Super User
حضرت زہرا (س) اور نماز
امام موسی صدر کا ایک خطاب
بسم الله الرحمن الرحیم والحمد لله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید خلقه وسید رسله محمد وآله الطاهرین.
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پہنچی جس میں حضرت زہرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی «فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ» ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ہو جاو) اور کہا کہ یہ جملہ بظاہر تو بہت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ہوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ہی ہونا چاہیے تب وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتہا مثبت اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نہیں ہوتا اس کی سمت و سو ایک نہیں ہوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ہوتا ہے وہ اندر سے بٹا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہوتی۔ ہم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ہو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے کہ جس سے بدتر اور مہلک کوئی اور بیماری نہیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ہوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ہونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا یہ گفتگو کہاں کر رہی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ہوئی ہیں اس لیے نہیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاہری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔
خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمہیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے «إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ»(۱) لہذا اے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رہے ہو؟ نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رہے ہو؟ نماز بھی پڑھ رہے ہو اور اہل حق کو اس کا حق نہیں دے رہے ہو؟
حضرت فاطمہ زہرا(ع) مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو یہ فرما رہی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ہر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ہو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یہی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یہی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ہمارے دین میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہماری عبادت، ہمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ہوئی ہے؟
خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ہو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ہو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے نماز انسان کو ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہماری نمازیں ہمیں گناہوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر گناہوں سے دور ہونے کا محرک پیدا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نہیں ہے۔
حضرت زہرا اس امت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رہی ہے لیکن کیا یہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ہو رہی ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انہوں نے نہیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے؟ کیا انہوں نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: «الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ" ( جو شخص حق بات کہنے پر خاموش ہو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انہوں نے ان باتوں کو رسول اسلام سے نہیں سنا تھا؟ کیسے انہوں نے اجازت سے دی ان کی آنکھوں کے سامنے حق اہل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو چار ہی مہینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپ ساد لی ہے؟ مگر ایسا نہیں ہے جو حق بات کہنے کے بجائے چپ ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انہیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔
حضرت زہرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نہی کا کچھ معنی اور مفہوم بھی ہےْ کیسے تم نماز پڑھتے ہو اور غرور و تکبر بھی کرتے ہو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظہار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ہو وہ نماز نہیں ہو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رہا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ہم نماز میں کیا کرتے ہیں؟ کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ہو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟
سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ہوں لہذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہوں۔
ہم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم نماز میں خدا کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے؟ کیا ہم نماز میں نہیں کہتے؟ «اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ.»(۲) ہم کہتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نہیں ہے؟ خدا کو کہتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لہذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رہے ہوتے ہیں۔
ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: «الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ» غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نہیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کہتا ہے: «وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.»(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کہیں میں ایسا موجود ہوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نہیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ ہم برہنہ دنیا میں آئے اور برہنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیںگے۔
لہذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ہماری اپنی نہیں ہیں۔ ہم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نہیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔
لہذا ہماری نمازوں کو ہمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاہیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں میرا سب کچھ اس کا ہے «إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.»(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کون ہوں جو تکبر کروں؟ میں کون ہوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ہوں۔
یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ میں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رہوں۔ اس لیے کہ ہماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ہماری ذات کے لیے۔
یہاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح ’’اعتماد بالنفس‘‘ کی طرف مبذول کرنا چاہوں ہوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ہوں تو قوی ہوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ہوں لیکن خود متواضع ہوں۔
لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ہو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ہو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ہدایت کرے گا۔
لہذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔ نماز یعنی خدا کے ساتھ زندگی کرنا اور خدا کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا۔ جانتے ہیں انسان نماز سے کیا چیز حاصل کرتا ہے؟ خدا کی راہ میں قوی ہونا اور باطل کی راہ میں ناتوان ہونا۔ نہ باطل کے مقابلہ میں۔ نماز مومن کی معراج کا ذریعہ ہے۔ نماز اسے برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
حضرت زہرا (س) لوگوں سے یہ سوال کرتی ہیں کہ اے لوگو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور باطل کے مقابلے میں گھبراتے بھی ہو! تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور حق کو چھپاتے بھی ہو! کل خلافت کو غصب کر لیا اور آج فدک کو۔ تم جانتے ہو یہ میرے بابا کا مجھے دیا ہوا ہدیہ ہے۔ لیکن تم خاموش ہو گئے ہو۔ تم سب نے پیغمبر کی میری نسبت سفارشات کو سن رکھا ہے۔ پس کیوں خاموش ہو؟ تم میں سے ایک گروہ طمع اور لالچ کی خاطر اور دوسرا گروہ خوف اور ڈر کی خاطر خاموش ہو گیا۔ ایک گروہ لوٹ رہا ہے دوسرا ڈر رہا ہے۔ وہ نمازی جو خدا کے ساتھ ہم پیمان ہو کر زندگی گزارتے ہیں قوی ہوتے ہیں نہ ڈرپوک۔ جو انسان نماز پڑھتا ہے در حقیقت دن میں پانچ مرتبہ خدا کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے۔ کیا تمہارا خدا کےساتھ کوئی سروکار نہیں ہے؟ کیا تم خدا سے گفتگو نہیں کرتے؟ کیا تم نہیں کہتے صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اگر خدا تمہارے دلوں میں نہیں ہے تمہارے سامنے حاضر اور ناظر نہیں ہے تو تم یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ کہو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ جب تم خدا کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کی عبادت کرتے ہو اس سے گفتگو کرتے ہو تو تمہیں کسی دوسرے سے نہیں ڈرنا چاہیے چونکہ جس شخص کا رابطہ اللہ سے ہے وہ کبھی نہیں ڈرتا۔ وہ کسی چیز کا طمع نہیں کرتا اس لیے کہ طمع بھی فقر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو باطنی طور پر فقیر ہو وہ دوسروں کی چیزوں کی لالچ کرتا ہے لیکن جس کے پاس خدا ہو وہ غنی اور بے نیاز ہوتا ہے۔ جناب زہرا (س) پوچھ رہی ہیں کیا تم نماز پڑھتے ہو؟ کیا تمہاری نمازیں تمہیں برائیوں سے نہیں روکتی ہیں؟ کیا تمہاری نمازیں تمہارے فقر کو دور نہیں کرتی؟ پس کیوں خاموش ہو؟
واضح ہے تمہاری عبادتیں عادتیں بن چکی ہیں اپنی اصلیت کھو چکی ہیں۔ سلام ہو آپ پر اے فاطمہ زہرا! گویا چودہ سال بعد بھی آپ کا خطاب ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ ابھی ہم سے مخاطب ہیں۔ گویا آپ ہم سے فرما رہی ہیں: اے مسلمانو!، اے نماز گزارو! اے عبادت کرنے والو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور برائیاں بھی کرتے ہو؟
حقیقی نماز ایسی نہیں ہوا کرتی۔ نماز جہاد کی مشق کرواتی ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا کَأَنَّهُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ.»(۵) نہیں دیکھتے نماز میں کیسے صفیں بچھتی ہیں اور کیسے سب ایک ساتھ تمام حرکات انجام دیتے ہیں کیسے سب ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں؟ محراب کس لیے ہوتا ہے؟ کیوں ہر مسجد میں ایک محراب کی ضرورت ہوتی ہے؟ محراب یعنی جنگ کا ذریعہ۔ نماز انسان کو شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کی مشق کرواتی ہے۔
نماز سماجی اقتدار کے حصول کی تمرین اور مشق ہے لیکن کون سا اقتدار؟ وہ اقتدار جس میں غرور نہ ہو۔ وہ اقتدار جو خود اپنے بل بوتے پر نہ ہو بلکہ خدا کی مدد سے ہو۔
لہذا فاطمہ زہرا (س) فرما رہی ہیں: کیوں تمہاری نمازوں نے تمہیں قوی نہیں کیا؟ کیوں تمہاری نمازوں نے تمہارے غرور کو نہیں توڑا؟ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں: اے مسلمانو صحیح ہے کہ خدا نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ حکم اس لیے نہیں ہے کہ اسے تمہاری نمازوں کی ضرورت ہے بلکہ خدا نے خود تمہاری تربیت کے لیے یہ حکم دیا ہے تاکہ تم خود اس کے ذریعے اپنی اصلاح کر سکو لیکن تم لوگوں نے جیسا کہ ظاہر ہے اس سے کما حقہ استفادہ نہیں کیا ہے اس لیے کہ تم لالچ اور خوف کی وجہ سے حق کے مقابلہ میں خاموش ہو گئے ہو جو پائمال ہو چکا ہے۔
اس کے بعد حضرت زہرا ہم سے مخاطب ہوتی ہیں اور فرماتی ہیں: اے مسلمانو! کیا تم بھی نماز پڑھتے ہو اور حق کے غصب ہونے پر راضی ہو؟ تم جانتے ہو کس وقت نماز قابل قبول ہے؟ تم جانتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں؟ جب تم نماز پڑھو، اور خدا کی بارگاہ میں اپنے اندر ایک نئی قوت کے پیدا ہونے کا احساس کرو تو سمجھ لو کہ نماز قبول ہو گئی لیکن اگر نماز کے بعد اپنے اندر ضعف اور خوف کا احساس کرو تو جان لو کہ نماز رد ہو گئی۔ بزرگی اور عزت اللہ کی بندگی میں ہے اس لیے کہ حقیقی بڑھائی اور عزت کا مالک وہی ہے۔ حضرت زہرا (س) پوچھتی ہیں: کیوں خدا نے نماز تم پر واجب کی ہے؟ نماز انسان کو کامل کرنے کا کارخانہ ہے۔ کیا ہماری نمازوں کے اندر ایسی تاثیر پائی جاتی ہے؟
کسی حد تک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اس فقرے پر گفتگو ہو چکی ہے اور امید ہے کہ اس کے معنی کسی حد تک واضح ہو چکے ہوں گے۔ انشاء اللہ باقی خطبے کی وضاحت آیندہ کی گفتگو میں ہو گی۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
حوالہ جات
۱. «نماز انسان کو فحشا و منکر سے روکتی ہے (عنکبوت، ۴۵)
۲. «میں صرف تیری عبادت کرتا ہوں اور صرف تجھ سے مدد چاہتا ہوں.» (فاتحه، ۵)
۳. «اکڑ کر زمین پر مت چلو نہ تم زمین کو ہلا پاوں گے اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں تل پہنچ پاو.» (اسرا، ۳۷)
۴. «کہوں میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے.» (انعام، ۱۶۲)
۵. «خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو خدا کی راہ میں اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف آوار ہوتے ہیں.» (ص، ۴)
ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال
حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میںمیری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔
ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال
ماہ رجب کی فضیلت
واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد کا ارشاد پاک ہے کہ ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میںکافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ رجب میں ایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘ غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم -فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میںایک روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب بہشت میںایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔
امام جعفر صادق (ع)سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میں بہ کثرت کہا کرو:
اَسْتَغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَۃَ
’’ میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں‘‘
ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق -کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میںروزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا فرزند رسول (ص) ! واﷲ نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام مہینوںسے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میںنے عرض کیا اے فرزند رسول (ص)! اگرمیں اسکے باقی ماندہ دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟
آپ (ص)نے فرمایا: اے سالم!
