Super User
حجابِ حضرت فاطمہ زھرا (س) اور عصر حاضر کی خواتین

حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ نے بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں اس دنیا میں تشریف لا کر اپنے وجود مبارک سے اس دنیا کو معطر کیا، حضرت فاطمہ زھرا (ع) دنیا کی وہ خاتون ہیں کہ جن کو خدا نے فرشتوں کے ذریعے سلام بھیجا اور آپ کا در وہ در یے کہ جہاں فرشتے بھی اجازت لے کر داخل ہوتے تھے، یہ مقام جو خدا نے فاطمہ زھرا (ع) کو دنیا و آخرت میں عطا کیا پے آج تک نہ کسی کو حاصل ہوا ہے نہ ہو گا، آپ کی سیرت مسلم خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنا لے تو اسوقت خواتین جن مشکلات میں گرفتار ہیں وہ برطرف ہو جائیں گی۔
فضائل حضرت زہرا (س)
حضرت فاطمہ زہرا (س) عالم اسلام کی ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت زہرا (س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں، اور بعضں آیات کی شان نزول اور تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت زہرا (س) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" میں "لیلۃ" سے مراد فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے اور "القدر" ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے۔ لہذٰا جسے بھی فاطمہ زہرا (س) کی حقیقی معرفت حاصل ہو گئی اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا، آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔
علامہ مجلسی (رہ) انس بن مالک اور بریدہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے سورہ نور کی ۳۷ویں آیت کی تلاوت فرمائی" فی بیوت اذن الله ان ترفع و یذکر اسمه یسبح له فیها بالغدو والاصال" تو ایک شخص کھڑا ہوا اور رسول خدا (ص) سے دریافت کیا؛ یا رسول اللہ یہ گھر کس کا ہے؟ فرمایا، انبیاء علیھم السلام کا گھر ہے، ابو بکر کھڑے ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا، کیا یہ گھر بھی انھیں گھروں جیسا ہے؟ حضرت نے فرمایا، بیشک! بلکہ ان میں سب سے برتر ہے۔ کتاب البرہان فی تفسیر القرآن تالیف سید ہاشم بحرانی میں سورۂ بینہ کی پانچویں آیت کی تفسیر میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت میں دین قیم سے مراد فاطمہ (س) ہیں۔ شریعت کے سارے اعمال بغیر محمد و آل محمد (ع) کی ولایت کے باطل و بیکار ہیں اور روایات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دین کا استحکام فاطمہ(س) اور ان کی ذریت کی محبت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین قیم کی تفسیر آپ کی ذات گرامی سے کی گئی ہے۔
تفسیر قمی میں سورۂ احزاب کی ۵۷ویں آیت کے ذیل میں وارد ہوا ہے، " ان الذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدنیا و الاخره و أعد لهم عذاباً مهینا" یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔ "
علی بن ابراھیم قمی (رہ) فرماتے ہیں کہ کہ یہ آیت علی و فاطمہ علیھما السلام کے حق کے غاصبوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا، "جو بھی ہماری زندگی میں زہرا کو اذیت پہنچائے گویا میرے مرنے کے بعد بھی اس نے زہرا کو اذیت دی ہے اور جو بھی میری رحلت کے بعد زہرا کو اذیت دے گویا اس نے میری زندگی میں زہرا کو اذیت دی، اور جو بھی فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ،جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی" اور خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے، "یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔"
