Super User
میانمارکےآرمي چيف کے دورہ ہندوستان کےخلاف شدید احتجاج
ہندوستان کی مسلم تنظیموں نے میانمار کی فوجی سربراہ کے دورہ ہندوستان کےخلاف شدید احتجاج کیا ہے –
ہندوستانی ذرائع کے مطابق میانمار کے آرمي چيف جنرل "آنگ ہينگ" کي کل دہلي آمد کے موقع پر ہندوستان کي مسلم تنظيموں نے زبردست احتجاج کيا -
رپورٹ کے مطابق ہفتہ کو ہندوستان کے وزيراعظم منموہن سنگھ سے ملنے کے لئے میانمار کے آرمي چيف جب ساؤتھ بلاک پہنچے تو انڈيا گيٹ اور جنترمنتر پر مسلم تنظيموں نے ان کے خلاف احتجاج کيا- شدید احتجاج کے سبب میانمار کے آرمي چيف سيکورٹي فورسز کي حفاظت ميں بمشکل اپنے ہوٹل پہنچ سکے- ذرائع کے مطابق احتجاج سات گھنٹے جاري رہا-
اس موقع پرمسلم مجلس مشاورت کے اعلي عہديداروں نے ممتاز مسلم رہنما رفيق عالم قاسمي کي قيادت ميں ہندوستان کے وزيراعظم سے ملاقات کرکے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف ہندوستانی مسلمانوں کے احساسات سے انہیں آگاہ کیا –
واضح رہے کہ ہندوستان نے میانمار کے فوجیوں کو ٹریننگ دینے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
حق اور باطل کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیئے
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ سامراجی طاقتیں شرپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سارے سیاسی اور تشہیراتی ذرائع کو ایرانی قوم کے خلاف استعمال کررہی ہیں –
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسن (ع ) کی ولادت باسعادت کے مبارک موقع پر فارسی زبان وادب کے اساتذہ اور جوان شعراء کی ملاقات میں خطاب کرتے ہوئے ایٹمی مسئلے کے حوالے سے ایران پر ظلم اور ایٹمی سائنسدانوں کی شہادت کو ملک کے موجودہ مسائل اور حقائق کا واضح نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا :سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی مزاحمت ذمہ دار شاعر کی نگاہ سے دور نہیں رہنی چاہیئں کیونکہ حق اور باطل کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیئے –
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع اور دشمن کی جارحیت پر بعض نام نہاد قوم پرستوں کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے ہی افراد ہیں جو بیہودگی ، سستی اور مذہب واخلاق اورملک وانقلاب کے بنیادی مسائل میں غیرذمہ داری کو فروغ دینے کے در پے ہیں حالانکہ وہ اغیاراور دشمنوں سے دوستی اور تعلق پر خاموش ہیں –
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مشورہ دیا کہ وہ لوگ جو حق اور معنویت کے محاذ میں ہنر کو اپنے اسلحہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں ہمیشہ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے حق کے راستے میں استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کریں –
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آج ایران کی شاعری پوری دقت اور تیزی سے صحیح سمت کی طرف رواں دواں ہے مزید فرمایا کہ اس رویے کو جاری رکھنے کی صورت میں ایران ایک بار پھر عالمی اور بالخصوص علاقائی تہذیب وثقافت کو بیش بہا تحفہ دے گا -
امريكہ اقتصادی جنگ كے ذريعے دوبارہ ايران پر مسلط ہونے كی كوشش كررہا ہے
آيت اللہ جنتی نے نماز جمعہ كےدوسرے خطبے میں دشمن كی جانب سے اسلامی جمہوریہ ايران كے خلاف اقتصادی جنگ كے آغازكی جانب اشارہ كرتے ہوئے كہا : امريكہ اقتصادی ميدان میں ہمیں شكست دے كر ايران پر دوربارہ غلبہ حاصل كرنا چاہتا ہے ۔
رپورٹ كے مطابق ، ۳ اگست كو اسلامی جمہوریہ ايران كی گارڈين كونسل كے صدر آيت اللہ احمد جنتی نے نماز جمعہ كے دوسرے خطبے میں اقتصادی بحران اور مہنگائی كی جانب اشارہ كرتے ہوئے خيال ظاہر كيا ہے كہ اقتصادی بحران نے پوری دنيا كو اپنی لپیٹ میں لے ركھا ہے اور ہم بھی اس مشکل كا شكار ہیں ليكن یہ ایک سنگين اور خصوصی مسئلہ ہے جس كا سنجيدگی سے راحل تلاش كرنے كی ضرورت ہے ۔
انہوں نے مزيد كہا : اسلامی نظام كے دشمنوں كو ديگر جنگوں میں شكست كا سامنا كرنا پڑا ہے اور اب اس جنگ میں وہ لوگ كاميابی كا انتظار كر رہے ہیں لہذا یہ مسئلہ عام نوعيت كا نہیں ہے اور اس كے فوری حل كے لیے عوام اور حکمرانوں کو مل كر كوشش كرنی چاہيئے ۔
شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی
علامہ سید عارف حسین حسینی ایک مشہور عالم دین تھے جنہوں نے اسلام کو لوگوں میں عام کرنے لیۓ قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ آپ کے والد کا نام سید فضل حسین تھا اور آپ 1320 ہجری شمسی میں پاکستان کے قبائلی علاقہ بنام پارا چنار میں ایک مذھبی اور روحانی خاندان میں پیدا ہوۓ ۔ پارا چنار کا علاقہ پاکستان کے صوبہ سرحد (جس کا نیا نام خیبر پختونخواہ ہے ) کے مرکزی شہر پشاور سے تقریبا 200 کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر واقع ہے۔ سید عارف کا خاندان پارا چنار کے ایک دیہات میں رہتا تھا جو پارا چنار سے کوئی 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس دیہات کا نام «پیوار» ہے اور اس میں تین قبیلے «غندی خیل»، «علی زائی» و «دویرزائی» رہتے ہیں ۔ سید عارف حسین حسینی کا تعلق دویرزائی «پیوار» سے ہے ۔ اس علاقے میں تقریبا 200 ہزار کے شیعہ آباد ہیں ۔ اس علاقے کے لوگ بڑے شہروں سے دور ہونے اور آزاد قبائلی قوانین اور رسوم میں جکڑے ہونے کی وجہ سے پسماندہ ہیں اور زندگی کی بنیادی ضرویات سے آج بھی محروم ہیں ۔
سید عارف حسین کو ابتداء ہی سے علم حاصل کرنے کا بےحد شوق تھا اور انہوں نے اپنے شوق کی تکمیل کےلیۓ نیک لوگوں کا راستہ اختیار کیا ۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنے والد سید فضل سے تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ ان کے والد تقوی میں کمال تھے جن سے سید عارف حسین نے بےحد فائدہ اٹھایا ۔ جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچے تو انہوں نے اسکول میں داخلہ لیا اور بڑی تیزی سے علمی منازل طے کرتے چلے گۓ ۔ انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد انہوں نے مذھبی تعلیم کی طرف توجہ دی اور حوزہ علمیه جعفریه پارا چنار میں داخلہ لیا ۔ اس مدرسہ میں انہیں استاد حاجی غلام جعفر لقمان سے ادبیات عرب جاننے کا موقع ملا اور انہوں نے یہاں پر مذھبی میدان میں اپنے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ۔ اپنی علمی تشنگی کو سیر کرنے کے لیۓ وہ 1346 شمسی میں نجف شریف (عراق ) میں واقع ایک حوزہ علمیھ میں چلے گۓ ۔ مالی مشکلات ہونے کے باوجود انہوں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا اور مدرسہ علمیه " بشریه " اور پھر مدرسه علمیه دارالحکمه میں مقیم رہے ۔ سید عارف حسین حسینی بڑے خوش قسمت انسان تھے کہ انہیں بہت ہی قابل اساتذہ کے زیر سایہ رہنے کا موقع ملا ۔ ان کے اساتذہ میں آیت اللہ سید اسداللہ مدنی کہ جن سے انہوں نے " شرح لمعھ " ، سید مجتبی لنکرانی سے " رسایل " ، آیت اللہ مرتضوی سے " مکاسب " ، آیت اللہ شھید مرتضی مطھری سے " درس فلسفه ، آیت اللہ فاضل لنکرانی سے " جلد اول کفلیه " ، آیت اللہ محسن حرم پناہی سے " درس عقائد " ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی سے " خارج اصول " ، آیت اللہ شیخ جواد تبریزی سے " خارج فقه " وغیرہ وغیرہ کے علوم حاصل کیے ۔
سید عارف حسین حسینی مذھب کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور نجف میں اپنے قیام کے دوران جب انہیں حضرت امام خمینی رح کے نزدیک رہنے کا موقع ملا تو ان کے اندر سیاسی اور فکری تحولات ایجاد ہوۓ ۔ انہیں بعض وجوہات کی بنا پر عراق سے نکال دیا گیا جس کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آۓ ۔ پاکستان آ کر انہوں نے سیاسی اور مذھبی سرگرمیوں میں بہت ہی فعال کردار ادا کیا ۔ سن 1353 شمسی میں انہوں نے ایک بار نجف اشرف کا رخ کیا کیونکہ وہ مزید علم حاصل کرنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے انہیں عراق میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اور پھر انہیں مجبوری کے تحت واپسی کا راستہ اختیار کرنا پڑا ۔ واپسی پر وہ قم تشریف لے گۓ اور پھر قم میں حوزہ علمیھ قم میں مقیم ہو گۓ ۔
یہاں پر انہوں نے دوسرے انقلابی کارکنوں کے ساتھ مل سیاسی سرگرمیوں میں پھرپور حصہ لینا شروع کر دیا اور قم میں مقیم دوسرے پاکستانی نژاد طالب علموں کو بھی اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کے لیۓ ترغیب دی ۔
ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ حکومت کی نظر میں آ گۓ اور حکومتی اہلکاروں نے ان پر نظر رکھنی شروع کر دی ۔ اسی دور وہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں ملک سے باہر کر دیا گیا جس کے بعد وہ واپس پاکستان تشریف لے گۓ ۔
پاکستان جا کر بھی وہ بیکار نہیں بیٹھے بلکہ پاکستان میں بھی انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور پاکستان کی عوام میں شاہ ایران کا اصل چہرہ بےنقاب کیا ۔ انہوں نے حضرت امام خمینی کی حمایت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رہی ۔ انہوں نے امام خمینی کو مسلمانوں کے رہبر کے طور پر پاکستان میں متعارف کروایا ۔ ان کی اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے پشاور میں ایک بڑے اجتماع کے دوران حضرت امام خمینی کی حمایت کا اعلان کیا اور لوگوں کی امام کی حمایت کے لیۓ تیار کیا ۔
شھید سید عارف حسین حسینی 3 آگست 1988 شمسی کو پاراچنار سے پشاور تشریف لاۓ اور رات " رسھ علمیھ دارلمعارف"میں بسر کی ۔ اگلی صبح 4 مرداد کو انہیں لاہور میں ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دینا تھا اور اس کے بعد ایک بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران ایک اہم مسئلے کو لوگوں کو بتانا چاہتے تھے ۔
5 آگست 1988 اسی جمعہ کی صبح جب وہ نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی غرض سے مدرسھ علمیه دارلمعارف کی دوسری منزل کی طرف گۓ وضو کرنے کے بعد جب وہ واپس سیڑھیاں اتر رہے تھے تو اسی دوران نامعلوم دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گۓ ۔ گولی لگنے کے بعد جب وہ زمین پر گر رہے تھے تو ان کے منہ سے لا الھ الا اللہ کی فریاد بلند ہوئی ۔ ایک عینی شاھد کا کہنا ہے کہ :
" مجھے ابھی تک ان کے زمین پر گرنے کی وجہ معلوم نہ ہو پائی تھی ۔ میں دوڑ کر ان کے نزدیک ہوا تاکہ ان کو زمین سے اٹھاؤں لیکن جب میں نے انہیں زمین سے اٹھایا تو دیکھتا ہوں کہ ان کا سینہ اور منہ گولیوں کا نشانہ بن چکا ہے ۔ "
واقعہ کی اطلاع پر مدرسہ کے طالب علم موقع پر پہنچ گۓ ۔۔ شھید عارف حسین حسینی کے بیٹے سید علی اور سید محمد حسینی جو اسی رات کو اپنے والد کے ہمراہ پارا چنار سے پشاور آۓ تھے ، وہ بھی روتے ہوۓ اپنے والد کے خون میں لت پت جسم کے قریب پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر طبی مرکز میں پہنچایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ بعد میں میڈیکل تحقیقات سے پتہ چلا کہ ان پر چلائی جانے والی گولیاں زہریلی بھی تھی ۔ خدا انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ ۔ آمین !
مومنین کے حقوق کا پاس و لحاظ
حضرت آيت الله العظمي خامنه اي نے بیس محرم الحرام سنہ چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں مومنین کے حقوق کے پاس و لحاظ پر تاکید کی گئی ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
"عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ كُنْتُ أَطُوفُ مَعَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فَعَرَضَ لِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا كَانَ سَأَلَنِی الذَّهَابَ مَعَهُ فِی حَاجَةٍ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَكَرِهْتُ أَنْ أَدَعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَذْهَبَ إِلَيْهِ فَبَيْنَا أَنَا أَطُوفُ إِذْ أَشَارَ إِلَيَّ أَيْضاً فَرَآهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ يَا أَبَانُ إِيَّاكَ يُرِيدُ هَذَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَمَنْ هُوَ قُلْتُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِنَا قَالَ هُوَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنْتَ عَلَيْهِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبْ إِلَيْهِ قُلْتُ فَأَقْطَعُ الطَّوَافَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَ إِنْ كَانَ طَوَافَ الْفَرِيضَةِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَيْهِ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِی عَنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ فَقَالَ يَا أَبَانُ دَعْهُ لَا تَرِدْهُ قُلْتُ بَلَى جُعِلْتُ فِدَاكَ"