جو شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔
واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔
سُبْحانَ الْاِلہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إلاَّ لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ
پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے
سُبْحانَ مَنْ لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ ٲَھْلٌ ۔
پاک ہے وہ جولباس عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔
ماہ رجب کے مشترکہ اعمال
ماہ رجب کے ہر روز کی دعا
یہ ماہ رجب کے اعمال میں پہلی قسم ہے یہ وہ اعمال ہیں جومشترکہ ہیں اورکسی خاص دن کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور یہ چند اعمال ہیں۔
﴿۱﴾
رجب کے پورے مہینے میں یہ دعا پڑھتا رہے اور روایت ہے کہ یہ دعا امام زین العابدین -نے ماہ رجب میں حجر کے مقام پر پڑھی:
یَا مَنْ یَمْلِکُ حَوائِجَ السَّائِلِینَ، وَیَعْلَمُ ضَمِیرَ الصَّامِتِینَ، لِکُلِّ مَسْٲَلَۃٍ مِنْکَ سَمْعٌ
اے وہ جوسائلین کی حاجتوں کامالک ہے اور خاموش لوگوں کے دلوں کی باتیں جانتا ہے ہر وہ سوال جو تجھ سے کیا جائے تیرا
حَاضِرٌ، وَجَوَابٌ عَتِیدٌ ۔ اَللّٰھُمَّ وَمَواعِیدُکَ الصَّادِقَۃُ، وَٲَیادِیکَ الْفَاضِلَۃُ، وَرَحْمَتُکَ
کان اسے سنتا ہے اور اس کا جواب تیار ہے اے معبود تیرے سب وعدے یقینا سچے ہیں تیری نعمتیں بہت عمدہ ہیں اور تیری رحمت
الْوَاسِعَۃُ فَٲَسْٲَلُکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَقْضِیَ حَوائِجِی لِلدُّنْیا
بڑی وسیع ہے پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد(ص)(ص)وآل(ع) محمد(ص)(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میری دنیا اور اور آخرت کی حاجتیں
وَالاْخِرَۃِ، إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۔
پوری فرما بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
﴿۲﴾
یہ دعا پڑھے کہ جسے امام جعفر صادق -رجب میں ہر روز پڑھا کرتے تھے۔
خابَ الْوافِدُونَ عَلَی غَیْرِکَ، وَخَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إلاَّ لَکَ، وَضاعَ الْمُلِمُّونَ إلاَّ بِکَ
نا امید ہوئے تیرے غیرکی طرف جانے والے گھاٹے میں رہے تیرے غیر سے سوال کرنے والے تباہ ہوئے تیرے غیر کے ہاں
وَٲَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إلاَّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَکَ بَابُکَ مَفْتُوحٌ لِلرَّاغِبِینَ وَخَیْرُکَ مَبْذُولٌ
جانے والے، قحط کاشکار ہوئے تیرے فضل کے غیر سے روزی طلب کرنے والے تیرا در اہل رغبت کیلئے کھلا ہے تیری بھلائی طلب
لِلطَّالِبِینَ، وَفَضْلُکَ مُباحٌ لِلسَّائِلِینَ، وَنَیْلُکَ مُتَاحٌ لِلاَْمِلِینَ، وَرِزْقُکَ مَبْسُوطٌ لِمَنْ
گاروں کو بہت ملتی ہے تیرا فضل سائلوں کیلئے عام ہے اور تیری عطا امید واروں کیلئے آمادہ ہے تیرا رزق نافرمانوں کیلئے بھی فراواں
عَصَاکَ وَحِلْمُکَ مُعْتَرِضٌ لِمَنْ نَاوَاکَ عَادَتُکَ الْاِحْسانُ إلَی الْمُسِیئِینَ وَسَبِیلُکَ
ہے تیری بردباری دشمن کے لیے ظاہر و عیاں ہے گناہگاروں پر احسان کرنا تیری عادت ہے اور ظالموں کو باقی رہنے دینا
الْاِ بْقائُ عَلَی الْمُعْتَدِینَ اَللّٰھُمَّ فَاھْدِنِی ھُدَی الْمُھْتَدِینَ وَارْزُقْنِی اجْتِہادَ الْمُجْتَھِدِینَ
تیرا شیوہ ہے اے معبود مجھے ہدایت یافتہ لوگوں کی راہ پر لگا اور مجھے کوشش کرنے والوں کی سی کوشش نصیب فرما
وَلاَ تَجْعَلْنِی مِنَ الْغَافِلِینَ الْمُبْعَدِینَ، وَاغْفِرْ لِی یَوْمَ الدِّینِ ۔
مجھے غافل اور دورکیے ہوئے لوگوں میں سے قرار نہ دے اور یوم جزا میں مجھے بخش دے۔
﴿۳﴾
شیخ نے مصباح میں فرمایا ہے کہ معلٰی بن خنیس نے امام جعفرصادق -سے روایت کی ہے۔ آپ(ع) نے فرمایا کہ ماہ رجب میں یہ دعا پڑھا کرو:
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ صَبْرَ الشَّاکِرِینَ لَکَ، وَعَمَلَ الْخَائِفِینَ مِنْکَ، وَیَقِینَ الْعَابِدِینَ
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے شکر گزاروں کا صبر ڈرنے والوں کا عمل اور عبادت گزاروں کا یقین عطا
لَکَ اَللّٰھُمَّ ٲَنْتَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ وَٲَنَا عَبْدُکَ الْبَائِسُ الْفَقِیرُ ٲَنْتَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ وَٲَنَا
فرما اے معبود تو بلند و بزرگ ہے اور میں تیرا حاجت مند اور بے مال ومنال بندہ ہوں تو بے حاجت اور تعریف والا ہے اور میں تیرا
الْعَبْدُ الذَّلِیلُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَامْنُنْ بِغِنَاکَ عَلَی فَقْرِی، وَبِحِلْمِکَ عَلَی
پست تر بندہ ہوں اے معبود محمد(ص)(ص) اور انکی آل(ع) پر رحمت نازل فرما اور میری محتاجی پر اپنی تونگری سے میری نادانی پر اپنی ملائمت و بردباری
جَھْلِی وَبِقُوَّتِکَ عَلَی ضَعْفِی یَا قَوِیُّ یَا عَزِیزُ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الْاَوْصِیائِ
سے اور اپنی قوت سے میری کمزوری پر احسان فرما اے قوت والے اسے زبردست اے معبود محمد(ص) اورانکی آل(ع) پر رحمت نازل فرما
الْمَرْضِیِّینَ وَاکْفِنِی مَا ٲَھَمَّنِی مِنْ ٲَمْرِ الدُّنْیا وَالاَْخِرَۃِ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ
جو پسندیدہ وصی اور جانشین ہیں اور دنیا و آخرت کے اہم معاملوں میں میری کفایت فرما اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
مؤلف کہتے ہیں کہ کتاب اقبال میں سید بن طائوس نے بھی اس دعا کی روایت کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ جامع ترین دعا ہے اور اسے ہروقت پڑھاجاسکتا ہے۔
﴿۴﴾شیخ فرماتے ہیں کہ اس دعا کو ہر روز پڑھنا مستحب ہے۔
اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْمِنَنِ السَّابِغَۃِ وَالاَْلاَئِ الْوَازِعَۃِ وَالرَّحْمَۃِ الْوَاسِعَۃِ، وَالْقُدْرَۃِ الْجَامِعَۃِ
اے معبود اے مسلسل نعمتوں والے اور عطا شدہ نعمتوں والے اے کشادہ رحمت والے۔ اے پوری قدرت والے۔
وَالنِّعَمِ الْجَسِیمَۃِ وَالْمَواھِبِ الْعَظِیمَۃِ وَالْاَیادِی الْجَمِیلَۃِ وَالْعَطایَا الْجَزِیلَۃِ یَا مَنْ
اے بڑی نعمتوں والے اے بڑی عطائوں والے اے پسندیدہ بخششوںوالے اور اے عظیم عطائوں والے اے وہ جس کے وصف
لاَ یُنْعَتُ بِتَمْثِیلٍ وَلاَ یُمَثَّلُ بِنَظِیرٍ وَلاَ یُغْلَبُ بِظَھِیرٍ یَا مَنْ خَلَقَ فَرَزَقَ وَٲَلْھَمَ فَٲَنْطَقَ
کیلئے کوئی مثال نہیں اور جسکا کوئی ثانی نہیں جسے کسی کی مدد سے مغلوب نہیں کیا جاسکتا اے وہ جس نے پیدا کیاتوروزی دی الہام کیاتو
وَابْتَدَعَ فَشَرَعَ، وَعَلا فَارْتَفَعَ، وَقَدَّرَ فَٲَحْسَنَ، وَصَوَّرَ فَٲَتْقَنَ، وَاحْتَجَّ فَٲَبْلَغَ،
گویائی بخشی نئے نقوش بنائے تورواں کردیئے بلند ہوا تو بہت بلند ہوا اندازہ کیا تو خوب کیا صورت بنائی تو پائیدار بنائی حجت قائم کی
وَٲَنْعَمَ فَٲَسْبَغَ، وَٲَعْطی فَٲَجْزَلَ، وَمَنَحَ فَٲَفْضَلَ یَا مَنْ سَمَا فِی الْعِزِّ فَفاتَ نَواظِرَ
تو پہنچائی نعمت دی تو لگاتار دی عطا کیا تو بہت زیادہ اور دیا تو بڑھاتا گیا اے وہ جو عزت میں بلند ہوا تو ایسا بلند کہ
الْاَ بْصارِ، وَدَنا فِی اللُّطْفِ فَجازَ ھَواجِسَ الْاَفْکارِ یَا مَنْ تَوَحَّدَ بِالْمُلْکِ فَلا نِدَّ لَہُ
آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور تو لطف و کرم میں قریب ہوا تو فکر و خیال سے بھی آگے نکل گیا اے وہ جو بادشاہت میں
فِی مَلَکُوتِ سُلْطَانِہِ وَتَفَرَّدَ بِالاَْلاَئِ وَالْکِبْرِیائِ فَلاَ ضِدَّ لَہُ فِی جَبَرُوتِ شَٲْنِہِ یَا مَنْ
یکتا ہے کہ جسکی بادشاہی کے اقتدار میں کوئی شریک نہیں وہ اپنی نعمتوں اور اپنی بڑائی میں یکتا ہے پس شان و عظمت میں کوئی اسکا
حارَتْ فِی کِبْرِیائِ ھَیْبَتِہِ دَقائِقُ لَطائِفِ الْاَوْہامِ، وَانْحَسَرَتْ دُونَ إدْراکِ عَظَمَتِہِ
مقابل نہیں اے وہ جس کے دبدبہ کی عظمت میں خیالوں کی باریکیاں حیرت زدہ ہیں اور اس کی بزرگی کو پہچاننے میں مخلوق
خَطَائِفُ ٲَبْصَارِ الْاَنامِ ۔ یَا مَنْ عَنَتِ الْوُجُوھُ لِھَیْبَتِہِ، وَخَضَعَتِ الرِّقابُ لِعَظَمَتِہِ،
کی نگاہیں عاجز ہیں اے وہ جس کے رعب کے آگے چہرے جھکے ہوئے ہیں اور گردنیں اسکی بڑائی کے سامنے نیچی ہیں
وَوَجِلَتِ الْقُلُوبُ مِنْ خِیفَتِہِ ٲَسْٲَلُکَ بِھَذِہِ الْمِدْحَۃِ الَّتِی لاَ تَنْبَغِی إلاَّ لَکَ وَبِما وَٲَیْتَ
اور دل اسکے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں میں سوال کرتا ہوں تیری اس تعریف کے ذریعے جو سوائے تیرے کسی کو زیب نہیں اور اس
بِہِ عَلَی نَفْسِکَ لِداعِیکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَبِما ضَمِنْتَ الْاِجابَۃَ فِیہِ عَلَی نَفْسِکَ
کے واسطے جو کچھ تو نے اپنے ذمہ لیا پکارنے والوں کی خاطر جو کہ مومنوں میں سے ہیں اس کے واسطے جسے تونے پکارنے والوں کی
لِلدَّاعِینَ یَا ٲَسْمَعَ السَّامِعِینَ، وَٲَبْصَرَ النَّاظِرِینَ، وَٲَسْرَعَ الْحَاسِبِینَ، یَا ذَا الْقُوَّۃِ
دعا قبول کرنے کی ضمانت دے رکھی ہے اے سب سے زیادہ سننے والے اے سب سے زیادہ دیکھنے والے اے تیز تر حساب کرنے
الْمَتِینَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّینَ وَعَلَی ٲَھْلِ بَیْتِہِ وَاقْسِمْ لِی فِی شَھْرِنا ہذَا
والے اے محکم تر قوت والے محمد(ص)(ص) پر رحمت نازل فرما جو خاتم الانبیائ ہیں اور ان کے اہلبیت پر بھی اور اس مہینے میں مجھے اس سے بہتر
خَیْرَ مَا قَسَمْتَ وَاحْتِمْ لِی فِی قَضَائِکَ خَیْرَ مَا حَتَمْتَ، وَاخْتِمْ لِی بالسَّعادَۃِ فِیمَنْ
حصہ دے جو تو تقسیم کرے اور اپنے فیصلوں میں میرے لیے بہتر و یقینی فیصلہ فرما کر مجھے نواز اور اس مہینے کو میرے لیے خوش بختی پر
خَتَمْتَ وَٲَحْیِنِی مَا ٲَحْیَیْتَنِی مَوْفُوراً وَٲمِتْنِی مَسْرُوراً وَمَغْفُوراً وَتَوَلَّ ٲَنْتَ نَجَاتِی
تمام کر دے اور جب تک تو مجھے زندہ رکھے فراواں روزی سے زندہ رکھ اور مجھے خوشی و بخشش کی حالت میں موت دے
مِنْ مُسائَلَۃِ البَرْزَخِ وَادْرٲْ عَنِّی مُنکَراً وَنَکِیراً، وَٲَرِ عَیْنِی مُبَشِّراً وَبَشِیراً، وَاجْعَلْ
اور برزخ کی گفتگو میں تو خود میرا سرپرست بن جامنکر و نکیر کو مجھ سے دور اور مبشر و بشیر کو میری آنکھوں کے سامنے لا اور مجھے اپنی رضا
