ایران اور ہمسایہ ممالک کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کیلئے اغیار سرگرم ہیں، ولی امر مسلمین

Rate this item
(0 votes)

ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں حکمت عملی اور تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کی عزت و سربلندی، آبرو مندانہ خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔ وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اور سفیروں سے خطاب میں آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہاکہ بعض اوقات خارجہ پالیسی میں مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور مصلحت کا مطلب ہےکہ کہاں نرمی اور لچک دکھانے کی ضرورت ہے اور نرمی کا مطلب،اپنا راستہ ترک کرنا یا ذلت کو قبول کرنا ہرگز نہیں ہے اور نرمی اصولوں کے منافی عمل نہیں ہے۔ آپ نے ایک اچھی خارجہ پالیسی اور مؤثر سفارتی کاری کو ملکی کامیاب انتظامی امور کا بنیادی ستون قرار دیا اور خارجہ پالیسی سے متعلق 6 ضروری اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان ضروری اصولوں کی رعایت ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت ہے اور اگر ان اصولوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو ہمیں خارجہ پالیسی کے نظریے یا سفارت کاری کے امور پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ ولی امر مسلمین نے مختلف مسائل میں ملک کے نقطۂ نظر کی منطق کو اجراء کرنے کی صلاحیت کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی کے پہلے اصول کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے اچھی خارجہ پالیسی اور کارآمد سفارتی ادارے کو ملکی نظام چلانے میں کلیدی حیثیت کا مالک قرار دیا اور خارجہ پالیسی کے چھے اہم ضوابط بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے گوناگوں سیاسی و اقتصادی معاملات، واقعات اور رجحانات میں موثر اور سمت دینے والی موجودگی، ایران کے خلاف خطر آمیز پالیسیوں اور فیصلوں کو رفع اور کم کرنا، خطرہ پیدا کرنے والے مراکز کو کمزور کرنا، ایران کی ہمراہی کرنے والی حکومتوں اور اتحادی آرگنائزیشنز کی تقویت اور ملک کی اسٹریٹیجک گہرائی کی توسیع، علاقائی و عالمی فیصلوں اور اقدامات کی پوشیدہ پرتوں کے ادراک کی صلاحیت کامیاب خارجہ پالسیی کے ضوابط ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں متعدد ملکوں کے ساتھ جن میں بعض بہت اہم اور با اثر ممالک شامل ہیں، ایران کی مشترکہ سرحدوں کا ذکر کیا اور ہمسایہ ممالک سے روابط بڑھانے کی موجودہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک سے ایران کے تعلقات خراب کرنے کے لئے اغیار سرگرم ہیں، ان کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔ انہوں نے عالمی نظام میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ہونے والی بحثوں میں یہ موضوع بار بار دہرایا جانے لگا ہے۔ آپ نے کہا کہ ورلڈ آرڈر کی تبدیلی نشیب و فراز والا ایک طولانی عمل ہے جس پر بہت سے ممکنہ واقعات کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے اور الگ الگ ممالک اس کے بارے میں الگ الگ نظریہ اور رجحان رکھتے ہیں۔

 

 
 
Read 241 times