
سلیمانی
کابل میں یکے بعد دیگرے 2 دھماکوں میں 19 افراد ہلاک 43 زخمی
مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں یکے بعد دیگرے 2 دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک اور 43 زخمی ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کابل میں دھماکے کے بعد فائرنگ کی آوازیں سردار محمد داؤد خان فوجی اسپتال اور سفارتی علاقہ کے قریب سنی گئی ہیں۔
طالبان کے ترجمان بلال کریمی کے مطابق دارالحکومت کابل میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے ہیں۔ بلال کریمی نے بتایا کہ دونوں دھماکے سردار داؤد خان ملٹری اسپتال کے قریب ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد فضا میں دھوئیں کے بادل چھا گئے اور ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکوں کے نتیجے میں اب تک 19 افراد ہلاک اور 43 زخمی ہوگئے ہیں۔ بعض زخمیون کی حالت تشویش ناک ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
اسپوٹنک کے مطابق حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے فوجی اسپتال میں داخل ہوگئے اور انھوں نے طالبان اہلکاروں پر بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا۔
ایرانی وزیر خارجہ کی طالبان کو 6 سفارشات/ افغانستان کے بحران کو اتفاق سے حل کرنے پر تاکید
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے دردناک بحران کی اصل ذمہ داری امریکہ کے دوش پر عائد ہوتی ہے امریکہ نے گذشتہ بیس برسوں ميں افغانستان کو تباہ و برباد کیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تہران میں یہ دوسرا اجلاس ہے ہمارے پاکستانی بھائیوں نے اس سلسلے کا آن لائن آغاز کیا اور اس سلسلے میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہمیں افغانستان کے حقائق کو بخوبی سمجھنا چاہیے کیونکہ افغانستان کے مسائل کا براہ راست اثر ہمسایہ ممالک پر پڑتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے تہران اجلاس کے اغراض و مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمسایہ ممالک کو افغانستان کی مدد اور افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں علاقائی سطح پر مذاکرات اور تبادلہ خیال بہت ہی اہم ہے تاکہ باہمی صلاح و مشورے سے افغانستان میں قیام امن کا نقشہ راہ تیار کیا جاسکے ۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بین الافغان مذاکرات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک کو افغان طالبان کے ساتھ تعاون اور افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور طالبان پر زوردینا چاہیے کہ وہ افغانستان میں ایسی حکومت تشکیل دیں جس میں افغانستان کے تمام گروہوں کی نمائندگی موجود ہو۔
ایرانی وزیر خارجہ نے افغانستان کے بارے میں 6 سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلی سفارش یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی ہے لیکن اسے ثبات اسی وقت ملےگا جب طالبان افغانستان کے شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام قومی اور مذہبی گروہوں کی حکومت میں شمولیت کو یقینی بنائیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے دوسری سفارش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر طالبان حاکم ہیں لہذا افغانستان کے تمام گروہوں خاص طور پرخواتین کے حقوق کا تحفظ اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری بھی طالبان پر عائد ہوتی ہے اور طالبان کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے تیسری سفارش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کو افغان سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور ہمسایہ ممالک کے اس سلسلے میں خدشات کو دور کرنا چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے چوتھی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مظلوم اور غریب عوام کے درمیان عالمی برادری کی طرف سے دی جانے والی غذائی اور طبی امداد کو افغان عوام کے درمیان منصفانہ طریقہ سے تقسیم کرنا چاہیے۔
حسین امیر عبداللہیان نے پانچویں سفارش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں رونما ہونے والے منظم جرائم اور دہشت گردانہ اقدامات کی روک تھام کے لئے ہمسایہ مملک کے ساتھ انٹیلجنس رابطوں کو قوی اور مضبوط بنانا چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے چھٹی سفارش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سیاسی استحکام کے لئے اقوام متحدہ کو افغان گروہوں کے درمیان ثآلثی کا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ افغانستان میں پائدار سیاسی نظام کے قیام میں مدد مل سکے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر تہران اجلاس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کی شرکت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ ہمسایہ ممالک کی کوششوں سے افغانستان کے عوام کے آلام اور مصائب کو کم کرنے میں مدد ملےگی۔
تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس کا آغاز
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تہران میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کے دوسرے اجلاس کا آغازہوگیا ہے ۔ ایران کے نائب صدر محمد مخـبر اس اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس اجلاس میں 4 ممالک پاکستان، ازبکستان، ترکمنستان اور تاجیکستان کے وزراء خارجہ شریک ہیں جبکہ روس اور چین کے وزراء خارجہ آن لائن شرکت کررہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ایران کی افغانستان میں پائدار امن و صلح کے قیام کے سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔ ایران بھی روس ، چین،پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں جامع اور ہمہ گیر حکومت کی تشکیل کا خواہاں ہے۔
پشاور «وحدت امت؛ میراث نبوت» کانفرنس؛ پشتو قرآن کی رونمائی
ایکنا نیوز سے گفتگو میں خانہ فرھنگ ایران پشاور کے ڈائریکٹر مهران اسکندریان نے کہا کہ «وحدت امت؛ میراث نبوت» کانفرنس جو میلاد النبی(ص) کے حوالے سے منعقد کی گیی تھی اس میں مذکورہ پشتو ترجمے کی رونمائی کی گیی۔
انکا کہنا تھا: ان میں سے ایک منظوم ترجمہ ہے جو«حاج سیدجعفر حسین شاه» کا ترجمہ شدہ ہے سو سال پرانا نسخہ ہے جب کہ دوسرا «محمد رحیم دُرانی» کا ترجمہ شدہ ہے جو پشتو میں پہلا شیعہ ترجمہ ہے۔
محمد رحیم دُرانی کا کہنا ہے کہ ترجمے میں آٹھ سال کا عرصہ لگا اور انہوں نے قرآنی ترجموں کو پشتو میں تنقیدی نگاہ سے جایزہ اور بغور مطالعے کے بعد کام شروع کیا۔
رپورٹ کے مطابق «وحدت امت؛ میراث نبوت» کانفرنس خانہ فرھنگ ایران پشاور اور البصیرہ تحقیقی مرکز کے تعاون سے منعقد ہوئی جسمیں شیعہ سنی علما، دانشور، اساتذہ اور «منهاج القرآن» کے اسکالرز شریک تھے۔
مهران اسکندریان نے پروگرام سے خطاب میں کہا: پوری امت ایک خدا و ایک نبی کے ماننے والے ہیں لہذا قرآن و رسول اسلام(ص) کےفرمان پر«واعتصموا بحبل الله جمیعا ولاتفرقوا» پر عمل کرنا چاہیے۔
پشاور قونصلیٹ کے سربراہ حمیدرضا قمی نے کہا: پروگرام میں شیعہ سنی علما اور اساتذہ کی شرکت یہاں پر وحدت کی علامت ہے۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کی کوشش سے اس سال عاشورا ور اربعین کے جلوس اور عزاداری بہترین رہی اور فرقہ واریت کے حامی بھی ناکام رہے۔
بنر نصبشده در س مقدسات اهل سنت بارے مراجع شیعه کے فتاوے کا بینر
جماعت اسلامی کے نایب امیر یاقت بلوچ نے کانفرنس ہال میں بزرگ مراجع تقلید بالخصوص حضرت آیتالله خامنهای(مد ظله العالی) کے فتاوے جس میں اہل سنت کے احترام کی تاکید کی گیی ہے اس کو سراہا اور کہا کہ اسی طرح سے بزرگ سنی علما کے فتاوے جو شیعہ مذہب کے احترام پر مبنی ہے اسکو بھی لگایا جائے اور اسے اتحاد میں اثر پڑے گا۔
دیگر مقررین اور علما نے بھی امت میں وحدت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور البصیرہ فاونڈیشن کے ثاقب اکبر نے قرار داد میں وحدت پر تاکید کرتے ہوءے افغانستان میں نمازیوں پر تکفیری حملوں کی مذمت کی۔/
بحرین-اسرائیل میں «گرین پاسپورٹ»کے اجرا پر اتفاق
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر صحت نیٹزان ھوروویٹیز اور بحرین کی وزارت صحت کے وزیر بنت سعید صالح کےدرمیان معاہدے پر دستخط ہوا جس سے گرین پاسپورٹ کے ساتھ مسافرکو ویکسین شدہ مسافر تسلیم گیا جائے گا۔
ھوروویٹیز نے ٹویٹ کیا ہے کہ امارات سے معاہدے کے بعد بحرین سے سبز کوریڈور کا راستہ کھل گیا۔
میں نے بحرین کے وزیر سے معاہدہ کیا اور اب گرین پاسپورٹ کے ساتھ سیاحت اور محفوظ سفر کا امکان واضح ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ھوروویٹیز نے اسی قسم کا معاہدہ امارات سے بھی کیا ہے۔
جدید قوانین کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں ان افراد کو اجازت دی جائےگی جنہوں نے کورونا ویکسین کا بوسٹر لگایا ہو۔
معاہدے کے مطابق گرین پاسپورٹ کے لیے دونوں ڈوز لگانا ضروری ہوگا ۔
دونوں ممالک میں اس حال میں یہ معاہدہ ہورہا ہے جہاں بحرین میں بڑی تعداد میں قیدی کورونا کی وجہ سے بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔
کچھ عرصے قبل جمعیت قومی «الوفاق» نے بیان میں انتباہ کیا تھا کہ کورونا بحران اور علاج سے محرومی کی وجہ سے قیدیوں کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
