توبه کرنے والوں کے واقعات

Rate this item
(3 votes)

(( لَقَدْ کَانَ فِي قَصَصِهـم عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِي الْاٴَلْبَابِ---))[1]

”يقينا ان کے واقعات صاحبان عقل کے لئے عبرت هـيں---“-

ايک نمونہ خاتون - آسيہ ،فرعون کي زوجہ

آسيہ ،فرعون کي زوجہ تهـي، وہ فرعون جس ميں غرور و تکبر کا نشہ بهـرا تهـا، جس کا نفس شرير تهـا اور جس کے عقائد اور اعمال باطل وفاسد تهـے-

قرآن مجيد نے فرعون کو متکبر، ظالم ، ستم گر اور خون بهـانے والے کے عنوان سے ياد کيا هـے اور اس کو ”طاغوت“ کا نام ديا هـے-

آسيہ ، فرعون کے ساتهـ زندگي بسر کرتي تهـي، اور فرعوني حکومت کي ملکہ تهـي، تمام چيزيں اس کے اختيار ميں تهـيں-

وہ بهـي اپنے شوهـر کي طرح فرمانروائي کرتي تهـي، اور اپني مرضي کے مطابق ملکي خزانہ سے فائدہ اٹهـاتي تهـي-

ايسے شوهـر کے ساتهـ زندگي، ايسي حکومت کے ساتهـ ايسے دربار کے اندر، اس قدر مال و دولت، اطاعت گزار غلام او رکنيزوں کے ساتهـ ميں اس کي ايک بهـترين زندگي تهـي-

ايک جوان اور قدرتمند خاتون نے اس ماحول ميں پيغمبر الٰهـي جناب موسي بن عمران کے ذريعہ الٰهـي پيغام سنا، اس نے اپنے شوهـر کے طور طريقے اور اعمال کے باطل هـونے کو سمجهـ ليا، چنانچہ نور حقيقت اس کے دل ميں چمک اٹهـا-

حالانکہ اس کو معلوم تهـا کہ ايمان لانے کي وجہ سے اس کي تمام خوشياں اور مقام و منصب چهـن سکتا هـے يهـاں تک کہ جان بهـي جاسکتي هـے، ليکن اس نے حق کو قبول کرليا اور وہ خداوندمهـربان پر ايمان لے آئي،اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ کرلي اور نيک اعمال کے ذريعہ اپني آخرت کو آباد کرنے کي فکر ميں لگ گئي-

اس کا توبہ کرنا کوئي آسان کام نهـيں تهـا، اس کي وجہ سے اسے اپنا تمام مال و دولت اور منصب ترک کرنا پڑا، اور فرعون و فرعونيوں کي ملامت ضرب و شتم کو برداشت کرنا پڑا،ليکن پهـر بهـي وہ توبہ ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت کي طرف قدم آگے بڑهـاتي رهـي-

جناب آسيہ کي توبہ ،فرعون اور اس کے درباريوں کو ناگوار گزري، کيونکہ پورے شهـر ميں اس بات کي شهـرت هـوگئي کہ فرعون کي بيوي اور ملکہ نے فرعوني طور طريقہ کو ٹهـکراتے هـوئے مذهـب کليم اللہ کو منتخب کرليا هـے، سمجهـا بجهـاکر، ترغيب دلاکراور ڈرا دهـمکاکر بهـي آسيہ کے بڑهـتے قدم کو نهـيں روکا جاسکتا تهـا، وہ اپنے دل کي آنکهـوں سے حق کو ديکهـ کر قبول کرچکي تهـي، اس نے باطل کے کهـوکهـلے پن کو بهـي اچهـي طرح سمجهـ ليا تهـا، لہٰذا حق و حقيقت تک پہنچنے کے بعد اس کو هـاتهـ سے نهـيں کهـوسکتي تهـي اور کهـوکهـلے باطل کي طرف نهـيں لوٹ سکتي تهـي-

جي هـاں، يہ کيسے هـوسکتا هـے کہ خدا کو فرعون سے، حق کو باطل سے، نور کو ظلمت سے، صحيح کو غلط سے، آخرت کو دنيا سے، بہشت کو دوزخ سے، اورسعادت کو بدبختي سے بدل لے-

جناب آسيہ نے اپنے ايمان، توبہ و استغفار پر استقامت کي ، جبکہ فرعون دوبارہ باطل کي طرف لوٹا نے کے لئے کوشش کررهـا تهـا-

فرعون نے جناب آسيہ سے مقابلہ کي ٹهـان لي، غضبناک هـوا، اس کے غضب کي آگ بهـڑک اٹهـي، ليکن آسيہ کي ثابت قدمي کے مقابلہ ميں هـار گيا، اس نے آسيہ کو شکنجہ دينے کا حکم ديا، اور اس عظيم خاتون کے هـاتهـ پير کو باندهـ ديا، اور سخت سے سخت سزا دينے کے بعد پهـانسي کا حکم ديديا،اس نے اپنے جلادوں کو حکم ديا کہ اس کے اوپر بڑے بڑے پتهـر گرائے جائيں ،ليکن جناب آسيہ نے دنيا و آخرت کي سعادت و خوشبختي حاصل کرنے کے لئے صبر کيا، اور ان تمام سخت حالات ميں خدا سے لَو لگائے رکهـي-

جناب آسيہ کي حقيقي توبہ، ايمان و جهـاد، صبر و استقامت، يقين اور مستحکم عزم کي وجہ سے قرآن مجيد نے ان کو قيامت تک مومن و مومنات کے لئے نمونہ کے طور پر پہنچوايا هـے،تاکہ هـر زمانہ کے گناهـگار کے لئے عذر و بهـانہ کي کوئي گنجائش باقي نہ رہ جائے اور کوئي يہ نہ کہہ دے کہ توبہ، ايمان اور عمل صالح کا کوئي راستہ باقي نهـيں رهـا تهـا-

(( وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذينَ آمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعُوْنَ اِذْقالَتْ رَبِّ ابْنِ لي عِنْدَکَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنيٖ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہِ وَنَجِّني مِنَ الْقَوْمِ الظّالِمينَ))-[2]

”اورخد ا نے ايمان والوں کے لئے فرعون کي زوجہ کي مثال بيان کي کہ اس نے دعا کي کہ پروردگار ميرے لئے جنت ميں ايک گهـر بنادے اور مجهـے فرعون اور اس کے درباريوںسے نجات دلادے اور اس پوري ظالم قوم سے نجات عطا فرمادے “-

توبہ، ايمان، صبر اور استقامت کي بنا پر اس عظيم الشان خاتون کا مرتبہ اس بلندي پر پہنچا هـوا تهـا کہ رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے ان کے بارے ميں فرمايا:

”اِشْتاقَتِ الْجَنَّةُ اِلٰي اَرْبَعٍ مِنَ النِّساءِ :مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرانَ،وَآسِيَةَ بِنْتِ مُزاحِمٍ زَوْجَةِ فِرْعَوْنَ،وَخَديجَةَ بِنْتِ خُوَيْلَدٍزَوْجَةِ النَّبِيِّ فِي الدُّنْيا وَالآخِرَةِ،وَ فاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ:“-[3]

