مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی خاموش نسل کشی

Rate this item
(0 votes)
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی خاموش نسل کشی

7 اکتوبر کے دن غزہ پر صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت شروع ہونے کے ساتھ ہی مغربی کنارے پر بھی صیہونیوں کے حملوں میں شدت آ گئی اور اسی دن سے مغربی کنارہ بھی فلسطینی مجاہدین اور صیہونی فورسز کے درمیان محاذ جنگ میں تبدیل ہو گیا اور حتی ایک دن بھی یہ جنگ کم نہیں ہوئی۔
بچوں کا قتل عام، غاصب فورسز کا انسان سوز جرم
اس بارے میں الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مغربی کنارے میں غاصب صیہونیوں کی طرف سے انجام پانے والے جرائم کی کچھ مثالیں ذکر کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 29 نومبر کی صبح فلسطینی بچہ "بصال سلیمان ابولوفہ" اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیلنے کی غرض سے جنین شہر میں اپنے گھر سے باہر نکلا۔ اس کے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی اس محلے میں گولی چلنے کی آواز سنائی دی جہاں یہ 15 سالہ فلسطینی بچہ زندگی بسر کرتا تھا۔
 
جب باسل کے اہل خانہ فائرنگ کی آواز سن کر گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے اپنے بیٹے کو خون میں لت پت پایا اور دیکھا کہ اس کے سینے میں کئی گولیاں لگ چکی تھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ باسل کو ہسپتال پہنچاتے وہ جان کی بازی ہار چکا تھا۔ ایک خاتون صیہونی فوجی نے یہ منظر اپنے کیمرے سے ریکارڈ کر لیا۔ اسی دن اسی علاقے، جینین میں ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔ صہیونی فوجیوں نے "آدم سامر" نامی 8 سالہ فلسطینی بچے کو سر میں گولی مار کر شہید کر دیا۔ قابل ذکر ہے کہ دو بچوں کے خلاف یہ 2 پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت انجام پانے والے جرائم ایسے وقت پیش آئے جب غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے تبادلے کیلئے ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی برقرار تھی۔ باسل اور آدم سامر ان 275 فلسطینیوں میں سے دو ہیں جو غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
 
مغربی کنارے پر صیہونی قبضے کا آغاز
غزہ کی پٹی کی طرح مغربی کنارہ بھی 1967ء سے صیہونیوں کے قبضے میں ہے لیکن 2005ء سے غزہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے شدید محاصرے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔ اگرچہ دونوں علاقوں کے درمیان محض 34 کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن آمدورفت ختم ہو جانے کے باعث وہ ایکدوسرے سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود مغربی کنارے نے صیہونی دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت ہر گز ترک نہیں کی اور خود صیہونی بارہا اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مغربی کنارہ نئے فلسطینی انتفاضہ کا نقطہ آغاز بنے گا۔ 1993ء میں غاصب صیہونی رژیم اور فلسطین اتھارٹی کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کی روشنی میں مغربی کنارے اور غزہ میں محدود فلسطینی انتظامیہ قائم کی گئی تھی۔ ساتھ یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ 5 سال بعد صورتحال تبدیل کر دی جائے گی۔
 
لیکن غاصب صیہونی رژیم نے معاہدے کی پابندی نہیں کی جس کے نتیجے میں مغربی کنارہ عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ اگرچہ جنین، طولکرم اور نابلس کے شہر مکمل طور پر فلسطینیوں کے کنٹرول میں ہیں لیکن ان علاقوں پر صیہونی فوج کے حملے کبھی نہیں رکے اور 1967ء میں مغربی کنارے پر قبضے کے بعد سے اب تک صیہونی رژیم اس علاقے میں تقریباً 1 لاکھ 70 ہزار فلسطینیوں کو شہید یا گرفتار کر چکی ہے۔ صرف اس سال صیہونی فورسز نے جنین میں 137 فلسطینی، نابلس میں 88 فلسطینی اور طولکرم میں 55 فلسطینی شہریوں کو شہید کیا ہے۔
مغربی کنارے کا خونریز ترین سال
2023ء کا سال مغربی کنارے میں سب سے زیادہ شہادتوں کا سال ہے۔ غاصب صیہونیوں نے یکم جنوری سے 6 اکتوبر تک 48 بچوں سمیت 208 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔
 
مغربی کنارے میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت
10 دسمبر تک غاصب صیہونی فوج یا آبادکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد 106 تک پہنچ چکی تھی جو 2022ء میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ مغربی کنارے میں شہید ہونے والا سب سے کم عمر فلسطینی بچہ، 3 سالہ "ہیثم التمیمی" تھا جسے اس کے اہلخانہ کے ہمراہ رام اللہ میں سر میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ فلسطین میں بچوں کے دفاع کی بین الاقوامی تحریک کے سربراہ عید ابو قطیش نے اعلان کیا ہے کہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی فوجی جان بوجھ کر آبادی والے علاقوں میں گولیاں چلاتے ہیں جبکہ ان کی جان کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر صیہونی آباد کاروں کے پرتشدد اور وحشیانہ حملوں میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
 
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صیہونی آبادکار یہ حملے غاصب صیہونی فوج کی زیر نگرانی اور اس کی حمایت سے انجام دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے اب تک صہیونی آباد کاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر کم از کم 6022 حملے انجام دیے ہیں۔
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کی پالیسی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1967ء میں مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضے کے بعد صیہونی رژیم نے فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان تمام علاقوں سے بے دخل کر دیا اور ان کے 50 ہزار سے زائد گھر اور دیگر عمارتیں مسمار کر دیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم نے 2009ء سے 2023ء کے درمیان مغربی کنارے میں 10 ہزار سے زائد عمارتیں تباہ کیں جس کے نتیجے میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی جلاوطن ہو گئے۔

تحریر: محمد علی

Read 164 times