الوفاق نے بیان میں مطالبہ کیا کہ اس سے پہلے کہ کوویڈ کے شکارقیدی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے انکو فوری طور پر آزاد کریں تاکہ ان کو علاج کی سہولت فراہم کی جاسکے۔/
الازهر: متمدن دنیا فلسطینی زمینوں پر قبضے کے خلاف آواز بلند کرے
رشیا الیوم نیوز کے مطابق الازھر نے فلسطینی زمینوں پر مسلسل تجاوز کی شدید مذمت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے رو سے یہ سازش اور کوشش قابل مذمت اور شرپسندانہ ہے اور فوری طور پر اسکا سلسلہ روک دیا جائے۔
الازهر کا کہنا تھا کہ ہم متمدن دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس جاہلانہ اقدام کو روک دے اور ایسی خلاف عقل سازش اور کوشش کے خلاف آواز بلند کریں جو مکمل طور پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
الازهر نے فلسطینی عوام کے حقوق پر تاکید کرتےہوئے کہا کہ فلسیطنی کاز کے لیے تمام مسلمان اور باانصاف لوگ انکی حمایت کرتے ہیں۔
صھیونی رژیم نے غزہ کنارے پر بہت سے فلسطینی مکا نات کی جگہ اپنی آبادی تیار کررہا ہے۔
فلسطینی وزارت خارجه نے ان علاقوں میں تیرہ سو یہودی مکانات زبردستی قایم کرنے کی کوشش کو ریڈ لائن سے عبور قرار دیا ہے۔
صھیونی کابینہ نے بارہا واضح کہا ہے کہ دو ریاستی حل کو وہ قبول نہیں کرسکتا اور مسلسل یہودی آباد کاری کو وسیع کرنے کی کوشش پر عمل پیرا ہے۔/
جدید اسلامی تہذیب کا قیام شیعہ سنی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں، رہبر معظم انقلاب اسلامی
اسلام ٹائمز۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے رسول اکرم ص اور امام جعفر صادق ع کی ولادت نیز ہفتہ وحدت کی مناسبت سے بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور اعلی سطحی حکومتی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے پیغمبر اکرم ص کی سیرت اور امت مسلمہ کی ذمہ داریوں کے بارے میں چند اہم نکات بیان کئے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر مشتمل دین مبین اسلام کی جامعیت کی وضاحت اور ترویج" اور "اتحاد بین المسلمین کے فروغ" کو امت مسلمہ کی دو اہم ذمہ داریاں قرار دیا اور کہا: "وحدت اسلامی ایک اصولی چیز اور قرآنی فریضہ ہے اور جدید اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام جیسا عظیم اور مقدس ہدف شیعہ سنی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔"
ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے دین مبین اسلام کی جامعیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "سیاسی مادی قوتوں نے ہمیشہ سے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام ایک جامع دین نہیں ہے نیز اس کے پاس انسانی زندگی کے تمام پہلووں کیلئے مناسب منصوبہ بھی نہیں پایا جاتا بلکہ (دین اسلام) فردی عمل اور قلبی عقیدے تک محدود ہے۔ انہوں نے اپنے لکھاریوں اور محققین کی زبانی اس نظریے کا بھرپور پرچار کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دین اسلام تہذیب و تمدن سازی، معاشرے کی مدیریت، اقتصاد، طاقت اور دولت کی تقسیم، جنگ اور امن، اندرونی اور عالمی سیاست، عدل کا قیام اور ظلم اور شرپسند عناصر کے مقابلے جیسے اہم ایشوز کے بارے میں نہ تو نظریہ فراہم کرتا ہے اور نہ ہی عملی میدان میں کوئی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی متون واضح طور پر اسلام کے بارے میں ایسے تاثر کی نفی کرتے ہیں، مزید کہا: "دین اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلووں پر مشتمل ہے۔ دل کی گہرائیوں اور عبادت سے متعلق امور سے لے کر سیاسی، اقتصادی، سماجی، سکیورٹی اور بین الاقوامی مسائل اس میں شامل ہیں۔ جو شخص اس بات کا منکر ہے اس نے یقیناً قرآن کریم کی متعدد واضح آیات پر توجہ نہیں دی۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سماجی امور اور تہذیب و تمدن سازی جیسی اہم ذمہ داری پر اسلام کی تاکید کو حاکمیت کی جانب اسلام کی توجہ قرار دیا اور کہا: "اسلام میں سماجی نظم و نسق کا مطالبہ حکومتی امور اور امام کے تعین کے بغیر ممکن نہیں اور قرآن کریم میں بھی انبیاء علیہم السلام کو امام یعنی معاشرے کے سربراہ اور کمانڈر کا عنوان دیا گیا ہے۔"
ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے اتحاد بین المسلمین کو یقینی فریضہ اور قرآنی حکم قرار دیتے ہوئے کہا: "وحدت اسلامی ایک اصولی بات ہے اور کچھ خاص حالات کے تحت ایک عارضی حکمت عملی نہیں ہے۔ باہمی اتحاد مسلمانوں کی طاقت میں اضافے کا باعث بنتا ہے تاکہ اس طرح وہ غیر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی فوقیت اور برتری کے حامل ہو سکیں۔" امام خامنہ ای نے مزید کہا: "آج شیعہ اور سنی کی اصطلاحات امریکہ کے سیاسی کلچر میں بھی داخل ہو چکی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اصل اسلام کے ہی مخالف اور دشمن ہیں۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کو اتحاد بین المسلمین کا حقیقی معیار قرار دیا اور کہا: "مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا حقیقی معیار مسئلہ فلسطین ہے۔ جس قدر فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کیلئے سنجیدگی کا اظہار کیا جائے گا اسی قدر اتحاد بین المسلمین بھی مضبوط ہوتا جائے گا۔"
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔
"بے شک اللہ اور اس کے فرشتے بنی ؐ پر درود بھیتجے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اس پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔"(سورہ الاحزاب:۳۳۔۵۶)
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات
انسان کی ایسی باطنی خصوصیات جو عادات میں بدل جائیں، انہیں اصطلاح میں خُلق کہتے ہیں۔ خُلق کا مادہ (خ،ل،ق) ہے اگر لفظ خ کے اوپر زبر پڑھیں، یعنی خَلق پڑھیں تو اس کے معنی ہیں ظاہری شکل و صورت اور اگر خ پر پیش پڑھیں یعنی خُلق پڑھیں تو باطنی اور داخلی و نفسانی شکل و صورت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاََ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق و خَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت بھی اچھی ہے اور باطنی صورت بھی، جس طرح انسانوں کی ظاہری شکل و صورت مختلف ہوتی ہے، اسی طرح باطنی شکل و صورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اخلاق انسانی زندگی کا جوہر ہے۔
اچھی عادات کی اہمیت
اگر ایک انسان میں اخلاق یعنی اچھی عادات نہیں تو گویا وہ کچھ بھی نہیں۔ آج معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاق سے دوری ہے۔ معاشرے میں بے راہ روی کی وجہ بھی اخلاقی بحران ہے۔ انسان جب تک خود کو اخلاقی حوالے سے بہتر نہیں بنائے گا، اس وقت تک معاشرہ بہتری کی طرف نہیں بڑھے گا۔
نبی اکرمﷺ کی عادات
انسانی شخصیت اپنی عادات سے پہچانی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات یعنی اخلاقِ حسنہ کے بارے میں قرآن مجید کی گواہی موجود ہے: اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ ’’بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ قرآنی شہادت کے بعد تخلیق کائنات کا سبب حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نورانی ارشاد اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ یعنی ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ دوسری روایت میں حُسْنَ الْاَخْلَاق کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی کائنات کی سب سے عظیم ہستی کو مبعوث ہی اخلاق کے سدھار کیلئے کیا گیا ہے۔
ہماری عادات اور نبی ؐ کا اسوہِ حسنہ
آج کا ہمارا اسلامی معاشرہ اکثر و بیشتر اخلاق ِنبوی سے خالی اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاری ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ جس نبیﷺ کا کلمہ پڑھ کر ہم مسلمان ہوئے ہیں، اُسی کی سیرت اور اخلاق سے ہم اجنبی کیوں ہیں؟ ہماری اصل مشکل یہاں ہے کہ ہم زبان سے جس کی رسالتﷺ کی گواہی دیتے ہیں، عملاً اُس کی تعلیمات کی پرواہ نہیں کرتے۔ چنانچہ جتنا ہم اپنے نبیﷺ کے اخلاق سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اتنا ہی ہم تنزل کر رہے ہیں۔ سوچئے تو سہی کہ جس ہستی کا نام لینے سے انسان پاک ہو جاتا ہے (کافر اگر کلمہ پڑھے تو پاک ہو جاتا) تو ایسی ہستی کی سیرت و اخلاق پر عمل سے انسان کہاں پہنچ سکتا ہے۔۔۔؟؟؟ آئیے ہم فرموداتِ نبوی ؐ سے عاداتِ نبوی ؐ کو سمجھنے اور انہیں اپنانے کیلئے رہنمائی لیتے ہیں۔
فرموداتِ نبوی سے رہنمائی
روایت میں ہے کہ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَحْسَنَ النَّاسِ خُلْقًا "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انسانوں سے اعلیٰ اخلاق رکھتے تھے۔" راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلْقِ وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتً اَنْ یطلع علیہ النَّاسُ۔ (مسلم) یعنی ’’نیکی اخلاق و کردار کی اچھائی کا نام ہے اور گناہ وہ ہے، جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے آگاہ ہوں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے، جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تَقوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلْقِ یعنی "خدا خوفی اور حسن خلق۔" پھر عرض کیا گیا کہ وہ کیا چیز ہے، جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔ فرمایا: الْفَمُ وَالْفَرْجُ یعنی "منہ اور شرمگاہ" (ترمذی) ایک اور روایت میں یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (ترمذی) یعنی ’’مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں، جو ان میں سے اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
