا) اور جو کھانا پینا چھوڑدے اسے "عاذب" اور "عذوب" کہا جاتا ھے۔

۸۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: کَالیَاسِرِالۡفَالِجِ یَنۡتَظِرُ اَوَّلَ فَوۡزَةٍ مِنۡ قِدَاحِہ

الیاسرون: ھم الذین یتضاربون بالقداح علی الجزور، والفالج: القاھرُ الغالب، یقال: فلج علیھم وفلجھم،

وقال الراجز:

لما رایت فالجا قد فلجا

(۸) وہ اس "یاسر فالج" کے مانند ھے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ھی داؤں میں کامیابی کا متوقع ھوتا ھے۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) "یاسرون" وہ لوگ ھوتے ھیں کہ جو نحر کی ھوئی اُونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ھیں اور "فالج" کے معنی جیتنے والے کے ھیں۔ یوں کہا جاتا ھے "قد فلج علیھم وفلجھم" (وہ ان پر غالب ھوا) چنانچہ مشھور رجز نظم کرنے والے شاعر کا قول ھے۔

"جب میں نے کسی "فالج" کو دیکھا کہ اس نے فلج حاصل کی۔

۹۔ و فی حدیثہ علیہ السّلام: کُنّا اِذَا احۡمَرَّ الۡبِأسُ اتَّقَیۡنَا برَسُوۡلِ اللہِ صَلّی اللہُ عَلَیۡہِ وَاٰلِہِ وَسَلّمَ فَلَمۡ یَکُنۡ أحَدٌ مِنَّا أَقۡرَبَ اِلَی الۡعَدُوِّ مِنۡہُ

ومعنی ذٰلک أنہ اِذا عظم الخوف من العدو واشتدّ عضاض الحرب من العدو واشتد عضاض الحرب فزع المسلمون الی قتال رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بنفسہ، فینزل اللہ علیہم النصر بہ، ویامنون ممّا کانوا یخافونہ بمکانہ۔

و قولہ "اِذَا احمرّ الباس، کنایة عن اشتداد الأمر، وقد قیل فی ذٰلک أقوال احسنھا: أنہ شبہ حمی الحرب بالنّار التی تجمع الحرارةَ والحمرةَ بفعلھا ولونھا، وممّا یقوی ذٰلک قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم و قد رأی مجتلد الناس یوم حنین وھی حرب ھوازن: "الآن حمی الوطیس" فالوطیس: مستوقد النار، فشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ما استحر من جلاد القوم باحتدام النار و شدة التھابھا۔

(۹) جب "احمرار" باس ھوتا تھا تو ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سپر میں جاتے تھے، اور ھم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے قریب تر نہ ھوتا تھا۔

(سید رضی کہتے ھیں کہ) اس کا مطلب یہ ھے کہ جب دشمن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ سختی سے کاٹنے لگتی تھی تو مسلمان یہ سہارا ڈھونڈنے لگتے تھے کہ رسول اللہ خود بنفس نفیس جنگ کریں تو اللہ تعالیٰ آنحضرت (ص) کی وجہ سے ان کی نصرت فرمائے اور آپ کی موجودگی کے باعث خوف و خطر کے موقع سے محفوظ رھیں۔

حضرت کا ارشاد جب "احمرار باس" ھوتا تھا (جس کے لفظی معنی یہ ھیں کہ جنگ سُرخ ھوجاتی تھی) یہ کنایہ ھے جنگ کی شدّت و سختی سے اور اس کی توجیہ میں چند اقوال ذکر کئے گئے ھیں۔ مگر ان مین سب سے بہتر قول یہ ھے کہ آپ نے جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگ سے تشبیہ دی ھے جو اپنے اثر اور رنگ دونوں کے اعتبار سے گرمی اور سُرخی لیے ھوتی ھے، اور اس معنی کی تائید اس سے بھی ھوتی ھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حنین کے دن قبیلۂ بنی ھوازن کی جنگ میں لوگوں کو جنگ کرت ے دیکھا، تو فرمایا! اب "وطیس" گرم ھوگیا۔ "وطیس" اُس جگہ کو کہتے ھیں جس میں آگ جلائی جائے۔ اس مقام پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے لوگوں کے میدانِ کارزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے لپکوں کی تیزی سے تشبیہ دی ھے۔

261. وقال (عليه السلام) لما بلغه إغارةُ أصحاب معاويةَ علٰى الانبار، فخرج بنفسه ماشياً حتى أتى النُّخَيْلَةَ، فأدركه الناسُ وقالوا: يا أميرالمؤمنين نحن نكفيكَهُمْ.

فقال (عليه السلام): مَا تَكْفُونَنِي أَنْفُسَكُمْ، فَكَيْفَ تَكْفُونَنِي غَيْرَكُمْ؟ إِنْ كَانَتِ الرَّعَايَا قَبْلِي لَتَشْكُوا حَيْفَ رُعَاتِهَا، وَإِنَّنِي الْيَوْمَ لاََشْكُو حَيْفَ رَعِيَّتِي، كَأَنَّنِيَ الْمَقُودُ وَهُمُ الْقَادَةُ، أَوِ ألْمَوْزُوعُ وَهُمُ الْوَزَعَةُ ۔

فلما قال (عليه السلام) هذا القول، في كلام طويل قد ذكرنا مختارَه في جملةِ الخُطَب، تقدّم إليه رجلان من أصحابه فقال أحدهما: إنّي لا أملك إلاّ نفسي وأخي، فَمُرْنا بأمرك يا أميرالمؤمنين نُنْفِد له. فقال (عليه السلام): وأَيْنَ تَقَعَانِ مِمَّا أُريدُ؟

261. جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ اطلاع ملی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے (شہر) انبار پر دھاوا کیا ھے تو آپ بنفس نفیس پیادہ پا چل کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نخیلہ تک پہنچ گئے، اتنے میں لوگ بھی آپ کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین (ع)! ہم دشمن سے نپٹ لیں گے۔ آپ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے سے تو میرا بچاؤ کر نہیں سکتے دوسروں سے کیا بچاؤ کرو گے۔ مجھ سے پہلے رعایا اپنے حاکموں کے ظلم و جورکی شکایت کیا کرتی تھی مگر میں آج اپنی رعیت کی زیادتیوں کا کرتا ہوں، گویا کہ میں رعیت ہوں اور وہ حاکم اور میں حلقہ بگوش ہوں اور وہ فرمانروا۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ )جب امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک طویل کلام کے ذیل میں کہ جس کا منتخب حصہ ہم خطب میں درج کر چکے ہیں یہ کلمات ارشاد فرمائے تو آپ کے اصحاب میں سے دو شخص اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ یا امیر المومنین (ع)! مجھے اپنی ذات اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر اختیار نہیں تو آپ ہمیں حکم دیں ہم اسے بجالائیں گے جس پر حضر ت نے فرمایا کہ میں جو چاہتا ہوں وہ تم دوآدمیوں سے کہاں سرانجا م پاسکتا ہے؟

262. وقيل: إنّ الحارث بن حَوْط أتاه فقال: أتُراني أظنّ أصحابَ الجمل كانوا علىٰ ضلالة؟

فقال (عليه السلام): يَا حَارِث، إِنَّكَ نَظَرْتَ تَحْتَكَ وَلَمْ تَنْظُرْ فَوْقَكَ فَحِرْتَ! إِنَّكَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَبَاهُ، وَلَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاهُ. فقال الحارث: فإنّي أَعتزل مع سعد بن مالك وعبد الله بن عمر؟

فقال (عليه السلام): إِنَّ سَعِداً وَعَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ لَمْ يَنْصُرَا الْحَقَّ، وَلَمْ يَخْذُلاَ الْبَاطِلَ.

262. بیان کیا گیا ہے کہ حارث ابن حوط حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ کے خیال میں مجھے اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟

حضرت نے فرمایا کہ اے حارث !تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طرف نگاہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔

حارث نے کہا کہ میں سعد ابن مالک اور عبداللہ ابن عمر کے ساتھ گوشہ گزیں ہوجاؤں گا۔

حضرت نے فرمایا کہ !

سعد اور عبداللہ ابن عمر نے حق کی مدد کی اور نہ باطل کی نصرت سے ہاتھ اٹھایا۔

سعد ابن مالک (سعد بن ابی وقاص) اورعبداللہ ابن عمر ان لوگوں میں سے تھے جو امیر المومنین (ع) کی رفاقت وہمنوائی سے منہ موڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ سعد ابن ابی وقاص تو حضر ت عثمان کے قتل کے بعد ایک صحرا کی طرف منتقل ہوگئے اور وہیں زندگی گزار دی، اور حضرت کی بیعت نہ کرنا تھی نہ کی اور عبداللہ ابن عمر نے اگرچہ بیعت کر لی تھی۔ مگر جنگوں میں حضرت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا اور عذر یہ پیش کیا تھا کہ میں عبادت کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرچکاہوں اب حرب و پیکار سے کوئی سروکار رکھنا نہیں چاہتا۔

عزر ھائے این چنیس نزد خرد بیشکے عذرے است برتر از گناہ

263. وقال (عليه السلام): صَاحِبُ السُّلْطَانِ كَرَاكِبِ الاَْسَدِ: يُغْبَطُ بِمَوْقِعِهِ، وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَوْضِعِهِ.

263. بادشاہ کا ندیم و مصاحب ایسا ہے جیسے شیر پر سوار ہونے والا کہ اس کے مرتبہ پر رشک کیا جاتا ہے وہ اپنے موقف سے خوب واقف ہے۔

مقصد یہ ہے کہ جسے بارگاہ سلطانی میں تقرب حاصل ہوتا ہے لوگ اس کے جاہ و منصب اور عزت و اقبال کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، مگر خود اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بادشاہ کی نظریں اس سے پھر نہ جائیں، اور وہ ذلت و رسوائی یا موت و تباہی کے گڑھے میں نہ جاپڑے جیسے شیر سوار کہ لوگ اس سے مرعوب ہوتے ہیں اور وہ اس خطرہ میں گھرا ہوتا ہے کہ کہیں یہ شیر اسے پھاڑنہ کھائے یا کسی مہلک گڑھے میں نہ جاگرائے.

 

 

264. وقال (عليه السلام): أَحْسِنُوا فِي عَقِبِ غَيْرِكُمْ تُحْفَظُوا فِي عَقِبِكُمْ .

264. دوسروں کے پسماندگان سے بھلائی کرو۔ تاکہ تمہارے پسماندگان پر بھی نظرشفقت پڑے۔

265. وقال (عليه السلام): إِنَّ كَلاَمَ الْحُكَمَاءِ إنَّ كَانَ صَوَاباً كَانَ دَوَاءً، وَإِذَا كَانَ خَطَأً كَانَ دَاءً.

265. جب حکماء کا کلام صحیح ہو تو وہ دوا ہے اور غلط ہوتو سراسر مرض ہے.

علمائے مصلحین کا طبقہ اصلاح کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، اور فساد کا بھی کیونکہ عوام ان کے زیر اثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو صحیح و معیاری سمجھتے ہوئے اس سے استناد کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر ان کی تعلیم اصلاح کی حامل ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ہزارو ں افراد صلاح و رشد سے آراستہ ہوجائیں گے اور اگر اس میں خرابی ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد گمراہی و بے راہروی میں مبتلا ہوجائیں گے.اسی لیے کہا جاتا ہے کہ "اذا فسد العالِم فسدا العالَم" جب عالم میں فساد رونما ہوتا ہے تو اس فساد کا اثر ایک دنیا پر پڑتا ہے۔

 

266. وسأَله (عليه السلام) رجل أَن يعرّفه الايمان.

فقال: إِذَا كَانَ غَدٌ فَأْتِنِي حَتَّىٰ أُخْبِرَكَ عَلَى أَسْمَاعِ النَّاسِ، فإِنْ نَسِيتَ مَقَالَتِي حَفِظَهَا عَلَيْكَ غَيْرُكَ، فَإِنَّ الْكَلاَمَ كَالشَّارِدَةِ، يَنْقُفُهَا هذَا وَيُخْطِئُهَا هذَا.

وقد ذكرنا ما أجابه به فيما تقدم من هذا الباب، وهو قوله الايمان علىٰ أربع شعب.

266. حضرت سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کل میرے پاس آنا تاکہ میں تمہیں اس موقع پربتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤتو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لیے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتاہے کہ ایک کی گرفت میں آجاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

(سید رضی کہتے ہیں کہ)حضرت نے اس کے بعد جو جواب دیا وہ ھم اسی باب میں پہلے درج کرچکے ھیں اور وہ آپ کا یہ ارشا د تھا کہ «الایمان علی اربع شعب»( ایمان کی چار قسمیں ہیں )

267. وقال (عليه السلام): يَا ابْنَ آدَمَ، لاَ تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَأْتِكَ عَلَىٰ يَوْمِكَ الَّذِي قَدْ أَتَاكَ، فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللهُ فِيهِ بِرِزْقِكَ.

267. اے فرزند آدم (ع)! اس دن کی فکر کا بارجو ابھی آیا نہیں، آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آچکا ہے۔ اس لیے کہ اگرایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہوگا، تواللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا۔

268. وقال (عليه السلام): أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْناً مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْماً مَا، وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْناً مَا عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْماً مَا.

268. اپنے دوست سے بس ایک حد تک محبت کرو کیونکہ شاید کسی دن وہ تمہارا دشمن ہوجائے اور دشمن کی دشمنی بس ایک حد میں رکھو ہوسکتا ہے کہ کسی دن وہ تمہار ا دوست ہوجائے۔

269. وقال (عليه السلام): النَّاسُ فِي الدُّنْيَا عَامِلاَنِ: عَامِلٌ عَمِلَ (فِي الدُّنْيَا) لِلدُّنْيَا، قَدْ شَغَلَتْهُ دُنْيَاهُ عَنْ آخِرَتِهِ، يَخْشَى عَلَى مَنْ يَخْلُفُهُ الْفَقْرَ، وَيأْمَنُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ، فَيُفْنِي عُمُرَهُ فِي مَنْفَعَةِ غَيْرِهِ. وَعَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا، فَجَاءَهُ الَّذِي لَهُ مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ عَمَل، فَأَحْرَزَ الْحَظَّيْنِ مَعاً، وَمَلَكَ الدَّارَيْنِ جَمِيعاً، فَأَصْبَحَ وَجِيهاً عِنْدَاللهِ، لاَ يَسْأَلُ اللهَ حَاجَةً فَيَمْنَعَهُ.

269. دنیا میں کام کرنے والے دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دنیا کے لیے سر گرم عمل رہتا ہے اور اسے دنیا نے آخرت سے روک رکھا ہے۔ وہ اپنے پسماندگان کے لیے فقر و فاقہ کا خوف کرتا ہے مگر اپنی تنگدستی سے مطمئن ہے تو وہ دوسروں کے فائدہ ہی میں پوری عمر بسر کردیتاہے اور ایک وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اس کے بعد کی منزل کے لئے لیے عمل کرتا ہے تو اسے تگ ودو کئے بغیر دنیا بھی حاصل ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ دونوں حصوں کو سمیٹ لیتا ہے اور دونوں گھروں کا مالک بن جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک باوقار ہوتا ہے اور اللہ سے کوئی حاجت نہیں مانگتا جو اللہ پوری نہ کرے۔

270. وروي أنه ذكر عند عمر بن الخطاب في أيامه حَلْي الكعبةِ وكثرتُهُ، فقال قوم: لو أخذته فجهزتَ به جيوش المسلمين كان أَعظم للاجر، وما تصنع الكعبةُ بالْحَلْي؟ فهمّ عمر بذلك، وسأل عنه أميرالمؤمنين(عليه السلام).

فقال: إِنَّ القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ(صلى الله عليه وآله) وَالاَْمْوَالُ أَرْبَعَةٌ: أَمْوَالُ الْمُسْلِمِينَ فَقَسَّمَهَا بَيْنَ الْوَرَثَةِ فِي الْفَرَائِضِ، وَالْفَيْءُ فَقَسَّمَهُ عَلَىٰ مُسْتَحِقِّيهِ، وَالْخُمُسُ فَوَضَعَهُ اللهُ حَيْثُ وَضَعَهُ، وَالصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللهُ حَيْثُ جَعَلَهَا. وَكَانَ حَلْيُ الْكَعْبَةِ فِيهَا يَوْمَئِذ، فَتَرَكَهُ اللهُ عَلَىٰ حَالِهِ، وَلَمْ يَتْرُكْهُ نِسْيَاناً، وَلَمْ يَخْفَ عَلَيْهِ مَكَاناً، فَأَقِرَّهُ حَيْثُ أَقَرَّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ. فقال له عمر: لولاك لافتضحنا. وترك الحَلْي بحاله.

270. بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب کے سامنے خانۂ کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگرآپ ان زیورات کو لے لیں اور انہیں مسلمانوں کے لشکر پر صرف کرکے ان کی روانگی کا سامان کریں تو زیادہ باعث اجر ہوگا، خانہ کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ عمر نے اس کا ارادہ کر لیا اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اس کے بار ے میں مسئلہ پوچھا۔

آپ نے فرمایا کہ جب قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تو اس وقت چار قسم کے اموال تھے، ایک مسلمانوں کا ذاتی مال تھا، اسے آپ نے ان کے وارثوں میں ان کے حصہ کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا مال غنیمت تھا، اسے اس کے مستحقین پر تقسیم کیا۔ تیسرا مال خمس تھا، اس مال کے اللہ تعالیٰ نے خاص مصارف مقرر کردیئے۔ چوتھے زکوٰة و صدقات تھے، انہیں اللہ نے وہاں صرف کرنے کاحکم دیا جو ان کامصرف ہے۔ یہ خانہ کعبہ کے زیورات اس زمانہ میں بھی موجود تھے لیکن اللہ نے ان کو ان کے حال پر رہنے دیا اور ایسا بھولے سے تو نہیں ہوا، اور نہ ان کا وجود اس پر پوشیدہ تھا۔ لہٰذا آپ بھی انہیں وہیں رہنے دیجئے جہاں اللہ اور اس کے رسول (ص) نے انہیں رکھاہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہوجاتے اور زیورات کو ان کی حالت پر رہنے دیا۔

271. وروي أنه (عليه السلام) رُفع إليه رجلان سرقا من مال الله، أحدهما عبد من مال الله، والآخر من عُرُضِ الناس.

فقال (عليه السلام): أَمَّا هذَا فَهُوَ مِنْ مَالِ اللهِ وَلاَ حَدَّ عَلَيْهِ، مَالُ اللهِ أَكَلَ بَعْضُهُ بَعْضاً، وَأَمَّا الاْخَرُ فَعَلَيْهِ الْحَدُّ، (الشَّدیدُ) فقطع يده.

271. روایت کی گئی ہے کہ حضرت کے سامنے دو آدمیوں کو پیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال میں چوری کی تھی ایک تو ان میں غلام اور خود بیت المال کی ملکیت تھا، اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ »یہ غلام جو بیت المال کا ہے اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ کا مال اللہ کے مال ہی نے کھایا ہے لیکن دوسرے پر حد جاری ہوگی"۔ چنانچہ اس کا ہاتھ قطع کردیا۔

272. وقال (عليه السلام): لَوْ قَدِ اسْتَوَتْ قَدَمَايَ مِنْ هذِهِ الْمَدَاحِضِ لَغَيَّرْتُ أَشْيَاءَ.

272. اگران پھسلنوں سے بچ کر میرے پیر جم گئے تومیں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کر دوں گا۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیغمبر اسلام کے بعد دین میں تغیرات رونما ہونا شروع ہوگئے اور کچھ افراد نے قیاس و رائے سے کام لے کر احکام شریعت میں ترمیم و تنسیخ کی بنیاد ڈال دی۔ حالانکہ حکم شرعی میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا، کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام کو ٹھکرا کر اپنے قیاسی احکام کا نفاذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم میں طلاق کی یہ واضح صورت بیان ہوئی ہے کہ “الطلاق مرّتٰن” طلاق ( رجعی کہ جس میں بغیر محلل کے رجوع ہوسکتی ہے )دو مرتبہ ہے مگر حضرت عمر نے بعض مصالح کے پیش نظر ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کے واقع ہونے کا حکم دے دیا۔ اسی طرح میراث میں عول کا طریقہ رائج کیا گیا اورنماز جنازہ میں چار تکبیروں کو رواج دیا یونہی حضرت عثمان نے نماز جمعہ میں ایک اذان بڑھا دی اور قصر کے موقع پر پوری نماز کے پڑھنے کا حکم دیا اور نماز عید میں خطبہ کو نماز پر مقدم کر دیا.اور اسی طرح کے بے شمار احکام وضع کرلیے گئے جس سے صحیح احکام بھی غلط احکام کے ساتھ مخلوط ہوکر بے اعتماد بن گئے۔

امیرالمومنین علیہ السلام جو شریعت کے سب سے زیادہ واقف کار تھے وہ ان احکام کے خلاف احتجاج کرتے اور صحابہ کے خلاف اپنی رائے رکھتے تھے چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ :

 

و لسنا نشک انہ کان یذھب فی الاحکام الشرعیة والقضایا الیٰ اشیاء یخالف فیھا اقوال الصحابة۔ (شرح ابن ابی الحدید ج۴ ص ۳۷۳)

ہمارے لیے اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ امیرالمومنین (ع) شرعی احکام و قضایا میں صحابہ کے خلاف رائے رکھتے تھے.

 

جب حضرت ظاہری خلافت پر متمکن ہوئے تو ابھی آپ کے قدم پوری طرح سے جمنے نہ پائے تھے کہ چاروں طر ف سے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان الجھنوں سے آخر وقت تک چھٹکارا حاصل نہ کرسکے جس کی وجہ سے تبدیل شدہ احکام میں پوری طرح ترمیم نہ ہوسکی، اور مرکز سے دور علاقوں میں بہت غلط سلط احکام رواج پاگئے۔ البتہ وہ طبقہ جو آپ سے وابستہ تھا، وہ آپ سے احکام شریعت کو دریافت کرتا تھا، اور انہیں محفوظ رکھتا تھا جس کی وجہ سے صحیح احکام نابود اور غلط مسائل ہمہ گیر نہ ہوسکے۔

 

 

273. وقال (عليه السلام): اعْلَمُوا عِلْماً يَقِيناً أَنَّ اللهَ لَمْ يَجْعَلْ لِلْعَبْدِ ـ وَإِنْ عَظُمَتْ حِيلَتُهُ، وَاشْتَدَّتْ طِلْبَتُهُ، وَقَوِيَتْ مَكِيْدَتُهُ ـ أَكْثَرَ مِمَّا سُمِّيَ لَهُ فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ، وَلَمْ يَحُلْ بَيْنَ الْعَبْدِ فِي ضَعْفِهِ وَقِلَّةِ حِيلَتِهِ وَبَيْنَ أَنْ يَبْلُغَ مَا سُّمِّيَ لَهُ فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ، وَالْعَارِفُ لِهذَا الْعَامِلُ بِهِ أَعْظَمُ النَّاسِ رَاحَةً فِي مَنْفَعَة، وَالتَّارِكُ لَهُ الشَّاكُّ فِيهِ أَعْظَمُ النَّاسِ شُغُلاً فِي مَضَرَّة. وَرُبَّ مُنْعَم عَلَيْهِ مُسْتَدْرَجٌ بِالنُّعْمَى، وَرُبَّ مُبْتَلىً مَصْنُوعٌ لَهُ بِالْبَلْوَى فَزِدْ أَيُّهَا الْمُسْتَمِعُ فِي شُكْرِكَ، وَقَصِّرْ مِنْ عَجَلَتِكَ، وَقِفْ عِنْدَ مُنتَهَى رِزْقِكَ.

273. پورے یقین کے ساتھ اس امر کو جانے رہو کہ اللہ سبحانہ نے کسی بندے کے لیے چاہے اس کی تدبیریں بہت زبردست، اس کی جستجو شدید اور اس کی ترکیبیں طاقت ور ہوں اس سے زائد رزق قرار نہیں دیا جتنا کہ تقدیر الٰہی میں اس کے لیے مقرر ہوچکا ہے۔ اور کسی بندے کے لیے اس کی کمزوری و بے چارگی کی وجہ سے لوح محفو ظ میں اس کے مقررہ رزق تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کو سمجھنے والا اور اس پر عمل کر نے والا سود و منفعت کی راحتوں میں سب لوگوں سے بڑھ چڑھ کر ہے اور اسے نظر انداز کرنے اوراس میں شک و شبہ کرنے والا سب لوگوں سے زیادہ زیاں کاری میں مبتلاہے بہت سے وہ جنہیں نعمتیں ملی ہیں، نعمتوں کی بدولت کم کم عذاب کے نزدیک کئے جارہے ہیں، اور بہت سوں کے ساتھ فقر و فاقہ کے پردہ میں اللہ کا لطف وکرم شامل حال ہے لہٰذا اے سننے والے شکر زیادہ اور جلد بازی کم کر اور جو تیری روزی کی حدہے اس پر ٹھہرا رہ.

274. وقال (عليه السلام): لاَ تَجْعَلُوا عِلْمَكُمْ جَهْلاً، وَيَقِينَكُمْ شَكّاً، إِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا، وَإِذَا تَيَقَّنْتُمْ فَأَقْدِمُوا.

274. اپنے علم کو اور اپنے یقین کو شک نہ بناؤ جب جان لیا تو عمل کرو، اور جب یقین پیدا ہوگیا تو آگے بڑھو۔

علم و یقین کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مطابق عمل کیا جائے اور اگراس کے مطابق عمل ظہور میں نہ آئے تواسے علم ویقین سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مجھے یقین ہے کہ فلاں راستہ میں خطرات ہیں اور وہ بے خطر راستہ کو چھوڑ کر اسی پُر خطر راستہ میں راہ پیمائی کرے، تو کون کہہ سکتاہے کہ وہ اس راہ کے خطرات پر یقین رکھتا ہے۔ جبکہ اس یقین کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس راستہ ہر چلنے سے احتراز کرتا۔ اسی طرح جو شخص حشرونشراور عذاب و ثواب پر یقین رکھتا ہو وہ دنیا کی غفلتوں سے مغلوب ہو کر آخرت کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ عذاب و عقاب کے خوف سے عمل میں کوتاہی کا مرتکب ہوسکتاہے۔

 

 

275. وقال (عليه السلام): إِنَّ الطَّمَعَ مُورِدٌ غَيْرُ مُصْدِر، وَضَامِنٌ غَيْرُ وَفِيّ. وَرُبَّمَا شَرِقَ شَارِبُ الْمَاءِ قَبْلَ رِيِّهِ،كُلَّمَا عَظُمَ قَدْرُ الشَّيْءِ الْمُتَنَافَسِ فِيهِ عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ لِفَقْدِهِ، وَالاَْمَانِيُّ تُعْمِي أَعْيُنَ الْبَصَائِرِ، وَالْحَظُّ يَأتِي مَنْ لاَ يَأْتِيهِ.

275. طمع گھاٹ پر اتارتی ہے مگر سیراب کئے بغیر پلٹا دیتی ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر اسے پورا نہیں کرتی۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پانی پینے والے کو پینے سے پہلے ہی اچھو ہوجاتا ہے۔ اور جتنی کسی مرغوب و پسندیدہ چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے کھودینے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔ آرزوئیں دیدۂ بصیرت کو اندھا کردیتی ہیں اور جو نصیب میں ہوتا ہے پہنچنے کی کوشش کئے بغیر مل جاتا ہے۔

276. وقال (عليه السلام): اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ تُحَسِّنَ فِي لاَمِعَةِ الْعُيُونِ عَلاَنِيّتِي، وَتُقَبِّحَ فِيَما أُبْطِنُ لَكَ سَرِيرَتيِ، مُحَافِظاً عَلَىٰ رِيَاءِ النَّاسِ مِنْ نَفْسِي بِجَمِيعِ مَا أَنْتَ مُطَّلِعٌ عَلَيْهِ مِنِّي، فَأُبْدِيَ لِلنَّاسِ حُسْنَ ظَاهِرِي، وَأُفْضِيَ إِلَيْكَ بِسُوءِ عَمَلِي، تَقَرُّباً إلَىٰ عِبَادِكَ، وَتَبَاعُداً مِنْ مَرْضَاتِكَ.

276. اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا ظاہر لوگوں کی چشمِ ظاہر ہیں میں بہتر ہو اور جو اپنے باطن میں چھپائے ہوئے ہوں، وہ تیری نظروں میں بُرا ہو۔ درآں حالیکہ میں لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے نفس سے ان چیزوں سے کروں۔ جن سب سے تو آگاہ ہے۔ اس طرح لوگوں کے سامنے تو ظاہر کے اچھا ہونے کی نمائش کروں اور تیرے سامنے اپنی بداعمالیوں کو پیش کرتا رہوں جس کے نتیجہ میں تیرے بندوں سے تقرب حاصل کروں، اور تیری خوشنودیوں سے دور ہی ہوتا چلاجاؤں۔

277. وقال (عليه السلام): لاَ وَالَّذِي أَمْسَيْنَا مِنْهُ فِي غُبَّرِ لَيْلَةٍ دَهْمَاءَ، تَكْشِرُ عَنْ يَوْم أَغَرَّ، مَا كَان كَذَا و كَذا.

277. (کسی موقع پرقسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا)اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے ایسی شبِ تار کے باقی ماندہ حصہ کو بسر کردیا۔ جس کے چھٹتے ہی روزِ درخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہوا.

278. وقال (عليه السلام): قَلِيلٌ تَدُومُ عَلَيْهِ أَرْجَىٰ مِنْ كَثِير مَمْلُول (مِنہُ).

278. وہ تھوڑا عمل جو پابندی سے بجالایا جاتا ہے زیادہ فائدہ مند ہے اس کثیر عمل سے کہ جس سے دل اکتا جائے۔

279. وقال (عليه السلام): إذَا أَضَرَّتِ النَّوَافِلُ بالْفَرَائِضِ فَارْفُضُوهَا.

279. جب مستحبات فرائض میں سدِ راہ ہوں تو انہیں چھوڑ دو.

280. وقال (عليه السلام): مَنْ تَذَكَّرَ بُعْدَ السَّفَرِ اسْتَعَدَّ.

280. جو سفرکی دوری کو پیش نظر رکھتا ہے وہ کمر بستہ رہتاہے۔

281. وقال (عليه السلام): لَيْسَتِ الرَّوِيَّةُ كَالْـمُعَايَنَةِ مَعَ الاِْبْصَارِ، فَقَدْ تَكْذِبُ الْعُيُونُ أَهْلَهَا، وَلاَ يَغُشُّ الْعَقْلُ مَنِ اسْتَنْصَحَهُ.

281. آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا نہیں کیونکہ آنکھیں کبھی اپنے اشخاص سے غلط بیانی بھی کرجاتی ہیں مگر عقل اس شخص کو جو اس سے نصیحت چاہے کبھی فریب نہیں دیتی۔

282. وقال (عليه السلام): بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الْمَوْعِظَةِ حِجَابٌ مِنَ الْغِرَّةِ.

282. تمہارے اور پند و نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک بڑا پردہ حائل ہے۔

283. وقال (عليه السلام): جَاهِلُكُمْ مُزْدَادٌ، وَعَالِمُكُمْ مُسَوِّفٌ.

283. تمہارے جاہل دولت زیادہ پاجاتے ہیں اور عالم آئندہ کے توقعات میں مبتلا رکھے جاتے ہیں۔

284. وقال (عليه السلام): قَطَعَ الْعِلْمُ عُذْرَ الْمُتَعَلِّلِينَ.

284. علم کا حاصل ہوجانا، بہانے کرنے والوں کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔

285. وقال (عليه السلام): كُلُّ مُعَاجَلٍ يَسْأَلُ الاِْنْظَارَ، وَكُلُّ مُؤَجَّلٍ يَتَعَلَّلُ بالتَّسْويفِ.

285. جسے جلدی سے موت آجاتی ہے وہ مہلت کا خواہاں ہوتا ہے اور جسے مہلت زندگی دی گئی ہے وہ ٹال مٹول کرتارہتا ہے۔

286. وقال (عليه السلام): مَا قَالَ النَّاسُ لِشَيْء (طُوبَى لَهُ) إِلاَّ وَقَدْ خَبَأَ لَهُ الدَّهْرُ يَوْمَ سَوْء.

286. لوگ کسی شے پر «واہ واہ» نہیں کرتے مگر یہ کہ زمانہ اس کے لیے ایک برا دن چھپائے ہوئے ہے۔

287. وسئل عن القدر، فقال: طَرِيقٌ مُظْلِمٌ فَلاَ تَسْلُكُوهُ، وَبَحْرٌعَمِيقٌ فَلاَ تَلِجُوهُ، وَسِرُّ اللهِ فَلاَ تَتَكَلَّفُوهُ.

287. آپ سے قضا و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا ! یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ.ایک گہرا سمندر ہے۔ اس میں نہ اترو اللہ کا ایک راز ہے اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ.

288. وقال (عليه السلام): إِذَا أَرْذَلَ اللهُ عَبْداً حَظَرَ عَلَيْهِ الْعِلْمَ.

288. اللہ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش سے محروم کردیتاہے۔

289. وقال (عليه السلام): كَانَ لِي فيَِما مَضَى أَخٌ فِي اللهِ، وَكَانَ يُعْظِمُهُ فِي عَيْنِي صِغَرُ الدُّنْيَا فِي عَيْنِهِ، وَكَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِهِ فَلاَ يَشْتَهِي مَا لاَ يَجِدُ وَلاَ يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ، وَكَانَ أَكْثَرَ دَهْرِهِ صَامِتاً فإِنْ قَالَ بَدََّ الْقَائِلِينَ وَنَقَعَ غَلِيلَ السَّائِلِينَ، وَكَانَ ضَعِيفاً مُسْتَضْعَفاً! فَإِنْ جَاءَ الْجِدُّ فَهُوَ لَيْثُ غَاب وَصِلُّ وَاد لاَ يُدْلِي بِحُجَّة حَتَّى يَأْتِيَ قَاضِياً، وَكَانَ لاَ يَلُومُ أَحَداً عَلَىٰ مَا يَجِدُ الْعُذْرَ فِي مِثْلِهِ حَتَّىٰ يَسْمَعَ اعْتِذَارَهُ، وَكَانَ لاَ يَشْكُو وَجَعاً إِلاَّ عِنْدَ بُرْئِهِ، وَكَانَ يقُولُ مَا يَفْعَلُ وَلاَ يَقُولُ مَا لاَ يَفْعَلُ، وَكَانَ إذَا غُلِبَ عَلَى الْكَلاَمِ لَمْ يُغْلَبْ عَلَىٰ السُّكُوتِ، وَكَانَ عَلَىٰ مَا يَسْمَعُ أَحْرَصَ مِنْهُ عَلَىٰ أَنْ يَتَكَلَّمَ، وَكَان إذَا بَدَهَهُ أَمْرَانِ یَنَظُرُ أَيُّهُمَا أَقْرَبُ إِلَى الْهَوَى فَخَالَفَهُ. فَعَلَيْكُمْ بِهذِهِ الْخَلاَئِقِ فَالْزَمُوهَا وَتَنَافَسُوا فِيهَا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيعُوهَا فَاعْلَمُوا أَنَّ أَخْذَ الْقلِيلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِيرِ.

289. عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیااس کی نظروں میں پست و حقیر تھی۔ اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔ لہٰذا جوچیز اُسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتا تھا۔ وہ اکثر اوقات خاموش رہتا تھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرادیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔ یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا، مگر جہاد کا موقع آجائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اژدھا تھا۔ وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا، وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔ وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی، کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وہ کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا، مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکارا پا لیتا تھا، وہ جو کرتا تھا، وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا.اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پا بھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا.وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچیزیں آجاتی تھیں تو وہ دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔ لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے اگر ان تمام کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کرنا پور ے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔

حضرت نے اس کلام میں جس شخص کو بھائی کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے اس کے عادات و شمائل کا تذکرہ کیا ہے اس سے بعض نے حضرت ابو ذر غفار ی، بعض نے عثمان ابن مظعون اور بعض نے مقداد ابن اسود کو مراد لیا ہے مگر بعید نہیں کہ اس سے کوئی فرد خاص مراد نہ ہو کیونکہ عرب کا یہ عام طریقۂ کلام ہے کہ وہ اپنے کلام میں اپنے بھائی یا ساتھی کا ذکر کرجاتے ھیں، اور کوئی معین شخص ان کے پیش نظر نہیں ہوتا ۔

290. وقال (عليه السلام): لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللهُ عَلَى مَعْصِيَة لَكَانَ يَجِبُ أَنْ لاَ يُعْصَى شُكْراً لِنِعَمِهِ.

290. اگر خداوند عالم نے اپنی معصیت کے عذاب سے نہ ڈرایا ہوتا، جب بھی اس کی نعمتوں پر شکر کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی معصیت نہ کی جائے۔

291. وقال (عليه السلام)، وقد عزّى الاشعثَ بن قيس عن ابن له:

يَا أَشْعَثُ، إِنْ تَحْزَنْ عَلَى ابْنِكَ فَقَدِ اسْتَحَقَّتْ مِنْكَ ذالِکَ الرَّحِمُ، وَإِنْ تَصْبِرْ فَفِي اللهِ مِنْ كُلِّ مُصِيبَة خَلَفٌ.

يَا أَشْعَثُ، إِنْ صَبَرْتَ جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وَأَنْتَ مَأْجُورٌ، وَإِنْ جَزِعْتَ جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وَأَنْتَ مَأْزُورٌ. (یا اَشعَثُ) ابْنُكَ سَرَّكَ وَهُوَ بَلاَءٌ وَفِتْنَةٌ، وَحَزَنَكَ وَهُوَ ثَوَابٌ وَرَحْمَةٌ .

291. اشعث ابن قیس کو اس کے بیٹے کا پرسا دیتے ہوئے فرمایا:

اے اشعث !اگرتم اپنے بیٹے پر رنج وملال کرو تو یہ خون کا رشتہ اس کا سزا وار ہے، اور اگرصبر کرو تو اللہ کے نزدیک ہر مصیبت کا عوض ہے۔ اے اشعث !اگرتم نے صبر کیا تو تقدیر الہی نافذ ہوگی اس حال میں کہ تم اجر و ثواب کے حقدار ہو گے اور اگر چیخے چلائے، جب بھی حکم قضا جاری ہو کر رہے گا۔ مگر اس حال میں کہ تم پر گناہ کا بوجھ ہوگا۔ تمہارے لیے بیٹا مسرت کا سبب ہوا حالانکہ وہ ایک زحمت و آزمائش تھا اور تمہارے لیے رنج واندوہ کا سبب ہوا حالانکہ وہ (مرنے سے )تمہارے لیے اجر و رحمت کا باعث ہوا ہے۔

292. وقال (عليه السلام) على قبر رسول الله(صلى الله عليه وآله) ساعة دُفِنَ: إِنَّ الصَّبْرَ لَجَمِيلٌ إِلاَّ عَنْكَ، وَإِنَّ الْجَزَعَ لَقَبِيحٌ إِلاَّ عَلَيْكَ، وَإِنَّ الْمُصَابَ بِكَ لَجَلِيلٌ، وَإِنَّهُ قَبْلَكَ وَبَعْدَكَ لَجَلَلٌ .

292. رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے وقت قبر پر یہ الفاظ کہے:

صبر عموماًاچھی چیز ہے سوائے آپ کے غم کے اور بیتابی و بے قراری عموما ًبری چیز ہے سوائے آپ کی وفات کے اور بلاشبہ آپ کی موت کا صدمہ عظیم ہے، اور آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آنے والی ھر مصیبت سبک ہے.

293. وقال (عليه السلام): لاَ تَصْحَبِ الْمَائِقَ فَإِنَّهُ يُزَيِّنُ لَكَ فِعْلَهُ، وَيَوَدُّ أَنْ تَكُونَ مِثْلَهُ.

293. بے وقوف کی ہم نشینی اختیار نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی کے ایسے ہوجاؤ.

بے وقوف انسان اپنے طریق کار کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے دوست سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اس کا سا طور طریقہ اختیار کرے، اور جیسا وہ خود ہے ویسا ہی وہ ہوجائے.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ یہ چاہتاہے کہ اس کا دوست بھی اس جیسا بے وقوف ہوجائے۔ کیونکہ وہ اپنے کو بے وقوف ہی کب سمجھتا ہے جو یہ چاہے اوراگر سمجھتا ہوتا تو بے وقوف ہی کیوں ہوتا۔ بلکہ اپنے کو عقلمند اور اپنے طریقہ کار کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے دوست کو بھی اپنے ہی ایسا »عقلمند«دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی رائے کو سجا کر اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا اس سے خواہش مند ہوتاہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کا دوست اس کی باتوں سے متاثر ہوکر اس کی راہ پرچل پڑے۔ اس لیے اس سے الگ تھلگ رہنا ہی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

 

294. وقال (عليه السلام) وقد سئل عن مسافة ما بين المشرق والمغرب فقال علیہ السلام: مَسِيرَةُ يَوْم لِلشَّمْسِ.

294. آپ سے دریافت کیا گیا کہ مشرق و مغرب کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟آپ نے فرمایا «سورج کا ایک دن کا راستہ».

295. وقال (عليه السلام): أَصْدِقَاؤُكَ ثَلاَثَةٌ، وَأَعْدَاؤُكَ ثَلاَثَةٌ: فَأَصْدِقَاؤُكَ: صَدِيقُكَ، وَصَدِيقُ صَدِيقِكَ، وَعَدُوُّ عَدُوِّكَ. وَأَعْدَاؤكَ عَدُوُّكَ، وَعَدُوُّ صَدِيقِكَ، وَصَدِيقُ عَدُوِّكَ.

295. تین قسم کے تمہارے دوست ہیں اور تین قسم کے دشمن۔ دوست یہ ہیں: تمہارا دوست، تمہارے دوست کا دوست، اور تمہارے دشمن کا دشمن۔ اور دشمن یہ ہیں: تمہارا دشمن، تمہارے دوست کا دشمن اورتمہارے دشمن کا دوست۔

296. وقال (عليه السلام) لرجل رآه يسعىٰ على عدوّ له بما فيه إِضرار بنفسه: إنَّمَا أَنْتَ كَالطَّاعِنِ نَفْسَهُ لِيَقْتُلَ رِدْفَهُ.

296. حضرت نے ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو ایسی چیز کے ذریعہ سے نقصان پہنچانے کے درپے ہے جس میں خود اس کو بھی نقصان پہنچے گا، تو آپ نے فرمایا کہ تم اس شخص کی مانند ہوجو اپنے پیچھے والے سوار کو قتل کرنے کے لیے اپنے سینہ میں نیزہ مارے۔

297. وقال (عليه السلام): مَا أَكْثَرَ الْعِبَرَ وأَقَلَّ الاِْعْتِبَارَ!

297. نصیحتیں کتنی زیادہ ہیں اور ان سے اثر لینا کتنا کم ہے۔

اگر زمانہ کے حوادث و انقلابات پر نظر کی جائے اور گزشتہ لوگوں کے احوال و واردات کو دیکھا اور ان کی سرگزشتوں کو سناجائے تو ہر گوشہ سے عبرت کی ایک ایسی داستان سنی جاسکتی ہے جو روح کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنے پند و موعظت کرنے اور عبر ت و بصیرت دلانے کا پورا سرو سامان رکھتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہرچیز کا بننا اور بگڑنا اور پھولوں کا کھلنا اور مرجھانا، سبزے کا لہلہانا اور پامال ہونا اور ہر ذرہ کا تغیر وتبدل کی آماجگاہ بننا ایسا درس عبرت ہے جو سرابِ زندگی سے جامِ بقا کے حاصل کرنے کے توقعات ختم کردیتا ہے۔ بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان ان عبرت افزا چیزوں سے بند نہ ہوں۔

 

کاخ جہاں پراست اذکر گرشتگان لیکن کسیکہ گوش دھد، این نداکم است؟

298. وقال (عليه السلام): مَن بَالَغَ فِي الْخُصوُمَةِ أَثِمَ، وَمَنْ قَصَّرَ فِيهَا ظُلِمَ، وَلاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَّقِيَ اللهَ مَنْ خَاصَمَ.

298. جو لڑائی جھگڑے میں حد سے بڑھ جائے وہ گنہگار ہوتا ہے اور جو اس میں کمی کرے، اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور جو لڑتا جھگڑتا ہے اس کے لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا قائم رکھے۔

299. وقال (عليه السلام): مَا أَهَمَّنِي ذَنْبٌ أُمْهِلْتُ بَعْدَهُ حَتَّى أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ [وَأسْأَلَ اللهَ الْعَافِيَة].

299. وہ گناہ مجھے اندوہناک نہیں کرتا جس کے بعد مجھے مہلت مل جائے کہ میں دو رکعت نماز پڑھوں اور اللہ سے امن و عافیت کاسوال کروں۔

300. وسئل (عليه السلام): كيف يحاسب الله الخلق على كَثْرتهم؟

فقال (عليه السلام): كَمَا يَرْزُقُهُمْ عَلَىٰ كَثْرَتِهِمْ. فَقيل: كيف يُحاسِبُهُم ولا يَرَوْنَهُ؟

قال (عليه السلام): كَمَا يَرْزُقُهُمْ وَلاَ يَرَوْنَهُ.

300. امیرالمومنین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ خداوند عالم اس کثیر التعداد مخلوق کا حساب کیونکر لے گا؟ فرمایا جس طرح اس کی کثرت کے باوجود انھیں روزی پہنچاتا ہے۔ پوچھا وہ کیونکر حساب لے گا جب کہ مخلوق اسے دیکھے گی نہیں؟ فرمایا جس طرح انہیں روزی دیتا ہے اور وہ اسے دیکھتے نہیں۔

301. وقال (عليه السلام): رَسُولُكَ تَرْجُمَانُ عَقْلِكَ، وَكِتَابُكَ أَبْلَغُ مَا يَنْطِقُ عَنْكَ!

301. تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہے اور تمہاری طرف سے کامیاب ترین ترجمانی کرنے والا تمہارا خط ہے۔

302. وقال (عليه السلام): مَا الْمُبْتَلَى الَّذِي قَدِ اشْتَدَّ بِهِ الْبَلاَءُ، بِأَحْوَجَ إِلَى الدُّعَاءِ مِنَ المُعَافَى الَّذِي لاَ يَأمَنُ البَلاَءَ!

302. ایسا شخص جو سختی و مصیبت میں مبتلا ہو۔ جتنا محتاج دعا ہے، اس سے کم وہ محتاج نہیں ھے کہ جو اس وقت خیر وعافیت سے ہے۔ مگر اندیشہ ہے کہ نہ جانے کب مصیبت آجائے۔

303. وقال (عليه السلام): النَّاسُ أَبْنَاءُ الدُّنْيَا، وَلاَ يُلاَمُ الرَّجُلُ عَلَىٰ حُبِّ أُمِّهِ.

303. لوگ اسی دنیا کی اولاد ہیں اور کسی شخص کو اپنی ماں کی محبت پر لعنت ملامت نہیں کی جاسکتی۔

304. وقال (عليه السلام): إِنَّ الْمِسْكِينَ رَسُولُ اللهِ، فَمَنْ مَنَعَهُ فَقَدْ مَنَعَ اللهَ، وَمَنْ أَعْطَاهُ فَقَدْ أَعْطَى اللهَ.

304. غریب و مسکین اللہ کا فرستادہ ہوتا ہے تو جس نے اس سے اپنا ہاتھ روکا اس نے خدا سے ہاتھ روکا اور جس نے اسے کچھ دیا اس نے خدا کو دیا۔

305. وقال (عليه السلام): مَا زَنَى غَيُورٌ قَطُّ.

305. غیر ت مند کبھی زنا نہیں کرتا۔

306. وقال (عليه السلام): كَفَىٰ بِالاَجَلِ حَارِساً ۔

306. مدت حیات نگہبانی کے لیے کافی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ لاکھ آسمان کی بجلیا ں کڑکیں، حوادث کے طوفان امڈیں، زمین میں زلزلے آئیں اور پہاڑ آپس میں ٹکرائیں، اگر زندگی باقی ہے تو کوئی حادثہ گزند نہیں پہنچا سکتا اور نہ صرصر موت شمع زندگی کو بجھا سکتی ہے کیونکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور اس مقررہ وقت تک کوئی چیز سلسلۂ حیات کو قطع نہیں کر سکتی، اس لحاظ سے بلا شبہ موت خود زندگی کی محافظ و نگہبان ہے۔

 

«موت کہتے ہیں جسے ہے پاسبان زندگی »

307. وقال (عليه السلام): يَنَامُ الرَّجُلُ عَلَى الثُّكْلِ، وَلاَ يَنَامُ عَلَى الْحَرَبِ.

قال الرضی: ومعنىٰ ذلك أنه يصبر علىٰ قتل الاولاد، ولا يصبر على سلب الاموال.

307. اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آجاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی.

سید رضی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اولاد کے مرنے پر صبر کر لیتا ہے مگر مال کے جانے پر صبر نہیں کرتا۔

308. وقال (عليه السلام): مَوَدَّةُ الاْبَاءِ قَرَابَةٌ بَيْنَ الاَْبْنَاءِ، وَالْقَرَابَةُ إِلَى الْمَوَدَّةِ أَحْوَجُ مِنَ الْمَوَدَّةِ إِلَى الْقَرَابَةِ.

308. باپوں کی باہمی محبت اولاد کے درمیان ایک قرابت ہواکرتی ہے اور محبت کوقرابت کی اتنی ضرورت نہیں ھے جتنی قرابت کو محبت کی۔

309. وقال (عليه السلام): اتَّقُوا ظُنُونَ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَىٰ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ.

309. اہل ایمان کے گمان سے ڈرتے رہو، کیونکہ خداوند عالم نے حق کو ان کی زبانوں پر قرار دیا ہے.

310. وقال (عليه السلام): لاَ يَصْدُقُ إِيمَانُ عَبْد، حَتّى يَكُونَ بِمَا فِي يَدِ اللهِ أَوْثَقَ مِنهُ بِمَا فِي يَدِهِ.

310. کسی بندے کا ایمان اس وقت تک سچا نہیں ہوتا جب تک اپنے ہاتھ میں موجود ہونے والے مال سے اس پر زیادہ اطمینان نہ ہو جو قدرت کے ہاتھ میں ہے۔

311. وقال (عليه السلام) لأنس بن مالك، وقد كان بعثه إلى طلحةَ والزبيرِ لما جاء إلى البصرة يذكر هما شيئاً ممّا سمعه من رسول الله(صلى الله عليه وآله وسلم)في معناهما، فلوى عن ذلك، فرجع إليه، فقال: إِنِّي أُنسيتُ ذلك الامرَ. فَقال (عليه السلام): إِنْ كُنْتَ كَاذِباً فَضَرَبَكَ اللهُ بِهَا بَيْضَاءَ لاَمِعَةً لاَ تُوَارِيهَا الْعِمَامَةُ.

قال الرضی: يعني البرص، فأصاب أَنَساً هذا الداء فيما بعدُ في وجهه، فكان لا يُرىٰ إلاّ مُبَرقعاً.

311. جب حضرت (ع) بصرہ میں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا تھا کہ ان دونوں کو کچھ وہ اقوال یاد دلائیں جو آپ علیہ السّلام کے بارے میں انہوں نے خود پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے ہیں۔ مگر انہوں نے اس سے پہلوتہی کی، اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ وہ بات مجھے یاد نہیں رہی اس پر حضرت (ع) نے فرمایا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو اس کی پاداش میں خداوند عالم ایسے چمکدار داغ میں تمہیں مبتلا کرے، کہ جسے دستار بھی نہ چھپا سکے۔

(سید رضی فرماتے ہیں کہ) سفید داغ سے مراد برص ہے چنانچہ انس اس مرض میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیشہ نقاب پوش دکھائی دیتے تھے.

علامہ رضی نے اس کلام کے جس مورد و عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت نے جنگ جمل کے موقع پر انس ابن مالک کو طلحہ وزبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں پیغمبر کا قول "انکما ستقاتلان علیا و انتمالہ ظالمان" (تم عنقریب علی علیہ السّلام سے جنگ کر و گے اور تم ان کے حق میں ظلم و زیادتی کرنے والے ہوگے )یاد دلائیں، تو انہوں نے پلٹ کر یہ ظاہر کیا کہ وہ اس کا تذکرہ کرنا بھول گئے تو حضرت نے ان کے لیے یہ کلمات کہے۔ مگر مشہور یہ ہے کہ حضرت نے یہ جملہ اس موقع پر فرمایا جب آپ پیغمبر صلعم کے اس ارشاد کی تصدیق چاہی کہ:

 

من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللّھم وال من والاہ و عاد من عاداہ

 

جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔ اے اللہ جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ ۔

 

چنانچہ متعدد لوگوں نے اس کی صحت کی گواہی دی۔ مگر انس ابن مالک خاموش رہے جس پر حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم بھی تو غدیر خم کے موقع پر موجود تھے پھر اس خاموشی کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا یا امیرالمومنین (ع) میں بوڑھا ہوچکا ہوں اب میری یاد داشت کام نہیں کرتی جس پر حضرت نے ان کے لیے بددعا فرمائی۔ چنانچہ ابن قیتبہ تحریر کرتے ہیں کہ:

 

ذکر قوم ان علیا رضی اللہ عنہ سالہ عن قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللّٰہم وال من والاہ وعاد من عاداہ فقال کبرت سنی ونسیت فقال علی ان کنت کاذباً فضربک اللہ ببیضاء لامعة لا تواریھا العمامہ (المعارف ص۲۵۱

 

“لوگوں نے بیان کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے انس ابن مالک سے رسول اللہ کے ارشاد "اے اللہ جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیں دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ" کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور اسے بھول چکا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہیں ایسے برص میں مبتلا کرے جسے عمامہ بھی نہ چھپا سکے۔”

 

ابن ابی الحدید نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے اور سید رضی کے تحریر کردہ واقعہ کی تردید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:

 

سید رضی نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے حضرت نے انس کو طلحہ و زبیر کی طرف روانہ کیا تھا ایک غیر معروف واقعہ ہے اگر حضرت نے اس کلام کی یاد دہانی کے لیے انہیں بھیجا ہوتا کہ جو پیغمبر (ص) نے ان دونوں کے بارے میں فرمایا تھا تو یہ بعید ہے کہ وہ پلٹ کر یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا۔ کیونکہ جب وہ حضرت سے الگ ہوکر روانہ ہوئے تھے تو اس وقت یہ اقرار کیا تھا کہ پیغمبر کا یہ ارشاد میرے علم میں ہے اور مجھے یاد ہے پھر کس طرح یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک گھڑی یا ایک دن کے بعد یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا، اور اقرار کے بعد انکار کریں۔ یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔

312. وقال (عليه السلام): إِنَّ لِلْقُلُوبِ إقْبَالاً وَإِدْبَاراً، فَإِذَا أَقْبَلَتْ فَاحْمِلُوهَا عَلَى النَّوَافِلِ، وَإذَا أَدْبَرَتْ فَاقْتَصِرُوا بِهَا عَلَى الْفَرَائِضِ.

312. دل کبھی مائل ہوتے ہیں اور کبھی اچاٹ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جب مائل ہوں، اس وقت انہیں مستحبات کی بجا آوری پرآمادہ کرو۔ اور جب اچاٹ ہوں تو واجبات پر اکتفا کرو۔

313. وقال (عليه السلام): وَفِي الْقرْآنِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ.

313. قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں تمہارے بعد کے واقعات اور تمہارے درمیانی حالات کے لیے احکام ہیں۔

314. وقال (عليه السلام): رُدُّوا الْحَجَرَ مِنْ حَيْثُ جَاءَ، فَإِنَّ الشَّرَّ لاَ يَدْفَعُهُ إِلاَّ الشَّرُّ.

314. جدھر سے پتھر آئے اسے ادھر ہی پلٹا دو کیونکہ سختی کا دفیعہ سختی ہی سے ہوسکتا ہے۔

 

315. وقال (عليه السلام) لكاتبه عبيدالله بن أَبي رافع: أَلِقْ دَوَاتَكَ، وَأَطِلْ جِلْفَةَ قَلَمِكَ، وَفَرِّجْ بَيْنَ السُّطُورِ، وقَرْمِطْ بَيْنَ الْحُرُوفِ، فَإِنَّ ذلِكَ أَجْدَرُ بِصَباحَةِ الْخَطِّ.

315. اپنے منشی عبیداللہ ابن ابی رافع سے فرمایا : دوات میں صُوف ڈالا کرو، اور قلم کی زبان لمبی رکھا کرو۔ سطروں کے درمیان فاصلہ زیادہ چھوڑا کرو اور حروف کو ساتھ ملا کر لکھا کرو کہ یہ خط کی دیدہ زیبی کے لیے مناسب ہے۔

316. وقال (عليه السلام): أَنا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ، وَالْمَالُ يَعْسُوبُ الْفُجَّارِ.

قال الرضی: ومعنى ذلك أن المؤمنين يتبعونني، والفجار يتبعون المال، كما تتبع النحل يعسوبها، وهو رئيسها.

316. میں اہل ایمان کا یعسوب ہوں اور بدکرداروں کا یعسوب مال ہے۔

(سید رضی فرماتے ہیں کہ )اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان والے میری پیروی کرتے ہیں اور بدکردار مال و دولت کا اسی طرح اتباع کرتے ہیں جس طرح شہد کی مکھیاں یعسوب کی اقتدا کرتی ہیں اور یعسوب اس مکھی کو کہتے ہیں جو ان کی سردار ہوتی ہے۔

317. وقال له بعض اليهود: ما دَفَنْتُم نَبِيَّكُم حتّى اختلفتم فيه؟

فقال (عليه السلام) له: إِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْهُ لاَ فِيهِ، وَلكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ أَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ حَتَّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ: (اجْعَلْ لَنَا إلهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ)

317. ایک یہودی نے آپ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کودفن نہیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں اختلاف شروع کردیا۔ حضرت نے فرمایا ہم نے ان کے بارے میں اختلاف نہیں کیا۔ بلکہ ان کے بعد جانشینی کے سلسلہ میں اختلاف ہوا مگر تم تو وہ ہوکہ ابھی دریائے نیل سے نکل کر تمہارے پیر خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسا خدا بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے خدا ہیں۔ توموسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ "بیشک تم ایک جاہل قوم ہو" ۔

اس یہودی کی نکتہ چینی کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو پیش کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو ایک اختلافی امر ثابت کرلے، مگر حضرت نے لفظ فیہ کے بجائے لفظ عنہ فرماکر اختلاف کا مورد واضح کر دیا کہ وہ اختلاف رسول (ص) کی نبوت کے بارے میں نہ تھا بلکہ ان کی نیابت و جانشینی کے سلسلہ میں تھا۔ اور پھر یہودیوں کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو آج پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختلاف پر نقدکر رہے ہیں خود ان کی حالت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں عقیدۂ توحید میں متزلزل ہوگئے تھے چنانچہ جب وہ اہل مصر کی غلامی سے چھٹکارا پاکر دریا کے پار اتر ے تو سینا کے بت خانہ میں بچھڑے کی ایک مورتی دیکھ کر حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسی مورتی بنا دیجئے۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ تم اب بھی ویسے ہی جاہل ہو, جیسے مصر میں تھے تو جس قوم میں توحید کی تعلیم پانے کے بعد بھی بت پرستی کا جذبہ اتنا ہو کہ وہ ایک بت کو دیکھ کر تڑپنے لگے اور یہ چاہے کہ اس کے لیے بھی ایک بت خانہ بنا دیا جائے اس کو مسلمانوں کے کسی اختلاف پر تبصرہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔

318. وقيل له: بأيّ شيء غلبتَ الاَقران؟ فقال (عليه السلام): مَا لَقِيتُ رَجُلاً إِلاَّ أَعَانَنِي عَلَىٰ نَفْسِهِ.

قال الرضی: يومىء (عليه السلام) بذلك إلىٰ تمكّن هيبته في القلوب.

318. حضرت سے کہا گیا کہ آپ کس وجہ سے اپنے حریفوں پرغالب آتے رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں جس شخص کا بھی مقابلہ کرتا تھا وہ اپنے خلاف میری مدد کرتا تھا۔

(سید رضی فرماتے ہیں کہ )حضرت نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ کی ہیبت دلوں پر چھا جاتی تھی۔

جو شخص اپنے حریفوں سے مرعوب ہو جائے، اس کا پسپا ہونا ضروری سا ہوجاتا ہے کیونکہ مقابلہ میں صرف جسمانی طاقت کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ دل کا ٹھہراؤ اورحوصلہ کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔ اور جب وہ ہمت ہار دے گا اور یہ خیال دل میں جما لے گا کہ مجھے مغلوب ہی ہونا ہے تو مغلوب ہو کر رہے گا۔ یہی صورت امیر المومنین (ع) کے حریف کی ہوتی تھی کہ و ہ ان کی مسلمہ شجاعت سے اس طرح متاثر ہوتا تھا کہ اسے موت کا یقین ہو جاتا تھا۔ جس کے نتیجہ میں اس کی قوت معنوی و خود اعتمادی ختم ہوجاتی تھی اورآخر یہ ذہنی تاثر اسے موت کی راہ پر لا کھڑا کرتا تھا۔

319. وقال (عليه السلام) لابنه محمد بن الحنفية: يَا بُنَيَّ، إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ، فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْه، فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدَّينِ، مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ، دَاعِيَةٌ لِلْمَقْت ۔

319. اپنے فرزند محمد ابن حنفیہ سے فرمایا: "اے فرزند! میں تمہارے لیے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو۔ کیونکہ یہ دین کے نقص، عقل کی پریشانی اور لوگوں کی نفرت کا باعث ہے۔

320. وقال (عليه السلام) لِسائل سأَله عن معضلة: سَل تَفَقُّهاً وَلاَ تَسْأَلْ تَعَنُّتاً، فَإِنَّ الْجَاهِلَ الْمُتَعَلِّمَ شَبِيهٌ بِالْعَالِمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ الْمُتَعَسِّفَ شَبِيهٌ بِالْجَاهِلِ الْمُتَعَنِّتِ.

320. ایک شخص نے ایک مشکل مسئلہ آپ سے دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا۔ سمجھنے کے لیے پوچھو، الجھنے کے لیے نہ پوچھو۔ کیونکہ وہ جاہل جو سیکھنا چاہتا ہے مثل عالم کے ہے اور وہ عالم جو الجھنا چاہتا ہے وہ مثل جاہل کے ہے۔

321. وقال (عليه السلام) لعبدالله بن العباس، وقد أشار عليه في شيء لم يوافق رأيه: لَكَ أَنْ تُشِيرَ عَلَيَّ وأَرَى، فَإِنْ عَصَيْتُكَ فَأَطِعْنِي.

321. عبد اللہ ابن عباس نے ایک امر میں آپ کو مشورہ دیا جو آپ کے نظر یہ کے خلاف تھا۔ تو آپ نے ان سے فرمایا۔ تمہارا یہ کام ہے کہ مجھے رائے دو۔ اس کے بعد مجھے مصلحت دیکھنا ہے۔ اور اگر میں تمہاری رائے کو نہ مانوں، تو تمہیں میری اطاعت لازم ہے۔

عبداللہ ابن عباس نے امیر المومنین علیہ السّلام کو یہ مشورہ دیا تھا کہ طلحہ و زبیر کو کوفہ کی حکومت کا پروانہ لکھ دیجئے اور معاویہ کو شام کی ولایت پر برقرار رہنے دیجئے، یہاں تک کہ آپ کے قدم مضبوطی سے جم جائیں اور حکومت کو استحکام حاصل ہوجائے جس کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ میں دوسروں کی دنیا کی خاطر اپنے دین کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا لہٰذا تم اپنی بات منوانے کے بجائے میری بات کو سنو اور میری اطاعت کرو۔

 

 

322. وروي أنه(عليه السلام)لما ورد الكوفة قادماً من صفين مرّ بالشّباميين، فسمع بكاء النساء على قتلى صفين، وخرج إليه حرب بن شُرَحْبِيل الشّبامي، وكان من وجوه قومه.

فقال (عليه السلام): أَتَغْلِبُكُمْ نِسَاؤُكُمْ عَلَى مَا أسْمَعُ؟ أَلاَ تَنْهَوْنَهُنَّ عَنْ هذَا الرَّنِينِ؟ و أقبل يمشي معه، وهو(عليه السلام) راكب. فقال (عليه السلام) له: ارْجِعْ، فَإِنَّ مَشْيَ مِثْلِكَ مَعَ مِثْلِي فِتْنَةٌ لِلْوَالِي، وَمَذَلَّةٌ لِلْمُؤْمِنِ.

322. وارد ہوا ہے کہ جب حضرت صفین سے پلٹتے ہوئے کوفہ پہنچے تو قبیلہ شبام کی آبادی سے ہوکر گزرے۔ جہاں صفین کے کشتوں پر رونے کی آواز آپ کے کانوں میں پڑی اتنے میں حرب ابن شرحبیل شبامی جو اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھے، حضرت کے پاس آئے تو آپ نے اس سے فرمایا ! کیاتمہارا ان عورتوں پر بس نہیں چلتا جو میں رونے کی آوازیں سن رہا ہوں اس رونے چلانے سے تم انہیں منع نہیں کرتے؟ حرب آگے بڑھ کر حضرت کے ہمرکاب ہو لیے درآں حالیکہ حضرت سوار تھے تو آپ نے فرمایا ! پلٹ جاؤ تم۔ ایسے آدمی کا مجھ ایسے کے ساتھ پیادہ چلنا والی کے لیے فتنہ اور مومن کے لیے ذلت ہے۔

323. وقال (عليه السلام) وقد مرّ بقتلى الخوارج يوم النَّهْرَوَان: بُؤْساً لَكُمْ، لَقَدْ ضَرَّكُمْ مَنْ غَرَّكُمْ. فقيل له: مَن غرّهم يا أميرالمؤمنين؟ فقال: الشَّيْطَانُ الْمُضِلُّ، وَالاَْنْفُسُ الاَْمَّارَةُ بِالسُّوءِ، غَرَّتْهُمْ بالاَْمَانِيِّ، وَفَسَحَتْ لَهُمْ بالمَعَاصِيِ، وَوَعَدَتْهُمُ الاِْظْهَارَ، فَاقْتَحَمَتْ بِهِمُ النَّارَ.

323. نہروان کے دن خوارج کے کشتوں کی طرف ہو کر گزرے تو فرمایا ! تمہارے لیے ہلاکت و تباہی ہو جس نے تمہیں ورغلایا، اس نے تمہیں فریب دیا۔ کہاگیاکہ "یا امیر المومنین (ع) کس نے انہیں ورغلایا تھا؟ فرمایا کہ گمراہ کرنے والے شیطان اور برائی پر ابھارنے والے نفس نے کہ جس نے انہیں امیدوں کے فریب میں ڈالا اور گناہوں کا راستہ ان کے لیے کھول دیا۔ فتح و کامرانی کے ان سے وعدے کئے اور اس طرح انہیں دوزخ میں جھونک دیا۔

324. وقال (عليه السلام): اتَّقُوا مَعَاصِيَ اللهِ فِي الْخَلَوَاتِ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاكِمُ.

324. تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرنے سے ڈرو۔ کیونکہ جو گواہ ہے وہی حاکم ہے.

325. وقال (عليه السلام)، لمّا بلغه قتل محمد بن أبي بكر: إِنَّ حُزْنَنَا عَلَيْهِ عَلَى قَدْرِ سُرُورِهِمْ بِهِ، إِلاَّ أَنَّهُمْ نَقَصُوا بَغِيضاً، وَنَقَصْنَا حَبِيباً.

325. جب آپ کو محمد ابن ابی بکر (رحمتہ اللہ علیہ) کے شہید ہونے کی خبر پہنچی توآپ نے فرمایا ہمیں ان کے مرنے کا اتنا ہی رنج و قلق ہے جتنی دشمنوں کو اس کی خوشی ہے۔ بلاشبہ ان کا ایک دشمن کم ہوا۔ اور ہم نے ایک دوست کو کھو دیا۔

326. وقال (عليه السلام): الْعُمْرُ الَّذِي أَعْذَرَ اللهُ فِيهِ إِلَى ابْنِ آدَمَ سِتُّونَ سَنَةً.

326. وہ عمر کہ جس کے بعد اللہ تعالیٰ آدمی کے عذر کو قبول نہیں کرتا، ساٹھ برس کی ہے۔

327. وقال (عليه السلام): مَا ظَفِرَ مَنْ ظَفِرَ الاِْثْمُ بِهِ، وَالْغَالِبُ بِالشَّرِّ مَغْلُوبٌ.

327. جس پر گناہ قابو پالے، وہ کامران نہیں اور شرکے ذریعہ غلبہ پانے والا حقیقتاً مغلوب ہے۔

328. وقال (عليه السلام): إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ فَرَضَ فِي أَمْوَالِ الاَْغْنِيَاءِ أَقْوَاتَ الْفُقَرَاءِ، فَمَا جَاعَ فَقِيرٌ إِلاَّ بِمَا مُتِّعَ بِهِ غَنِي، وَاللهُ تَعَالَىٰ سَائِلُهُمْ عَنْ ذلِكَ.

328. خدا وند عالم نے دولتمندوں کے مال میں فقیروں کا رزق مقرر کیا ہے لہٰذا اگر کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے تو اس لیے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور خدائے بزرگ و برتر ان سے اس کا مواخذہ کرنے والا ہے۔

329. وقال (عليه السلام): الاْسْتِغْنَاءُ عَنِ الْعُذْرِ أَعَزُّ مِنَ الصِّدْقِ بِهِ.

329. سچاعذر پیش کرنے سے یہ زیادہ وقیع ہے کہ عذر کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض پر اس طرح کار بند ہونا چاہیے کہ اسے معذرت پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ معذرت میں ایک گونہ کوتاہی کی جھلک اور ذلت کی نمود ہوتی ہے، اگرچہ وہ صحیح و درست ہی کیوں نہ ہو۔

330. وقال (عليه السلام): أَقَلُّ مَا يَلْزَمُكُمْ لله اَن لا تَسْتَعيِنُوا بِنِعَمِهِ عَلَى مَعَاصِيهِ.

330. اللہ کا کم سے کم حق جو تم پر عائد ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کی نعمتوں سے گناہوں میں مدد نہ لو.

 

کفران نعمت وناسپاسی کے چنددرجے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان نعمت ہی کی تشخیص نہ کرسکے، جیسے آنکھوں کی روشنی، زبان کی گویائی، کانوں کی شنوائی اور ہاتھ پیروں کی حرکت یہ سب اللہ کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں۔ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے نعمت ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان میں شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو. دوسرا درجہ یہ ہے کہ نعمت کو دیکھے اور سمجھے۔ مگر اس کے مقابلہ میں شکر بجا نہ لائے. تیسرادرجہ یہ ہے کہ نعمت بخشنے والے کی مخالفت و نافرمانی کرے۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو اطاعت و بندگی میں صرف کرنے کے بجائے اس کی معصیت و نافرمانی میں صرف کرے یہ کفران نعمت کا سب سے بڑا درجہ ہے۔

331. وقال (عليه السلام): إِنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ جَعَلَ الطَّاعَةَ غَنِيمَةَ الاَْكْيَاسِ عِنْدَ تَفْرِيطِ الْعَجَزَةِ ۔

331. جب کاہل اور ناکارہ افراد عمل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ عقلمندوں کے لیے ادائے فرض کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔

332. وقال (عليه السلام): السُّلْطَانُ وَزَعَةُاللهِ فِي أَرْضِهِ.

332. حکام اللہ کی سر زمین میں اس کے پاسبان ہیں۔

333. وقال (عليه السلام) في صفة المؤمن: الْمُؤْمِنُ بِشْرُهُ فِي وَجْهِهِ، وَحُزْنُهُ فِي قَلْبِهِ، أَوْسَعُ شَيْء صَدْراً، وَأَذَلُّ شَيْء نَفْساً، يَكْرَهُ الرِّفْعَةَ، وَيَشْنَأُ السُّمْعَةَ، طَوِيلٌ غَمُّهُ، بَعِيدٌ هَمُّهُ، كَثِيرٌ صَمْتُهُ، مشْغولٌ وَقْتُهُ، شَكُورٌ صَبُورٌ، مغْمُورٌ بِفِكْرَتِهِ، ضَنِينٌ بِخَلَّتِهِ، سَهْلُ الْخَلِيقَةِ، لَيِّنُ الْعَرِيكَةِ! نَفْسُهُ أَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ، وَهُوَ أَذَلُّ مِنَ الْعَبْدِ.

333. مومن کے متعلق فرمایا!

مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل میں غم و اندوہ ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل میں وہ اپنے کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے اس کا غم بے پایاں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش ہمہ وقت مشغو ل، شاکر، صابر، فکر میں غرق, دست طلب بڑھانے میں بخیل، خوش خلق اور نرم طبیعت ہوتا ہے اور اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت اور وہ خود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔

334. وقال (عليه السلام): لَوْرَأَى الْعَبْدُ الاَْجَلَ وَمَسِيرَهُ لأبۡغَضَ الأَمَلَ وَغُرُورَهُ.

334. اگر کوئی بندہ مدت حیات اور اس کے انجام کو دیکھے تو امیدوں اور ان کے فریب سے نفرت کرنے لگے۔

335. وقال (عليه السلام): لِكُلّ امْرِىء فِي مَالِهِ شَريِكَانِ: الْوَارِثُ، وَالْحَوَادِثُ.

335. ہر شخص کے مال میں دو حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایک وارث اور دوسرے حوادث.

336. وقال (عليه السلام): الْمَسْؤُولُ حُرُّ حَتَّى يَعِدَ.

336. جس سے مانگا جائے وہ اس وقت تک آزاد ہے، جب تک وعدہ نہ کرلے۔

337. وقال (عليه السلام): الدَّاعِي بِلاَ عَمَل كَالرَّامِي بِلاَ وَتَر.

337. جو عمل نہیں کرتا اور دعا مانگتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بغیر چلّۂ کمان کے تیر چلانے والا.

338. وقال (عليه السلام): الْعِلْمُ عِلْمَانِ: مَطْبُوعٌ وَمَسْمُوعٌ، وَلاَ يَنْفَعُ الْمَسْمُوعُ إِذَا لَمْ يَكُنِ الْمَطْبُوعُ.

338. علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو نفس میں رَچ بس جائے اور ایک وہ جو صرف سن لیا گیاہو اور سناسنایا فائدہ نہیں دیتا جب تک وہ دل میں راسخ نہ ہو۔

339. وقال (عليه السلام): صَوَابُ الرَّأْيِ بِالدُّوَلِ: يُقْبِلُ بِإِقْبَالِهَا، وَيَذْهَبُ بِذَهَابِهَا.

339. اصابتِ رائے اقبال و دولت سے وابستہ ہے اگر یہ ہے تو وہ بھی ہوتی ہے اگر یہ نہیں تو وہ بھی نہیں ہوتی.

جب کسی کا بخت یاور اور اقبال اوج و عروج پر ہوتا ہے تو اس کے قدم خود بخود منزل مقصود کی طر ف بڑھنے لگتے ہیں۔ اور ذہن و فکر کو صحیح طریق کار کے طے کرنے میں کوئی الجھن نہیں ہوتی اور جس کا اقبال ختم ہونے پر آتا ہے وہ روشنی میں بھی ٹھوکریں کھاتا ہے اور ذہن وفکر کی قوتیں معطل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ جب بنی برمک کا زوال شروع ہوا تو ان میں کے دس آدمی ایک امر میں مشورہ کرنے کے لیے جمع ہوئے مگر پوری رد و کد کے بعد بھی کسی صحیح نتیجہ تک نہ پہنچ سکے۔ یہ دیکھ کر یحییٰ نے کہا کہ خدا کی قسم یہ ہمارے زوال کا پیش خیمہ اور ہمارے ادبار کی علامت ہے کہ ہم دس آدمی بھی کوئی صحیح فیصلہ نہ کر سکیں۔ ورنہ جب ہمارا نیر و اقبال بام عروج پر تھا تو ہمارا ایک آدمی ایسی دس دس گتھیوں کو بڑی آسانی سے سلجھا لیتا تھا۔

340. وقال (عليه السلام): الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ، وَالشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

340. فقر کی زینت پاکدامنی، اور تونگری کی زینت شکر ہے۔

341. وقال (عليه السلام): يَوْمُ الْعَدْلِ عَلَى الظَّالِمِ أَشَدُّ مِنْ يَومِ الْجَوْرِ عَلَى الْمَظْلُومِ!

341. ظالم کے لیے انصاف کا دن اس سے زیادہ سخت ہوگا، جتنا مظلوم پر ظلم کا دن۔

342. وقال (عليه السلام): الْغِنَى الاَْكْبَرُ الْيَأْسُ عَمَّا فِي أَيْدِى النَّاسِ.

342. سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آس نہ رکھی جائے۔

343. وقال (عليه السلام): الاَْقَاوِيلُ مَحْفُوظَةٌ، وَالْسَّرَائِرُ مَبْلُوَّةٌ، وَ(كُلُّ نَفْس بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ)، وَالنَّاسُ مَنْقوُصُونَ مَدْخُولُونَ إِلاَّ مَنْ عَصَمَ الله، سَائِلُهُمْ مُتَعَنِّتٌ، وَمُجِيبُهُمْ مُتَكَلِّفٌ، يَكَادُ أَفْضَلُهُمْ رَأْياً يَرُدُّهُ عَنْ فَضْلِ رَأْيِهِ الرِّضَى وَالسُّخْطُ، وَيَكَادُ أَصْلَبُهُمْ عُوداً تَنْكَؤُهُ، وَتَسْتَحِيلُهُ الْكَلِمَةُ الْوَاحِدَةُ.

343. گفتگوئیں محفوظ ہیں اور دلوں کے بھید جانچے جانے والے ہیں۔ ہر شخص اپنے اعمال کے ہاتھوں میں گروی ہے اور لوگوں کے جسموں میں نقص اور عقلوں میں فتور آنے والا ہے مگر وہ کہ جسے اللہ بچائے رکھے۔ ان میں پوچھنے والا الجھانا چاہتا ہے اور جواب دینے والا (بے جانے بوجھے جواب کی)زحمت اٹھاتا ہے جو ان میں درست رائے رکھتا ہے۔ اکثر خوشنودی و ناراضگی کے تصورات اسے صحیح رائے سے موڑ دیتے ہیں اور جو ان میں عقل کے لحاظ سے پختہ ہوتا ہے بہت ممکن ہے کہ ایک نگا ہ اس کے دل پر اثر کردے اور ایک کلمہ اس میں انقلاب پیدا کردے۔

344۔ و قال علیہ السلام: مَعَاشِرَ النَّاسِ، اتَّقُوا اللهَ، فَكَمْ مِنْ مُؤَمِّل مَا لاَ يَبْلُغُهُ، وَبَان مَا لاَ يَسْكُنُهُ، وَجَامِع مَا سَوْفَ يَتْرُكُهُ، وَلَعَلَّهُ مِنْ بَاطِل جَمَعهُ، وَمِنْ حَقٍّ مَنَعَهُ، أَصَابَهُ حَرَاماً، وَاحْتَمَلَ بِهِ آثَاماً، فَبَاءَ بِوِزْرهِ، وَقَدِمَ عَلَى رَبِّهِ، آسِفاً لاَهِفاً، قَدْ (خَسِرَ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةَ ذلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ)

344۔ اے گروہ مردم! اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ کتنے ہی ایسی باتوں کی امید باندھنے والے ہیں جن تک پہنچتے نہیں اور ایسے گھر تعمیر کرنے والے ہیں جن میں رہنا نصیب نہیں ہوتا اور ایسا مال جمع کرنے والے ہیں جسے چھوڑجاتے ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے کہ اسے غلط طریقہ سے جمع کیا ہو یا کسی کا حق دبا کر حاصل کیا ہو۔ اس طرح اسے بطور حرام پایا ہو اور اس کی وجہ سے گناہ کا بوجھ اٹھایا ہو، تو اس کا وبال لے کر پلٹے اور اپنے پروردگار کے حضور رنج و افسوس کرتے ہوئے جا پہنچے دنیا و آخرت دونوں میں گھاٹا اٹھایا۔ یہی تو کھلم کھلا گھاٹا ہے۔

345. وقال (عليه السلام): مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

345. گناہ تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک صورت پاکدامنی کی ہے۔

346. وقال (عليه السلام): مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُهُ السُّؤَالُ، فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُهُ.

346. تمہاری آبرو قائم ہے جسے دست سوال دراز کرنا بہا دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال رہے کہ کس کے آگے اپنی آبرو ریزی کر رہے ہو۔

347. وقال (عليه السلام): الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الاْسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ، وَالتَّقْصِيرُ عَنِ الاِْسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

347. کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے یا حسد.

348. وقال (عليه السلام): أَشدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِهِ صَاحِبُهُ.

348. سب سے بھاری گناہ وہ ہے کہ جس کا ارتکاب کرنے والا اسے سبک سمجھے۔

چھوٹے گناہوں میں بے باکی و بے اعتنائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان گناہ کے معاملہ میں بے پرواہ سا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ عادات اسے بڑے بڑے گناہوں کی جرأت دلا دیتی ہے اور پھر وہ بغیر کسی جھجک کے ان کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا چھوٹے گناہوں کو بڑے گناہوں کا پیش خیمہ سمجھتے ہوئے ان سے احتراز کر نا چاہیے تاکہ بڑے گناہوں کے مرتکب ہونے کی نوبت ہی نہ آئے۔

349. وقال (عليه السلام): مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِهِ اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرهِ، وَمَنْ رَضِيَ برِزْقِ اللهِ لَمْ يَحْزَنْ عَلَىٰ مَا فَاتَهُ، وَمَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِهِ، وَمَنْ كَابَدَ الاَْمُورَ عَطِبَ، وَمَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ، وَمَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ، وَمَنْ كَثُرَ كَلاَمُهُ كَثُرَ خَطَؤُهُ، وَمَنْ كَثُرَ خَطَؤُهُ قَلَّ حَيَاؤُهُ، قَلَّ وَرَعُهُ،ومَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ، وَمَنْ مَاتَ قَلْبُهُ دَخَلَ النَّارَ، وَمَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِهِ فذَاك الاَْحْمَقُ بِعَيْنِهِ. وَالْقَنَاعَةُ مَالٌ لاَ يَنْفَدُ، وَمَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسيرِ، ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلاَمَهُ مِنْ عَمَلِهِ قَلَّ كَلاَمُهُ إِلاَّ فِيَما يَعْنيِهِ.

349. جو شخص اپنے عیوب پر نظر رکھے گا وہ دوسروں کی عیب جوئی سے باز رہے گا۔ اور جو اللہ کے دیئے ہوئے رزق پر خوش رہے گا، وہ نہ ملنے والی چیز پر رنجیدہ نہیں ہو گا۔ جو ظلم کی تلوار کھینچتا ہے وہ اسی سے قتل ہوتا ہے جو اہم امور کو زبردستی انجام دینا چاہتا ہے۔ وہ تباہ و برباد ہوتا ہے، جو اٹھتی ہوئی موجوں میں پھاندتا ہے، وہ ڈوبتا ہے، جو بدنامی کی جگہوں پر جائے گا، وہ بدنام ہوگا، جو زیادہ بولے گا، وہ زیادہ لغزشیں کرے گا اور جس کی لغزشیں زیادہ ھوں، اس کی حیا کم ھوجائے گی۔ اور جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہوگا اور جس میں تقویٰ کم ہوگا اس کا دل مردہ ہوجائے گا۔ اور جس کا دل مردہ ہوگیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔ جو شخص لوگوں کے عیوب کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھائے اور پھر انہیں اپنے لیے چاہے اور سرا سر احمق ہے قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ جو موت کو زیادہ یاد رکھتا ہے وہ تھوڑی سی دنیا پر بھی خوش رہتا ہے۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کاقول بھی عمل کا ایک جز ہے، وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔

350. وقال (عليه السلام): لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلاَثُ عَلاَمَات: يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَهُ بِالْمَعْصِيَةِ، وَ مَنْ دُونَهُ بِالْغَلَبَةِ،يُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَة.

350. لوگوں میں جو ظالم ہو اس کی تین علامتیں ہیں: وہ ظلم کرتا ہے اپنے سے بالا ہستی کی خلاف ورزی سے، اور اپنے سے پست لوگوں پر قہر و تسلط سے اور ظالموں کی کمک و امداد کرتا ہے۔

علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت

فاطمہ الزہراء (س)اسوہء کاملہ

حضرت زہراء (س)کو بعنوانِ اسوہ اور وہ بھی اسوۂ کاملہ پیش کرنا اقبال کی فراست

و بصیرت کی علامت ہے یعنی اقبال کی دید حضرت زہراء (س)کی شخصیت کی طرف اسوائیت کی دید ہے۔ پیروانِ دین اسلام و پیروانِ امامت وولایت کی جانب سے انبیاء کرام ومعصومین (ع) اور دیگر ذواتِ مقدسہ کی اسوائیت والا پہلو اکثر

موردِ غفلت واقع ہوتا ہے حالانکہ قرآن اور دین اسلام نے اُنہیں بعنوانِ اسوہ پیش کیا ہے جبکہ اس پہلو کو چھوڑ دیاجاتا ہے اور اس کے بجائے دوسرے پہلوئوں کو زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔

معصومین (ع) کی زندگیوں کے دوسرے پہلوئوں سے بھی ہر مسلمان اور مومن کو آشنائی ہونی چاہیے لیکن کسی معصوم کی زندگی سے اگر مومن کی زندگی میں کچھ منتقل ہوسکتا ہے تو وہ بابِ اسوہ اور سیرت ہے جب تک معصوم کی زندگیوں کا مطالعہ بعنوانِ اسوہ نہ کیاجائے اس وقت تک فقط معصومین (ع) کی مدح وثناء کرنے سے، تحقیقاتِ علمی انجام دینے سے یا تاریخی معلومات اکٹھی کرکے اپنا اظہارِ عقیدت بارگاہِ معصومین میں پیش کرنے سے معصوم کی ذات سے کچھ بھی اس ذات میں منتقل نہیں ہوگا۔ چونکہ اہل ایمان کا عقیدہ ہے بلکہ تمام مسلمین کا بھی یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام اور آئمہ اطہار (ع) کا واسطہ فیض قراردیا ہے اور تمام فیوضاتِ ظاہری اور معنوی اُنہی ہستیوں کے توسط سے خداوند تبارک وتعالیٰ نے مخلوق تک پہنچائے ہیں کیونکہ یہ وسائطِ فیضِ خدا ہیں ان کی ذات سے مخلوق تک جو فیض پہنچتے ہیں ان میں سے ہدایت، معرفت اور علم ہے جو مقصدِ بعثت اور مقصدِ خلقتِ معصومین ہے۔ اگر مومن اور مسلمان اس دید سے انبیاء وآئمہ(ع) کو نہ دیکھے تو انبیاء اور آئمہ اس کیلئے واسطۂ فیض و ہدایت کی حیثیت نہیں رکھتے۔

 

بابِ اسوائیت اور بابِ سیرت

قرآن مجید میں رسول اللہ (ص) کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بطورِ اسوہ پیش کیا ہے ''لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة'' حَسَنَة''''(سورہ احزاب، آیت ٢١)حضرت

ابراہیم کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے بعنوانِ اسوہ پیش کیا اور جن انبیاء کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے ان کیلئے اگرچہ اسوہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن وہ بھی اسوہ ہی کے طور پر پیش کئے گئے ہیں یعنی ان کی زندگی کی حکایت اور ان کے قصص اسوہ کے طور پر پیش کئے گئے ہیں جیسے حضرت موسیٰ کیلئے اسوہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن حضرت موسیٰ کو بھی خداوند تبارک وتعالیٰ نے مخاطبین قرآن کیلئے اسوہ کے طور پر پیس کیا ہے ورنہ قرآن میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کاتذکرہ نہ آتا اور نہ ہی دیگر انبیاء (ع) کا تذکرہ آتا۔ اسی

طرح سے آئمہ اطہار بھی بشریت کیلئے اسوہ ہیں لیکن اگر اسوہ کا عنوان مدّ

نظر نہ ہو تو مومن اور امام کا آپس میں ایک عقیدتی تعلق ہونے کے باوجود

ہدایت منتقل نہیں ہوتی۔ امام کی طرف سے اُمت کیلئے جو باب کھولا گیا ہے وہ

بابِ سیرت ہے یعنی امام یا نبی خداوند تبارک وتعالیٰ کی جانب سے ہدایت

انسان کیلئے مبعوث ہوتے ہیں حالانکہ ان کو معاشرے کے اندر اور بھی فراوان

مسائل نظر آتے تھے، لوگوں کے حسب ونسب کا باب بھی کھول سکتے تھے، علومِ بشری جو انسان نے علمی ترقی کے ذریعے کشف کئے ہیں ان علوم کا باب بھی انسان کے سامنے کھول سکتے تھے اور وہ چیزیں جو لوگوں کے اندر پہلے سے رائج تھیں ان میں بھی معصومین دلچسپی لے کر اُنہیں مزید پھیلا سکتے تھے لیکن آئمہ وانبیاء کو خدائے تعالیٰ نے اُمت کے اندر ایک نیا باب کھولنے کیلئے منصوب کیا وہ نیا باب اُمت کے اندر بابِ ہدایت ہے کہ اور دیگر مسائل چونکہ آئمہ

اور انبیاء کی بعثت کے محتاج نہیں ہیں اس لئے اس عنوان سے ان کو مبعوث بھی

نہیں کیا۔ اُمت نے بھی معصومین کی نسبت جس باب کو کھلونا ہے وہ بابِ سیرت

ہے۔

 

سیرت کا بند دروازہ بعض دروازے دشمنوں نے بند کرنے کی کوشش کی ہے اور کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے یہ دروازے بند ہوجائیں جیسے بابِ ولایت یا بابِ حکومت ہے اور اپنی ان کوششوں اور کاوشوں میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے ہیں لیکن معصومین(ع) کی سیرت کا باب پیروکاروں نے خود بند کردیا ہے، یا توجہالت ونادانی کی وجہ سے یا دیگر اسباب کی بناء پر حالانکہ خدائے تعالیٰ نے بابِ سیرت اس لئے کھولا تھا کہ ان ہستیوں کو عنوانِ اسوہ قبول کیاجائے کیونکہ اسوہ کی نگاہ سے دیکھنے میں اور دیگر نگاہوں سے دیکھنے میں مثلاً فقط عقدیتی نگاہ سے دیکھنے میں بڑا فرق ہے، جب تک ہم اسوہ کی نگاہ سے اُنہیں نہیں دیکھتے اس وقت تک ایک رہبر، امام اور پیشوا، اُمت کی زندگی میں حضور پیدا نہیں کرسکتا حالانکہ امام کا اُمت کے اندر حضور بہت ضروری ہے۔ حضورِ رہبر سے مراد رہبرانہ حضور ہے یعنی بعنوانِ راہنما ان کی ہدایت اُمت کے اندر موجود ہو کہ جس کی اُمت محتاج ہے۔ ایسی امامت ورہبری اُمت کے کسی کام نہیں آتی جس میں امام اور رہبر، رہبری سے محروم ہو۔ یہ اُمت کو کوشش کرنی ہے، بعض اُمتوں نے ایسا رویہ اپنایا کہ اگرچہ جسمانی طور پر امام ان کے اندر تھے لیکن اُمت کے رویوں نے حضورِ رہبر اُمت کے درمیان ختم کردیا یعنی رہبر کو گوشہ نشین کردیا اور رابطہ ہدایت اس امام کے ساتھ برقرار نہیں کیا۔

مثلاً امیرالمومنین(ع) جسمانی طور پر اُمت کے اندر موجود ہیں لیکن اُمت کا رویہ اپنے امام کے ساتھ اس طرح ہے کہ اُمت نے امام کو بعنوانِ امام و رہبر قبول نہیں کیا یعنی اُمت نے رہبر کو اپنے درمیان سے نکال دیا یا یوں کہیں کہ اُمت نے رہبر وامام کو جلا وطن کردیا اور اپنے درمیان میں سے اس کا حضور ختم کردیا اور بلا امامت امام زندگی گزارنے کو ترجیح دی جس سے بہت برے نتائج سامنے آئے جو آج تک اُمت کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

 

نبوت و امامت کا حضور

اس طرح سے اُمت کا یہ کام ہے کہ وہ امامت اور رہبریت کو اپنے رویہ اور عمل کے ذریعے اپنے اندر حاضر رکھے۔ ممکن ہے امام زندہ اور موجود ہوں اور اُمت میں حاضر ہوں لیکن اُمت ہدایت لینے کی توفیق پیدا نہ کرسکے اور ممکن ہے امام جسمانی طور پر اُمت کے اندر نہ ہوں بلکہ غائب ہوں جس طرح سے زمانۂ غیبت کی وجہ سے جو جسمانی طور پر اُمت میں موجود نہیں ہیں تو اُمت کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس نبی یا اس امام کی امامت ورہبری وہدایت کو اپنے اندر حاضر رکھے بالفاظِ دیگر امام یا نبی کو اپنے اندر حاضر رکھے۔ آج مسلمانوں کے اندر نبی نہیں ہیں، بغیر نبوت کے زندگی بسرکررہے ہیں۔ ختم نبوت کا درحقیقت دقیق فلسفہ یہ ہے کہ پہلے خدا نے نبیوں کے حضورکا سلسلہ اپنے ذمے رکھا ہوا تھا یعنی اُمت کے اندر نبی کاحضور خدا کے ذمے تھا، خدا نے ہر اُمت کے اندر نبی کو حاضر رکھنا تھا لیکن ختم نبوت کے معانی یہ نہیں ہیں کہ یہ ذمہ داری خدا نے اب اُمت کو سونپ دی ہے کہ اب تمہیں نبی کو اپنے اندر حاضر رکھنا ہے۔

ممکن ہے امام یا نبی اُمت کے اندر جسمانی طور پر موجود ہوں لیکن اُمت بصیرت نہ رکھتی ہو اس کی بہت سی مثالیں ہیں؛ جیسے حضرت نوح اُمت کے اندر خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے لیکن اُمت نوح کے ہوتے ہوئے بغیر نوح کے زندگی بسر کر رہی تھی یا اسی طرح سے حضرت لوط کے زمانہ میں اُمت بغیر لوط کے زندگی بسر کررہی تھی حالانکہ لوط موجود تھے۔ یعنی حضرت لوط کو بعنوانِ رہبر قبول نہیں کیا اس حیثیت سے رہبرانہ حضور محقّق نہیں ہونے دیاگیا اسی طرح دیگر انبیاء بھی ہیں کہ اُمتوں نے ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کردیں اور یہی عمل مسلمانوں کے اندر بھی تکرار ہوا۔

پیغمبراکرم (ص) کے بعد اُمت نے جو رویہ اپنایا اس کے نتیجے میں اُمت نے امیرالمومنین(ع) کو عنوانِ امام اپنے اندر حاضر ہونے نہیں دیا۔ اس حضور کی راہ میں اُمت کی جہالت، نادانی، سفاہت رکاوٹ بنی اور اسی طرح سے یہ سلسلہ غیبتِ امام تک جاری رہا اگرچہ امام خود جسمانی طور پر اُمت کے اندر موجود تھے، اُمت وجودِ امام یا حضورِ امام کو محسوس نہیں کررہی تھی، امام کو بعنوانِ امام قبول کرنا نہیں چاہتی تھی۔

یہی حالت ہمیں آج نظر آتی ہے کہ آئمہ اطہار وانبیائے کرام اُمت کے اندر آج بھی حاضر ہیں لیکن مقدس ہستیوں، شخصیات کے طور پر اور ایسی ہستیوں کے طور پر جن کے متعلق انسان احساسات اور عقیدت ومحبت رکھتے ہیں، امام ان عناوین سے اُمت کے اندر حاضر ہیں لیکن اسوہ کے طور پر حاضر نہیں ہیں یعنی اُمت چاہتی ہی نہیں کہ امام اسوہ بن کر ان کے اندر حاضر ہوں یہ اُمت کا عمل ہے اس کو ہم معمولی مثال میں بھی لحاظ کرسکتے ہیں مثلاً آج کی شخصیات جو زندہ ہیں ان کا حضور اُمت کے اختیار میں ہے، مثلاً فرض کریں کہ ایک بہت علمی شخصیت مجتہد ہے لیکن بعنوانِ مرجع، عوام اور اُمت کے اندر متعارف نہیں ہے، یہ شخصیت اسی اُمت وقبیلے کا ہے اُنہی کا بیٹا یا بھائی ہے اور اسی قوم سے ہے جسمانی طور پر بعنوانِ فرزند قوم حاضرہے یا ایک عالم کے طور پر ان کے اندر حاضر ہے لیکن ایک مرجع کے طور پر حاضر نہیں ہے اور مرجع کے طور پر کیوں حاضر نہیں ہے چونکہ اُمت نے اس کو مرجع کے طور پرقبول نہیں کیا لہٰذا اس کا مجتہدانہ حضور نہیں ہے یا ایک عالمِ دین کسی علاقے میں موجود ہے وہ ان کے ہر کام میں شریک ہے ویلفیئر کاکام کرتا ہے، رفاہی کام بھی کرتا ہے اور ہر قسم کی فعالیت میں شریک ہے لیکن بعنوانِ مبلّغ وہاں اس کی کوئی کارکردگی وسرگرمی نہیں ہے، یہ شخص بہت سارے عناوین کے تحت اُمت کے اندر حاضر ہے لیکن مبلّغ کے طور پر حاضر نہیں ہے، بعنوانِ مبلّغ اُمت کے اندر سے غائب ہے، خواہ نخواہ اس غیبت کے بھی اثرات پڑتے ہیں جس اُمت سے رہبر اور اسوہ غائب ہو اورجس اُمت سے رول ماڈل غائب ہو وہ اُمت اسوہ کے اثرات یا حکمت وہدایت سے محروم ہوجاتی ہے، حالانکہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے اسی ہدایت کیلئے اُنہیں اسوہ بنا کر بھیجا تھا۔

 

اقبال کی عالمی بصیرت

اقبال پر خداوند تبارک وتعالیٰ نے یہ لطف کیا ہے کہ اُنہیں غیر معمولی بصیرت عطا کی ہے یہ بصیرتیں خدا نے سب کیلئے رکھی ہوئی ہیں لیکن دیتا خدا اُن کو ہے جو اس کے قدردان ہوں، جو اپنی ابتدائی بصیرت کو دُنیاوی چھوٹے اور گھٹیااُمور میں صرف کردیں خداتعالیٰ بصیرتِ برتر ان کو نہیں دیتا لیکن جو اپنے اندر اس

گوہر کے قدردان ہوتے ہیں، خدا اُنہیں بصیرتِ برتر و بصیرتِ عظیم عطا کرتا

ہے۔

تاریخ بشریت میں انگشت شمار لوگ ہیں جو بصیرتِ برتر کے مالک ہیں۔

عام لوگ وہی معمولی بصیرت کے لوگ ہوتے ہیں علماء میں بھی اکثریت معمولی

بصیرت کے حامل لوگ ہیں۔ صاحبانِ بصیرتِ برتر اور خواص کے اندر بھی بہت کم

اور انگشت شمار ہیں اور ان میں سے ایک اقبال ہیں۔ اقبال کی یہ نظم جو انہوں

نے حضرت سیدہ (س) کی بارگاہ میں بعنوانِ ہدیہ عقیدت پیش کی ہے جس کا عنوان ہی ان کی عالی بصیرت کی دلیل ہے، اوروہ عنوان یہ ہے :

''در معنیٰ این کہ سیدة نساء فاطمہ الزہرا سلام اﷲ علیھا اسوہ کاملہ است برائے نساء اسلام''

اقبال کے نزدیک حضرت زہراء (س) اسوہ ہیں اور کامل اسوہ ہیں، یعنی کیا؟ یعنی

اقبال چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ(س) کو اُمت کے اندر حاضر کریں، اسوہ یعنی

اُمت میں حضرت زہراء (س) کا حضور! یہ حضور اس حضور سے مختلف ہے جو

معتقدین، محبّین، مدّاحین اورذاکرین پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ

ہماری مجلس ہورہی ہے اور بی بی آئی ہوئی ہیں یہ حضور کہاں؟ اور وہ حضور جو

اقبال چاہ رہے ہیں وہ کہاں؟

حضور حضرت فاطمہ(س) اُمت میں

اقبال جس نقطے سے حضرت زہراء (س) کا حضورِ اُمت چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اُمت خود حضرت فاطمہ الزہراء (س)کو اپنے لئے اسوہ بنائے اور جب تک اُمت اسوائیت کی دید سے حضرت زہراء (س)کو نہیں دیکھتی حق زہرا کسی سے بھی ادا نہیں ہوگا۔

بے شک مدحِ زہراء (س) میں شعر کہیں، مثنویاں کہیں اور اولادِ حضرت زہرا ء

کیلئے آنسو بہائیں، جو مرضی ہے کریں لیکن جب تک لوگ حضرت زہراء (س)کو

ہدایت کے عملی اسوہ کے طور پر اپنی زندگیوں میں نہیں لاتے، اپنے معاشرے میں نہیں لاتے اس وقت تک حق زہرا ادا نہیں ہوتا، اس وقت تک حق خدا بھی ادا

نہیں ہوتا، یہ جو خدا نے فرمایا:

''وماقدرواﷲحق قدرہ'' تم لوگوں نے خدا کی قدر نہیں جانی۔ خدا کی قدر جاننے سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم نے یااللہ یااللہ تھوڑا کہا ہے بلکہ تھوڑا اور اضافہ کردو، ذکر وورد بڑھا دو، نہ، تم نے خدا کی قدر ہی نہیں جانی یہ تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کیا ہے اور خدا نے تمہارے لئے کیا کیا ہے؟ اور تمہیں کس دید اوربصیرت سے خدا کودیکھنا چاہیے؟ مثلاً فرض کریں کہ ایک عالم فاضل دانشور انسان کسی اُمت کے اندر جاتا ہے اور وہ اس کو خوب کھانا کھلاتے ہیں، خوب آئو بھگت کرتے ہیں اس کو ہدیہ وتحفے دیتے ہیں لیکن اس کے علم سے استفادہ نہیں کرتے تو وہاں یہ جملہ صدق کرتا ہے کہ انہوں نے اس کی قدر نہیں جانی۔ اگرچہ اس کو بہت زیادہ احترام بھی دیا لیکن اس کی قدر نہیں جانی، قدرِ عالم یعنی اس کے علم کی قدر، قدرِ امام یعنی اس کی امامت کی قدر ہے اور قدرِ اسوہ یعنی اس کی سیرت کی قدر کو کہتے ہیں لہٰذا جب تک زہرا ء (س) کو بعنوانِ سیرت نہیں اپنائیں گے حضرت زہراء (س) اُمت کے اندر حاضر نہیں ہوںگی۔ حضورِ زہراء (س) کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو بعنوانِ اسوہ اپنائیں تاکہ حوزوں میں حضرت زہراء (س)

موجود ہوں، گھروں میں حضرت زہراء (س) موجود ہوں، معاشرے میں حضرت زہراء (س) موجود ہوں، آداب ورسوم میں حضرت زہرا ء موجود ہوں اور وہ بھی اسوہ اور

رول ماڈل بن کر موجود ہوں، تب ہی کچھ نہ کچھ حق زہراء (س) ادا ہوجائے گا۔

 

ہیرو اور رول ماڈل میں فرق

ہیرو اور رول ماڈل میں یہی فرق ہوتا ہے، معصومین کو بھی ہیرو کی نگاہ سے

دیکھتے ہیں۔ ہیرو اور قہرمان لوگوں کی زندگی میں نہیں ہوتا بلکہ فقط لوگوں

کے ذہنوں اور دلوں میں ہوتا ہے، اس سے محبت کی جاتی ہے اس کے سامنے اظہارِ عقیدت کیاجاتا ہے، گلہائے عقیدت اس کے سامنے نثار کئے جاتے ہیں چونکہ قہرمان اگر زندگیوں میں آجائے تو سب ہیرو بن جائیں گے، سب قہرمان ہوں گے حالانکہ قہرمان اور ہیرو سب نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے، اس وجہ سے قہرمان کبھی بھی کسی کی زندگی میں نہیں آتا لیکن ذہنوں اور دلوں میں آتا ہے۔

خدا نے معصومین وانبیاء کو قہرمان سے زیادہ اسوہ اور رول ماڈل بنا کر پیش کیا ہے کیونکہ رول ماڈل انسان کی زندگی کا محرم ہے۔ اس کو ان کی زندگیوں کے اندر جانا ہے ان کے جزئی ترین افعال واعمال کے اندر جانا ہے، قہرمان نہیں جاسکتا لہٰذا جتنے بھی قہرمان ہیں، مثلاً جو کردار انسان نے خود افسانوی طور پر بنائے ہیں یا یہ جو واقعاً تاریخ میں قہرمان گزرے ہیں ان کی ادا کوئی بھی نہیں اپناسکا، ان کی کوئی بھی تقلید نہیں کرسکا، ان کی راہ پر کوئی بھی نہیں چل سکا صرف ان کی ستائش کی ہے خواہ وہ افسانوی قہرمان ہوں یا واقعی۔ ہیرو قابل تقلید نہیں ہوتا لیکن اسوہ قابلِ تقلید ہوتا ہے اس لئے ان کو زندگی میں لانا ضروری ہے۔ اقبال اس نظم میں حضرت زہراء (س) کو زندگیوں میں لانا چاہتے ہیں۔

 

زندگی ممنوعہ علاقہ

ظاہر ہے کہ لوگ ہر ایک کو اپنی زندگی میں نہیں آنے دیتے چونکہ سب سے سخت حریم انسان کی اپنی زندگی ہے۔ ہم زندگی سے باہر بہت ساری چیزیں رکھتے ہیں لیکن زندگی کے اندر بہت کم چیزوں کو آنے دیتے ہیں، بہت کم اُمور کو اجازت دیتے ہیں کہ ہماری زندگیوں کے اندر آئیں۔ ہماری دوستیاں اور تعلقات ہوتے ہیں لیکن یہ تعلقات ہماری زندگی کے دائرہ کار سے باہر ہوتے ہیں۔ زندگی میں انسان کسے آنے کی اجازت دیتا ہے؟ زندگی میں اس کو آنے کی اجازت دیتا ہے جس پر اعتماد ہو، اعتماد بھی اس باب سے ہو کہ اُس کا میری زندگی میں آنا میرے لئے مفید اور ضروری ہے اس وقت اس کو زندگی میں آنے کا موقع دیتا ہے ورنہ ہمیشہ اس کو زندگی سے باہر رکھتا ہے اگرچہ کوئی بھی رشتہ اس کے ساتھ ہو مثلاً بہت سارے لوگ ہیں جو کسی دوست کو اپنی زندگیوں میں آنے دیتے ہیں لیکن اپنے بھائی کو اپنی زندگی میں آنے نہیں دیتے، کیوں نہیں آنے دیتے؟ چونکہ دوست سے اُنہیں توقع ہے کہ یہ میرے لئے مفید ہے لیکن بھائی شاید میرے لئے مفید نہیں ہے، ممکن ہے ایک شخص اپنے اُستاد کو اپنی زندگی میں آنے دے لیکن اپنے والد کو اپنی زندگی میں نہ آنے دے، کیوں؟ کیونکہ اس کو باپ پر اعتماد نہیں ہے یا باپ کو یہ اتنا کامل نہیں سمجھتا کہ وہ میری زندگی کو سنوار سکے۔ پس بعض لوگ ہماری زندگیوں میں ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر کوئی گوہر و جوہر پایا جاتا ہے ان کو اجازت نہیں ہوتی کہ اندر آئیں، اس لئے اقبال حضرت زہراء (س) کو اُمت کی روزمرہ زندگی میں لانا چاہتے ہیں اور زندگی سے مراد بھی شاعرانہ زندگی نہیں اور نہ ہی ذہنوں اور مجلسوں میں لانا چاہتے ہیں اور نہ ہی فقط مرثیوں اور قصیدوں میں لانا چاہتے ہیں۔

کسی شخص کا میری مدح میں آنا بہت آسان ہے لیکن اس کا میری زندگی میں آنا اور وہ بھی روزمرہ کی زندگی میں آنا یعنی میرے صبح وشام میں وہ موجود ہو یہ بہت اہمیت رکھتا ہے یعنی ایسی شخصیت جس کے ساتھ میں زندگی بسر کروں، اسوہ یعنی ایسا ساتھی جس کو دیکھ کر انسان زندگی بسر کرے اور اس کی کاپی(Copy)کرے، انسان اُس کے سائے میں رہے لہٰذا اُس کے اندر ایسے گوہر اور خصائل ہونے چاہئیں تاکہ ہم سب اپنی زندگیوں کے دروازے ان کے اوپر کھول دیں، ابھی ہم نے اپنے دروازے ان شخصیات پر نہیں کھولے جن کے عقیدت مند ہیں، اس لئے تو ان کی زندگیوں کی جھلک ہماری زندگیوں میں نظر نہیں آتی، ان کی زندگی دینی اسلامی معیاری زندگی ہے جبکہ ہماری کلچرل زندگی ہے، ان کی زندگی حقائق کے تابع ہے ہماری زندگی کاذب چیزوں کے تابع ہے، ان کی زندگی میں اقدار ہیں ہماری زندگی اقدار سے خالی ہے، ان کی زندگی کے خدا ساختہ اصول ہیں ہماری زندگی میں خود ساختہ اصول ہیں، ان کی زندگی میں نظم ہے ہماری زندگی میں نظم نہیں ہے درحالیکہ ہمارے ذہنوں اور دلوںمیں وہ ہیں ہماری زبانوں پر ان کے تذکرے ہیں لیکن ہماری زندگیوں میں داخل نہیں ہیں، ہم نے اپنی زندگیوں کے دروازے آئمہ پر نہیں کھولے اور حضرت زہراء (س) پر نہیں کھولے۔

اقبال پہلے مقامِ حضرت زہراء (س) بیان کرتے ہیں تاکہ اُمت اپنی زندگیوں کے دریچے کھول دے یعنی اعتماد ہوجائے، خاطر اُمت آسودہ ہوجائے کہ جس شخصیت کو زندگی میں لارہے ہیں وہ بہت پاکیزہ ہے اگرچہ ہماری زندگیاں یقینا آلودہ ہیں لیکن ہماری آلودہ زندگیوں میں بھی ہم کسی آلودہ کو نہیں آنے دیتے، مثلاً اپنی زندگی میں کسی فاسق وفاجر کو نہیں آنے دیتے، مثلاً ایک چور دوسرے چور کے ساتھ مل کر چوری کرتا ہے لیکن چور کو اپنی زندگی میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ جب وہ اس کے گھر آتا ہے تو اس کو پتہ ہے کہ ممکن ہے میری بھی کوئی چیز چرالے۔ ایک نادان کسی نادان کو اپنی زندگی میں نہیں آنے دیتا، دانا کو اپنی زندگی میں آنے دیتا ہے لہٰذا ہماری زندگیاں بے شک آلودہ ہوں لیکن کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان آلودہ زندگیوں میں پاک شخصیات اور پاک ہستیاں داخل ہوں۔ لہٰذا اقبال بھی پہلے حضرت زہراء (س)کا مقامِ طہارت وپاکیزگی اور عظمت کو بیان کرتے ہیں تاکہ خود ہی دروازے کھل جائیں اور کوئی کھٹکا و خدشہ ہمارے ذہن میں نہ ہو کہ کونسی شخصیت ہماری طرف آرہی ہے۔

 

حضرت مریم(س) اور حضرت زہراء (س) کا مقام

مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

جنابِ مریم بہت باعظمت اورپاکیزہ خاتون ہیں، عموماً کتابوں، منبروں اور محفلوں

میں ہم معصومین کے درمیان تقابل کرکے اس تقابل کے نتیجے میں اپنی مدنظر

شخصیت کو بڑھانے کیلئے دوسرے معصوم کو نیچا دکھا کر کہتے ہیں کہ یہ بہت

عظیم ہیں اور اس سے ہمیں خوشی ہوتی ہے، حالانکہ اقبال یہ کام نہیں کررہے

ہیں چونکہ مریم اسوۂ قرآنی والٰہی ہے، خدا نے مریم کو بعنوانِ اسوہ متعارف

کروایا ہے۔ مریم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے

قصہ مریم بتانا شروع کردیا کہ مریم پیدا کیسے ہوئی، دُنیا میں کیسے آئی؟

والدین کیسے تھے؟ کس طرح سے والدین کی نگاہ بچوں کی طرف ہو؟ لہٰذا یہ عمل ہر گز انجام نہ دیں کہ حضرت زہراء (س) کی خاطر ہم حضرت مریم کا مقام معاذ اللہ چھوٹا اور ناقص ثابت کریں، نہ حضرت مریم بھی اسوۂ کاملہ ہیں۔

انسانیت کے درجات ہیں اگرایک شخصیت درجہ اعلیٰ پرموجود ہے تو اس کے معانی یہ نہیں ہیں کہ چھوٹے یا نچلے درجے پر جو ہے اس کو ناقص ثابت کریں تاکہ بالاتر درجے کا مقام ثابت ہو، حضرت مریم اسوۂ کاملہ ہیں۔ حضرت زہراء (س) کا اسوہ ہونا حضرت مریم سے برتر ہے۔ نہ اس وجہ سے کہ حضرت مریم میں کوئی نقص ہے، بلکہ حضرت زہراء (س) میں فراوان کمالات ہیں، لہٰذا پہلے وہ اسوہ اقبال پیش کرتے ہیں کہ جو قرآن نے پیش کیا، یعنی مریم جو ایک مسلّم اسوہ ہیں، حضرت زہراء (س) کی عظمت اور مقام بیان کرنے کیلئے اقبال نے ایک مسلم قرآنی والٰہی اسوہ پہلے چنا ہے اور ان کو پیش کرکے کہا کہ مریم کے بارے میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہے کہ اسوہ ہے چونکہ مریم وہ ہستی ہیں جن کی عصمت پر قرآن میں اور آسمانی کتابوں میں گواہی دی گئی ہے، کمالات اور فضائل مریم اس قدر باعظمت ہیں کہ انبیاء تحت تاثیر مریم ہیں، انبیاء مریم سے متأثر ہیں۔

حضرت زکریا جن کو خدا نے مریم (ع) کا کفیل بنایا۔ مریم بھی بھرپور جوانی میں

بھی نہیں آئی، نوجوانی میں اس قدر پاکیزہ اور باکمال ہیں کہ زکریا مریم سے

متاثر ہیں اور مریم سے الہام لیتے ہیں، نبی خدا مریم سے الہام لیتے ہیں۔

قرآن کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت زکریا (س) محراب میں داخل ہوئے اگرچہ کفیل اور ذمہ دار تھے، لیکن جب حضرت زکریا محراب میں وارد ہوئے، دیکھتے ہیں کہ مریم کے پاس پہلے سے آثار موجود ہیں، نہ صرف یہ کہ کوئی ڈش پڑی ہوئی ہے، ہم بہت سادہ معنی لیتے ہیں فقط مادّی اور ظاہری مظاہر دیکھتے ہیں، یہ سب سے ادنیٰ مرتبہ ہے کہ آپ کے پاس کھانا موجود ہوتا تھا، حضرت زکریا بہت ساری اورچیزیں بھی دیکھتے تھے اور جب بھی جاتے تھے حیرت زدہ ہوجاتے تھے کہ یہ سب کچھ کہاں سے ہوتا ہے۔ بچی سے سوال کیا کہ یہ سب کہاں سے آیاہے یہ آپ کو کہاں سے میسر ہوا ہے؟ حضرت مریم نے فرمایا کہ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے آیا ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ صرف یہ میرے لئے نہیں ہے، خدا فقط میرا خدا نہیں ہے، یا میں ہی فقط اس عالم میں مستحق فیض خدا نہیں ہوں بلکہ کہا خدا جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اس وقت حضرت زکریا گئے اور بارگاہِ خدا میں جاکر دُعا کی کہ پروردگارا! مجھے بھی دیدے اور خداوندتبارک وتعالیٰ سے جو فرزند مانگا وہ حضرت یحییٰ تھے۔ پس مریم ایک اسوۂ کاملہ ہیں لیکن حضرت زہرا ء برتر اسوہ ہیں یعنی مقاماتِ حضرت زہراء (س) مقاماتِ حضرت مریم سے برتر ہیں۔

