غزہ جنگ کا نیا کمانڈر

Rate this item
(0 votes)
غزہ جنگ کا نیا کمانڈر


شرم الشیخ اجلاس میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے باوجود یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں امن کا قیام ابھی دور ہے، کبھی صیہونی عہدیداروں کی جانب سے حماس کو لیکر دی جانے والی دھمکیاں، علاقہ میں غیر ملکی فوجوں کی آمد اور امریکہ کی پراسرار سرگرمیاں سنجیدہ حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ اسرائیل اور واشنگٹن کا منصوبہ کچھ اور ہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے مقبوضہ سرزمینوں میں فوجی اڈہ قائم کرکے دراصل غزہ اور اسرائیل میں ہونے والی پیشرفت کی زمینی سطح پر کمان سنبھال لی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے کریات گات میں اپنے فوجی اڈہ قائم کرنے کا مقصد یہی نظر آرہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ اب شائد غیر ملکی فوجوں کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکے۔ یہ اڈہ، جو شہر کریات گات میں واقع ہے، ٹرمپ منصوبے کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔

اس منصوبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنا اور غزہ پٹی پر امریکی سکیورٹی نظام مسلط کرنا ہے۔ اخبار یدیعوت آحارونوت کی رپورٹ کے مطابق صہیونی حکومت کی سکیورٹی کابینہ اس ہفتے ایک اجلاس منعقد کرے گی، جو براہِ راست امریکی نمائندوں کی نگرانی میں ہوگا۔ اسی سلسلے میں امریکہ کے نائب صدر جی ڈی ونس تل ابیب پہنچیں گے، تاکہ جَیرڈ کُشنر اور اسٹیو وِٹکاف کے ساتھ مل کر جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور منصوبے کے نفاذ کے عمل کی نگرانی کریں۔ اس عبرانی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل اب ایک "محفوظ امریکی علاقہ" بن چکا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں فیصلے واشنگٹن میں کیے جاتے ہیں اور تل ابیب محض ان احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ امریکی نمائندوں کی کریات گات فوجی اڈے پر موجودگی اور معاہدے کی تفصیلات پر ان کی نگرانی بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واشنگٹن کی مداخلت قابض حکومت کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں کتنی گہری ہوچکی ہے۔

اسرائیل کا ایک سکیورٹی وفد جس میں فوج اور انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہیں، قاہرہ روانہ ہوا ہے، تاکہ جنگ کے بعد کے مرحلے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بارے میں مذاکرات کرسکے۔ تاہم، عبرانی ذرائع اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمینی حقائق کا تعین امریکہ ہی کر رہا ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ کی جانب سے انسانی امداد دوبارہ شروع کرنے کے حکم کے صرف ایک دن بعد ہی اسرائیل نے پیچھے ہٹتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سرحدی راستے کھول دے گا، اگرچہ رفح کراسنگ اب بھی بند ہے، تاکہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی صورتحال واضح ہوسکے۔ کریات گات میں امریکہ کا فوجی اڈہ 200 امریکی فوجیوں کی موجودگی کے ساتھ کام شروع کرچکا ہے اور اس کا کام غیر ملکی فوجی دستوں کی غزہ میں داخلے کی نگرانی کرنا ہے۔ یہ دستے مختلف ممالک، بشمول امارات، انڈونیشیا، آذربائیجان، مصر اور ممکنہ طور پر قطر اور ترکی سے ہوں گے۔ اس اڈے کی کمان امریکی جنرل پاتریک فرانک کے سپرد ہے، جبکہ نائب کمانڈر ایک برطانوی جنرل ہوں گے۔

شائع شدہ اطلاعات کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں ہزاروں غیر ملکی فوجی غزہ میں داخل ہوں گے، جن کا مشن مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور دفاعی ڈھانچوں، بشمول سرنگوں، کو تباہ کرنا ہوگا۔ صہیونی حکومت نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں اپنے قیدیوں کی تلاش کے عمل کو تیز کرنے اور حماس کی طرف سے ان کی واپسی کی ضمانت لینے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ اعلان بھی کیا ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو قیدیوں کی لاشوں کی واپسی اور مزاحمت کے مکمل غیر مسلح ہونے سے مشروط ہوگی۔ یہ پیشرفت اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ امریکہ کھلے عام غزہ کے سیاسی اور سکیورٹی مستقبل کو انجینئر کرنے اور اپنی مرضی فلسطینی عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن عوامی مزاحمت اور مزاحمتی دھاروں کی بیداری کے باعث یہ منصوبہ بھی ماضی کی طرح بلاشبہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔

شرم الشیخ اجلاس کے حوالے سے حماس کا موقف انتہائی سیاسی پختگی پر مبنی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شائد حماس کی قیادت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ٹھوس حکمت عملی کیساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر امریکہ کا نیا منصوبہ نیتن یاہو کا بھی حمایت یافتہ ہے۔ جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہم تو حماس کو ختم نہیں کرسکے، تم آو اور ہماری مدد کرو۔ اگر یوں کہا جائے کہ غزہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا، بلکہ اس کی کمانڈ اسرائیل کی بجائے واشنگٹن نے سنبھال لی ہے۔ اس صورتحال میں پورے خطہ کا امن ایک مرتبہ پھر داو پر لگ رہا ہے۔ امریکہ ہر صورت مقاومت کو براہ راست چیلنج کرنے کی کوشش میں ہے، جہاں یہ صورتحال امریکی براہ راست مداخلت کو واضح کرتی ہے، وہیں اسرائیل کی ناکامی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا وہ عرب و مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک جو ٹرمپ منصوبہ کو "امن منصوبہ" کو نام دے رہے تھے، کہیں ایک بار پھر اہل غزہ کیساتھ خیانت کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔؟

رپورٹ: سید عدیل عباس

Read 6 times