عاداتِ نبویؐ اپنانے کا ثمر
مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی اچھائی دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمر ہے اور دراصل یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کے بغیر اخلاقی پاکیزگی کا اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے۔ اسی حسنِ خلق کی بدولت مومن کو اطمینانِ قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے، اور اس کا یہی اطمینانِ قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب، شیطان کی کوئی تحریک، دنیا کی کوئی تحریص اور اقتدارِ باطل کی کوئی دھمکی اس کو راہِ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ایک غلط فہمی
اَخلاق سے متعلق ایک سنگین غلطی اور بڑی غلط فہمی جس میں بعض لوگ مبتلا ہیں، وہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے صرف رحم و رأفت اور تواضع و انکساری کو پیغمبرانہ اخلاق کا مظہر سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اخلاق یعنی اچھی عادات کا تعلق زندگی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں سے ہے۔ دوست و دشمن، عزیز و بیگانہ، چھوٹے بڑے، مفلسی و توانگری، صلح و جنگ، گرفت و مؤاخذہ، عفو و درگزر اور خلوت و جلوت، غرض ہر جگہ اور ہر مورد تک دائرہ اخلاق کی وسعت ہے۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقام لینا احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگرچہ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا، لیکن اگر کسی نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کیا اور حدودِ اسلام سے تجاوز کیا تو ضرور اسے کیفرِ کردار تک پہنچاتے تھے۔ چنانچہ صحیحین میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی بات میں کسی سے انتقام نہیں لیا، البتہ جس چیز کو خدا تعالیٰ نے حرام کیا ہے، اگر اس کو حلال کیا گیا تو آپ ضرور انتقام لیتے تھے۔
یہی مضمون مسلم میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، حتی اپنے خادم کو بھی، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرتے (تو اپنے ہاتھ سے دشمنوں کو مارتے تھے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی چیز سے (تکلیف) پہنچتی تو آپ اس کا انتقام نہ لیتے تھے۔ مگر جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی سزا ضرور دیتے تھے۔ صاحب بخاری نے اپنی صحیح میں ’’باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللّٰہ‘‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے۔ محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لوگوں کی اذیت پر صبر کرنا اور اپنی ذات کے لئے ان سے انتقام نہ لینا اور ان سے شفقت اور نرمی والا برتاؤ کرنا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ میں شامل تھا، تاہم دین اور شریعت اور اللہ کے احکام کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رعایت نہیں فرماتے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اللہ کے دشمنوں کفار کے ساتھ سخت برتاؤ کا حکم دیا۔ لہذا اخلاق و سیرت کے عناوین کو سمجھنا بھی ایک حقیقی عاشق رسول کی ذمہ داری ہے۔
نتیجہ:
مومن جب عاداتِ نبویﷺ کو اپنا لیتا ہے تو اس کا اخلاق جلالی پہلو بھی رکھتا ہے اور جمالی بھی۔ جلالی پہلو کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مومن مصارفِ زندگی میں کردار کی عظمت و صلابت کا مظاہرہ کرتا ہے اور جمالی پہلو یہ ہے کہ مومن اہل ایمان کے درمیان محبت و رافت کا ایک پیکر ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کی نشست و برخاست، اس کی چال ڈھال اور اس کا باہمی میل جول ایک خاص قسم کے حسن و لطافت اور نفاست و ملائمت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے اپنانے کی ضرورت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم خود اخلاق نبویؐ سے مزین ہوں اور پھر دوسروں کو بھی اپنے عمل سے اس کی دعوت دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز عمل کو اپنے کردار میں ڈھالنے کا نام ہی عشقِ رسول ؐہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہی ہمارے لیے اخلاقیات کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی کو سر کرنا آسان ہو جائے گا اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے ذریعہ سعادت مند زندگی اور قرب خداوندی کا حصول ممکن ہوگا۔