لِی إلَی رِضْوَانِکَ وَجِنانِکَ مَصِیراً وَعَیْشاً قَرِیراً، وَمُلْکاً کَبِیراً، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
مندی اور بہشت کے راستے پر گامزن کر دے وہاں آنکھوں کو روشن کرنے والی زندگی اور بڑی حکومت عطا فرما اور تو محمد(ص)(ص) پر اور ان کی
وَآلِہِ کَثِیراً ۔
آل(ع) پر رحمت نازل فرما بہت زیادہ۔
سنت نبوی میں والدین کے حقوق
مسئلہ حقوق بالعموم اورحقوق والدین بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث و نصائح کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اس کی وجہ قرآن کی متواتر تاکیدات و تنبیہات اور اجتماعی ضرورت ہے۔
بالخصوص اس تناظر میں کہ پیغمبر نے معاشرہ سازی اور تمدن جدید کی تشکیل کے لئے ایک بڑی مہم کا آغاز کیا تھا اور چونکہ خاندان کو معاشرتی عمارت میں خشت اول کی حیثیت حاصل ہے اور والدین کی مثال خانوادے میں ایک رہبر کی سی ہوتی ہے اس لئے ان کے حقوق کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے ورنہ اجتماعی عمارت ریت کی دیوار کی طرح متزلزل اور بے ثبات ہو جائیگی۔
اسی لئے دعوت توحید کے بعد یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیغمبر کی توجہ کا مرکز بنا اور مسئلہ کے عبادی پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے آپ نے اللہ کی رضا اور والدین کی رضا کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے اور تاکید کی ہے کہ والدین کی نافرمانی سب سے بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالی کی محبت و مغفرت اور والدین کی محبت و اطاعت کے درمیان رابطہ کے بارے میں امام زین العابدین سے روایت ہے کہ ایک شخص پیغمبر کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے ہرقسم کا بر عمل کیا ہے کیا میرے لئے بھی توبہ کا موقع ہے توآپ نے پوچھا: فھل منوالدیک احد حی۔
”کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا میرا باپ زندہ ہے تو آپ نے فرمایا:
فاذھب فبرہ ”جا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کر“ جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا:
لوکانت امہ ”کاش کہ اس کی ماں زندہ ہوتی“ [1]۔
اور امام صادق سے روایت ہے : جاء رجل الی النبی ،فقال: یارسول اللہ من ابر؟ قال امک قال :ثم من؟ قال امک، قال: ثم من؟ قال امک، قال: ثم من؟ قال اباک۔
”ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ حسن سلوم کروں تو آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے پوچھا
پھرکس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ، اس نے کہا پھرکس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ اس نے کہا پھرکس کے ساتھ فرمایا باپ کے ساتھ“ ۔[2]
پیغمبر نے اولاد کے لئے والد کے جن حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے ان میں سے یہ ہے کہ والد کو غیظ و غضب میں دیکھ کر اس کی ہتک حرمت سے بچنے کے لئے پسر کو خاضع و متواضع ہو جانا چاہئے۔
مزیدبرآن کسی کے باپ کوگالی دے کراپنے باپ کوگالی دئیے جانے کاسبب بننابھی ایساگناہ ہے جوعقاب اخروی کاموجب ہے اوران کے ساتھ حسن سلوک فقط ان کی زندگی میں نہیں بلکہ ان کی موت کے بعدبھی ہے مثلا ان کاقرض اداکرنااوران کے لئے دعاخیرواستغفارکرناوغیرہ وغیرہ۔
پیغمبر نے اپنی زندگی ہی میں ان سب وصیتوں کوعملی جامہ پہنا دیا تھا چنانچہ جس وقت آپ لوگوں کو ہجرت کے لئے تیار کر رہے تھے تاکہ مدینہ میں ایک جدید توحید پرست معاشرہ تشکیل دیا جا سکے اور اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انگلیوں پرگنے جا سکتے تھے سیرت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں ہجرت کے لئے آپ کی بیعت کرتا ہوں اور اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ آیا ہوں تو آپ نے فرمایا:
”ان کے پاس جلد واپس جا اور جس طرح انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنسا“ [3]۔
اس واقعہ سے بھی والدین کے حقوق کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ ایک دن پیغمبر کی ایک رضاعی بہن آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے نہایت گرمجوشی سے اس کا استقبال و احترام کیا پھر اس کا بھائی آیا تو آپ نے اس کا ویسا احترام نہ کیا جیسے اس کی بہن کا کیا تھا اس پر آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ نے اس کی بہن کا جو احترام کیا وہ اس کے بھائی کا نہیں کیا حالانکہ وہ مرد ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا اس کی بہن اپنے باپ کے ساتھ اپنے بھائی کی بہ نسبت زیادہ حسن سلوک کرتی ہے۔
تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر کے نزدیک قربت و دوری اور ان کے نزدیک محترم ہونے کا معیار والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ آخرمیں ماں کے اس منصب کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو پیغمبر نے ماں کو عطا فرمایا ہے کہ: الجنة تحت اقدام الامھات۔
”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے“ [4]۔
1:بحارالانوار۷۴:۸۲۔
[2] - اصول کافی باب البربالوالدین ۲:۱۶۷/۹۔
[3] - الترغیب والترھیب ۳:۳۱۵۔
[4] - بحارالانوار۷۴:۸۲۔
ایران کی پہلی پائلٹ خاتون
قدیم زمانے سے ہی انسان میں پرواز کرنے کا جذبہ موجود رہا ہے۔ علم و سائنس میں ترقی و پیشرفت اور انواع و اقسام کے چھوٹے بڑے ہوائي جہازوں کے بننے سے انسان کے پرواز کرنے کے خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ ماضی میں پائلٹ صرف مرد حضرات بنتے تھے لیکن آہستہ آہستہ خواتین نے بھی اس میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوابازی سمیت مختلف شعبوں میں خواتین نے بھرپور طریقے سے حصہ لینا شروع کر دیا۔
محترمہ شہلا دہ بزرگی ایران کی پہلی پائلٹ خاتون ہیں۔ انہوں نے ہوابازی کا لائسنس حاصل کیا ہے۔ انہوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد باپردہ خواتین کے لیے تخصصی کاموں کے حالات سازگار ہونے پر باقاعدہ طور پر ہوابازی اور پرواز کا آغاز کیا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ پرواز عشق کا تقاضا کرتی ہے اور صرف پرواز سے عشق اور دلچسپی ہی راستے کو ہموار کرتی ہے۔
محترمہ شہلا دہ بزرگی انیس سو ستاون میں شیراز میں پیدا ہوئيں وہ کچھ عرصے کے بعد اپنے گھرانے کے ساتھ تہران آ گئیں اور اس شہر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ انہیں بچپن سے ہی ہوائی جہازوں اور پرواز کا شوق تھا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ انیس سو چوہتر میں جب میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تو مجھے فائنگ کلب کے بارے میں پتہ چلا میں نے اس کلب میں داخلہ لیا اور ہوابازی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ وہاں پہلے میں نے تھیوری کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پرواز سے وسائل سے آشنا ہوئی۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد میں نے پہلی ایرانی خاتون پائلٹ کی حیثیت سے کامیاب پرواز انجام دی اور ہوابازی کا لائسنس حاصل کیا۔اس وقت یہ ایرانی خاتون اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی ایئرلائن میں کام کر رہی ہیں۔
شہلا دہ بزرگی نے ایران پر صدام کی فوج کے حملے کے زمانےمیں اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح ملک کا دفاع کیا اور جاسوسی کی بہت سے پروازوں میں حصہ لیا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں مجھے یہ فخر ہے کہ آٹھ سالہ دفاع مقدس (88-1980)کے دوران میں نے ایران کے دوسرے پائلٹوں کے ساتھ مل کر اپنے وطن کے دفاع میں حصہ لیا۔ محترمہ شہلا دہ بزرگی ایران کے خلاف صدام کی مسلط کردہ جنگ دوران اپنی پروازوں کو یادگار پروازیں قرار دیتی ہیں کہ جس کے دوران انہوں نے اپنی زندگی اور جان کو خطرے میں ڈالا۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ میری نظر میں ہر پرواز اپنی جگہ یادگار ہوتی ہے خاص طور پر وہ پروازیں جو جنگ کے زمانے میں وطن کے دفاع کے لیے انجام دی گئیں۔
محترمہ شہلا دہ بزرگی اس وقت چھوٹے اور بڑے ہوائی جہاز اڑانے کے ساتھ فیلکن جیٹ ہوائی جہاز کی بھی پائلٹ ہیں۔ وہ ہواباز کے ساتھ دیگر کاموں میں بھی مصروف ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں میں مہینے میں بیس گھنٹوں سے زائد ہوائی جہاز اڑانے کے ساتھ دیگر دفتری پوسٹوں پر بھی کام کر رہی ہوں۔ یہ باہمت ایرانی خاتون ایک ماہر ہواباز ہیں کہ جو ملک کے لیے اچھے ہوابازوں کی تربیت کا کام انجام دے رہی ہیں۔ وہ اپنی ان کامیابیوں میں سب سے پہلے خدا کی توفیق اور لطف و کرم کو اہم قرار دیتی ہیں اور اس کے بعد اس شعبے میں اپنی دلچسپی کو اپنی کامیابی کی وجہ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر آدمی اپنی جوانی میں ایسی چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے کہ جو اس کے مستقبل کو بناتی ہیں میں نے بھی اپنی ذاتی دلچسپی کی بنا پر اس زمانے کے امکانات کے تحت اور خدا کے فضل و کرم سے یہ شعبہ اختیار کیا اور اپنے مقصد کو پا لیا۔
**************
محترمہ شہلا دہ بزرگی گھرانے کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ وہ اپنی شادی کے بارے میں کہتی ہیں کہ میرے شوہر میرے ساتھ کام کرتے تھے دفتر میں ہماری روزانہ ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تھی آخرکار میرے شوہر اپنے گھر والوں کے ساتھ میرا رشتہ مانگنے ہمارے گھر آئے اور پھر گھر والوں کی رضامندی سے ہماری شادی ہو گئی۔ میرے دو بیٹے ہیں اور دونوں ہی آرکیٹیکٹ بن رہے ہیں۔چونکہ محترمہ شہلا دہ بزرگی اور ان کے شوہر دونوں ہی پائلٹ ہیں تو ان کے بیٹوں خاص طور پر بڑے بیٹے کو ہوابازی سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ میرا بڑا بیٹا بچپن سے ہی کمرے کے درودیوار پر مختلف قسم کے ہوائی جہازوں کی تصویریں لگاتا تھا اسے بھی اپنے والدین کی طرح ہوابازی میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔
محترمہ دہ بزرگی اس ہوائی سفر کو اپنی زندگی کا یادگار واقعہ قرار دیتی ہیں کہ جس میں ان کے شوہر جہاز پائلٹ تھے وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ شادی کے بعد ہم نے جو سفر پائلٹ کے طور پر اکٹھے کیا وہ میری زندگي کا ایک یادگار سفر تھا۔ اس سفر کے علاوہ کچھ اور سفر بھی تھے کہ جن میں میرے شوہر جہاز کے پائلٹ تھے اور میں اور میرے بیٹے مسافر کے طور پر اس جہاز میں موجود تھے۔ یہ سفر میرے بیٹوں کے لیے بھی یادگار تھا کیونکہ وہ ایسے جہاز پر سوار تھے کہ جس کے پائلٹ ان کے والد تھے۔
