غدیر کا انکار اور امتِ مسلمہ کی گمراہی کا نوحہ

Rate this item
(0 votes)
غدیر کا انکار اور امتِ مسلمہ کی گمراہی کا نوحہ
تاریخِ اسلام کے اوراق پر چند ایسے واقعات کا تذکرہ ملتا ہے، جن کی گونج صدیاں گزرنے کے بعد بھی ایمان والوں کے دل و دماغ میں تازگی پیدا کرتی ہے اور جن کے انکار سے نہ صرف حق کی روشنی ماند پڑتی ہے بلکہ امت گمراہی کی دھند میں بھٹکنے لگتی ہے۔ واقعۂ غدیر کا شمار سرفہرست انہی واقعات میں ہوتا ہے۔ اس واقعے کا اجمال یہ ہے کہ 18 ذی الحجہ کو رسولِ خدا (ص) نے خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لاکھوں کے مجمع میں اعلانِ ولایت فرمایا۔ یہ صرف سیاسی رہنمائی نہیں، بلکہ دین کی بقاء اور امت کی رہبری کا اعلان تھا، مگر افسوس! مسلمانوں کی اکثریت نے واقعہ غدیر کو فقط ایک تاریخی واقعہ سمجھا اور اس کی معنویت سے چشم پوشی کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ مسلمہ ایسی پستی میں جا گِری، جہاں فرقہ واریت، ظلم اور باطل پرستی نے جڑیں پکڑ لیں۔ غدیر کا انکار صرف ایک شخصیت کا انکار نہیں، بلکہ اُس الہیٰ نظامِ ہدایت کا انکار ہے، جو رسول (ص) کے بعد امت کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کے لیے معین کیا گیا تھا۔

روز غدیر تاریخِ اسلام کا وہ مقدس لمحہ ہے، جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت کا اعلان پیغمبر مکرم اسلام کی 23 سالہ زحمتوں پر بھاری ثابت ہوا۔ اس حقیقت کا اظہار خالق دو جہاں کی طرف سے نہ کنائے کی صورت میں ہوا اور نہ اشارے کی شکل میں، بلکہ نص قرآن کے ذریعے ہوا۔ فرمایا: "یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔۔"، "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔" تفسیر الکوثر کی نقل کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجۃ الحرام بروز جمعرات حجۃ الوداع 10 ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی، جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔
 
چنانچہ آپؐ نے آگے نکل جانے والوں کو جو مقام جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، واپس بلایا اور آنے والوں کا انتظار کیا اور تقریباً ایک لاکھ کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا: "ان اللّٰہ مولای و انا مولی المؤمنین و انا اولی بہم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔"، "اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔" پیغمبر اکرمؐ نے اس کو تین بار دہرایا۔ بقول امام حنابلہ احمد بن حنبل کے چار مرتبہ دہرایا۔ اس کے بعد فرمایا: "اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و اخذل من اخذلہ و ادر الحق معہ حیث دار الا فیبلغ الشاھد الغائب۔"، "اے اللہ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کو ترک کرے تو اس کو ترک کر اور حق کو وہاں پھیر دے، جہاں علی ہو۔ دیکھو جو یہاں حاضر ہیں، ان پر واجب ہے کہ وہ سب تک یہ بات پہنچا دیں۔"

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طریق سے، ابن جریر طبری نے ستر سے زائد طریق سے، علامہ جزری المقری نے 80 طریق سے، علامہ ابن عقدہ نے 105 طریق سے، علامہ ابن سعید سجستانی نے 120 طریق سے، علامہ ابو بکر جعابی نے 125 طریق سے روایت کیا ہے۔ ہمارے معاصر علامہ امینی اپنی شہرہ آفاق کتاب الغدیر جلد اول میں 110 اصحاب سے یہ روایت ثابت کرتے ہیں۔ صاحب الغدیر کی تحقیق کے مطابق درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے ۔۔موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے
1) زید بن ارقم: ان کی روایت کو امام طبری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں۔
2) ابو سعید الخدری: ان سے ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸ طبع بیروت ۱۹۹۰۔ الواحدی اسباب النزول ص ۱۰۵۔
3) عبد اللہ بن مسعود: ان سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸۔ فتح القدیر، الشوکانی ۳: ۵۷۔

