سلیمانی

سلیمانی

اسلام ٹائمز۔ چین نے اگست میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کر کے امریکا کو حیران کر دیا۔ فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ پانچ نامعلوم ذرائع نے میزائل کے تجربے کی تصدیق کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی فوج نے ہائپرسونک راکٹ لانچ کیا جس نے "لو اوربٹ" میں دنیا کے گرد چکر لگایا اور اپنے ہدف سے 40 کلومیٹر دور گرا۔ رپورٹ میں لوگوں کو انٹیلی جنس کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے ہائپرسونک ہتھیاروں کے حوالے سے حیرت انگیز پیش رفت کی ہے اور امریکی حکام کے سمجھنے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ امریکا اور روس ہائپرسونک میزائل بھی تیار کر رہے ہیں اور گزشتہ ماہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے ایک نئے تیار کردہ ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ 2019ء کی ایک پریڈ میں چین نے اپنے ہائپرسونک میزائل بشمول ڈی ایف -17 کے نام سے معروف ہتھیاروں کو پیش کیا تھا۔ بیلسٹک میزائل آؤٹر اسپیس (بیرونی خلا) میں اڑتے ہیں۔ ہائپرسونک ہتھیاروں کا دفاع کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ کم اونچائی پر اہداف کی طرف اڑتے ہیں لیکن آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ یا تقریباً 6 ہزار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار حاصل کر سکتے ہیں۔ روس نے 2018ء کے اوائل میں بین البراعظمی ہائپر سپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اس حوالے سے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے "ایونگارڈ" نامی ہائپر سانگ میزائل کے کامیاب تجربے پر کہا تھا کہ ہائپر سپرسانک میزائل سے دفاعی نظام غیر معمولی مضبوط ہو گیا۔ اس سے قبل مارچ 2017ء کو روس نے کنزحال نامی ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا تھا جو آواز کی رفتار سے 10 گنا تیز سفر کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کاظمی قمی کو افغانستان میں اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ایران ، افغانستان میں پائدار امن و صلح کے قیام کے لئے ہمہ گیر تعاون فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

ایرانی صدر نے افغانستان میں مساجد پرحملوں اور مسلمانوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ افغان عوام کے مصائب کو کم کرنے کے سلسلے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔

صدر رئیسی نے قندہار کی فاطمیہ مسجد میں نمازیوں کی شہادت پر افغان عوام ، حکومت اور متاثرہ خاندانوں کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا ہےکہ داعش دہشت گردوں نے امریکہ کے افغانستان میں ناکام اور شکست خوردہ منصوبوں کی تکمیل اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے دہشت گردانہ حملوں کا آغاز کردیا ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ امریکہ نے گذشتہ 20 برسوں میں افغانستان کو بڑے پیمانے پر تباہ وبرباد کیا ہے اور باقی ماندہ کسر اب وہ داعش کے ذریعہ پوری کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کو باہمی اتحاد کے ساتھ امریکہ کے شوم منصوبوں کو ناکام بنانا چاہیے۔

 صدر رئیسی نے کہا کہ ایران ، افغانستان میں پائدار امن و صلح کے قیام کے لئے ہمہ گیر اور جامع تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس سے قبل صدر رئیسی نے اپنے ایک حکم میں  جناب کاظمی قمی کو افغانستان کے امور میں اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا تھا۔

 مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی موجودگی میں کل 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس منعقد ہوگی۔ جس میں دنیائے اسلام کے 52 ممالک کے علماء اور دانشور شرکت کریں گے۔

مجمع تقریب بین المذاہب کے رابطہ عامہ کی رپورٹ کے مطابق 35 ویں عالمی اسلامی وحدت کانفرنس " اسلامی اتحاد، صلح اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تنازعات سے پرہیز" کے عنوان سے منعقد ہوگی۔ کانفرنس کا انعقاد پارسیان آزادی ہوٹل میں ہوگا۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس میں 52 ممالک کے علماء اور دانشور حضوری اور آن لائن شرکت کریں گے جبکہ 35 ویں اسلامی وحدت کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے ایرانی صدر سید ابراہیم رئيسی خطاب کریں گے۔ عالمی اسلامی وحدت کانفرنس کا سلسلہ 19 اکتوبر سے لیکر 24 اکتوبر تک جاری رہےگا۔