یہ محنتی اور انتھک ایرانی خاتون کوشش کرتی ہیں کہ جو بھی تھوڑا بہت فارغ وقت انہیں میسر ہو تو وہ اسے اپنے گھر والوں کے ساتھ گزاریں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ ہم پائلٹوں کے پاس فارغ وقت بہت کم ہوتا ہے لیکن میں نے اور میرے شوہر نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے موقع سے بھی فائدہ اٹھائیں اور زیادہ وقت اپنے گھر والوں خاص طور پر اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں۔
محترمہ شہلا دہ بزرگی جسمانی صحت و سلامتی کو بھی بہت اہمیت دیتی ہیں اور اسی بنا پر وہ کھیل اور ورزش کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے مختلف ورزشیں منتخب کی ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے باقاعدہ تیراکی سیکھی ہے اور میں باقاعدگی سے تیراکی کرتی ہوں جو جسمانی صحت کے لیے بہت ہی مفید ہے۔
وہ ایران میں خاتون پائلٹ کے مقام و مرتبے کے بارے میں کہتی ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اب معاشرے میں ایرانی خواتین بہت سے شعبوں میں سرگرم عمل ہیں اور معاشرہ انہیں قبول بھی کر رہا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی ممبر بھی ہیں صدر کی مشیر بھی ہیں اور ہوابازی جیسے مختلف شعبوں میں کام میں مصروف بھی ہیں۔ ایران میں عورت کے مقام و مرتبے اور پوزیشن میں بہت تبدیلی آئی ہے اور وہ اپنے اصلی مقام سے قریب تر ہو گئی ہے۔
محترمہ شہلا دہ بزرگی ان تمام افراد کو خاص طور پر خواتین کو جو پائلٹ بننا چاہتی ہیں، اس بات کی تلقین کرتی ہیں کہ سب سے پہلے تو اپنے شعبے میں دلچسپی لیں اور اس میں انتھک کوشش کریں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھیں اور صبروتحمل سے اپنے کام کو جاری رکھیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ اس شعبے میں ترقی نہیں کر سکیں گے۔ وہ دعا کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں پیشہ ورانہ طور پر مشغول ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اسلامی اقدار اور اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ وہ پردے اور حجاب کو اہم اسلامی اقدار میں سے قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اگر عورتین اپنے وجود اور باطن میں حجاب اور پردے پر اعتقاد رکھتی ہوں تو یقینی طور پر ہر قسم کے حالات میں وہ ظاہر میں بھی اس کا خیال رکھیں گی۔
راه شہید عارف حسين الحسینی (رہ)
ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالنا اور ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا اور محاذ آرائی چھوڑ دو۔۔۔۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اہل بیت (ع) اور قلب حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ہم سے خوش ہوں تو ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ نہیں اچھالنا چاہیئے۔ اگر ہمیں عزاداری عزیز ہے تو ہمیں متحد ہونا چاہیئے۔ ہمیں صرف اور صرف اسلام و قرآن و اہل بیت کے نام پر متحد ہونا چاہیئے۔ آج اتحاد کی ضرورت ہے۔ اتفاق کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ہم کیوں اتحاد کو خراب کرتے ہیں۔ میں یہ بار بار کہتا ہوں بخدا! صرف مورچے مختلف ہیں۔ عالم ہو، خطیب ہو، ذاکر ہو، پیش نماز ہو، ملنگ ہو سب کے سب قرآن و اہل بیت (ع) کے سپاہی ہیں لیکن کسی کا مورچہ منبر ہے، کسی کا محراب ہے، کسی کا مورچہ مسجد ہے، کسی کا مورچہ مدرسہ ہے، کسی کا مورچہ امامباڑہ ہے، کوئی قلم کے ذریعے، کوئی زبان کے ذریعے سب کے سب ایک مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جب سب کا مقصد ایک ہے تو اختلاف کس بات کا؟ دیکھیں برادر عزیز! اگر کسی سے ہم کوئی بات سن لیں تو ہمیں اس سے درگزر کرنا چاہیئے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہمیں آگے نہیں بڑھانا چاہیئے۔ ہمیں وسیع تر مسائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔
(1) آپ نے اوپر والے پیراگراف میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی ملتان میں قرآن و سنت کانفرنس کا ایک اقتباس پڑھا ہے۔ شہید کے دور کی قرآن و سنت کانفرنسوں کا تشیع پاکستان کی حیات سیاسی میں ایک اہم کردار ہے۔ ان کانفرنسز میں شہید نے متعدد موضوعات پر بحث فرمائی ہے جن میں سے چیدہ چیدہ یہ ہیں: امام خمینی (رہ) کی رہبری، انقلاب اسلامی ایران، اسلام اور سیاست، پاکستان کے موجودہ نظام پر تنقید، پاکستان میں امریکی، روسی، اسرائیلی اور سعودی مداخلت کی شدید مخالفت، استعماری قوتوں کا قبیح چہرہ اور ان کے ایجنڈے، پاکستانی میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے عملی جدوجہد، جمہوریت، اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المومنین، ایرانی حجاج کرام پر سعودی حکومت کی جارحیت اور انتخابات میں شیعہ قوم کی شرکت۔ چونکہ اس وقت پاکستان میں انتخابات کی گہما گہمی ہے لہذا اس حوالے سے شہید کی تقاریر کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ ان تقاریر کے صحیح فہم کے لئے ان کانفرنسز کے بعد مختلف شہروں میں ہونے والی پریس کانفرنسز اور انٹرویوز بھی اہمیت کے حامل ہیں لہذا ان سے بھی اقتباسات پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کانفرنسوں میں اسلام اور سیاست، اسلامی نظام کے نفاذ، جمہوریت اور استعمار شناسی کے حوالے سے شہید نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان کے اقتباسات بھی پیش خدمت ہیں۔ مقالے کی طوالت کے لئے پیشگی معذرت قبول کیجئے گا۔
یاد رہے کہ شہید عارف حسین الحسینی (رہ) شہید مرتضی مطہری (رہ) کے بعد دوسرے فرد ہیں جنہیں امام خمینی (رہ) نے اپنا فرزند کہا ہے۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی (رہ) کے بقول شہید عارف حسینی (رہ) نے فکر امام خمینی (رہ) کو پاکستان میں اس طرح پیش کیا ہے جیسے آئینہ حقائق کو پیش کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام خمینی (رہ) نے شہید کے چہلم کی مناسبت سے یہ جملے فرمائے کہ:"پاکستان کے باشرف اور غیور عوام جو حقیقی معنوں میں ایک انقلابی ملت ہیں اور اسلامی اقدار کے پابند ہیں اور جن سے ہمارا قدیمی، گہرا انقلابی، ایمانی اور ثقافتی رشتہ ہے میں انہیں اس امر کی تاکید کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ وہ شہید راہ حق (علامہ عارف الحسینی) کے افکار کو زندہ رکھیں"اسلام اور سیاست اسلام اور سیاست کے موضوع پر شہید قائد (رہ) کے خطابات سے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ 1۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام میں دین سیاست سے جدا نہیں بلکہ سیاست دین کا ایک جزو ہے اور ہم نے یہ دیکھ لیا کہ ہمارے سیاسی مسائل، ہمارے مذہبی مسائل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہبی مسائل ہمارے سیاسی مسائل سے جدا نہیں۔ (2)۔2 ہمارے نزدیک اصل دین ہے۔ دین کل ہے۔ سیاست اس کا ایک جزء ہے۔ ہم سیاست کو دین کا تابع سمجھتے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے ایک منشور کا اعلان کیا ہے۔ (3)3۔ اسلام میں سیاست تدبیر امور کا نام ہے ملکی اور بین الاقوامی امور میں مداخلت کرنے کا نام ہے۔ بنابریں ہر سیاست کو دھوکہ اور فریب نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم ہے اس حوالے سے مسائل میں مداخلت کرنا یہ بھی سیاست میں آتا ہے اسے دھوکہ و فریب سے تعبیر دینا صحیح نہیں۔
اسلامی نفاذ کا اعلان: لاہور، ملتان، ڈیرہ غازیخان، فیصل آباد اور ملتان میں ہونے والی ان کانفرنسز میں شہید نے کئی مقامات پر اسلامی نظام کے نفاذ کا ذکر فرمایا ہے ان کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:1۔ برادران عزیز! ہمیں اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ آج کا مسلمان بیدار ہو گیا ہے اور مسلمانوں میں حرکت آ گئی ہے۔ وہ متوجہ ہو گئے ہیں کہ ہمارا مرکز صرف اور صرف اسلام ہے۔ ہمیں اتحاد بین المسلمین قائم کرکے امریکی یا روسی ایجنٹوں کو اپنی صفوں سے نکال کر اپنے ممالک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہیئے۔ (5)2۔ پاکستان کے قائدین کی نظروں میں اور سابقہ ہندوستان کے مسلمانوں باشندوں کی نظروں میں دو چیزیں تھیں: ایک مستقل مملکت اور دوسری چیز اس مملکت کی بنیاد اسلام۔ پہلی چیز تو قائد اعظم محمد علی جناح کے زمانے میں انجام تک پہنچ گئی لیکن دوسرا مقصد کہ اس ملک میں اسلامی نظام ہو، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ (6)3۔ ہم پاکستان میں اسلامی نظام کا پرچم دیکھنا چاہتے ہیں۔ (7)4۔ (آج ہم) پورے ملک میں اسلامی نظام کا مطالبہ کریں گے اور اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کریں گے۔ ایک ایسے اسلامی نظام کا نفاذ کہ جس کے تحت مسلمان اخوت اسلامی اور صلح و صمیمیت کے ساتھ اپنے مکتب و عقائد کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور مشترکہ دشمن کے مقابلے مین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔ (8)5۔ ہم سوچتے ہیں کہ پاکستان مین اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیئے، یہ ذمہ داری ان متعہد علماء کی ہے جو درباروں میں حکومت کے اشاروں پر کام نہیں کرتے بلکہ وہ صرف اور صرف خدا، رسول (ص)، قرآن اور مسلمین کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ افراد جن کو انہوں (ضیاء حکومت) نے کمیٹیوں میں لیا ہے یہ کبھی حکومت کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ (9)