4) عبد اللہ بن عباس: حافظ ابو سعید سجستانی کتاب الولایۃ میں، بدخشانی نے مفتاح النجا میں، آلوسی نے تفسیر روح المعانی ۲: ۳۴۸ میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
5) جابر بن عبداللہ انصاری: حافظ حاکم الحسکانی نے شواہد التنزیل میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
6) ابو ہریرہ: شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
7) براء بن عازب: السید علی ہمدانی نے المودۃ القربیٰ میں، السید عبد الوہاب البخاری نے اپنی تفسیر میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ اسی طرح ایک سو دس اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر جلد اول۔(الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 2، صفحہ 559) روز غدیر پیغمبر اکرم (ص)یہ فرمان کہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" فقط ایک سیاسی بیعت یا ذاتی محبت کا اظہار نہ تھا، بلکہ یہ ایک ربانی منصوبے کی تکمیل تھی۔ علیؑ کی ولایت کا اعلان، دین کی بقاء کا سامان تھا، مگر صد افسوس! بعض نادان اور مغرض افراد نے اس اعلان کو تاریخ کے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔

قارئین کرام؛ غدیر کا انکار وہ المیہ ہے، جس کی گونج ہر صدی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کی بازگشت کربلا کی صحراؤں میں سنائی دیتی ہے، جہاں پیاسے حلقوں نے حق کی گواہی دی اور اس امام کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، جس کے نانا نے غدیر میں اعلانِ ولایت فرمایا تھا۔ غدیر وہ نظریہ ہے، جو قیادت، خلافت اور روحانیت کے معیار متعین کرتا ہے۔ اس دن یہ بات واضح ہوئی کہ امامت و قیادت کسی قبائلی فخر یا دنیاوی اقتدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم، تقویٰ، عدل اور قربِ الہیٰ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔ علیؑ کی ذات، نبی کے بعد وہ واحد شخصیت تھی، جس میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی تلوار صرف معرکہ جنگ میں نہیں، بلکہ جہل، تعصب اور باطل نظریات کے خلاف بھی چمکتی تھی۔ ان کا علم صرف فتووں تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ فکری جہات کو روشن کرنے والی روشنی تھی۔

مسلمانوں کی اکثریت نے غدیر کے چراغ کو بجھا کر خود اپنے آپ کو اندھیروں کے حوالے کر دیا ہے۔ جب غدیر کو بھلا دیا تو پھر نہ عدل باقی رہا، نہ علم کی حرمت، نہ صداقت کی بقا۔ خلافت حکومت میں بدل گئی اور سیاست دین کے جسم پر مسلط ہوگئی۔ جنہوں نے اہل بیتؑ کو نظر انداز کیا، انہوں نے حقیقت میں قرآن کو بوسیدہ اور دین کو مجروح کر دیا ہے۔ جب غدیر کو دبا گیا تو طرح طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا اور امت کے جسم میں فرقہ واریت کے خنجر پیوست ہونے لگے۔ اگر امت نے غدیر کے پیغام کو سینے سے لگا لیا ہوتا تو نہ یزید جیسا فاسق برسرِ اقتدار آتا، نہ کربلا کی ہولناک داستان رقم ہوتی، نہ امت اتنی فکری اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتی۔ اہل بیتؑ کی علمی، روحانی اور اخلاقی رہنمائی اگر معاشروں کا حصہ بن جاتی تو آج امت تہذیب و تمدن کے اوج پر ہوتی۔

غدیر کی فراموشی کے اثرات صرف ماضی تک محدود نہیں۔ آج بھی ہم اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ قیادت کا تصور اب دولت، طاقت اور لسانی و نسلی وابستگیوں کے گرد گھومتا ہے۔ قومیں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں، مسالک کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ایک مخصوص ٹولہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہہ کر دین کا پرچم بلند کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ قرآن جو ہدایت کی روشن کتاب ہے، اب محض قاری کی تلاوت اور حافظ کی یادداشت تک محدود ہوچکا ہے۔ اس کی روح، اس کا پیغام اور اس کی انقلابی قوت ہماری فکری روایت سے اوجھل ہوچکی ہے۔ دین کے حقیقی نمائندے، یعنی اہل بیتؑ، اب صرف مجالس اور چند مخصوص ایام کا حصہ بن چکے ہیں، نہ کہ روزمرہ کی فکری، اخلاقی اور سیاسی زندگی کا۔ یہ روحانی زوال اسی وقت شروع ہوا، جب غدیر کے عہد کو بھلا دیا گیا۔