امام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت زہرا (س) نے فرمایا، "جس وقت سورہ نور کی ۶۴ویں آیت " لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً" جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو پیغمبر اکرم (ص) کو اس طرح سے مت آواز دو) نازل ہوئی ہم نے پیغمبر اکرم (ص) کو بابا کہنا چھوڑ دیا اور یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرنے لگے، پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے فرمایا، بیٹی فاطمہ یہ آیت تمھارے اور تمھاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے چونکہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے، بلکہ یہ آیت متکبر اور ظالم قریش کے لئے نازل ہوئی ہے۔ تم مجھے بابا کہہ کر پکارا کرو چونکہ یہ کلمہ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور اس سے خداوند راضی ہوتا ہے، یہ کہہ کر میرے چہرے کا بوسہ لیا۔ سورہ شوریٰ کی ۲۳ویں آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے، "اے میرے رسول آپ امت سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو" ابن عباس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبر سے سوال کیا گیا، جن لوگوں سے محبت و مودت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا، اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند ہیں۔
حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی سیرہ کی روشنی میں کچھ عرائض مومن خواتین کی خدمت میں:
اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام پر فائز کیا ہے، اور اس صنف نازک کے لئے کچھ قوانین وضع کئے ہیں جو اس گوھر نایاب کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں، جب ہمارے پاس کوئی بہت قیمتی چیز ہوتی ہے تو ہماری یہ کوششں ہوتی یے کہ اس کو ایسی جگہ پر رکھا جائے کہ کوئی نہ چرا سکے لیکن افسوس صد افسوس قیمتی ترین گوھر کو دنیا کی گود میں آزادانہ ڈال دیا گیا ہے کہ جو جس طرح چاہے استفادہ کرے، ایک بہت مشہور جملہ ہے کہ "عورت ہی عورت کہ دشمن ہوتی ہے"، یہ سو فیصد درست ہے، جب عورتیں بہترین آرایش کے ساتھ معاشرے میں جلوہ گر ہوں گی تو یہ عورتیں پردے میں رہنے والی خواتین کا حق غصب کرتی ہیں، کیونکہ جب مرد بنی سنوری عورتوں کو دیکھتا یے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیوی سے مقایسہ کرنے لگتا ہے، اور یہی بات آہستہ آہستہ معاشرے میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے پردے کو عورت كی زينت اور اسکے لئے واجب قرار دیا هے، اس لئے اسلام ميں هر مسلمان عورت پر نامحرم سے پرده كرنا واجب هے، لیکن پرده واجب هونے كے باوجود اکثر مسلمان خواتين بے پرده نظر آتی هیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے جدید معاشرے کی خواتین، پردے کو ترقی اور حسن کی راہ میں روکاوٹ سمجھتی ہیں، جو عورت بےحجابی سے حسن لانا چاہتی هے وہ یہ جان لے كه بےحجابی سے حسن پر زوال آتا هے نہ نکھار، بےحجابی سے عورت کی زينت اور وقار ختم هو جاتا هے۔
آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر سازش کے تحت مسلم خواتین کو آلہء کار کے طور پر استعمال کر ریے ہیں، اور متاسفانہ آج كل كی عورتيں بھی modrenism کے شوق میں ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں، ایک جانب تو مغربی ممالک کی پیروی کرتی ہوئی نظر آتی ہيں اور دوسری جانب مسلمان ہونے كا ادعا بھی کرتی ہیں۔ اس بات بھی کی دعویدار ہیں کہ ہم پيرو حضرت زهرا (س) ہیں، اگر حضرت فاطمہ (س) كی پيروکار ہونے کا دعوا كرتی ہیں تو ان كي سيرت پر عمل بھی كرنا چاہیے۔ حضرت زهرا (س) نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی، اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامي قوانين كو رعايت كرتے هوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے۔ آجکل باحجاب خواتین کی بھی مختلف کیٹیگریز ہیں، کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں، اور ان کا یہ حجاب تمام غیر محرموں سے ہے، اور یہی حجاب اسلام کو مطلوب ہے، کچھ ایسی بھی ہیں جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں، اس کے ساتھ میک اپ بھی ہے، نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو رہی ہے، شاید اس فارمولے کے تحت کہ "مسلمان سب بہن بھائی ہیں،"یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت سننے کو ملتا ہے،"حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں،" عورت کے لئے جسکو خدا نے نا محرم قرار دیا ہے وہ اسکے لئے نا محرم ہے، خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نہیں کیا لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ روایت میں ملتا یے کہ "عورت کو چاہیے کہ نا محرم سے نرم و زیبا لہجے میں بات نہ کرے"
اميرالمؤمنين علی (ع) پیامبر گرامی(ص) سے نقل کرتے ہیں؛ ايك نابينا شخص نےحضرت زهرا سلام اللہ علیھا كے گھر ميں داخل هونے كے لئے اجازت چاهی تو اس وقت حضرت زهرا سلام اللہ علیھا پردے كے پيچھے چلی گئیں پھر اس کو اندر آنے كي اجازت دی، رسول خدا (ص) نے سوال كيا یا فاطمه، يه نابينا هے اس كو تو كچھ نظر نہيں آتا كيوں پرده كر رہی ہیں؟ تو اس وقت جناب فاطمہ(س) نےجواب میں فرمايا؛ بابا جان وه مجھے نہيں ديكھ سكتا ليكن ميں تو اس كو ديكھ سكتی هوں، مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بو استشمام كر لے گا، یہ سن کر پيامبر (ص) بے اختیار شهادت ديتے هوئے فرماتے ہیں: "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي" فاطمه ميرے جگر كا ٹكڑا هے۔ عورت کے لئے اسلام ميں حجاب کی بہترين نوع چادر هے، يه چادر حضرت زهرا (س) کی عصمت و عفت کی يادگار هے۔ جس کو آج کی مسلمان عورت نے ایک طرف رکھ دیا ہے، خواتین کو پردے كے بارے ميں امر كرنا مرد پر واجب هے، روایت میں ملتا ہے کہ" قیامت کے روز ھر شخص چار عورتوں کے اعمال کا ذمّہ دار ہے، اور وہ چار عورتیں اس کی بیوی، بیٹی، بہن اور ماں ہیں"۔ آج کی عورت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو فاطمی اصولوں کے تحت گزارے، اس میں ہی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز یے۔
دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں
![]()

علامہ ساجد نقوی:
دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائم مقام سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ دہشتگردی، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں، امید ہے نئی جمہوری حکومت ان مسائل کے حل کیلئے موثر حکمت عملی اپنائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملک میں ہونیوالی حالیہ بدترین لوڈشیڈنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں اس وقت شدید گرم موسم ہے اور ان حالات میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث عوام انتہائی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ توانائی بحران کے باعث ملک معاشی عدم استحکام کا بھی شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بےروزگاری آنے والی نئی جمہوری حکومت کیلئے بڑے چیلنجز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنیوالی حکومت کی اولین ترجیح دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہونا چاہیئے کیونکہ گذشتہ کئی عرصے سے عوام اس عذاب کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے نئی قائم ہونیوالی جمہوری حکومت ملک سے دہشت گردی، لوڈشیڈنگ جیسی لعنت سے چھٹکارا پانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔
حزب اللہ کاانتباہ

