جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی کی مختصر داستان پیدائش 11مارچ 1957ء جائے پیدائش: رابر ،صوبہ کرمان ،ایران القاب: الحاج قاسم ،جنرل ،شیڈو لیڈر تعارف: جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ءکو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے ۔جوانی میں

Rate this item
(0 votes)
جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی کی مختصر داستان پیدائش  11مارچ 1957ء جائے پیدائش: رابر ،صوبہ کرمان ،ایران  القاب: الحاج قاسم ،جنرل ،شیڈو لیڈر  تعارف: جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ءکو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے ۔جوانی میں

ز
11مارچ 1957ء جائے پیدائش: رابر ،صوبہ کرمان ،ایران
القاب: الحاج قاسم ،جنرل ،شیڈو لیڈر
تعارف: جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ءکو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے ۔جوانی میں جنرل قاسم پانی کے محکمے میں ملازمت کرتے تھے، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جنرل قاسم نے 1980ءمیں پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں شمولیت اختیار کی۔جنرل قاسم نے صوبہ کرمان میں 41بریگیڈ(ثاراللہ)کی قیادت کرتے ہوئے ایران عراق جنگ میں حصہ لیا، جسکے بعد جنرل قاسم کی ترقی کی گئی اور انہیں ایرانی فوج کے 10اہم فوجیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ 1998ءمیں جنرل قاسم سلیمانی کو جنرل احمد وحیدی کی جگہ القدس بریگیڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ عملی زندگی: ایران میں شاہی حکومت کے خاتمے کے بعد جب اسلامی حکومت کا آغاز ہوا تو جنرل سلیمانی نے پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی ،جنرل سلیمانی کے مطابق اُس دور میں اُن کی عسکری تربیت محدود پیمانے پر ہونے کے باوجود وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہے تھے، ان کےمطابق ابتداء میں وہ ا یک سپاہی تھے اور ایران کے شمال مغربی حصے میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ جہاں وہ صوبہ مغربی آذربائیجان میں کردی علیحدگی پسند تحریک کا مقابلہ کررہے تھے۔ 22ستمبر 1980ءکو آٹھ سالہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی ایران ،عراق جنگ شروع ہوئی۔ جنرل سلیمانی نے جنگ میں صوبہ کرمان کے جوانوں پر مشتمل ایک بریگیڈ کی قیادت کرتے ہوئے حصہ لیا، اس بریگیڈ میں شامل جوانوں کی تربیت جنرل سلیمانی نے بذات خود کی تھی۔ جلد ہی جنرل سلیمانی نے شہرت پائی اور ایرانیوں سے داد و تحسین حاصل کی، عراق فوجیوں کے قبضے سے ایرانی زمینوں کو پھر سے حاصل کرنے میں جنرل سلیمانی نے اہم کردار ادا کیا تھا اور آخر کار جنرل سلیمانی کو 20،22سال کی عمر میں صوبہ کرمان کی بریگیڈ 41’’ثاراللہ ‘‘کی قیادت سونپ دی گئی۔ جنگ کے اختتام کے بعد جنرل قاسم کو صوبہ کرمان میں پاسداران انقلاب فورس کی قیادت کے لئے منتخب کیا گیا۔یہ صوبہ افغانستان سے قریب ہونیکی وجہ سے افغانستان میں کاشت ہونیوالی منشیات کی گزر گاہ تھی، جسکے ذریعے یہ مواد ترکی اور پھر یورپ سمگل کیے جاتے تھے ۔مگر جنرل سلیمانی نے اس غیر قانونی مواد کی سمگلنگ کا بھرپور مقابلہ کیااورمنشیات سمگلنگ کی روک تھام میں شہرت حاصل کی۔ جنرل سلیمانی کو 1998ء میں القدس بریگیڈ کی کمانڈسونپی گئی جوکہ پاسداران انقلاب کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔2007ء میں جنرل سلیمانی پاسداران انقلاب کی سربراہی کیلئے بھی دیگر چند جنرنلز کیساتھ نامزد ہوئے تھے جب جنرل یحییٰ رحیم صفوی دستبردارہوئے تھے۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کےحکم پر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی، کہاجاتا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر اور جنرل قاسم کے درمیان گہرے تعلقات ہیں اور آیت اللہ علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کو ’’زندہ شہید ‘‘کا لقب دیا ہے۔ موجودہ دور میں جنرل قاسم سلیمانی کو مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور فوجی شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔امریکہ کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہونے کیساتھ ساتھ اُن پر پابندیاںبھی عائد ہیں،سعودی عرب بھی جنرل قاسم ،القدس بریگیڈاور پاسداران انقلاب پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا رہتا ہے، اقوام متحدہ نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کو اپنی قرارداد نمبر 1747کے تحت دہشت گرد افراد کی لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔جنرل قاسم سلیمانی ان تمام الزامات کے برعکس مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انتہائی فعال اور ناقابل فراموش کردار ادا کررہے ہیں۔ عراق میں داعش کیخلاف جنگ میں جنرل قاسم سلیمانی کے کردار سے سبھی واقف ہیں، عراقی حکومت کی گزارش پر جنرل قاسم سلیمانی متعدد عراقی شہروں کو آزاد کرنے کیلئے عراق میں موجود رہے۔ شامی حکومت نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات سے استفادہ کرنے کیلئے ایرانی حکومت سے درخواست کی تھی جس کے بعدجنرل قاسم سلیمانی نے شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی شکست میں فعال کردار ادا کیا-

Read 1313 times