شافی، جلد 1، حدیث 1506
ترجمہ و تشریح:
کتاب الکافی میں ابان ابن تغلب کے توسط سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ اس میں ابان ابن تغلب کہتے ہیں کہ «كنت اطوف مع ابیعبدالله علیه السلام فعرض لی رجل من اصحابنا كان سئلنی الذهاب معه فی حاجۃ» ایک برادر دینی نے مجھ سے گذارش کی تھی کہ ایک کام کے لئے اس کے ساتھ جاؤں۔ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی معیت میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اسی برادر دینی نے اثنائے طواف میں مجھے اشارے سے بلایا۔ "فكرهت ان ادع اباعبدالله (علیه السلام) و اذهب الیه" مجھے گراں گزر رہا تھا کہ امام کو چھوڑ کر اس کے ساتھ جاؤں۔ یہ صحیح بات بھی ہے کیونکہ امام معصوم کی معیت میں خانہ کعبہ کے طواف کا موقع بڑے نصیب کی بات ہے۔
"فبینما انا اطوف اذ اشار الیّ ایضا" میرا طواف جاری رہا اور جب دوبارہ اس کا سامنا ہوا تو اس نے پھر مجھے اشارہ کیا۔ اس دفعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نگاہ بھی اس پر پڑ گئی۔ "فقال یا ابان ایاك یرید هذا؟" آپ نے پوچھا کہ کیا اس کو تم سے کام ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے پھر پوچھا کہ وہ کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ «فقلت رجل من اصحابنا» برادر دینی ہے۔ ہمارا شیعہ بھائی ہے۔ آپ نے پھر سوال کیا کہ «قال هو علی مثل ما انت علیه؟» امامت کے سلسلے میں جو عقیدہ تم رکھتے ہو وہ بھی اسی عقیدے کا مالک ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تو جاؤ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ «قلت فاقطع الطواف؟» میں نے عرض کیا کہ طواف کو قطع کر دوں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اب آپ یہاں توجہ دیجئے! ابان جلیل القدر عالم دین تھے۔ انہوں نے موقعہ غنیمت جان کر ایک نیا شرعی مسئلہ معلوم کر لیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ واجب طواف ہو تب بھی بیچ میں قطع کرکے چلا جاؤں؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، واجب طواف کے دوران بھی اگر تمہارے برادر دینی کو تم سے کام پڑ جائے، وہ تم سے کوئی درخواست کر دے تو اپنا طواف روک دو اور اس کے ساتھ جاؤ۔ ابان ابن تغلب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں امام کے پاس سے اس کی طرف چلا گیا۔
کام انجام دینے کے بعد حضرت کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا «فسألته فقلت اخبرنی عن حقّ المؤمن علی المؤمن» میں نے پوچھا کہ یہ کون سا حق اور فریضہ ہے جس کی وجہ سے واجب طواف کو بھی بیچ میں ہی قطع کیا جا سکتا ہے؟ حضرت نے جواب دیا کہ اے ابان! چھوڑو، کیوں بار بار پوچھ رہے ہو۔ میں نے اصرار کیا تو حضرت نے برادر مومن کے حقوق گنوانا شروع کر دئے۔ حضرت نے جو سوال کرنے سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر تمام حقوق سے واقف ہو گئے تو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاؤگے کیونکہ ان فرائض پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کے بعد روایت کے اس حصے میں بڑا مفصل بیان موجود ہے۔ معلی ابن خنیس سے بھی ایسی ہی ایک روایت ہے جنہوں نے حضرت سے مومن بھائی کے حقوق کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ روایت کا یہ ٹکڑا جو پیش کیا گیا ہمارے لئے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مومنین کے حقوق پر توجہ دینے کی تاکید کی گئی ہے۔
شب قدر ، عالمي يوم قدس اور اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام کےبارےميں قائدانقلاب اسلامي کے فرمودات

شب قدر توبہ واستغفار کي شب ہے ۔
شب قدرکي نہايت قدر کيجئے ۔
شب قدر وہ شب ہے جب فرشتے زميں کو آسمان سے متصل، دلوں پرنور کي بارش اور زندگي کو فضل ولطف الھي سے منور کرديتے ہيں ۔
شب قدر روحاني سلامتي کي شب ہےدلوں اور جانوں کي سلامتي کي شب ہے ۔
شب قدر درحقيقت شب امام زمانہ اور شب ولايت ہے حضرت ولي عصر اوراحنا لہ الفداء کي طرف متوجہ ہونے کي شب ہے کيونکہ سارا عالم وجود امام زمانہ کے محور کے گرد حرکت کرتا ہے .