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سیدحسن نصراللہ نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور اسلام کی شبیہ خراب کرنے کے لئے تکفیریوں کی سازشوں سےخبر دارکیا ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے بیروت میں آئین پرعمل درآمد کے امور میں ایران کےصدر کےمعاون محمدرضامیرتاج الدینی سے ملاقات میں کہا کہ تکفیری افکار ، مسلمانوں کےمختلف فرقوں کےدرمیان تفرقہ ڈالنے اوراسلام کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہا کہ اس طرح کےباطل افکار کےمقابلے میں مسلمانوں کی ہوشیاری نہایت ضروری ہے ۔
سیدحسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے استقامت کی حمایت کوسراہتے ہوئے کہاکہ شام پرصیہونی حکومت کےحملے کااصلی مقصد استقامت کوختم کرنا ہے۔
اس موقع پر محمدرضاتاج الدینی نے شام پرصیہونی حکومت کےحالیہ حملے اوردہشتگردوں کی دہشتگردانہ کاروائیوں کی مذمت کرتے ہوۓ کہاکہ ایران کا اصولی موقف غاصب صیہونیوں کی سازشوں اور غاصبانہ قبضوں کےمقابلے میں فلسطینی کاز اور استقامت کی حمایت کرنا ہے۔
میرتاج الدینی نے دشمنوں کےفتنوں کوناکام بنانے کےلئے عوام میں ہوشیاری کےتحفظ میں بیروت میں علماء اسلام کاکردار اوراسلامی ثالثی کمیٹی کے پہلےاجلاس کےکامیاب انعقاد کےبارےمیں کہاکہ شام کےمستقبل کافیصلہ اس ملک کےعوام ہی کرسکتے ہيں اوردوسروں کواس ملک کےعوام پر اپنےفیصلے تھوپنے کاحوق نہیں ہے۔
پاکستان میں ڈرون حملے جاری رکھنے پر امریکہ کا فیصلہ
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں ڈرون حملے فی الحال امریکہ کی جاسوس تنظیم سی آئی اے کے زیرانتظام جاری رہیں گے لیکن امریکہ حکومت ڈرون آپریشن کو سی آئی اے سے لے کر پنٹاگون کو منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس اقدام کا مقصد یہ بتایا گيا ہے کہ امریکی صدر باراک او باما متنازع ڈرون حملوں کے عمل کو شفاف بنانا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے عوام ان ڈرون حملوں کے سخت خلاف ہیں اور وہ کئی بار مظاہرے کر کے ان حملوں کو روکنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
حکومت پاکستان نے بھی کئي بار ان ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انہیں روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اگلے دس سالوں میں برطانیہ میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگی,سروے
برطانیہ میں کی گئی مردم شماری سے انکشاف ہوا ہے کہ اگلے دس سالوں میں برطانیہ کی زیادہ آبادی اسلام کی قیادت کریگی جس کی وجہ برطانیہ میں تیزی سے بڑھ رہی مسلم آبادی ہیں۔
مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں عیسائیت کا زوال ہورہا ہے جبکہ دس میں سے ایک برطانوی نوجوان مسلمان ہے۔ اور عیسائیوں کی آبادی میں ۵۰ فیصد سے زیادہ تک کی کمی رونما ہوئی ہے۔
سروے کے مطابق عیسائیوں کی زیادہ تر آبادی کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے جبکہ پورے برطانیہ میں نوجوان عیسائیوں کی آبادی پہلی بار آدھے سے کم ہوگئی ہے۔
برطانیہ کی اعداد و شمار کے ڈیپارٹمنٹ نے اس سروے میں واضح کردیا ہے کہ اگلے دس سالوں میں عیسائی اقلیت جبکہ مسلمان اکثریت میں ہونگے۔
وہابی دہشتگردوں نے فلسطینی تنظيم جہاد اسلامی کے رہنما شہید فتحی شقاقی کا مقبرہ منہدم کردیا ہے
براثا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ شام میں سرگرم باغی دہشتگردوں نے فلسطینی تنظيم جہاد اسلامی کے رہنما ڈاکٹر شہید فتحی شقاقی کا مقبرہ منہدم کردیا ہے۔
دہشت گردوں نے فلسطینی کیمپ یرموک میں شہداء کی قبروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے شہید شقاقی کے مقبرے کو بھی منہدم کردیا، شہید فتحی شقاقی غزہ پٹی کے رفحہ کیمپ میں 1951 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے مصر میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی اور پھر فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کی تاسیس کی۔ شہید شقاقی کو 1983 سے لیکر 1986 تک کئی بار اسرائيلیوں نے گرفتار کیا، وہ 1988 میں لبنان چلے گئے اور 1995 میں مالٹ میں صہیونی ایجنٹوں نے انھیں شہید کردیا۔
اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شہید ڈاکٹر شقاقی کا مقبرہ تباہ کرنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ دہشت گرد سنیوں کے بھی جانی دشمن ہیں۔ سلفی وہابی دہشت گردوں نے حال ہی میں صحابی رسول (ص) حضرت حجر بن عدی کے روضہ کو شہید کردیا اور ان کی قبر کی توہین اور بے حرمتی کی اور اس کے بعد ایک اور ہولناک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ایک شامی فوجی کا سینہ چاک کرکے اس کے دل کو چبایا۔ ان سلفی دہشت گردوں کو سعودی عرب کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور سعودی عرب سلفیوں کی تبلیغ کا اصلی گڑھ ہے۔
حالیہ انتخابات انتہاء پسندی اور دہشت گردی کیخلاف ریفرنڈم
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائم مقام سربراہ اور ملت جعفریہ کے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ حالیہ انتخابات انتہاء پسندی اور دہشت گردی کیخلاف ریفرنڈم ہیں، تمام مکاتب فکر، عمائدین اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام نے انتہاء پسندی اور جنونیت کو مسترد کرتے ہوئے امن، خوشحالی اور ترقی کا بہترین فیصلہ کیا، تمام سیاسی جماعتیں عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلے کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی دفتر سے جاری بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں عوام جس جوش و خروش اور یکجہتی سے جمہوریت کے فروغ کیلئے گھروں سے نکلے اور مملکت خداد اد کو امن، خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن کرنے کیلئے اپنا ووٹ استعمال کیا اس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ انتخابات انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ریفرنڈم ہیں اور تمام مکاتب فکر، عمائدین اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عوام نے انتہاء پسندی اور جنونیت کو مسترد کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک میں بھائی چارے، امن و آشتی کے داعی ہیں اور کسی بھی ایسے گروہ کا راستہ روکیں گے جو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانے کا سبب بنے یا اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کی مذموم کوششیں کریں۔ اس موقع پر انہوں نے پورے ملک خصوصاً جھنگ کے عوام کو بھی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جس طرح شرپسندی اور جنونیت کو مسترد کیا وہ لائق تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے فیصلے نے ثابت کر دیا کہ ملکی استحکام اور دہشت گردی کا خاتمہ اتحاد و وحدت میں پنہاں ہے۔
تکفیریوں نے مقام حضرت ابراہیم(ع) کو بھی ویران کر دیا
شام میں سرگرم دھشتگردی گروپ النصرہ نے شہر الرقہ میں واقع مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بم دھماکے کے ذریعے منہدم کر کے اس پر بلڈوزر چلا دیا ہے۔
شام میں سرگرم دھشتگردوں نے شام کے شہر ’’الرقہ‘‘ کے علاقے ’’عین العروس‘‘ میں واقع مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بم دھماکے سے ویران کر دیا۔
شام میں سرگرم دھشتگردی گروہ النصرہ نے مقام حضرت ابراہیم کو بم دھماکے کے ذریعے منہدم کر کے اس پر بلڈوزر چلا دیا ہے۔
دھشتگردی گروہ النصرہ پہلے سے یہ دھمکی دے چکا ہے کہ وہ تمام مذہبی مقامات کو ویران کرے گا۔
واضح رہے کہ حضرت ابراہیم (ع) کی قبر مبارک فلسطین کے شہر الخلیل کی مسجد ابراہیمی میں واقع ہے۔
یاد رہے کہ شام میں سرگرم یہ دھشتگردی گروپ پہلے حجر بن عدی کے مزار اور فلسطینی شہید فتحی شقاقی کے مقبرے کو منہدم کر چکا ہے۔
افريقا ميں غذائي قلت ، يونيسف کا انتباہ