”جنت چار عورتوں کي مشتاق هـے، مريم بنت عمران، آسيہ بنت مزاحم زوجہ فرعون، خديجہ بنت خويلد دنيا و آخرت ميں هـمسر پيغمبر، اور فاطمہ بنت محمد -“

” شعوانہ “کي توبہ

مرحوم ملا احمد نراقي اپني عظيم الشان اخلاقي کتاب ”معراج السعادة“ ميں حقيقي توبہ کے سلسلہ ميں ايک عجيب و غريب واقعہ بيان کرتے هـيں:

شعوانہ ايک جوان رقّاصہ عورت تهـي، جس کي آواز نهـايت سريلي تهـي ، ليکن اس کو حلال و حرام پر کوئي توجہ نهـيں تهـي، شهـر بصرہ کے مالداروں کے يهـاں فسق و فجور کي کوئي ايسي محفل نہ تهـي جس ميں شعوانہ بلائي نہ جاتي هـو، وہ ان محفلوں ميں ناچ گانا کيا کرتي تهـي ، يهـي نهـيں بلکہ اس کے ساتهـ کچهـ لڑکياں اور عورتيں بهـي هـوتي تهـيں-

ايک روز اپنے سهـيليوں کے ساتهـ ايسي هـي محفلوں ميں جانے کے لئے ايک گلي سے گزر رهـي تهـي کہ اچانک ديکهـا کہ ايک گهـر سے نالہ و شيون کي آواز آرهـي هـے، اس نے تعجب کے ساتهـ سوال کيا: يہ کيسا شور هـے؟ اور اپني ايک سهـيلي کو حالات معلوم کرنے کے لئے بهـيج ديا، ليکن بهـت دير انتظار کے بعد بهـي وہ نہ پلٹي، اس نے دوسري سهـيلي کو بهـيجا، ليکن وہ بهـي واپس نہ آئي، تيسري کو بهـي روانہ کيا اور ہدايت کردي کہ جلد لوٹ کر آنا، چنانچہ جب وہ گئي اور تهـوڑي دير بعد لوٹ کر آئي تو اس نے بتايا کہ يہ سب نالہ و شيون بدکار اور گناهـگار افراد کا هـے!

شعوانہ نے کهـا:  ميں خود جاکر ديکهـتي هـوں کيا هـورهـا هـے-

جيسے هـي وہ وهـاں پہنچي اور ديکهـا کہ ايک واعظ لوگوں کو وعظ کررهـے هـيں، اور اس آيہ شريفہ کي تلاوت کررهـے هـيں:

(( إِذَا رَاٴَتْهـم مِنْ مَکَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهـا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا - وَإِذَا اٴُلْقُوا مِنْهـا مَکَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُورًا))-[4]

”جب آتش (دوزخ) ان لوگوں کو دور سے ديکهـے گي تو يہ لوگ اس کے بهـڑکتے هـوئے شعلوں کي آوازيں سنيں گے- اور جب انهـيں زنجيروں ميں جکڑ کر کسي تنگ جگہ ميں ڈال ديا جائے گا تو وهـاں موت کي دهـائي ديں گے“-

جيسے هـي شعوانہ نے اس آيت کو سنا اور اس کے معني پر توجہ کي ، اس نے بهـي ايک چيخ ماري اور کهـا: اے واعظ ! ميں بهـي ايک گناهـگار هـوں، ميرا نامہ اعمال سياہ هـے، ميں بهـي شرمندہ اور پشيمان هـوں، اگر ميں توبہ کروں تو کيا ميري توبہ بارگاہ الٰهـي ميں قبول هـوسکتي هـے؟

واعظ نے کهـا: هـاں، تيرے گناہ بهـي قابل بخشش هـيں، اگرچہ شعوانہ کے برابر هـي کيوں نہ هـوں!

اس نے کهـا: وائے هـو مجهـ پر، ارے ميں هـي تو ”شعوانہ “هـوں ، افسوس کہ ميں کس قدر گناهـوں

سے آلودہ هـوں کہ لوگوں نے مجهـے گناهـگار کي ضرب المثل بناديا هـے!!

اے واعظ! ميں توبہ کرتي هـوں اور اس کے بعد کوئي گناہ نہ کروں گي، اور اپنے دامن کو گناهـوں سے

بچاؤں گي اور گناهـگاروں کي محفل ميں قدم نهـيں رکهـوں گي-

واعظ نے کهـا: خداوندعالم تيري نسبت بهـي ”ارحم الراحمين“ هـے-

واقعاً شعوانہ نے توبہ کرلي، عبادت و بندگي ميں مشغول هـوگئي ،گناهـوں سے پيدا هـوئے گوشت کو

پگهـلاديا، سوز جگر، اور دل کي تڑپ سے آہ و بکا کرتي تهـي : هـائے ! يہ ميري دنيا هـے، تو آخرت کا

کيا عالم هـوگا، ليکن اس نے اپنے دل ميں ايک آواز کا احساس کيا: خدا کي عبادت ميں مشغول رہ، تب

آخرت ميں ديکهـنا کيا هـوتا هـے-

ايک يهـودي نو جوان کي توبہ

حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے هـيں:

 

ايک يهـودي نوجوان اکثر رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کي خدمت ميں آيا کرتا تهـا ، پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  بهـي اس کي آمد و رفت پر کوئي اعتراض نهـيں کيا کرتے تهـے بلکہ بعض اوقات تو اس کو کسي کام کے لئے بهـيج ديا کرتے تهـے، يا اس کے هـاتهـوں قوم يهـود کو خط بهـيج ديا کرتے تهـے-

ليکن ايک مرتبہ وہ چند روز تک نہ آيا، پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس کے بارے ميں سوال کيا، تو ايک شخص نے کهـا: ميں نے اس کو بهـت شديد بيماري کي حالت ميں ديکهـا هـے شايد يہ اس کا آخري دن هـو، يہ سن کر پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  چند اصحاب کے ساتهـ اس کي عيادت کے تشريف لئے گئے، وہ کوئي گفتگو نهـيں کرتا تهـا ليکن جب آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  وهـاں پہنچے تو وہ آپ کا جواب دينے لگا، چنانچہ رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس جوان کو آواز دي، اس جوان نے آنکهـيں کهـولي اور کهـا: لبيک يا ابا القاسم! آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: کهـو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، واني رسول الله“-

جيسے هـي اس نوجوان کي نظر اپنے باپ کي (ترچهـي نگاهـوں) پر پڑي ، وہ کچهـ نہ کہہ سکا، پيغمبر اکرم  نے اس کو دوبارہ شهـادتين کي دعوت دي ، اس مرتبہ بهـي اپنے باپ کي ترچهـي نگاهـوں کو ديکهـ کر خاموش رهـا، رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے تيسري مرتبہ اس کو يهـوديت سے توبہ کرنے اور شهـادتين کو قبول کرنے کي دعوت دي، اس جوان نے ايک بار پهـر اپنے باپ کي چهـرے پر نظر ڈالي، اس وقت پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: اگر تيري مرضي هـے تو شهـادتين قبول کرلے ورنہ خاموش رہ، اس وقت جوان نے اپنے باپ پر توجہ کئے بغير اپني مرضي سے شهـادتين کہہ ديں اور اس دنيا سے رخصت هـوگيا! پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس جوان کے باپ سے فرمايا: اس جوان کے لاشے کو هـمارے حوالے کردو، اور پهـر اپنے اصحاب سے فرمايا: اس کو غسل دو، کفن پہناؤ، اور ميرے پاس لاؤ تاکہ ميں اس پر نماز پڑهـوں، اس کے بعد اس يهـودي کے گهـر سے نکل آئے آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کهـتے جاتے تهـے:  خدايا تيرا شکر هـے کہ آج تو نے ميرے ذريعہ ايک نوجوان کو آتش جہنم سے نجات ديدي![5]