اس دن اسلامي جمہوريہ ايران تباہي کي طرف گامزن ہوجاۓ گا جب وہ بھول جاۓ کہ اس کا نمونہ عمل حضرت علي ابن ابي طالب عليہ السلام جيسي بزرگ شخصيت ہے ۔
ہماري قوم علوي قوم اور حضرت اميرالمومنين عليہ الصلاۃ والسلام کي عاشق و مريد ہے ۔
اسلامي انقلاب حضرت اميرالمومنين کي تعليمات کا نمونہ ہے اور اسي پر ايران کا اسلامي نظام قائم ہے ۔
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام کي حکومت قيام عدل و انصاف ،مظلوم کي حمايت ،ظالم کے مقابلے اور ہرحال ميں حق کي حمايت کے سلسلے ميں ايسي مثالي حکومت ہے جس پر ضرورعمل ہونا چاہيئے ۔
تاريخ بشر ميں نظم و ضبط کے پابند انسان روحاني کمالات کي اعلي منزلوں پربھي فائز ہوتے ہي ان ميں ايک حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام بھي ہيں ۔
حضرت امير المومنين سب کے لئے مکمل نمونہ عمل ہيں ۔
ہم اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام کي تعليمات پر عمل کرکے اپنے ملک و قوم کي عظيم آرزو يعني سماجي انصاف تک پہنچ سکتے ہيں ۔
عدل و انصاف حقيقي معني ميں اميرالمومنين حضرت اميرالمومنين کے وجود مقدس ان کي رفتا وگفتار اور ان کے تقوے اور ان کي توجہ ميں موجود ہے ۔
فردي لحاظ سے اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام تقوي کا واضح نمونہ اور حکومت وسياست و خلافت کے ميدانوں ميں آپ کي کارکردگي کي اساس عدل وانصاف ہے۔
حضرت اميرالمومنين کي حکومت کا امتياز عدل وانصاف ہے يعني عدالت مطلق يعني آپ اپني کسي ذاتي مصلحت کو عدل وانصاف پر مقدم نہيں کرتے ہيں ۔
برسوں سے کوشش کي جا رہي ہے کہ قدس فراموش ہوجاۓ ليکن عالمي يوم القدس نے اس سازش کو ناکام بنا ديا ہے۔
يوم قدس ايران سے مخصوص نہيں ہے بلکہ عالم اسلام سے متعلق ہے ۔
يوم قدس حضرت امام خميني کي کبھي نہ فراموش ہونے والي يادگار ہے۔
يوم قدس مسلمانوں کے اہم ترين اھداف ومقاصد پرتاکيد کرنے کا دن ہے ۔
يوم قدس عالم اسلام کے اھم ترين مسئلے پر تاکيد کرنےکا دن ہے ۔
يوم قدس مسلمان قوموں کي آزمائيش کا دن ہے۔
يوم قدس ايسي عظيم تحريک ہے جس نے يقينا سامراج سے مقابلے ميں گہرے اثرات چھوڑے ہيں اور چھوڑتي رہے گي .
يوم قدس صيہوني حکومت کے نحس چہرے پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔
عيد فطر کا دن عبادت و مغفرت کا دن ہے ۔
عيد فطر کا دن اتحاد برادري اور اجتماع کا دن ہے ۔
عيد سعيدفطر مسلمانوں کي عيد اسلام و پيغمبر اسلام کي سربلندي کا سبب اور اسلام ميں کبھي نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے ۔
عيد سعيد فطر کے موقع پر عالم اسلام کو اس مبارک دن سے عبرت حاصل کرنے اور خدا کي طرف لوٹ کرجانے کےلۓ استفادہ کرنا چاہيے ۔
دين الھي کا نفاذ سب سے اہم صفت اور تمام صفتوں کي بنيادہے اور يہي صفت اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي اور آپ کي حکومت کا خاصہ تھي۔
حضرت اميرالمومنين عليہ السلام ولايت اسلام کے مظہرکامل اور ولي خدا تھے ۔
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام قوت و اقتدار رکھنے کے باوجود سب سے زيادہ مظلوم تھے۔
حضرت علي عليہ السلام ان نادر شخصيتوں ميں سےہيں جو ماضي اور في زمانہ نہ صرف شيعوں کے درميان بلکہ تمام مسلمانوں کے درميان بلکہ تمام آزاد ضمير انسانوں کے درميان مقبول ہيں۔
حضرت اميرالمومنين علي عليہ السلام تاريخ کي مظلوم ترين شخصيتوں ميں ہيں ،آپ کي زندگي کے ہرہر قدم پر مظلوميت دکھائي ديتي ہے آپ کي شہادت بھي مظلومانہ تھي ۔
حضرت اميرالمومين علي عليہ السلام تاريخ کي نہايت پرکشش شخصيت ہيں ۔
حضرت امير المومنين علي عليہ السلام کا حکمت آميز کلام عالموں دانشوروں اور مفکرين کےلۓ مشعل راہ ہے ۔
حضرت علي عليہ السلام کوپہچان لينا کافي نہيں بلکہ آپ کي شناخت آپ سے تقرب کا ذريعہ بنے۔
حقيقي معني ميں حضرت علي عليہ السلام فضيلتوں اور کمالات کا مکمل نمونہ ہيں ،حقيقي معني ميں حضرت علي عليہ السلام ہي انسانوں کے سب سے عظيم رھنما ہيں ۔
مسجد اور مدرسہ عالي شہید مطہری – تهران
