صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار

Rate this item
(0 votes)
صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار

خدیجہ رضائی نے مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ میرے لئے میڈل سے محروم ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، فلسطینیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہمیں ان کا خیال ہے، اپنے حق اور چند سال کی محنت کے ثمر سے دستبردار ہورہی ہوں تاکہ آپ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کرسکوں۔

مہر خبررساں ایجنسی، گروہ مجلہ؛ ایک مدت تک زخمی ہونے کے بعد گذشتہ ہفتے ذاتی خرچے پر خصوصی اکیڈمی کے ہمراہ عالمی میڈل حاصل کرنے کے لئے جارجیا کا سفر کیا لیکن منفرد سرنوشت اس کی منتظر تھی۔ ایسی تقدیر جس نے دنیا کے سامنے مقابلے کا نیا رخ پیش کیا۔ بین الاقوامی اعزازات کی مالک ایرانی جوجیتسو ٹیم کی رکن خدیجہ رضائی کھیل کے میدان میں واپسی کے بعد ایک اور کامیابی سے چند ہی قدم  کے فاصلے پر ایسا فیصلہ کیا جو کسی فائٹ سے کم نہ تھا۔ اس جوان خاتون کے اس فیصلے کے بارے میں ان کی رائے اور ان کہی باتیں جاننے کے لئے مہر نیوز کے ساتھ ان کا انٹرویو پیش کیا جاتا ہے۔

صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار


جوجیتسو کے کھیل کے بارے میں کچھ بتائیں شاید بعض جوانوں کے لئے یہ کھیل نامانوس ہے۔

جوجیتسو سالوں سے دنیا میں کھیلا جارہا ہے اور تقریبا پوری دنیا اس کے بارے میں جانتی ہے۔ یہ ذاتی دفاع کے لئے بھی استعمال کیا جانے والا کھیل ہے۔ یہ کھیل کراٹے اور جوڈو سے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔ کراٹے کی طرح اس کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ مختلف پوزیشنز پر مقابلے کا اہتمام بھی اسی کے مطابق ہوتا ہے۔ میں نے چونکہ باکسنگ اور ووشو بھی کھیلا ہے اس لئے جوجیتسو میرے لئے دلچسپ تھا۔ 

مہر نیوز: اس سخت کھیل کو کیوں انتخاب کیا؟ نیا ہونے کی وجہ سے سپانسر کے حوالے سے مشکل نہیں ہوئی؟

خدیجہ رضائی: اس کھیل کی مدد کم کی جاتی ہے مخصوصا خواتین کے لئے مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقابلوں میں شرکت کے وقت سخت پروجیکٹ کرنا ہوتا ہے۔ سخت حالات سے پنجہ آزمائی کرنا پرتا ہے جن میں زخمی ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن پھر جوش و جذبے  کے ساتھ مشق کرتی ہوں۔ زخمی ہونے کی وجہ سے علاج کا مرحلہ طے کرتی ہوں تاکہ دوبارہ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرسکوں۔
اس کھیل کے اخراجات زیادہ ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مالی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں لیکن تمام تر سختیوں کے باوجود جوش و جذبے کی وجہ سے اس کھیل کو جاری رکھوں گی اور مشکلات کا مقابلہ کروں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کھیل میں آنے والی لڑکیوں اور خواتین کی مدد ہوجائے۔ ہماری لڑکیاں محنتی اور باصلاحیت ہونے کے باوجود منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔ ان کی مدد نہیں کی جارہی ہے۔ اگر حالات بہتر ہوجائیں تو اس کھیل میں ایران کا مستقبل روشن ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری ذات کے بجائے اس کھیل کی مدد کی جائے۔ جن کھیلوں میں کھلاڑیوں کی بڑی تعداد محنت اور پریکٹس کرتی ہے، ان کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی ہونا چاہئے۔ جوجیتسو کی بھی قومی سطح پر حمایت کی جائے تو ایک مستقل کھیل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

صہیونی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے سے انکار، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایرانی لڑکی میڈل سے دستبردار

مہر نیوز: اب تک کن سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے؟

خدیجہ رضائی: زخمی ہونے کی وجہ سے بغیر کسی وقفے کے فیزیوتھراپی کے لئے جانا پڑا، پریکٹس کے دوران سیکھنے کی کوشش کرتی تھی ہر دفعہ قم سے تہران جانا پڑتا تھا۔ اس سفر کو سختی کے ساتھ طے کرتی تھی۔ ان تمام سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد جب ٹورنامنٹ میں مقابلے کا شیڈول دیکھا تو صہیونی کھلاڑی سے میرا مقابلہ تھا جوکہ نہایت حیرت اور دردناک لمحہ تھا۔ پورا وقت اور توانائی خرچ کرنے کے بعد جب میڈل حاصل کرنے کا موقع آیا تو ناگہانی صورتحال کا سامنا ہونا کسی بھی لحاظ سے خوشگوار نہیں تھا۔