مریم از یک نسبتِ عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

علامہ اقبال نے حضرت مریم کی ایک نسبت جبکہ حضرت زہراء (س) کے لئے تین نسبتیں بیان فرمائی ہیں۔ یہ حقیقی فضائل ہیں علماء جب فضائل کو تقسیم کرتے ہیں تو فضائل کی چند قسمیں کرتے ہیں، ایک قسم فضائل نفسی ہیں اور دوسری قسم فضائل نسبی ہیں۔ فضائل نفسی وہ ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجود ہیں کسی کی طرف اسے نسبت دئیے بغیر اس کے اندر یہ فضائل موجود ہیں یعنی کسی نسبت سے اس نے یہ فضیلت کسب نہیں کی ۔ بلکہ اگر تمام عالم اور ماسوا سے اسے ہٹا کر فقط اس کو دیکھا جائے تو اس کے اندر یہ فضیلت موجود ہے، کسی چیز سے آپ موازنہ نہ کریں، کسی بھی چیز سے تقابل نہ کریں، صرف اسی کو دیکھیں اب ممکن ہے اس کے اندر کوئی حسن موجود ہو، اگر کوئی حسن اور خوبی اس کے اندر موجود ہوتو اس خوبی کو کہیں گے کہ یہ اس کی نفسی خوبی ہے یعنی اس کی ایسی خوبی ہے جو کسی چیز سے منسوب کرنے کے نتیجے میں اس میں پیدا نہیں ہوئی۔

لیکن ایک خوبی اس میں یہ ہے کہ اس کا کسی سے مقائسہ اور موازنہ کریں اور اس کے ساتھ لحاظ کرتے ہوئے اس میں یہ وصف پایاجتا ہے، مثلاً جس چیز سے یہ بنی ہوئی ہے یا جس معمار یا کاریگر نے اس کو بنایا ہے اس چیز سے اس کو نسبت دے کر کہے کہ اس کا بنانے والا بہت خوب ہے، ظاہر ہے جس چیز کا بنانے والا خوب ہے وہ چیز اس کی وجہ سے ایک قیمت اور اعتبار اپنے اندر پیدا کر دیتی ہے۔

مثلاً معمولی لکڑی سے بنا ہوا فرنیچر ہو لیکن بنانے والا بہت ہی مشہور کاریگر ہو اس فرنیچر کے اندر ایک قیمت آجاتی ہے چونکہ بنانا والا معروف ہے،جس طرح سے آج کل وہ کمپنیاں جو بہت مشہور ہیں اور جن کا اعتبار ہے وہ اگر بہت معمولی چیز بھی بنادیں تواس کی بہت ہی قیمت ہوتی ہے اگرچہ اس چیز کے

اندر خود کوئی قیمتی چیز نہیں ہے لیکن اس نے وہاں سے حیثیت حاصل کی ہے اور کسب کی ہے۔

پس کچھ صفات وہ ہیں جو کسی سے نسبت دئیے بغیر شے کے اندر پیدا ہوتی ہیں اور کچھ صفات ایسی ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس

کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت زہراء (س) اور حضرت مریم میں دونوں طرح کی

صفات اور فضائل ہیں وہ فضائل بھی جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں یہ بھی حقیقی فضائل ہیں مجازی نہیں ہیں اور وہ فضائل بھی پائے جاتے ہیں جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں ان کو کسی اور سے منسوب کریں یا نہ کریں۔

 

مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز

مریم کو اگر ایک عیسیٰ سے نسبت دے کر دیکھیں تو مریم بہت باعظمت ہے، کیوں؟ اس لئے کہ نبی خدا کی ماں ہونا، یہ ایک صفت ہے جو عیسیٰ کے ساتھ منسوب کرنے سے حضرت مریم میں آئی ہے، اس وصف کو ایک لحظہ کیلئے اگر ہم الگ کردیں اور حضرت مریم کو نہ حضرت عیسیٰ سے قیاس کریں اور نہ زکریا سے اور نہ ہی کسی اور سے، صرف حضرت مریم کو دیکھیں کہ حضرت مریم کی ذات میں عیسیٰ کی ماں ہونے کے علاوہ بھی کوئی کمال پایاجاتا ہے یا نہیں؟ درحقیقت مریم کو جو خدا نے چنا کہ یہ عیسیٰ کی ماں بنے وہ اس وجہ سے نہیں تھا کہ عیسیٰ سے منسوب ہونے سے باکمال خاتون بن جائے گی۔ بلکہ پہلے مریم میں کمالات رکھے تاکہ عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہوجائے، پہلے کمالاتِ نفسی اورکمالاتِ ذاتی مریم میں آئے، ان کمالات کے نتیجے میں نسبی کمالات پیدا ہوئے، یعنی ہر خاتون عیسیٰ کی ماں بننے کے قابل ہو وہ معجزۂ خدا کا مظہر بن سکے۔ پس پہلے کمالاتِ نفسی ہیں، حضرت مریم کے اندر موجود کمالاتِ نفسیہ نے حضرت مریم کو اس قابل بنایا کہ عیسیٰ سے نسبت برقرار ہو جائے، عیسیٰ سے نسبت برقرار ہونے سے ایک اور کمال حضرت مریم کے اندر آیا۔

اسی طرح سے حضرت زہراء (س) کے سارے کمالات یہ تین نسبتیں ہی نہیں ہیں، ان میں ایک نسبت یہ ہے کہ رحمت للعالمین(ص) کی بیٹی ہیں، ایک نسبت یہ کہ شیر خدا کی زوجہ ہیں اور ایک نسبت یہ کہ دو اماموں کی ماں ہیں، یہ تین نسبتیں ہیں۔ یہ تین نسبتیں کل متاعِ حضرت زہراء (س) نہیں ہے یہ ساری میراث نہیں ہے بلکہ حضرت زہراء (س) کے کچھ اور کمالات بھی ہیں یہ میراث ان کمالات کا نتیجہ ہے یعنی کچھ کمالات حضرت زہراء (س) کے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت زہراء (س) کو اس قابل بنایا ہے کہ ان تین نسبتوں میں آجائیں، اس وجہ سے روایات میں ہے کہ خداوند تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر حضور(ص) کی ذات نہ ہوتی تو میں یہ عالم خلق نہ کرتا اور اگر زہراء (س) کو خلق نہ کرتا تو میں آپ کو بھی خلق نہ کرتا، اس قسم کی روایات درحقیقت یہی بتانا چاہتی ہیں کہ درحقیقت اسوائیت کیلئے نسبی کمالات کافی نہیں ہیں، مثلاً حضرت مریم، عیسیٰ کی والدہ ہیں پس اسوہ ہیں مومنین کیلئے، یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ اب مائیں یا عام خواتین حضرت عیسیٰ کی ماں بنیں؟ کیا اسوائیت کا یہ معنی ہے کہ ساری خواتین عیسیٰ کی ماں بنیں؟ نہ یہ نہیں ہوسکتا، عیسیٰ کی ماں صرف ایک اور وہ مریم ہے۔ پس کب خواتین مریم کی اتباع کرسکتی ہیں؟ کب خواتین مریم کو اسوہ بناسکتی ہیں؟ ان صفات کی بناء پر جن صفات کی وجہ سے مریم اس قابل ہوئیں کہ عیسیٰ کی ماں بن سکیں یعنی خواتین اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں تاکہ ان سے بھی حضرت عیسیٰ جیسے بچے پیدا ہوں، پاک وپاکیزہ بچے پیدا ہوں۔ جیسے موسیٰ کی والدہ کو خدا نے وہ حیثیت دی کہ موسیٰ جیسی شخصیت پیدا ہوئی اور موسیٰ جیسی شخصیت کو اس ماں نے تربیت کیا اور وہ سارے دکھ اور درد اس ماں نے جھیلے۔

ایسی مائیں جن کا بچہ ہاسٹل میں رہتا ہے اُنہیں گھر میں نیند نہیں آتی جبکہ ان کو پتہ ہے کہ ان سے بہتر زندگی یہاں گزار رہا ہے لیکن ایک ماں ہے جو اپنے شیر خوار بچے کو تابوت میں بند کرکے دریا کے حوالے کردیتی ہے، کیا ایسی ماں کی فقط یہ عظمت ہے کہ یہ موسیٰ کی ماں ہے؟نہ، اس کی عظمت کا اندازہ کوئی بھی نہیں کرسکتا، یہ جو کام کررہی ہے یہی بتاتا ہے کہ بہت بڑی اور باعظمت خاتون ہے، اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے تابوت میں بند کررہی ہے اور خدا پر بھروسہ اور وعدۂ خدا پر یقین کرکے بچے کو دریا کے حوالے کررہی ہے یہ باکمال خاتون ہے، اس لئے خدا نے اس کو انتخاب کیا کہ موسیٰ اس کے بطن سے پیدا ہوا۔ وہاں اور بھی بہت سی خواتین تھیں کسی اور خاتون سے کوئی بچہ پیدا ہوجائے، نہ۔ حضرت زہراء (س) کی یہ تین نسبتیں اس وجہ سے ہیں چونکہ زہراء (س) اس قابل ہے کہ ان تین نسبتوں سے منسلک ہوسکیں، خاتونِ جنت بن سکتی ہیں۔ کیوں بن سکتی ہیں؟ ذاتی اور اندرونی کمالات کی وجہ سے بن سکتی ہیں۔ ہم سارا چرچا فقط اُن کمالات کا کرتے ہیں جو نسبی کہلاتے ہیں، دوسرے یہ کہتے ہیں کہ اگر نبی (ص) کی بیٹی اور رشتہ دار ہونا مہم ہے تو نبی کی اور بھی بیٹیاں شمار کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کی بیٹیاں تھیں، یا نبی کی ازواج کو بھی اتنی عظمت حاصل ہونی چاہیے، نبی (ص) کے تمام رشتہ دار، خالہ، پھوپھی، وہ بھی رشتہ دار ہیں اگر رشتوں ہی سے سب کچھ حاصل ہوتا ہے تو سب رشتے ایک جیسے ہونا چاہئیں یہ نسبتیں کمالاتِ نفسیہ کا نتیجہ ہیں نہ کمالاتِ نسبیہ کا، لیکن ان کو اقبال کیوں پیش کررہے ہیں؟ اس لئے کہ یہ تین نسبتیں اگر جمع کریں تو ان تین نسبتوں کے اندر ساری دُنیا کے کمالات سمائے ہوئے ہیں، سارے کمالات ان تین نسبتوں کے اندر موجود ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ان جملہ کمالات میں سے فقط تین نسبتیں ذکر کی ہیں، بلکہ ان تین نسبتوں کا تذکرہ درحقیقت تمام کمالات کا تذکرہ ہے۔ مولانا روم کے بقول کہ پیغمبر اکرم (ص) کے تذکرہ فقط آپ (ص) کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ آپ(ص) کا تذکرہ تمام انبیاء کا تذکرہ ہے۔

ذکرِ احمد(ص) نامِ جملہ انبیاء است

چون كه صد آمد نود ہم پیش ماست

جب ہم احمد (ص) کہتے ہیں تو گویا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (ع) کا ذکر

کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شخصیت جامع ترین ہے اسی طرح ان تین نسبتوں کے آنے سے ان کے اندر سب کمالات آجاتے ہیں کیونکہ ایک طرف رسولِ اکرم (ص)، ایک طرف امیرالمومنین(ع)اور ایک طرح حسنین تمام کمالات ان تین رشتوں کے اندر پروئے ہوئے ہیں۔

 

رسول اﷲ (ص) کی نورِ چشم

نورِ چشم رحمة للعالمین

آن امام اولین و آخرین

حضرت زہراء (س) آپ(ص) کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں، نورِ چشم ِ رسول اللہ (ص) ہیں یعنی آپ امام اول وآخر اور امامِ مطلق ہیں

یعنی رسول اکرم (ص) علی الاطلاق اولین وآخرین کے امام و پیشوا ہیں۔ باقی

سب رسول اللہ (ص) کے مقتدی ہیں اس رسول اللہ (ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک

زہراء (س) ہیں، یہ بہت خوبصورت تعبیر ہے، رسول اللہ (ص) کی اپنی تعبیر بھی ہے آپ(ص) نے فرمایا:

''فاطمہ قرّة عینی''

آنکھوں کی ٹھنڈک

فاطمہ (س) میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک محاورہ ہے، یہ قلبی کیفیت بتانے کیلئے بولا جاتا ہے چونکہ انسان کی قلبی کیفیات، اندرونی اور نفسانی کیفیات مختلف ہوتی ہیں ان کیفیات کا اثر انسان کے جسم میں بھی ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ رنگ میں بھی ظاہر ہوتا ہے، رنگ ایک ذریعہ ہے انسان کے باطن کو دیکھنے کا، مثلاً اگر انسان خوفزدہ ہو تو ان کے چہرے کا ایک طرح کا رنگ

ہوتا ہے اگر خوشحال ہو ایک اورطرح کا رنگ ہوتا ہے، خصوصاً چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے، خصوصاً جب انسان نااُمید اور مایوس ہوجائے تو سیاہ رنگ اس

کے چہرے پر آجاتا ہے جس سے اس کی مایوسی کا پتہ چلتا ہے اور جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے اور جہاں خوف میں مبتلا ہوتا ہے اس

کا رنگ زرد ہوجاتا ہے، یہ مختلف رنگ مختلف موقعوں پر بدلتے رہتے ہیں، یہ بدلتے رنگ کیا بتاتے ہیں؟ قلبی کیفیت بتاتے ہیں کہ اس کے اندر کیا ہورہاہے۔

از جملہ انسان کے اندام واعضاء میں سے ایک عضو جو انسان کے باطن کی غمازی کرتا ہے، وہ آنکھ ہے جو انسان کے اندرونی حالات کی غمازی کرتی ہے۔ آنکھ کا ایک عمل یہ ہے کہ دیکھتی ہے لیکن اس کا دوسرا کام آنسو ہیں، آنکھوں میں جو رطوبت ہے جو اس کی بقا کیلئے ضروری ہے، یہ رطوبت کبھی بڑھ جاتی ہے اور آنسوبن کر ٹپک پڑتی ہے، یعنی آنکھ کا پانی ایک حوض ہے اور خدا نے آنکھ کو اس حوض میں رکھا ہوا ہے۔ مخصوص پانی ہے جو اس کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ پانی جس کے اندر آنکھ رکھی گئی ہے اس کی بہت زیادہ خصوصیات ہیں، اگر ہم ان آنسوئوں کو سائنسی طور پر یا فزیکلی طور پر دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آئیں گے لیکن اگر ہم اسے نفسیاتی دید سے دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آتے ہیں، آنکھوں کی رطوبت میں جب طغیانی آجاتی ہے تو یہ آنسو بن کے ٹپک پڑتی ہے، یہ کب ہوتا ہے؟ ایک تو پیاز کاٹنے سے ہوتا ہے سب کی آنکھوں پر اس کا اثر ہوتا ہے چونکہ پیاز کے اندر ایسی خصوصیت ہے جس سے آنکھ کے اندر تیزابیت پڑتی ہے یا دیگر اس قسم کی چیزیں ہیں جن سے آنسو نکل آتے ہیں جیسے آنسو گیس وغیرہ لیکن یہ آنسو کے بیرونی عامل ہیں اندرونی نہیں ہیں۔

کبھی باہر سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر ایک ایسی نفسانی، ذہنی اور قلبی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ جس سے یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور اس میں سیلابی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ خود اقبال کے بقول کہ

درد کسی عضو میں ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر سارے جسم کی ہمدرد ہوتی ہے آنکھ

جب جسم کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو اس پر یہ آنکھ گریہ کرتی ہے، بہت ہمدرد ہے

پورے بدن کی ہمدرد ہے، بال دُکھے تو آنکھ روتی ہے، ناخن دُکھے تو آنکھ روتی

ہے لیکن جب آنکھ دُکھے تو کوئی بھی نہیں روتا، آنکھ دُکھے تو آنکھ ہی روتی

ہے، اپنے اوپر بھی روتی ہے اور دوسروں کے اوپر بھی روتی ہے یہ رونا بہت

معنی خیز ہے، یہ سیلاب انسان کے اندر بہت ساری کیفیات کی وجہ سے اُمڈ پڑتا ہے انسان کے اندر بہت ساری کیفیات ہیں جیسے خوف، غم، اندوہ، پریشانیاں اور خوشی ہے۔

خوشی اور غم کے آنسو

آنسو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک آنسو وہ ہوتا ہے جب غم کی کیفیت دل میں آتی ہے تو دل متأثر ہوتا ہے اور یہ قلبی کیفیت جسم پر اثرانداز ہوتی ہے کہ جسم کی رنگت تبدیل ہوجاتی ہے اور کبھی یہ قلبی کیفیت موجب بنتی ہے اور آنکھوں کے حوض میں طغیانی آجاتی ہے، ایک لڑی سی آنسوئوں کی بن جاتی ہے، بعض بہت روتے ہیں غم کاآنسو گرم ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، ہاتھ پر ٹپکے تو پتہ چلتا ہے کہ گرم آنسو ہے یہی آنسو خوشی کے وقت بھی ٹپکتا ہے یعنی انسان جب غیر معمولی خوشحال ہوتا ہے تو اس کے آنسو نکل آتے ہیں لیکن یہ آنسو معمولی خوشی پر نہیں نکلتے چونکہ یہ معمول کی تھوڑی سی خوشی ہے، اتنی نہیں کہ دل کو اُبھارے، اُکسائے، اتنا انبساط دل میں پیدا کرے کہ دل اُچھلنے لگے اور قلبی کیفیت جسم کے اندر ظاہر ہو اور اس حوض میں طغیانی آجائے، لیکن جب غیر معمولی خوشی، غیر معمولی خوشحالی اور سرور انسان کو محسوس ہوتا ہے تو اس وقت یہ کیفیت جسم پر طاری ہوتی ہے پھر یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور ٹپکنا شروع ہوجاتا ہے، اگر آپ خوشی کے وقت غور کریں تو جو آنسو ٹپکتا ہے وہ ٹھنڈا ہوتا ہے گرم نہیں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ غم کے وقت انسان کا ٹمپریچر زیادہ ہوجاتا ہے، آنکھ، حوض اور اس کا پورا نظام سارے کا سارا گرم ہوتا ہے لہٰذا وہ اس پانی کو بھی گرم کردیتا ہے۔ خوشی سے انسان میں خنکی ٹھنڈک آتی ہے حرارت نہیں آتی، ٹمپریچر بڑھتا نہیں ہے، خنکی محسوس ہوتی ہے، پورے بدن میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ حوض بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے، اس کے اندر پانی بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اس میں طغیانی آجاتی ہے جب یہ ٹپکتا ہے تو ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ سرد اور ٹھنڈے آنسو دلیل ہیں کہ انسان کو کسی چیز نے خوشحال کیا ہے۔

رسول اللہ (ص) نے نماز کے بارے میں فرمایا:

''الصلٰوة قرّة عینی''

نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، یعنی کیا ؟ یعنی نماز سے مجھے فوق العادة خوشی محسوس ہوتی ہے، سرور محسوس ہوتا ہے، لطف اور مزہ آتا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی میرے دل پر سرور حاصل ہوتا ہے اور ایک یہ فرمایا کہ ''فاطمة قرة عینی'' حضرت زہراء (س) کو دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی زہراء (س) کو دیکھنے سے میرے اندرجو سرور پیدا ہوتا ہے وہ اس قدر فوق العادة اور غیر معمولی ہوتا ہے جس سے میری آنکھوںمیں ٹھنڈک پیدا ہوجاتی ہے، رسول اللہ (ص) کا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپ رسولِ کامل اور انسانِ کامل ہیں یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ وہ رسول (ص) جب بیٹی کو دیکھتا ہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ نہیں ہیں۔ یہاں دو چیزیں ہیں ایک نگاہِ رسول اللہ (ص) اور ایک وجودِ زہراء (س) ۔ حضرت زہراء (س) کو بہت سارے لوگ دیکھتے تھے، آیا ان کو بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی، نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ دیدِ رسول اللہ (ص) غیر رسول اللہ (ص) میں نہیں تھی، دیدِ رسول(ص) فقط رسول اللہ (ص) میں تھی۔ کیونکہ رسول اللہ (ص) جس کو دیکھتے ہیں الٰہی دید سے دیکھتے ہیں۔

'' المومن ینظر بنور اﷲ'' اس لئے زہراء (س) میں رسول اللہ (ص) کو وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو دوسروں کو نظر نہیں آتیں اور پھر رسول اللہ (ص) کی ذات اور نفسِ رسول اللہ (ص) پر زہراء (س) اثر انداز ہوتی ہیں اور باعث سرورِ قلب رسول اللہ (ص) بنتی ہیں۔

آنکہ جان درپیکر گیتی دمید

روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسول اللہ (ص) جس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندر آکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔

فاطمہ بانوئے تاجدارِ ہل اتیٰ

بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ

مرتضیٰ مشکل کشاء شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا اس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔

''ہل أتیٰ علی الانسان حین من الدھر'' اس سورة کانام سورۂ انسان بھی ہے، جسے سورۂ دہر بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ سورہ ہے جس میں انسان کا مقام و مرتبہ پیش کیاگیا ہے، اس سورہ کی آیات میں جو انسان مقصود ہے وہ ذاتِ گرامی ٔ امیرالمومنین ـ ہے، یعنی یہ سورہ حضرتِ علی ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے، یہ تاجِ قرآنی( ھل اتیٰ) جس تاجدار کے سر پر ہے فاطمة الزہراء (س) اس کی زوجہ اور اس کی بانو ہے۔

مرتضیٰ یعنی صاحبِ مقامِ رِ ضا، مشکل کشاء یعنی جو ہر ایک کی مشکلات حل کرنے والا ہے اور شیرِ خدا یعنی بہادر اور دلیر۔ اس تاجدار کی یہ زوجہ ہیں۔ یہ وہ رشتہ نہیں جس طرح سے معمولی رشتے ہوتے ہیں، بلکہ یہ رشتہ حکمِ خدا سے وجود میں آیا ہے غیر از امیرالمومنین (ع)حضرت زہراء (س) کا کفو کوئی بھی نہیں تھا۔

ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا، ہمسر کا معنی زوج نہیں ہوتا لیکن زوج کیلئے

استعمال ہوتا ہے۔ ہمسر یعنی ہم مرتبہ، ہمسری یعنی ہم مرتبہ ہونا یعنی دو

ایسے افراد کہ جب وہ کھڑے ہوں تو ان کے سر برابر ہوں، اوپر نیچے نہ ہوں اگر

ایک نیچے ہو اور ایک اوپر تو یہ ہمسر نہیں ہے ایک کوتاہ ہے اور ایک بلند ہے ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہیں، دونوں ایک جیسے ہم مرتبہ اور ہم پلہ ہوں تو ان کو ہمسر یا کفو کہتے ہیں۔ اس تاجدار'' ھل اتیٰ'' کی بانو ہونے کیلئے،ہمسر بننے کیلئے ہم مرتبہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جو امیرالمومنین ـ کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہراء (س) میں ہونا ضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔

پادشاہ و کلبہ ایوان او

یک حسام ویک زرہ سامان او

جس تاجدار کا ایوانِ بادشاہت اور اس کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا

ہے، کلبہ یعنی جھونپڑا اس بادشاہ کی کل متاع ہے اور تمام سامانِ زندگی کیا

ہے؟

یک حسام ویک زرہ سامان او

ایک شمشیر اور ایک زرہ کا مالک ہے، حسام شمشیر کو کہتے ہیں۔ یہ اس بادشاہ کی زوجہ ہے، اس بادشاہ کی ملکہ ہے جس کا قصرِ بادشاہی ایک جھونپڑا اور جس کا کل مادّی سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے، یعنی اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سے حاصل نہیں ہوتی اور فضائل اپنے ساتھ منسوب کرنے سے انسان بڑے نہیں ہوتے۔

ایک مصنف نے بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے، بہت زیبا اور سنہری الفاظ سے لکھے جانے کے قابل جملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سے غریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترین

عمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ پس یہ نہ سمجھنا کہ ان

چیزوں سے شخصیت بن جاتی ہے، گھروں، محلوں، پلاٹوں، گاڑیوں، لباس، زیورات

اور اموال سے کسی کی شخصیت نہیں بنتی، یہ تاجدارِ ہل اتیٰ کا گھر، اس کا

قصر ایک جھونپڑا ہے اور اس کا کل سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے اس کے پاس

کچھ بھی نہیں ہے لیکن تاجدارِ ہل اتیٰ ہے اور یہ اس کی بانو ہے، اس کی

بانو کو بھی یوں نہ سمجھنا کہ اس کے پاس املاک ہیں، جاگیریںاور سرمایہ ہے

کیونکہ یہ چیزیں تو باعث عظمت نہیں ہیں یہ دو نسبتیں تھیں۔ اب تیسری نسبت

کی طرف اقبال آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ زہراء (س) کیا ہے؟

فاطمہ زہراء (س) مادرِ مرکز پرکارِ عشق

مادرِ آن مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آن کاروان سالارِ عشق

پورے عالم میں عشق کا ایک ہی امام ہے، امامِ عشق، رہبرِ عشق جو کاروانِ عشق کا سالار ہے، جس کا دین عشق ہے، جس کا مسلک عشق ہے، جو سراپا عشق ہے، جو مرکز پرکارِ عشق ہے۔ پرکار اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، پرکار: اس دو شاخے کو کہتے ہیں جس کی مدد سے دائرہ کھینچا جاتا ہے۔

علمِ عرفان میں بھی یہ اصطلاح(پرکارِ عشق) ہے چونکہ عشق بھی ایک دائرہ ہے، عشق کو تشبیہ دیتے ہیں ایک دائرے کے ساتھ جس چیز کو بھی ہم دائرے سے تشبیہ دیں وہاں فوراً یہ تصویر ذہن میں آنی چاہیے کہ اس دائرے کی ایک پرکار ہے اور اس پرکار کے دو رکن یا دو ستون ہیں، ایک ساکن ہے اور ایک متحرک ہے، دائرے کی یہ خصوصیت ہے کہ دائرے میں اصل وہ بیرونی خط نہیں ہوتا بلکہ دائرے کا اصل اور اساس وہ اندرونی مرکز ہوتا ہے، جس سے دائرہ قائم ہوتا ہے۔ دائرہ اندرونی نکتہ سے قائم ہوتا ہے نہ کہ بیرونی خط سے، بیرونی خط دائرے کی حد ہوتی ہے، دائرے کا قیام اس بیرونی خط سے نہیں ہوتا۔ بیرونی خط دائرے کا رکن ِ اساسی نہیں ہے یعنی اس وجہ سے یہ دائرہ، دائرہ نہیں ہے بلکہ دائرہ اس نقطے کی وجہ سے ہے جو بیچ میں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ دائرے کی تعریف یہ ہے کہ دائرہ اس شکل کو کہتے ہیں جس میں ایک مرکزی نقطہ ہو اور اس کے اردگرد کا محیط، مرکزی نقطے کے ساتھ برابر فاصلہ رکھتا ہو، اگر اس میں کسی حصے کا فاصلہ مرکزی نقطے سے زیادہ ہوگیا تو یہ دائرہ نہیں بنے گا کچھ اور بن جائے گا، دائرہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اپنا فاصلہ مرکز کے ساتھ برابر رکھے، یہ جو لائن ہے یہ بھی نقطے ہیں انہی نقطوں نے خط کو گول بنایا ہوا ہے، ان نقطوں کا فاصلہ اس مرکزی نقطے کے ساتھ برابر ہونا چاہیے یعنی دائرے کا حصہ بننے کیلئے ان کو اپنا فاصلہ برابر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ یہ اس کا مرکز ہوتا ہے۔ دائرے کا مرکزی نقطہ کہاں سے قائم ہوتا ہے؟ یہ پرکار کا نتیجہ ہوتا ہے اور پرکار

کا وہ ستون جو ساکن ہوتا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔

حقیقی دائرے کا مرکزی نقطہ

جیومیٹری کا دائرہ فقط تمثیل کیلئے تھا اب حقیقی دائرے میں آتے ہیں حقیقی دائرے میں جو مرکزی نقطہ ہے وہ مہم ہے حقیقی دائرہ دراصل منظومہ شمسی کی طرح ہے جس میں سورج مرکزہے اور جتنا بھی منظومہ ہے یہ سارا سورج سے قائم ہے یعنی سورج کی کوشش سے یہ باقی ہے۔ اگر سورج کا جاذبہ نہ ہوا اس نے ان کو اپنے ساتھ کشش میں منسلک نہ رکھا ہوا ہو تو یہ منظومہ قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح سے جو حقیقی وجودی دائرہ ہے یہ اس وقت قائم ہوتا ہے کہ جب اس مرکز کے اندر کشش ہو اور یہ کشش ان اطراف اور محیط کے نقطوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔

جہاں کی بقا کا راز عشق

پس دائرے کے اندر مہم نقطہ ہے اور نقطہ پرکار کا نتیجہ ہے، بنابریں چونکہ

ہستی کا سارا نظام عشق سے قائم ہے، ہر مسلک یا ہر انسان عالم کی تفسیر اپنے طور پرکرتا ہے، عرفاء اوراہلِ معرفت کا یہ کہنا ہے کہ عشق بھی ایک دائرہ

ہے کہ جس دائرے کے اندر ہر چیز پروئی ہوئی ہے اور عالم کی بقاء کا راز ہی

عشق ہے، عشق نے عالم خلق بھی کیا ہے اور عشق نے اس کو باقی بھی رکھا ہوا ہے، یعنی یہ زمین کیوں وجود میں آئی ہے؟ عشق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور عشق کی وجہ سے باقی ہے یعنی عالم منظومہ شمسی کی مثال ہے یہ زمین عاشق ِسورج ہے اگر سورج کی عاشق نہ ہوتی تو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی ہوتی، یہ کہیں نہیں جاتی اس لئے کہ زمین کا سورج کے ساتھ ایک رابطہ ہے اور وہ عشق کا رابطہ ہے۔

عشق یعنی جاذبہ و جاذبہ، عشق کی اگر ہم حسی مثال دیں تو یہ مقناطیس ہے، مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، یعنی لوہے کا اور مقناطیس کا رابطہ کشش کا ہے یہ رابطۂ عشق ہے، اس لئے شہوت اور عشق میں بہت

فرق ہے، عشق یعنی ایسا کمال جو باقی کمالات کو کھینچ کر اپنی طرف لائے اور

خود ان کمالات کے لئے مرکز بن جائے۔

دین بھی درحقیقت عشق کا نتیجہ ہے بلکہ دین خود عشق ہے۔ عبادت، سجدہ اور نماز عشق ہے۔ نمازِ عاشقانہ۔ عشق کا معشوق سے اظہارِ عشق کرنے کو نماز کہتے ہیں۔ ایک عاشق کی زبان سے جب معشوق کے بارے میں کوئی بات ہوتی ہے تو یہ اس کی نماز ہوتی ہے، اسی لئے کہاگیا ہے کہ عاشقانہ نماز پڑھو، عاشق کو عاشقانہ باتیں چاہئیں جس طرح سے خود امیرالمومنین ـ کی عبادتیں عاشقانہ عبادتیں تھیں کہ اگر یہ جنت و جہنم سب ختم بھی ہوجائے تو میں پھر بھی اے خدا تیری عبادت کروں گا۔

دین سراپا عشق ہے۔

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:''ہل الدین الا الحب'' یعنی دین محبت اورعشق کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ دین کو تفسیرِ عشق چاہیے۔ ابھی جس

دین سے ہمارا تعلق ہے یہ عاشقانہ نہیں ہے یہ سوداگرانہ ہے یہ سوداگرانہ اور

منفعت طلب دین ہے، یہ عاشقانہ دین نہیں ہے، لہٰذا جن چیزوں میں معاوضہ کم

ہے وہ انجام نہیں دیتے۔ نمازِ شب نہیں پڑھتے، کیوں؟ اس لئے کہ معاوضہ کم ہے

یا اس میں سزا نہیں ہے، ہم معاوضہ کے چکر میں ہیں، جن میں اجروثواب زیادہ

ہے، جس سے جنت میں بڑا پلاٹ ملنے والا ہو ہم ان چکروں میں ہیں۔

دین میں جتنے بھی اصول ہیں وہ سارے عشق کی بنیاد پر قابلِ فہم ہیں انہی میں سے ایک مسئلہ امامت ہے۔ دین عشاق پرور ہے اور انسان کو عاشقِ خدا بناتا ہے اور اس عشق کو امام اور مفسر کی ضرورت ہے اس کاروانِ عشق کو رہبر کی ضرورت ہے اور وہ رہبرِ کاروانِ عشق سید الشہداء ـ ہیں، جو کاروانِ عشق کو لے کر قربان گاہِ عشق تک گئے ہیں اور اب بھی ہیں نہ کہ ایک زمانے میں ایک چھوٹا سا گروہ بہتّر عاشقوں کا تھا اور وہ چلے گئے، نہیں بلکہ قیامت تک کاروانِ عشق کے سالار حسین ـ ہیں۔ اس لئے اقبال حسرت کرتے ہیں کہ کاروانِ حجاز تو ہے لیکن اس میں ایک حسین بھی نہیں ہے۔

مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

فاطمہ زہرا(س) پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز حسین ـ ہیں اور حسین ـ کی ماں زہراء (س) ہے یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلا میدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کو ہی کربلا اور حسین ـسمجھ میں آیا ہے۔ اقبال جیسے انسان کے قلم اور دل سے ہی ایسی زیبابات نکل سکتی ہے، امام حسین ـ کی یہ معرفت فقط اقبال ہی کو ہے۔

فاطمہ زہراء (س) شمع شبستان حرم کی ماں

آن یکی شمع شبستان حرم

حافظ جمعیت خیر الامم

ایک بیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ

حرم ہے، حرم کے شبستان کی شمع ہے جس سے حرم کے اندر نورانیت ہے اور حافظ جمعیت خیز الامم ہیں، خیر الامم اُمت اسلامیہ ہے اور اس اُمت کی بقاء

درحقیقت فاطمہ زہراء (س) کے فرزند کے طفیل اور رہین منت ہے یعنی حضرت امام حسن مجتبیٰ ـ کی مرہون منت ہے، اس صلح کی طرف اشارہ ہے جو اُمت کی بقاء کی خاطر کی گئی۔

تا نشیند آتشِ پیکارو کین

پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین

اُمت کے اندر کینہ و دشمنی کی آگ شعلہ ور نہ ہو، اس کیلئے تاج ونگین اور اقتدار کو ٹھکرادیا، کس لئے؟ تاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے، وہی جس اُمت کو توڑنے کیلئے آج سب نے قسم کھا رکھی ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو عینِ دین سمجھ لیا ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو جنت کا ذریعہ سمجھتے ہیں درحقیقت حضرت سیدہ کے فرزند سبط اکبر ـ نے اس جمعیت کو باقی رکھنے کیلئے اپنا حق بھی دے دیا۔ پھر دوبارہ اقبال امام حسینـ پر آجاتے ہیں۔

فاطمہ (س) مولائے ابرارِ جہاں کی ماں

درحقیقت اقبال عاشقِ حسین (ع) ہیں، اس کاروانِ عشق میں اقبال بھی ہیں جس کے سالار حسین (ع)ہیں۔ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ حسین (ع) سے ہی سیکھا ہے، اصلاً عشق کا اُستاد ہی حسین (ع) ہیں۔ عشق کا معلم ہی حسین (ع)ہیں، غیراز حسین (ع)عشق کسی کو سمجھ میں آتا بھی نہیں۔

آن دگر مولائے ابرارِ جہان

قوتِ بازوئے احرارِ جہان

تمام عالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین (ع) ہیں، دُنیا میں جتنے

بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی فاطمہ کا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور احرارِ جہاں حسین ـ کی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نے حریت کا سبق حسین ـ سے سیکھا ہے۔

در نوائے زندگی سوز از حسین

اہلِ حق حریت آموز از حسین

مترنم ترین آوازیں بھی درحقیقت زندگی کی نواہیں بہترین خوبصورت نغمے بھی زندگیوں کی آوازیں ہیں اور بدترین آوازیں بھی زندگیوں کی صدائیں ہیں بعض زندگیاں ہیں اور ان کی نوامیں سوز ہے۔ بعض بے سوز ہیں۔ شہوت رانوں کی زندگی میں نواہی نہیں اور اگر نواہو تو اس کے اندر سوز نہیں ہے، جاہ طلب، مال پرست، دُنیا پرست، شہرت طلب، ان کی زندگیوں میں نوا نہیں ہے چونکہ ریاکار ہوتے ہیں اور اگر نوا ہو تو بھی اس میں سوز نہیں ہیں اور سوز کہاں سے آتا ہے؟

سوز درد سے آتا ہے، درد کون پیدا کرتا ہے؟ عشق درد پیدا کرتا ہے اور عشق

کہاں سے آتا ہے؟ جب کاروانِ سالارِ عشق سے رابطہ ہو یعنی حسین ـ سے رابطہ ہو، مکتب ِ حسین ـ سے درد پیدا ہوکر عشق آتا ہے، یہ عشق درد پیدا کرتا ہے اس درد سے نوا نکلتی ہے، آواز نکلتی ہے اس نوا میں سوز ہوتا ہے یعنی زندگی کی نوا میں اگر سوز ہے تو وہ حسین سے ہے۔

اے حق پرستو! حریت اور آزادی کا درس حسین (ع) سے دیکھو، حسین (ع) حریت کا اُستاد ہے، معلمِ حریت ہے۔ یہ تو اقبال حضرت زہراء (س) کے فضائل بیان کررہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ کہاں سے آتا ہے، اولاد میں خصلتیں کہاں سے آتی ہیں؟ پھل کہاں سے میٹھا ہوتا ہے؟ پھل درخت کی وجہ سے میٹھا ہوا ہے، کبھی بھی کڑوے درخت پر میٹھا پھل نہیں لگتا۔ بقول مولانا کے کہ ہیچ گندم کاتی وجود بردہد ہیچ دید ای اسبی کرہ خردہد کبھی گندم کاشت کرکے جَو نکلتے ہوئے دیکھا ہے؟ اور کبھی دیکھا کہ گھوڑے سے گدھا پیدا ہوا ہو؟ نہیں ہوتا، کیوں؟ اس لئے کہ تناسب ضروری ہے، جیسے ماں باپ ہوںگے ویسی اولاد ہوگی، جیسا درخت ہوگا ویسا پھل ہوگا۔ یہ حسین (ع) جو کاروانِ سالارِ عشق ہے اور حسین(ع)جو مرکز پرکارِ عشق ہے یہ مولائے ابرارِ جہان کہ جس کی وجہ سے حیاتِ بشر میں سوز موجود ہے، یہ حریت کا معلم ہے۔