 روسی صدر ولادیمیر پوتین نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں موجود داعش دہشت گرد افغانستان میں تیزی سے داخل ہورہے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے افغانستان کی صورتحال کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ عراق اور شام میں موجود دہشت گرد تیزی سے اب افغانستان کا رخ کررہے ہیں، ان دہشت گردوں کے پاس تخریب کاری کا وسیع تجربہ لہذا اب افغانستان میں صورت حال آسان نہیں، اس کے علاوہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ دہشت گرد افغانستان کے پڑوسی ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کریں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار امریکہ ہے۔

 حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کاارشادہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کاشمارہوگا جواصول وفروع اوردیگرشرائط کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل اور  ان پرعامل ہوں گے۔

۱ ۔ شب وروزمیں ۵۱ رکعت نمازپڑھنا۔
۲ ۔سجدگاہ کربلاپرسجدہ کرنا۔
۳ ۔ داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔
۴ ۔اذان واقامت کے جملے دودومرتبہ کہنا۔
۵ ۔ اذان واقامت میں حی علی خیرالعمل کہنا۔
۶ ۔ نمازمیں بسم اللہ زورسے پڑھنا۔
۷ ۔ ہردوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔
۸ ۔ آفتاب کی زردی سے پہلے نمازعصراورتاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔
۹ ۔سراورڈاڑھی میں وسمہ کاخضاب کرنا۔
۱۰ ۔ نمازمیت میں پانچ تکبیرکہنا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۲) ۔

آسمان امامت اور ولایت کے گیارہویں درخشاں ستارے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالی پرایمان رکھنا  اورلوگوں کوفائدہ پہنچانا دوبہترین عادتیں ہیں ۔

آج حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا یوم شہادت ایران اور عالم اسلام میں طبی پروٹوکول کی رعایت اور مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ہر سال 8 ربیع الاول کو فرزند رسول خدا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا یوم شہادت منایا جاتاہے آپ کو معتمد عباسی نے عراق کے شہر سامراء میں زہر دغا سے شہید کردیا تھا۔ آٹھ ربيع الاول سنہ 260 ہجري کي صبح وعدہ ديدار آن پہنچا، دکھ و مصیبت کے ایام اختتام پذير ہوئے- قلعہ بنديوں، نظربندياں اور قيد و بند کے دن تمام ہوئے- ناقدرياں، بےحرمتياں اور جبر و تشدد کا سلسلہ اختتام پذير ہوا- امام حسن عسکري عليہ السلام ايک طرف سے قربِ وصالِ معبود سے شادماں اور نبي اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي امت اور آپ (ص) کي دو امانتوں (قرآن و عترت) کے متعلق فکرمند، غريب الوطني ميں دشمن کے زہر جفا کي وجہ سے بستر شہادت پر درد کي شدت سے کروٹيں بدل رہے ہيں ليکن معبود سے ہم کلام ہونے کو پھر بھي نہ بھولے اور فرزند رسول (ص) نے  نماز تہجد ليٹ کر ادا کي وہ بھي شب جمعہ کو؛ جو رحمت رب العالمين کي شب ہے؛ وہي شب جو آپ (ع) کي پرواز کي شب ہے-

آپ (ع) نے نماز فجر بھي اپنے بستر پر ليٹ کر ہي ادا فرمائي وہ بھي اٹھائيس سال کي عمر اور عين شباب ميں؛ آپ (ع) کي آنکھيں قبلہ کي طرف لگي ہوئي تھيں جبکہ زہر کي شدت سے آپ (ع) کے جسم مبارک پر ہلکا سا رعشہ بھي طاري تھا- آپ (ع) کے لبوں سے بمشکل "مہدي" کا نام آتاتھا اور پھر مہدي آہي گئے اور چند لمحے بعد آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند مہدي (عج) کے سوا کوئي بھي کمرے ميں نہ تھا اور راز و نياز اور امانتوں اور وصيتوں کے لمحات تيزي سے گذر رہے تھے اور ابھي آفتاب طلوع نہيں ہوا تھا کہ گيارہويں امام کي عمر مبارک کا آفتاب غروب ہوا اور آسمان و زمين پر سوگ و عزا کي کيفيت طاري ہوئي-

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعض ارشادات:

     1۔ دوبہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پرایمان رکھے اورلوگوں کوفائدے پہنچائے۔

     2۔ اچھوں کودوست رکھنے میں ثواب ہے۔

     3۔ تواضع اورفروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرے توسلام کرے اورمجلس میں معمولی جگہ بیٹھے۔

      4۔ بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔

      5۔پڑوسیوں کی نیکی کوچھپانا، اوربرائیوں کواچھالناہرشخص کے لیے کمرتوڑدینے والی مصیبت اوربے چارگی ہے۔

