شام، مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام شہید

Rate this item
(0 votes)

شام، مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام شہیدشام میں النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےعین العروس نامی علاقے میں جو شام کے شمال میں واقع ہے مسلمانوں کی اھم زیارتگاہ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کر دیا۔النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےاس گھناونے اقدام کے بعد انٹر نیٹ پر اس کی ویڈیو بھی نشر کی۔

شام میں مقام حضرت ابراھیم(ع) ایک تاریخی اور قدیم ترین آثار میں سے تھا۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی وہابیت کے ٹکڑوں پر پلنے والے النصرہ کے ایجنٹوں نے پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کے مرقد مطہر پر حملہ اور نبش قبر کرکے ان کی ضریح مبارک کو مسمارکردیا اور ان کے جسد اطہر کو جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی تر وتازہ اور خون آلود تھا نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ نبش قبر جیسے غیرانسانی فعل کی نسبت کسی بھی مسلمان کی طرف نہیں دی جاسکتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سینکڑوں بے گناہ بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کا خون بہاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ نوجوانوں کی گردنوں کو بڑی بے رحمی سے تلواروں سے اڑاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور پھر ان لاشوں کی تصاویر کو انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ پر نشر کرتے ہیں اور خود کو مسلمان ثابت کرکے اسلام کا بدترین چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ اقدام ان دہشت گرد عناصر نے کیا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اپنی دہشتگردی کو جہاد کا مقدس نام بھی دیتے ہیں۔ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کر کے اسکی مسماری ان دہشت گردوں کا پہلا گھناونا اقدام نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ان دہشت گردوں نے اسلامی مقدسات اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات کے مزارات کو نشانہ بنایا ہے اور ان کے آقاؤں نے انہدام جنت البقیع جیسا فعل انجام دیا تھا۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) کی نواسی اور سیدالشہداء امام حسین کی ہمشیرہ گرامی حضرت زينب (س) کے مزار کو مارٹر گولوں سے تباہ کرنے کی بارہا کوشش کی ہے۔ یہ دہشت گرد صرف مزارات کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ شام کے نہتے شہری بھی انکی بربریت سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے اندر انتہاء پسندی کی بنیاد رکھنے میں سعودی عرب کا بنیادی ہاتھ ہے، البتہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودی عرب کے ہر اقدام کے پیچھے امریکی اور برطانوی استعمار کا ہاتھ ہوتا ہے، اور اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب اور اسکے بعض عرب اتحادی سلفیت اور تکفیری گروہوں کے ذریعے شام سمیت کئی ملکوں میں امریکی ایجنڈے کو آگئے بڑھا رہے ہیں۔شام میں ہونے والی دہشت گردی میں قطر اور سعودی عرب کا ہاتھ بہت ہی واضح ہے اور وہ میڈیا کے ذریعے واضح طور پر اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ قطر، سعودی عرب اور ترکی شام میں بہنے والے خون کے ہر قطرے اور اسلامی مقدسات کی توہین کے ذمہ دار ہیں اور عالمی برادری کو چاہیے کو وہ ان ممالک کو شامی دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے سے روکے۔

شام میں موجودہ حوادث کے آغاز میں اپریل کے مہینے میں سعودی ولی عہد نائف بن عبدالعزیز نے سعودی جیلوں کا دورہ کیا تھااور القاعدہ کے گرفتار افراد کو شام میں کردار ادا کرنے کی شرط پر رہا کر دیا۔ الظواہری نے گزشتہ جون میں اپنے بیان میں شام کی موجودہ حکومت کے خاتمے کی حمایت کی تھی، علاوہ ازیں مختلف ذرائع کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان، عراق اور یمن سے القاعدہ کے سینکڑوں اراکین کو شام روانہ کیا گیا ہےلہزا شام میں القاعدہ اور النصرہ میں کوئی فرق نہیں

شام کے سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ریاض الاخرس نے بھی القاعدہ اور امریکہ کے مابین شامی حکومت کے خاتمے کے لیے ہم آہنگی کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں کا اتحاد دراصل وائٹ ہاﺅس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہ فقط شام کے ہمسایہ ممالک سے القاعدہ کے ارکان کو رہا کرکے شامی سرحدوں کے قریب بھجوایا گیا ہے، بلکہ برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک سے بھی القاعدہ کے اراکین کو آزاد کرکے اردن وغیرہ بھجوایا گیا ہے، تاکہ انھیں حسب ضرورت شام روانہ کیا جائے اور وہ شام میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں جیسی کارروائیاں کرسکیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسا بڑا ہدف ہے جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور القاعدہ وغیرہ کو یکسو کر دیا ہے۔ شام میں ان قوتوں کے اتحاد کا مقصد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ سب قوتیں عوام دوست اور جمہوریت پسند ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ”ہاں“ وہی کہے گا جو احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور اردن کی موجودہ خاندانی بادشاہتوں کے سرپرستوں کو جمہوریت کتنی عزیز ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔

 

القاعدہ کی ہر کارروائی آج تک امریکہ اور اس کے دوستوں کے مفاد میں تمام ہوئی اور اس کی ہر ضرب کا زخم ہمیشہ مسلمانوں کے بدن پر لگا ہے۔ آج اسرائیل، امریکہ اور القاعدہ شام میں پھر ایک ہوگئے ہیں تو اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے شام کی موجودہ حکومت کا طویل عرصے سے اسرائیل کے خلاف جرات مندانہ موقف۔

شام میں النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےعین العروس میں واقع مسلمانوں کی اھم زیارتگاہ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کیا ہے اور یہ وہی عمل ہے جسکا ارتکاب القاعدہ اور اسکے ہم فکر سلفی و وہابی گروہ اس سے پہلے کرتے رہے ہیں

Read 1405 times