ایکنا نیوز- مادّہ "غفر" کے مشتقات قرآن میں مختلف صرفی صورتوں کے ساتھ 234 بار آئے ہیں۔ ان میں سے صرف سات مقامات پر مغفرت طلب کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو 91 مرتبہ صفت "غفور"، پانچ مرتبہ صفت "غفّار" اور ایک مرتبہ وصف "غافر" کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ خطاکاروں کے ساتھ معاملے میں مغفرت کی اتنی کثرت، اللہ کی بے پایاں شفقت اور رحمت کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگرچہ مغفرت کے معنی ڈھانپنے اور چھپانے کے ہیں، لیکن اللہ کی طرف سے گناہوں کا ڈھانپ دینا، انسانی درگزر سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ اس سے کسی طور پر قابلِ قیاس بھی نہیں۔ انسان جب کسی کو معاف کرتا ہے تو صرف اس کی غلطی سے چشمپوشی کرتا ہے، لیکن گناہ کی حقیقت باقی رہتی ہے اور دل و جان پر ناپاکی اور میل کچیل کی طرح جم جاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: "رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ" (مطففین: 14) یعنی "ان کے دلوں پر ان کے اعمال نے زنگ چڑھا دیا۔
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی، گناہ کے اثرات اور اس کے نتائج کو بالکل مٹا دینے کے معنی میں ہے۔
الہٰی پردہپوشی اور غفران، مغفرت کی سب سے اعلیٰ شکل ہے جو ہمارے تصور سے بھی بڑھ کر ہے اور صرف خالقِ کائنات ہی کے شایانِ شان ہے۔ بعض حالات میں یہ پردہپوشی اس درجے تک پہنچ جاتی ہے کہ گناہ بھی نیکیوں میں بدل دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں، جنہوں نے بڑے بڑے گناہ کیے اور جو دوزخ میں دوگنے عذاب کے مستحق تھے، قرآن ارشاد فرماتا ہے کہ...
: «إِلَّا مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَ كَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا» (فرقان: ۷۰).




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
