بادشاہت نہیں چاہیئے!

Rate this item
(0 votes)
بادشاہت نہیں چاہیئے!

امام خامنہ ای نے تعلیم اور کھیل کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ایرانی نوجوانوں سے ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ سے ایک تاریخی سوال پوچھا ہے "آپ کیا کر رہے ہیں۔؟!"
1۔ گذشتہ دنوں امریکہ کی 50 ریاستوں اور ملک کے 2,700 شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شدید نعرے بازی کی اور ایک مخصوص نعرہ لگایا "ہمیں بادشاہ نہیں چاہیئے۔" امریکی شہریوں کی ملینوں کی تعداد میں مضبوط موجودگی امریکہ میں جمہوریت کے خاتمے، زوال اور انحطاط کی حقیقی تصویر تھی۔ جدیدیت کے فلسفی، جنہوں نے دو صدیوں تک مغربی جمہوریت کو ترویج دینے کے لیے محنت کی ہے، اپنی قبروں میں کانپ رہے ہونگے کہ مغرب کی عظیم ترین جمہوریت کے دل سے ایک فاشسٹ بادشاہ کا سر کیسے ابھرا ہے۔ نصف صدی قبل جب ایرانی عوام سڑکوں پر نکلے اور "شاہ مردہ باد" کا نعرہ لگایا تو اس بوسیدہ امریکی جمہوریت کے لیڈروں نے ایران کے شاہ کو عوام کو گولی مارنے کا مشورہ دیا۔ لیکن امریکی اس زمین پر سب سے خوش قسمت لوگ ہیں، کیونکہ ان کے بادشاہ نے انہیں گولی نہیں ماری۔ پوری دنیا انتظار کر رہی تھی کہ اس "قومی نفرت" پر امریکی بادشاہ کا ردعمل کیا ہوگا۔؟

عالمی خبر رساں اداروں نے ٹرمپ کے ردعمل کی اطلاع کچھ یوں دی ہے۔ ٹروتھ سوشل پر لوگوں کے مشتعل مظاہروں کے جواب میں، اس نے مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ایک فلم ریلیز کی، جس میں ٹرمپ کو شاہی تاج پہنے "کنگ ٹرمپ" کے ڈیزائن والے فائٹر جیٹ پر سوار اور امریکہ کی سڑکوں پر لاکھوں مظاہرین کے سروں پر رفع حاجت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ خود کو امریکہ کا صدر نہیں سمجھتے اور مظاہرین کی باتوں کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ ہے، صدر نہیں! اور لوگوں کے سروں پر رفع حاجت کرکے وہ امریکہ کے اندر اور باہر امریکی جمہوریت کی بدبو پھیلا رہا ہے۔ انہوں نے اس پیغام کے ساتھ امریکی عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم مارے جانے کے بھی لائق نہیں ہو۔ تم نے مجھے ووٹ دے کر اس "گندگی" کو پالا ہے۔

 مغرب کے سیاسی فلسفی جو ابھی زندہ ہیں، انہوں نے بادشاہ یا بادشاہت کی آڑ میں جمہوریت کی کوئی نئی شکل نہیں دی۔ انہوں نے دنیا کے دوسرے حصوں میں اپنے تقلید کرنے والوں کے کام کی وضاحت نہیں کی ہے۔ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے، جو ایران میں امریکی جمہوریت کے گیت گاتے ہیں کہ وہ یہ  دیکھ لیں کہ امریکی بادشاہ کے پاس عوام کی تنقید یا احتجاج کے جواب میں سوائے ان پر گندگی ڈالنے کے اور کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ جو شخص اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے، وہ دوسرے ممالک میں اپنے حامیوں کے ساتھ کیا کرے گا۔

 امریکی عوام اب کیا کہہ رہے ہیں؟  لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکی قرضہ ساڑھے 37 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے اور ٹرمپ روزانہ اس قرض میں پچیس ارب ڈالر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق 55 فیصد لوگ ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ 62 فیصد لوگ اسے مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں سمجھتے۔ اسی تعداد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکی ٹیکس مقبوضہ فلسطین میں جنگی جرائم اور غزہ اور مغربی کنارے میں بچوں اور خواتین کے وحشیانہ قتل پر خرچ کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ٹرمپ یوکرین کی جنگ، ایران پر حملہ، وینزویلا میں لوگوں کے ساتھ بدسلوکی، چینی پانیوں میں جنگ بندی اور دیگر امور پر امریکی سرمایہ لٹا رہے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کھیلوں کے چیمپیئنوں کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ کو خطاب کرتے ہوئے ان بڑی ریلیوں میں امریکی عوام کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اگر آپ اتنے ہی اہل ہیں تو دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کے بجائے ان لاکھوں لوگوں کو پرسکون کریں اور انہیں ان کے گھروں کو واپس بھیجیں۔

4۔ مغربی ماہرین اور یورپی حکمت عملی کے ماہرین کہتے ہیں: امریکہ 21ویں صدی میں ٹوٹ پھوٹ اور مایوسی کا شکار ہے اور تاریخی زوال اور انحطاط کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکی بادشاہوں نے اپنی جنگی پالیسیوں سے عالمی نظام، بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کو درہم برہم کر دیا ہے اور کوئی نیا نظم نہیں بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشروں کے بالکل نچلے حصے میں ایک سنگین بغاوت نظر آتی ہے اور امریکی پالیسیوں کی مخالفت پانچ براعظموں میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو ایٹمی طاقتیں روس اور چین 120 ناوابستہ ممالک کے ساتھ مل کر تاریخ کے دائیں جانب ایرانی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ اور تین شریر یورپی ممالک کی پالیسیوں کو "نہیں" کہہ رہے ہیں۔ اس حقیقت کا مطلب ہے، ایک نئے نظام کا ظہور اور مغربی اتھارٹی اور امریکی نظام کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے! نیا عالمی نظام کسی بھی علاقے میں بادشاہ اور بادشاہت کو تسلیم نہیں کرتا۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوی

Read 7 times