منابع:
قرآن مجید/ اخلاق شبر/ کتاب بخاری شریف/ مسلم شریف/ ترمذی شریف
تحریر: سید ذہین نجفی
حضرت محمد (ص) کی 110 اخلاقی خصوصیات
1۔ آپ ہمیشہ سلام میں پہل کرتے تھے۔
2۔ بڑوں کا ہمیشہ احترام اور چھوٹوں پر ہمیشہ شفقت کیا کرتے تھے۔
3۔ مسافروں کا ہمیشہ خیال رکھا کرتے تھے۔
4۔ راستہ چلتے وقت وقار و متانت سے قدم بڑھاتے تھے۔
5۔ آپ کی نگاہیں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔
6۔ جب بھی کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک دوسرا اپنا ہاتھ نہ کھینچتا تو اس وقت تک آپ اس کا ہاتھ تھامے رکھتے تھے۔
7۔ لوگوں سے اس طرح گھل مل کر رہتے تھے کہ ہر ایک یہ گمان کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب سے زیادہ مجھے چاہتے ہیں۔
8۔ ہمیشہ سکوت کو اپنا وطیرہ بناتے تھے اور ضرورت بھر سے زیادہ گفتگو کرنے سے اجتناب فرماتے تھے۔
9۔ جب بھی کسی سے ہم کلام ہوتے تو مکمل اس سے روبرو ہو کر گفت و شنید کیا کرتے تھے۔
10۔ جب بھی کسی سے محو گفتگو ہوتے تو اس کی باتوں کو غور سے سنا کرتے تھے۔
11۔ جب بھی کسی کے ساتھ بیٹھ جاتے تو جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھتا، اس وقت تک آپ اس کے احترام میں بیٹھے رہتے تھے۔
12۔ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے تو ہمیشہ آپ کی زبان پر ذکر خدا ہوتا تھا اور جب بھی آپ کسی کے ہاں جاتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے۔
13۔ آپ جب بھی کسی اجتماع میں تشریف لے جاتے تو دروازے کے قریب تشریف فرما ہوتے تھے۔
14۔ جب بھی آپ کے ہاں کوئی مہمان آتا تو آپ اسے خدا حافظی کرنے دروازے تک جایا کرتے تھے۔
15۔ آپ جب بھی جہاد کے لئے ایک گروہ کو بھیجتے تو ان میں سے ایک شخص کو اس لشکر کا سربراہ معین کرتے اور ان کے ساتھ اپنے کسی قابل اعتماد شخص کو بھی حالات سے آگاہ کرنے کے لئے بھیجتے تھے۔
16۔ آپ اپنے لیے کسی خاص جگہہ کا چناؤ کبھی بھی نہیں کرتے تھے۔
17۔ آپ دوسرے لوگوں کو بھی اجتماعی مقامات پر اپنے لئے خاص جگہہ کا چناؤ کرکے رکھنے سے سختی سے منع کرتے تھے۔
18۔ لوگوں کی موجودگی میں کبھی بھی آپ لیٹتے تھے۔
19۔ اکثر آپ قبلہ رو ہوکر تشریف فرما ہوتے تھے۔
20۔ آپ کے سامنے اگر کسی سے غلطی سے کوئی برا کام سرزد ہو جاتا تو آپ اسے نادیدہ قرار دیتے تھے۔
21۔ کسی کی غلطی کو کبھی بھی کسی اور کے سامنے نہیں دہراتے تھے۔
22۔ کسی سے باتیں کرنے میں اگر بے ادبی ہو جاتی تو آپ اس کا مؤاخدہ نہیں کرتے تھے۔
23۔ آپ کسی سے بھی جھگڑا فساد نہیں کرتے تھے۔
24۔ فضول اور لایعنی باتوں کے علاوہ آپ کسی کے کلام کو بھی قطع کلامی نہیں کرتے تھے۔
25۔ جب بھی آپ سے کوئی سوال ہوتا تو آپ اس کے جواب کو چند بار تکرار فرماتے تھے، تاکہ سننے والے کو جواب کے سننے میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
26۔ جب بھی کسی کی غلط بات آپ کی کانوں سے ٹکراتی تو آپ اس کا نام لیکر ملامت کرنے کے بجائے فرماتے تھے کہ بعض لوگوں کو کیا ہوا ہے، معلوم نہیں کہ ایسا کہتے ہیں۔
27۔ آپ کا رہن سہن اکثر غریبوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔
28۔ آپ اکثر و بیشتر غریبوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔
29۔ غلاموں اور کنیزوں کی دعوت کو آپ کبھی نہیں ٹھکراتے تھے۔
30۔ کوئی بھی جب آپ کو معمولی سا بھی تحفہ دیتا تو آپ اسے قبول فرماتے تھے، خواہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہو۔
31۔ سب سے زیادہ صلہ رحمی بجا لایا کرتے تھے۔
32۔ اپنے رشتہ داروں کو دوسروں پر برتری دیئے بغیر ان کے ساتھ نیکی کیا کرتے تھے۔
33۔ اچھے کام انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں کو اس کام سے روکتے تھے۔
34۔ لوگوں کے دین و دنیا کی اصلاح سے متعلق امور ان کے لیے بیان فرماتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ حاضرین غائبین تک میری ان باتوں کو پہنچا دیں۔
35۔ جب بھی کوئی اپنے کیے پر معذرت چاہتا تھا تو آپ اسے قبول فرماتے تھے۔
36۔ آپ کسی کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
37۔ آپ نے کبھی کسی کی بدگوئی نہیں کی۔
38۔ آپ نے کبھی کسی کو غلط نام سے نہیں پکارا۔
39۔ آپ کے ارد گرد بیٹھنے والوں میں سے کسی کے بارے میں بھی آپ نے نفرین نہیں کیں۔
40۔ لوگوں کی عیب جوئی سے آپ ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔
41۔ دوسروں کی کوتاہیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرتے تھے۔
42۔ بدی کا بدلہ اچھائی سے دیا کرتے تھے۔