اقوام متحدہ کے ادارے يونيسف نے افريقا کے ساحلي ملکوں ميں غذا کي کمي بارے ميں خبر دار کيا ہے-
پيرس ميں يونيسف کے تعاون سے ہونے والي ايک عالمي کانفرنس کے شرکا نے عالمي اداروں سے اپيل کي ہے کہ براعظم افريقاميں بڑھتي ہوئي غربت اور بھوک کي جانب فوري توجہ ديں- يونيسف کے عہديداروں کا کہنا ہے کہ براعظم افريقا کے ساحلي ملکوں ميں تقريبا سات ملين بچوں کي زندگي خطرے ميں ہے- کہا جارہا ہے کہ افريقا ميں غذا کي کمي کے باعث مرنے والوں کي تعداد ايڈز مليريا اور ٹي بي سے مرنے والوں سے کہيں زيادہ ہوگئي ہے- اس سے قبل عالمي امدادي اداروں نے بھي براعظم افريقا کے بحران زدہ علاقوں کے لئے ڈيڑھ ارب ڈالر سے زيادہ کي رقم مختص کرنے کي اپيل کي تھي-
رپورٹوں کے مطابق اس وقت برکينافاسو، مالي، چاڈ، نائيجر، اور موريطانيہ کو غذائي بحران کا سب سے زيادہ سامنا ہے کيونکہ افريقا کے ساحلي علاقوں ميں آباد لوگوں کي زندگي کا دارو مدار بارشوں اور کھيتي باڑي پر ہے-
خشک سالي اور فصلوں کي کمي کي وجہ سے اجناس کي پيداوار بري طرح متاثر ہوئي ہے –
خشک سالي کي وجہ سے بڑي تعداد ميں پالتو حيوانات بھي ہلاک ہوگئے ہيں- خشک سالي کي وجہ سے غلات کي قيمتوں ميں بھي زبردست اضافہ ہوا ہے-
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برسوں کے مقابلے ميں اس سال اس علاقے ميں غذائيت کي کمي کے شکار بچوں کي تعداد ميں دس سے پندرہ في صد کا اضافہ ہوا ہے اور اگر عالمي برادري نے اس جانب توجہ نہ دي تو اس پورے خطے ميں ايک بار پھر غذائي بحران پيدا ہوجائے گا-
انساني حقوق کي تنظيموں کا کہنا ہے کہ اگر يہ صورتحال اسي طرح جاري رہي تو برکينافاسو کے بچوں کي ايک تہائي تعداد کا نشو نما بري طرح متاثر ہوگا-
امدادي سامان کي تقسيم کا معاملہ اس علاقے کي ايک اور اہم مشکل ہے جس نے بحران اور بھي پيچيدہ بناديا ہے- کہا جارہا ہے کہ بعض خاندانوں کو تاحال کسي بھي قسم کا امدادي سامان نہيں مل سکا ہے کيونکہ سرکاري عہديدار صرف انتخابات کے دوران ہي ان علاقوں کا دورہ کرتے ہيں-
اس سے پہلے اقوام متحدہ کے ترقياتي ادارے نے عالمي برادري سے اپيل کي تھي کہ وہ اس علاقے ميں زراعت کو ترقي دينے اور نہروں کے نظام کي تقويت کے لئے سرمايہ کاري کر ے تاکہ غذائي بحران پر قابو پايا جاسکے-
سياسي مبصرين کا خيال ہے کہ افريقا ميں زراعت کا بحران اتنا شديد ہوگيا ہے کہ اس پر عارضي اقدامات کے ذريعے قابو پانا ممکن نہيں ہے-
غلط پاليسيوں، کمزور اداروں اور کساد بازاري نے ملکر اس خطے کے بحران کو اور بھي شديد کرديا ہے-اس علاقے کو سياسي اور سماجي عدم استحکام کا بھي سامنا ہے جس سے افريقا کي ترقي اور انصاف کے قيام ميں سنگين رکاوٹيں پيدا ہورہي ہيں
سوره مبارکه احزاب کی ابتدائی ایات کی تفسیر
ایران کے نامور عالم دین حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے اپنے تفسیر کے درس میں جو مسجد اعظم قم حرم مطھر حضرت معصومہ قم میں منعقد ہوا سوره مبارکه احزاب کی ابتدائی ایات کی تفسیر میں کہا: سوره مبارکه احزاب مدینہ میں نازل ہوئی اور اس سورہ کا اھم محور اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے سیاسی مسائل ہیں ۔
نظام اسلامی کی تاسیس و تبیین ، اسلامی فوج اور اسلامی معیشت و اقتصاد کا مرکز مدنی سورہ میں بیان کیا گیا ہے ، سوره مبارکه احزاب میں مرجوفون کا تذکرہ ہے ، مرجوفون وہ لوگ ہیں جو رجفہ دار، لرزه دار اور خرافات معاشرہ تک منتقل کیا کرتے تھے ، بے بنیاد خبریں معاشرہ میں اضطراب کا سبب ہیں ۔
سوره احزاب میں پانچ دفعہ «یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ» آیا ہے جو خاص اھمیت کا حامل ہے ، اس سورہ میں کبھی فوجی مسائل کا تذکرہ ہے تو کبھی خانوادہ کے مسائل کا بیان ہے جو ائندہ بہت ساری مشکلات کی جڑ بن سکتا ہے وگرنہ بذات خود خانوادہ کے مسائل اس سطح پر نہیں ہیں کہ ان کا بیان کیا جائے ۔
