شورای عالی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم

Rate this item
(0 votes)

باسمہ تعالیٰ

خدا وند عالم کا فرمان ہے :'' وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ فَیَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذَلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ امَّةٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ الی رَبِّہِمْ مَرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون''سورہ انعام آیت ١٠٨۔قرآن کریم بیراہے چلنے والوں کو برا بھلا کہنے ،نفرین و لعنت کرنے کی صاف طور پرنہی کر رہا ہے جن کی وہ اللہ کے سوا(خدا سمجھ کر)عبادت کرتے ہیں ،کیونکہ یہ کام بھی اُن کے خدا وند عالم کو بے سمجھے عداوت سے برا بھلا کہہ بیٹھنے کا باعث ہوتا ہے''

اگر ہم اس آیت کے متعلق غور و فکر کریں تو اس آیت میں ایک کلی معیار بیان ہوا ہے جو کام دوسروں سے دشمنی کرنے پر ابھارے اور انھیں حرام کام انجام دینے پر تحریک کرے اس کی نہی ہوئی ہے ۔اس بنا پر اُن لوگوں پر لعنت و نفرین کرنااور انھیں برا بھلا کہنا درست کام نہیں ہے جن کا معاشرہ احترام کرتا ہے خاص طور پر اگر وہ اجتماع اور وہ لوگ الٰہی اور آسمانی دین کے رنگ میں رنگے ہوں اور اگریہ کام براہ راست یا کسی واسطہ کے ذریعہ دوسروں کا قتل ،کشت و کشتار اور اُن کی جان و مال اور عزت و آبرو کے ضا ئع و برباد ہونے کا باعث ہوتا ہو تو ظاہر و روشن ہے کہ یہ کام حرام اور شرع بیّن کے خلاف ہے اور اس کو دنیا و آخرت میں جواب دہ ہونا چا ہئے ۔اب یہ کام برا بھلا کہنا اور لعنت و نفرین تقریر کی صورت میں یا اشعار و مدح سرا ئی کے ذریعہ یا حتی غم و تعزیہ داری کے ذریعہ ہو یا تھیٹر اور حقیقی یا مجازی فضا و ما حول میں فلم میں کسی ایکشن کے ذریعہ ہو ۔اس کی ما ہیت میں کو ئی فرق نہیں ہے کہ اس کا سبب و عامل دوسروں کے قتل ،کشت و کشتار ،جان و مال اور عزت و آبرو کی توہین کا باعث ہو ۔

اس کلی مقدمہ پر تو جہ دیتے ہوئے کہ اس دنیا میں کو ئی بھی چیز مخفی نہیں رہتی ،او پر سے ڈشیں اور زمین پر امنیتی اور جا سوسی فوج ماڈرن اور سریع اجتماعی رابطے کے وسا ئل انٹرنٹ،ریڈیو ،ٹیلیویزن ،مو با ئل اور دوسرے گذارش دینے والے وسا ئل کے پیش آنے والے واقعات کو نشر کر تے ہیں ،آسما نی مذاہب کے بزرگان (بزرگوں)خاص طور پر الٰہی انبیاء ،اُن کے خلفاء اور جا نشین ، خاص طور پر اسلام کی برجستہ شخصیتیں ،ایک جملہ میں صدر اسلام کے خلفاء اور پیغمبر اسلام ۖ کی ازواج اور ان کی اولاد پرلعنت و نفرین کرنا جا ئز نہیں ہے چا ہے اس کام کا براہ راست اثر اسلامی امت میں تفرقہ اور پراکندہ ہونے کے علاوہ اسلامی ملکوں کے مختلف مقامات پر طرح طرح کے لڑا ئی جھگڑوں کا باعث ہوتا ہو اور ظاہر و واضح ہے کہ یہ کام حرام ہے ۔ائمہ ہدیٰ کی عملی سنت اور اُن کا رفتار و کردار اور خاص طور پر امیر المو منین علیہ السلام کی ذات والا صفات اس مدعا کی شا ہد ہیں ۔

کلی طورپر نعمت ونفرین اور برا بھلا کہنا کبھی بھی کسی زمانہ میں اور کسی بھی حق مطلب کو بیان کرنے کے لئے ہرگز اللہ کی تبیین کا اثر وکردار نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی رکھتی ہے۔

اس نکتہ کو بھی نظر سے دور نہیں رکھنا چاہئے کہ ایک حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق کا کام علما و دانشمندان (محققین)اور نخبہ افراد کے ذریعہ انفرادی یا اجتماعی مشکل میں علمی مدارس،یونیورسیٹیاں میں علمی آموزشی اور تحقیقی ماحول میں سیاست طلبی،گروہ بندی اور تعصب کے بغیر انجام دیاگیا انسانی علوم کے تمام موضوعات ،دینی مسائل اور عقائد میں علمی ترقیاں یادوسرے علمی موضوعات یااس ماحول کام کے مرہون منت کام کو اپنی دوستی اور دشمنی سے دور رکھا اور رکھیں گے۔

ہم امیدکرتے ہیں کہ اسلامی امت کے تمام مختلف طبقے آج کی دنیا کے زمانہ اور حالات کی معرفت رکھتے ہوئے ان مسائل پرزیادہ توجہ دیں اصول،معقول اور منطقی طورپر حرکت کریں تاکہ خداوند عالم ہماری حمایت کرے۔

محمدیزدی

رئیس شورای عالی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم 14 /2/١٣٩٢ ھ ش

Read 3200 times