امام زین العابدین (علیہ السلام) کی 34 سالہ امامت پر ایک نظر

Rate this item
(0 votes)
امام زین العابدین (علیہ السلام) کی 34 سالہ امامت پر ایک نظر

امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام) کے یوم شہادت پر پورا عالم اسلام گہرے سوگ اور غم میں ڈوبا ہؤا ہے، یہ اس ہستی کی شہادت کا دن ہے جس نے واقعۂ کربلا کے بعد ظلم و ستم سے بھرے دور میں امامت کی بھاری ذمہ داری قبول کر لی؛ اور ایک منفرد طریقے سے تاریکیوں میں ہدایت کا چراغ روشن رکھا۔

"چیخوں کے بیچ خاموشی" یہ جملہ ان کی 34 سالہ امامت کے معمے کو بخوبی بیان کرتا ہے؛ وہ دور جس میں حضرت زین العابدین (علیہ السلام) نے نئے ذرائع اور وسائل سے عاشورا کی تحریک کو زندہ رکھا، اور اسلام و تشیّع اور تشیع کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔

10 محرم (عاشورا) سنہ 61 ہجری کو کربلا کا میدان صرف قتل گاہ نہیں تھا، بلکہ بے انتہا مظلومیت کا منظر اور آنے والوں کے لئے ایک الٰہی آزمائش بن گیا۔

امام سجاد (علیہ السلام) اس روز اگرچہ بیماری کی حالت میں تھے اور اپنے والد کی فوج کے ساتھ شامل ہونے سے قاصر تھے، لیکن آپ نے حقیقت کی بیدار آنکھیں تمام واقعات پر کھول دیں۔

آپ اس سانحے کے گواہ تھے، اپنے والد کے بے سر جسم سے لے کر خیموں میں یزیدیوں کی لگائی ہوئی آگ اور پھوپھی زینب کے آنسوؤں اور اسیری کے راستے میں بکھرے ہوئے کانٹوں تک۔

اس گہرے تجربے نے آپ کی روح کو جلا بخشی اور انہیں امامت کی بھاری ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار کیا۔ چنانچہ عاشورا کے بعد امامت آپ کے سپرد ہوئی؛ جبکہ یزیدیوں نے کربلا میں موجود تمام ہاشمی مردوں کو شہید کر دیا تھا اور آپ واحد ہاشمی مرد تھے جو بقید حیات تھے۔ یزیدی لشکر آپ کی گردن میں زنجیر ڈال کر اسیروں کے قافلے کے ساتھ شام لے گیا۔

یہ دور، ظاہری طور پر سرکاری جبر اور اہل حق کی مظلومیت کے عروج کا دور تھا  لیکن ساتھ ہی یہ حق و عدل کے لئے آواز بلند کرنے کا نقطۂ آغاز بھی تھا اور اسی نقطے پر ہی آپ کی آواز تاریخ کی بلندیوں پر گونج اٹھی۔ دربار یزید میں آپ کے زبردست خطاب نے تحریک حسینی کو ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کر دیا۔ اور حَق طَلَبی کی روح کو دلوں میں زندہ رکھا۔ آپ نے بے مثال ہمت اور فصاحت کے ساتھ اپنا تعارف کرایا، اور یزید کو ـ جو طاقت اور غرور کے نشے سے سرشار تھا ـ رسوا کر دیا۔

یہ ایک مظلومانہ امامت کا آغاز تھا جو 34 سال تک قائم رہی، جس کے ہر لمحے میں امام نے الہی حکمت و دانائی کے ساتھ کربلا کے مشن کو آگے بڑھایا۔

اگر امام حسین (علیہ السلام) خون اور قیام کے امام تھے، تو امام سجاد (علیہ السلام) آنسوؤں اور دعا کے امام تھے۔ آپ نے شدید دباؤ اور گھٹن کے دشوار دور میں اپنی عبادتوں کے ذریعے توحید اور ہدایت کی آواز بلند کی۔

روحانی جدوجہد کی یہ روش حکمرانوں کے خوف سے نہیں بلکہ الہی حکمت جنم لیتی تھی؛ کیونکہ اس وقت کا معاشرہ جہالت اور برائیوں کے اندھیرے تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اور خالص اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکا تھا۔

امام سجاد (علیہ السلام) نے اس روش سے سے روحوں کی پاکیزگی، فکری تجدید (یا فکری تعمیر نو)، اور شیعہ مکتب کے پیروکاروں کے لئے مضبوط روحانی بنیاد رکھنے کے لئے کوشاں تھے۔

صحیفۂ سجادیہ ایک الہی خزانہ اور آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے، جس کو بجا طور پر "زبور آل محمد(ص)" کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی ورثہ، راز و نیاز، اخلاق، عرفان اور حتی کہ سیاست پر مشتمل ہے۔ ان دعاؤں میں توحید، معرفت، معاشرت اور حقوق کے گہرے معارف سمیٹ لئے گئے ہیں۔

آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے "زین العابدین" کا لقب ملا لیکن یہ لقب (عبادت کرنے والوں کی زینت) محض امام کا ایک رسمی نام نہیں بلکہ یہ آپ کی سیرت اور زندگی کا آئینہ دار ہے۔ راتوں کے اندھیرے میں عبادت، طویل سجدے اور ہر حال میں دعا، اس مظلوم امام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی پیشانی پر، کثرت سجدہ سے، گُٹا پڑ گیا تھا جو خالق کائنات کے سامنے بے پناہ خضوع و انکسار کی علامت تھا۔

آپ ایسی ہستی تھے جو زمانے کے دکھوں کو ذکر الٰہی سے تسکین دیتے تھے، اور حتی کہ شدید تنہائی میں بھی اپنے رب سے اپنا تعلق منقطع نہ ہونے دیتے تھے۔ خالق کے ساتھ یہ گہرا تعلق ہی آپ کی قوت اور مصیبتوں میں سکون کا بنیادی سرچشمہ تھا۔

مروی ہے کہ آبِ وضو کے پاس جاتے تو آپ کا جسم کانپنے لگتا تھا اور چہرہ متغیر ہو جاتا۔ جب آپ سے اس کیفیت کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: "کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں؟"

یہ روحانی عظمت اور مقامِ بندگی کی گہری سمجھ بوجھ ہی طوفانوں میں آپ کے سکون کا راز تھی۔ امویوں کی تشددآمیز اور گمراہ حکمرانی کے دور میں امام سجاد (علیہ السلام) نے نہ صرف دعاؤں کے ذریعے اپنا مشن آگے بڑھایا، بلکہ ابو حمزہ ثمالی، ابوخالد کابلی، یحیی بن ام الطویل، محمد بن جبیر بن مطعم، سعید بن مسیب مخزومی، عامر بن واثله کنانی (اباالطفیل)، سعید بن جبیر کوفی اور جبیر بن مطعم جیسے ممتاز شاگردوں کی تربیت کرکے تشیّع کی علمی و فکری تحریک کی بنیاد رکھی۔ آپ کے یہ شاگرد اہل بیت (علیہم السلام) کے علم و معرفت کے مبلغ و مروج بنے، اور امام کے فکری ورثے کو اگلی نسلوں تک پہنچایا۔

امام سجاد (علیہ السلام) نے خاموش مجاہدت کے ان برسوں میں راتوں کی عبادت اور دنوں کو مفکرین کی ایک نسل کی تربیت کے بعد، بالآخر  95 ہجری میں مدینہ میں اموی بادشاہ عبدالملک بن مروان کے گماشتوں کے ہاتھوں مسموم ہوکر جام شہادت نوش کیا۔

اہل بیت (علیہ السلام) کے دشمن آپ کی خاموشی اور عبادت اور درگاہ پروردگار میں آپ کے راز و نیاز کو بھی برداشت نہ کر سکے، کیونکہ اور امام کے روحانی اثر و رسوخ سے خوفزدہ تھے اور یہ بھی جان گئے تھے کہ آپ نے اپنی دانائی سے یزید بن معاویہ کے مشن کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔

شیعیان اہل بیت(ع) کے چوتھے امام کا پیکر مبارک جنت البقیع میں مدفون ہے؛ امام حسن مجتبیٰ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) کے پہلو میں۔

آپ کا مقام تدفین کسی وقت عظیم الشان گنبد اور روشن زیارت گاہ ہوا کرتا تھا، مگر آج وہ صرف مٹی کا ایک ڈھیر ہے، بے نشان، بے چراغ اور مظلوم۔

بقیع کی تنہائی ائمۂ شیعہ (علیہم السلام) کی تنہائی کا مظہر ہے۔ آج یہ وہ مقام ہے جس کی زیارت نہ صرف خواتین کے لئے ممنوع ہے، بلکہ مردوں کو بھی محدود گھڑیوں میں، بہت سختی سے، حاضری دینے کی اجازت ہے۔

امام سجاد (علیہ السلام) نے ہمیں سکھایا کہ مشکل ترین حالات میں بھی دعا کے ذریعے بات کی جا سکتی ہے اور ایمان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے۔

آپ نے بغیر تلوار اٹھائے استقامت کا درس دیا، سپاہ و لشکرکے بغیر جدوجہد کی، اور اشک آلود لفظوں سے جہاد کیا۔

آج صحیفۂ سجادیہ نہ صرف عرفانی خلوتوں کی کتاب ہے، بلکہ اس شوریدہ دور اور جدید دور کی جاہلیت کے اندھیروں میں زندگی گذارنے کے لئے چراغ راہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مریم سادات آجودانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

Read 0 times