اس مدرسہ کے مؤسس قاچار دور کے معروف سیاستداں میرزا حسین خان سپہ سالار ہیں میرزا حسین خان سپہ سالار1241 ھ ق میں قزوین میں پیدا ہوئے ان کے والد نبی خان امیر دیوان قزوینی تھےمیرزا نبی خان اور میرزا تقی خان امیر کبیر آپس میں بہت قریبی دوست تھے اسی وجہ سے امیر کبیر نے نبی خان کے دو بیٹوں کو تہران میں بلا کر ان کی تعلیم اور تربیت میں بہت جد و جہد اور کوشش کی
میرزا حسین خان سپہ سالار بڑے اہم اور یادگار امور کو انجام دینے میں دلچسپی رکھتے تھے جو کام وہ یادگار کے طور پر باقی چھوڑنا چاہتے تھے ان میں محصلین کے لئے مدرسہ اور مسجد کی تعمیربھی شامل تھی
سنہ 1296 میں اس مجموعہ کی تعمیر کا کام شروع ہوا اس عمارت اور مجلس شورای ملی اور بہارستان کی عمارت کا نقشہ انجینئرمیرزا مہدی شقاقی نے تیار کیا
سپہ سالار جو 1297 تک تہران میں رہے خود اس کام پر نگرانی کرتے رہے لیکن جس وقت وہ معزول ہوگئےتو یہ کام ان کی نگرانی سے براہ راست نکل گیا البتہ کام جاری رہا
سپہ سالار نے اپنے تعمیراتی مجموعہ کے لئے ایک تفصیلی وقف نامہ تحریر کیا اس نے مسجد کی تعمیر اور مرمت کے لئے بہت سے اوقاف چھوڑے یہ کام اپنی عظمت کے پیش نظر کئی سال تک جاری رہا
اس خوبصورت عمارت کی عظمت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ 123 سال گزرنے کے بعد بھی تہران کی خوبصورت عمارتوں میں شامل ہے
انقلاب اسلامي ايران کے بعد ان كا نام بدل ہوا اور ابهي ان كا نام مسجد اور مدرسه عالي شهيد مطهري ہے
فتح خيبر
قلعہ خيبر ايك منظر
جب اللہ تعاليٰ نے اپنے نبي کو عزت بخشي اور قريش ذليل و رسوا ھوئے تو نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے يہ مشاھدہ فرمايا کہ مسلمانوں کے امور اس وقت تک درست نھيں ھوں گے اور نہ ھي حکومت برقرارھوگي جب تک يھوديوں کا نظام مو جود ھے جو ھميشہ سے اسلام کے سخت دشمن تھے اور ان (يھوديوں) کي پوري طاقت وقوت خيبر کے قلعہ ميں محصور تھي جو اس زمانہ کے رائج اسلحوں کا کارخانہ تھا، منجملہ وھاں ايسے ايسے ٹينک نما توپ خانے تھے جو گرم پاني اور آگ ميں تپا ھوا سيسہ پھينکتے تھے اور يھود ي اسلام دشمن طاقتوں کو ھر طرح کي مسلح فوجي مدد پھنچاتے تھے -
نبي نے قلعہ خيبر پر حملہ کر نے کےلئے لشکر بھيجا اور لشکر کا سردار جناب ابوبکر کو بنايا، جب وہ قلعہ خيبر کے پاس پھنچے تو وہ شکست کھا کر اور مرعوب ھو کر واپس پلٹ آئے ، دوسرے دن جناب عمر کو لشکر کا سردار بنا کر بھيجا وہ بھي پھلے سردار کي طرح واپس آگئے اور کچھ نہ کر سکے اور قلعہ کا دروازہ يوں ھي بند رھا اور کوئي بھي اس تک نہ پھنچ سکا -
جب لشکر قلعہ کا دروازہ نہ کھول سکا اور دونوں سرداروں کي سرداري کچھ کام نہ آسکي تو نبي پاك نے اعلان فرمايا کہ اب ميں اس کو سردار بناؤ ں گا جس کے ھاتھ پر اللہ فتح عنايت فر مائے گا چناچہ آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمايا: ”ميں کل علم اس کو دوں گا جس کو اللہ اور اس کا رسول دوست رکھتے ھوں گے اور وہ اللہ اور رسول کو دوست رکھتا ھوگا اور وہ اس وقت تک واپس نھيں آئے گا جب تک اللہ اس کے ھاتھ پر فتح نہ ديدے ---“-
لشکر انتھائي بے چيني کے عالم ميں ايسے سردار کو علم دئے جانے سے آگاہ ھوا جس کے ھاتھ پر اللہ فتح عنايت کرے، اس کے گمان ميں بھي نھيں تھا کہ اس عھدہ پرامام (ع) فائز ھوں گے، اس لئے کہ آپ آشوب چشم ميں مبتلا تھے، جب صبح نمودار ھوئي تو نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے علي (ع) کو بلايا جب آپ نبي اکرم (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کي خدمت ميں حاضر ھوئے تو آپ کي آنکھوں ميں آشوب تھا آنحضرت (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے اپنا لعاب دھن لگايا تو آنکھيں بالکل ٹھيک ھوگئيں اور آپ (ع) نے علي (ع) سے فرمايا:”خذْ ھٰذِہِ الرّايَةَ حَتَيّٰ يَفْتَحَ اللّٰہ عَلَيْکَ ---“- ” يہ علم ليجئے يھاں تک کہ خدا آپ کو فتح عنايت کرے گا---“-
شاعر مو ھوب يزدي نے اس واقعہ کو يوں نظم کيا ھے :
وَلَہ يَوْمَ خَيْبَرفَتکات
کَبرَتْ مَنْظَراً عليٰ مَنْ رَآھا
يَوْمَ قَالَ النَّبِيْ اِنِّيْ لَاعْطِي
رَاَيْتِيْ لَيْثَھَاوَحَامِي حِمَاھَا