ايک دهـاتي کي بت پرستي سے توبہ

حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے هـيں: حضرت رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کسي جنگ کے لئے تشريف لے جارهـے تهـے ، ايک مقام پر اپنے اصحاب سے فرمايا: راستے ميں ايک شخص ملے گا، جس نے تين دن سے شيطان کي مخالفت پر کمر باندهـ رکهـي هـے، چنانچہ اصحاب ابهـي تهـوڑي هـي دور چلے تهـے کہ اس بيابان ميں ايک شخص کو د يکهـا، اس کا گوشت ہڈيوں سے چهـپکا هـوا تهـا، اس کي آنکهـيں دهـنسي هـوئي تهـيں، اس کے هـونٹ جنگل کي گهـاس کهـانے کي وجہ سے سبز هـوچکے تهـے، جيسے هـي وہ شخص آگے بڑهـا، اس نے رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کے بارے ميں معلوم کيا، اصحاب نے رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا تعارف کرايا، چنانچہ اس شخص نے پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  سے درخواست کي: مجهـے اسلام تعليم فرمائے : تو آپ نے فرمايا: کهـو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، و اني رسول الله“-چنانچہ اس نے ان دونوں شهـادتوں کا اقرار کيا، آپ نے فرمايا: پانچوں وقت کي نماز پڑهـنا، ماہ رمضان المبارک ميں روزے رکهـنا، اس نے کهـا: ميں نے قبول کيا، فرمايا: حج کرنا، زکوٰة ادا کرنا، اور غسل جنابت کرنا، اس نے کهـا: ميں نے قبول کيا-

اس کے بعد آگے بڑهـ گئے،وہ بهـي ساتهـ تهـا ليکن اس کا اونٹ پيچهـے رہ گيا، رسول اسلام  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  رک گئے، اور اصحاب اس کي تلاش ميں نکل گئے، لشکر کے آخر ميں ديکهـا کہ اس کے اونٹ کا پير جنگلي چوهـوں کے بِل ميں دهـنس گيا هـے اور اس کي اور اس کے اونٹ کي گردن ٹوٹ گئي هـے، اور دونوں هـي ختم هـوگئے هـيں، چنانچہ يہ خبر آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  تک پہنچي-

جيسے هـي آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کو يہ خبر ملي فوراً حکم ديا، ايک خيمہ لگايا جائے اور اس کو غسل ديا جائے، غسل کے بعد خود آنحضرت خيمہ ميں تشريف لے گئے اور اس کو کفن پہنايا، خيمہ سے باهـر نکلے، اس حال ميں کہ آپ کي پيشاني سے پسينہ ٹپک رهـا تهـا، اور اپنے صحاب سے فرمايا: يہ ديهـاتي شخص بهـوکا اس دنيا سے گيا هـے، يہ وہ شخص تهـا جو ايمان لايا، اور اس نے ايمان کے بعد کسي پر ظلم و ستم نهـيں کيا، اپنے کو گناهـوں سے آلودہ نہ کيا، جنت کي حوريں بہشتي پهـلوں کے ساتهـ اس کي طرف آئيں اور پهـلوں سے اس کا منهـ بهـرديا، ان ميں ايک حور کهـتي تهـي: يا رسول اللہ! مجهـے اس کي زوجہ قرار ديں، دوسري کهـتي تهـي: مجهـے اس کي زوجہ قرار ديں![6]

شقيق بلخي کي توبہ

شقيق ”بلخ“ ايک مالدار شخص کا بيٹا تهـا ،وہ تجارت کے لئے ”روم“جايا کرتا تهـا، اور روم کے شهـروں ميں سير و تفريح کے لئے جايا کرتا تهـا، چنانچہ ايک بار روم کے کسي شهـر ميں بت پرستوں کا پروگرام ديکهـنے کے لئے بت خانہ ميں گيا، ديکهـا کہ بت خانہ کا ايک خادم اپنا سرمنڈوائے هـوئے اور ارغواني لباس پہنے هـوئے خدمت کررهـا هـے، اس سے کهـا: تيرا خدا صاحب علم و حکمت اور زندہ هـے،لہٰذا اسي کي عبادت کر، اور ان بے جان بتوں کي عبادت چهـوڑ دے کيونکہ يہ کوئي نفع يا نقصان نهـيں پہنچاتے- اس خادم نے جواب ديا: اگر انسان کا خدا  زندہ اور صاحب علم هـے تو وہ اس بات کي بهـي قدرت رکهـتا هـے کہ تجهـے تيرے شهـر ميں روزي دے سکے، پهـر تو کيوں مال و دولت حاصل کرنے کے لئے يهـاں آيا هـے اور يهـاں پر اپنے وقت اور پيسوں کو خرچ کرتا هـے؟

شقيق سادهـو کي باتيں سن کر خواب غفلت سے بيدار هـوگئے، اور دنيا پرستي سے کنارہ کشي کرلي، توبہ و استغفار کيا ، چنانچہ اس کا شمار  زمانہ کے بڑے عرفاء ميں هـونے لگا-

کهـتے هـيں: ميں نے ۷۰۰/ دانشورں سے پانچ چيزوں کے بارے ميں سوال کيا، سب نے دنيا کي مذمت کے بارے ميں هـي بتايا: ميں نے پوچهـا عاقل کون هـے؟ جواب ديا: جو شخص دنيا کا عاشق نہ هـو،ميں نے سوال کيا: هـوشيار کون هـے؟ جواب ديا: جو شخص دنيا (کي دولت) پر مغرور نہ هـو، ميں نے سوال کيا: ثروتمند کون هـے؟ جواب ملا: جو شخص خدا کي عطا پر خوش رهـے، ميں نے معلوم کيا: نادار کون هـے؟ جواب ديا: جو شخص زيادہ طلب کرے، ميں نے پوچهـا: بخيل کون هـے؟ تو سب نے کهـا: جو شخص حق خدا کو غريبوں اور محتاجوں تک نہ پہنچائے-[7]