آج امت کو جس زوال، انتشار اور پسماندگی کا سامنا ہے، وہ اسی ایک بنیادی غلطی کا نتیجہ ہے۔ یعنی غدیر کو نظرانداز کرنے کا۔ یہ وہ بھول تھی، جس نے ہماری معنوی اساس کو کمزور کر دیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو منتشر۔ ہم نے وحدتِ اسلامی کے اس مرکز کو بھلا دیا، جو سب کے لیے سایۂ رحمت بن سکتا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر واپس آئیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو حاضر کریں۔ ہمیں غدیر کی صداؤں کو دل سے سننے کی ضرورت ہے، اس اعلانِ نبوت کو اپنانے کی ضرورت ہے، جو علیؑ کی ولایت میں مضمر ہے۔ قیادت کو دوبارہ عدل، تقویٰ، علم اور روحانیت کی بنیاد پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں سیاست کو دین کا تابع بنانا ہوگا، نہ کہ دین کو سیاست کا خادم۔

اگر آج بھی ہم غدیر کے چراغ کو اپنے دلوں میں روشن کریں تو وہ صبح ضرور طلوع ہوسکتی ہے، جس کی روشنی میں امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہو جائے، جہاں کوئی فقہی، لسانی یا جغرافیائی حد ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرے، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی رشتہ قائم ہو جائے، جو محبت، اخوت اور عدل پر مبنی ہو۔ غدیر کا پیغام ایک ازلی صدا ہے، جو صرف ایک مخصوص مکتبِ فکر یا مسلک کا اثاثہ نہیں، بلکہ ہر اُس دل کی پکار ہے، جو حق کا متلاشی، عدل کا پیاسا اور روحانیت کا طالب ہے۔ یہ وہ صدا ہے، جو تاریخ کے ہر موڑ پر مظلوم کی آہ، محروم کی پکار اور محبِ علیؑ کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتی ہے۔ غدیر ہمیں صرف علیؑ کی ولایت کا اعلان نہیں سکھاتا، بلکہ وہ طرزِ قیادت عطا کرتا ہے، جس میں خودی مٹ جاتی ہے اور خدا کا رنگ چڑھتا ہے۔ یہ پیغام، ہمیں اصولوں سے جڑے رہنے، سچائی پر استقامت اختیار کرنے اور مصلحت کے پردوں کو چاک کرکے حق کی ترجمانی کرنے کا درس دیتا ہے۔

آج، جب امتِ مسلمہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور روحانی خلا کا شکار ہے تو ہمیں اسی غدیر کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ وحدت کا خواب صرف تقاریر، قراردادوں یا جلسوں سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا، جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو غدیر کے اصولوں پر استوار نہ کریں۔ غدیر ہمیں علیؑ جیسی قیادت کی تلاش کا شعور دیتا ہے، جو محراب میں شہید ہو، مگر عدل سے پیچھے نہ ہٹے؛ جو یتیم کے آنسو کو بھی اپنی ریاست کی پالیسی کا مرکز بنائے؛ جو بیت المال کو امانت سمجھے اور اپنی تلوار صرف دشمنِ دین پر اٹھائے، نہ کہ اقتدار کے حریصوں پر۔یہ پیغام ہمیں قرآن کو صرف تلاوت سے آگے لے جا کر، اس کے فہم، تدبر اور معنوی تاثیر کو اپنانے کا کہتا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کو عبادات کی قید سے نکال کر ایک ہمہ گیر، حیات افروز نظامِ فکر میں تبدیل کریں۔ ایسا نظام جو مسجد سے عدالت، بازار سے ایوانِ حکومت اور فرد سے معاشرہ تک عدل، تقویٰ، علم اور محبت کا پرچار کرے۔

اگر ہم آج بھی غدیر کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن اور فکر کی بنیاد بنا لیں تو ایک نئی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوسکتا ہے۔ وہ صبح جس میں فرقے، قبیلے، زبانیں اور جغرافیے، وحدتِ ایمانی کے دائرے میں سمٹ جائیں گے؛ جہاں مسجدوں سے لے کر ایوانوں تک صداقت کی گونج ہوگی؛ جہاں ہر بچہ، علیؑ جیسی صداقت، فاطمہؑ جیسی عفت، حسنؑ جیسی وقار اور حسینؑ جیسی غیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے گا؛ جہاں قیادت ایک امانت ہوگی، وراثت نہیں اور جہاں امت کا ہر فرد، دین کی معنوی روشنی میں، ظلم کے اندھیروں کو چیرنے والا چراغ بن جائے گا۔ ہم سب مل کر عہد کریں کہ غدیر کو پھر سے زندہ کریں گے۔
تحریر: محمد حسن جمالی
Read 7 times