فَاسْتَطَالَتْ اَعْنَاق کلِّ فَرِيْق
لِيَرَوْا اَيَّ مَاجِديعْطَاھَا
فَدَعَا اَيْنَ وَارِث الْعِلْمِ وَالْحِدْمِ
مجِيْر الايَّامِ مِنْ بَاسَاھَا؟
اَيْنَ ذوْالنَّجْدَةِ الَّذِيْ لَوْ دَعَتْہ
فِيْ الثّرَيَّامَرَوْعَةً لَبَّاھَا
فَاتَاہ الوَصِيّ اَرْمَدَ عَيْن
فَسَقَاہ مِنْ رِيْقِہِ فَشَفَاھَا
وَمَضيٰ يَطْلب الصّفوْفَ فَوَلَّتْ
عَنْہ عِلْماً بِاَنَّہ اَمْضَاھَا
”خيبر ميں آپ (ع) نے ايسے حملے کئے جو ششدر کرنے والے تھے -
جس دن نبي(صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے فرمايا کہ ميں پرچم بھادر اور محافظ شخص کو دوں گا -
اسي لئے ھر فريق يہ ديکھنے کا منتظر تھا کہ پرچم کس کو ملے گا -
ان ھي لمحات ميں نبي (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے آواز دي کہ علم و حلم کا وارث اور ايام کي قسمت پھيرنے والا کھاں ھے ؟
وہ مدد گار کھاں ھے جس کو اگر کو ئي ثريا ميں مدد کے لئے پکارے تو وہ لبيک کہہ دے گا -
اس وقت علي (ع) آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) کے پاس اس عالم ميں آئے کہ آشوب چشم ميں مبتلا تھے آپ (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے اپنے لعاب دھن کے ذريعہ ان کو شفا بخشي-
اس وقت علي (ع) نے کفار کي صفوں پر حملہ کيا يہ ديکھ کر کفار پيٹھ پھرا کر بھاگ گئے چونکہ وہ جانتے تھے کہ علي (ع) انھيں زندہ نھيں چھوڑيں گے “-
اسلام کے بھادر نے بڑي طاقت عزم و ھمت و ثبات قد مي کے ساتھ علم ليااور رسول (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) اللہ سے عرض کيا : ”اقَاتِلھمْ حَتّيٰ يَکوْنوامِثْلَنَا؟ “کيا ميں ان سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ ھماري طرح مسلمان نہ ھو جا ئيں “رسول (صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم) اللہ نے فرمايا: ”انفذْ عَليٰ رَسْلِکَ حتّيٰ تَنْزِلَ بِسَاحَتِھِمْ ، ثمَّ ادْعھمْ اِليٰ الاِسْلَامِ ، وَاَخْبِرْھمْ بِمَايَجِب اِلَيْھِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ ، فَوَاللّٰہِ لَاَنْ يَھْدِيَ اللّٰہ بِکَ رَجلاًوَاحِداًخَيْرٌلَّکَ مِنْ اَنْ يَّکوْنَ لَکَ حمْر النِّعَمِ“-
”اپنا پيغام لے کر جا ؤيھاں تک کہ ان کے علاقہ ميں پھنچ جا ؤ، ان کو اسلام کي دعوت دو اوران کو خدا کے اس حق سے آگاہ کرو جو ان کے ذمہ واجب ھے ، کيونکہ خدا کي قسم اگر تمھارے ذريعہ خدا ايک انسان کي ھدايت کر دے وہ تمھارے لئے سرخ چو پايوں سے بہتر ھے “-
آج لشکر کا سردار بڑے ھي اطمينان کے ساتھ بغير کسي رعب و خوف کے تيزي سے چلا، جبکہ اس کے ھاتھوں ميں فتح کا پرچم لھرا رھا تھا اس نے باب خيبر فتح کيا اور اس کو اپني ڈھال بناليا جس کے ذريعہ اس نے يھوديوں سے اپنا بچاؤ کيا- خوف کي وجہ سے يھوديوں کے کليجے منھ کو آگئے وہ بہت زيادہ سھم گئے، کہ يہ کون بھادر ھے جس نے قلعہ کے اس دروازہ کوکھول کر اپني ڈھال بناليا ھے جسے چاليس آدمي کھولتے تھے يہ بڑے تعجب کي بات ھے -
قلعہ خيبر ايك منظر
قوم لوط (ع) كا اخلاق
حضرت لوط عليه السلام كي مزار - قریه کفر – مسجدالخلیل كے نزديك - فلسطين
اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط (ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _
كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے اور لوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _
واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں، بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _
حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال
قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ ''
حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_
بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :
''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيں ہوئي''_
حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _
قصص القرآن - منتخب از تفسير نمونه
تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي
مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم
تقوی انسان کو بے دینی کے کھنڈر میں گرنے سے محفوظ رکھتا ہے
آیت الله مکارم شیرازی نے حرم حضرت معصومہ قم کے زائرین کے مجمع میں اھل سیاست اورمیڈیا کو تقوی الھی کی نصیحتیں کی اور کہا : تقوی انسان کو بے دینی کے کھنڈر میں گرنے سے محفوظ رکھتا ہے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اپنے سلسلہ وار تفسیر قران کریم کی نشست میں جو شبستان امام خمینی (رہ) ، حرم حضرت معصومہ قم میں زائرین ومجاورین کے شرکت میں منعقد ہوئی، اھل سیاست اورمیڈیا کو تقوی الھی کی نصیحتیں اور سیاست و میڈیا میں سلائق کو استفادہ نہ کرنے کی تاکید کی۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تقوی الھی کے بہت سارے معیارات ہیں کہا : اس کا ایک میعار اخلاقیات ہیں، تقوی کی ایک قسم، سیاسی تقوی ہے، کہ جب انسان سیاسی مقام تک پہونچ جائے تو جھوٹ نہ بولے، ووٹ لینے کے لئے غیر قانونی کام نہ کرے، ووٹ لینے کے لئے پیسہ خرچ نہ کرے اور لوگوں کو جھوٹے وعدے نہ دے بلکہ صحیح راستہ پر گامزن ہو ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے تقوی میڈیا کو تقوی کے ایک دوسرے مصادیق میں بیان کرتے ہوئے اخباروں اور سماجی میڈیا کو تقوی الھی کی نصیحتیں کی اور کہا : چھوٹی سے چھوٹی خبر اگر ان کے فائدہ کی ہو تو اس بڑی اوراگر ان کے نقصان میں ہو تو کاٹ کر چھوٹی پیش کرتے ہیں، جو کچھ بھی ان کی سیاسی پارٹی کے حق میں فائدہ مند ہو اسے بڑا اور جو کچھ بھی پارٹیوں کے نقصان میں اسے چھوٹا بناکر پیش کرتے ہیں، بے گناہ یا جرم ثابت نشدہ افراد کے اسامی منتشر کرنا تقوی الھی کے مطابق نہیں ہے ۔ اس مرجع تقلید نے ابتداء سوره احزاب کی آیات کے شان نزول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : جنگ احد کے بعد مشرکین مکہ کے نے احساس کیا کہ کامیاب ہوگئے ہیں اور انہوں نے سوچا کہ شاید اس طرح پیغمبر(ص) کو اپنی ھمراہی پر مجبور کرسکتے ہیں، مشرکین مکہ کے کمانڈر ابوسفیان نے مدینہ کے قریب اکر پیغمبر(ص) سے امان کی درخواست کی تو حضرت نے انہیں امان دے دیا، جب وہ مدینہ پہونچے تو کچھ لوگ ان کےساتھ تھے ، وہ پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں پہونچے اورعرض کیا کہ اپ کو اپنے خدا کے بارے جو کچھ بھی کہنا ہے کہیں ، مگرھمارے خداوں (بتوں ) کو برا نہ کہیں ۔
آپ نے مزید کہا : مشرکین مکہ کا تصور تھا وہ طاقت کے بل بوتہ پر گفتگو کررہے ہیں لھذا مرسل اعظم(ص) ان کی باتیں مان لیں گے، مگر ایت نازل ہوئی اورخدا نے پیغمبر(ص) کو چار باتوں کا حکم دیا کہ تقوی اختیار کریں، کفار کی تجویزنہ مانیں، منافقین کی اطاعت نہ کریں اوراگاہ رہیں کہ خداوند متعال ان کی سازشوں سے بخوبی واقف ہے، نیز حکم ہوا کہ ھماری وحی کے تابعداررہئے اور بتوں کے سلسلے میں جو کچھ بھی بتایا ہے وہی کہیں، خدا بہتر جانتا ہیں کہ اپ کے خلاف کس قسم کا اقدام کریں گے، اپ خدا پر بھروسہ کریں اور جان لیں کہ خدا اپ کا حامی ومددگار ہے ۔ حضرت آیتالله مکارم شیرازی نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر تقوی نہ ہو تو انسان منحرف اور گمراہ ہوجائے گا یاد دہانی کی : تقوی نفسانی خواہشات کی ڈگراور شیطانی وسوسوں سے نجات کا راستہ ہے، نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسے انسان کو گمراہیوں کی جانب لے جاتے ہیں کہ اگر تقوی نہ ہو تو انسان بہک جائے ۔
انہوں نے تقوی کے مراتب کی جانب اشارہ کیا اور کہا : تقوی کی ایک قسم، مولائے متقیان حضرت امام علی(ع) کے مانند تقوی ہے کہ اگر پوری دنیا بھی ان کے قدموں میں ڈال دی جائے اور اس کے عوض چنیوٹی کے منھ سے ایک دانہ بھی چھیننے کو کہا جائے تو نہیں چھینیں گے، متقی اپنے تقوی کے ھمراہ ھرگز تنہائی کا احساس نہیں کرتا اگر چہ تنہا ہی کیوں نہ ہو ۔ اس مرجع تقلید نے تقوا کو اثار روزہ میں سے شمار کرتے ہوئے کہا : کوشش کریں کہ روز بروز ھمارے اندر ان جزبات کو استحکام حاصل ہو اور منحرف کرنے والے مسائل ھمیں منحرف نہ کرسکیں۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