اولاد کی تربیت ماؤں کی مرہون منت

یہ ساری صفات ان فرزندوںمیں کہاں سے آئی ہیں؟ فرماتے ہیں کہ

سیرتِ فرزندھا از اُمّھات

جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات

بچوں کی سیرت مائوں کی جانب سے ہے، اس شجرہ پر لگے ہوئے پاکیزہ پھل، پاکیزہ مائوں کا اثر ہے یعنی ماں کے وجود کا اثر ہے، ماں کے دوودھ کا اثر ہے، ماں

کی تربیت کا اثر ہے، کسی بچے کے اندر گوہرِ صدق وصفا ماں پیدا کرتی ہے،

البتہ دوسرے اسباب بھی اس کے اندر دخیل ہیں، تربیت میں بھی بے تربیتی میں

بھی لیکن اساس اور بنیاد ماں ہے، خود انسان بھی ماں سے کچھ لے کر آتا ہے۔

اب حضرت زہراء (س) کیا تھیں کہ جن سے یہ پھل نکلا؟

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادران را اسوۂ کامل بتول

تقدیرِ خدا کے آگے تسلیم ہونا یہ انسان کا مقامِ عظیم ہے، مقامِ تسلیم بہت عظیم مقام ہے، تسلیم کو اگر کھیتی فرض کریں تو اس تسلیم کی کھیتی میں جو پھل لگاہے اس سارے پھل کو اگر جمع کرکے نچوڑیں تو وہ اسوۂ کاملہ زہراء (س) ہیں۔

یہ ساری زحمت اقبال نے اس مصرع کیلئے کی ہے کہ فاطمہ زہراء (س)

مائوں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل مائوں کے شجرۂ وجود پر لگے۔

ضرورت مندوں کیلئے تڑپنے والا دل، دیکھیں زہراء (س) کیا ہیں؟

بھر محتاجی دلش آن گونہ سوخت

بہ یہودی چادرِ خود را فروخت

بہر محتاجی، یعنی ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا زہراء (س) کا دل جلتا اور کڑھتا

ہے کہ ابھی اپنی عروسی ایام میں اور لباس میں ہیں اور باہر فقیر آجاتا ہے

اپنا شادی کا لباس جو ہر خاتون کیلئے ایک یادگار لباس ہوتا ہے اس کو آخر تک

رکھتی ہیں وہی لباس وچادر جاکر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس فقیر کی ضرورت

برطرف کرتی ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) کیلئے رونے والا اور سینہ پیٹنے والا غور

کرے کہ آیا فاطمہ زہراء (س) ہماری زندگیوں میں آئی ہیں؟ کیا ضرورت مندوں

کیلئے اس طرح ہمارا دل جلتا ہے؟ اگر زہراء (س) ہماری زندگیوں میں اسوہ

ہوتیں تو یقین جان لیجئے کہ اس وقت کوئی ضرورت مند ایسا نہ ہوتا کہ جس کی

ضرورت پوری نہ ہوئی ہوتی۔

جن اور ملائکہ، زہراء (س) کے مطیع

نوری وھم آتشی فرمانبرش

گم رضائش در رضائش شوہراش

نوری اور آتشی، یعنی جن اور ملائکہ سارے اس کے فرمانبرار ہیں یہ جو حکم دے وہ مانتے ہیں، یعنی ساری مخلوقات حکم کی پابند ہے۔ یہاں اقبال نے انسانوں کا

ذکر نہیں کیا، ملائکہ اور جن فرمانبردار ہیں چونکہ انسانوں کی زندگیوں میں

ابھی زہراء (س) کو داخل کرنا چاہتے ہیں کہ ملائکہ اور جنات جس کے

فرمانبردار ہیں، اے بشر اے انسان! تو جس ہستی کے مقابلے میں ہے ملائکہ اس

کے فرمانبردار ہیں۔

فاطمہ کی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے، علی ـ کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، زہراء (س) کس پر راضی ہیں؟ جس پر علی ـ راضی ہیں اور اُدھر سے ہمارے پاس سند موجود ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ میں اس سے راضی ہوں جس سے فاطمہ زہراء (س) راضی ہیں اور جس پر میں راضی ہوں اس پر اللہ راضی ہے اور فاطمہ زہراء (س) فرماتی ہیں میں اس سے راضی ہوں جس سے یہ علی ـ راضی ہیں۔

آن ادب پروردۂ صبر ورضا

آسیا گردان و لب قرآن سرا

فاطمہ زہراء (س) ادب پروردۂ رسول (ص) ہیں یعنی رسول اللہ (ص) نے آپ کی تربیت کی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپ مقامِ رِضا پر فائز

تھیں۔

اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیں، نوکر چاکر نہیں رکھے ہوئے تھے کہ

جو گھر کے کام کرتے ہوں اور خود ڈرائنگ روم میں بیٹھی رہتی ہوں، جیسا کہ آج

کل خواتین کی روش ہے یہ سب اس لئے ہے کہ زہرا بعنوانِ اسوہ ہماری

زندگیوں میں داخل نہیں ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) کے نام پر مدرسے بنے ہوئے ہیں،

فاطمہ زہراء (س) کے نام پر ادارے بنے ہوئے ہیں، فاطمہ زہراء (س) کے نام

پر کیا کچھ ہورہاہے؟ یہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کے دوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑ

گئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔ بی بی کی

ایک روایت ہے، فرماتی ہیں کہ ''احبّ الّی من دنیاھم تلاوة القرآن'' اے لوگو! تمہاری دُنیا سے مجھے چند چیزیں پسند ہیں، ان چند چیزوں میں سے ایک قرآن پڑھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے یعنی گھر کاکام بھی کررہی ہیں اور قرآن بھی پڑھ رہی ہیں۔ یہ خواتین جو گھنٹہ گھنٹہ ٹیلیفون پر بات کرتی ہیں، سارا دن ٹی وی دیکھتی ہیں، سارا دن یہ مناظر دیکھتی ہیں اور آخر ایام فاطمیہ میں حضرت فاطمہ کو رونے آجاتی ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) اپنے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتا تھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہ قصر حضرت زہراء (س) خود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی گلہ، کہ یہ میری کیا زندگی ہے؟

فاطمہ کے آنسو عرش برین کا عطر

گریہ ہائے او زبالین بے نیاز

گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز

زہراء (س) سرہانے پر سر رکھی کر نہیں روتی تھیں، چونکہ ایسی خاتون نہیں تھیں کہ جن کے دل کے اندر ہزار محرومیتیں عقدہ بن گئی تھیں، نہ، بلکہ اہل تسلیم ورِضا تھیں، روتی تھیں لیکن ان کے گرویہ کا مقام اور گرویہ کا وقت حالت ِ

نماز تھی، نماز میں روتی تھیں، جی بھر کر نماز میں روتی تھیں، کس کیلئے؟

خدا کے سامنے خدا کے خوف سے روتی تھیں، عظمت ِ خدا کے سامنے روتی تھیں، یہ عاشقانہ گرویہ ہے، یہ عشق کا گریہ ہوتا ہے۔ ان آنسوئوں کو کیا کیا جاتا

تھا؟

اشک او پرچید جبرئیل از زمیں

ھمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں

جبرائیل

آسمان سے زمین پر آتے تھے اور زہراء (س) کے آنسو اکٹھے کرتے تھے اور کیا

کرتے تھے؟ زمین سے زہراء (س) کے جو آنسو نماز میں گرتے تھے اکٹھے کر لئے

جاتے تھے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا اقبال

کے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا زہراء (س) کے آنسوئوں سے تھا، شاعرانہ

تشبیہ و تمثیل ہے یعنی زہراء (س) وہ شخصیت ہے کہ جو عبادت زمین پر کرتی ہیں لیکن تاثیر عبادتِ عرشِ برین پر ہے۔ عرشِ بریں زہراء (س) کے آنسوئوں سے

معطر اور منور ہے۔ اب اتنی باعظمت خاتون کے حضورِ اقبال کیسے عقیدت کا

اظہار کرتے ہیں؟

رشتہ آئین حق زنجیر پاست

پاس فرمان جنابِ مصطفےٰ است

ورنہ گرد تربتش گر دید مے

سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے

آئینِ حق میرے پائوں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام کی اجازت نہیں دیتا اور

اسی طرح جنابِ مصطفےٰ (ص) کے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ

(ص) اگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میرا

ایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ زہراء (س) پر فقط سجدے کرتا۔ اس کی

تربیت پر اقبال کی پیشانی ہوتی یعنی زہراء (س) اس قدر عظمت کی مالک ہے،

ظاہر ہے کہ اس عظمت کو سمجھنے کیلئے اقبال جیسی بصیرت کی ضرورت ہے، ہمارے ذہن میں اتنی معرفت سے بھی قاصر ہیں جتنی خدا نے اس عظیم انسان کو توفیق عطا کی ہے۔ اس دُعا کے ساتھ کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ہمیں مقامِ زہراء (س) کو سمجھنے کی توفیق دے اور حضرت زہراء (س) کو اپنی زندگیوں میں اسوہ کے طور پر داخل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

تحرير : علامہ نقوی

حضرت امام علی علیه السلام کی چند احادیث

1- لا يُحِبُّنی الاّ مومن وَ لا يُبْغِضُنی الاّ مُنافِق‌ٌ

مجه سے مومن کے علاوه کوئی محبت نهیں کرے گا اور منافق کے علاوه کوئی بغض و دشمنی نهیں کرے گا.

بلاشک که حقیقی ایمان کا ایک معیار جهت معین کرنا اور محبت و دوستی هے. هم کسی شخص یا کسی چیز کو کیوں چاهتے هیں؟ اور کسی شخص سے یا کس چیز سے کیوں نفرت کرتے هیں؟ یه چیزیں همارے ایمان معین اور اس کی گهرائی کو معین کرنے والی هے، محبت اور نفرت، باطنی اور نا دکھائی دینے والی چیزیں هیں لیکن ان کی نشانی انسان کی رفتار و گفتار میں دکھائی دیتی هے، هرگز کسی شخص کو اس بات پر مجبور نهیں کیا جاسکتا که وه فلاں شخص سے محبت کرے، یا اس سے نفرت کرے، کیونکه محبت یا نفرت اس معرفت اور شناخت کی بنیاد پر هوتی هیں که جو کسی شخص یا کسی چیز کے سلسله میں هوتی هےاور اس کی قربت دل میں پیدا هوتی هے.

اور ان میں زیادتی یا کمی هونا بھی انهیں اسباب پر موقوف هے، محب اور محبوب کے درمیان جو کشش اور رابطه هوتا هے یا اس سے نفرت کرنے والے اور جس سے نفرت کی جارهی هے ان دونوں میں دوری هوتی هے وه بهی شناخت کی وجه کی بنیاد پر هوتا هے، البته وه تمام چیزیں که جن کو ایک «محبوب» چاهتا هے ایک سطح میں نهیں هیں بلکه محب اور محبوب کے مرتبوں، محبوب کا فائده مند هونا اور محبت کرنے والے کی آرزوئیں اور محبت کی سطح اور اس کی میزان بهی مختلف هوتی هے:

کبھی کبھی کوئی چیز یا کوئی شخص ذاتی اور اصلی طور پر محبوب هوتی هے اور کبھی کبھی عرضی اور واسطه کے طور پر محبوب هوتی هے، چنانچه اگر کچھ لوگ مال و دولت کو چاهتے هیں تو اس کی وجه یه هے که اس کے ذریعه لذت و اور چین و سکون حاصل کیا جاسکتا هے اور چین و سکون اور مزه کو خوشبختی کا سبب تصور کرتے هیں، اور اگر کچھ لوگ علم و دانش کے عاشق هوتے هیں تو اس کی وجه یه هوتی هے که وه اس کے ساتھ قربت محسوس کرتے هیں اور اسے اپنی آرزووں اور اپنے اهداف کو پورا کرنے والا مانتے هیں، لیکن تمام محبتیں اور دوستی«حب كمال اور حبّ سعادت» کی طرف جاتی هیں اور تمام نفرتیں «تنزلی اور بدبختی سے نفرت» کے ذریعه جنم لیتی هیں.

انسان ذاتی طور پر کمال کا طالب اور ترقی کا خواهاں هے اگرچه هوسکتا هے که وه مصداق اور مورد میں غلط انتخاب کرے، اسی وجه سے مکتب وحی میں تمام اولیائے الهی کی بهرپور کوشش رهی هے که انسان کو محبوب لائق اور معشوق حقیقی تک پهنچا دے اورانسان کو کمال اور بلندی کے صحیح مصداق کو پهچنوائے.

جی هاں! انسان کا حقیقی محبوب اور معشوق، کمال مطلق، جمال مطلق، اور رشد و ترقی هے که جب انسان کسی شخص کو یا کسی شی کو چاهتا هے تو اپنے کمال و جمال کو اس میں دیکھتا هے یا اس کو رشد و ترقی کا سبب شمار کرتا هے۔ اور چونکه خداوندعالم هر زیبائی اور کمال کا مرکز و خزانه هے، لهٰذا وهی ذاتی اور اصلی طور پر محبوب هے اور ایک حقیقی مومن اور عارف کے لئے (که جو هستی کی صحیح و حقیقی شناخت اور دینی جهان شناسی کے ذریعه ایمان تک پهنچا هے) «خدا» کے علاوه کوئی مستقل محبوب نهیں هے، تمام صفات اور خوبصورتی کے تمام جلوے خدا کی طرف سے هیں، لهٰذا تمام تعریفیں اور شکرگزاری خداوندعالم سے مخصوص هیں، اسی طرح تمام محبت اور عشق بھی اسی سے متعلق هے، هدایت یافته انسان اسی حقیقت کو پهچانتا هے اور وه خدا سے یهی چاهتا اور طلب کرتا هے که: «خداوندا! میں تجھ سے تیری دوستی اور محبت چاهتا هوں اور ان لوگوں کی دوستی که جن کو تو دوست رکھتا هے اور هر اس عمل سے محبت چاهتا هوں که جو تیرے قرب کا سبب بنے!»

جو لوگ دنیا کی زرق و برق کے عاشق بن گئے هیں اور اپنے مطلق عشق کو مادی اور حیوانی مطلوب اور محبوب میں تلاش کرتے هیں تو اس کی وجه یه هے که انهوں نے صرف دنیا کے ظاهر اور اس میں موجود چیزوں کو دیکها هے اوروه کائنات کی حقیقی معرفت سے محروم هیں اور چونکه انسان ایک ایسا موجود هے که جو مطلق اور بے انتها رجحان رکھتا هے اور دوسری طرف سے دنیوی چیزیں اور انسان کی حاصل کرده چیزیں محدود اور پست هیں اس وجه سے انسان کی فطری اور با عظمت ضرورتوں کو پورا نهیں کرسکتی اور اسے سکون و اطمینان تک نهیں پهنچا سکتی، جو چیز انسان کو سکون و اطمینان اور ایمان تک پهنچاتی هیں وه خدا اور اس کے نیک بندوں کی یاد اور ان کی محبت هے۔

حضرت امیرالمومنین علی علیه السلام کے کلام میں اس حقیقت کا بیان هرگز خودپرستی اور خودخواهی کی بنیاد پر نهیں هے کیونکه آپ کی ذات ان چیزوں سے پاک و پاکیزه هے، بلکه ایک ایسی حقیقت هے که جس کو پیغمبر اسلام (ص) نے اسے اپنے عهد و پیمان کے عنوان سے یاد کیا اور حضرت علی علیه السلام کی دوستی کو ایمان و نفاق کا معیار قرار دیا۔

جی هاں! الله سے محبت اور دوستی کا دعوی کرنے والے بهت سے هوتے هیں لیکن خدا سے حقیقی محبت اوردوستی کا سچا معیار اور نشانی یه هے که جس سے خود غرض (جھوٹا) دعوی کرنے والے حقیقی اور سچے محبت کرنے والوں سے جدا هوجاتے هیں۔ اور وه حضرت علی علیه السلام کی دوستی هے۔ کیونکه حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام خداوندعالم کے جمال و جلال کا مکمل آئینه دار هیں، آپ هی کی ذات امام عاشقین اور رهبر عارفین هے، آپ هی کی ذات کو پیغمبر اکرم (ص) نے صدیق اکبر اور فاروق اعظم قرار دیا هے، خداوندعالم اور پیغمبر اکرم (ص) کی ذات سے سب سے زیاده محبت کرنے والی ذات حضرت علی علیه السلام هے جیسا که آپ نے عقیده و عمل میں اس بات کو ثابت کر دکھایا، حضرت علی علیه السلام حق و باطل کو معین کرنے کا سب سے بڑا معیار تھے که جو خود کو رسول الله (ص) کے غلاموں میں سے ایک غلام تصور کرتے تھے اور جو نفس پیغمبر(ص) تھے۔

کیا یه ممکن هے که کوئی حقیقی مومن هو لیکن اُس کے دل میں حضرت علی علیه السلام کی محبت و عشق نه هو؟ اور کیا یه ممکن هے که کوئی شخص اپنے دل میں حضرت علی علیه السلام کا بغض اور آپ سے نفرت رکھتا هو اور وه خداوندعالم سے دوستی اور اس پر ایمان میں سچا هو؟ حضرت علی علیه السلام که جن کی رفتار و گفتار، میزان حق اور صراط مستقیم هو، اور اپنی زندگی کے مختلف پهلووں اور مختلف نشیب و فراز میں حق و عدالت سے ذره برابر بھی نه هٹے هوں اور انسان کامل کے جامع نمونه اور قرآن ناطق کا اعلیٰ مصداق هو، مومن و منافق کو جدا کرنے کی بهترین میزان اور معیار هیں اور آپ هی کی ذات هے که عالم محشر میں حوض کوثر کے پاس مومن اور منافق کو جدا کرے گی اور آپ هی جنت و دوزخ کو عدالت کے ساتھ تقسیم کریں گے۔

جی هاں! حضرت علی علیه السلام کو مومن کے علاوه کوئی دوست نهیں رکهے گا اور منافق کے علاوه کوئی دشمن نهیں رکھے گا، کیونکه حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام کی محبت ایک ایسا کیمیا هے که جو انسانی وجود کے جوهر کو «علوی» بنا دیتا هے اور اسے رشد و ترقی کی منزلوں تک پهنچا دیتا هے، انسان کے دل و جان میں راسخ هونے والی محبت اور دوستی اور کائنات کے اس دُریگانه کی معرفت پر قائم هے، ایسی دوستی که جو حضرت علی علیه السلام اور خدائے علی سے رابطه کے بغیر ممکن نهیں هے، ایسی دوستی که جس کو خداوندعالم نے اپنے کلام حکیم میں هر مسلمان پر واجب کی هے اور پیغمبر اکرم (ص) کی رسالت کا اجر قرار دیا، ایسی دوستی که جو حضرت علی علیه السلام کی پیروی کرتے هوئے بلند و بالا محبت عشق اور ترقی پر پهنچا دیتی هے یا ایسا بنده بنادیتی هے که جو رشد و ترقی تک پهنچا دیتا هے اور انسان کی راه نجات اور راه سعادت کی باعث بنتی هے۔ اور یهی دوستی اور عشق هے که جو انسان کو عصمت کی سرحد تک پهنچادیتا هے اور اسے اس طرح بلند کردیتا هےکه جس سے انسان کسی گناه اور برائی میں مبتلا نه هو، اور اس کے معنری و روحانی سیروسلوک کو نقصان نهیں پهنچاتی۔۔۔ خدا کرے اس عشق و محبت کا ایک جام همیں بھی نصیب هو۔ (ان شاء الله)

2- اَعيُنونی بِوَرَع و اجتهادٍ و عِفَّة و سَدادٍ.

تقوی اور پرهیزگاری، سعی و کوشش، عفت اور استواری کے ذریعه میری مدد کرو۔

انسان کا اپنے رهبر و پیشوا سے معنوی رابطه، اس امامت و پیشوائی کی وه اصل هے که جس کے بغیربنیادی طور پر پیشوائی اور امامت کا معنی و مصداق نهیں ملے گا، امام اور ماموم (یعنی پیشوا اور پیروی کرنے والے) کے درمیان رابطه میں جو فرق هے وه دوسری قسموں کے روابط میں (جیسے استاد اور شاگرد، والدین اور اولاد، میاں بیوی، یا دو دوستوں کے درمیان) اسی "فکری اور عملی تعلق" میں فرق هے کیونکه ماموم اور پیروی کرنے کا امام اور پیشوا سے معنوی رابطه هے، جتنا بهی یه رابطه عمیق اور گهرا هوگا ، امام کی پیروی، مزید بهترین نتائج اور مزید کامل فوائد مرتب هوں گے اور امام و ماموم کے درمیان قربت میں اضافه هوتا چلا جائے گا اور مطلوبه کمال اور سعادت ابدی (که جو انسان کامل، امام اور خلیفة الله سے معنوی رابطه کے بغیر نهیں حاصل هوسکتی) حاصل هوگی.

حضرت علی علیه السلام کے نظریه کے مطابق هر ماموم کے لئے ایک امام هوتا هے که جس کی وه اقتدا اور پیروی کرتا هے اوراس کے علم کی روشنی سے فائده اٹھاتا هے اور امامت و ولایت کا جوهر اور حقیقت بھی یهی علمی اور عملی رابطه هے. لیکن حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام کی بلندی فکر اور عمل و کردار کی عظمت اتنی عظیم الشان هے که آپ کی پیروی کرنے والے عاشقوں کی رسائی نهیں هوسکتی. اور یه ایک ایسی حقیقت هے که خود حضرت امیر علیه السلام اس سے واقف هیں اور واضح طور پر یه اعلان فرماتے هیں که: "تم مجھ جیسا کردار پیش نهیں کرسکتے" تو ایسے موقع پر کیا کیا جائے؟ حضرت علی علیه السلام کا فرمان یه هے: " تقوی اور پرهیزگاری، سعی و کوشش، عفت اور استواری کے ذریعه میری مدد کرو"۔

الفاظ کی وضاحت:

ورع ، کے معنی خدا سے ڈرنے کے هیں، یعنی گناه سے دور رهنا اور تقوی و پرهیزگاری اپنانا، ورع، متقین کا شعار اور تقوی کی بنیاد اور اس کے ساته ساته هے. مومن کے لئے زینت و زیبائی اور ایک انسان کے لئے سب سے بهترین صفت ورع اور پرهیزگاری هے، جس کا مطلب یه هے که انسان هر طرح کی فکری یا گفتاری کجروی سے محفوظ هو، ورع انسان کی حیات کا سبب اور انسان کی معنوی جد و جهد، تزکیه نفس اور دل و جان کے پاک هونے کا باعث هے، یهی صفت انسان کو مادیت اور حیوانت کے درجه سے نکال کر افق انسانیت (که جو جاده الهی اور خلیفة اللهی کے راه میں چلنا هے) تک پهنچا دیتی هے، ورع اور تقوی کے بغیر کوئی دوسرا کردار انسان کو سعادت اور کامیابی تک نهیں پهنچا سکتا.

اجتهاد، یعنی مکمل طور پر سعی و کوشش کرنا،اپنی تمام کوششوں کو سعادت و کامیابی اور خودسازی تک پهنچنے کےلئے بروئے کار لانا، اورکج روی و خامیوں سے مقابله کرنے کے لئے تیار رهنا،لهذا اس طرح کی سعی و کوشش اور سخت محنت کے بغیر ماموم اور امام کے درمیان رابطه حاصل نهیں هوسکتا.

جو شخص سعی و کوشش نه کرے اور خودسازی نیز تقوی و پرهیزگاری کے لئے همت نه کرے تو ایسا شخص کسی منزل پر نهیں پهنچ سکتا، جهاد میں سب سے پهلا اور سب سے مهم مرحله جهاد بالنفس هے(یعنی انسان شهوات اور نامحدود حیوانی خواهشوں پر غلبه پانے کے لئے کوشش کرے) البته ایسی تلاش و کوشش، تمرین، تکرار، حفاظت، پابندی، حساب و کتاب اور مستحکم اراده کے بغیر ممکن نهیں هے.

عفت یعنی پارسائی٬ پاکدامنی اور حیوانی خواهشات اور شهوات کے مقابله میں اپنے نفس کو کنٹرول کرنا اور نفس کی لگام کو اپنے هاتھوں میں رکھنے کا نام هے٬ عفت اور شهوات کے مقابله میں پاکدامنی کے بغیر انسانی اور الهی کمالات کی طرف بڑهنے کا موقع نهیں مل پائے گا۔ خصوصا جوانی اور خوبصورتی دو بڑی نعمتیں هیں که جن سے «عفّت» کے بغیر انسانی ترقی و تکامل کی طرف قدم نهیں بڑھایا جاسکتا٬ اسی وجه سے حضرت علی علیه السلام کی نظر میں خوبصورتی کی زکوة٬ عفت اور نامحرموں سے اپنے نفس کو بچانا هے۔ جو شخص اپنے اندر عفت کی عادت کی پرورش کرےاور اس کی جڑوں کو مستحکم کرے٬ اس کے گناهوں کا بار کم هوجائے گا٬ نیزخداوندعالم کی نگاه میں اس کا مرتبه بهی بلند هوجائے گا۔ حقیقت یه هے که عفاف اور پاکدامنی ایک ایسا وسیله هے که جس کے ذریعه انسان اپنے نفس کو برائیوں اور پستیوں سے پاک کرکے محفوظ رکھ سکتا هے۔

سداد یعنی ثابت قدم رهنا اور کردار و گفتار میں ثابت قدم رهنا٬ برائی اور پستی سے خود کو پاکیزه رکھنا٬ رفتار و سخن میں معقول طریقه اپنانا۔ قرآن کریم نے بھی اسی بات پر تاکید کی هے٬ نظر اور گفتار میں استواری اور درستی کو نظر میں رکھو٬ اور تمهاری بات«قول سديد» یعنی بهترین اور مستحکم هو٬ اس بات پر دهیان رکهنا که هماری هر بات رضائے الهی کے خلاف نه هو٬ اور کوئی بهی نظریه بے بنیاد اور سست نه هو٬ کیونکه یهی«قول سديد» کا تقاضا یهی هے۔

حضرت امام علی علیه السلام اپنے ماننے والوں سے یه چاهتے هیں که اگر قول و عمل میں امام علیه السلام کے اعلیَ مقام تک نهیں پهنچ سکتے تو ان چار صفات میں آپ کی مدد کریں اور ورع٬ کوشش٬ عفت اور «قول سديد» کی رعایت کریں اور اس طرح امام المتقین اور امیر المومنین کو اس راه میں که جو امام علیه السلام کا آخری مقصد اور هدف هے (که جو وهی انسان کی معنوی ترقی اور ایمان و تقوی کے بلند درجات تک پهنچنا هے) مدد اور نصرت کریں٬ کیا هم نے اپنے ائمه علیه السلام کی مدد کے لئے کوئی قد م اٹھایا هے؟

3- اَلحِكْمَة ضالَّة الْمُوْمِن فَخُذِ الحِكْمَة وَ لَو مِن اَهْل النِّفاق‌

حمکت اوردانش مومن کی گمشده شے هے٬ پس حکمت کو حاصل کرلو چاهے اهل نفاق سے هی کیوں نه ملے۔

حکمت٬ ایسے مستحکم کلام اور علم کا نام هے که جو شائسته اور معقول رفتار و کردار پیش کرتا هے اور حکیم وه شخص هے که نظر و عمل٬ اندیشه و فکر٬ مسلک اورسلوک میں اصول کی پابندی٬ استحکام٬ استواری٬ یقین اور علم سے بهره مند هو اور اپنی رفتار و کردار اور نظریات کو ایسا تنظیم کرے که جن میں تمام سهولیات اور استعداد سے بهره مند هو تے هوئے کمال اور همیشگی سعادت کی راه پر چلے اور مشتاقانه اور عاشقانه طورپر روشن اور تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھائے۔

جو شخص مقام حکمت تک پهنچ جاتا هے وه راه سعادت پر چلنے والوں کو سیراب کرتا هے٬ فضیلتوں اور اقدار کو دوسروں تک منتقل کرتا هے اور استقامت واستواری سے بهره مند هوتا هے٬ سعه صدر اور صبر و بردباری سے کام لیتا هے٬ بدی کا جواب نیکی سے دیتا هے٬ ان سب سے بڑه کر بات یه هے که وه کبهی بهی«حق‌» کا دامن نهیں چھوڑتا٬ وه همیشه گفتار و کردار میں جاده حق پر ثابت قدم رهتا هے اور الله جل جلاله کا اطاعت گذار بنده رهتا هے۔

حکمت کی تعلیم دینا٬ انبیائے اِلهی کی ایک اصلی ذمه داری تھی٬ اولیائے الهی خود بھی حکیم تھے اور دوسروں کو حکمت کی تعلیم دیتے تھے٬ لیکن کبھی کبهی حکمت دوسروں کو یهاں بهی پائی جاتی هے۔ حضرت امیر المومنین علیه السلام نے حکمت کو مومن کی گمشده شے قرار دیا هے که وه همیشه اُس کو تلاش کرنے اور اس تک پهنچنے کے لئے جد و جهد کرتا هے٬ نه یه که اگر کسی جگه اور کسی صاحب حکمت کے ذریعه کهیں حکیمانه مطالب بیان هورهے هیں تو ان سےفائده اٹھآئے! بلکه مومن (همیشه) حکمت کی تلاش میں رهتا هے٬ جس طرح سے اگر کسی شخص کی کوئی قیمتی شئے گم هوجاتی هے تو وه همیشه اُس کی تلاش میں رهتا هے اور هر آن اُس کو حاصل کرلینا چاهتا هے٬ مومن بھی حکمت حاصل کرنے میں اسی طرح جد و جهد کرتا هے اور جب حکمت دوسروں کے پاس دکھائی دیتی هےتو اُسے وهاں سے بھی حاصل کرلیتا هے۔

اگر ایک درّ بے بها کسی کوڑے دان میں پڑا هوا هو یا کسی گندے حیوان کے هاتھوں میں هو تو کیا انسان اُسے نهیں اٹھائے گا٬ تاکه اُسے دھونے اور پاک و صاف کرنے کے بعد اُس سے فائده اٹھائے؟! لهذا اگر حکمت کسی کافر یا فاسق کے پاس هے که جس سے اُس نے فائده نهیں اُٹھایا هے (که اگر وه اُس سے فائده اٹھاتا تو کفر و نقاق اور فسق سے نجات حاصل کرلیتا)٬ لیکن مومن موقع سے فائده اٹھاتا هے اور کبھی بهی یه سوچ کر که وه منافق و کافر یا فاسق هے اُس حکمت کو نهیں چھوڑتا بلکه اُس سے اُسے حاصل کرکے اُس سے فائده اٹھاتا هے۔ اِسی وجه سے کسی کے کلام کی ارزش کو تولنے کے لئے خود اُس کے کلام کے بارے میں غور و فکر کریں نه که اُس کے کهنے والے کے۔ بهت سی گرانقدر باتیں٬ حکمتیں اور مفید علوم ایسے هوتے هیں که جن کا حامل فاسق یا فاجر هے٬ لیکن کبھی بهی ان حقائق سے صرف نظر نهیں کرنا چاهئے۔ «گفتار» اور «کهنے والے» کے درمیان فرق کرنا چاهئے بسا اوقات ایسا هوتا هے که کهنے والا پاک فطرت اور شائسته اور ارزشمند هے لیکن اُس کا کلام غیر معقول هے٬ اسی طرح بسا اوقات کهنے والا خبیث اور غیرصالح هوتاهے لیکن اس کی زبان پر حکیمانه اور عالمانه بات جاری هوجاتی هے!

البته اگر حکمت منافق کی زبان سے بهی جاری هو٬ لیکن کبهی بهی اُس کی زبان سے آگے نهیں بڑھے گی اور اُس کے دل میں داخل نهیں هوگی٬ کیونکه اگر حکمت منافق کے دل و جان میں نفوذهوجاتی تو اُسے (اعتقادی اور اخلاقی بد ترین ذلت سے) نجات دلادیتی٬ اگر منافق کے پاس حکمت هو بھی تو اُس کی زبان پر جای هوتی هے اُس کے دل میں نهیں جاتی! کیونکه جس دل میں شهوت جڑیں مضبوط کرلیتی هے وهاں حکمت داخل نهیں هوسکتی۔

حقیقی ایمان٬ حکمت سے ایک گهرا تعلق رکھتا هے۔ مومن کو حکمت و دانش کی جد و جهد میں رهنا چاهئے کیونکه حکمت کے بغیر ایمان کے معرفتی ستون مستحکم نهیں هوسکتے۔ دوسری طرف سے ایمان کے راسخ هونے اور نیک و صالح عمل کے انجام دینے سے انسان کے دل میں حکمت کے دروازے کھل جاتے هیں۔ جو شخص خود کو خدا کے لئے خالص کرلے اور همیشه اپنے اعمال و کردار پر دھیان رکھے تو حکمت کے گرانبها سرچشمے اُس کے دل سے پھوٹنے لگتے هیں اور اُس کی زبان پر جاری هوتے هیں۔ البته حکمت کا یه درجه غیر مومن کے پاس نهیں مل سکتا٬ حکمت کا یه درجه خداوندعالم کا ایک عطیه هوتا هے که وه جسے چاهتا هے عطا کرتا هے اور جو شخص اُس تک پهنچ جاتا هےتواُسے «خير كثير» مل جاتا هے۔ البته خداوندعالم نے یه اراده کیا هے که وارسته اور خالص انسان یعنی جنھوں نے دنیوی اور جلد ختم هوجانے والے لذتوں کو ترک کردیا هے اور فانی امور سے منھ موڑ لیا هے تو وه ایسے درجات پر پهنچ جاتے هیں۔

وه حکمت که جو مومن کی گم شده شے هے٬ صرف اُس کی معلومات حاصل کرنا یا حکیمانه کلام کو صرف زبان سے جاری کرنا نهیں هے٬ بلکه ایک ایسا گوهر هے که جو انسان کے دل میں هوتا هے که جو اُسے حکیمانه رفتار٬ پاک نیت اور نیک اخلاق کی طرف تحریک کرتے هوئے کمال مطلق کی طرف راسته کھول دیتا هے اور اُسے «حكيم علی الاطلاق‌» یعنی خداوندمنان کی طرف کھینچتا هے اور ایسی حکمت کی تلاش ایک ایسا قدم هے که جو الله رب العزت جل جلاله کے مکمل آئینه امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام سے نزدیک هونے کے لئے لازم هے۔

4- اللّه اللّه فِی القُرآن، لايَسْبِقُكُم بِالعَمَل بِه غَيرُكُم

قرآن کریم کے سلسله میں الله کو نظر میں رکھو! کهیں ایسا نه هو که دوسرے لوگ اُس پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔

جب امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام بستر شهادت پر اپنے گرانقدر بیٹوں امام حسن و امام حسین علیهما السلام کواهم اور آخری باتوں کی وصیت فرمارهے تھے تو آپ نے ایک مقام پر قرآن کریم کی عظیم منزلت کی طرف بهی اشاره کیا اور ایک مختصر جمله میں وه سب کچھ بیان کردیا که جو اپنی پوری عمر میں بیان کیا تھا۔ حضرت امام علی علیه السلام کی نظر میں قرآن کریم معرفت و حکمت کا ایک ایسا بحربے کراں هے که جو انسان کی هدایت کے لئے کافی هے۔ قرآن کریم ایک ایسا نور هے که اگر کوئی هدایت کا طالب هو تو اُس کے لئے ایسی هدایت هے که جو اپنی هدایت کو هوس رانی٬ شبهات اور باطل نظریات سے مخلوط نهیں کرتی٬انسان اور خدا کے درمیان رابطه کی مستحکم رسّی هے٬ دلوں کی بهار اور علم و دانش کا سرچشمه هے٬ خود راسته بھی هے اور دو هدایت کرنے والوں میں ایک بڑی هدایت کرنے والی بھی۔ قرآن کریم «ثقل اكبر» هے که جو «اهل بيت علیهم السلام» سے کبهی جدا نهیں هوگی اگر کوئی شخص اهل بیت علیهم السلام سے متمسک هوجائے تو وه حضرات قرآن کریم کی طرف دعوت کرتے هیں اور اگر کوئی شخص قرآن کریم سے متمسک هوجائے تو قرآن کریم بھی اُسے اهل بیت علیهم السلام کی اطاعت و پیروی کا حکم دیتی هے٬ کوئی بهی انسان پل بهر کے لئے قرآن کریم کے ساتھ نهیں رهے گا مگر یه که اُس نے هدایت کی راه میں ایک اور قدم اٹھایا هے اور نقصان و کمی کی تلافی کرنے میں ایک قدم آگے بڑھایا هے۔

حضرت امام علی علیه السلام کی نگاه میں قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح نهیں هے٬ بلکه ا یک ایسی کتا ب هے که انسان اُس سے تمسک اور اُس کے ساتھ اُنس رکھتے هوئے کسی دوسری کی هدایت کا محتاج نهیں هے جبکه دوسرا٬ قرآن کا محتاج هے٬ جو حضرات اهل قرآن هیں وه حقیقت میں «اهل اللّه» اور خدا کے خالص بندے هیں۔ قرآن کریم٬ خداوندعالم کا کلام هے٬ کوئی بھی کلام اُس جیسا نهیں هے: صرف وحی الهی کا واحد مجموعه هے که جو خداوندعالم کے کلام و سخن کو براه راست بیان کرتا هے اور انسان و خدا کے درمیان معرفت و هدایت کا براه راست رابطه هے۔

قرآن کریم کو پڑھنا چاهئے اور زیاده سے زیاده اور اچھے طریقه سے پڑھنا چاهئے٬ قرآن کریم کو سمجھنا چاهئے٬ اِسے غور و فکر کے بعد سمجھنا چاهئے لیکن ان سب سے بهتر اور پڑھنے و سمجھنے سے افضل قرآن کریم پر عمل کرنا هے٬ کیونکه قرآن کریم انسان کے اندرونی ا ور بیرونی امراض کا شفابخش نسخه هے٬ لاعلاج انفرادی اور اجتماعی بیماریوں کا علاج هے٬ ثقافتی٬ اجتماعی٬ اقتصادی٬ تربیتی اور اخلاقی بن راستوں کے لئے راه گشا هے٬ کائنات میں سیر و سلوک کے لئے رهنما اور خالق کائنات کی طرف انسان کو لے جانے والی هے۔۔۔۔

جی هاں قرآن کریم کی عظمت یه هے اور اِن سب سے بڑی بات یه هے که وه انسان سے خدا کی گفتگو هے٬ کیا بهترین کلام هے کیا شیرین گفتگو هے که جو معشوق اپنے عاشق سے بیان کرے؟ محبوب کا کلام تو خود حبیب کے دردوں کی دوا هوتا هے! قرٔآن کریم «الله کی مضبوط رسی» هے٬ اُس سے تمسک کرنا چاهئے٬ تمسک کا معنی یه هے که مضبوط پکڑنا اور خود کو اُس سے متصل کرنا۔ اگر (کلام وحی کے ذریعه سے) انسان کا خدا سے رابطه مستحکم هوجائے تو ظاهر سی بات هے که اُسے مخالف هوائیں٬ شبهات و انحرافات کی گرد و خاک صراط مستقیم اور سیدهے راستے سے نهیں هٹا سکتی٬ قرآن کریم سے تمسک کئے بغیر انسان کیسے ثابت قدم ره سکتا هے؟ اور کس معرفت و کلام پر بھروسه کیا جاسکتا هے؟ سعادت و کامیابی کا راسته کیسے ڈھونڈا جاسکتا هے؟ جی هاں! قرآن کریم٬ انسان کے درمیان ایک عادل و انصاف ور قاضی هے٬ بشریت کی هدایت کے لئے رهنما هے اور سعادت کے لئے روشن چراغ هے۔

حضرت علی علیه السلام که جو خود اهل قرآن کے رهبر اور قرآن کریم کی مکمل تصویر هیں خاندان عصمت و طهارت کے دو گرانقدر موتیوں: حضرت امام حسن و امام حسین علیه السلام سے آخری وصیت میں قرآن پر عمل کی وصیت فرماتے هیں اور چونکه الهی نظر سے مسلمانوں کی بدبختی کو (که جو قرآن سے جدا هونے کی بنا پر) دیکھ رهے تھے تاکید کرتے هیں که «کهیں ایسا نه هو که قرآن پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم پر سبقت کرجائیں»٬ «دوسروں» سے مراد غیرمسلم لوگ هیں٬ کیونکه حضرت علی علیه السلام دیکھ رهے تھے که ایک ایسا زمانه آئے گا که قرآن کے صرف الفاظ٬ اسلام کا صرف نام٬ اور مساجد کی صرف خوبصورتی باقی ره جائے گی!!