    6۔ غصہ ہربرائی کی کنجی ہے۔

    7۔ حسدکرنے اورکینہ رکھنے والے کوکبھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت

گیارہویں امام  حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قیدوبندکی زندکی گزارنے کے دوران ایک دن اپنے خادم ابوالادیان سے ارشادفرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفرمدائن سے ۱۵دن کے بعد پلٹوگے تو میرے گھرسے شیون و بکاکی آواز آتی ہوگی (جلاء العیون ص ۲۹۹) ۔
الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نمازصبح  شہید ہوگئے ۔”اناللہ وانا الیہ راجعون“ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصول المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔

مہر خبررساں ایجنسی نے اسپوٹنک کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان کے شہر قندہار میں شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران زوردار بم دھماکےکے نتیجے میں 33 افراد شہید اور 57  زخمی ہوگئے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شہر قندھار کی بی بی فاطمہ مسجد میں اس وقت زور دار دھماکہ ہوا ہے جب وہاں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔ دھماکہ اتنا خوفناک تھا کہ آس پاس کی عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ عینی شاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسجد میں تین دھماکے ہوئے، پہلا دھماکا مرکزی دروازے پر ہوا، دوسرا وضو خانہ اور تیسرا دھماکا شمالی حصے میں ہوا۔

الجزیرہ کے مطابق قندہار میں شیعہ مسجد میں بم دھماکے میں 33 افراد شہید اور 57 زخمی ہوگئے ہیں۔ دھماکے کے بعد ہر طرف انسانی اعضا بکھر گئے اور مسجد کا فرش خون سے سرخ ہوگیا۔ نمازیوں کی چیخ و پکار قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اہنے عزیزوں کی تلاش میں مسجد کے گرد بڑی تعداد میں لوگ جمع ہونے سے امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا رہا۔

وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سید خوستی نے بتایا کہ قندھار شہر کی شیعہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا ہے جس میں ہمارے درجنوں ہم وطنوں کے جان بحق ہونے کا خدشہ ہے۔ طالبان اہلکار دھماکے کی نوعیت اور نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو قندوز کی مسجد  پر خود کش حملے میں 100 سے زائد افراد شہید  اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے جس کی ذمہ داری وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔

اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نھیں ھوا تھا۔

عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پھلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ھوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
" تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے لئے لباس ھو اور وہ تمھارے لئے لباس ہیں"۔
اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نھایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انھیں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر بتاتے ھوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وھی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم(ص) نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
"عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمھارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے"۔
یھاں بھی عورت کو مرد کے برابر اھمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نھیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اھمیت حاصل ہے۔
یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ھر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اھمیت حاصل ھوتی ہے۔
 لیکن ساتھ ھی اس بات سے بھی انکار نھیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ھو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ھوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناء پر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی لئے قرآن نے مرد کو عورت پر نگران اور"قوامیت " کی فوقیت دی ہے۔
مگر دوسری جانب اسلام نے ھی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔
یھی وہ تعلیمات ہیں جنھوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ھر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔

Monday, 11 October 2021 13:46

اسلام میں نظریہ مھدویت

مھدی موعود (عج) کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پھلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گاو جو آپ کا ھم نام ھوگا اور اس کا لقب مھدی ھوگا اور جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔{یملاء الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورا} “آپ (عج) زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ھوچکی ھوگی۔”

