غزہ کی جانب رواں دواں گلوبل صمود فلوٹیلا

Rate this item
(0 votes)
غزہ کی جانب رواں دواں گلوبل صمود فلوٹیلا

ایسے وقت جب غزہ کی پٹی انسان سوز محاصرے اور غاصب صیہونی رژیم کی مسلسل بربریت کے نتیجے میں عظیم انسانی المیے کے دہانے پر کھڑی ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا نے بحیرہ روم میں غزہ کی جانب اپنے تاریخی سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کے لیے غزہ کی جانب رواں کشتیوں کے اس قافلے کو دنیا کے 44 مختلف ممالک کی حمایت حاصل ہے اور اس میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے اہم شخصیات سمیت شہری سوار ہیں۔ یہ ایک عظیم اقدام ہے جو غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے سب سے بڑی سمندری کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ اس بیڑے میں فلسطینیوں کے لیے بنیادی ضرورت کی اشیاء اور انسانی امداد بھی منتقل کی جا رہی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا درحقیقت دنیا بھر سے ایسے مظلوم فلسطینی عوام کی عوامی حمایت کا اعلان ہے جو گذشتہ 700 سے زائد دنوں سے صیہونی ظلم اور نسل کشی کے خلاف استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
 
"صمود" عربی کا لفظ ہے جس کا معنی استقامت اور ثابت قدمی ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا نے غزہ کی جانب اپنے سفر کا آغاز یکم ستمبر 2025ء کے روز اسپین کی بندرگاہ بارسلونا سے کیا تھا۔ یہ ایک عظیم کاروان ہے جس میں 70 کے قریب کشتیاں اور سینکڑوں افراد شامل ہیں۔ ان افراد کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے جن میں قانون دان سے لے کر فنکار اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ غزہ کا ظالمانہ محاصرہ توڑ کر مظلوم فلسطینیوں تک کھانے پینے کی اشیاء، ادویہ جات، خشک دودھ اور دیگر میڈیکل سامان پہنچانا ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف 2007ء سے جاری ظالمانہ محاصرہ توڑنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس محاصرے نے 20 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو اسیر بنا رکھا ہے۔ سویڈن سے ماحولیات کے سرگرم رکن گرتا ٹانبرگ، آئرلینڈ سے معروف فنگار لیام کننگ ہام اور جنوبی افریقہ سے نیلسن مینڈیلا کے نواسے نیکوسی زویلیلا مینڈیلا  کی موجودگی نے اس فلوٹیلا کو عالمی رنگ دے دیا ہے۔
 
غزہ، بشریت کے دل میں زخم
اکتوبر 2023ء میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ کے خلاف محاصرہ شدید سے شدیدتر ہوتا گیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش کے بقول غزہ اس وقت "تباہی کی ایک دنیا" میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: اب تک 64 ہزار فلسطینی جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، غاصب صیہونی رژیم کے بے رحمانہ حملوں کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 61 ہزار فلسطینی زخمی ہیں۔ وسیع پیمانے پر قحط پھیل چکا ہے جسے اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر نے "جنگی جرم" قرار دیا ہے اور اس سے سینکڑوں فلسطینیوں کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ صرف گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران صیہونی حملوں میں 84 فلسطینی شہید اور 338 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی بڑی تعداد اب بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہے اور ریسکیو آپریشن کے لیے کوئی وسائل نہیں ہیں۔
 
امید کی لہروں پر خطروں کا سایہ
غاصب صیہونی رژیم نے ابتدا سے ہی گلوبل صمود فلوٹیلا کے خلاف دشمنی پر مبنی موقف اختیار کیا ہے۔ صیہونی رژیم کے وزیر سیکورٹی امور اتمار بن غفیر نے دھمکی دی ہے کہ اس فلوٹیلا میں شامل افراد کو گرفتار کر کے انہیں "دہشت گرد" قرار دیا جائے گا۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رژیم ہر قیمت پر گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ پہنچنے سے روکے گی۔ ایسی رپورٹس ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی اسرائیلی ڈرون اس فلوٹیلا پر پرواز کر رہے ہیں اور اس کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے جتنے بھی بین الاقوامی فلوٹیلا گئے ہیں ان پر صیہونی فوج نے حملہ کیا ہے لہذا اس تناظر میں بھی گلوبل صمود فلوٹیلا کو درپیش خطرات کا احساس کیا جا رہا ہے۔ صمود فلوٹیلا کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ اس فلوٹیلا میں یورپی کشتیاں اور معروف عالمی شخصیات موجود ہیں لہذا اگر اس پر فوجی حملہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ سفارتی بحران کی صورت میں نکلے گا اور حتی اسرائیل کے روایتی اتحادی بھی اس سے دور ہو جائیں گے۔
 
ایسی لہر جو ختم نہیں ہو گی
گلوبل صمود فلوٹیلا محض ایک سمندری اقدام نہیں ہے بلکہ اس وقت ایک بین الاقوامی سمفنی بن چکا ہے۔ مشرقی ایشیا سے لے کر شمالی افریقہ اور یورپ تک 44 ممالک کی کشتیاں اور افراد اس میں شامل ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت کس قدر گہری ہے۔ تیونس کی سات کشتیاں، یونان نے جزیرہ سیروس سے ایک کشتی جبکہ اٹلی نے انسانی امداد کی تنظیم ایمرجنسی کی کشتی "لائف اسپورٹ" کے ذریعے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان تمام کشتیوں سے یہ پیغام ملتا ہے کہ غزہ کی خاطر جدوجہد درحقیقت عالمی انصاف کی خاطر جدوجہد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آئرلینڈ کے فنکار لیام کننگ ہام کے بقول "یہ محاصرہ جو قرون وسطائی تہذیب کی یاد تازہ کرتا ہے ختم ہونا چاہیے۔ ہم یہاں یہ کہنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کہ بشریت ابھی زندہ ہے۔"
 
امید یا ایک بار پھر رونما ہوتا سانحہ؟
گلوبل صمود فلوٹیلا تمام تر خطرات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اقدام انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی برادری کے عزم و ارادے کا امتحان ہے۔ اگر صمود فلوٹیلا کامیابی سے غزہ کے ساحل تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ مظلوم فلسطینیوں کے درد و رنج اور مشکلات میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور صیہونی رژیم نے فوجی طاقت کے ذریعے اس فلوٹیلا پر حملہ کیا تو اس کے شدید سفارتی نتائج ظاہر ہوں گے اور اسرائیل ہمیشہ سے بڑھ کر گوشہ نشینی کا شکار ہو جائے گا۔ صمود فلوٹیلا کی کامیابی عالمی سول تحریکیں مضبوط ہونے اور حکومتوں پر غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے دباو میں اضافہ ہونے کا باعث بنے گی۔ لیکن یہ راستہ بہت زیادہ خطرات کے ہمراہ ہے۔ یہ فلوٹیلا غزہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ فلسطینی عوام کی آواز کی گونج ایک بار پھر دنیا بھر سے سنائی دی ہے۔

تحریر: مہدی سیف تبریزی

Read 5 times