فرشتے اور توبہ کرنے والوں کے گناہ

سورہ توبہ کي آيات کي تفسير ميں بيان هـوا هـے کہ فرشتے گناهـگار کے گناهـوں کو لوح محفوظ پر پيش کرتے هـيں، ليکن وهـاں پر گناهـوں کے بدلے حسنات اور نيکياں ديکهـتے هـيں، فوراً سجدہ ميں گرجاتے هـيں، اور بارگاہ الٰهـي ميں عرض کرتے هـيں: جو کچهـ اس بندے نے انجام ديا تهـا هـم نے وهـي کچهـ لکهـا تهـا ليکن اب هـم يهـاں وہ نهـيں ديکهـ رهـے هـيں!  جواب آتا هـے: صحيح کهـتے هـو، ليکن ميرا بندہ شرمندہ اور پشيمان هـوگيا اور روتا هـوا گڑگڑاتا هـوا ميرے در پر آگيا، ميں نے اس کے گناهـوں کو بخش ديا اور اس سے درگزر کيا، ميں نے اس پر اپنا لطف و کرم نچهـاور کرديا، ميں ”اکرم الاکرمين“هـوں-[8]

 

 

گناهـگار اور توبہ کي مهـلت

جس وقت شيطان لعنت خدا کا مستحق قرار ديا گيا تو اس نے خداوندعالم سے روز قيامت تک کي مهـلت مانگي، اللہ نے کهـا: ٹهـيک هـے مگر يہ مهـلت لے کر تو کيا کرے گا؟ جواب ديا: پروردگارا ! ميں آخري وقت تک تيرے بندوں سے دور نهـيں هـوں گا، يهـاں تک کہ اس کي روح پرواز کرجائے، آواز آئي: مجهـے اپني عزت و جلال کي قسم ، ميں بهـي اپنے بندوں کے لئے آخري وقت تک درِ توبہ کو بند نهـيں کروں گا-[9]

گناهـگار اور توبہ کي اميد

ايک نيک اور صالح شخص کو ديکهـا گيا کہ بهـت زيادہ گريہ و زاري کررهـا هـے ، لوگوں نے گريہ و زاري کي وجہ پوچهـي؟ تو اس نے کهـا: اگر خداوند عالم مجهـ سے يہ کهـے کہ تجهـے گناهـوں کي وجہ سے گرم حمّام ميں هـميشہ کے لئے قيد کردوں گا ، تو يهـي کافي هـے کہ ميري آنکهـوں کے آنسو خشک نہ هـوں، ليکن کيا کيا جائے کہ اس نے گناهـگاروں کو عذاب جہنم کا مستحق قرار ديا هـے، وہ جہنم جس کي آگ کو ہزار سال بهـڑکايا گيا يهـاں تک کہ وہ سرخ هـوئي، ہزار سال تک اس کو سفيد کيا گيا، اور ہزار سال اس کو پهـونکا گيا يهـاں تک کہ سياہ هـوگئي، تو پهـر ميں اس ميں کيسے رہ سکتا هـوں؟ اس عذاب سے نجات کي اميد صرف خداوندعالم کي بارگاہ ميں توبہ و استغفار اور عذر خواهـي هـے-[10]

ايک سچا آدمي اور توبہ کرنے والا چور

”ابو عمر زجاجي “ايک نيک اور صالح انسان تهـے، موصوف کهـتے هـيں کہ ميري والدہ کا انتقال هـوگيا، ان کي ميراث ميں مجهـے ايک مکان ملا، ميں نے اس مکان کو بيچ ديا اور حج کرنے کے لئے روانہ هـوگيا، جس وقت سر زمين ”نينوا“پر پہنچا تو ايک چور سامنے آيا اور مجهـ سے کهـا: کيا هـے تمهـارے پاس؟

چنانچہ ميرے دل ميں يہ خيال پيدا هـوا کہ سچائي اور صداقت ايک پسنديدہ چيزهـے، جس کا خداوندعالم نے حکم ديا هـے، اچهـا هـے کہ اس چور سے بهـي حقيقت اور سچ بات کهـوں، چنانچہ ميں نے کهـا: ميري تهـيلي ميں پچاس دينار سے زيادہ نهـيں هـے، يہ سن کر اس چور نے کهـا: لاؤ وہ تهـيلي مجهـے دو، ميں نے وہ تهـيلي اس کو ديدي، چنانچہ اس چور نے ان دينار کو گنا اور مجهـے واپس کردئے، ميں نے اس سے کهـا: کيا هـوا؟ اس نے کهـا: ميں تمهـارے پيسے لے جانا چاهـتا تهـا، ليکن تم تو مجهـے لے چلے، اس کے چهـرے پرشرمندگي اور پشيماني کے آثار تهـے، معلوم هـورهـا تهـا کہ اس نے اپنے گزشتہ حالات سے توبہ کرلي هـے،اپنے سواري سے اترا، اور مجهـ سے سوار هـونے کے لئے کهـا: ميں نے کهـا: مجهـے سواري کي کوئي ضرورت نهـيں هـے، ليکن اس نے اصرار کيا ،چنانچہ ميں سوار هـوگيا، وہ پيدل هـي ميرے پيچهـے پيچهـے چل ديا، ميقات پہنچ کر احرام باندهـا، اور مسجد الحرام کي طرف روانہ هـوئے، اس نے حج کے تمام اعمال ميرے ساتهـ انجام دئے، اور وهـيں پر اس دنيا سے رخصت هـوگيا-[11]

ابو بصير کا پڑوسي

ايک پڑوسي کو اپنے دوسرے پڑوسي کا خيال رکهـنا چاہئے، بالکل ايک مهـربان بهـائي کي طرح ، اس کي پريشانيوں ميں مدد کرے، اس کي مشکلوں کو حل کرے، زمانہ کے حوادث ، بگاڑ سدهـار ميں اس کا تعاون کرے، ليکن جناب ابوبصير کا پڑوسي اس طرح نهـيں تهـا، اس کو بني عباس کي حکومت سے بهـت سا پيسہ ملتا تهـا، اسي طرح اس نے بهـت زيادہ دولت حاصل کرلي تهـي- ابوبصير کهـتے هـيں: هـمارے پڑوسي کے يهـاں چند ناچنے گانے والي کنيزيں تهـي، اور هـميشہ لهـو و لعب اور شراب خوري کے محفليں هـوا کرتي تهـيں جس ميں اس کے دوسرے دوست بهـي شريک هـوا کرتے تهـے، ميں چونکہ اهـل بيت عليهـم السلام کي تعليمات کا تربيت يافتہ تهـا، لہٰذا ميں اس کي اس حرکت سے پريشان تهـا، ميرے ذہن ميں پريشاني رهـتي تهـي، ميرے لئے سخت ناگوار تهـا، ميں نے کئي مرتبہ اس سے نرم لہجہ ميں کهـا ليکن اس نے اَن سني کردي اور ميري بات پر کوئي توجہ نہ دي، ليکن ميں نے امر بالمعروف او رنهـي عن المنکر ميں کوئي کوتاهـي نهـيں کي، اچانک ايک دن وہ ميرے پاس آيا اور کهـا: ميں شيطان کے جال ميں پهـنسا هـوا هـوں، اگر آپ ميري حالت اپنے مولا و آقا حضرت امام صادق عليہ السلام سے بيان کرےں شايد وہ توجہ کريں اور ميرے سلسلہ ميں مسيحائي نظر ڈال کر مجهـے اس گندگي، فساد اور بدبختي سے نجات دلائيں-

ابو بصير کهـتے هـيں: ميں نے اس کي باتوں کو سنا، اور قبول کرليا، ايک مدت کے بعد جب ميں مدينہ گيا اور امام صادق عليہ السلام کي خدمت ميں مشرف هـوا اور اس پڑوسي کے حالات امام عليہ السلام کو سنائے اور اس کے سلسلہ ميں اپني پريشاني کو بهـي بيان کيا-

