انقلاب، امام خمینیؒ اور امریکہ کے غلام

Rate this item
(0 votes)
انقلاب، امام خمینیؒ اور امریکہ کے غلام

انقلابِ اسلامی ایران اور امام خمینیؒ کی شخصیت نے بہت سے در واء کئے ہیں۔ یہ انقلاب دنیا میں مستضعفین کیلئے ایک عظیم مثال ثابت ہوا ہے اور ساتھ ہی امام خمینیؒ کی عظیم شخصیت نے یہ بھی ثابت کیا کہ قرب الہیٰ حاصل کرکے آپ دنیا میں کوئی بھی ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اللہ کی ذاتِ با برکات پر یقینِ کامل کی ایک شاندار روایت ہے، جس نے جہاں مظلوموں کیلئے آس کے چراغ روشن کئے، وہیں اللہ کی ذات سے وابستگی کو بھی کاملیت بخشی، کہ رب کی ذات اُن کی مدد کرتی ہے، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے اس انقلاب نے جہاں اسلام نابِ محمدی کا پرچم بلند کیا، وہیں امام کی پالیسیوں اور حکمتِ عملی سے استعمار کے منحوس و بھیانک چہرے سے نقاب بھی اُترے۔

اس انقلاب نے ثابت کیا کہ استعمار ہمیشہ حکمرانوں اور صاحبانِ اقتدار کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتا ہے اور جب کسی ’’ایجنٹ حکمران‘‘ پر بُرا وقت آتا ہے، تو اسے بے یارو مدد گار چھوڑ دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ شاہِ ایران کیساتھ بھی ہوا۔ انقلاب اسلامی کی روشنی میں جہاں شاہ کی تاریک رات کا خاتمہ ہوا، تو شاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ شاہ، ایران سے تو فرار ہوگیا، مگر اسے پناہ لینے کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ انہیں جن پر تکیہ تھا، وہاں سے مایوسی ملی۔ مصر کے معروف صحافی محمد ہیکل نے اپنی کتاب ’’دی ریٹرن آف آیت اللہ‘‘ میں لکھا ہے کہ شاہ ایران نے ایران سے اپنے فرار کو بھی ایک رنگ دینے کی کوشش کی۔ شاہ ایران نے میڈیا کو یہ بتایا کہ وہ مصر کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں۔ وہ پہلے اردن جانا چاہتے تھے، مگر اردن نے ان کی درخواست پر مثبت جواب نہیں دیا، بلکہ اردن کے شاہ نے بہت ہی اچھے انداز میں ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

اردن بھی صورتحال کو دیکھ رہا تھا، انہیں بھی حقائق کا علم تھا۔ اردن سے صاف جواب ملنے کے بعد شاہ اپنے وفد کو لے کر دریائے نیل کے کنارے اسوان ریزورٹ پہنچ گیا۔ وہاں بھی شاہ ایران نے خود کو ایران کے سربراہِ مملکت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہاں شاہ ایران نے مصر کے صدر انور سادات کیساتھ تین دن ملاقاتیں کیں، مختلف اجلاس منعقد ہوئے اور پانچ روز وہ وہاں مقیم رہے۔ اس موقع پر مصر میں شاہ ایران کی ملاقات سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ سے بھی ہوئی۔ وہاں بھی دال نہ گلی تو شاہ ایران نے آگے کا رختِ سفر باندھ لیا اور 22 جنوری کو مراکش چلے گئے۔ شاہ ایران نے پلان یہ تشکیل دے رکھا تھا کہ وہ مراکش میں 5 دن رہیں گے اور یہاں سے وہ صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یا تو ایران واپسی کا ماحول دیکھیں گے یا پھر امریکہ چلے جائیں گے۔ لیکن صورتحال چونکہ شاہ کیخلاف تبدیل ہوچکی تھی۔ اس لئے امریکہ سے بھی انہیں ’’صاف جواب‘‘ دیدیا گیا۔