مہر نیوز: آپ نے شدید زخمی ہونے کے بعد خود عالمی مقابلے کے لئے تیار کیا اور صہیونی کھلاڑی سے مقابلہ رکھنے پر احتجاج کرتے ہوئے مقابلے سے دستبردار ہوگئیں، ایسا فیصلہ کیوں کیا؟

خدیجہ رضائی: جی ہاں! جب ٹورنامنٹ کا شیڈول دیکھا تو حیرت میں پڑ گئی لیکن کھلاڑیوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں جن کے بل بوتے پر وہ لڑتے ہیں۔ میں خود کو چمپئن نہیں سجھتی لیکن ہر کوئی اپنے مربی اور کوچ وغیرہ سے جذبات اور آئیڈیا لیتا ہے۔ ہر جگہ کمی بیشی ہوتی ہے جن کے بارے میں گفتگو ہونا چاہئے لیکن بہرحال مجھے یہ فیصلہ کرنا لازم تھا۔

دراصل میں جس صورتحال سے دوچار تھی وہ ظالم اور ظلم کے خلاف احتجاج کا مرحلہ تھا، فلسطین کے مظلوم عوام اور غاصب صہیونیوں کا معاملہ تھا اس کو قبول کرنا میرے لئے ناممکن تھا۔ میں کسی پر ظلم برداشت نہیں کرسکتی تھی اسی لئے ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

میں اس موقع پر خود سے کہا کہ خدیجہ! تم سے سختیاں برداشت کیں لیکن۔۔۔ اب بھی میں یہی کہتی ہوں کہ مجھے ان پر غصہ آرہا ہے۔ یہ ایک موقع تھا جو سال میں ایک مرتبہ ہاتھ آتا ہے میں دو سالوں سے سخت محنت کی تھی۔ اسی دن کے لئے اپنی زندگی کے چار سال گزار دیے تھے تاکہ مقابلے میں شرکت کرکے میڈل حاصل کروں لیکن جب یہ موقع آیا تو خود سے کہا کہ میڈل سے محروم ہونا بڑی بات نہیں ہے لیکن اس فیصلے کے ذریعے فلسطینی عوام کو بتاسکتی ہوں کہ ان حالات میں بھی میں ان کی حمایت کرتی ہوں۔ اپنی حصے کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنے حق اور حقوق سے دستبردار ہورہی ہوں تاکہ معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے آپ کا دفاع کرسکوں۔ کئی سال کی زحمت اور محنت کے پھل کو فلسطینیوں کی حمایت پر قربان کررہی ہوں۔

مہر نیوز: صہیونی لابی انتہائی طاقتور ہے اور آپ کے اس فیصلے کی وجہ سے مستقبل میں آپ کے لئے مشکلات ایجاد کرسکتی ہے چنانچہ دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے، آپ نے ان کے ساتھ نئی جنگ چھیڑی ہے، اس حوالے سے کیا سوچتی ہیں؟

خدیجہ رضائی: یہ امکان ہے کیونکہ وہ ایران کے حوالے سے زیادہ حساس ہیں۔ بعض اوقات دباو سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہماری دستبرداری کی وجہ جان سکیں اور اس کی توجیہ پیش کرسکیں۔ یہ ہمارے لئے پریشان کن ہے لیکن ہم اسرائیل کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتے ہیں میں بھی ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی ہوں اسی لئے میدان میں اترنے سے پہلے ہی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ مجھے اپنے اوپر یقین تھا کہ جتنی محنت کی ہے اس کے بل بوتے پر حریف کو شکست دے کر میدان سے سربلند ہوکر باہر آوں گی لیکن فلسطینیوں کی خاطر اور بے گناہ قتل ہونے والوں کی خاطر اور ان جوانوں کی خاطر جو ورزش کی کم ترین سہولیات سے بھی محروم ہیں، مقابلے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ آج دنیا آگاہی کی دنیا ہے۔ ہم تصاویر دیکھتے ہیں اور حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے جرائم کے بارے میں اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ پوری دنیا کو ان چیزوں کے بارے میں آگاہ ہونا چاہئے۔

 

ں

Read 172 times