6۔ شہید کی زندگی کی آخری پریس کانفرنس میں جوکہ جولائی 1988ء میں پارا چنار میں منعقد ہوئی جب آپ سے پاکستان میں اسلامی حکومت کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:"پاکستان میں جو مذہبی تنظیمیں، مذہبی پارٹیاں ہیں، علماء ہیں اگر یہ سب تنگ نظری کو چھوڑ دیں، اسلام کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھیں اور مل کر ایک مشترکہ پروگرام بنائیں اور مل کر کام کریں تو یہ بات ممکن ہے۔" (10)7۔ ہم اس نظام کو کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ جس نظام میں سپر طاقتوں کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہو، جس نظام میں مغربی قوانین ہم پر مسلط ہوں، جس نظام میں مغربی تہذیب ہمارے گھروں میں، ہمارے معاشرے میں، ہمارے اسکولوں میں، غرض ہر جگہ روز بروز بڑھ رہی ہو۔ تو ہم نے احساس کیا کہ ہم جتنی جد و جہد کر لیں، انفرادی طور پر جتنی بھی کوشش کر لیں لیکن اگر یہ غلط اور فاسد نظام ہم پر مسلط ہے تو ہم اپنی جد و جہد میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔۔۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم پاکستان میں ایک اسلامی نظام قائم کریں گے۔ ہم کب تک بیٹھ کر یہ دیکھتے رہیں گے کہ ہمارے فیصلے واشنگٹن میں ہوں۔۔۔۔ نہیں نہیں اسلامی غیرت ہمیں یہ اجازت نہیں دیتی۔
(11) جمہوریت اور انتخابات شہید عارف حسین الحسینی نے قرآن و سنت کانفرنسوں میں جمہوریت کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کے چند اقتباسات کا مطالعہ فرمائیں:1۔ پاکستان بنانے والوں کے تین بڑے مقاصد بیان کرتے ہوئے شہید فرماتے ہیں: ان کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آئے، بادشاہت، ڈکٹیٹرشپ کے عنوان سے نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے آئے۔ پوری قوم کا نمائندہ بن کر حکومت کے تخت پر پہنچے۔ ان کا مقصد اسلامی نظام تھا اور ایسے قوانین کا نفاذ تھا جو قرآن و سنت سے لئے گئے ہوں۔۔۔۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بزرگ قائدین کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہو اور جو بھی اقتدار میں آئے عوام سے منتخب ہو کر آئے لیکن آج تک ہم صحیح طور پر ان کا یہ مقصد پورا نہیں کر سکے۔ (12)2۔ علی (ع) نے دنیا کو بتایا کہ ایک اسلامی نظام کیسا ہوتا ہے؟ علی (ع) نے صحیح ڈیموکریسی کے خطوط واضح کئے۔ اگر غریبوں اور محروموں کا درد ہے تو صرف اور صرف علی (ع) کے سینے میں۔ (13)3۔ "جمہوری عمل ملک میں ختم ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جہاں جمہوریت کو ملک میں نقصان پہنچا ہے وہاں ہماری ملکی معیشت بھی مارشل لاء سے متاثر ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک میں ایک نمائندہ جمہوری حکومت برسراقتدار نہیں آتی تب تک ہمارا ملک مستحکم نہیں ہوگا۔ ملکی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ جنرل ضیاء الحق فوری طور پر جماعتی بنیادوں پر 73 کے آئین کے تحت انتخابات کروائے۔ جو بھی پارٹی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے وہ حکومت بنائے۔ ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ اگر صحیح طور پر غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے اور ایک نمائندہ حکومت آئی تو ملک کی معیشت پر بھی اس کے اچھے اثرات ہوں گے اور اس سے ملکی استحکام بھی پیدا ہوگا۔
(14)4۔ جب تک ملک میں صحیح نمائندہ حکومت نہیں بنے گی ہمارے مسائل اور مشکلات چاہے اندرونی ہوں یا بیرونی حل نہیں ہو سکتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل صحیح نمائندہ حکومت کے قیام پر ہے۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان میں اسلامی نظام کی خواہاں ہے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے لئے قرآن و سنت کی بالادستی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان میں ایک ایسے اسلامی نظام کی خواہاں ہے جو فرقہ واریت سے بالاتر ہو۔ (15)5۔ آپ کے نزدیک استعمار جہاں اسلام کا دشمن ہے وہاں حقیقی جمہوریت کا بھی دشمن ہے۔ آپ فرماتے ہیں:"اگر آپ بغور ان (امریکہ و اسرائیل) کی خصوصیات کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ کس طرح انسان کے دشمن ہیں۔ نام تو حقوق بشر کا استعمال کریں گے، نام تو جمہوریت کا استعمال کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ بات تو جمہوریت کی کرتے ہیں لیکن کس قدر جمہوریت کے دشمن ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح امریکہ کو دیکھیں کہ اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار سمجھتا ہے لیکن خود کس قدر جمہوریت کا احترام کرتا ہے کہ ایران میں ایک جمہوری حکومت ہے۔ عوام کے انتخابات کے ذریعے منتخب حکومت ہے (انقلاب اسلامی تو اپنی جگہ) لیکن ان کی منطق کے مطابق یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اگر یہ جمہوریت کے دشمن نہ ہوتے تو آج ایران کی جمہوری حکومت کی مخالفت نہ کرتے۔ (16)6۔ اب اگر ملک میں عوام اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ (ضیاء) انتخابات کروا دیں اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو۔
(17) انتخابات میں شرکت قرآن و سنت کانفرنسوں میں شہید عارف حسین الحسینی (رہ) نے دین اور سیاست کے ارتباط پر روشنی ڈالی، آپ نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے عزم کا اظہار فرمایا اور جمہوریت کی حقیقت اور اس کے دشمنوں کی نشاندہی فرمائی۔ قرآن و سنت کانفرنسز اور ان کے بعد ہونے والے آپ کے انٹرویوز کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اسلامی نظام کو جمہوریت کے قالب میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ آپ پاکستان میں اسلام اور حقیقی جمہوریت کے اجراء کے لئے انتخابات کا راستہ اپنانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں شہید عارف حسین الحسینی کے رہنما فرمودات ملاحظہ فرمائیں: 1۔ تحریک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ مثلاً ان موجودہ جماعتوں کا جو کردار ہے ان جیسی نہیں ہے لیکن یہ سیاست میں ضرور حصہ لے گی کیونکہ دین اسلام میں سیاست جزو دین ہے جو دین سے جدا نہیں۔ (18)2۔ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے لیکن وسیع معنوں میں۔ ہمارے مقاصد اور اہداف صرف چار یا پانچ دینی مطالبات نہیں ہیں۔ وہ بھی ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ مکی مسائل میں اپنا کردار ادا کرنا، بین الاقوامی مسائل سے غافل نہ رہنا اور زندگی کے دیگر جو شعبے ہیں ان میں اپنا کردار ادا کرنا۔ (19)3۔ تحریک کے انتخابی منشور کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے گذشتہ 6 جولائی کو مینار پاکستان پر ایک منشور عوام کو دیا تھا۔ اس منشور میں نظام کے حوالے سے، اقتصاد کے حوالے سے، اور جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں، ان کے حوالے سے ہم نے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اب مزید دوسرے منشور کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ ترامیم کرنی ہیں یا ان میں کچھ چیزیں زیادہ کرنی ہیں تو یہ ہم کر سکتے ہیں لیکن منشور جو ہم نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر دیا تھا ہمارا وہی منشور ہے۔ اس میں ہم نے ایک منشور کمیٹی بنائی تھی۔ انہوں نے قرآن و سنت اور مراجع عظام کے فتاویٰ کو مدنظر رکھ کر یہ منشور بنایا ہے۔
(20)4۔ انتخابات میں دوسری جماعتوں سے الحاق کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہماری تحریک جو ایک مذہبی تنظیم ہے اور ہماری منزل مقصود اسلام ہے۔ ہم انتخابات کے حوالے سے کسی بھی پارٹی سے الحاق کر سکتے ہیں۔ البتہ ابھی ہم نے طے نہیں کیا ہے۔ ہمارا انتخاب کے حوالے سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ کسی کے ساتھ ہم مدغم ہو جائیں یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔ ہماری تحریک ایک مستقل، علیحدہ اور اپنا ایک منشور رکھتی ہے۔ اپنے اہداف و اغراض ہیں اور اپنے ادارات ہیں الحمدللہ۔ انشاءاللہ پورے ملک میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں، شمالی علاقہ جات میں ہماری بھرپور نمائندگی ہے۔ ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہماری جماعت ملک گیر جماعت ہے اور ہر جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں عوام کی حمایت اس تحریک کو حاصل ہے۔ (21)5۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ایک خاص فقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کیا الیکشن میں یہ امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی آپ کو ووٹ دیں گے تو آپ نے فرمایا:اس سلسلے میں یہ ہے کہ اصل مسئلہ منشور کا ہے۔ ٹھیک ہے ہماری تحریک کا نام "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ" ایک فقہ کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے لیکن جو ہمارا منشور ہے وہ ہم نے ملک کے لئے بنایا ہے اس میں اسلام کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس میں پاکستانی ہونے کے حوالے سے پاکستان کے شہریوں کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ہمارا منشور دیکھ لے گا، خواہ وہ سنی ہو، خواہ وہ شیعہ ہو، خواہ وہ غیر مسلم ہو، اگر انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے مسائل تحریک کے پلیٹ فارم سے حل ہو سکتے ہیں تو وہ ضرور تحریک کو ووٹ دیں گے۔
(22)6۔ اہل سنت کے تحریک کو ووٹ دینے کے امکان کے حوالے سے سوال کے جواب میں فرمایا: وہ تو آپ کے پروگرام پر منحصر ہے اگر انہوں نے آپ کے پروگرام کو پسند کیا تو ہو سکتا ہے کہ اہل سنت بھی آپ کو ووٹ دے دیں اور آپ کے ساتھ تعاون کریں۔ (23)7۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ خود الیکشن میں حصہ لیں گے؟ تو آپ نے فرمایا:اس سلسلے میں ابھی 8 جولائی (1988ء) کو گذشتہ جمعہ کو اسلام آباد "جامعہ اہل بیت" میں ہماری مرکزی کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی۔ جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور یہ ہم نے طے کیا کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لینا ہے لیکن ہم نے پہلے بھی ایک سیاسی سیل بنایا تھا جسے آپ الیکشن سیل کہہ سکتے ہیں۔ اس کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ اس کو توسیع دیں اور اس میں کچھ افراد بھی لے لیں اور حالات پر کڑی نظر رکھیں۔ مطالعہ کرتے رہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا اعلان کرتی ہے۔ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں یا غیر جماعتی بنیادوں پر، متناسب نمائندگی وغیرہ تو جس طرح کا اعلان ہوگا اس طرح ہمارا سیاسی فیصلہ ہوگا کہ ہمیں کیا لائحہ عمل کرنا ہے۔ (24) استعمار دشمنی تشیع کا طرہ امتیاز ہے، یاد رہے کہ استعمار دشمنی تشیع کی شناخت ہے۔ برائت از مشرکین ہماری آئیڈیولوجی کا حصہ ہے۔ ہم کسی صورت پر اپنی شناخت اور آئیڈیولوجی پر سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ ہم نے شہید کی فکر سے الہام لیتے ہوئے تکفیریوں کے ساتھ ساتھ امریکی اور اسرائیلی ایجینٹوں کو بھی پاکستان سے نکال کر عبرت ناک شکست دینی ہے۔ یہ کام مشکل ضرور ہو سکتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اس سلسلے میں شہید کے قرآن و سنت کانفرنسز سے اقتباسات حاضر خدمت ہیں۔