تمام حالات سن کر امام عليہ السلام نے فرمايا: جب تم کوفہ پہنچنا تو وہ شخص تم سے ملنے کے لئے آئے گا، ميري طرف سے اس سے کہنا: اگر اپنے تمام برے کاموں سے کنارہ کشي کرلو، لهـو و لعب کو ترک کردو، اور تمام گناهـوں کو چهـوڑدو تو ميں تمهـاري جنت کا ضامن هـوں-

ابوبصير کهـتے هـيں: جب ميں کوفہ واپس آيا تو دوست و احباء ملنے کے لئے آئے، اور وہ شخص بهـي آيا، کچهـ دير کے بعد جب و ہ جانے لگا تو ميں نے اس سے کهـا: ذرا ٹهــرو ! مجهـے تم سے کچهـ گفتگو کرنا هـے، جب سب لوگ چلے گئے، اور اس کے علاوہ کوئي باقي نہ رهـا، تو ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام کا پيغام اس کو سنايا، اور مزيد کهـا: امام صادق عليہ السلام نے تجهـے سلام کهـلوايا هـے!

چنانچہ اس پڑوسي نے تعجب کے ساتهـ سوال کيا: تمهـيں خدا کي قسم! کيا واقعاً امام صادق عليہ السلام نے مجهـے سلام کهـلوايا هـے اور گناهـوں سے توبہ کرنے کي صورت ميں وہ ميرے لئے جنت کے ضامن هـيں!!  ميں نے قسم کهـائي کہ امام عليہ السلام نے يہ پيغام مع سلام تمهـارے لئے بهـيجا هـے-

اس نے کهـا:  يہ ميرے لئے کافي هـے، چند روز کے بعد مجهـے پيغام بهـجوايا کہ ميں تم سے ملنا چاهـتا هـوں، اس کے گهـر پر گيا دق الباب کيا، وہ دروازہ کے پيچهـے آکر کهـڑا هـوگيا درحاليکہ اس کے بدن پر لباس نهـيں تهـا اور کهـا: اے ابوبصير ! ميرے پاس جو کچهـ بهـي تهـا سب کو ان کے مالکوں تک پہنچاديا هـے، مال حرام سے سبکدوش هـوگيا هـوں،اور ميں نے اپنے تمام گناهـوں سے توبہ کرلي هـے-

ميں نے اس کے لئے لباس کا انتظام کيا، اور کبهـي کبهـي اس سے ملاقات کے لئے جاتا رهـا، اور اگر کوئي مشکل هـوتي تهـي تو اُس کو بهـي حل کرتا رهـا، چنانچہ ايک روز مجهـے پيغام بهـجوايا کہ ميں بيمار هـوگيا هـوں، اس کي عيادت کے لئے گيا، چند روز تک بيمار رهـا، ايک روز مرنے سے پهـلے چند منٹ کے لئے بے هـوش هـوگيا، جيسے هـي هـوش آيا، مسکراتے هـوئے مجهـ سے کهـا: اے ابوبصير امام صادق عليہ السلام نے اپنے وعدہ کو وفا کرديا، اور يہ کہہ کر اس دنيا سے رخصت هـوگيا-

ابو بصير کهـتے هـيں: ميں اس سال حج کے لئے گيا، اعمال حج بجالانے کے بعد زيارت رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  اور امام صادق عليہ السلام سے ملاقات کے لئے مدينہ منورہ گيا، اور جب امام عليہ السلام سے ملاقات کے لئے مشرف هـوا تو ميرا ايک پاؤں حجرہ کے اندر تهـا اور ايک پاؤں حجرہ سے باهـر اس وقت حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اے ابوبصير! هـم نے تمهـارے پڑوسي کے بارے ميں کيا هـوا وعدہ پورا کرديا هـے![12]

شراب خور اور توبہ

مرحوم فيض کاشاني ،جو خود فيض و دانش کا سر چشمہ اور بصيرت کا مرکز تهـے موصوف اپني عظيم الشان کتاب ”محجة البيضاء“ ميں نقل کرتے هـيں:

ايک شراب خوار شخص تهـا جس کے يهـاں گناہ و معصيت کي محفل سجائي جاتي تهـي ،ايک روز اس نے اپنے دوستوں کو شراب خوري اور لهـوو لعب کے لئے دعوت دي اور اپنے غلام کو چار درهـم دئے تاکہ وہ بازار سے کچهـ کهـانے پينے کا سامان خريد لائے-

غلام راستہ ميں چلا جارهـا تهـا کہ اس نے ديکهـا منصور بن عمار کي نششت هـورهـي هـے، سوچا کہ ديکهـوں منصور بن عمار کيا کہہ رهـے هـيں؟ تو اس نے سنا کہ عمار اپنے پاس بيٹهـنے والوں سے کچهـ طلب کررهـے هـيں اور کہہ رهـے هـيں کہ کون هـے جو مجهـے چار درهـم دے تاکہ ميں اس کے لئے چار دعائيں کروں؟ غلام نے سوچا کہ ان معصيت کاروں کےلئے طعام وشراب خريدنے سے بهـتر هـے کہ يہ چار درهـم منصور بن عمار کو ديدوں تاکہ ميرے حق ميں چار دعائيں کرديں-

يہ سوچ کر اس نے وہ چار درهـم منصور کو ديتے هـوئے کهـا:  ميرے حق ميں چار دعائيں کردو، اس وقت منصور نے سوال کيا کہ تمهـاري دعائيں کيا کيا هـيں بيان کرو، اس نے کهـا: پهـلي دعا يہ کرو کہ خدا مجهـے غلامي کي زندگي سے آزاد کردے، دوسري دعا يہ هـے کہ ميرے مالک کو توبہ کي توفيق دے، اور تيسري دعا يہ کہ يہ چار درهـم مجهـے واپس مل جائيں ، اور چوتهـي دعا يہ کہ مجهـے اور ميرے مالک اور اس کے اهـل مجلس کو معاف کردے-

چنانچہ منصور نے يہ چار دعائيں اس کے حق ميں کيں اور وہ غلام خالي هـاتهـ اپنے آقاکے پاس چلا گيا-

اس کے آقا نے کهـا:  کهـاں تهـے؟ غلام نے کهـا:  ميں نے چار درهـم دے کر چار دعائيں خريدي هـيں، تو آقا نے سوال کيا وہ چار دعائيں کيا کيا هـيں کيا بيان تو کر؟ تو غلام نے کهـا: پهـلي دعا يہ تهـي کہ ميں آزاد هـوجاؤں، تو اس کے آقا نے کهـا جاؤ تم راہ خدا ميں آزاد هـو، اس نے کهـا: دوسري دعا يہ تهـي کہ ميرے آقا کو توبہ کي توفيق هـو، اس وقت آقا نے کهـا: ميں توبہ کرتا هـوں، اس نے کهـا: تيسري دعا يہ کہ ان چار درهـم کے بدلے مجهـے چار درهـم مل جائيں، چنانچہ يہ سن کر اس کے آقا نے چار درهـم عنايت کردئے ، ’اس نے کهـا: چوتهـي دعا يہ کہ خدا مجهـے، ميرے مالک او راس کے اهـل محفل کو بخش دے ، يہ سن کر اس کے آقا نے کهـا: جو کچهـ ميرے اختيار ميں تهـا ميں نے اس کو انجام ديا، تيري ، ميري اور اهـل مجلس کي بخشش ميرے هـاتهـ ميں نهـيں هـے-چنانچہ اسي رات اس نے خواب ميں ديکهـا کہ هـاتف غيبي کي آواز آئي کہ اے ميرے بندے!  تو نے اپنے فقر وناداري کے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل کيا،کيا هـم اپنے بے انتهـا کرم کے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل نہ کريں، هـم نے تجهـے، تيرے غلام اور تمام اهـل مجلس کو بخش ديا-[13]