43۔ مریضوں کی عیادت کیا کرتے تھے، خواہ اس امر کے لیے آپ کو مدینے کی دور ترین جگہہ تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
44۔ اپنے اصحاب سے مشاورت کیا کرتے تھے، انہیں اس امر کی تاکید بھی کرتے تھے اور آخر میں آپ اپنے فیصلے پر عمل کرتے تھے۔
45۔ اپنے ساتھیوں کے درمیان میں ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ جب بھی کوئی اجنبی وہاں پہنچتا تو وہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کون ہیں۔
46۔ اپنے عہد و پیمان کو ہمیشہ پورا کیا کرتے تھے۔
47۔ جب بھی کسی فقیر کی مالی مدد کرتے تو کسی کے حوالے کرنے کے بجائے آپ خود اپنے دست مبارک سے عطا فرماتے تھے۔
48۔ اگر نماز کے دوران میں کوئی آپ سے ملنے آتا تو آپ نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔
49۔ دوران نماز میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز کو مختصر کیا کرتے تھے۔
50۔ جب بھی کسی بچے کو آپ کے پاس دعا کی خاطر یا نام گزاری کے لئے لے آتے تو آپ ان کے احترام میں بچے کو گود میں لیتے اور بسا اوقات بچہ آپ کی گود میں بول و براز کرتا تو اس کے گھر والوں کو اسے ڈانٹنے سے منع کرتے اور ان کے احترام میں ان کے واپس جانے کے بعد آپ اپنے لباس کو پاک کرتے تھے۔
51۔ آپ کو جب بھی کسی پریشانی کا سامنا ہوتا تو فوراً مشغول عبادت ہو جاتے تھے۔
52۔ آپ کے نزدیک زیادہ عزیز وہ افراد تھے، جو دوسروں کے ساتھ زیادہ اچھائی کیا کرتے تھے۔
53۔ کوئی بھی شخص آپ کے ہاں سے مایوس ہو کر واپس نہیں لوٹتا تھا۔
54۔ آپ حکم دیا کرتے تھے کہ جن لوگوں کی حاجتیں مجھ تک کوئی پہنچانے والا نہیں، ان کی حاجتیں مجھ تک پہنچایا کرو۔
55۔ جب بھی کوئی سائل آپ کے پاس کوئی حاجت لے کر حاضر ہوتا تو آپ مقدور بھر اس کی مدد فرماتے، بصورت دیگر آپ اپنی دلنشین باتوں اور آئندہ اس کی مدد کرنے کی یاد دہانی کے ذریعے اسے خوش کرکے واپس لوٹاتے تھے۔
56۔ آپ جنگ کے لئے جاتے وقت سب سے آخر میں نکلتے تھے، تاکہ چلنے میں کمزور افراد کو اپنے ہمراہ لے جاسکیں۔
57۔ جب بھی آپ کسی سواری پر سوار ہوتے تو کسی اور کو پیدل آپ کے ہمراہ آنے سے منع کرتے تھے، یا اسے اپنے ہمراہ سواری پر سوار کرتے، بصورت دیگر اسے حکم دیتے کہ جلدی آگے بڑھ کر اگلے پڑاؤ پر آپ کا انتظار کریں۔
58۔ جب بھی کسی نے آپ سے کسی چیز کا تقاضا کیا تو آپ نے اسے رد نہیں کیا، مگر یہ کہ اس کا یہ تقاضا غلط کام سے متعلق ہو۔
59۔ اچھے برتاؤ کے ذریعے برے لوگوں کو اپنی طرف جذب کر لیتے تھے۔
60۔ آپ کی زبان پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، البتہ آپ کا قلب مبارک ہمیشہ خوف الہیٰ سے لبریز ہوتا تھا۔
61۔ آپ قہقہے سے ہمیشہ اجتناب کیا کرتے تھے۔
62۔ آپ مذاق بھی کرتے تھے۔ البتہ مذاق کے ضمن میں فضول باتوں سے اجتناب فرماتے تھے۔
63۔ کسی کا اگر نامناسب نام ہوتا تو اسے تبدیل کرکے آپ اس کے لیے اچھے نام کا انتخاب کیا کرتے تھے۔
64۔ آپ کا صبر و تحمل ہمیشہ غصے پر غالب رہتا تھا۔
65۔ دنیوی کسی چیز کے ہاتھ سے جانے سے نہ آپ پریشان ہوتے تھے اور نہ ہی آپ کو غصہ آتا تھا۔
66۔ آپ کے نزدیک سب سے منفور عادت جھوٹ تھی۔
67۔ خوشی اور غم دونوں حالتوں میں پل بھر کے لیے بھی آپ ذکر خدا سے غافل نہیں ہوتے تھے۔
68۔ آپ اپنے پاس درہم و دینار میں سے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے۔
69۔ زمین پر تشریف فرما ہوتے، وہیں پر غذا تناول فرماتے اور زمین پر سویا کرتے تھے۔
70۔ لباس اور کھانے پینے والی چیزوں میں اپنے خدمت گاروں سے زیادہ کوئی چیز آپ کے پاس نہیں تھی۔
71۔ چھوٹی سی نعمت کو آپ بڑی نعمت سمجھتے تھے اور کسی بھی نعمت کی مذمت نہیں کرتے تھے۔
72۔ جو بھی کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے لائی جاتیں تو آپ بغیر کسی اعتراض و تمجید کے اسے تناول فرماتے تھے۔
73۔ دسترخوان پر جب آپ تشریف رکھتے تو اپنے سامنے سے غذا تناول فرماتے تھے۔
74۔ کھانے کے لئے دوسروں سے پہلے حاضر ہوتے اور سب سے آخر میں کھانے سے ہاتھ اٹھاتے تھے۔
75۔ جب تک بھوک نہ لگے، اس وقت تک آپ کچھ تناول نہ فرماتے اور مکمل پیٹ بھرنے سے پہلے آپ کھانے کو ترک کرتے تھے۔
76۔ آپ نے کبھی بھی دو طرح کے کھانے ایک ساتھ تناول نہیں فرمائے۔
77۔ حتی الامکان آپ اکیلے کھانا کھانے سے اجتناب کرتے تھے۔
78۔ کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوتے اور ہاتھوں کو چہرے پر ملتے تھے۔
79۔ آپ اپنے لباس اور جوتوں کو خود پیوند لگایا کرتے تھے۔
80۔ آپ اپنے دست مبارک سے بکریوں کا دودھ دوہتے اور اونٹوں کے پیروں کو رسی باندھتے تھے۔
81۔ جو بھی سواری فراہم ہوتی، اسی پر سوار ہوتے تھے۔
82۔ جہاں بھی جاتے، آپ اپنی عبا کو بچھا کر سوتے تھے۔
83۔ آپ اکثر سفید لباس زیب تن فرماتے تھے۔