1۔ شیعہ اجتماعات جہاں بھی ہوں چاہے وہ نماز جمعہ ہو یا نماز پنجگانہ ہو یا کوئی دوسری تقریب آپ دیکھیں گے کہ شیعہ مردہ باد امریکہ، مردہ باد روس اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگاتے ہیں وہاں کبھی مسلمانوں کے خلاف کفر کے فتوے صادر نہیں کئے جاتے۔ مسلمانوں کے خلاف کافر کافر کے نعرے ہمارے ہاں نہیں لگائے جاتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے مردہ باد امریکہ، مردہ باد روس اور مردہ باد اسرائیل کہنے کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ (25)2۔ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ہمارے ملکی حالات کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ امریکہ ہے۔ یہ امریکہ بڑا شیطان ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ امریکہ ہے کہ جو ہمیں کبھی فرقہ واریت کے نام سے لڑوا رہا ہے اور کبھی قومیت کے نام سے آپس میں نفرتیں پیدا کر رہا ہے۔ کبھی سیاست کے میدان میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اگر ہم پاکستان میں اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو جب تک ہم امریکہ کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے جب تک ہم اسلام اور خدا کے سائے میں پناہ نہیں لیں گے تو اس وقت تک ہمارے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا اور کمی ہر گز نہیں ہو گی۔ (26)3۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ نہ تو امریکہ کے ساتھ مربوط ہے اور نہ ہی روس کے ساتھ مربوط ہے اور دونوں کو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتی ہے اور یہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا امتیازی نشان ہے کہ اس کے جلسوں میں مردہ باد امریکہ، مردہ باد روسیہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس میں کوئی عار نہیں ہے۔
(27) آخر میں چنیوٹ کی قرآن و سنت کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے نام قائد شہید کا ایک پیغام نقل کرنے کے ساتھ مقالے کا اختتام کرتا ہوں۔ امید ہے یہ فرمان امت محمدیہ (ص) کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ اے علمائے اسلام اب وقت آ گیا ہے کہ تنگ نظری کو چھوڑ دیں۔ آپ کی اس تنگ نظری سے اسلام و مسلمین کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ایک دوسرے کو تسلیم کریں۔ ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کو مجروح نہ کریں۔
(28) حوالہ جات
1۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔ اسلوب سیاست صفحہ 84 (دیگر تمام حوالہ جات بھی اسی کتاب سے ہیں لہذا ان میں صرف صفحہ نمبر نقل کیا جائے گا) 2۔ص 65۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔
3۔ ص 69۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 4۔ ص 120۔ کراچی میں انٹرویو۔
5۔ ص 82۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔ 6۔ص 61۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 7۔ ص 62۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 8۔ ص 64۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔9۔ ص 162۔ 10۔ ص 348۔11۔ ص 65 و 66۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔12۔ ص 100۔ قرآن و سنت کانفرنس، ڈیرہ اسماعیل خان۔13۔ ص 74۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔
14۔ ص 346۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔15۔ ص 105 و 106۔ قرآن و سنت کانفرنس، ڈیرہ اسماعیل خان۔16۔ ص 324۔17۔ ص 162۔ قرآن و سنت کانفرنس چنیوٹ۔ 18۔ ص 123۔ کراچی میں انٹرویو۔19۔ ص 119۔ کراچی میں انٹرویو۔20۔ ص 348 و 349۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔ 21۔ ص 337۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔ 22۔ ص 338۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔23۔ ص 121۔ کراچی میں انٹرویو۔24۔ ص 349۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔25۔ ص 94۔ قرآن و سنت کانفرنس فیصل آباد۔ 26۔ ص 90۔ قرآن و سنت کانفرنس فیصل آباد۔
27۔ ص 80۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔28۔ ص 162۔ قرآن و سنت کانفرنس چنیوٹ۔
اہل خانہ کے ساتھ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاحسن سلوک
اہل خانہ خاص طور پر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور بچوں کے ساتھ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک اور طرز عمل کے بارے میں مختصر طور پر بات چیت
٭٭٭٭٭
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زوجہ حضرت خدیجہ کے ساتھ وفاداری آپ کے اخلاق حسنہ کا ایک ممتاز ترین نمونہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر تک صرف خدیجۃ الکبری کے ساتھ زندگی گزاری اور جب تک وہ زندہ تھیں آپ نے کسی اور خاتون سے شادی نہیں کی۔ رسول خدا آخری عمر تک حضرت خدیجہ کی زحمتوں اور مہربانیوں کی قدردانی کرتے رہے اور ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ کوئی بھی خدیجہ نہیں ہو سکتی۔
خدیجۃ الکبری اور اپنے چچا ابوطالب کی رحلت کے بعد آنحضرت مکہ میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے مدینہ کے لوگوں کی دعوت کے بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کے باوجود کہ مدینہ میں رسالت الہی کی بھاری ذمہ داری کے علاوہ اسلامی حکومت کی سربراہی بھی کاندھوں پر تھی، آپ نے کئی خواتین سے شادی کی کہ ان میں سے صرف ایک کے علاوہ سب بیوہ تھیں۔ البتہ آپ کی شادیوں کی تفصیلات پر ایک نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام سے زیادہ آپ کی ازواج کو آپ کی ضرورت تھی۔
پیغمبر اکرم کی متعدد شادیوں کے تجزیہ و تحلیل میں پہلے ہر زمانے کے معاشرے کے رسم و رواج پر توجہ دینی چاہیے۔ جزیرۃ العرب میں مرد اس زمانے کے رسم و رواج اور ثقافت کے مطابق زیادہ شادیاں کرتے تھے اور حتی دس سے زیادہ شادیاں بھی کرتے تھے۔ بیویوں کی تعداد میں اضافے کا مطلب خاندان کے افراد کی تعداد میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں قبیلے کی طاقت میں اضاقہ تھا۔ اس بنا پر سماجی اور ثقافتی صورت حال کے پیش نظر قبائلی زندگی میں بہت کم مرد صرف ایک ہی شادی کرتے تھے۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسا کہ اشارہ کیا گيا، جب تک مکہ میں تھے، صرف ایک شادی کی تھی، لیکن آپ نے مدینہ میں اور جب اسلامی حکومت کی ذمہ داری کاندھوں پر تھی، لوگوں کی ثقافت سے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کو اس جانب راغب کیا کہ وہ بے سرپرست عورتوں کے ساتھ خاص طور پر جن کے یتیم بچے ہیں، شادی کر کے ان کی نگہداشت کریں، کیونکہ شادی کرنے سے یہ عورتیں اور ان کے بچے بےسرپرستی، تنہائي اور مالی تنگ دستی سے نجات حاصل کرتے تھے۔ لیکن دوسروں کو اس کی تشویق و ترغیب دلانے کے لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے خود اس راستے پر قدم بڑھایا۔ پیغمبر اکرم نے بیوہ عورتوں سے شادی کی اور انہیں ان کے یتیم بچوں کے ہمراہ اپنے گھر لے گئے تاکہ ایک طرف تو وہ خود ان کی مشکلات ختم کرنے میں قدم اٹھائیں اور دوسری طرف اس کام کے سلسلے میں لوگوں کے لیے ایک اچھا نمونہ عمل بن سکیں۔
بیوہ عورتوں خاص طور پر ان عورتوں کے ساتھ شادی کرنا کہ جن کے شوہر جنگ میں شہید ہو چکے تھے، یا کسی بھی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، بہت اہمیت رکھتا تھا۔ ایسے حالات میں زندگی ان کے لیے بہت مشکل ہو جاتی اور وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتیں، جیسے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ کہ جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی اور وہاں ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ وہ وہاں نہ تو کسی مسیحی سے شادی کرنا چاہتی تھیں اور نہ ہی اپنے مشرک والد کے پاس مکہ واپس لوٹنا چاہتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب آپ کی مشکل کا پتہ چلا تو آپ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو پیغام بھیجا اور اسے سے درخواست کی کہ ام حبیبہ کا عقد ان کے ساتھ کر دیا جائے، پیغمبر اسلام سے شادی کرنے کے بعد ام حبیبہ کو سہارا میسر آ گیا اور وہ اپنے مشرک رشتہ داروں کی مدد لینے سے بچ گئیں۔ پیغمبر اکرم سے شادی کے وقت ام حبیبہ کی عمر چالیس سال تھی یہاں پر اس شادی میں پیغمبر اسلام کے دینی جذبے اور حمایت کا محریک کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی باتیں غلط باتیں ثابت ہو جاتی ہیں کہ جو کہتے ہیں پیغمبر اکرم نے نفسانی خواہشات کی وجہ سے زیادہ شادیاں کی تھیں۔ کیونکہ ام حبیبہ حبشہ میں تھیں اور ان کی واپسی کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سخت ترین دشمن ابوسفیان کو جب اپنی بیٹی کے ساتھ کہ جو حبشہ میں اکیلی رہ گئی تھی، پیغمبر کی شادی کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے کہا کہ یہ شخص کبھی شسکت نہ کھائے۔
٭٭٭٭٭