 توبہ کے ذريعہ مشکلات کا دور ھونا

”جابر جعفي“ مکتب اھل بيت عليھم السلام کے معتبر ترين راويوں ميں سے تھے، وہ حضرت رسول اکرم سے روايت کرتے ھيں: تين مسافر سفر کرتے ھوئے ايک پھاڑ کي غار ميں پہنچے، وھاں پر عبادت ميں مشغول ھوگئے ، اچانک ايک پتھر اوپر سے لڑھک کر غار کے دھانے پر آلگا اسے ديکھ کر ايسا معلوم ھوتا تھا جيسے وہ دروازہ بند کرنے کے لئے ھي بنايا گيا ھو ، چنانچہ ان لوگوں کو وھاں سے نکلنے کا کوئي راستہ دکھائي  نہ ديا!

 پريشان ھوکر يہ لوگ ايک دوسرے سے کہنے لگے: خدا کي قسم يھاں سے نکلنے کا کوئي راستہ نھيں ھے، مگر يہ کہ خدا ھي کوئي لطف و کرم فرمائے، کوئي نيک کام کريں ، خلوص کے ساتھ دعا کريں اور اپنے گناھوں سے توبہ کريں-

ان ميں سے پھلا شخص کھتا ھے: پالنے والے!  تو (تو جانتا ھے) کہ ميں ايک خوبصورت عورت کا عاشق ھوگيا تھا بھت زيادہ مال و دولت اس کو ديا تا کہ وہ ميرے ساتھ آجائے، ليکن جونھي اس کے پاس گيا، دوزخ کي ياد آگئي جس کے نتيجہ ميں اس سے الگ ھوگيا ؛ پالنے والے ! اسي عمل کا واسطہ ھم سے اس مصيبت کو دور فرما اور ھمارے لئے نجات کا سامان فراھم فرمادے ، بس جيسے ھي اس نے يہ کھا تو وہ پتھر تھوڑا سا کھسک گيا ھے -

دوسرے نے کھا:  پالنے والے!  تو جانتا ھے کہ ايک روز ميں کھيتوں ميں کام کرنے کے لئے کچھ مزدور لايا، آدھا درھم ان کي مزدوري معين کي، غروب کے وقت ان ميں سے ايک نے کھا: ميں نے دو مزدورں کے برابر کام کيا ھے لہٰذا مجھے ايک درھم ديجئے، ميں نے نھيں ديا، وہ مجھ سے ناراض ھوکر چلا گيا، ميں نے اس آدھے درھم کا زمين ميں بيج ڈالديا، اور اس سال بھت برکت ھوئي- ايک روز وہ مزدور آيا اور اس نے اپني مزدوري کا مطالبہ کيا، تو ميں نے اس کو اٹھارہ ہزار درھم دئے جو ميں نے اس زراعت سے حاصل کئے تھے، اور چند سال تک اس رقم کو رکھے ھوئے تھا، اور يہ کام ميں نے تيري رضا کے لئے انجام ديا تھا، تجھے اسي کام کا واسطہ ھم کو نجات ديدے- چنانچہ وہ پتھر تھوڑا اور کھسک گيا-

تيسرے نے کھا:  پالنے والے!  (تو خوب جانتا ھے کہ) ايک روز ميرے ماں باپ سورھے تھے ميں ان کے لئے کسي ظرف ميں دودھ لے کر گيا، ميں نے سوچا کہ اگر يہ دودھ کا ظرف زمين پر رکھ دوں تو کھيں والدين جاگ نہ جائےں، اور ميں نے ان کو خود نھيں اٹھايا بلکہ وہ دودھ کا ظرف لئے کھڑارھا يھاں تک کہ وہ خود سے بيدار ھوں- پالنے والے توخوب جانتا ھے کہ ميں نے وہ کام اور وہ زحمت صرف تيري رضا کےلئے اٹھائي تھي، پالنے والے اسي کام کے صدقہ ميں ھميں اس مصيبت سے نجات ديدے- چنانچہ اس شخص کي دعا سے پتھر او رکھسکا اور يہ تينوں اس غار سے باھر نکل آئے-[14]

ايک کفن چور کي توبہ

معاذ بن جبل روتے ھوئے رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کي خدمت ميں حاضر ھوئے اور آنحضرت کو سلام کيا، آپ نے جواب سلام ديتے ھوئے فرمايا: تمھارے رونے کي وجہ کيا ھے؟ تو انھوں نے کھا: ايک خوبصورت جوان مسجد کے پاس کھڑا ھوا اس طرح رورھا ھے جيسے اس کي ماں مرگئي ھو، وہ چاھتا ھے آپ سے ملاقات کرے، چنانچہ يہ سن کر آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: اس کو مسجد ميں بھيج دو، وہ جوان مسجد ميں داخل ھوا اور رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کو سلام کيا، آنحضرت نے جواب سلام ديا اور فرمايا: اے جوان ! رونے کي وجہ کيا ھے؟ اس نے عرض کيا: ميں کيوں نہ روؤں حالانکہ ميں نے ايسے ايسے گناہ انجام دئے ھيں کہ خدا وندعالم ان ميں سے بعض کي وجہ سے مجھے جہنم ميں بھيج سکتا ھے، ميں تو يہ مانتا ھوں کہ مجھے ميرے گناھوں کے بدلے دردناک عذاب ديا جائے اور خداوندعالم مجھے بالکل معاف نھيں کرسکتا-

پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: کيا تو نے خدا کے ساتھ شرک کيا ھے؟ اس نے کھا: نھيں، ميں شرک سے پناہ چاھتا ھوں، آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: کيا کسي نفس محترمہ کا قتل کيا ھے؟ اس نے کھا: نھيں، آپ نے فرمايا: خداوندعالم تيرے گناھوں کو بخش دے گا اگرچہ بڑے بڑے پھاڑوں کے برابر ھي کيوں نہ ھو، اس نے کھا: ميرے گناہ بڑے بڑے پھاڑوں سے بھي بڑے ھيں، اس وقت پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: خداوندعالم تيرے گناھوں کو ضروربخش دے گا چاھے وہ ساتوں زمين ،دريا ، درخت ، ذرات اور زمين ميں دوسري موجوات کے برابر ھي کيوں نہ ھوں، بے شک تيرے گناہ قابل بخشش ھيں اگرچہ آسمان، ستاروں اورعرش و کرسي کے برابر ھي کيوں نہ ھوں! اس نے عرض کيا: ميرے گناہ ان تمام چيزوں سے بھي بڑے ھيں! پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے غيض کے عالم ميںاسے ديکھا اور فرمايا: اے جوان! تيرے اوپر افسوس ھے! کيا تيرے گناہ زيادہ بڑے ھيں يا تيرا خدا؟