قرآن کریم که جو زندگی کا برنامه هے اسلام که جسے اسلامی معاشره کی روح و روان هونا چاهئے٬ جن مسجدوں کو هدایت و تزکیه نفس کا مرکز هونا چاهئے٬ وه اپنے حقیقت سے دور هوں اور مسلمانوں کی ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کا راز اِسی نکته میں هے! تعجب کی بات هے که امام علی علیه السلام صدیوں سال پهلے بلکه چوده سو سال پهلے ایسے زمانه کا مشاهده فرمارهے تھے اور بستر شهادت پر مسلمانوں کی هدایت و سعادت کی فکر اس بات پر تحریک کررهے تھے که قرآن کے سلسله میں الله عزّ و جل کو شاهد قرار دیں اور قرآن پر دھیان دینے کی تاکید کریں ۔

حضرت علی علیه السلام کی نگاه میں قرآن کریم «عمل» کے لئے هے اگرچه اُس کی تلاوت اور اُس میں تدبر اور غور وفکر کی باربار تاکید هوئی هے٬ لیکن معلوم هے که بغیر پڑھے هوئے٬ بلاسمجھے هوئے قرآن پر عمل نهیں کیا جاسکتا۔

اب سوال یه اٹھتا هے که کن لوگوں کو قرآن کریم پر عمل کرنا چاهئے٬ کیا فقط اسلامی معاشره کے رهبروں کو؟ یا فقط مسلمان علماء اور دانشمندوں کو؟ یا سخن امام کے مخاطب تمام هی مسلمان هیں؟ بعض لوگوں کا گمان هے که قرآن کریم کا علم اور قرآنی ثقافت صرف ایک خاص طبقه سے مخصوص هے؟ شاید اِس چیز کو بعض لوگ اپنے ذمه داریوں سے شانه خالی کرنے کے لئے بهانه قرار دیں! جبکه هر مسلمان کا فریضه هے که وه قرآن پڑھے٬ اُسے سمجھے اور اُس پر عمل کرے۔ قرآن کریم اِس وجه سے نازل هوا هے که هر انسان اپنی صلاحیت اور اپنی معرفت کے لحاظ سے اُس سے بهره مند هو٬ اِس سے نصحیت حاصل کرے اور اپنی زندگی کی راه میں کام لے۔ البته جن حضرات کے پاس قرآن کریم کا علم اور اُس کی معرفت زیاده هوگی اُس کی ذمه داری بهی اتنی هی سنگین اور خطرناک هوگی۔

حضرت علی علیه السلام همارے معاشره (اور دیگر اسلامی معاشروں) کی مشکلات کا حل «قرآن پر عمل کرنا» قرار دیتے هیں اور اِس بات پر تاکید کرتے هیں که کهیں ایسا نه هو که دوسرے لوگ قرآن کریم کے مضمون پر عمل کرتے هوئے تم سے آگے نکل جائیں٬ کیا هم لوگ غیر مسلم لوگوں کا قرآن کریم کے اصول پر (کم سے کم قرآن کے اجتماعی موضوعات پر) عمل کو نهیں دیکھ رهے هیں؟ کیا هم اِس عقیده تک پهنچ گئے هیں که «قرآن پر عمل» کئے بغیر انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کامیابی تک نهیں پهنچ سکتا؟ کیا هم نے اِس بات کا مشاهده نهیں کیا که قرآن کریم کی نسیم سحر نے معاشره کی سعادت کا راسته کھول دیا اور اُس میں موجود بڑی بڑی رکاوٹوں کو هٹا دیا هے؟ تو پھر هم قرآن کریم اور اُس کی ثقافت پر عمل کرنے میں پیچھے کیوں هیں؟

قطعی طور پر حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام سے رابطه کی راه میں قدم رکھنے لئے ساتھ ساتھ قرآن کریم پر عمل کرنا اور روز مره کی زندگی میں اُس پر عمل کئے بغیر ممکن نهیں هے۔

خدا کرے که حضرت امام علی علیه السلام کی یه تاکید همیں هوش میں لے آئے۔ ان شاء الله۔

5- لاتكن مِمَّن يرجوا الاخرة بغيرالعمل و يُرَجِّی التَّوبة بطول الاَمَل ۔

ان لوگوں میں سے نه هوجائو که جو بلا عمل کے آخرت کی امید رکھتے هیں اور اپنی طولانی تمنائوں کی وجه سے توبه کو ٹالتے رهتے هیں۔

آسمانی ادیان کے تمام ماننے والے٬ عالم آخرت پر بھی عقیده رکھتے هیں٬ نه صرف مسلمان بلکه دوسرے آسمانی مذهبوں کے ماننے والے بھی مرنے کے بعد روز قیامت کے عقیده کو اپنےسه گانه اعتقادی رکن کے عنوان سے بیان کرتے هیں٬ توحید٬ نبوت اور معاد پر عقیده تمام آسمانی ادیان میں مشترک عقیده هے اور همیشه انبیائے الهی کی تبلیغ میں اِن اصول پر تاکید هوئی هے۔

۔۔۔ لیکن یه عقیده رکھنے والوں کی زندگی میں قیامت اور روز آخرت پر عقیده رکھنے کا کیا فائده هے؟ اور کس حد تک اِس سلسله میں اهمیت دیتے هیں؟ یه لوگ اپنی آخرت کو سنوارنے اور اُسے آباد کرنے کے لئے کتنی جدّ و جهد کرتے هیں؟ اِس موقع پر هماری ایک بڑی مشکل ظاهر هوتی هے که هم آخرت تو چاهتے هیں لیکن بلاعمل! جنت میں جانا چاهتے هیں لیکن نه تو کوئی عمل انجام دینا چاهتے هیں اور نه تھوڑی سے تکلیف برداشت کرنا چاهتے هیں! اُخروی سعادت اور کامیابی کی امید تو رکھتے هیں لیکن وهاں پر لازمی چیزوں کو ساتھ لئے بغیر!

اِس بات میں کوئی شک نهیں هے که جنت کسی کو یونهی بلا جدّ و جهد اور کوشش کے بغیر نهیں دی جائے گی٬ جی هاں! فارسی مثال کی بنا پر«بهشت را به بها دهند نه به بهانه» یعنی جنت کو اُس کی قیمت پر دیا جائے گا نه که کسی بهانه کی بنا پر۔ اور جنت کی قیمت کو قرآنی آیات میں بیان کیا گیا هے که جو حقیقی ایمان رکھتے هیں٬ الله کی راه میں سعی و کوشش اور مجاهدت کرتے هیں اپنے مال اور هستی سے الله اور انبیائے الهی کی راه پر چلنے کے لئے خرچ کرتے هیں تو خداوندعالم انهیں بهشت و رضوان سے نوازتا هے اور یه حقیقت نه صرف قرآن کریم میں بلکه تمام هی گزشته آسمانی کتابوں میں بیان هوئی هے٬ البته بهشت تک پهنچنے اور اُخروی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے وه سعی و کوشش اور جد و جهد عالم طبیعت میں هماری استعداد اور امکانات کے حدود سے باهر نهیں هے اور هرگز معاش زندگی کو فراهم کرنے کے مخالف نهیں هے۔ همارے یهی روز مره کے کام٬ کاروبار٬ تعلیم حاصل کرنا٬ شادی بیاه کرنا اور دیگر امور زندگی کی دیکھ بھال کرنا وغیره دوسروں کے ساتھ نیکی و احسان کرنے٬ غریبوں کی مدد کرنے٬ دیگر انسانوں کی مشکلات کو برطرف کرنے کےلئے نیز عبادت کو اهمیت دینے اور عالم الوهیت سے اپنا رابطه مستحکم کرنے اور ولایت الهی حاصل کرنے کے لئے آخرت کا لازمی ذخیره فراهم کرنا هوگا٬ البته اگر یه کام الهی پهلو اختیار کرلیں اور تقوی و پرهیزگاری کے ساتھ ساتھ هوں تو یهی کام اوراعمال٬ آخرت کے لئے ذخیره بن جائیں گے٬«اپنی آخرت کے لئے کے زاد راه جمع کرو بے شک که آخرت کے لئے بهترین زاد راه تقوی الهی هے»۔

۔۔۔ افسوس تو یه هے که بهت سے لوگ آخرت کو بلا عمل کے حاصل کرنے کی آرزو رکھتے هیں انهیں خدا کی طرف پلٹنے اور اپنی اصلاح کی کوئی فکر نهیں هوتی٬ اپنے کو «طولانی آرزئوں» میں سرگرم کرتے هوئے اپنے آج کی اور مستقبل کی اهم واقعیت کو بھول جاتے هیں اور جب چاره جوئی کی فکر هوتی هے تو اُسے بھی «کل» کے اوپر ٹال دیتے هیں٬ ایسی کل که جس تک نه پهنچا جاسکے اور ایسی چاره جوئی که جو کبھی نه هوسکے!! مستقبل کی فکر هونا لازم و ضروری هے لیکن ایسی مستقبل کی فکر که جو حقیقت پر مبنی هو نه که خیالی پلائو اور غیر حقیقی بنیاد پر هو!! «طول الامل» یعنی طولانی آرزوئیں٬ که جن تک رسائی ممکن نهیں که ممکن هے ان تک پهنچنے کےلئے عمر کا ایک حصه گزار دیا جائے لیکن پھر بھی اس تک نه پهنچا جائے اور اگر حقیقی آئنده کو بھلا دیا جابے اور اپنا سارا سرمایه اِنهیں حاصل نه هونے والی آرزئوں میں خرچ کردیا جائے!!(تو کتنا بڑا نقصان هے)

جی هاں! همیشگی سعادت٬ جاویدانه نیک بختی٬ بهشت رضوان اور روشن مستقبل صرف «عمل» کے ذریعه هی حاصل هوتی هے نه که «آرزو» کرنے سے٬ دنیوی آرزوئیں همیں هماری طرف متوجه هونے والے آئنده کے لئے مفید چاره جوئی اور عمل سے روک دیتی هیں٬ آج سے بلکه اِسی وقت سے هی عمل انجام دینے کی فکر میں رهیں کیونکه ممکن هے که دوسرے وقت یا دوسرے دن میں دیر هوچکی هو!

نور و ایمان کا رهبر که جو آسمانی راستوں کو بھی جانتا هے اور ان پر عمیق نظر بهی رکھتا هے وه که جو بصیرت اور قلبی دیدار کے ساته خدا کی عبادت کرتا هے اور وه که جو راه نجات اور راه هدایت کا رهبر هے٬ اُس نے همیں اِس بات کی تاکید کی هے که:

«کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو اُخروی سعادت کی امید رکھتے هیں لیکن عمل اور جدّ وجهد نهیں کرتے! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جن کی دنیوی زندگی کی طولانی اور خیالی آرزوئیں انھیں اپنی اصلاح اور راه خدا کی طرف پلٹنے سے روکے رکھے! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو توبه میں تاخیر ڈالتے رهتے هیں٬ کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دنیا میں لوگوں کے سامنے تو «زاهدانه» گفتگو کرتے هیں لیکن مقام عمل میں دنیا سے دل لگائے هوئے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو صرف گفتگو کرتے هیں انھیں عمل کی کوئی پروا نهیں هوتی! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو اپنے گناهوں اور انحرفات کی وجه سے «موت» سے گھبراتے هیں!

کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جن پر مشکل وارد هوتی هے اور ان کے امتحان کا وقت هوتا هے تو خداوندعالم کو یاد کرتے هیں اُسے پکارتے هیں لیکن جب ان کی پریشانی دور هوکر انهیں چین و سکون مل جاتا هے تو پھر فریب اور فراموشی کے دلدل میں پھنس جاتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هونا که جن کے لئے اگر شهوت رانی کا راسته هموار هوجائے تو گناه میں مبتلا هوجاتے هیں اور توبه کو ٹالتے رهتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو «نابود هوجانے والی چیزوں» کے لئے تو جدّ و جهد کرتے هیں لیکن باقی رهنے والی چیزوں کے سلسله میں لاابالی اور بے توجهی کرتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو «نقصان» کو «فائده» اور «فائده» کو «نقصان» تصور کرتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دوسروں کی مذمت کرتے هیں اور اپنی تعریفوں کو پُل باندھ دیتے هیں اور اپنے سے غافل هوجاتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که که جو مالداروں اور خوش حال لوگوں کے ساتھ بی خبر اور غفلت و سرگرمی میں اپنی عمر کو گزارنے کو غریبوں اور مفلسوں کے ساتھ یاد خدا اور ذکر خدا سے زیاده دوست رکھتے هیں! کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو دوسروں کو تو راسته دکھاتے هیں لکین خود کو گمراه کرتے هیں٬ کهیں ایسے لوگوں میں سے نه هوجانا که جو غیر الهی اور غیر ضروری کاموں میں لوگوں کی طرف سے فکر مند هوتے هیں لیکن خلق خدا اور دوسرے کے ساتھ سلوک کرنے کے سلسله میں خدا سے کوئی خوف و هراس نهیں رکھتے٬ کهیں ایسا نه هو! ۔۔۔ کهیں ایسا نه هو!!»

جی هاں! یه حضرت امام علی علیه السلام وصیت اور تاکید هے٬ خداوندعالم ان پر اپنا دورود سلام بھیجے اور ان کے فرمان کو هماری بیدار کا سبب قرار دے۔

 

6- اَلدُّنْيا تَغُرُّ و تَضُرُّ و تَمُرُّ

دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان دیتی هے اور گزر جاتی هے۔

حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام سے خود کو متصل کرنا آپ کے جهان بینی اور نظریه کو حاصل کئے بغیر ناممکن هے٬ اُس ولی خدا کی عمیق اور الهی معرفت کی بلندی تک پهنچنے همارے لئے (جبکه هم امام علیه السلام سے میلوں فاصله رکھتے هیں) ظاهری طور پر ایک محال چیز دکھائی دیتی هے لیکن اُس مکتب الهی تک پهنچنے کی راه میں قدم بڑھانا مکمل طور پر ممکن اور میسّر هے۔ یقینی طور پر ایک اهم موضوع مولائے متقیان کے نظریات میں عالم کائنات اور اُس کے حقائق کے سلسله میں حضرت امیر کا نظریه هے٬ دنیا اور اُس کی اهمیت و منزلت و واقعیت کے بارے میں حضرت علی علیه السلام کے نظریه کو صحیح طور پر سمجھے بغیر فکری٬ قلبی اور رفتاری لحاظ سے آپ کے نزدیک نهیں هوا جاسکتا٬ شاید نهج البلاغه میں کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں «دنیا» کے برابر مذمت نه هوئی هو٬ حضرت علی علیه السلام سے دنیا کے سلسله میں متعدد خطبے اور مختصر حکمتیں هم تک پهنچی هیں که جن میں سے ایک یه هے: « دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان پهچاتی هے اور گزر جاتی هے۔» کس قدر مختصر سا جمله لیکن کتنے عظیم معنی! ایسے کام کو جس کو دھوکه دینے والی دنیا کی زرق و برق اپنے عاشقوں اور مریدوں کے ساتھ انجام دیتی هے اِسی مختصر سے جمله میں بیان هوا هے۔

1- دنیا دھوکه دیتی هے: جی هاں! دنیوی آرزوئیں٬ شهوات تک پهنچنے کے لئے لمبی لمبی خیال پردازیاں٬ مال و دولت اور مقام و منصب تک پهچنا٬ یه تمام چیزیں خوشی٬ آسانی اور لذت وغیره انسان کو دھوکه دیتی هیں۔ کیونکه یه دیکھنے میں خوبصورت هیں اور آرام بخش٬ لیکن جو لوگ ان تک پهنچتے هیں تو انھیں معلوم هوتا هے که خیال باطل اور غلط توهمات میں گرفتار هوگئے تھے اور جو چیز سوچ رهے تھے اُس تک نهیں پهنچ سکے هیں!

البته جو لوگ طبیعی نعمتوں کو «دنیا طلبی» کے محصور اور تنگ نظریه سے نهیں دیکھتے اور انهیں حیات آخرت کا پیش خیمه مانتے هیں وه هرگز ایسے فریب اور دھوکه میں گرفتار نهیں هوتے۔ وه لوگ دنیا کے دھوکه میں آتے هیں که جنھوں نے دنیا کی حقیقت کو نه پهچانا هو اور جو «مقدمه» هو اُسے «نتیجه» سمجھ بیٹھے هوں اور«ظاهر» کو «باطن» تصور کربیٹھے هوں! دنیا کا فریب٬ دنیا پرستوں اور طالبان دنیا کا حصه هے نه که اُن لوگوں کا جو دنیا کو اول سے هی وقتی اور گزرجانے والی مانتے هیں اور اُسے صرف رضائے الهی حاصل کرنے اور کمال حقیقی تک پهنچنے کا موقع سمجھتے هیں٬ لیکن کیا کیا جائے که لوگوں کی اکثریت نے دنیوی زندگی کو «سب چیز» تصور کرلیا هے اور اُسے حاصل کرنے کےلئے اپنی پوری همت صرف کردی هے٬ اِسی بنا پر وه دنیا کے فریب میں مبتلا هوگئے هیں۔

انهیں یه معلوم نهیں هے که یه دنیا امتحان اورآزمائش کی جگه هے٬ خودسازی اور جدّ و جهد کی جگه هے٬ سختیوں اور دشواریوں کا مقام هے٬ نه تو یه زندگی کا آخری مقصد هے٬ نه ایسا مرحله هے که جو انسان کی سعی و کوشش اور جدّ وجهد کا پھل دے سکے٬ نه ایسا میدان هے که جس میں تمام آرزوں اور خواهشوں کو پورا کیا جاسکے! جن لوگوں نے «دنیا» کی محدود زندگی کو محدود کرلیا هے اور اُس کی غلامی کو اپنا کاروبار سمجھ لیا هے انھیں فریب اور دھوکه کے علاوه کچه حاصل نهیں هوگا۔ جی هاں! «الدنيا تغرّ٬ یعنی دنیا دھوکه دینے والی هے۔»

2- دنیا دھوکه دینے کے بعد انسان کو نقصان اور خساره میں مبتلا کردیتی هے٬ جو انسان خسارے اور کھاٹے میں هیں یهی لوگ هیں که جنھیں دنیا کی چال بازیاں اِس بات پر مجبور کرتی هیں که وه اپنی زندگی کا سرمایه اِس دنیا کو حاصل کرنے میں صرف کردیں اور اپنی آخرت و آئنده سے غافل هوجائیں۔ یه لوگ اپنی تمام طاقت وهمت اور عمر کو «دنیا» کے حاصل کرنے میں خرچ کردیتے هیں جو دنیا «گزرجانے والی» هے لیکن انھوں نے غلط فهمی کی بنا پر اُسے آخری حد اور بنیادی مقصد تصور کرلیا هے!

3- آخر کار یه دنیا اپنے عاشق کو نقصان پهنچانے کے بعد گزرجاتی هے اور نقصان پهنچنے والوں کو جواب دینے یا ان سے عذر خواهی کے لئے تھوڑی دیر کے لئے بھی نهیں رُکتی! جن لوگوں نے اپنی عمر کو دنیا کے دھوکه دینے والی چیزوں میں گذار دیا اور آخر کار فریب خورده اور حسرت و یاس سے هاتھ ملتے هوئے اِس حال میں آخرت میں وارد هوتے هیں که اُن کا اصلی سرمایه هاتھ سے چلا گیا لیکن کیا وه «دنیا» کو اپنے نقصان کی تلافی کرنے کے لئے عدالت میں لاکر کھڑا کرسکتے هیں؟! هرگز نهیں! کیونکه دنیا فریب اور نقصان دینے کے بعد گذر جاتی هے۔

البته دنیا سے دھوکه کهانے والے اور دنیا سے نقصان اٹھانے والے خود هی قصوروار هیں۔ انهیں اپنےعلاوه کسی دوسری کی ملامت و مذمت نهیں کرنا چاهئے! انھوں نے اپنی آنکھوں سے زمانه کو دیکھا تھا٬ اپنے رشته داروں اور دوستوں کی موت کو دیکھا تھا ان کے دفن میں بهی شرکت کی تهی٬ اُن کی عقل اور وحی و قرآن کی دعوت ان کے سامنے موجود تھی که یه دنیا فانی اور گزرجانے والی هے اور انسان کو فانی دنیا سے دل بستگی نهیں رکھنی جاهئے اور اُسے حیات ابدی کی فکر کرنی چاهئے اور اِس فانی دنیا میں اُس کے لئے زاد راه جمع کرنا چاهئے!

حضرت امام علی علیه السلام کے نقطه نظر سے اس دنیا میں کام اور جدّ و جهد کرنا چاهئے اور اِس کے علاوه کوئی چاره نهیں هے که ابدی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے اِسی عمر کے سرمایه اور دیگر امکانات سے فائده اٹھانا چاهئے٬ اِس عالم طبیعت میں زندگی کرتے هوئے آخرت کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاهئے٬ لیکن «دنیا کے لئے» نهیں٬ بلکه حیات اُخروی میں کمال حاصل کرنے کے لئے۔ جو کچھ کسی کی دنیا هوتی هے اُس سے وابستگی اور اس کے ظاهر سے فریب کھانا هے٬ نه صرف سعی و کوشش اور کام٬ علم حاصل کرنا اور زندگی بسرکرنا! حضرت علی علیه السلام کی سیرت همارے لئے اِس بات کو واضح کردیتی هے که «دھوکه دینے والی٬ نقصان پهنچانے والی اورگزرجانےوالی دنیا» نه تو اُس کی طیبعی نعمتوں سے فائده اٹھانا هے اور نه زندگی کو بهتر بنانے کےلئے سعی و کوشش کرنا هے اور نه معاش زندگی کے لئے کسی کام میں مشغول هونا هے٬ بلکه اگر یه تمام کام خدا کو نظر میں رکھ کر انجام دئے جائیں تو یهی حقیقت میں آخرت کو سنوارنا هے۔

جس چیز کے سلسله میں حضرت علی علیه السلام مذمت و ملامت کرتے هیں وه «دنیا کے لئے کام کرنا»هے لیکن «دنیا میں» کام کرنا «آخرت کے لئے» درحقیقت درست اور موجب ثواب هے اور اس کے علاوه انسان کی روحی ترقی اور سعادت کا کوئی راسته نهیں هے۔

جی هاں! حضرت امام علی علیه السلام کی زندگی سے ایک قدم نزدیک هونے کے لئے دنیا کے سلسله میں اِس نظریه پر پهنچ جائیں که «دنیا انسان کو دھوکه دیتی هے٬ نقصان دیتی هے اور گزر جاتی هے۔» تاکه هم اپنی سعی و کوشش اور جدّ و جهد دنیوی تنگ حدود سے بالاتر هوکر منظم کریں اور با هدف اور معنی دار زندگی تک پهنچ جائیں٬ انشاء الله تعالی۔

7- اَيُّهَاالنّاس! اِنَّما الدُّنْيا دارُ مَجازٍ وَالاخِرَة دارُ قَرارٍ، فُخُذُوا مِن مَمَرِّكُم لِمَقَرِّكُم...

اے لوگو! بے شک که دنیا گزرجانے والی هے اور آخرت٬ دار قرار هے٬ پس اپنے گزرنے کی جگه کے ذریعه باقی رهنے والی جگه کو آباد کرلو۔۔۔

دنیا و آخرت کے سلسله میں انسان کا نظریه٬ اُس کی طرز زندگی کے انتخاب اور ایک مقصد تک پهنچنے کے لئے بنیاد هے۔ دنیا و آخرت انسان کی همیشگی زندگی کے دو مرحلوں کا نام هے که جو مکمل طور پر ایک دوسرے سے مربوط هیں۔ اسلام کی نگاه میں یه انسان کی زندگی کی روش اور انداز زندگی هے که جو اُس کی آخرت کو سنوارتا هے۔ هر وه انسان که جو ایمان اور عمل صالح سے بهره مند هو تو اُس نے اپنی همیشگی سعادت کو حاصل کرلیا هے اور جو شخص ایمان یا عمل صالح (یا دونوں) سے محروم هو اُس نے اپنی آخرت کے لئے زاد راه جمع نهیں کیا هے اور وه خساره اور حسرت میں مبتلا هوگا۔ اِس لحاظ سے هدایت الهی اورانسان کو دینی رهبروں کی رهنمائی کی بنیاد پر ایسے مسلک وسلوک تک رسائی هے که جو انسان کو مطمئن کردیتی هے که اس کی حیات جاویدانه٬ سعادت مند طریقه پر رقم هوچکی هے اور وه کمال حقیقی تک پهنچ گیا هے۔ اگر یه حقیقی پر مستقبل بینی مدّ نظر نه هوتی تو پھر آسمانی شریعتوں اور الهی هدایت کی کوئی خاص ضرورت نه هوتی۔

اگر اسلام (سب سے جامع اور کامل دین حق کے عنوان سے) انسان کی انفرادی٬ گھریلو اور اجتماعی زندگی میں اور اخلاقی٬ تربیتی٬ اقتصادی٬ سیاسی٬ قضایی٬ عبادی اور حقوقی جیسے مختلف پهلوئوں کے لئے عملی منصوبه اور کرداری نظام پیش کرتا هے تو اِس کی وجه یه هے که یه تمام پهلو انسان کی همیشگی زندگی میں موثر هیں اور اِس لئے هیں که انسان اپنی جاویدانه سعادت کو حاصل کرنے کے لئے ان سے فائده اٹھائے٬ انسانی زندگی کے مختلف پهلووں پر توجه کئے بغیر آباد اور مطمئن آخرت سنوارنا ممکن نهیں هے۔ جو شخص اِس دنیا میں دل کا اندها اور حیران هے وه آخرت میں بھی دل کا اندھا اور حیران هے٬ لهذا انسان کوآخرت کی گمراهی اور حیرانی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اِسی دنیا میں هوشیاری اور بصیرت پر مبنی زندگی گزارنی هوگی اور بصیرت و معرفت کے ساته اپنی زندگی میں جدّ و جهد کرنا هوگی اوریه کام دین کا بنیادی کام اور انبیائے الهی کی رسالت هے۔

ایسی رسالت که صرف بشری تفکر و تجربه اور علم اُس کی جگه نهیں لے سکتے۔ جی هاں! انسان اور تمام کائنات پر اسلام کی نظارت اور دخالت اس نظریه سے قابل فهم هے٬ هر وه چیز که جو انسانی سعادت میں موثر هے اسلام نے اُسے بیان کئے بغیر نهیں چھوڑا هے: جو چیز انسان کی سعادت کے لئے نقصان ده هے وه حرام هے اور جو چیز ضروری اور لازمی هے اُسے واجب قرار دیا هے٬ اِسی وجه سے حلال محمد(ص) قیامت کے لئے حلال اور آنحضرت (ص) کی حرام کرده چیز٬ قیامت تک حرام هے٬ احکام ثانوی یا احکام حکومتی (که جو امت کی مصلحت کی بنیاد پر مخصوص دائره میں جامع شرائط مجتهدین کے ذریعه استنباط هوتے هیں) بھی دنیوی زندگی کو منظم کرنے کے لئے هیں لیکن ابدی سعادت کو حاصل کرنے کی راه میں۔

حضرت امیر المومنین علیه السلام نے اِس مختصر سے کلام میں دنیا و آخرت کے سلسله میں صحیح نظریه پیش کیا هے اور اِس دنیوی زندگی کے فانی اور گزرجانے والی اور آخرت کی زندگی کا جاویدانه هونے کے پیش نظر همیں اِس دنیا سے آخرت کے لبے زاده راه جمع کرنے کی دعوت دی هے۔ انسانی عقل بهی یهی فیصله کرتی هے که فانی چیز کو باقی رهنے والی چیز پر قربان کردیا جاتا هے٬ وقتی امور کو اصلی اور باقی رهنے والے امور پر فدا کیا جاتا هے٬ گزرجانے والے مرحله کو اصلی شمار نهیں کیا جاتا اور اپنے پورے سرمایه کو اُن کاموں میں صرف نهیں کیا جاتا اور جهاں تک ممکن هوسکے اپنی زندگی کی رفتار و گفتار اور فیصلوں کو ایسے منظم کیا جائے که جو آخرت میں ثمر بخش اور مفید واقعه هو۔ جی هاں! حقیقت میں جو چیز آخرت کے لئے خرچ کی جائے وه «ابدی سرمایه گزاری» هے لیکن جو دنیا کے لئے خرچ کی جائے وه «اخراجات» هیں اور وه دوباره واپس نهیں آسکتے٬ لهذا انسان کی عقل اِس بات کا حکم کرتی هے که «سرمایه گزاری»٬ «اخراجات» پر ترجیح رکھتی هے!

وه لوگ سعادت مند هیں که جو اپنے اخراجات میں کمی کریں اور سرمایه گذاری میں اضافه کریں٬ قبل اس کے که ان کا بدن (طبیعی موت یا غیر ارادی سے) دنیا سے جائے اُس سے پهلے اپنے دل کو دنیاداری سے الگ کرلیں اور دنیوی امور سے دل نه لگائیں٬ آخرت میں جانے سے پهلے اپنے لئے زاد راه پهلے سے بھیج دیں٬ کیونکه لوگ انسان کی موت کے بعد سوال کرتے هیں که «مرنے والا کیا چیز چھوڑ کر مرا؟» لیکن ملائکه یه سوال کرتے هیں که «مرنے والے نے پهلے سے کیا چیز بھیجی؟»

دنیا کے سلسله میں یهی نگاه انسانی معاشره کو منظم کرتی هے اور عدالت و مساوات و انصاف٬ ظلم و ناانصافی کی جگه لے لیتے هیں٬ تعاون اور خدمت٬ دوسروں پر ناحق تسلط اور دوسروں کی زحمتوں سے فائده اٹھانے والوں کی جگه لے لیتے هیں٬ رقابت اور حسادت کی جگه دوستی اور محبت آجاتی هے٬ لالچ اور کنجوسی کی جگه زهد و سخاوت آجاتا هے اور آخر کار جنت الفردوس کا ایک جلوه اسی دنیا میں دکھائی دینے لگتا هے! اور اِس نظریه پر عقیده رکھنا همیں حضرت علی علیه السلام کے ایمان اور تفکر سے نزدیک کردے گا۔ ان شاء الله۔

8- هَلَك‌َ امْرُوٌ لَم يَعْرِف‌ْ قَدْرَه

جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نه پهچانے وه هلاک هوجائے گا۔

انسان ایک ایسا موجود هے که جو اپنی سعادت اور کمال کی راه کو اپنی عقل و فهم کے ذریعه تلاش کرے اور عزم و بصیرت کے ساته اُس کو طے کرے٬ دین حق کو پهچانے اور اولیائے الهی کی رهنمائیوں پر عمل کرے اور مطلوبه مقصود کی طرف قدم بڑھائے۔ انسان کا کمال مطلق کی طرف پهنچنے کے لئے اِس کے علاوه کوئی دوسرا راسته نهیں هے که انسان خود «راه» کو پهچانے اور اُس پر قدم بڑھائے۔ بے شک اِس صورت میں الله کی مدد اور اس کی طرف سے هدایت بهی اس کی امداد کرے گی کیونکه اُس کے بغیر کوئی کسی جگه نهیں پهنچ سکتا٬ انبیائے الهی کی هدایت ان لوگوں کے لئے مفید اور مشکل کشا هوتی هے که جو دین حق کے احکام اور قوانین کو قبول کرتےهوئے الله کی طرف سے نسیم هدایت کی راه میں قرار پاتے هیں٬ اور اسی وجه سے هے که «دین» میں کوئی زور زبردستی نهیں هے اگرچه کمال و نجات کا راسته اِسی راه میں منحصر هے۔

ایسا موجود که جو اپنے علم و آگاهی٬ اراده٬ سعی و کوشش اور جدّ وجهد کے ساتھ حیات ابدی اور همیشگی سعادت کی راه کو طے کرے٬ وه خود اپنے اور اپنی استعداد٬ اپنی منزلت کو پهچانے اور سمجهے بغیر اپنی خامیوں اور حدود کو پهنچانے بغیر اِس راه میں جیسا که شائسته هے قدم نهیں بڑھا سکتا۔ انسان راه کمال کا راهی هے اور هر راهی اگر اُس راه کے حالات٬ شرائط اور حدود سے آگاه نه هو تو اچھے طریقه سے اُس راه کو طے نهیں کرسکتا٬ جس قدر هدف کا پهچاننا مهم هے اور«مقصود» اور «مطلوب» کے بارے میں صحیح اور عمیق معرفت کے بغیر صحیح طور پر قدم نهیں بڑھایا جاسکتا٬ اُسی طرح خود شناسی بهی اهمیت رکهتی هے اور اُس کے بغیر اپنی راه کی سمت اور اُس پر چلنے کی کیفیت کو منظم نهیں کیا جاسکتا۔

انسان کو اپنے سلسله میں دو طریقه کی شناخت ضروری هے٬ اول: «نفس کی شناخت» که جو خداوندعالم کی معرفت اور خلقت اور هدف کی شناخت کا مقدمه هے٬ دوسرے: «معرفت قدر» که جو صحیح راه پر چلنے کے لئے لازمی شرط هے۔

نفس کی معرفت٬ نوع بشر اور نظام کائنات میں اس کی عظمت و اهمیت کی شناخت هے٬ سب سے زیاده مفید اور سب سے زیاده ضروری شناخت٬ نفس کی معرفت اور شناخت هے۔ جو شخص نوع بشر٬ اُس کی خلقت کا اصلی مقصد٬ انسان کی کرامت اور اُس کا اقدار٬ مخلوقات کے درمیان اُس کے امتیاز کو نه پهچانے٬ تو وه اپنے کو عالم طبیعت میں ایک محدود اور محصور موجود تصور کرے گا اور اپنی زندگی کا مقصد مادّی اور حیوانی لذتوں اور آرام و ترقی کی حد تک تصور کرے گا اور انسانی و الهی سیر و سلوک پر چلنے سے رُک جائے گا۔ جو لوگ اپنے کو دنیا کے هاتهوں فروخت کردیتے هیں اور مادّی فائدوں کو اپنا هدف اور مقصد تصور کرلیتے هیں٬ وه نفس کی معرفت اور شناخت سے محروم هوتے هیں اور وه انسان کو دوسرے حیوانات کی طرح تصور کرتے هیں۔ یه لوگ خدا کی شناخت اور اُس کی معرفت سے بهی محروم رهتے هیں اور سرانجام کمال تک پهنچنے میں جدّ و جهد نهیں کرپاتے۔

لیکن معرفت قدر ایسی شناخت هے که جو هر شخص اپنے بارے میں رکھتا هے۔ انسان اگرچه سب ایک هی قسم کے افراد هیں لیکن پهر بهی انسان میں بهت سی الگ الگ خصوصیات پائے جاتے هیں٬ اور هر انسان دوسرے شخص سے بهت زیاده فرق رکھتا هے که جو اُس کے ذاتی شخصیت کو تشکیل دیتے هیں۔ علمی اور هنری استعداد٬ نفاذی توانائیاں٬ انفرادی اور گھریلو سهولیات٬ اجتماعی اور صنف کے حالات٬ تربیتی و اخلاقی خامیاں٬ ذوق و سیلقه وغیره٬ یه سب چیزیں ایسی هیں که انسانوں کے یهاں مختلف هوتی هے اور یهی فرق انسان میں فرائض اور ذمه داریوں اور امیدوں کے اختلاف کا سبب هوتی هیں۔ اگرچه کلّی تکالیف کے عنوان سے تمام انسان مشترک هیں٬ کیونکه تمام «انسان» هیں٬ لیکن مصداق اور اس کی مقدار اور کیفیت میں فرق هوتا هے٬ جو استعداد اور توانائیوں کے فرق کی وجه سے پیدا هوتا هے٬ علم و دانش کا حصول سب کے لئے واجب هے٬ لیکن تمام انسانوں کی استعداد مختلف موضوعات میں برابر نهیں هے۔ دوسروں پر خرچ کرنا اور ان کی مدد کرنا سب پر واجب هے لیکن لوگوں کی مالی طاقت برابر نهیں هے۔ خلق خدا اور غریبوں کی مدد کرنا سب پر واجب هے لیکن خدمت خلق میں اُس کی کیفیت اور مقدار مختلف هوتی هے۔۔۔ اِس بنا پر امکانات اور استعداد میں موجود فرق٬ فریضه اور ذمه داری کے فرق کا باعث هوتا هے اور هر انسان پر اُس کی استطاعت اور طاقت کے لحاظ سے تکلیف عائد هوتی هے۔