ایت «یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ» یہ اس بات کی بیان گر ہے کہ گھرانہ کی مشکلات پورے معاشرہ پر اثر انداز ہے ، یا یوں فرمایا : «وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُولَىٰ» جیسا کہ جنگ جمل کی بنیاد بھی گھر میں پڑی ۔
انہوں نے ایت «یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِین إِنَّ اللَّـهَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا» کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگاہ رہیں کہ حکومت کی تشکیل و تاسیس آسان کام نہیں ہے ، ایت میں «یَا أَیُّهَا» ندا انسانوں کو متوجہ کرنے کے لئے یا غفلت سے باہر نکالنے کے لئے اور یا مسائل کی اھمیت کو بیان کرنے کے لئے ہے ، یا ایها النبی بھی موضوع کی اھمیت کا بیان گر ہے ، خداوند متعال نے قران کریم میں کہیں بھی مرسل اعظم کو ان کے نام سے خطاب نہیں کیا ، اور اگر سوری ال عمران اور فتح میں اپ کو اپ کے نام سے یاد کیا گیا تو وہ اس لئے کہ لوگ جان لیں کہ حضرت کے پاس رسول الله یا نبی الله کا عھدہ بھی موجود ہے ، ان سوروں میں خداوند متعال یہ بیان کرنا چاھتا ہے کہ اپ کا ایک منصب ہے جو خدا کی رسالت ہے ، خدا نے جس طرح دیگر انبیاء کو ان کے نام سے یاد کیا رسول اسلام کو یاد نہیں کیا ، جو خود ھمارے لئے بھی درس ہے کہ رسول اسلام کا احترام کریں ۔
قران کریم کے نامور مفسر نے یاد دہانی کی : خداوند متعال نے سورہ احزاب کی ابتدائی ایتوں میں پیغمبراسلام سے خطاب میں کہا کہ اے نبی اپنے اھم وظائف کے پیش نظر خدا کا تقوی اختیار کریں ، کیوں کہ ان وظائف کی انجام دہی بغیر تقوی الھی کے ممکن نہیں ، جنگ ، خون ریزی ، اسیری ، اصحاب کی شھادت اپ کے روبرو ہے ، اپ اس راہ میں اپ کے عزیز مارے جائیں گے اور اپ کو ذیت و ازار کا سامنا ہوگا تقوے کے بغیر اس راستہ کو طے کرنا ناممکن ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: اگر پیغمبر اسلام معاشرہ کی تعمیر میں معمولی طور و طریقہ اپنائیں تو کام نہایت دشوار ہوگا لھذا ضروری ہے کہ تقوی الھی ساتھ ساتھ رہے ، حضرت ابراهیم(ع) و اسماعیل(ع) نے کعبہ کی تعمیر کی اور ایک مدت کے بعد یہی کعبہ بت کدہ ہوگیا ، لوگوں نے کعبہ میں بت رکھدیئے مگر پیغمبر اسلام نے ایک بار بھی ان بتوں کو برا بھلا نہیں کہا انہیں گالیاں نہیں دیں بلکہ کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ، اگر اپ بھی چین و سکون کی زندگی بسر کرنا چاھتے ہیں اور کفریہ فتوی سے روبرو نہیں ہونا چاھتے ، میانمار ، بنگلادیش اور دنیا کے دیگر کونے میں بے رحمانہ قتل عام نہیں دیکھنا چاھتے تو پیغمبر اسلام کی سیرت پر عمل کریں ، پیغمبر کے راستہ پرچلیں اور دشمنوں کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے سے پرھیز کریں ۔
آیت الله جوادی آملی نے تولی و تبرا کو یکجا کرنا اور مسلمانوں کے خون کی حفاظت اسلامی اصول میں سے شمار کیا اور کہا: پیغمبر اسلام نے تقوے الھی کے ذریعہ معاشرہ کا ادارہ کیا ، کیوں کہ اگر گالیاں دیں گے تو گالیاں سنیں گے ، گالیوں کے ذریعہ مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ، ، اگر کفر بولیں گے تو کفر سے روبرو ہوں گے ۔
انہوں نے مزید کہا: پیغمبر اسلام کے راستہ کی حافظت ، دلیلوں کے قیام اور استدلال کی ذریعہ قدم اگے بڑھائیں ، قران نے پیغمبر اسلام سے کہا کہ کفار و منافقین کمین کئے بیٹھیں ہیں ، مرجفون خرافاتیں پھیلاتے ہیں ، لھذا اپ تقوا اختیار کریں ، کبھی لوگ تجویز پیش کرتے ہیں جس پر انسان غور کرتا ہے مگر کبھی لوگ سامراجی انداز اپناتے ہیں پیغمبر اسلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا ، پیغمبر کسی کی باتوں کی اطاعت نہیں کرسکتا ، اگر کوئی پیغمبر پر اپنی بات کی تحمیل کرنا چاھے تو وہ کافر ہے ۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