يہ سن کر وہ جوان سجدے ميں گرپڑا اور کھا: پاک و پاکيزہ ھے ميرا پروردگار، يا رسول اللہ ! اس سے بزرگتر تو کوئي نھيں ھے، ميرا خدا تو ھر عظيم سے عظيم تر ھے، اس وقت آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: کيا بڑے گناھوں کو خدائے بزرگ کے علاوہ بھي کوئي معاف کرسکتا ھے؟ اس جوان نے کھا: نھيں يا رسول اللہ! قسم بخدا نھيں، اور اس کے بعد وہ خاموش ھوگيا-

پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس سے فرمايا: اے جوان وائے ھو تجھ پر! کيا تو مجھے اپنے گناھوں ميں سے کسي ايک گناہ کو بتاسکتا ھے؟ اس نے کھا: کيوں نھيں، ميں سات سال سے قبروں کو کھول کر مردوں کو باھر نکالتا ھوں اور ان کا کفن چوري کرليتا ھوں!

قبيلہ انصار سے ايک لڑکي کا انتقال ھوا ، جب لوگ اس کو دفن کرکے واپس آگئے، ميں رات ميں گيا، اس کو باھر نکالا، اور اس کا کفن نکال ليا، اس کو برہنہ ھي قبر ميں چھوڑديا، جب ميں واپس لوٹ رھا تھا شيطان نے مجھے ورغلايا، اور اس کے لئے ميري شھوت کو ابھارا، شيطاني وسوسہ نے اس کے بدن اور خوبصورتي نے مجھے اپنے جال ميں پھنسا ليا يھاں تک نفس غالب آگيا اور واپس لوٹا اور جوکام نھيں کرنا چاہئے تھا وہ کربيٹھا!!

اس وقت گويا ميں نے ايک آواز سني: اے جوان! روز قيامت کے مالک کي طرف سے تجھ پر وائے ھو! جس دن تجھے اور مجھے اس کي بارگاہ ميں پيش کيا جائے گا، ھائے تونے مجھے مردوں کے د رميان برہنہ کرديا ھے، مجھے قبر سے نکالا، ميرا کفن لے چلا اور مجھے جنابت کي حالت ميں چھوڑ ديا، ميں اسي حالت ميں روز قيامت محشور کي جاؤں گي، واے ھو تجھ پر آتش جہنم کي!

يہ سن کر پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے بلند آواز ميں پکارا: اے فاسق! يھاں سے دور چلاجا، ڈرتا ھوں کہ تيرے عذاب ميں ميں بھي جل جاؤں! تو آتش جہنم سے کتنا نزديک ھے؟!

وہ شخص مسجد سے باھر نکلا، کچھ کھانے پينے کا سامان ليا اور شھر سے باھر پھاڑ کي طرف چل ديا، حالانکہ موٹا اور کھردرا کپڑا پہنے ھوئے تھا، اور اپنے دونوں ھاتھوں کو اپني گردن سے باندھے ھوئے تھااور پکارتا جاتا تھا: خداوندا!  يہ بھلول تيرا بندہ ھے، ھاتھ بندھے تيري بارگاہ ميں حاضر ھے- پالنے والے!  تو مجھے جانتا ھے، ميرے گناھوں کو بھي جانتا ھے، ميں آج تيرے پشيمان بندوں کے قافلہ ميں ھوں، توبہ کے لئے تيرے پيغمبر کے پاس گيا تھا ليکن اس نے بھي مجھے دور کردياھے، پالنے والے تجھے تيري عزت و جلال اور سلطنت کا واسطہ کہ مجھے نااميد نہ کرنا، اے ميرے مولا و آقا! ميري دعا کو ردّ نہ کرنا اوراپني رحمت سے مايوس نہ کرنا-

وہ چاليس دن تک دعا و مناجات اورگريہ و زاري کرتا رھا، جنگل کے درندے اور حيوانات اس کے رونے سے روتے تھے! جب چاليس دن ھوگئے تو اپنے دونوں ھاتھوں کو بلند کرکے بارگاہ الٰھي ميں عرض کيا: پالنے والے ! اگر ميري دعا قبول اور ميرے گناہ بخش دئے گئے ھوں تو اپنے پيغمبر کو اس کي خبر دےدے، اور اگر ميري دعا قبول نہ ھوئي ھو اور ميرے گناہ بخشے نہ گئے ھوں نيز مجھ پر عذاب کرنے کا ارادہ ھو تو ميرے اوپر آتش نازل فرما تاکہ ميں جل جاؤں يا کسي دوسري عقوبت ميں مبتلا کردے تاکہ ميں ھلاک ھوجاؤں، بھر حال قيامت کي ذلت و رسوائي سے مجھے نجات ديدے-

چنانچہ اس موقع پر درج ذيل آيات نازل ھوئيں:

((وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھم ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِھم وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَي مَا فَعَلُوا وَھم يَعْلَمُونَ))-[15]

”اور يہ وہ لوگ ھيں کہ جب کوئي نماياں گناہ کرتے ھيں يا اپنے نفس پر ظلم کرتے ھيں تو خدا کو ياد کرکے اپنے گناھوں پر استغفار کرتے ھيں اور خدا کے علاوہ کون گناھوں کو معاف کرنے والاھے اور وہ اپنے کئے پر جان بوجھ کر اصرار نھيں کرتے “-

((اٴُوْلَئِکَ جَزَاؤُھم مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّھم وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنْھارُ خَالِدِينَ فِيھا وَنِعْمَ اٴَجْرُ الْعَامِلِينَ))-[16]

”يھي وہ لوگ ھيں جن کي جزا مغفرت ھے اور وہ جنت ھے جس کے نيچے نھريں جاري ھيں -وہ ھميشہ اسي ميں رہنے والے ھيں اور عمل کرنے کي يہ جزا بھترين جزاھے“-
 

ان دونوں آيتوں کے نزول کے بعد پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  مسکراتے ھوئے ان دو آيتوں کي تلاوت فرماتے ھوئے باھر تشريف لائے اور فرمايا: کوئي ھے جو مجھے اس توبہ کرنے والے جوان تک پہنچائے؟

معاذ بن جبل کھتے ھيں: يا رسول اللہ  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم !ھميں خبر ملي ھے کہ وہ جوان مدينہ سے باھر پھاڑوں ميں چھپا ھوا ھے، رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  اپنے اصحاب کے ساتھ پھاڑ تک گئے ليکن جب وہ نہ ملا تو پھر پھاڑ کي بلندي پر پہنچے تو اس کو دو پتھروں کے درميان ديکھا کہ اپنے دونوں ھاتھ گردن سے باندھے ھوئے ھے، گرمي کي شدت سے اس کے چھرہ کا رنگ سياہ ھوگيا ھے، زيادہ رونے سے اس کي پلکيں گرچکي ھيںاور کھتا جاتا ھے: اے ميرے مولا و آقا!  ميري پيدائش اچھي قرار دي، ميراچھرہ خوبصورت بنايا، ميں نھيں جانتا کہ ميرے متعلق تيرا کيا ارادہ ھے، کيا مجھے آتش جہنم ميں جگہ دے گا يا اپنے جوار رحمت ميں جگہ   دے گا؟