اپنی قدر کی معرفت یعنی اپنی تمام استعداد اور حدود کی شناخت٬ استطاعت اور تکالیف کی شناخت اور ان کو انجام دینے کا اهتمام۔ جو شخص اپنی «قدر»کو نه پهچانے تو وه شخص اپنی تکالیف اور ذمه داریوں کو اپنی استطاعت و توانائیوں کے لحاظ سے انجام نهیں دے سکتا جس کے نتیجه میں یا کم کام کرے گا اور سستی و کاهلی میں مبتلا هوجائے گا اور اپنی استعداد کے ایک حصه کو بروئے کار نهیں لائے گا یا حد سے زیاده کاموں میں مشغول هوگا که جس کے نتیجه میں بهت هی جلد خستگی کا شکار هوجائے گا اور اپنی جسم و جان کے سرمایه کی نابودی کا سبب بنے گا۔ اِسی دلیل کی وجه سے جو شخص اپنی قدر نه پهچانے تو وه هلاکت و نابودی کا شکار هوگا٬ معنوی هلاکت یهی هے که اپنی حدّ و حدود کو نه پهچانتے هوئے حد سے آگے بڑھ جائے اور لوگوں کے درمیان ذلیل وخوار هوجائے اور اپنی استعداد اور حالات کے ذریعه اپنی سعادت تک پهنچنے کے لئے بهترین طریقه کا انتخاب نه کرے۔

اپنے نفس اور اپنی قدر کی شناخت «اپنے سلسله میں» دو قسم کی شناخت هے که جو انسان کی قسم کے بارے میں اور دوسرے ذاتی خصوصیات اور استعداد کے بارے میں هے اور حقیقت و کمال تک پهنچنے کے لئے معرفت کی دونوں کی قسم کی کا هونا ضروری هے که جس سے انسان ابدی سعادت تک پهنچنتا هے اور هلاکت و نابودی سے نجات پیدا کرتا هے۔

جو شخص اپنی قدر کو پهنچانے اور اُسی کے لحاظ سے اپنی زندگی کا منصوبه بندی کرے اور تدبیر سے کام لے تو ایسا شخص بے جا مقابله بازی٬ نابود کردینے والی حسادت٬ بے جا امیدیں٬ زیاده خواهی اور سستی وغیره میں مبتلا نهیں هوگا اور اپنے سرمایه و دیگر سهولیات کو تباه نهیں کرے گا۔ ایسے شخص کو معلوم هے که خداوندعالم کے نزدیک هر شخص کے اعمال کا معیار اس کے امکانات اور استعداد هیں٬ اور کوئی شخص اپنی استعداد اور طاقت سے زیاده مسئول اور ذمه دار نهیں هے۔ اگر هر شخص هر وقت اور هر عالم میں اپنی استعداد کے لحاظ سے نیکی اور ذمه داری کو انجام دے تو معاشره بھی ترقی اور کامیابی کے راسته پر چلتا هوا نظر آئے گا اور اُس کی اصلاح هوجائے گی۔ انشاء الله۔

9- مَن اسْتَبدَّ بِرَايِه هَلَك‌َ وَمَن شاوَرَ الرِّجال شارَكَها فی عُقُولِها

جو شخص اپنی من مانی کرے وه هلاک هوجائے گا اور جو شخص دوسروں سے مشوره کرے وه اُن کی عقلوں میں شریک هوگا۔

جب بهی همارے کانوں میں لفظ «استبداد» ٹکراتا هےتو فوراً ایک ظالم اور ڈکٹیٹر حکومت کا تصور همارے ذهن میں آتا هے که جو بلاقاعده اور قانون کے لوگوں پر حکومت کرتی هے! لیکن اِس لفظ کے معنی و مفهوم وسیع اور عام هیں۔ البته وه حاکم که جو ظالم هو اور بلاکسی قاعده و قانون کے ظلم و ستم کی بنا پر لوگوں پر حکومت کرے تو وه «ظلم و استمداد» کا ایک کامل مصداق هے لیکن اُس کا اکیلا مصداق نهیں هے۔

استبداد یعنی اپنی من مانی کرنا اور دوسروں سے مشوره نه لینا٬ اور یه خصوصیت هر شخص میں پائی جاسکتی هے۔ جو شخص اپنی ذاتی زندگی میں اپنی مرضی کے مطابق هر کام کرے اور انسان اپنے اطراف کے ماحول میں دوسروں کی نظریات پر توجه کئے بغیر خود هی میں فیصله کرے اور وه شخص که جو اپنے آئنده کے لئے دوسروں کے تجربات سے فائده نه اٹھائے اور جو کچھ اُس کی نظر میں دکھائی دے اُسے اپنے کاموں کی بنیاد قرار دے٬ وه مدیر مسئول که جو اپنے کارکنان سے مشوره لئے بغیر فیصله کرے٬ وه میاں بیوی که جو ایک دوسرے سے مشوره لئے بغیر یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے مشوره لئے بغیر اپنے کاموں کو انجام دیتے هیں٬ ایسے لوگ کم و بیش «استبداد یعنی من مانی» کی بیماری میں مبتلا هے۔

یه حالت٬ خودخواهی٬ خودپسندی اور اپنے کو بڑا ماننے سے وجود میں آتی هے٬ اخلاقی برائیاں که جو بهت سی گمراهی٬ انحراف٬ کج روی کی باعث بنتی هیں اور ا نسان کو آخر کار هلاکت و نابودی کی طرف لے جاتی هیں۔ جی هاں! جو شخص اپنی هی من مانی کرتا هو٬ سرانجام وه هلاکت میں گرفتار هوجاتا هے٬ کیونکه هر انسان کا علم و دانش محدود هے اور جو شخص اپنی زندگی کی راه کو طے کرنے میں دوسروں کے تجربوں سے فائده نه اٹھائے تو وه خواه نخواه اپنے فیصلوں اور تشخیص میں غلط فهمی کا شکار هوگا اور بار بار اِس طرح کی غلطیوں کی تکرار کرنے سے انسان٬ بعض اوقات ایسی منزل پر پهنچ جاتا هے که جهاں سے پلٹنا ناممکن هوجاتا هے اور اُس کی تلافی کرنے کی کوئی راسته نهیں پچتا۔

خصوصا ایسے فیصلے که جو انسان کی زندگی کے لئے سرنوشت ساز هوتے هیں اور مستقبل میں موثر واقع هوتے هیں اپنے علم و دانش پر اکتفا کرنا ایک بهت بڑی غلطی هے٬ اجتماعی امور میں بھی اگر عهده داران اور ذمه دار افراد اپنے اداره میں دوسروں کے نظریات (خصوصاً ماهر اور تجربه کار اور مورد اعتماد کارکنان سے) مشوره نه کریں تو وه بهت بڑی غلطی کے شکار هوجاتے هیں که بعض اوقات اُن کے نقصانات کی تلافی نهیں هوسکتی۔ اِس کے علاوه ایک نکته یه بهی هے که اجتماعی کاموں میں که جهاں افراد «ایک ساتھ» کام کرتے هیں٬ اپنے ساتهیوں کے نظریات سے فائده نه اٹھانا٬ اُن کے فرائض اور ذمه داریوں میں بے رغبتی کا باعث هوتا هے اور وه پھر صحیح سے کام نهیں کرتے یا تو غلط کام کرتے هیں یا کاهلی سے کام لیتے هیں۔ اِس بنا پر «استبداد» نه صرف یه که انسان کو دوسروں کے تجربه و دانش سے محروم کرتا هے بلکه اُسے دوستوں اور ساتھیوں کی همراهی اور تعاون سے بهی بے بهره کردیتا هے۔

مشوره کرنا یعنی دوسروں کی عقل میں شریک هونا هے٬ چونکه جو شخص دوسروں سے مشورت کرتا هے جو کچھ دوسروں نے تجربوں سے نتیجه حاصل کیا هے یا اپنے علم سے اُس تک پهنچے هیں انسان آسانی کے ساتھ ایک دم اُس تک پهنچ جاتا هے اور بهت آسانی کے ساتھ دوسروں کی «عقل» میں شریک هوتا هے۔

اِس بنا پر حضرت علی علیه السلام کی نظر میں انسان کی تصمیم اور فیصلے ایک مستحکم پشت پناهی هے اور جو لوگ اپنی تصمیم اور فیصلوں میں دوسروں کے نظریات سے خود کو بے نیاز نه مانے تو وه بهترین نظریات کے مالک هوتے هیں اور بهترین فیصلے کرتے هیں۔ مشوره دینے والے کے نظریه میں معمولا هوا و هوس نهیں هوتی۔ البته مشوره کرنا٬ کسی چیز کے سلسله میں فیصله کرنے میں تاخیر کا باعث نه بنے٬ یا انسان اپنے کاموں میں شش و پنچ کا شکار نه هوجائے٬ بلکه انسان دوسروں سے مشوره کرکے اور اُن کے معلومات سے فائده اٹھاکر کوئی فیصله کرے تو خداوندعالم پر بهروسه کرتے هوئے کام کو انجام دے اور وسواس و تردید نیز شش و پنچ کا شکار نه هو۔ بعض اوقات فوری طور پر قدم اٹھانا لازم هوتا هے تو اُن مقامات میں اگر تاخیر نه هوتی هو تو مشوره کرے۔ لیکن بعض اوقات کام اتنا واضح و روشن هوتا هے که اُس میں کوئی شک و شبه نهیں هے اور مطب بالکل واضح هے تو اُس میں مشوره کرنے کی ضرورت نهیں هوتی۔

جو شخص مشوره کرتا هے٬ عام طور پر گمراهی میں مبتلا نهیں هوتا اور اگر وه غلطی بهی کر بیٹھے تو اُس کی خطا پر ملامت نهیں هوگی٬ برخلاف من مانی کرنے والے که جو که اهم کاموں کو بھی (که جس کے تمام پهلو واضح و روشن نهیں هے) انجام دیتا هے۔

سوال یه هے که کس سے مشوره کیا جائے؟ حضرت علی علیه السلام کا جواب یه هے که عقلمند اور باشعور٬ باتجربه انسان اور متقی و پرهیزگار اور خدا سے ڈرنے والے افراد اوردوراندیش اور صاحبان تدبیر افراد اور جو لوگ دلسوز هوں اور جو مشوره کرنے والے کی سرنوشت کے سلسله میں ذمه داری کا احساس کرتے هوں۔

اُن کے مقابله میں جو لوگ مشوره کئے جانے والے کے سلسله میں معلومات نه رکھتے هوں اور اخلاقی برائیوں جیسے جھوٹ٬ لالچ٬ زیاده خواهی٬ کنجوسی اور خوف وغیره میں مبتلا هوں اور شرعی قوانین کے سلسله میں لاابالی هوں اور جو شخص مشوره کرنے والے کے دشمن هوں یه لوگ بهترین مشوره دینے والے نهیں هوسکتے اور وه مشوره کرنے والے کے لئے اُس کے فیصله لینے میں مسئله کو واضح کرنے اور اس کی مدد کرنے نیز بهترین رائے اور فیصله تک پهنجنے میں اُسے گمراه کردیتے هیں اور اُس کے لئے مشکلات کھڑی کردیتے هیں۔

لهذا امین اور دلسوز مشوره دینے والے کا فریضه هے که جو کچھ اُس کی نظر میں د کھائی دے غیر اصولی ملاحظات کے بغیر اور صداقت و امانت کے ساتھ مشوره کرنے والے کے سامنے اپنے نظریه پیش کردے اور مشوره کرنے والے کے اسرار کو بھی محفوظ رکھے۔

امام هدایت٬ پیشوای سعادتمندان حضرت امیرمومنان حضرت علی بن ابی طالب علیه السلام همیں استبداد اور من مانی کرنے سے هوشیار کرتے هیں اور صاحب نظر افراد سے صلاح و مشوره کرنے کے سلسله میں تحریک کرتے هیں۔ اِس الهی رهنمائی کے ذریعه هم کس قدر اپنے کاموں میں خصوصا سماجی مسائل اور چھوٹے بڑے اداروں میں مشکل حل کرسکتے هیں اورفرصت کے ختم هونے اور امکانات و سرمایه کے ضائع و برباد هونے سے روک سکتے هیں۔ کیا مشوره کرنے کی عادت کے بغیر اور خود رائے اور من مانی کرنے کی عادت کے ساتھ هم حضرت علیه السلام سے متمسک هونے کا دعوی کرسکتے هیں؟!

10- اِن الجَنَّة حُفَّت بِالْمَكارِه وَاِن النّارَ حُفَّت بِالشَّهَوات۔

بے شک بهشت سختیوں اور دشواریوں میں لپٹی هوئی هے اور جهنم خواهشات اور شهوات میں لپٹی هوئی هے۔

عالم آخرت میں انسان کی حیات جاویدان اور سعادت ابدی محقق هوگی٬ دنیوی زندگی انسان کی آخری اور اصلی منزل نهیں هوسکتی اور جو شخص دور اندیش هو تو اُسے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں غور و فکر کرنا چاهئے اور اُس عالم آخرت کے لئے چاره جوئی کرنا چاهیئے۔

یهاں پر ایک سوال یه پیدا هوتا هے که کیا خلد بریں تک پهچنا اور سعادت ابدی حاصل کرنا لذات دنیوی اور شهوات نفس پر عمل کرتے هوئے اور مادی خواهشوں کے ساته جمع هوسکتا هے یا نهیں؟ حضرت علی علیه السلام ٬ پیغمبر اکرم (ص) کی زبانی اِس طرح جواب عنایت کرتے هیں که پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: بے شک بهشت سختیوں اور دشواریوں میں لپٹی هوئی هے اور جهنم خواهشات اور شهوات میں لپٹی هوئی هے۔

کبھی بهی بهشت کو حاصل نهیں کیا جاسکتا اِس حال میں که سختیوں اور دشواریوں سے اجتناب کیا جائے٬ اِسی طرح خواهشات اور شهوات تک نهیں پهچا جاسکتا مگر یه که اُس کے ساتھ آتش جهنم بھی انسان کے دامن گیر هو٬ حضرت علی علیه السلام صاف صاف فرماتے هیں که کوئی بھی اطاعت خدا نهیں هے مگر یه که انسان ناخوشی اور کراهت کے عالم میں انجام دیتا هے اور اُدھر سے کوئی معصیت و گناه نهیں هے که جو انسان هوا و هوس اور شهوت کے ساتھ انجام نه دے۔ جی هاں! مستحکم اراده رکھنا٬ کمر همت باندهنا اور مقصد تک پهنچنا راسته کو اپنانا٬ پیٹ پالنے اور لذت حاصل کرنے کے ساته ساتھ جمع نهیں هوسکتا۔

همیشگی سعادت کی راه میں صرف لذتوں اور هوس بازیوں سے پرهیز کرنا کامیابی کے لئے نه صرف شرط واقعی اور ضروری نهیں بلکه انسان ایسی محدود اور مادّی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اُس سے بلند مقاصد تک پهنچنے کے لئے بھی لذتوں اور آسانیوں سے چشم پوشی کرے اور مستحکم اراده کے ساتھ بلندتر مقاصد تک پهنچنے کے لئے قدم بڑھائے۔ کیا آپ کسی ایک شخص کو پهچانتے هیں که جنهوں نے بهت زیاده جدّ و جهد اور کوششوں کے ذریعه تاریخ بشریت میں بهترین اور مفید ترین اثر چهوڑا هو لیکن ساته ساته وه لذتوں میں غرق رهے هوں؟ اگر دنیوی مقاصد کے لئے سعی و کوشش اور جدّوجهد ضروری هے تو پهر معنویات تک پهنچنے اور آخرت کے بے انتها اورهمیشگی کمال تک رسائی کے لئے پریشانیوں اور سختیوں کا تحمل کرنا نهایت ضروری هے۔ مقاصد تک پهنچنے کے لئے کانٹوں پر چلنا هوتا هے اور جاهلوں کے طعنوں کو برداشت کرنا هوتا هے اور یه ایک ایسی حقیقت هے که جسے هم قبول کریں یا اُس کا انکار کریں لیکن هماری زندگی اور سرنوشت میں موثر هوتی هے۔

خداوندعالم کی اطاعت و عبادت کا نام «تکلیف» رکھا گیا هے کیونکه اُس میں سختیاں اور دشواریاں هوتی هیں٬ اِسی طرح هوس بازی اورهوا پرستی کا نام «شهوت» رکھا گیا هے؛ کیونکه یه انسان کی طبیعی اور حیوانی خواهشوں کو قبول کرنا هے۔ پس همیں یه امید نهیں رکھنا چاهئے که الهی فرائض کا انجام دینا٬ بهشت جاویداں اور سعادت اُخروی کی راه کو بغیر مشکلات اور سختیوں کے طے کیا جاسکتا هے٬ اِسی طرح یه بهی تصور نهیں کرنا چاهئے که شهوت پرستی کے ساتھ آتش جهنم نهیں هوگی! البته یه بات واضح و ورشن هے که جنت اور دوزخ کی راه کا تنها معیار راسته کا آسان یا سخت هونا نهیں هے اور ایسا نهیں هے که اگر کسی کا کوئی «اچھا کام» زحمت و دشواری کے بغیر انجام پا جائے تواُس میں انسان کی سعادت و کمال کے لئے کوئی تاثیر نهیں هوگی٬ یا شهوت پرستی اور هوس بازی کسی کے لئے باعث زحمت هوجائے تو وه اُس کے جهنم میں جانے کی باعث نه هوگی! نهیں ایسا نهیں هے!

جو چیز پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیه السلام کے کلام میں مدّ نظر هے ایک عمومی اور کلی قاعده هے که جس کے بیان سے اپنے ماننے والوں کو سعادت و کمال تک پهنچنے کے لئے مشکلات و دشواریوں کو قبول کرنے اور شهوت پرستی سے پرهیز کرنے کی رغبت دلاتے هیں اور اِس امید کی اصلاح کرتے هیں که وه یه گمان نه کریں که بلند مقاصد تک پهنچنا شهوت پرستی کرتے هوئے بھی ممکن هے٬البته چونکه ایمان و تقوی کے درجات مختلف هیں لهذا جو شخص راه خدا اور کمال مطلوب تک پهنچنے کے لئے جس مقدار میں بهی شهوت پرستی اور لذت پرستی سے پرهیز کرے گا اُسی مقدار میں کمال و سعادت سے نزدیک هوتا چلا جائے گا۔

یهاں پر ایک اهم نکته پر توجه کرنا ضروری هے اور وه یه هے که اِس راه میں سختیاں اور دشواریاں اُس شخص کے لئے هیں که جو اِس راه میں مبتدی اور طفل مکتب هو٬ لیکن جب وه اِس راه سعادت کی راه کا مزه چکه لیتا هے اور اُس پر دنیا کی لذتوں اور هوس بازیوں کی حقیقت واضح هوجاتی هے تو نه صرف اُس پر راستے کی دشواریاں آسان هوجاتی هیں بلکه اُس راه پر چلنا نهایت آسان اور بلکه شیرین هوجاتا (که جس کا دنیا کی لذتوں اور شیرینی سےموازنه نهیں کیا جاسکتا )٬ جنھوں نے اپنا کامیاب تجربه همارے سامنے پیش کیا هے اُس سے یه بات واضح هوتی هے که دنیوی لذتوں کا ترک کرنا٬ محبوب کی راه میں چلنے میں ایسی لذت هے که جس کو بیان نهیں کیا جاسکتا٬ انھوں نے جب بیان کرنا شروع کیا تو وه اهل دنیا اور ثروتمندوں اور طاقتوروں پر لعن و طعن کرتے هوئے کهتے هیں: «کهاں هیں دنیا والے! هماری لذتوں کا اندازه لگائیں!» اِس بنا پر راسته کی شروعات میں ان لوگوں کے لئے جو دنیا کے محدود اغراض و مقاصد سے آگے بڑھ کر همیشگی سعادت کی راه میں قدم بڑھائیں٬ جنت کی راه مشکلات اور پریشانیوں و سختیوں کے ساته ساتھ٬ جهنم کی راه خوشی اور خواهشوں کے ساتھ ساته هے لیکن چند مدت بعد راه سعادت کی حقیقت کو چکھنے اور حقیقت کی آنکھ کھلنے کے بعد که جو شهوات کی گهرائی اور هوا پرستی کے سب سے نچلے پرده کی حقیقت معلوم هونے کے بعد خدا کی اطاعت اور اُس کی عبادت میں سختیاں اور کراهت ختم هوتی نظر آتی هیں اور اُن کی جگه مٹھاس اور لذت آجاتی هے۔ اور یه ایک ایسی حقیقت هے که جسے حضرت پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیه السلام کی پیروی کرنے والے خالص افراد نے اُسے درک کیا هے٬ حضرت امیر المومنین علیه السلام کی بات تو دور هے که جو دنیا اور اُس کی لذتوں اور خوشیوں کو ایک مردار کی طرح مانتے هیں که جس کی طرف صرف وحشی کتے آتے هیں یهاں تک که بچے بهی اُس سے دوری اختیار کرتے هیں!

هم اگر راه بهشت کی دشواریوں کو قبول کریں اور جهنم پر ختم هونے والی شهوات و خوشی کی راه سے دوری کریں تو پھر همیں راه سعادت کی لذت اور خوشی کا احساس هوگا اور هم حضرت علی علیه السلام سے نزدیک هونے میں ایک قدم اٹھاتے هوئے نظر آئیں گے۔ انشاء الله۔

 

● احاديث اور مآخذ کی فهرست

1- لايُحِبُّنی الاّ مومن وَلا يُبْغِضُنی الاّ مُنافِق‌ٌ (صحيح مسلم ـ جلد 1 ـ ص 55)

2. اَعيُنونی بِوَرَع واجتهادٍ وعِفَّة و سَدادٍ. (نهج البلاغه ـ نامة 45)

3. اَلحِكْمَة ضالَّة الْمُوْمِن فَخُذِالحِكْمَة وَ لَو مِن اَهْل النّفاق‌ (نهج البلاغه ـ حكمت 80)

4. اللّه اللّه فِی القُرآن، لايَسْبِقُكُم بِالعَمَل بِه غَيرُكُم (نهج البلاغه ـ نامه 47)

5. لاتكن مِمَّن يرجو الا´خرة بغير العمل و يُرَجِّی التوبة بطول الاَمَل (نهج البلاغه ـحكمت 150)

6. اَلدُّنْيا تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ (غررالحكم ـ ص 135)

7. اَيُّهَا النّاس! اِنَّماالدُّنْيا دارُ مَجازٍ وَالاخِرَة دارُ قَرارٍ، فُخُذُوا مِن مَمَرِّكُم لِمَقَرِّكُم. (نهج البلاغه ـ خطبه 203)

8. هَلَك‌َ امْرُوٌ لَم يَعْرِف‌ْ قَدْرَه (نهج البلاغه ـ حكمت 149)

9. مَن اسْتَبدَّ بِرَايِه هَلَك‌َ وَمَن شاوَرَ الرِّجال شارَكَها فی عُقُولِها (نهج البلاغه ـحكمت 161)

10. اِن الجَنَّة حُفَّت بِالْمَكارِه وَ اِن النّارَ حُفَّت بِالشَّهَوات (نهج البلاغه ـ خطبه 176)

Sunday, 26 May 2013 05:16

جناب زینب (س) کی رحلت

جناب زینب(س) کی رحلت

زینب اس باعظمت خاتون کانام هے جن کا طفولیت فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا هے جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا هوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص)نے انھیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا عصمت کبریٰ فاطمہ زہرا نے انھیں فضیلتوں اور کمالات کی ایسی گھٹی پلائی جس سے زینب کی تطهیر و تزکیہ نفس کا سامان فراہم هوگیا اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن هی سے اپنی شفقت آمیز مرافقت کا شرف بخشا یہ تھی زینب کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختا بنیادیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت تکامل انسانی کی ایک مثال بن گیا.

وہ زینب جو قرة عین المرتضیٰ جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈک هو جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کانور هو وہ زینب جو علی مرتضیٰ کی قربانیوں کو منزل تکمیل تک پہنچانے والی هو وہ زینب جو”عقیلة القریش“هو جو قریش کی عقیلہ و فاضلہ هو وہ زینب جو امین اللہ هو اللہ کی امانتدار هو گھر لٹ جائے سر سے چادر چھن جائے بے گھر هو جائے لیکن اللہ کی امانت اسلام پر حرف نہ آئے، قرآن پر حرف نہ آئے،انسانیت بچ جائے، خدا کی تسبیح و تہلیل کی امانتداری میں خیانتداری نہ پیدا هو، وہ هے زینب جو ”آیة من آیات اللہ“آیات خدا میں ہم اہلبیت خدا هیں ہم اللہ کی نشانیوں میں سے ہم اللہ کی ایک نشانی هیں وہ زینب جو مظلومہ وحیدہ ہے جو مظلوموں میں سے ایک مظلومہ ”ملیکة الدنیا“وہ زینب جو جہان کی ملکہ هے جو ہماری عبادتوں کی ضامن هے ۔زینب اس بلند پائے کی بی بی کا نام جس کا احترام وہ کرتا جس کا احترام انبیاء ما سبق نے کیا هے جس کو جبرائیل نے لوریاں سنائی هیں کیونکہ یہ بی بی زینب ثانی زہرا سلام اللہ علیہا هے اور زہرا کا احترام وہ کرتا تھا جس کا احترام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرتے تھے ۔جس رحمة للعالمین کے احترام میں ایک لاکھ انبیاء کھڑے هوتے هو ئے نظر آئے عیسیٰ نے انجیل میں نام محمد(ص) دیکھا احترام رحمة للعالمین میں کھڑے هوگئے موسیٰ نے توریت میں دیکھا ایک بار اس نبی کے اوپر درود پڑھنے لگے تو مددکے لئے پکارا احترام محمد(ص) میں سفینہ ساحل پہ جا کے کھڑاهوگیا (یعنی رک گیا ) جس رحمت للعالمین کے احترام میں ایک کم ایک لا کھ چوبیس ہزار انبیا ء کا، کارواں کھڑا هو جائے تو وہ رحمت للعالمین بھی تو کسی کے احترام میں کھڑا هوتا هو گا اب تاریخ بتاتی هے کہ جب بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا محمد (ص) کے پاس آئیں محمد مصطفیٰ کھڑے هو گئے تو اب مجھے بتائے کہ استاد کھڑا هو اور شاگرد بیٹھا رهے سردار کھڑا هو سپاهی بیٹھے رهیں تو اب بات واضح هو گئی کہ محمد(ص)اکیلے نهیں فاطمہ(س) کے احترام میں کھڑے هوئے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا کارواں احترام فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا میں کھڑا هوا اب زینب هیں ثانی زہرا اگران کے تابوت و ان کے حرم کے سامنے احترام میں اگر شیعہ کھڑا هو جائے تو سمجھ لینا کہ وہ سنت پیغمبر ادا کررہا هے ۔

کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس هوگی اس کا علم و تقویٰ کتنا بلند و بالا هوگا یهی وجہ هے کہ روایت کے جملہ هیں کہ آپ عالمہ غیر معلمہ هیں آپ جب تک مدینہ میں رهیں آپ کے علم کا چرچہ هوتا رہا اور جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی(ع) سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی هیں لیکن ہماری عورتوں نے یہ خواہش ظاہر کی هے کہ اگر هو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب(س) سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ جائیں ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع هو گئیں اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معارف الٰهیہ سے مستفیض فرمائیں حضرت زینب(س) نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں هی خواتین کی کثیر تعداد علوم الٰهی سے فیضیاب هونے لگی آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں اور روز بہ روز تفسیر قرآن کے درس میں خواتین کی تعداد میں کثرت هو رهی تھی درس تفسیر قرآن عروج پر پہنچ رہا تھا اور ساتھ هی کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مردو زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں هو رهی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر هو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں هو رهی هے جس کا باپ ”راسخون فی العلم “ جس کا باپ باب شہر علم هے جس کا باپ استاد ملائکہ هے ۔

یہ تھی عظمت صدیقہ طاہرہ زینب کبریٰ ،لیکن، وہ و قت بھی قریب آیا کہ جب زمانہ نے رخ موڑ لیا ،جس در سے لوگ نجات حاصل کرتے تھے اسی در کو مسمار کرنے کی تیاریاں هونے لگیں حسین مظلوم(ع) نے ایک چھوٹا سا کارواں بنایا اوربحکم الٰهی نانا کے مدینہ کو خیر باد کہہ کر راہ کربلا اختیار کیا ایک روز راہ میں زینب نے دیکھا کہ دنیائے انسانیت کو منزل سعادت پہونچانے کا ذمہ دار امام محراب عبادت میں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کرنے میں مصروف هے بامعرفت بہن بھائی کے قریب بیٹھ گئی جب امام اپنے وظیفہ عبادت سے فارغ هوئے تو زینب(س) نے کہا بھیا میں نے آج شب میں ایک صدائے غیبی کو سنا هے گویا کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ

 

الا یا عین فاحتفظی

علی قوم تسوم قہم امنایا۔

 

ومن یبکیٰ اعلیٰ الشہد اء بعدی

بمقدار الیٰ انجاز وعدی

 

ان اشعار کا ترجمہ اردو زبان کے منظومہ انداز میں پیش خدمت هے۔

اشکبار دل حزیں هے ، میرا ساتھی یہاں کوئی نهیں هے

میرا عہد وفا پورا هوا هے ،مصیبت میں مصیبت آفریں هے

شهیدوں پر نهیں روئے گا کوئی،یهی احساس دل میں آتشیں هے

غم و کرب وبلا اور درد پیہم ، یہ سب اور ایک جسم نازنیں هے

زینب نے جب اپنے بھائی کو صحرائے کربلا میں تڑپتا دیکھا تو کہا ہائے میرے نانا محمد(ص) ہائے میرے بابا علی(ع)ہائے میرے چچا جعفر ہائے حمزہ سید الشہداء دیکھو میراغریب حسین(ع) صحرائے کربلا پر خون میں لت پت پڑا هے کاش آج آسمان گرجاتا یہ منظر زینب نہ دیکھتی لیکن ایک بار راوی کہتا هے کہ زینب نے کلیجے کو سنبھالا اور اس کے بعد بھائی کا کٹا هوا گلا چوم کر صبرو رضا کا دامن تھامے هو ئے خیام کی طرف چلیں زینب نے اتنی عظیم مصیبت پر صبرو استقامت اختیار کر کے عظمت انسانیت کو معراج بخشی اور پیام حسینی کی ہدایت نواز تاثیر سے دنیائے بشریت کو حیات جاویداں کا راستہ دکھایا۔ یهی وجہ هے کہ آج تک ہر صاحب بصیرت انسان زینب کے جذبہ استقامت کے سامنے سرِ ادب خم کئے هوئے هے کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ نے مصیبت دائم کی گھڑی میں صبرو تحمل کے ایسے نمونے پیش کئے جو آج تک ہر اہل درد کے لئے مثال بن چکے هیں حضرت علی علیہ السلام کی باعظمت بیٹی نے اپنی ہر مصیبت میں رضائے الٰهی کو مد نظر رکھا اور اپنے صبرکا اجر بارگاہ خدا سے طلب کیا۔ یهی وجہ هے کہ بھائی کی لاش پر آکر خدا کے حضور میں قربانی آل محمد علیہم السلام کی قبولیت کی دعا کرنا زینب کے مقام تقویٰ کا بے مثال نمونہ سمجھا جاتا هے اور حقیقت بھی یهی هے کہ اتنے عظیم بھائی کی لاش پر بہنیں عموماً اپنے حواس کھو بیٹھتی هیں لیکن زینب کے اخلاص صبر کی عظمتیں نمایاں هوئیں اور غم و اندوہ کی اس حالت میں رضائے الٰهی کے حصول کی دعائیں مانگتی رهیں عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ نے کربلا کی غم واندوہ فضاء میں عظمت و کردار کے جو نمونے پیش کئے وہ نہ فقط یہ کہ پوری کائنات کے لئے معیار عمل بنے بلکہ شہادت امام کے عظیم مقصد کی تکمیل بھی هوئی اور رہتی دنیا تک فطرت کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم هو گئی حق و باطل کی پہچان کے راستے واضح هوگئے اور شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کے پاکیزہ اسرار بھی نمایاں هوگئے۔

سیدہ زینب(س) نے اپنے پر جوش خطاب میں اموی خاندان کی بربریت اور ارباب اقتدار کی طاغوتیت کو بے نقاب کردیا اور لوگوں کو ان کے جرائم کے خلاف قیام کرنے پر آمادہ کیا ۔

 

اے زینب کبریٰ تیرے خطبوں کے ذریعہ

شبیر کا پیغام زمانہ نے سنا هے

 

دیتے هیں جو ہر روز مسلمان آذانیں

در اصل تیرے درد بھرے دل کی صدا هے

 

شاعر نے حضرت زینب(س) کے خطبوں کی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی هے کہ:

 

ایمان کی منزل کف پا چوم رهی هے

ملت کی جبیں نقش وفا چوم رهی هے

 

اے بنت علی عارفہ لہجہ قرآں

خطبوں کو تیرے وحی خدا چوم رهی هے

ایک روایت بتاتی هے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ہند کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اے ہند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے هیں انھیں دیکھ کر دل دہل اٹھتا هے آؤ چلیں وهیں دل بہلائیں۔ ہند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سر تا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کرکے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پہچان لیا اور اپنی بہن ام کلثوم سے کہا بہن کیا آپ نے اس عورت کو پہچان لیا هے؟ ام کلثوم نے جواب دیا کہ نهیں میں نے اسے نهیں پہچانا، زینب نے فرمایا یہ ہماری کنیر ہند بنت عبداللہ هے جو ہمارے گھر میں کام کاج کرتی تھی، زینب(س) کی بات سن کر ام کلثوم(س) نے اپنا سر نیچے کر لیا اور اسی طرح جناب زینب(س) نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تاکہ ہند ان کی طرف متوجہ نہ هو لیکن ہند ان دونوں بیبیوں کو غور سے دیکھ رهی تھی اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لئے هیں کیا کوئی خاص بات هے ؟ جناب زینب(س) نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رهیں۔ ہند نے پھر پوچھا بہن آپ کس علاقے سے هیں ؟

اب زینب(س) خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا: ہم مدینہ کے رہنے والے هیں ،ہند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑ دی اور احترام سے کھڑی هو گئی اور پوچھنے لگی بہن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی هیں ؟جناب زینب(س) نے فرمایا: آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی هیں؟ ہند نے کہا: میں اپنے آقا امام علی(ع) کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاہتی هوں، علی(ع) کے گھر انے کانام لےکر ہندکی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری هو گئے اور خود کہنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وہاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بہت محبت هے۔ زینب(س) نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی هے اور کن کے متعلق دریافت کرنا چاہتی هے ؟ ہند نے کہا کہ امام علی(ع) کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاہتی هوں میں آقاحسین(ع) اور اولاد حسین (ع)اور علی (ع)کی پاکیزہ بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاہتی هوں۔ خاص طور پر میں اپنی آقا زادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی هوں اور اسی طرح فاطمہ زہرا(س) کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاہتی هوں۔ زینب(س) نے ہند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا، تونے جو کچھ پوچھا هے میں تفصیل سے تجھے بتاتی هوں تو نے علی(ع)کے گھر کے متعلق پوچھا هے تو ہم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے، تو حسین(ع)کے متعلق دریافت کرتی هے تو یہ دیکھو تمہارے آقا حسین(ع) کا سر تمہارے شوہر یزید کے سامنے رکھا هے۔ تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا هے۔

تو ہم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے هیں۔ تو نے اولاد حسین (ع)کے متعلق پوچھا هے تو ان کے سب جوان مارے گئے هیں۔ صرف ایک علی ابن الحسین(ع) باقی هیں۔ جو تیرے سامنے هیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نهیں سکتے هیں اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا هے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب هوں اور یہ میری بہن ام کلثوم هے۔ جناب زینب کا دردناک جواب سن کر ہند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کہنے لگی ہائے میری آقا زادی یہ کیا هو گیا هے۔ ہائے میرے مولا کا حال کیسا هے۔ ہائے میرے مظلوم آقا حسین! کاش میں اس سے پہلے اندھی هو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی، روتے روتے ہند بے قابو هوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بند خون خون هو گیا اور وہ گر یہ کر کے بے هوش هو گئی جب هوش میں آئی تو جناب زینب اس کی طرف متوجہ هو کر فرمانے لگیں: اے ہند تم کھڑی هو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمہارا شوہر یزید، بڑا ظالم شخص هے ممکن هے تمهیں اذیت و آزار پهونچائے۔ ہم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ہم یہ نهیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے تمہارا سکون تباہ هو جائے ہند نے جواب دیا،کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کوئی چیز عزیز نهیں هے۔ میری زندگی کا سکون ختم هو چکا هے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے هوئے گزاروں گی ۔

واشنگٹن پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرےپاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر سے ملاقات میں پاکستان کے اقتدار اعلی کے احترام پر تاکید کی ہے۔ ریڈیو تہران کی پشتوسروس کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے جمعے کو اسلام آباد میں امریکی سفیررچرڈ اولسن سے ملاقات میں کہا کہ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری اور اقتدار اعلی کا احترام کرے اورقبائلی علاقوں پر اس کے ڈرون حملوں سے جو ایک ارب روپیے کا نقصان ہوا ہے اسے بھی پورا کرے۔ نواز شریف نے کہا کہ دہشتگردی سے مقابلہ کرنا ہرملک کی ذمہ داری ہے اور صرف پاکستان ہی اس کا ذمہ دار نہیں ہے تاہم پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ واضح رہے نواز شریف نے جمعے کے دن اسلام آباد میں ہندوستان کے سفیر سے بھی ملاقات کی تھی۔ انہوں نے ہندوستان کے سفیر سے کہا تھا کہ درطرفہ مسائل مذاکرات سے حل کئےجانے چاہيں اور پاکستان باہمی احترام کے اصولوں کے مطابق ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔ واضح رہے نواز شریف کی پارٹی کو حالیہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔

حزب اللہ لبنان کا اعلانحزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں کے صیہونی قبضے سے آزاد ہونے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ شخ نعیم قاسم نے کہا کہ المیادین ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ جولان کی پہاڑیوں کوآزاد کرانے کا حکم شام سے جاری ہونا چاہیے اور اگر شام نے جولان کے محاذ پر حزب اللہ کی مدد مانگي تو حزب اللہ پیچھے نہیں ہٹے گي۔ شیخ نعیم قاسم نے جولان کی پہاڑیوں کونہایت اہم قراردیا اور کہا کہ اس محاذ کو کھولنے کی ساری تیاریاں ہوچکی ہیں بس آپریشن کرنا باقی ہے۔ واضح رہے پچھلے دنوں جولان کے مقبوضہ علاقے میں شام اور صیہونی حکومت کے درمیاں جھڑپيں ہوئي ہیں۔