84۔ جب بھی آپ نیا کپڑا زیب تن کرتے تو پرانا لباس غریبوں کو عطا فرماتے تھے۔
85۔ آپ اپنے سب سے اچھے لباس کو جمعے کے دن کے لیے مختص کرکے رکھتے تھے۔
86۔ کپڑے اور جوتے پہنتے وقت ہمیشہ داہنے جانب سے پہننا شروع کرتے تھے۔
87۔ بالوں کو گھنگریالہ حالت میں چھوڑے دیکھ کر آپ کراہت محسوس کرتے تھے۔
88۔ آپ ہمیشہ خوشبو استعمال کیا کرتے تھے اور آپ کا سب سے زیادہ خرچہ عطر خریدنے کا تھا۔
89۔ آپ ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور وضو کرتے وقت مسواک کیا کرتے تھے۔
90۔ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز تھی اور نماز کی حالت میں آپ اطمینان و سکون کا احساس کرتے تھے۔
91۔ ہر مہینے کی چودھویں، پندرھویں اور سولہویں کو آپ روزہ رکھا کرتے تھے۔
92۔ اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی بھی نعمت کو آپ بہت بڑی نعمت سمجھتے تھے۔
93۔ نہ کسی کی ملامت کرتے تھے اور نہ کسی کی خوشامد کرتے تھے۔
94۔ لوگوں کے عیبوں کے بارے میں جستجو کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔
95۔ کسی کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔
96۔ کسی کو بھی غلط لقب سے نہیں پکارتے تھے اور بدگوئی سے بھی ہمیشہ اجتناب کرتے تھے۔
97۔ آپ نے ذاتی امور میں کسی سے انتقام نہیں لیا، مگر یہ کہ حق کی بے حرمتی کا خطرہ ہو۔
98۔ آپ اپنے اصحاب کے احترام اور ان کا دل مول لینے کے لئے انہیں کنیہ و القاب سے پکارتے تھے، جن کے لئے کنیہ اور لقب نہ ہو تو ان کے لئے کنیہ قرار دیتے تھے۔ اسی طرح بے اولاد خواتین کے لئے بھی کنیہ معین کرتے تھے، تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔
99۔ آپ اپنے اصحاب کی طرف دیکھنے میں بھی مساوات سے کام لیتے تھے۔
100۔ آپ اپنے اصحاب کے سامنے کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں رکھتے تھے۔
101۔ جب بھی آپ کی اکلوتی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام آپ کے پاس تشریف لے آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ابن عباس کی نقل کے مطابق آیہ تطہیر کے نزول کے بعد سے 9 مہینے تک آپ ہر پنجگانہ نماز کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے پاس جا کر اپنی اہل بیت کو سلام کرنے کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اپنے آخری وقت میں دو گراں بہا چیزیں امت کے پاس امانت چھوڑ گئے، جن میں سے پہلی قرآن مجید اور دوسری آپ کی اہل بیت ہیں۔ آپ نے ان دونوں سے متمسک رہنے، دونوں میں جدائی نہ ڈالنے اور قرآن و اہل بیت کی پیروی کرتے رہنے کی وصیت فرمائی۔
102۔ آپ حضرت امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں بٹھاتے، ان سے پیار کرتے، ان کا بوسہ لیتے اور فرماتے کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد گرامی ان سے بھی افضل ہیں، یہ دونوں دنیا میں میری خوشبو ہیں۔ جو بھی ان دونوں سے محبت کرے تو اس نے مجھ سے محبت کی ہے۔
103۔ گھریلو اوقات کو آپ نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا، ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لئے، ایک حصہ اہل و عیال کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذات کے لئے۔ پھر اپنی ذات سے مختص وقت میں سے آپ لوگوں کے لئے بھی وقت نکالتے تھے۔
104۔ پردے دار دوشیزاؤں سے بھی زیادہ آپ باحیا تھے۔
105۔ آپ امانت کو واپس لوٹاتے تھے، خواہ وہ سوئی کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
106۔ رمضان المبارک میں جو کچھ آپ کے پاس ہوتا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے۔
107۔ آپ ہر وقت آئینے یا پانی میں دیکھ کر بالوں میں کنگھی کیا کرتے اور جب بھی گھر والوں کے پاس یا اصحاب کے پاس جاتے تو آراستہ ہوکر جاتے تھے۔
108۔ پانی پیتے وقت داہنے ہاتھ میں پانی اٹھاتے، اسے تین گھونٹ کرکے پیتے اور ابتدا میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد للہ کا ورد کرتے تھے۔
109۔ آپ جب بھی تین دن تک کسی برادر مؤمن کو نہ دیکھتے تو اس کا حال احوال دریافت کرتے، اگر وہ سفر پر ہو تو اس کے حق میں دعا کرتے، ورنہ اس سے ملنے جاتے۔ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرتے۔
110۔ آپ اللہ کے حضور آہ و زاری کرتے، نیک آداب اور مکارم اخلاق کے حصول اور بداخلاقی سے دور رکھنے کی دعا کرتے تھے۔
الغرض خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر عمل ہمارے لئے بہترین اسوۂ حسنہ ہے اور آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور سرخرو ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق اور آخرت میں آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے، آمین
تحریر: ایس ایم شاہ