خدايا !  پروردگار!  تو نے مجھ پر بھت احسان کئے ھيں اس ناچيز بندے پر تيري نعمتيں سايہ فگن ھيں، ميں نھيں جانتا کہ ميرا انجام کيا ھوگا، کيا مجھے بہشت ميں رکھے گا يا آتش جہنم ميں ڈالے گا؟

خدايا ! ميرے گناہ زمين و آسمان، عرش و کرسي سے بڑے ھيں، ميں نھيں جانتا ميرے گناہ کو بخش ديگا ،يا روز قيامت مجھے ذليل وخوار کرے گا-اس کي زبان پر يھي کلمات جاري ھيں، آنکھوں سے آنسو بہہ رھے ھيں، اور اپنے سر پر خاک ڈالتا جاتا ھے، حيوانات اس کے اردگرد جمع ھيں، پرندوں نے اس کے اوپر سايہ کيا ھوا ھے، اور اس کے ساتھ رورھے ھيں-

آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  اس کے نزديک آئے اس کے ھاتھوں کو کھولا، اس کے چھرہ کو صاف کيا اور فرمايا: اے بھلول ! تجھے بشارت ھو کہ خداوندعالم نے تجھے آتش جہنم سے آزاد کرديا ھے، اور اس کے بعد اصحاب کي طرف رخ کيا اور فرمايا: جس طرح بھلول نے گناھوںکي تلافي کي ھے تم بھي اسي طرح اپنے گناھوں کا جبران اور تلافي کرو، اور اس کے بعدان دونوں آيات کي تلاوت کي، اور بھلول کو بہشت کي بشارت دي-[17]

فضيل عياض کي توبہ
فضيل اگرچہ شروع ميں ايک راہزن تھا اور اپنے ساتھيوں کي مدد سے قافلوں کو روک کر ان کا مال و دولت چھين ليا کرتا تھا، ليکن فضيل کي مروت و ھمت بلند تھي، اگر قافلہ ميں کوئي عورت ھوتي تھي تو اس کا سامان نھيں ليتا تھا، اسي طرح اگر کسي کے پاس کم مال ھوتا تھا اس کو بھي نھيں ليتا تھا، اور جن سے مال و دولت ليتا بھي تھا ان کے پاس کچھ چيزيں چھوڑ ديتا تھا، اسي طرح خدا کي عبادت سے بھي منھ نھيں موڑتا تھا، نماز و روزہ سے غافل نھيں تھا، فضيل کے توبہ کے سلسلہ ميں يوں رقمطرازھے:

فضيل ، ايک عورت کا عاشق تھا ليکن اس تک رسائي نہ ھوتي تھي، کبھي کبھي اس عورت کے گھر کے پاس کي ديوار کے پاس جاتا تھا اور اس کي خاطر گريہ و زاري اور نالہ و فرياد کيا کرتا تھا، ايک رات کا واقعہ ھے کہ ايک قافلہ وھاں سے گزرھا تھا اور اس قافلہ ميں ايک شخص قرآن پڑھ رھا تھا چنانچہ اس نے جب يہ آيت پڑھي:

((اٴَلَمْ يَاٴْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا اٴَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُھم لِذِکْرِ اللهِ ---))-[18]

”کيا صاحبان ايمان کے لئے ابھي وہ وقت نھيں آيا ھے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کي طرف سے نازل ھونے والے حق کے لئے نرم ھو جائيں “-

فضيل اس آيت کو سن کر ديوار سے گرپڑے اور کھا: پالنے والے! کيوں نھيں وہ وقت آگيا بلکہ اس کا وقت گزر گيا ھے، شرمندہ، پشيمان، حيران و پريشان اور گريہ و زاري کرتے ھوئے ايک ويرانہ کي طرف نکل پڑا، اس ويرانہ ميں ايک قافلہ رکا ھوا تھا، جھاں پر لوگ آپس ميں کہہ رھے تھے : چلو چلتے ھيں، سامان تيار کرو، دوسرا کھتا تھا: ابھي چلنے کا وقت نھيں ھوا ھے، کيونکہ ابھي فضيل راستہ ميں ھوگا ،وہ ھمارا

راستہ روک کر سارا مال و اسباب چھين لے گا، اس وقت فضيل نے پکارا: اے قافلہ والو! تم لوگوں کو بشارت ھے کہ اس خطرناک چور اور کم بخت راہزن نے توبہ کرلي ھے!

غرض اس نے توبہ کي اور توبہ کے بعد ان لوگوں کو تلاش کرنا شروع کيا جن کا مال چھينا يا چوري کيا تھااور ان سے معافي مانگي[19]

چنانچہ ايک مدت کے بعد وہ بھت بڑے اور حقيقي عارف بن گئے اور لوگوں کي تعليم و تربيت ميں مشغول ھوگئے جن کے حکمت آميز کلمات اب بھي تاريخ ميں موجود ھيں-

تاليف: انصاريان
ترجمه: حيدري

 

[1] سورہٴ يوسف آيت ۱۱۱-
[2] سورہٴ تحريم آيت ۱۱-
[3] کشف الغمہ:۱/۴۶۶:بحار الانوار: ۴۳ص۵۳، باب ۳، حديث ۴۸، عبارت کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ-
[4] سورہٴ فرقان آيت ۱۲-۱۳-
[5] امالي شيخ صدوق عليہ الرحمہ، ص ۳۹۷، مجلس ۶۲ حديث ۱۰؛ بحار الانوار ج ۶ص ۲۶ باب ۲۰ حديث ۲۷-
[6] خرائج:ج ۱ص۸۸، فصل من روايات الخاصة؛ بحار الانوار: ۶۵ص۲۸۲، الاخبار، حديث ۳۸-
[7] روضات الجنات : ۴ ،ص۱۰۷-
[8] روضات البيان: ۲،ص۱۷۹-
[9] روح البيان: ۲،ص ۱۸۱-
[10]روضات البيان: ۲،ص۲۲۵-
[11] روضات البيان ،ج ۲،ص ۲۳۵-
[12] کشف الغمہ،ج۲،ص ۱۹۴؛ بحار الانوار ج ۴۷ /۱۴۵، باب ۵، حديث ۱۹۹-
[13] محجة البيضاء: ۷،ص ۲۶۷، کتاب الخوف والرجاء-
[14] نور الثقلين، ج۳ ص ۲۴۹-           
[15] سورہٴ آل عمران آيت ۱۳۵-
[16] سورہٴ آل عمران آيت ۱۳۶-
[17] امالي شيخ صدوق:۴۲،مجلس ۱۱، حديث۳؛ بحار الانوار: ۶/۳ ۲۳، باب ۲۰، حديث ۲۶-
[18] سورہٴ حديد آيت ۱۶-
[19] تذکرة الاولیاء ،ص۷۹-
 

 

Read 10287 times