شیعہ امامیہ عقائد کے مطابق مہدی موعود (عج) ان کے بارھویں امام ہیں، جو 15 شعبان 255 ھ ق کو سامراء میں پیدا ھوئے۔ آپ (عج) نے پانچ سال تک اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ زندگی بسر کی اور 260 ھ ق میں اپنے والد بزرگوار کی شھادت کے بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ھوگئے اور سال 329 ھ ق تک آپ (عج) کی طرف سے چار وکیل اور نائب شیعوں کے مسائل حل کرتے رھے۔ اس عرصے کو غیبت صغریٰ کھا جاتا ہے۔
اس کے بعد غیبت کبریٰ کا مرحلہ شروع ھوا اور اس عرصے میں شیعوں کے مسائل کے حل و فصل کی ذمہ داری آپ (عج) کی طرف سے شیعہ عادل فقھاء کے سپرد ھوگئی۔ پس آپ (عج) کی ولادت باسعادت ھوئی، آپ (عج) اس دنیا میں تشریف لائے اور آج تک زندہ ہیں، لیکن آپ (عج) لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں۔
امام مھدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف اھل تشیع حضرات ھی نھیں رکھتے بلکہ اھل سنت کے بھت سے مشھور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، جیسے: ابن حجر ھیثمی (الصواعق المحرقہ)، سید جمال الدین (روضۃ الاحباب)، ابن صباغ مالکی (الفصول المھمۃ)،سبط ابن جوزی (تذکرۃ الخواص)، عبدالرحمن جامی حنفی (شواھد النبوۃ)، حافظ ابو عبداللہ گنجی شافعی (البیان فی اخبار صاحب الزمان) اور (کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین{ع})، ابوبکر بیھقی (شعب الایمان)، کمال الدین محمد بن طلحۃ شافعی (مطالب السووٴل فی مناقب آل الرسول)، حافظ ابو محمد البلاذری (الحدیث المتسلسل) ابو محمد عبداللہ بن الخشاب (تاریخ موالید الائمۃ و و فیاتھم)، شیخ محی الدین بن عربی (الفتوحات المکیۃ)، شیخ عبدالوھاب شعرانی (الیواقیت و الجواھر)، حافظ محمد بخاری حنفی (فصل الخطاب)، حافظ ابو الفتح محمد بن ابی الفوارس (الاربعین)، عبد الحق دھلوی (مناقب و احوال الائمۃ)، حافظ سلیمان قندوزی حنفی (ینابیع المودۃ)، عبداللہ بن محمد المطیری (الریاض الزاھرۃ)، ابوالمعالی سراج الدین الرفاعی (صاح الاخبار فی نسب السادۃ الفاطمیۃ الاخیار)، محمد بن خاوند شاہ (روضۃ الصفا) وغیرہ۔ علاوہ ازیں کتاب منتخب الاثر میں بھت سارے علماء کا نام، جن کی تعداد ساٹھ سے بھی زیادہ ہے ذکر ھوا ہے۔
البتہ اھلسنت کے نزدیک مشھور قول یہ ہے کہ آپ (عج) کی ولادت ابھی تک نھیں ھوئی ہے۔ آپ (عج) کی ولادت آخر الزمان میں ھوگی اور آپ (عج) اس وقت قیام فرمائیں گے، لیکن اھل تشیع نے آپ (عج) کی ولادت باسعادت اور آپ (عج) کی حیات پر عقلی و نقلی دلائل پیش کئے ہیں۔
بعض محققین کی تحقیق کے مطابق مھدی موعود (عج) کے بارے میں اھل سنت کے 60 سے زیادہ معتبر منابع، جن میں صحاح ستۃ بھی شامل ہیں، نیز اھل تشیع کی کتب اربعہ سمیت 90 سے زیادہ معتبر منابع میں احادیث بیان ھوئی ہیں۔ مسلمانوں نے اس مسئلے کی اھمیت کے پیش نظر اسے نہ فقط حدیثی اور کلامی کتابوں میں ذکر کیا ہے، بلکہ اس موضوع پر جداگانہ کتابیں بھی لکھی ہے۔
محمد بن اسحاق بن ابراھیم کوفی (متوفی 275ھ)، پھلا شخص ہے، جس نے پھلی مرتبہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب (صاحب الزمان) کے عنوان سے لکھی۔ مھدی موعود (عج) کےبارے میں موجود احادیث اس حد تک قطعی ہیں کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار بھی (جو عام طور پر اھل تشیع کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں) ان احادیث کے صحیح ھونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ نے مسند احمد، صحیح ترمذی اور سنن ابو داوو سے استناد کرتے ھوئے مھدی موعود (عج) کے بارے میں نقل شدہ احادیث کو صحیح السند قرار دیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابن خلدون ان احادیث کے بارے میں اعتراض کرتے ھوئے لکھتے ہیں: ان میں سے بعض احادیث کے علاوہ تمام احادیث قابل مناقشہ ہیں۔
اسلامی محققین (شیعہ و سنی) نے ابن خلدون کے کلام پر اعتراض کرتے ھوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اھل سنت کے محقق ڈاکٹر عبد الباقی لکھتے ہیں: مھدی موعود (عج) کے بارے میں تقریباً اسی (۸۰) روایتوں پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ موجود ہے، جن کے راویوں کی تعداد ھزاروں تک پھنچ جاتی ہے۔
علاوہ ازیں صحاح و مسانید کے مصنفین نے بھی ان احادیث کو ذکر کیا ہے۔ بنابریں کیا اس عظیم مجموعے کو باطل قرار دے سکتے ہیں؟ اگر ان احادیث کے بارے میں شک کرنا صحیح ھو تو تمام روایات شک کے دائرے میں ھوں گی، جس کے نتیجے میں سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حرف آجائے گا، جبکہ علمائے سلف کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس مسئلے پر خدشہ وارد نھیں کیا، بلکہ گذشہ علماء اس مسئلہ کی تفسیر اور تحلیل کیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں ابن خلدون نے بھت سارے اعتراضات کرنے کے بعد ان احادیث میں سے بعض کے صحیح ھونے کا اقرار بھی کیا ہے۔ واضح ہے کہ اس عقیدے کے بارے میں اگر ایک حدیث بھی موجود ھو، تب بھی اسے چھوڑ نھیں سکتے، بلکہ اسے قبول کرتے ھوئے دوسری متواتر احادیث کو اس کے لئے موٴید قرار دینا چاھیے، اگرچہ یہ احادیث سند کے اعتبار سے کامل نہ بھی ھوں۔