امریکہ سے شاہ کے داماد اور امریکہ میں ایران کے سفیر نے انہیں مراکش میں پیغام بھجوایا کہ ’’امریکہ نے اپنی آنکھیں پھیر لی ہیں، وہ آپ کی میزبانی کیلئے بالکل تیار نہیں۔‘‘ شاہ کیلئے یقیناً یہ لمحات حیران کن اور غیر یقینی ہوں گے۔ وہ امریکہ جس کیلئے شاہ ایران نے اپنی ساری زندگی "وقف" کر رکھی تھی، اب مشکل وقت آن پڑا ہے تو امریکہ نے گرکٹ کی طرح رنگ بدل لیا ہے۔ 21 دن بعد مراکش کے شاہ نے اپنے ایک چپڑاسی کو شاہ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ’’ہمارا دل تو کرتا ہے کہ ہم آپ کو یہاں سیاسی پناہ دے دیں، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور ہم چاہتے ہوئے بھی آپ کو یہاں اپنے ملک میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘ یوں شاہ ایران کو یہاں بھی جگہ نہ ملی، لیکن شاہ ایران نے مراکش کے شاہ سے ایک وعدہ لے لیا کہ وہ دفن ہونے کیلئے مراکش میں دو گز زمین لینا چاہتے ہیں، اس سے انکار نہ کیا جائے۔ جس پر مراکش کے شاہ نے وعدہ کر لیا اور زندگی کے آخری دنوں میں شاہ نے مراکش میں ہی قیام کیا اور وہیں 27 جولائی 1980ء میں اسے کینسر نے آ لیا اور وہیں مراکش میں ہی جان دیدی۔ شاہ ایران کو وہیں مراکش میں ہی دفن کر دیا گیا۔

ایران میں جو شاہ کے دست و بازو بنے ہوئے تھے اور شاہ کی ایماء پر ایرانی عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ ایران کی عدالت نے انہیں بھی عبرت کا نشان بنا دیا۔ شاہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’سواک‘‘ کے سربراہ جنرل نصیری کا نمبر آنا لازمی تھا۔ جنرل نصیری نے تو مظالم کی اتنہاء کر رکھی تھی۔ جنرل نصیری کو اپنے قریبی ساتھیوں جنرل ربی اور خولرو دادکر کیساتھ عدالتی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد یہ سب سے پہلا اسلامی نظام کے مطابق فیصلہ تھا، جو عدالت نے دیا، امام خمینیؒ نے صادق خلیلی کو اس کیس کی سماعت کی ہدایت کی۔ عدالت نے تینوں ملزمان کیخلاف چارج شیٹ پیش کی، انہیں صفائی کا پورا پورا موقع دیا گیا، تینوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ ملزمان کے اعتراف کے بعد عدالت نے شرعی قوانین کے عین مطابق فیصلہ سنایا اور تینوں کو گولی مار کر انجام پر پہنچا دیا گیا۔

امام خمینیؒ نے صادق خلیلی کو خصوصی ہدایت کی تھی کہ ملزمان کا موقف بھی سنا جائے اور انہیں اپنی صفائی کا پورا پورا موقع دیا جائے۔ ملزمان نے اپنی چارج شیٹ کو تسلیم کیا اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ دوسری جانب وہ شاہِ ایران، جو کبھی ایران کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، امریکی غلامی میں اس حد تک چلا گیا تھا کہ اسے اپنے عوام سے زیادہ امریکی مفاد عزیز ہوگیا تھا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ اسے ایران میں دفن ہونے کیلئے دو گز زمین تک نہ ملی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ انجام ہوتا ہے، اپنے عوام پر غیروں کے مفادات کو ترجیح دینے والوں کا، یقیناً یہ عبرت ہے، ان حکمرانوں کیلئے بھی جو اب بھی اپنے ملک اور اپنے عوام کی بجائے امریکہ کے مفادات کے محافظ بنے پھرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشکل وقت آن پہنچا تو امریکہ انہیں پناہ دے دے گا، مگر امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مشکل وقت میں کام نہیں آیا کرتا اور یہی امریکہ کی روایت ہے۔

شاہِ ایران کیساتھ بھی یہی کچھ ہوا، امام خمینیؒ کی بصیرت اور حکمت عملی نے جہاں امریکہ کی اس پالیسی کو بے نقاب کیا، وہیں امریکہ کے نمک خواروں کو بھی درسِ عبرت دیا کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کیلئے جینا سیکھیں، جو اپنی قوم کیلئے جیتا ہے، اسے عزت ملتی ہے، ان کے مزارات بنائے جاتے ہیں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں قومیں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتی رہتی ہیں اور جو اپنوں کیساتھ غداری کرتے ہیں، انہیں اپنے ملک میں دفن کیلئے دو گز زمین ملتی ہے، نہ ان کی قبروں پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا ہوتا ہے۔
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
 
 
Read 155 times