شام کے جنوب مغرب میں واقع جولان پر اسرائیل نے سن انیس سو سڑسٹھ میں عربوں کے ساتھ ہونے والی چھ روزہ جنگ میں قـبضہ کیا تھا ۔صیہونی حکومت نے اس علاقے پر اپنا تسلط باقی رکھنے کے لئے سن انیس سو اکیاسی میں اسے مقبوضہ علاقے میں شامل کرلیا تاکہ اس علاقے سے شام کے نام ونشان مٹادئیے جائیں۔ اسرائیل نے انیس سو اسی کی دہائي کے اوائل میں اپنی توسیع پسندی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس علاقے کو اپنی حدود میں شامل کر لیا اس غاصب حکومت کی پارلیمنٹ نے انیس سو اکاسی میں اس علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔جس کی اقوام متحدہ نے بھی مخالفت کی۔ صیہونی حکومت اس علاقے کے آبادی تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے صیہونی کالونیاں بنا رہی ہے ۔ جولان پر صیہونی قبضے کو کئی عشرے ہو رہے ہیں اور اس دوران وہ چالیس سے زیادہ کالونیاں بنا چکی ہے کھ عرصہ پہلے بہ خبر آئی تھی کہصیہونی حکومت شام میں اپنی توسیع پسندی کو جاری رکھتے ہوئے اس ملک میں دسیوں کلومیٹر طویل ایک بفر زون قائم کرنے کے چکر میں ہے۔ صیہونی حکومت نے اسی طرح شام سمیت مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اپنی سرحدوں پر حفاظتی حصار قائم کرنے کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں سمیت شام کے ساتھ اسرائیل کی سرحد کے بعض حصوں میں صیہونی دیوار کی تعمیر کا کام بھی حاری رکھا ہوا ہے۔ اس قسم کے اقدامات سے صیہونی حکومت کا مقصد جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانا اور اس علاقے کو عملی طور پر اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔

صیہونی حکومت نے شام کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ جو صیہونی حکومت اور مغربی ملکوں نے شام کو کمزور کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے، اس ملک میں اپنی مہم جوئي تیز کر دی تھی اسکا جواب حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے بہت احسن طریقے سے دیا ہے

آئیے سنتے ہیں مشرق وسطی کے امور کے ماہر جناب شفقت شیرازی اس موضوع پر کیا اظہار خیال کر رہے ہیں

صیہونی حکومت شام سے تعلق رکھنے والے جولان کے علاقے کو اس کی اسٹریٹیجک حیثیت اور فراوان آبی ذخائر اور زرخیز زمین کے پیش نظر ہمیشہ سے للچائي ہوئي نظروں سے دیکھتی رہی ہےیہ ایسی حالت میں ہے کہ جب صیہونی حکومت نے ہمیشہ ڈرانے دھمکانے کی پالیسی اختیار کر کے شام کے عوام اور حکومت کو اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے سامنے جھکانےکی کوشش کی ہے۔ لیکن شام کے عوام اور حکام نے ہمیشہ اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر صیہونی حکومت سمیت اغیار کے قبضے کے تسلسل کو ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ اسی لۓ شام ہمیشہ صیہونی حکومت کے خلاف استقامت کی فرنٹ لائن پر رہا ہے۔

اسرائیل شام کے خلاف خوف و ہراس کی پالیسی کے ساتھ ساتھ شام کو کمزور کرنے کے لۓ مختلف سازشوں کو بھی عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ شام کو داخلی بحران میں الجھائے رکھنے سے ، کہ جس میں اسرائیل اور مغربی حکومتوں کے ہاتھ نمایاں طور پر دکھائي دیتے ہیں، شام کے خلاف صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی سازشوں کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔

شام کو اس وقت داخلی بحران کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود شام کے عوام اور حکام جولان سے صیہونی حکومت کی پسپائی کی ضرورت پر تاکید کرتے ہیں اور وہ شام کے دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی تک چین سے نہیں بیٹھیں گےایسے میں حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم کا حالیہ بیان صیہونی لابی کے لئے ایٹم بم سے کم نہیں۔

جنوبي لبنان کي آزادي کي تيرھويں سالگرہپچيس مئي سن دوہزار، لبنان کي تاريخ کا ناقابل فراموش دن ہے-

اس دن اسرائيلي فوج اپني تمام تر جديد ترين ہتھياروں اور وسائل کے باوجود حزب اللہ لبنان کے جوانوں کي مزاحمت کے سامنے گھٹنے ٹيکنے پر مجبور ہوگئي اور بائيس سال کے ناجائز قبضے کے بعد انتہائي ذلت آميز طريقے سے نکلنا پڑا-

لبنان کي تحريک مزاحمت نے ملک کے جنوبي علاقے کے ايک بڑے حصے کو عاضب اسرائیل کے قبضے سے چھڑا ليا اور صيہوني حکومت کے ناقابل تسخير ہونے کا افسانہ چکناچور کرديا-

جنوبي لبنان پر اسرائيلي فوج نے مارچ انيس سو اٹھتر ميں قبضہ کيا تھا اور اس کے ڈھائي ہزاز فوجي جنگي ہتھياروں کي مدد سے اس علاقے ميں داخل ہوگئےتھے-

لبناني فوج کے سربراہ جنرل جان قہوہ جي نے جنوبي لبنان کي آزادي کي سالگرہ کي مناسبت سے منعقد ہونے والي تقريب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبناني فوج اسرائيل کي ہر جارحيت کے منہ توڑ جواب دينے کے لئے تيار ہے-

انہوں نے کہا کہ ملک کي ارضي ساليمت اور اقتدار اعلي کا تحفظ فوج کي اہم ترين ذمہ داري ہے - لبناني فوج کے سربراہ نے امن کے قيام اور اسرائيلي جارحيت کي روک تھام کے لئے لبناني فوج، تحريک مزاحمت اور لبنان ميں تعينات عالمي امن فوج کے درميان تعاون کي ضرورت پر بھي زور ديا-

حزب اللہ لبنان کي پارليماني پارٹي کے رکن نواف موسوي نے بھي اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ اسرائيل، امريکہ کے کھلے تعاون کے ذريعے تحريک مزاحمت کو ختم کرنے کي کوشش کر رہا ہے- جس کا کہ مقصد لبنان کو صيہوني اور مغربي مفادات کے لئے تختہ مشق بنانا ہے-

لبنان کےسابق وزیراعظم اور سينئر سياستداں سليم الحص نے اپنے بيان ميں اسرائيل کے خلاف تحريک مزاحمت کي تيرہويں سالگرہ کي مبارک باد پيش کرتے ہوئے کہا کہ اس دن پوري دنيا کو پتہ چل گيا کہ عوام، فوج اور تحريک مزاحمت کے درميان پيدا ہونے والے اتحاد نے لبنان کو آزاد کراليا ہے اور صيہونيوں کو ذلت قبول کرتے ہوئے بھاگنا پڑا-

انہوں نے تحريک مزاحمت کے خلاف بعض ملکي دھڑوں کي جانب سے کھڑي کي جانے والي رکاوٹوں کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سياسي جماعتوں کو معلوم ہونا چاہيے کہ تحريک مزاحمت کي وجہ سے ملک اسرائيل کے خطرات سے محفوظ ہے- انہوں نے تحريک مزاحمت کي مخالفت کرنے والے سياسي دھڑوں کو مشورہ ديا کہ وہ مخالفت کے بجائے تحريک مزاحمت کي حمايت کرکے ملک کي حفاظت کو يقيني بنائيں-

لبنان کے مستعفي وزيراعظم نجيب ميقاتي نے بھي اپنے ايک بيان ميں جنوبي لبنان کي آزادي کي سالگرہ کے دن کو قومي دن قرار ديتے ہوئے عام تعطيل کا اعلان کرديا ہے-

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سيد حسن نصر اللہ نے بھي جنوبي لبنان کي آزادي کي سالگرہ کے موقع پر اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ اگر اسرائيل نے ذرہ برابر غلطي اور يا لبنان پرحملے کي کوشش کي تو اسے منہ توڑ جواب ديا جائے گا-

امام علی علیہ السلام کے مختصر فضائل اور کمالات

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور کمالات کے بارے میں کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا مشکل بھی ہے اس لیے کہ حضرت علی علیہ السلام فضائل و کمالات کا ایسا بیکراں سمندر ہیں جس میں انسان جتنا غوطہ لگاتا جائے گا اتنا زیادہ فضائل کے موتی حاصل کرتا جائے گا یہ ایسا ایسا سمندر ہے جس کی تہہ تک پہنچنا ناممکن ہے۔ کیا خوب کہا خلیل ابن احمد نے جب ان سے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: کیف اصف رجلاً کتم اعادیه محاسنه و حسداً و احبّائه خوفاً و ما بین الکلمتین ملأالخائفین؛(۱) میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔

اس مقالہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے بعض ان کمالات و فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی زبان مبارک سے بیان فرمائے اور اہلسنت کی معتبر کتابوں میں نقل ہوئے ہیں:

علی (ع) کو خدا اور نبی (ص) کے علاوہ کسی نے نہ پہچانا

سچ مچ یہ کون سی ذات ہے جسے کوئی نہ پہچان سکا کوئی اسے خدا مان بیٹھا اور کوئی اس کی بندگی میں شک کرنے لگا۔

در مسجد کوفه شهیدش کردند گفتند مگر اهل نماز است علی؟!

کہا کہ کیا علی نماز بھی پڑھتے تھے؟! کہ انہیں مسجد کوفہ میں شہید کر دیا۔

اور جس نے علی (ع) کو حقیقی معنی میں پہچانا وہ صرف خدا اور اس کا رسول (ص) ہیں۔

پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین (ع) سے خطاب میں کہا: «یا علی ما عرف اللّه حق معرفته غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّه و غیری؛(۲) اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔۔۔

اور دوسری جگہ فرمایا: «یا علی لایعرف اللّه تعالی الّا انا و انت و لایعرفنی الّا اللّه و انت و لا یعرفک الّا اللّه و انا؛(۳) اے علی ! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا اور مجھے خدا اور آپ کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔

لا تحصیٰ فضائل

وہ پیغمبر جنہوں نے علی علیہ السلام کی شناخت کا اعتراف کیا انہوں نے آپ(ع) کے فضائل کو شمار سے باہر بتلایا کہ علی فضائل انتے زیادہ ہیں کہ کوئی انہیں شمار میں نہیں لا سکتا۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لو انّ الفیاض(۴) اقلام و البحر مدادٌ و الجنّ حسّابٌ و الانس کتابٌ مااحصوا فضائل علیّ بن ابی طالبٍ؛(۵) اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تو علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔

اور دوسری جگہ آپ نے فرمایا: «انّ اللّه تعالی جعل لاخی علیٍّ فضائل لاتحصی کثرة فمن ذکر فضیلةً من فضائله مقرّابها غفر اللّه له ما تقدّم من ذنبه و ماتأخّر ‘‘ بیشک خداوند عالم نے میرے بھائی علی کے لیے بے شمار فضائل قرار دئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک فضیلت کو عقیدت کے ساتھ بیان کرے تو اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ . و من کتب فضیلةً من فضائله لم تزل الملائکة تستغفرله ما بقی لتلک الکتابه رسم، و من استمع فضیلةً من فضائله کفّر اللّه له الذّنوب الّتی اکتسبها بالاستماع و من نظر الی کتابٍ من فضائله کفّر اللّه له الذّنوب الّتی اکتسبها بالنّظر،(۶) اور اگر کوئی شخص ان فضائل میں سے کسی ایک کو لکھے تو جب تک وہ نوشتہ باقی رہے گا ملائکہ اس کے لیے استغفار کرتے رہیں گے اور اگر کوئی ان فضائل میں سے کسی ایک کو سنے تو خدا وند عالم اس کے ان تمام گناہوں کو جو اس نے کان کے ذریعے سے انجام دئے ہوں گے معاف کر دے گا۔ اور اگر کوئی شخص علی کے فضائل کے نوشتہ پر نگاہ کرے گا تو خدا اس کے ان تمام گناہوں کو جو اس نے آنکھ کے ذریعے انجام دئے ہوں گے معاف کر دے گا۔

آپ تنہا تمام کمالات کے مالک ہیں

علی علیہ السلام نہ صرف تمام اچھے لوگوں کے صفات کے تنہا حامل ہیں بلکہ پیغمبر اسلام (ص) کے علاوہ تمام اولو العزم پیغمبروں کے اوصاف کا بھی خلاصہ ہیں۔

اہلسنت و الجماعت کے ایک معروف عالم بیہقی نے پیغمبر اکرم (ص) سے یوں روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: «من احبّ ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوحٍ(ع) فی تقواه و ابراهیم فی حلمه و الی موسی فی عبادته فلینظر الی علی بن طالب علیه الصّلوة و السّلام؛(۷) جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔

اسی روایت کو دوسرے انداز میں بھی نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «من اراد ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوح فی مهمه و الی یحیی بن زکریّا فی زهده، و الی موسی بن عمران فی بطشه، فلینظر الی علی بن ابی طالب علیه السلام؛(۸) جو شخص آدم کو ان کے علم میں، نوح کو ان کے فہم و ادراک میں، یحییٰ کو ان کے زہد میں اور موسی کو ان کی عبادت میں دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔

علی علیہ السلام سے پیغمبر اکرم(ص) کو محبت

جو شخص تمام اوصاف کا مالک ہو وہ تمام دلوں کا محبوب ہوتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) جو خود تمام کائنات کے محبوب ہیں وہ علی علیہ السلام سے عشق و محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے کہ آیت مباہلہ سے یہ ثابت ہے کہ علی (ع) نفس پیغمبر ہیں ’’ انفسنا‘‘ اور ہر انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ لہذا جب علی علیہ السلام نفس و جان پیغمبر ہیں تو یقینا ان کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں۔

اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا : «من احبّ علیّاً فقد احبّنی...؛(۹) جو علی کو دوست رکھے مجھے دوست رکھے گا۔ نیز فرمایا: «محبّک محبّی و مبغضک مبغضی؛(۱۰) تمہارا دوست میرا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے۔

ایک شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا: «یا رسول اللّه انّک تحبّ علیّاً؟ قال: او ماعلمت انّ علیّاً منّی و انا منه؛(۱۱) اے رسول خدا آپ علی کو چاہتے ہیں؟ فرمایا: کیا تم نہیں جانتے علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔

مناقب میں پوری سند کے ساتھ رسول اسلام (ص) سے نقل ہوا ہے: «انّ اللّه عزّ و جلّ امرنی بحبّ اربعةٌ من اصحابی و اخبرنی انّه یحبّهم. قلنا: یا رسول اللّه من هم؟ فلکنّا یحبّ ان یکون منهم، فقال: الا انّ علیّاً منهم ثم سکت، ثمّ قال: الا انّ علیّاً منهم ثمّ سکت؛(۱۲) خداوند عالم نے مجھے اپنے صحابیوں میں سے چار صحابی کو دوست رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس نے خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ میں نے پوچھا اے رسول خدا وہ کون ہیں؟ ہم میں سے بھی ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ان میں سے ہو۔ رسول اسلام(ص) نے فرمایا: آگاہ ہو جاو علی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے پھر دوبارہ فرمایا: یقینا علی ان میں سے ایک ہیں اور اس کے بعد آپ نے خاموشی اختیار کر لی۔

عائشہ کہتی ہیں: پیغمبر اکرم (ص) جب حالت احتضار میں تھے تو فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ میرے دوست کو میرے پاس بلاو۔ میں ابوبکر کی تلاش میں گئی اور انہیں بلا کر لائی۔ جب ابوبکر پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئے تو پیغمبر اکرم (ص) ان سے اپنی نگاہیں موڑ لی اور پھر فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ حفصہ عمر کی تلاش میں گئیں اور عمر کو بلا کر لائیں جونہی پیغمبر کی نگاہ عمر پر پڑی تو آپ نے فورا منہ پھیر لیا۔ پھر فرمایا: ادعوا الیّ حبیبی؛ عائشہ کہتی ہیں: میں نے کہا وائے ہو تم لوگوں پر رسول خدا (ص) علی بن ابی طالب کو بلوانا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ صرف علی کو چاہتے ہیں۔ اس کے بعد علی علیہ السلام کو بلوایا گیا جب پیغمبر اسلام (ص) نے علی کو دیکھا تو انہیں سینے سے لگایا، اس کے بعد انہیں ایک ہزار حدیثیں تعلیم کی کہ جن میں سے ہر ایک ہزاروں حدیثوں کا باب تھی۔(۱۳)

ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «علیّ منّی مثل رأسی من بدنی؛(۱۴) علی میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے میرے بدن پر سر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی علی علیہ السلام سے محبت کسی غرض کے تحت نہیں تھی بلکہ آپ میں موجود فضائل و کمالات کی بنا پرآپ سے محبت تھی جو فضائل و کمالات خود پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زبان مبارک سے گاہ بگاہ بیان فرمائے تھے۔

علی علیہ السلام کا علم

علی علیہ السلام وہ شخص نہیں جنہوں نے کسی مدرسے یا کسی معلم کے پاس علم اکتساب کیا ہو بلکہ آپ کا علم ’’ علم لدنی‘‘ ہے یعنی خداوند عالم کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ کا علم تمام انسانوں سے برتر اور کسی سے قابل قیاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلسنت کے منابع میں آپ کو ’’ اعلم الناس‘‘ کہا گیا ہے ذیل میں چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «اعلم امّتی من بعدی علیّ بن ابی طالب علیه السّلام؛(۱۵) میری امت میں سب سے زیادہ دانا اور عالم شخص علی بن بن ابی طالب ہیں۔

۲: عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «قُسّمت الحکمة علی عشرة اجزاءٍ فاعطی علیّ تسعة و النّاس جزءً واحداً؛(۱۶) حکمت اور علم کے دس جزء اور حصے ہیں جن میں سے نو صرف علی کو عطا کئے گئے ہیں اور ایک حصہ باقی امت کے پاس ہے۔

تمام بشری علوم اور عصر حاضر کی ترقیاں علم کے اسی دسویں حصے کا نتیجہ ہیں اور علی علیہ السلام کا علم تمام انسانوں کے علم سے نو گنا زیادہ ہے۔ اور اس کا راز یہ ہے کہ اس کا سرچشمہ وحی الہی ہے یعنی پیغمبر اکرم (ص) کے ذریعے اللہ کی جانب سے علم ان تک منتقل ہوا ہے جیسا کہ خود آپ (ص) نے فرمایا: انا مدینة العلم و علیٌ بابها، فمن ارادالعلم فیأت الباب؛(۱۷) میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں جو شخص شہر علم میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ دروازے سے داخل ہو۔

۳: جناب عائشہ علی علیہ السلام کے بارے میں کہتی ہیں: «هو اعلم النّاس بالسّنة؛(۱۸) علی سنت پیغمبر کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔

اے کاش خود عائشہ اس حدیث پر عمل کر لیتیں اور جنگ جمل میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی نصیحتوں پر عمل کر لیتیں۔

۴: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ زہرا (س) کو علی علیہ السلام کے عقد میں دے کر شادی کروا کر فرمایا: «زوّجتک خیر اهلی، اعلمهم علماً و افضلهم حلماً و اوّلهم سلماً؛(۱۹) میں نے آپ کی شادی سب سے بہترین رشتہ دار سے کرائی ہے جو علم میں سب سے زیادہ عالم، حلم میں سب سے افضل، اور اسلام قبول کرنے میں سابق ترین شخص ہے۔

علی (ع) کی عبادت اور بندگی

امیر المومنین علی علیہ السلام کی عبادت ’’شہرہ آفاق‘‘ رکھتی ہے۔ علم لدنی کے مالک خداوند عالم کی جتنی معرفت رکھتے ہیں اسی مقدار میں اس کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں راز و نیاز اور راتوں کو جاگ جاگ کر مناجات کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ خداوند عالم ملائکہ کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی عبادتوں پر فخر کرتا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:ایک دن صبح سویرے جبرئیل انتہائی خوشی کے ساتھ میرے پاس آئے میں نے پوچھا: میرے دوست کیا بات ہوئی ہے کہ آج آپ اتنے خوش نظرآ رہے ہیں؟ کہا: اے محمد! کیونکر خوش نہ ہوں جبکہ خداوند عالم نے جو اکرام و انعام آپ کے بھائی، جانشین اور امام امت علی بن ابی طالب پر کیا ہے اس نے میری آنکھوں کو نورانی کر دیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کیسے خدا نے میرے بھائی اور امام امت کو اکرام سے نوازا ہے؟

«قال: باهی بعبادته البارحة ملائکته و حملة عرشه و قال: ملائکتی انظروا الی حجّتی فی ارضی علی عبادی بعد نبیّی، فقد عفر خدّه فی التّراب تواضعاً لعظمتی، اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۰) فرمایا: خداوند عالم نے علی کی گزشتہ رات کی عبادت پر ملائکہ اور حاملین عرش کے سامنے اتنا فخر کیا ہے اور فرمایا ہے: اے میرے فرشتو! دیکھو میرے نبی کے بعد میرے بندوں پر میری حجت کو، کہ کس طرح سے اس نے اپنا چہرا اور رخسار خاک پر رکھا ہوا ہے میری عظمت کے سامنے اس کے اس تواضع کی وجہ سے میں تمہیں گواہ بناتا ہے کہ وہ میری مخلوق کا رہبر ہے اور میرے بندوں کا وارث اور سرپرست ہے۔

شیعہ کتابوں میں علی علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں اتنے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ جن کو بیان کرنے کے لیے ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے۔ اس مختصر مقالہ میں صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

ضرار بن ضمرہ معاویہ کے دربار میں علی علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے: میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے علی کو کئی مربتہ دیکھا جب رات ہر چیز کو اپنی گھٹا میں ڈبو دیتی تھی اور آسمان پر ستارے سامنے آ جاتے تھے تو اس وقت میں دیکھتا تھا کہ علی محراب عبادت میں کھڑے ہوتے تھے اور اپنی داڑھی کو ہاتھ میں لیے ہوتے تھے اور اس شخص کی طرح تڑپ رہے ہوتے تھے جس کو سانپ نے کاٹ دیا ہو اور اس شخص کی طرح گریہ و زاری کرتے تھے جس کو شدید غم لگ گیا ہو۔۔۔ ( علی کے گریہ و زاری کی آوازیں ابھی بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں جو وہ کہتے تھے) آہ آہ قلت الزاد و طول السفر (زاد سفر کتنا تھوڑا اور سفر کتنا طولانی، راستہ کتنا کٹھن اور منزل کتنی دور)۔

یہ ماجرا سن کر معاویہ کے آنسو بھی نکل آئے اس نے آستین سے آنسو پوچھے اور سننے والے دوسرے لوگ بھی آنسو پوچھنے لگے۔ پھر معاویہ نے کہا: ہاں ابو الحسن ایسے ہی تھے۔(۲۱)

امامت علی (ع)

دریائے علم کے مالک اور بے مثل و نظیر عبادتگزار ہی کے لیے سزاوار ہے کہ امام امت ہو۔ وہ روایات جو امام علی علیہ السلام کے بلا فصل امام ہونے پر اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں یہاں پر بیان نہیں کیا سکتا ہے جیسے حدیث ثقلین، حدیث منزلت، حدیث یوم الدار، حدیث غدیر اوراس طرح کی معروف حدیثیں حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں جو سب اہلسنت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ہم یہاں پر چند ایک روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی دلالت صریح ہے اور معمولا بہت کم بیان کی جاتی ہیں:

۱: پیغمبر اکرم (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنیں تاکہ مقربین میں سے ہوں عرض کیا یا رسول اللہ کون سے انگوٹھی پہنوں؟۔ فرمایا: عقیقِ سرخ کی۔ چونکہ یہ وہ پتھر ہے جس نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا ہے «ولی بالنّبوّة ولک بالوصیّة ولولدک بالامامة...؛(۲۲) اور میری نبوت، آپ کی بلافصل جانشینی اور آپ کے بعد گیارہ اماموں کی امامت کا اقرار کیا ہے۔

۲: ابن بریدہ سے نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «لکلّ نبیٍّ وصیّ و وارث و انّ علیّاً وصییی و وارثی؛(۲۳) ہر پیغمبر کا ایک جانشین اور وارث ہے میرا جانشین اور وارث علی ہیں۔

۳: حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے سلسلے میں جواوپر روایت بیان ہوئی ہے اس میں خدا نے کہا ہے کہ میں فرشتوں کو گواہ بناتا ہوں کہ علی میری مخلوق کے امام اور میرے بندوں کے وارث و سرپرست ہیں «اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛(۲۴)

۴: عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: «انت ولیّ کلّ مؤمنٍ بعدی؛(۲۵) اے علی! آپ میرے بعد رہبر اور مومنین کے سرپرست ہیں۔

اس حدیث میں لفظ ’’ بعدی‘‘ سے ایک دم واضح ہو جاتا ہے کہ علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے بلافصل جانشین ہیں ورنہ اس حدیث کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں چھوڑی مختلف طریقوں اور مختلف مناسبتوں سے آپ کو امت کا امام اور اپنا جانشین متعارف کروایا۔ یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا دیا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اور قرآن کریم جیسی جاویدانی کتاب کے ساتھ علی علیہ السلام کو بھی جاویدانگی حیات عطا کرتے ہوئے فرمایا: «علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یفترقا...؛(۲۶) علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

اور کبھی علی علیہ السلام کو حق کا محور اور مزکر قرار دیا اور اس حدیثِ متواتر میں فرمایا: «علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة؛(۲۷) علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

ایک اور روایت میں فرمایا: «سیکون من بعدی فتنة، فاذا کان ذلک، فالزموا علی بن ابی طالب، فانّه الفاروق بین الحقّ و الباطل؛(۲۸) عنقریب میرے بعد فتنہ اور اختلاف ہو گا پس تم لوگ علی بن ابی طالب کا ساتھ دینا اس لیے کہ حق اور باطل کے درمیان فرق ڈالنے والے صرف علی ہیں۔

اور فرمایا: جو شخص علی سے الگ ہو وہ مجھ سے الگ ہے اور جو مجھ سے الگ ہو جائے خدا سے دور ہو جائے گا۔(۲۹)

قرآن علی (ع) کی شان میں

اہلسنت کے علماء اور مفسرین نے قرآن کریم کی بہت ساری آیتیں امام علی علیہ السلام کی شان میں ذکر کی ہیں اور اس بات کی تائید کی ہے کہ پیغمبر اکرم نے ان کے نزول کے بعد فرمایا تھا کہ یہ آیتیں علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ ابن حجر، خطیب بغدادی، سیوطی، گنجی، شافعی، ابن عساکر، شیخ سلیمان قندوزی و۔۔۔ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: «نزلت فی علیّ ثلاث مأئة آیه؛(۳۰) علی کہ شان میں تین سو آیتیں نازل ہوئی ہیں۔

نیز ابن عباس نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: «ما انزل آیة فیها «یا ایّها الذین آمنوا» و علیّ رأسها و امیرها؛ کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جس مومنین کو مخاطب کیا ہواور علی امیر مومنین ہونے کی وجہ سے اس کے پہلے مخاطب نہ ہو۔(۳۱) یعنی یہ تمام آیات سب سے پہلے علی علیہ السلام کی شان میں ہیں۔

علی علیہ السلام کی اطات

جب علی علیہ السلام امام اور رہبر ہیں محبوب پیغمبر ہیں علم لدنی کے مالک ہیں خدا کی بندگی میں بالاترین مقام پر فائز ہیں حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے والے ہیں حق ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے قرآن ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے تو ایسے شخص کی اطاعت اور پیروی کرنا پوری امت مسلمہ پر واجب ہو جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کے لیے عجیب تعبیرات کا استعمال کیا ہے جن کے نمونے درج ذیل ایک حدیث میں ہیں:

۱: سلمان نے حضرت زہرا (س) سے نقل کیا کہ آپ نے رسول خدا(ص) سے نقل فرمایا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: علیکم بعلیّ بن ابی طالب علیه السّلام فانّه مولاکم فاحبّوه، و کبیرکم فاتّبعوه، و عالمکم فاکرموه، و قائدکم الی الجنّة(فعزّزوه) و اذا دعاکم فاجیبوه و اذا امرکم فاطیعوه، احبّوه بحبّی و اکرموه بکرامتی، ماقلت لکم فی علیٍّ الّا ما امرنی به ربّی جلّت عظمته؛(۳۲) تم لوگوں پر علی کی اطاعت واجب ہے چونکہ وہ تمہارے مولا ہیں انہیں دوست رکھو اور تمہارے بزرگ ہیں ان کی اتباع کرو تمہارے عالم ہیں ان کا اکرام اور احترام کرو اور جنت کی طرف لے جانے والے تمہارے رہبر ہیں انہیں عزیز سمجھو وہ جب تمہیں کسی کام کی طرف بلائیں ان کی اطاعت کرو میرے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرو میری بزرگی کی وجہ سے انہیں بزرگ سمجھو میں نے علی کے بارے میں تم سے وہی کہا ہے جو میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے۔

یہ حدیث اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ مزید اس کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے پیغمبر اکرم نے اس میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ میں نے جو کچھ علی کے بارے میں کہا ہے سب اللہ کے حکم سے کہا ہے۔ یقینا اگر امت مسلمہ صرف اسی حدیث پر عمل پیرا ہو جاتی تو کسی قسم کے انحراف اور اختلاف کا شکار نہ ہوتی۔

۲: پیغمبر اکرم (ص) نے جناب عمار سے فرمایا: «یا عمّار! ان رأیت علیّاً قدسلک وادیّاً و سلک النّاس وادیاً غیره فاسلک مع علیّ ودع النّاس انّه لن بدلک علی ردی و لن یخرجک من الهدی؛(۳۳) اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔

لیکن افسوس سے کہنا سے پڑتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس راستے سے منحرف ہو گئی جس پر علی علیہ السلام چل رہے تھے اور جناب عمار کو پیغمبر اکرم (ص) کی طرف سے کی گئی اس وصیت نظر انداز کر کے لوگوں نے علی علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا اور نتیجہ میں سب نے گمراہی کا راستہ انتخاب کر لیا اور عالم اسلام کے اندروہ مشکلات وجود میں آگئیں جو نہیں آنا چاہیے تھیں اورآج تک امت مسلمہ اپنے کئے کا خمیازہ بگت رہی ہے۔ نہ دنیا میں سکون ملا اور نہ آخرت میں نصیب ہو گا۔ امت مسلمہ کی اکثریت نے علی علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ کر ان کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنا سب کچھ بگاڑ دیا۔ علی علیہ السلام تو وارث دوجہاں ہیں ہی کوئی انہیں مانے یا نہ مانے، علی(ع) امام برحق ہیں ہی کوئی انہیں قبول کرے یا کرے۔ علی (ع) قسیم النار و الجنہ ہیں ہی کوئی مانے یا مانے۔ دنیا میں تو ان سے بھاگ سکتے ہیں آخرت میں بھی بھاگ کر دکھائیں تو تب بتائیں۔

تحرير : جعفری

حوالہ جات

۱ـ روضة المتقین، ج 13، ص 265.

۲ـ مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص 268.

۳ـ محمد تقی مجلسی، روضة المتقین، ج 13، ص 273.

۴ـ بحارالانوار، ج 28، ص 197 و بحار ج 35، ص 8 ـ 9.

۵ـ المناقب، الموفق بن احمد الخوارزمی، قم، جامعه مدرسین، چاپ چهارم، ص 32، ابن شاذان، مأة منقبه، قم مدرسة الامام المهدی(ع)، ص 177، حدیث 99، یہ حدیث اہلسنت کے عسقلانی، لسان المیزان، ج 5، ص 62، ذهبی، میزان الاعتدال، ص 467و...میں آئی ہے۔

۶ـ المناقب، وہی، ص 32، حدیث 2؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 19، ینابیع المودة، قندوزی باب 56، مناقب السبعون، حدیث 70.

۷ـ بنقل از شیخ طوسی، امالی، قم، دارالثقافه، 1416، ص 416، مجلس 14، دیلمی، ارشادالقلوب، انتشارات شریف رضی، 1412 هـ.ق، ج 2، ص 363؛ علامه حلّی، شرح تجرید الاعتقاد، جامعه مدرسین قم، ص 221.

۸ـ المناقب همان، ص 83، حدیث 70، و ص 311، حدیث 309.

۹ـ کنزالعمّال، متقی هندی، بیروت، مؤسسة الرساله، ج 11، ص 622، حدیث 33024.

۱۰ـ وہی حوالہ ، روایت 33023.

۱۱ـ المناقب، همان، ص 64.

۱۲ـ وہی حوالہ ، ص 69، حدیث 42.

۱۳ـ خصال صدوق، جامعه مدرسین، ج 2، ص 651.

۱۴ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 144، روایت 167.

۱۵ـ وہی حوالہ ، ص 82، روایت 67، فرائد السمطین، جوینی، ج 1، ص 97، کفایة الطالب، الکرخی ص 332.

۱۶ـ وہی حوالہ ، ص 82، روایت 68 ؛ و حلیة الاولیاء، ابی نعیم، ج 1، ص 64.

۱۷ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 91، روایت 84، انساب الاشراف، ج 2، ص 124.

۱۸ـ کنزالعمّال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 605، حدیث 32926.

۱۹ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322.

۲۰ـ بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، ج 41، ص 21 ذیل روایت 28.

۲۱ـ اشک شفق، ص 182.

۲۲ـ المناقب، ص 85، روایت 84..

۲۳ـ وہی حوالہ ، ص 319، حدیث 322.

۲۴ـ ابن کثیر دمشقی، البدایة و النهایة، بیروت، مکتبة المعارف، ج 7، ص346.

۲۵ـ المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری، بیروت، دارالمعرفه، ج 3، ص 124، ینابیع المودة، سلیمان قندوزی، باب 20، ص 103، تاریخ الخلفاء سیوطی، باب فضائل علی(ع)، ص173.

۲۶ـ المستدرک للحاکم همان، ج 3، ص 124، حدیث 61، فرائد السمطین، همان، ج 1، ص 439، ینابیع المودة، همان، باب 20، ص 104، هیثمی، مجمع الزوائد، ج 9، ص 135.

۲۷ـ المناقب، همان، ص 105، روایت 108.

۲۸ـ وہی حوالہ ، ص 105، روایت 109.

۲۹ـ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج 6، ص 221، شماره 3275؛ ینابیع المودة، همان، باب 42، ص 148؛ تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج 2، ص 431.

۳۰ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 267، ح 249.

۳۱ـ المناقب، وہی حوالہ ، ص 316، حدیث 316؛ فرائد السمطین، ج 1، ص 78.

۳۲ـ کنزالعمال، وہی حوالہ ، ج 11، ص 614، روایت 32971.

۳۳ـ تاریخ بغداد، خطیب بغدادی، ج 4، ص 410، و ابونعیم، حلیة الاولیاء، ج 1، ص

سعودی عرب کا ہزاروں ہندوستانی کارکنوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہسعودي عرب کي حکومت نے ہزاروں ہندوستان ملازمين اور محنت کشوں کو اپنے ملک سے نکال دينے کا فيصلہ کيا ہے۔

سعودي عرب ميں پاس ہونےوالے نئے قانون کے مطابق عنقريب تقريبا چھپن ہزار ملازمين اور محنت کش نکال دئے جائيں گے۔ہندوستان کے وزير خارجہ سلمان خورشيد نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے دس افراد پر مشتمل ايک ٹيم سعودي عرب بھيجنے کا فيصلہ کيا ہے جو ان ہندوستاني شہريوں کو سعودي عرب سے ہنگامي حالت ميں نکالے جانے کا سرٹيفکٹ تيار کرے گي۔

يہ ايسي حالت ميں ہے کہ يہ ہندوستاني ملازمين اسي وقت واپسي کا سرٹيفکٹ حاصل کرسکيں گے جب انہيں مقامي انتظاميہ کي طرف سے کليرنس مل جائے گي۔ ہندوستان کے وزير خارجہ سلمان خورشيد نے کہا کہ اب تک چھپن ہزار سے زائد ہندوستانيوں نے ہندوستاني سفارتخانے ميں اپنا نام لکھا ديا ہے يہ وہ لوگ ہيں جن کے پاس معتبر ويزا اقامہ اور حتي پاسپورٹ بھي نہيں ہے۔

اطلاعات ہيں کہ ہندوستاني وزير خارجہ سلمان خورشيد اس معاملے پر اپني سعودي ہم منصب سعود الفيصل سے بات چيت کے لئے رياض جانےوالے ہيں -سعودي عرب کے تازہ قانون نطاقات کے مطابق سعودي کمپنيوں کو اس بات کا پابند بنايا گيا ہے کہ وہ دس فيصد ملازمين سعودي نوجوانوں کو ہي رکھيں۔سعودي عرب کي حکومت نے ملک ميں غير قانوني طريقے سے کام کرنےوالے غير ملکي شہريوں کو آئندہ چھ جولائي تک کي مہلت دي ہے کہ وہ سعودي عرب سے چلے جائيں۔

انتخابات میں ملت ایران کی شرکت، اسلامی نظام کا تحفظتہران کی مرکزی نمازجمعہ آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئی۔

خطیب نماز جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایران میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات میں ملت ایران کی وسیع شرکت کو ایران کے دشمنوں کی سازشوں کے مقابل اسلامی جمہوری نظام کے تحفظ کا سبب قراردیا۔آیت اللہ موحدی کرمانی نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ جون میں ہونے والے ایران کے صدارتی انتخابات میں ملت ایران کی وسیع شرکت ایک عظیم کارنامہ ہوگی جو ایران کے اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب کے تحفظ کا سبب بنےگی۔خطیب نماز جمعہ تہران نے کہا کہ ہر ایرانی جو ایران سے محبت رکھتا ہے اس کو ان انتخابات کے عمل میں فعال شرکت کرنی چاہئیے۔آیت اللہ موحدی کرمانی نے ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کا حامل آئندہ صدر کو ہونا چاہئے کہا کہ یہ اہم عہدہ اختیار کرنے والے شخص کو رہبر انقلاب اسلامی کی ہدایات کے مطابق متقی، مدبر، منتظم، سامراج مخالف، انصاف پسند اور سادگی پسند ہونا چاہئیے۔خطیب نماز جمعہ تہران نے ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران بعثی حکومت کے قبضے سے ایران کے خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خدا پر ایمان اور ملت ایران کی صبر و استقامت خرم شہر کی آزادی کا سبب بنی۔انہوں نے شام میں دہشت گردں کے خلاف شامی فوج اور عوام کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کے مقابل شامی عوام کی استقامت کے ثمرات سامنے آنے والے ہیں۔