ابن خلدون کے کلام سے بھی زیادہ مضحکہ خیز احمد امین کا کلام ہے، جو نہ فقط مھدی موعود (عج) سے مربوط احادیث کی نفی کرتا ہے، بلکہ کھتا ہے کہ شیعوں نے گھڑا ہے۔ اس کے خیال کے مطابق شیعوں نے بنی امیہ کے عکس العمل میں (کیونکہ انھوں نے عثمان اور دوسرے اصحاب کے فضائل میں احادیث گھڑ لی تھیں) بھت ساری احادیث حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور مھدی موعود کے بارے میں گھڑ لی ہیں، لیکن چونکہ یہ روایات علمائے اسلام کے نزدیک مورد قبول تھیں، اس لئے انھوں نے بھی ان جعلی احادیث کو قبول کر لیا ہے۔ (احمد امین کے اس من گھڑت کلام کا جواب)، پھلی بات یہ کہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل صرف اھل تشیع کی کتابوں میں موجود نھیں ہیں، بلکہ آپ کے وہ تمام فضائل جو شیعہ کتب میں موجود ہیں، اھل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
بنابریں اھل تشیع کو کیا ضرورت تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں احادیث جعل کریں۔ دوسری بات یہ کہ شیعہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں بدترین اجتماعی و سیاسی شرائط کے حامل تھے، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے مسلم فضائل کو بھی نقل نھیں کرسکتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شیعہ کس طرح بنی امیہ کے ردعمل میں احادیث جعل کرسکتے ہیں۔۔ تیسری بات یہ کہ اھل سنت کے محدثین اور مولفین نے کس طرح شیعوں سے مھدی موعود (عج) کے بارے میں جعلی احادیث قبول کیں، حالانکہ ان کے نزدیک کسی روایت کے ضعیف ھونے کے لئے کافی ہے کہ اس کا روای شیعہ ھو۔
مھدی موعود (عج) کے نسب کے بارے میں متعدد روایات نقل ھوئی ہیں، جن میں حسب ذیل نکات کی تاکید ھوئی ہے:
1۔ مھدی موعود امت اسلامی سے ہیں، یہ مطلب بعض روایات میں خاص طریقے سے بیان ھوا ہے۔ علاوہ ازیں آپ (عج) کے نسب کے بارے میں موجود احادیث سے بھی یہ مطلب ثابت ھو جاتا ہے۔ بنابریں مھدی موعود (عج) کے امت اسلامی سے ھونے میں کوئی شک و تردید نھیں ہے۔ البتہ صرف ایک روایت اس طرح سے نقل ھوئی ہے (لا مهدی الا عیسی بن مریم) عیسٰی بن مریم کے علاوہ کوئی اور مھدی نھیں ہے۔ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو یا جعلی قرار دیا ہے یا دوسری متواتر روایات کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اسے غیر معتبر قرار دیا ہے یا اس حدیث کی تاویل کی ہے۔
2۔ مھدی موعود (عج) اھلبیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں۔ اس سلسلے میں 389 احادیث موجود ہیں۔
3۔ مھدی موعود (عج) حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 214 احادیث موجود ہیں۔
4۔ مھدی موعود (عج) حضرت فاطمہ علیھا السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 192 احادیث موجود ہیں۔
5۔ مھدی موعود (عج) امام حسین علیہ السلام کی نسل سے نویں فرزند ہیں۔ اس سلسلے میں 148 احادیث موجود ہیں۔
6۔ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد میں سے ہین، اس سلسلے میں 146 احادیث موجود ہیں۔
مھدی موعود (عج) کے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی اولاد ھونے میں شیعہ اور اھل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ہے، لیکن آپ (عج) کے امام حسن علیہ السلام کی اولاد ھونے یا امام حسین علیہ السلام کی اولاد ھونے کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں۔
اھل تشیع اس بات پر متفق ہیں کہ آپ (عج) امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نظریہ اھلسنت کے یھاں بھی مشھور ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آپ (عج) امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ (عج) امام حسن اور امام حسین علیھم السلام دونوں کے فرزند ہیں۔ مھدی موعود (عج) کے امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کی طرف نسبت قابل توجیہ ہے، یعنی آپ (عج) کا نسب باپ کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور ماں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام پر ختم ھوتا ہے، کیونکہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مادر گرامی جناب فاطمہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔
بنابریں امام باقر علیہ السلام اور آپؑ کے بعد امام زمانہ (عج) تک تمام ائمہ اھلبیت علیھم السلام امام حسن علیہ السلام کی نسل سے بھی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے بھی۔
لھذا امام مھدی (عج) حسینی بھی ہیں اور حسنی بھی۔ لیکن جن روایات میں آپ (عج) کے نسب کو صرف حسنی قرار دیا گیا ہے، وہ قابل استناد نھیں ہیں، کیونکہ ابو داود سے جو روایت نقل ھوئی ہے، اس میں آپ (عج) کو امام حسن علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، جبکہ ترمذی، نسائی اور بیھقی سے جو روایت نقل ھوئی ہیں، اس میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے۔
بنابریں ابو داود کی نقل میں سھواً کلمہ (حسین) کی جگہ پر (حسن) لکھے جانے کا احتمال موجود ہے، کیونکہ ان روایتوں کی تعداد جن میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، بھت ھی زیادہ ہیں اور سند کے لحاظ سے بھی یہ روایات دوسری روایات کی نسبت صحیح تر ہیں۔
بنابریں ان تمام روایات کو چھوڑ کر مذکورہ حدیث {جس میں جناب عیسٰی (ع) کو مھدی موعود قرار دیا گیا ہے} پر استناد نھیں کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی

 اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا ایک حصہ یمن کے امور سے متعلق ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات ابھی تک بند دروازوں کے پیچھے ہورہے ہیں مذاکرات کو آشکار نہیں کیا گيا ۔ مذاکرات کے چار دور عراق کے دارالحکومت بغداد میں منعقد ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری ہے۔ مذاکرات دو طرفہ ، علاقائي اور عالمی امور پر مشتمل ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان  نے صوبہ خراسان کے گورنر کے دورہ افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے افغانستان کے ساتھ عوامی اور تجارتی سطح پر اچھے روابط ہیں۔ خطیب زادہ نے کہا کہ طالبان سمیت افغانستان کے تمام سیاسی گروہوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں ۔ ہم افغانستان میں امن و صلح کے خواہاں ہیں اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جو افغان عوام کے ارادوں پر مشتمل اور وسیع البنیاد ہو۔

خطیب زادہ نے ایران کے نائب وزير خارجہ علی باقری کے دورہ پاکستان کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ پاکستان کے نائب وزیرخارجہ کی دعوت پر انجام پذير ہوا اور علی باقری نے ایران اور پاکستان کے گیارہویں مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس سفر میں افغانستان کی تازہ ترین صورتحال ،دو طرفہ تعلقات کو مضبو ط بنانے اور علاقائي مسائل کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا گيا۔

خطیب زادہ نے قندوز میں دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےکہا کہ  افغان میں امن و سکیورٹی کی ذمہ داری طالبان کے دوش پر ہے اور ایران نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہم ایسے افغانستان کے خواہاں ہیں جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کوئی وجود نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ افغان عوام دہشت گرد اور قتل و غارت سے تنگ آچکے ہیں اور افغان عوام ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جس میں تمام افغان گروہ شامل ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں  ناروے کے شہر اوسلومیں فرنگی کشتی کے عالمی مقابلوں میں ایرانی پہلوانوں کی شاندار کامیابی نیز عوام اور خاص طور پر جوانوں کا دل شاد کرنے پر انھیں مبارکباد اور شاد باش پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فرمایا: آپ کو اور آپ کے کوچ کو شاباش اور مبارکباد ہو ۔ آپ نے عوام اور خاص طور پر جوانوں کے دل کو شاد کیا ہے۔ ان شااللہ ، آپ ہمیشہ کامیاب رہیں ۔