اسلام نے مرحلہ وار دقیق منصوبہ بندی کر کے اسیروں کی آزادی کے لیے اقدام کیا۔ رسول خدا نے اس سلسلے میں متعدد اور مناسب طریقے اختیار کیے کہ جن میں ازدواج بھی شامل تھا۔ جویریہ اور صفیہ کنیز تھیں پیغمبر اکرم نے ان دونوں کو آزاد کیا اور پھر ان دونوں سے شادی کی۔ جویریہ ایک بیوہ عورت تھیں جو غزوہ بنی مصطلق میں عورتوں اور مردوں کے ہمراہ مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئيں۔ وہ کہ جو قبیلہ بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں، ثابت بن قیس کی کنیزی میں آ گئيں۔ جویریہ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ پیسے دے کر آزاد ہو جائیں گی۔ اس کے بعد وہ آنحضرت (ص) کی خدمت میں آئیں اور آپ سے مدد کی درخواست کی۔ پیغمبر اسلام نے ان کی آزادی کے پیسے ادا کیے اور پھر ان کو اپنے حلقۂ ازدواج میں لے لیا۔ آنحضرت کا یہ عمل آپ کے اصحاب کے لیے ایک اچھا نمونہ عمل بن گيا اور انہوں نے بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو جو تقریبا دو سو تھے، آزاد کر دیا۔ رومانیہ کے مسیحی مفکر اور دانشور کنسٹانٹین ویرگیل گیورگیو لکھتے ہیں کہ محمد نے جویریہ کے ساتھ شادی کی، آپ کے اصحاب نے اس عمل کو پسند نہیں کیا اور وہ اسے تعجب کی نظر سے دیکھتے تھے۔ لیکن اس کے اگلے روز انہوں نے آہستہ آہستہ قیدیوں کو آزاد کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پیغمبر کی زوجہ کے رشتہ دار ان کے غلام ہوں۔ جب آزاد ہونے والے قیدیوں نے مسلمانوں کے اس حسن سلوک کو دیکھا تو وہ اسلام لے آئے اور حتی انہوں نے مسلمانوں اور پیغمبر اکرم (ص) کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس طرزعمل نے نہ صرف بنی مصطلق قبیلے پر بلکہ دیگر قبائل کے سرداروں پر بھی مثبت اثر ڈالا اور ان کے دلوں کو بھی اسلام کی جانب مائل کر دیا۔ اس طرح ایک شادی سے ہزاروں دل اسلام کی جانب مائل ہو گئے۔
عرب معاشرہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا کی مانند سمجھتا تھا اور میراث لینے اور شادی حرام ہونے جیسے حقیقی بیٹے کے احکام منہ بولے بیٹے بارے میں بھی جاری کرتا تھا۔ لیکن خدا نے سورہ احزاب کی آيت چار میں دور جاہلیت کی اس رسم کی نفی اور فرمایا خدا نے تمہاری منہ بولی اولاد کو اولاد قرار نہیں دیا ہے یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
اس بنا پر پیغمبر اکرم (ص) خدا کے حکم سے اس بات پر مامور ہوئے کہ اس غلط اور جاہلیت کی روش کو اپنے عمل سے باطل کریں۔ آپ نے خدا کے حکم سے اور اس دور کے رسم و رواج کے برخلاف زینب بنت جحش سے شادی کی جو پیغمبر اکرم (ص) کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی مطلقہ تھیں اور اپنے عمل سے جاہلیت کی اس رسم کو باطل کیا۔ پیغمبر اکرم (ص) کے اس دلیرانہ اقدام پر منافقین اور کوتاہ فکر نے سخت اعتراض کیا۔ لیکن خداوند عالم نے اس غلط رسم کو توڑنے کی بنا پر سورہ احزاب کی آیت چالیس میں اپنے رسول کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے انہیں ٹھوس اور منطقی جواب دیا اور فرمایا کہ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلۂ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔ یہ ازدواج اور شادی ایک اور لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ ممکن تھا کہ زید بن حارثہ یا حتی اسامہ بن زید کا بیٹا پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد آنحضرت کے بیٹے اور وارث کی حیثیت سے سامنے آتا اس صورت میں خاندان پیغمبر کی وراثت و امامت کا راستہ دگرگوں ہو جاتا۔
مدینہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگي کا ایک اور پہلو آپ کی انتہائي سادہ زندگی تھی۔ آپ کی ازواج کے گھر انتہائي سادہ اور مٹی اور کھجور کی لکڑی سے بنے ہوئے تھے اور ان کے اندر بالکل سادہ سامان تھا یہ سب ایک ایسے وقت میں تھا کہ جب تقریبا پورا جزیرۃ العرب خاص طور پر فتح مکہ کے بعد پیغبمر اکرم (ص) کے زیرفرمان آ گیا، آپ اعلی اور طلائی ظروف میں کھانا کھا سکتے تھے یا بہترین عمارتیں بنوا سکتے تھے، لیکن پیغمبر اکرم نے ہمیشہ سادہ زندگي کو ترجیح دی اور گھروں کی سجاوٹ کے بجائے وہاں مہر و محبت قائم کرنے کو ترجیح دی۔
انسان دوستی کے جذبے اور بعض اوقات سیاسی وجوہات پر آپ نے شادیاں کیں لیکن اس کے باوجود دشمنان اسلام اور کم معلومات رکھنےوالے افراد نے ان شادیوں کو نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دینے کی کوشش کی۔ اور اس سلسلے کی ایک کڑی حال ہی میں امریکہ میں پیغمبر اسلام کے خلاف تیار کی جانے والی توہین آمیز فلم ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ پیغمبر اکرم نے خدیجۃ الکبری کے بعد جتنی شادیاں کیں وہ مدینہ میں انجام پائيں اور اس وقت آپ کی عمر ترپن سال سے زائد ہو چکی تھی اور اس عمر میں انسان جنسی مسائل کی طرف بہت کم توجہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر اکرم آخری دس سال کا عرصہ مدینہ میں گزارا۔ اس عرصے کے دوران آپ کی ذمہ داریاں اور فرائض بہت بڑھ گئے تھے اور اس عرصے کے دوران زیادہ عورتوں سے شادیاں کرنا جیسا کہ ذکر کیا گيا ہے زیادہ تر انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت اور اسلامی معاشرے کی مصلحت اور فائدے کے لیے تھا اور حتی ان ازوارج کی موجودگي کی وجہ سے آپ کی روزانہ کی عبادت اور نماز تہجد وغیرہ میں کوئي کمی نہیں آئی۔ جیسا کہ آپ کی ازواج نے بھی پروردگار کی بارگاہ میں آنحضرت کی دعاؤں اور نمازوں کے بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔
رہبر معظم سے گيلان و مازندران کےعوام کے مختلف طبقات کی ملاقات
![]()

۲۰۱۳/۰۵/۱۵ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے عوام کے مختلف طبقات کےہزاروں افراد سے ملاقات میں ماہ رجب المرجب کے فیوض و برکات سے تمام افراد بالخصوص جوانوں کو بھر پورمعنوی فائدہ اٹھانے کی سفارش کی اور 24 خرداد 1392 ہجری شمسی کے صدارتی انتخابات کو ایرانی قوم کے لئے باعث فخر اور مایہ نازامتحان قراردیا اور انتخآبات میں ایرانی قوم اور اس کے دشمنوں کے متضاد اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عوام کو اپنے اہداف کو محقق کرنے اور دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے انتخابات میں بھر پور اور وسیع پیمانے پر شرکت کرنی چاہیے اور قانونی معیاروں کی بنیاد پر گارڈین کونسل جن امیدواروں کی صلاحیت کی تائيد کرےگی عوام کو چاہیے کہ وہ ان میں سے لائق ، شائستہ، مؤمن، انقلابی، پختہ عزم و استقامت اور جہادی ہمت کے حامل امیدوار کو انتخاب کریں، جو دوسرے امیدواروں کی نسبت ملک کی عزت و پیشرفت کے سنگين بار کو اپنے دوش بہتر انداز سے اٹھا کر آگے کی سمت حرکت کرسکے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات کو ملک کا موجودہ سب سے اہم مسئلہ قراردیا اور اس واقعہ کے مختصر مدت اور طویل مدت میں اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان انتخابات میں ایک شخص عوام کے ووٹ کی بدولت 4 سال تک ملک کے امور کی زمام کو اپنے ہاتھ میں لےگا اور اس شخص کے اچھے یا غلط فیصلے ممکن ہے ملک پر آئندہ 40 سال تک اثر انداز ہوتے رہیں اور اس حقیقت سے پتہ چلتا ہے کہ صدارتی انتخابات کتنے اہم ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 24 خردار 1392 ہجری شمسی کے انتخابات کی دوچنداں اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ابھی انتخابات کو ایک ماہ باقی ہے لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر ایک اہم مسئلہ میں تبدیل ہوگیا ہے اور ایرانی قوم کے دشمن اپنے کنٹرول روموں میں بیٹھ کرانتخابات کے حتی ابتدائی مراحل پر بھی اپنی کڑي نظر رکھے ہوئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان انتخابات میں دشمنوں کے اہداف کو ایرانی قوم کے اہداف سے بالکل مختلف اور متضاد قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم ایسے اصلح شخص کی تلاش میں ہیں جو ملک کو مادی اور معنوی لحاظ سے پیشرفت اور ترقی کی سمت لے جائے اور اس کے ساتھ عوامی مشکلات کو حل کرے ، لوگوں کی معیشت کو بہتربنائے اور ملک کے استقلال کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرے اور عوام کے شوق و نشاط اور امید کے سائے میں ملک کی ترقی و پیشرفت کی جانب ہدایت کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن ایسے فرد کی تلاش میں ہے جو ان خصوصیات کا حامل نہ ہو اور دشمن انتخابات میں بھی عوام کی شرکت کو کم رنگ بنانے کی کوشش کررہا ہے اور ایران کی مختلف میدانوں میں پسماندگی،اغیار کے ساتھ وابستگی، اور اغیار کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اغیار نے سب سے پہلے یہ تلاش و کوشش شروع کی کہ انتخابات ہی منعقد نہ ہوں اب جبکہ ان کی یہ کوشش ناکام ہوگئی اب وہ عوام کو مایوس کرنے کی تلاش و کوشش میں ہیں اور انتخابات میں عوام کی شرکت اور اسکے اثرات کو کم کرنے کی سعی کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کوانتخابات میں شرکت سے مایوس کرنے کو دشمن کی ایک حکمت عملی قراردیتے ہوئے فرمایا: وہ رائے عامہ کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انتخابات میں شرکت کرنے اور ووٹ دینے سے کوئي فائدہ نہیں ہے لہذا ہم کیوں شرکت کریں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حالیہ ہفتوں میں صہیونی نیٹ ورکس اور خبررساں ایجنسیوں کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے حالات کو بحرانی بنا کر پیش کرنا،مشکلات کو بڑا بنا کر پیش کرنا، مشکلات حل کرنے کے سلسلے میں مایوسی و ناامیدی پیدا کرنا اور قوم کے مستقبل کو تاریک بنا کر پیش کرنا ایسی روشیں ہیں جن پر صہیونی نیٹ ورکس اپنی توجہ مبذول کئے ہوئے ہیں اور اس طرح انتخابات میں عوام کی شرکت کو کم رنگ بنانے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: البتہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری موجود ہے لیکن کونسا ملک ہے جو مشکل کے بغیر ہے؟کیا یورپی ممالک ک سڑکوں پر ہر روز عوام کی فریاد بلند نہیں ہورہی، جو اس بات کا مظہر ہے کہ یورپی ممالک سرتاپا مشکلات میں ڈوبے ہوئے ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور دیگر ممالک کی مشکلات کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا: کونسا ملک ہے جو ایرانی قوم کی طرح استقلال ، انسجام اور قومی اتحاد کا حامل ہے؟ کون سے ملک میں ایسے بانشاط جوان موجود ہیں جو عظیم علمی میدانوں کو فتح کررہے ہیں؟ کونسی قوم ایرانی قوم کی طرح علاقائي اور عالمی واقعات میں، اہمیت ، عظمت اور اثر انداز ہونے کی حامل ہے؟ کونسی قوم ایرانی قوم کی طرح دشمنوں کی تمام خباثتوں کو ناکام بنانے اور سربلندی و سرافرازی کے ساتھ اپنی راہ کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے میں کامیاب ہوئي ہے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں ایرانی قوم اور اس کے دشمنوں کے درمیان سیاسی مقابلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کو جاننا چاہیے کہ انتخابات میں بھر پور شرکت ملک کی حفاظت کا موجب اور اغیار کی طمع کم کرنے اور ان کے شوم منصوبوں کو ناکام بناے کا سبب ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکام، سیاسی سرگرم کارکنوں اور معاشرے کے مؤثر افراد سے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: عوام میں امید اور حوصلہ کی فضا قائم کریں کیونکہ ملک کے حقائق اور قوم کا عزم و ارادہ ہر منصف انسان کے لئے ملک کے مستقبل کے تابناک ہونے کا مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتحابات کے میدان میں دشمنوں اور ایرانی قوم کے مقابلے کے نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ ہم ایرانی عوام کو جانتے ہیں اور اللہ تعالی کے لطف و فضل کا بھی تجربہ کیا ہے ایرانی قوم اس مرحلے میں بھی اپنے افتخارات میں مزید اضافہ کرےگی اور دشمن کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کرےگی۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نےاصلح امیدوار کے انتخاب کے معیاروں کے سلسلے میں اجمالی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات سے قبل اس سلسلے میں اہم اور ضروری نکات بیان کروں گا لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اچھے اور بہترین انتخاب کے لئے ضروری معیاروں کا پہچاننا لازمی ہے، اور غور و فکر ، صلاح و مشورے اور حجت شرعی حاصل کرنے کے ذریعہ اصلح امیدوار کو انتخاب کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی عزت و پیشرفت پر توجہ رکھنے والے امیدوار کے انتخاب کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تین عشروں میں جو بھی پیشرفت و ترقی حاصل ہوئی ہے وہ انقلاب کے اہداف کی طرف حرکت کرنے کی بدولت سے حاصل ہوئی ہےلہذا ہمیں ایسے امیدوار کو انتخاب کرنا چاہیے جو تمام شرائط میں انقلابی اہداف کو سرفہرست قراردے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امیدواروں کے نعروں میں دقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کـبھی یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض افراد صدارتی اختیارات سے خارج اور ملک کے وسائل سے باہر نعرے لگا کر عوام کی آراء کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عوام عقلمندی اور ہوشیاری کے ساتھ ایسے شخص کی تلاش کریں جس کے نعرے ملک کے حقائق پر مبنی ہوں اور ملکی وسائل کے پیش نظر وہ عوام کی مشکلات کو مناسب طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے میدان میں متعدد امیدواروں کے ثبت نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گارڈین کونسل جو مؤمن، متقی اور آگاہ افراد پر مشتمل ہےوہ قانونی بنیاد پرصدارتی انتخاب کے لئے صالح افراد کی معرفی اور تائید کرے گی اور عوام بھی تائید شدہ افراد میں سے سب سے صالح فرد کو انتخاب کریں گے جو عوام کی مشکلات اور درد کو سب سے زيادہ درک کرتا ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر قانون پر عمل کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قومی اتحاد کی حفاظت، قومی آرام و سکون کے لئے قانون پر عمل بہت ہی اچھا اور عمدہ معیار ہے کسی بھی لحاظ سے قانون کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں بعض افراد کی قانون شکنی اور قانون کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انھوں نے اپنے نفسانی خواہشات یا سیاسی اغراض یا دیگر اہداف کی خاطر قانون شکنی کی اور انھوں نے اس قادام کے ذریعہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچایا اورعوام سے بھی 40 ملین افراد کی انتخابات میں شرکت کے شیریں موقع کو تلخی میں تبدیل کردیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قانون کے سامنے تسلیم ہونے کو بہترین راستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: کبھی قانون سوفیصد بہتر نہیں ہوتا لیکن لاقانونیت سے پھر بھی بہتر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے قانون کے مجری سے کسی شعبہ میں غلطی ہوجائے اور اگر ہم اس غلطی کو قانونی طریقہ سے اصلاح نہ کر سکیں تو اس کا برداشت کرنا لاقانونیت اور خلاف قانون عمل کرنے سے بہتر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک شخص کے انتخاب کے لئے حجت شرعی کے حصول کو دنیاوی اور اخروی آرام و سکون کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر حجت شرعی حاصل ہونے کے بعد کوئي فیصلہ غلط بھی ہوجائے تو پھر بھی انسان نے اپنی ذمہ داری اور تکلیف پر عمل کیا اور وہ سرافرازرہےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماہ رجب کو معنوی ظرفیت میں اضافہ کرنے کا وسیلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر رجب و شعبان میں حضور قلب کی توفیق پیدا ہوجائے اور انسان تمام حالات میں اپنے آپ کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر و ناظر جان لے تو وہ رمضان المبارک میں اللہ تعالی کی ضیافت میں شریک ہونے کا اہل بن جائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رجب المرجب میں نوجوانوں کی طرف سےاعتکاف کی سنت حسنہ میں بھر شرکت کو بہت ہی خوبصورت سماں قراردیتے ہوئے فرمایا: اسی معنوی پشتپناہی اور جذبہ کی بدولت انقلاب کے تمام نتائج اور برکات حاصل ہوئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی منہ زورطاقتوں کے مقابلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی ولولہ انگیزاستقامت، خلاقیت اور طاقت و قدرت مخلصانہ عبادات، مناجات اور آنسوؤں پر مشتمل تھی اور وہ آدھی راتوں کو اٹھ کر اپنے پروردگار کی بارگآہ میں مناجات اور راز و نیاز بیان کرتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام میں رہبانیت کو زندگی کے تمام شعبوں میں موجودگی کے معنی میں قراردیا اور مختلف قومی میدانوں میں ملک کے جوانوں کی نقش آفرینی،انقلابی احساسات و جذبات اور ایمان کی تعریف و تجلیل کرتے ہوئے فرمایا: اس جذبہ کے تحفظ کے ذریعہ اللہ تعالی کی امداد اور برکات کا سلسلہ جاری رہےگا۔
گيارہویں صدارتی انتخابات، اصلح فرد کےانتخاب پرتاکید، آیت اللہ جنتی
تہران کےخطیب جمعہ آیت اللہ احمد جنتی نے رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی جانب سےسن تیرہ سوبانوےشمسی مطابق مطابق دوہزارتیرہ عیسوی کو سیاسی اوراقتصادی جہاد کا سال قراردیئےجانے کےبارے میں کہا کہ ایران کا سب سےبڑا سیاسی مسئلہ ، گیارہویں دور کےصدارتی انتخابات ہیں ۔
تہران کےخطیب جمعہ نے ایران کےمستقبل کے لئے عوام کی اعلی بصیرت اور توجہ کوضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملت ایران کو صدارت کےلئے سب سے اصلح فرد کاانتخاب کرناچاہئے۔
آیت اللہ جنتی نے مستقبل کے صدر کےلئے ایمان ، قانون کی پابندی اور تقوی کولازم قراردیا اور پابندیاں اٹھانے کےلئے امریکہ سے رابطے کے حامی بعض صدارتی امیدواروں کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ کےسامنے جھکنااس کےسامنےگھٹنے ٹیکنے کےمترادف ہے۔
آیت اللہ جنتی نے کہا کہ ملک کےآئندہ صدر کو ایران کے لئے صحیح منصوبہ بندی کاحامل ہوناچاہئے تاکہ مغرب کی یکطرفہ پابندیوں کامقابلہ کیاجاسکے اور معاشی مسائل حل ہوسکیں۔
آیت اللہ جنتی نے ایران کےانتخابات کوآزاد اورصحیح وسالم قراردیتے ہوئے کہاکہ اس سےقبل ماضی میں امریکہ نے انتخابات میں بدعنوانی کےبہانے نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔
تہران کےخطیب نمازجمعہ نے نمازجمعہ کےپہلے خطبے میں زندگی کےمختلف مرحلوں میں الہی احکامات اور قرآن پرتوجہ دینے کی ضرورت پرتاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگرزندگی میں الہی احکامات پرعمل ہو توانسانی معاشرے کےبہت سےمسائل حل ہوسکتےہیں۔
ترکی، عوام کا اردوغان کے دفتر کےسامنے مظاہرہ
ترکی کےعوام نے شام میں ترکی کی مداخلت اور شام کی سرحد کےقریب بم دھماکوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت پراحتجاج کیا۔رپورٹ کےمطابق مشتعل مظاہرین اور سیکورٹی اہلکاروں کےدرمیان جھڑپ بھی ہوئی جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔
پولیس کی جانب سے مظاہرین پرآنسوگیس کےگولے اور ربرکی گولیاں استعمال کئے جانے پرمظاہرین مشتعل ہوگئے اور انھوں نےپولیس پرپتھراؤ کردیا ۔ واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ترکی کےسرحدی علاقے میں بم دھماکوں میں کم سےکم پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھےترک مظاہرین شام میں وزیراعظم رجب طیب اردوغان کی مداخلت اور اس کےنتیجےميں پیدا ہونےوالے سیکورٹی اوراقتصادی مسائل پراحتجاج کررہے تھے۔
ایران ، سائنسی ترقی میں سولہویں مقام پر
اسلامی جمہوریہ ایران کو سائنسی تحقیقات کے شعبے میں عالمی سطح پر سولہواں مقام حاصل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلامک ورلڈ سائنس سائٹیشن سنٹر کے سربراہ جعفر مہرداد کے مطابق اسکوپوس ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ ایران کے سائنسدانوں اور ماہرین نے دوہزار تیرہ کے آغاز سے دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی کا ایک اعشاریہ چھے دس حصہ اپنے ملک سے مخصوص کرلیا ہے جس کی وجہ سے ایران کو سائنسی ترقی کے شعبے میں سولہواں مقام حاصل ہوا ہے۔ جعفر مھرداد نے کہا کہ رواں برس کے چار مہینوں میں ایران کی سائنسی ترقی کی خبریں آرہی ہیں۔ اسلامک ورلڈ سائنس سائٹیشن سنٹر کی ویب سائٹ رہبرانقلاب اسلامی کے حکم سے قائم کی گئي تھی۔ آپ نے تاکید فرمائي تھی کہ ایران و اسلامی دنیا میں سائنسی سرگرمیوں کی رتبہ بندی کے لئے ایک ویب سائٹ قائم کی جائے۔ اسلام ورلڈ سائنس سائٹیشن سنٹر کی ویب سائٹ پر اسلامی ملکوں کے سائنسی مجلات کو دنیا کے رائج علمی معیارات پر پرکھا جاتا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ اور ہالینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا سائٹیشن نظام قائم کیا ہے۔ امریکہ کو علمی اور سائنسی رتبہ بندی میں ساٹھ برس کا تجربہ ہے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
